Friday, October 28, 2011

میاں شہباز شریف کا خطاب .........سیاسی گرواٹ میں اضافہ

میاں شہباز شریف کا خطاب .........سیاسی گرواٹ میں اضافہ
پنجاب کے پردھان منتری میاں شہباز شریف نے کل جو بھاٹی چوک میں تقریر کی -اس کو سننے کے بعد مجھے ان کی اور ان کے بھائی کی وہ ساری تقریریں یاد آگئیں جو وہ ١٩٨٨ سے لیکر ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ تک بے نظیر بھٹو کے خلاف کیا کرتے تھے-ان تقریروں میں کسی اخلاقیات اور کسی تہذیب و شاستیگی کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا-پاکستان کی تاریخ میں سیاست میں بے نظیر بھٹو نے جس قدر بد اخلاق الزامات کا سامنا کیا -وہ شائد کسی اور سیاسی عورت نے نہ کیا ہوگا-مجھے وہ دیں بھی یاد ہے جب ٨٨ کے انتخابات کے دوران ایک ہیلی کاپٹر سے ایسی بناوٹی تصویریں گرائی گئیں -جن میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کی حد کر دی گئی تھی-لکین اس کے باوجود بینظیر بھٹو نے جہموریت پسند اخلاق کا بتاؤ کرتے ہوئے -میاں برداران کو اپنے سیاسی اتحادی کا درجہ دیا-آج سیاست میں صدر مملکت آصف علی زرداری شائد وہ واحد مرد سیاست دان ہیں جن کو اخلاق کے ہر دائرہ سے باہر جا کر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے-ان کی حریف سیاسی پارٹی کے پردھان منتری نے پہلی مرتبہ وہ زبان استعمال نہیں کی -جو کل انھوں نے استعمال کی ہے-مگر صدر آصف علی زرداری نے اس کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ہے-صدر آصف علی زرداری کی یہ برداشت اور صبر تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل کرے گا-یہ صبر بے نظیر بھٹو کے بعد ان میں دیکھنے کو مل رہا ہے-آصف علی زرداری کی سیاست کی کامیابی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دوستوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے-وہ اس وقت چاروں صوبوں میں طاقت وار سیاسی دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر حکومت چلا رہے ہیں-ان کو پنجاب میں یہ کامیابی ملی ہے کہ مسلم لیگ ق جیسی جماعت ان کے ساتھ بیٹھی ہے-اس وقت سیاست میں اہم ترین مقام رکھنے والے الطاف حسین،اسفند یار والی ،چودہری شجاعت ،ان کے ساتھ بیٹھے ہیں-جب کے مولانا فضل الرحمان بھی ان سے دور نہیں ہیں-جبکہ مسلم لیگ کی سیاسی تنہائی کا عالم یہ ہے کہ اس کے ساتھ ملک کی کوئی قابل ذکر سیاسی جماعت نہیں ہے-اس کی طاقت جو کہ زیادہ تر پنجاب کے اربن مراکز میں ہے -وہاں بھی اس کی بوری میں تحریک انصاف نے سراغ کر ڈالے ہیں-تحریک انصاف اس کو لاہور ،پنڈی،فصیل آباد اور گوجرانوالہ میں جو ٹف ٹائم دے رہی ہے-اس سے مسلم لیگ کی پریشانی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ عمران خان کے جلسوں سے ایک ایک دن قبل انہی شہروں میں جلسے کر رہی ہے -جہاں عمران خان کے جلسے ہونے ہیں-مسلم لیگی گھرانوں کے بچوں کا جوک در جوک تحریک انصاف میں شامل ہونا -ایک ڈراونا خواب ہے-اسی لئے تو ان کی پارٹی کے قائد حزب اختلاف چودہری نثار علی خان نے صدر کے خلاف دھرنا دیتے ہوئے یہ الزام لگایا تھا کہ صدر زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے عمران خان کو نواز شریف کی کردار کشی کا فراز سونپ رکھا ہے-کل کی ریلی میں اگرچہ پردھان منتری نے عمران خان کا نام تو نہیں لیا -لکین جب وہ صدر زرداری کے نقاب پوشوں اور گھس پیٹھیوں کا ذکر کر رہے تھے تو ان کا اشارہ عمران خان اور تحریک انصاف کی طرف تھا-
میاں شہباز شریف پی پی پی کے کارکنوں کو آصف علی زرداری کا احتساب کرنے کا کہ رہے تھے تو مجھے یاد آ رہا تھا کہ یہ کل تک بینظیر کا احتساب کرنے کا کہا کرتے تھے -اور پی پی پی کے کار کنوں کو کہتے تھے کہ ان کی بی بی نے بھٹو کی پارٹی کا بیڑا غرق کر دیا ہے-یہ جو پی پی پی کے زندہ لیڈر کی شہید لیڈر کے نام پر مخالفت اور اس کی کردار کشی کی کوشش ہے -یہ نئی نہیں ہے-کل کو ہوسکتا ہے کہ ہم یہ تماشہ بھی دیکھ لیں کہ بلاول کی کردار کشی آصف علی زرداری کے نام پر ہو رہی ہو-
میاں شہباز شریف کو خواب دیکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا-ان کو قانون اور آئین کی خلاف ورزی سے بھی کوئی نہیں روک سکتا-وہ صدر پاکستان کو صدر نہ مانیں-ان کے بھی میاں نواز شریف یہ ٨٨ میں کر چکے ہیں-جب بے نظیر پنجاب آتی تھیں تو وہ ان کا استقبال کرنے نہیں جاتے تھے-اب بھی اس روش پر چل رہا ہے-تو کسی کو اس سے حیرت نہیں ہورہی-وہ تو مشترکہ مفادات کونسل میں جو فیصلے ہوتے ہیں -ان پر دستخط کر کے آنے کے بعد پنجاب سے بجلی اور گیس اور سی این جی کی لوڈشیڈنگ میں زیادتی کی دہائی دینے لگتے ہیں-اور انے دستخطوں سے ہونے والے فیصلے کے خلاف خود ہی لاہور کی سڑک پر نکل آتے ہیں-
شہباز شریف صاحب میرٹ اور دیانت داری کے حوالے سے بہت بات چیت کر رہے تھے-میں حیران ہوں کہ وہ پنجاب کی عوام کو کیا اندھا اور عقل سے فارغ خیال کرتے ہیں-ان کے دور میں پنجاب کے اندر امن و امان،اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ،ٹرانسپورٹ کی سہولت سمیت ان آسرے معاملات کی جو حالت ہے-جو صوبائی دائرہ کار میں آتے ہیں ان سے ان کی حکومت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے-تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ان کے خلاف جو چارج شیٹ پیش کرتے ہیں -وہ آج تک اس کا جواب نہیں دے پائے-
ایک بات طے ہے کہ مسلم لیگ کو اندازہ ہے کہ اگر ٢٠١٣ کا انتظار کیا گیا تو وہ ایدہ پانچ سال کے لئے مزید اقتدار سے باہر ہو جائے گی-اور سینٹ بھی اس کے ہاتھ سے چلی جائے گی-پھر اس دوران تحریک انصاف جیسی جماعت بھی اس کے اربن مراکز پر قبضہ جما سکتی ہے-پنجاب کا اقتدار اس کے ہاتھ سے چلا گیا تو وہ مشکل سے اپنے ساتھیوں کو جوڑ سکے گی-ابھی تک وہ مشرف کے ٨ سالہ اقتدار میں اس کی پارٹی کو پہنچنے والے نقصانات سے نہیں نکل پا رہی-گزشتہ دس سالوں میں مسلم لیگ نواز کو دیگر تین صوبوں میں اجنبیت کا سامنا رہا ہے-اب اس کو اپنے سب سے مضبوط علاقوں میں بھی مشکلات کا سامنا ہے-یہ وہ مشکل ہے جو مسلم لیگ نواز کو باہر نکلنے پر مجبور کر رہی ہے-
مسلم لیگ ٢٠١٣ میں انتخابات کا انعقاد چاہتی نہیں ہے-وہ یہ انتخابات ٢٠١٢ میں ہی چاہتی ہے-لکین اس کا جواز کیا بنتا ہے؟اب تک وہ حزب اختلاف کو اس ایک نکتہ پر اکھٹا نہیں کر سکی ہے-عمران خان تو یہ چاہتے ہیں کہ نواز اور زرداری سمیت سب پارلیمانی سیاست دان بین کر دے جائیں-ان کے ایجنڈہ کو دیکھا جائے تو وہ ایک طرف تو ایک ایسی نگران حکومت کا قیام چاہتے ہیں جو پہلے تین ماہ سخت قسم کا احتساب کرے -بنگلہ دیش کی طرح کوئی ٹیکنو کریٹس حکومت آئے-اور پھر الیکشن ہوں-یہ صورت حال تو ملک کی کسی بھی جماعت کو قبول نہیں ہے-جبکہ مسلم لیگ اگر ایک لانگ مارچ کرنے کا سوچ رہی ہے -تو پھر جواب میں حکومت اور اس کی اتحادی جماعت بھی اپنے بندوں کو باہر لیکر آئے گی-یاس صورت میں تصادم ہونا لازمی ہے-اور اس صورت میں ملک میں مارشل لاء بھی لگ سکتا ہے-یہ صورت حال مصر میں پوسٹ حسنی مبارک صورت حال سے مختلف ہو سکتی ہے-ملک کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے-ایک سندھی صدر کو بھی اگر زبردستی نکالا گیا اور ایک ایسی حکومت کو گھر بھیجا گیا -جس میں سندھ،صوبہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی اکثریتی جماعتوں کی نمائندگی تھی تو پھر اس کے خلاف جو رد عمل ہوگا -وہ شائد کسی کے قابو میں نہ آ سکے-اس مرتبہ اگر لاہور سے کسی لانگ مارچ نے اسلام آباد کا رخ کیا -تو اس کے خلاف صرف سندھ ،بلوچستان،خیبر پختون خوا ،گلگت بلتستان ،آزاد کشمیر سے رد عمل نہیں آئے گا-بلکہ یہ رد عمل سرائیکی بیلٹ سے بھی آئے گا-
مسلم لیگ نواز کو سیاست میں اسقدر تلخیوں اور اخلاقیات سے عاری روایتوں کو پھر سے زندہ نہیں کرنا چاہئے -اس کا فائدہ کسی کو بھی نہیں ہوگا-
میاں نواز شریف اور میاں شیباز شریف پر ان کے سابقہ ساتھ اب تک یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ اپنے سیاسی فریقوں کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنے کی بجائے سازشوں کے ساتھ کرتے ہیں-ان کے کل کے ساتھ چودہری شجاعت حسین کا کہنا ہے-کہ میاں برداران نے ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے ہوئے-جبکہ جسٹس (ر)شریف کے قتل کی سازش کا جو پول کھلا -اس سے بھی ان کے حرفوں کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی مخالفت میں آخری حد تک جاتے ہیں-شیباز شریف کے بیٹے میاں حمزہ شیباز شریف کا عایشہ احد کے ساتھ جو سیکنڈل آیا -وہ بھی نیک نامی کا دعوا کرنے والے پردھان منتری کے لئے ایک تازیانہ ہے-اس بے قصور عورت کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے-اس کا ازالہ کون کرے گا-
شہباز شریف کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر اگر پتھر مارنے سے باز نہیں آئے تو پھر ان پر بھی جوابی پتھر آ سکتے ہیں-لوگ ہنی بیگم،طاہرہ سید سمیت بہت سارے واقعیات بھولے نہیں ہیں-تہمینہ درانی والا معاملہ بھی سب کے علم میں ہے-اور بہت سی کہانیاں ہیں -جو اگر منظر عام پر آگئیں تو پھر کی اور نام بھی سامنے آئین گے-لوگوں کو شائد ایک اور شاہ محمد رنگیلہ کا پتہ چلے -اسی لئے کسی نے کہا تھا کہ
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ،بند قبا کو دیکھ
لیل و نہار/عامر حسینی

No comments:

Post a Comment