بدلتا ہے رنگ آسماںکیسے ،کیسے
لیل و نہار/عامر حسینی
آج کے اخبارات میں ایک خبر نمایاں طور پر شایع ہوئی ہے کہ نصیر الله بابر کا خاندان پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گیا -ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے یہ معمول کی خبر ہو -لکین میرے نزدیک یہ خبر بہت سے مطالب رکھتی ہے-نصیر الله بابر اپنی زندگی میں صدر زرداری سے اس وقت ہی ناراض ہو گئے تھے -جب وہ نائن زیرو گئے اور وہاں جا کر انھوں نے اپنی پارٹی کی حکومت کے اندر ہونے والے آپریشن پر معافی مانگ لی تھی-انھوں نے یہ معافی مانگتے ہوئے ایک لمحۂ بھی ٹھہر کر یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی کہ ان کے اس اقدام سے ان سارے لوگوں کے خوں کی ذمہ داری بی بی شہید اور نصیر الله بابر پر آ جائے گی-جناب زرداری اور ان کے ساتھیوں کا خیال یہ تھا کہ نائن زیرو جا کر معافی مانگ کر وہ شائد کراچی میں خون آشامی کو روک لیں گے -لکین سب جانتے ہیں کہ وہ کسی کو بھی روک نہیں پائے -ان کے دیرینہ ساتھ زوالفقار مرزا سمیت کئی ساتھی پی پی پی سے ناراض ہو گئے-
نصیر الله بابر کے خاندان نے پی پی پی ترک کرنے کا جو فیصلہ کیا -وہ اس بات کا مصداق بھی ہے کہ پرانے جیالے خاندانوں کی نئی نسل اب پی پی پی کو تبدیلی کی علم بردار خیال نہیں کرتی ہے-میں صرف نصیر الله بابر کے خاندان کی بات نہیں کر رہا ہوں مجھے کئی پی پی پی کے پرانے گھروں کی خبر ہے -جن کی نئی نسل پی پی پی کی موجودہ قیادت سے نالاں ہی نہیں بلکہ نفرت کرتی ہے-
میں گزشتہ عید پر اپنے ایک بزرگ ساتھی کے گھر ان سے عید ملنے گیا -یہ ٧٠ سے پی پی پی کے ساتھ چلے آ رہے ہیں-اور پی پی پی کے اندر یہ شیخ رشید جیسے نظریاتی لوگوں کے ساتھ کام کرتے آ رہے تھے-انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی اولاد پی پی پی کی سخت ناقد ہے-اور وہ عمران خان کی پارٹی میں جانے کا سوچ رہی ہے-میں نے ان سے کہا کہ آپ نے ان کو پارٹی کی نظریاتی بنیادوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا -پارٹی کی لیڈر شپ کی قربانیوں سے نہیں آگاہ کیا -تو کہنے لگے کہ وہ کتابوں میں لکھی باتوں سے زیادہ اس پر یقین کرتے ہیں جو ان کے سامنے ہو رہا ہے-ان کے نوجوان بیٹوں سے میری بات بھی ہوئی -وہ کہنے لگے کہ اس پارٹی میں قیادت اور رہبری تو زمیندار اشرافیہ یا سرمایادار اشرافیہ کے پاس ہے-آپ جس محنت کش اور کسان برداری کی قیادت کی بات کرتے ہیں -وہ تو ہمیں کہیں نظر نہیں آتی-
مجھے پیچھلے دنوں بہت سارے نوجوان ملے -ان کا یہ کہنا تھا کہ اس وقت جو سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طرح پاور اور اقتدار کا حصہ ہیں -ان کے ہاں مختلف سماجی گروہوں کی نمائندگی کے لئے جو بھی رہنما ملتے ہیں -ان سب کا تعلق یا تو جاگیر دار گھرانوں سے ہے-یا پھر ان کا تعلق سرمایادار طبقہ سے ہے-یا پھر وہ اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا یا والی کوئی عورت ہے-مجھ سے ایک لڑکی نے پوچھا کہ کیا پی پی پی میں کوئی محنت کش طبقے کی لڑکی اس مقام کے لئے کوالیفائی نہیں کرتی تھی -جس پر محترم وزیر اعظم کی بیٹی فضہ گیلانی کو فائز کیا گیا -کیا یہ جو منصب قادر گیلانی کے پاس ہے -اس پر پارٹی کا کوئی اور نوجوان پورا نہیں اترتا تھا-اسی طرح مسلم لیگ نواز کی حالت ہے-وہاں بھی بس اشرف کے بیٹے اور بیٹیاں راج کر رہی ہیں -باقی سب محنت کش طبقے کے کارکنوں کی قسمت ان کی چاکری کرنا ہے-نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بجا طور پر سوال کرتی ہیں کہ وہ اس طرح کی اشرف پرست سیاسی جماعتوں کا حصہ کیوں بن جائیں-اور صرف ان کہانیوں پر یقین کر لیں جو ان پارٹیوں میں اپنی ساری زندگی گل دینے والے بوڑھے بیان کرتے ہیں-ذرا غور کریں کہ مسلم لیگوں اور پی پی پی کے نوجوان ونگ کے اکثر صدور اور دیگر رہنما وہ ہیں جو ٤٠ کی سرحد پر ہیں اور میں پی وائی او پنجاب کے صدر کو جانتا ہوں -اس کی عمر پچاس سال سے بھی زیادہ ہوگی-
ان سیاسی پارٹیوں میں اوپر نیچے اس قدر گند میچ چکا ہے کہ کوئی بھی مخلص نوجوان جس کو موقعہ پرستی کی ہوا نہ لگی ہو -ان کی ترگ کبی نہیں جائے گا-ان سیاسی پارٹیوں کا حال یہ ہے کہ ان کی نیچے تنظیمیں سرے سے ختم ہو چکی ہیں-٧٠ اور ٨٠ کے زمانے کی فہرستیں اب تک چل رہی ہیں-ان سیاسی پارٹیوں کو ہر علاقہ کے زمیندار یا سرمایہ دار گروہ چلاتے ہیں-اور یہ برات کے ساتھ آتے ہیں اور بارات کے ساتھ چلے جاتے ہیں-
نظریات ان کے ہاں کوئی قدر نہیں رکھتے -محنت کش طبقے کے لئے ان جماعتوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے-یہ تو بس اس طبقے کے چند موقعہ پرستوں کو نوکریاں دیکر باقی سارے طبقے کے مفادات کا سودا سرمیداروں کے ساتھ کر دیتے ہیں-اس کے باوجود ان کے تکبر اور فرعونیت کا اندازہ کیا جائے کہ یہ کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو کسی کے آنے یا چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا -گویا عوام ان چند لیڈروں کے غلام ہیں جو ان کی تمام تر نا اہلی کے باوجود ان کے لئے کام کرتے رہے گے-
اس ملک کی مڈل کلاس کی نوجوان نسل اپنے رستے کا تعین کرنے میں خود کو آزاد خیال کر رہی ہے-یہی وجہ ہے کہ درمیانہ طبقے کی نئی نسل کی اکثریت پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کو مسترد کر رہی ہے-اس طبقے کی نئی نسل کا ایک بڑا حصہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف جا رہا ہے-اور یہ نئی نسل کا سیاسی طور پر ریدکلییز ہونی والی پرت کسی حد تک نچلے طبقے کے نوجوانوں کو بھی اس طرف لیجا رہی ہے-
سندھ میں کیا صورت حال بنتی ہے -اس بارے میں تو ابھی کوئی بات کرنا قبل از وقت ہے-لکین پنجاب اور خیبر پختون خا میں مڈل کلاس نوجوان کا رخ تحریک انصاف کی طرف ہے-ایسے میں محنت کش طبقے کے نوجوانوں کی رہنمائی کون کرے گا؟ان کو اپنے مفادات کے گرد متحد ہونے کا سبق کون دے گا ؟یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے-
کیوں کہ بحران کے ان دنوں میں محنت کش طبقہ اور طلبہ کی مضبوط تحریک کھڑی ہوتی ہے تو پھر اس بات کا امکان ہے کہ محنت کش طبقے کے مفادات کے گرد کوئی سیاسی پارٹی بن سکتی ہے-
سرمایہ دار طبقات تو اس وقت یا تو سنٹر لیفٹ کی پارٹی پی پی پی میں کھڑے ہیں-یا وہ قوم پرست موقف کی حامل پارٹی اے این پی میں ہیں-یا ان کی سب سے زیادہ تعداد مسلم لیگ نواز میں کھڑی ہے-پھر ان کا ایک حصہ پاکستان تحریک انصاف میں جا رہا ہے-اصلاح پسند رجحان مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ داری کی ایک پرت میں مقبول رجحان بن رہا ہے-
یہاں پر یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت سرمایہ داری کی حامی یہ سب پارٹیاں معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے سارا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہیں-نجکاری کا ڈنڈا ان سب کے نزدیک واحد حل ہے بحران سے نکلنے کا-یہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ بحران سرمایہ داری کا پیدا کردہ نہیں ہے-ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں مانتا کہ سرمایہ داری در اصل خود اپنے اندر اپنی تباہی کا سامان رکھتی ہے-
پاکستان کی اشرافیہ کی روایتی سیاسی جماعتوں کو تو ایک طرف رکھ دین -یہ جو اصلاح پسند پارٹیاں ہیں -یہ بھی بحران کو بد انتظامی کا نیتجہ خیال کرتی ہیں-بس چند لوگ بدلنے کی ضررت ہے-سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا-ان کے خیال میں ریاست اور سماج کی طبقاتی ترکیب اور اس کے معاشی اور سیاسی نظام کی طبقاتی ساخت کا کوئی کردار اس بحران میں نہیں ہے -جس کا سامنا اس وقت عوام کو کرنا پڑ رہا ہے-یہ بس نیت کے بل بوتے پر سارے مسائل کو حل کرنے پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں-
پاکستان میں سرمایہ داری کے حامی تو ابھی تک یہ بھی سمجھ نہیں پائے کہ جس بحران کو وہ سرکلر ڈیٹ کہ رہے ہیں -وہ تو بجٹ خسارہ ہے-اور یہ اس عالمی مالیاتی بحران کا شاخسانہ ہے -جس کی وجہ سے امریکہ اور یورپ میں غربت ،بھوک اور بے روزگاری نے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے-جس سرمایہ داری نے مغرب اور امریکہ کے محنت کش طبقے کو سڑکوں پر لا کر بیٹھا دیا ہے -اس کی حفاظت میں اصلاح پسند بھی کمر بستہ ہیں-
اس موقعہ پر میرے خیال میں سرمایہ داری نظام کے مخالف لوگوں کو اصلاح پسندی سمیت کسی بھی ایسے رجحان کا ساتھ دینے سے گریز کرنا چاہئے جو سرمایہ داری کو کہیں سے بھی نئی زندگی دینے کی خواہش رکھتا ہو-پاکستان میں بحران کو ابھار خیال کرنے والوں کو پھر سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے-
مجھے ڈر ہے کہ اگر سرمایہ داری کا بحران پاکستان میں اسی رفتار سے بڑھا تو اس پر قابو پانے کے لئے سرمایہ دار طبقہ فاش ازم کی طرف جا سکتا ہے-اور اس میں تحریک انصاف جیسی پارٹیاں اہم ترین کردار بھی ادا کر سکتی ہیں-
No comments:
Post a Comment