ویل ڈن تکوال کرمان اور بہت بہت بدھائی ہو
خواتین میں اس مرتبہ امن کا نوبل انعام جن تین خواتین کو ملا ہے -ان میں یمن کی خاتون تکوال کرمان بھی شامل ہے-یمن جیسے قدامت پرست سماج میں ایک خاتون کا سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنا اور قبائلی سماج میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنا بہت مشکل بات ہوتی ہے-لکین کرمان نے اس مشکل صورت حال میں یمن میں اپنے سفر کا آغاز کیا-
یمن کے لوگوں کو اس وقت بہت حیرت ہوئے تھی جب ایک خاتون جو کے سر تا پا پردہ میں ملبوس تھی چند خواتین کے ساتھ دار الحکومت کی سڑکوں پر نکل آئی-اس نے آزادی صحافت کے لئے آواز بلند کی -وہ خواتین صحافیوں کے لئے پابندیوں کے بغیر صحافت کرنے کی مانگ کر رہی تھیں-ان کا احتجاج رنگ لایا اور یمنی حکومت کسی حد تک خواتین صحافیوں کو آزادی دینے پر رضا مند ہو گئیں-
پھر اس کے بعد وہ چند نوجوانوں کے ساتھ یمنی دار الخلافہ میں سڑکوں پر نکل آئیں -اہنوں نے یمن میں آمریت کے خاتمے ،صدر کے مستعفی ہونے اور جہموریت کے قیام کا مطالبہ کر ڈالا -ان کے اس اقدام کو یمنی سماج میں حیرت سے دیکھا گیا -حکومت نے ان کو گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا -تو ایک عرصہ سے سویا ہوا یمنی سماج جاگ اٹھا -پورے یمن میں لوگ سڑکوں اور گلیوں میں نکل آئے-ان میں یمنی نوجوان عورتیں بہت زیادہ تعداد میں تھیں-اور اس طرح سے یمن میں تبدلی کی اس مہم کا آغاز ہوا جس نے مصر میں حسنی مبارک اور تنزانیہ میں زین کی آمریت کو اکھاڑ پھینکھا تھا-
کرمان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز اصلاح پارٹی سے کیا -جو کہ ایک قدامت پرست مذہبی سیاسی جماعت سمجھی جاتی تھی-اس جماعت میں مولویوں کا سخت کنٹرول تھا-جس وقت ٹکوال نے اس پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو اس کی سیاست کو پارٹی کے اندر سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا-اس نے اصلاح پارٹی کو عکسریت پسندی کی طرف لیجانے کی حمایت کرنے سے انکار کیا اور پارٹی کے اندر بھی اس حوالے سے زبردست مزاحمت کی تعمیر کی-اس نے قدامت پرستی کو مسترد کر دیا اور وہ اصلاح پارٹی کی پہلی خاتون سیسٹ دان تھی جس نے چہرہ کھول دیا -عام مخلوط جلسوں اور جلسوں سے خطاب کرنا شروع کیا-اور خانہ جنگی کے کنارے پر کھڑے ملک میں امن کے قیام کے لئے جدوجہد شروع کی-اس نے دہشت گردی اور بندوق کے زور پر سماج کو یرغمال بنانے والوں سے ہٹ کر یمنی اوم کو ایک اور رستہ دکھایا -وہ راستہ امن کا رستہ تھا-
کرمان کہتی ہے کہ وہ مارٹن لوتھر ،گاندھی اور نیلسن منڈیلہ کے سیاسی افکار نے اس کو بہت زیادہ اکسایا کہ وہ امن پسندی کے ساتھ تبدیلی لانے کی کوشش کرے-کرمان کو مغرب والے لبرل اسلام پسند خاتون سیاست دان کہتے ہیں -لکین یمنی سماج میں لوگ اسے "انقلابیوں کی ماں "کا خطاب دیتے ہیں-
کرمان یمنی سماج میں اس درمیانے طبقے کی اس پرت سے تعلق رکھتی ہے جس نے یمن میں مغرب پسند حکمران طبقہ اور لبرل لیفٹ کی موقعہ پرستیوں کا قریب سے مشاہدہ کیا اور اس کو ان جدید اسلامی تحریکوں میں ایک کسش نظر آئی-جو سرمایہ دارانہ سماج میں اصلاح پسندی کے نعرہ کے ساتھ سامنے آئیں-عرب انقلاب ایک طرح سے عرب سماج میں نئی تبدیلی کی آواز بن کر سامنے آیا ہے-اس انقلاب کو مغرب پسندوں اور ریڈکل اسلامی قدامت پرستوں کی اصطلاح میں محظ اسلام پسندی بمقابلہ لبرل ازم کی شکل میں دیکھنا غلطی ہے-یہ ایک طرح سے مذہبی سیاست کو طبقاتی بنیاد سے ہٹ کر محظ ان کے خیالات میں آنے والی تبدلیوں کو دیکھ کر یہ فرض کر لینا ہے کہ یہ جماعت اب بھی سرد جنگ کے زمانہ میں ہیں غلطی ہوگی-
کرمان جیسی خواتین نے عرب دنیا میں اسلامی تنظیموں میں جو تبدیلی پیداکی ہے وہ دراصل ان تنظیموں میں نچلے طبقات اور مڈل کلاس کی شمولیت اور ان کے دباؤ کی وجہ سے ممکن ہو پائی ہے-آج کی اصلاح پارٹی میں اگر بیک وقت کئی رجحانات نظر آتے ہیں اور کرمان ان میں سے ایک کی نمائندگی کرتی ہے -تو اس کا سبب اس تنظیم کے اندر سماج کے مختلف طبقات کے مفادات اور دباؤ ہے-
یہ بات تو اب صاف ہے کہ عرب دنیا ہو،وسط ایشیا ہو،جنوبی ایشیا ،یا فار ایسٹ ہو-وہاں الام پسند تحریکیں سرد جنگ کے زمانے کی تحریکوں سے بہت حد تک بدل گئیں ہیں-ان تحریکوں میں اب عورت کا ایشو ہو،لیبر ایشو ہو ،کپٹیل کا اشو ہو ،ملکیت کا ایشو ہو ،ان پر وہ رائے موجود نہیں ہے جو سرد جنگ کے زمانے میں ان تحریکوں کا خاصہ ہوا کرتی تھی-مصر کی اخوان ،تنزانیہ کی اسلامی پارٹی ،یمن کی اصلاح پارٹی ،انڈو نیشیا کی جماعت اسلامیہ اور ترکی اسلامی پارٹی یہ سن جدیدیت اور گلوبل کپیٹل اکانومی سے آنے والی تبدیلیوں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں-اور ان میں جدت کا رنگ نمایاں ہے-جس کو اکثر لبرلزم اور انتہا پسندی کی بحث میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے-
پاکستان میں مذہبی سیاست میں مردوں کی بالا دستی ہے-یاہم مذہبی تنظیموں میں کوئی ایک عورت بھی سیاسی طور پر اپنا قد اتنا اونچا نہ کر سکی -جس قدر تکوال کرمان نے کیا ہے-جماعت اسلامی جو خود کو مڈل ایسٹ کی مذہبی تنظیموں کے ساتھ نتھی کرتی ہے -اور اس کی تنظیم میں خواتین کی بہت زیادہ تعداد شامل ہے -وہ مڈل ایسٹ میں اپنی ہم عصر تنظیموں جیسی روشن مصال پیش نہیں کر سکی-یہاں راحیلہ قاضی ،منور حسن کی بیوی یا کوئی اور خاتون وہ ماڈل پیش نہ کر سکیں جو عرب دنیا میں اسلام پسند تنظیموں میں کام کرنے والی خواتین پیش کر رہی ہیں-
مجھے بہت رشک آیا تکوال کرمان پر جب اس نے یمنی دار الخلافہ میں اپنے خیمے کے باہر اپنے پرستاروں سے گفتگو کرتے ہوئے بلا تامل یہ کہا کہ سیاست میں اس نے اپنی رہ بنانے میں کنگ مارٹن لوتھر ،نیلسن منڈیلہ اور گاندھی کی سیاسی فکر سے رہنمائی لی-ہامرے ہاں یہ نام لینے کی ہمت کوئی مذھبی جماعت کی خاتون رہنما نہیں کر سکتی -اور گاندھی جی کا نام لینے کی ہمت تو لبرل پارٹی کی کوئی خاتون کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچتی ہے-
میں پاکستان میں تبدیلی کی سوچ رکھنے والی خواتین سے امید کرتا ہوں کہ ٹکوال کرمان جیسی خواتین سے ان کو ہمت اور جزبہ ملے گا -وہ خواتین جو لبرل ازم اور سرمایہ داری کے پرو پگنڈہ کے زیر اثر پاکستان میں سیکولر ازم اور اسلام پسندی کے جھگڑے میں خود کو مصروف رکھے ہوئی ہیں-وہ اس سٹریو ٹائپ سے باہر آ کر زیادہ معروضی بنیادوں پر تبدیلی اور آزادی کے لئے کام کریں گی-
یہ کام صرف عورتوں کے کرنے کا نہیں ہے-بلکہ اس میں مردوں کی بھی شمولیت بہت ضروری ہے-تکوال کے والد اور گھر کے دیگر مرد بھی اصلاح پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں -وہ اگر تکوال کا ساتھ نہ دیتے تو تکوال وہ سب کچھ شائد اتنی آسانی سے نہ کر پاتی جو اس نے یمنی سماج میں کر ڈالا-تبدیلی کا سفر مرد اور عورت دونوں مل کر کریں گے تو بات بنے گی-
میری تمنا ہے کہ پاکستان میں بھی عرب سپرنگ کی طرح پاکستان سپرنگ کا آغاز ہو اور کوئی خاتون اس بہار کا سبب بنے-پاکستان کی وہ خاتون امن،تبدیلی ،خوش حالی،سماجی انصاف کی علامت بن کر سامنے آئے-اسلام آباد کی سڑکوں پر وہ نوجوانوں کے ساتھ تبدیلی لانے کی طرف سفر کرے -اور یہاں بھی تکوال کرمان کا ظہور ہو-ہم بھی عالمی برادری میں سر اٹھا کر چلیں-پاکستان کا ہر چوک تحریر چوک بن جائے-اور عورتیں آزادی ،انصاف،جہموریت کے قیام ،سرمایہ داری کی آمریت کے خاتمے ،کارپوریٹ ظلم کے خلاف تحریک کی قیادت کریں-
No comments:
Post a Comment