Saturday, July 31, 2010

وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان سے گفتگو

وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان سے گفتگو

عامر حسینی





]وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان آج کل ملک بھر کی بارز کے دوروں پر نکلے ہوئے ہیں۔ ان کے ان دوروں کا بڑا شہرہ ہے۔ ایسے ہی ایک دورے کے دوران ”ہم شہری“ نے ان سے حالات حاضرہ پر ایک انٹرویو کیا ہے۔ بابر اعوان نے اس انٹرویو میں کئی انکشافات بھی کیے۔ انٹرویو کے اقتباسات قارئین کی نذر ہیں۔





ہم شہری: آپ بالعموم پاکستان بھر کی بارز کے دورے کر رہے ہیں، پنجاب آپ کا خاص ٹارگٹ ہے۔ ان دوروں پر بڑی لے دے ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قاضی انور، سابق صدر اکرم شیخ ایڈووکیٹ سمیت آپ کی وکلاء برادری کا ایک حصہ آپ پر وکلاء کو خریدنے کا الزام عائد کر رہا ہے۔ میاں نواز شریف، چوہدری نثار بھی آپ کے دوروں پر نالاں ہیں۔ آپ پر یہ بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ آپ عدلیہ کے فاضل ججز کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ ان باتوں میں کہاں تک صداقت ہے؟





بابر اعوان: سب سے پہلے تو ”ہم شہری“ کا شکریہ کہ اس نے مجھے موقع فراہم کیا کہ میں اپنا مقدمہ کھل کر عوام کی عدالت میں پیش کروں۔ جہاں تک آپ نے یہ جملہ کہا کہ پنجاب میرا ٹارگٹ ہے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ میں خود سے کسی بار میں نہیں جا رہا۔ بارز مجھے دعوت نامے ارسال کر رہی ہیں تو میں جا رہا ہوں۔ میں جس بار میں بھی گیا وہاں وکلاء کے اجتماع سے میں نے رائے مانگی کہ مجھے بارز کا دورہ کرنا چاہیے یا نہیں، تو بھاری اکثریت نے میرے دوروں کی حمایت کی۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر کسی بھی بار کے وکلاء کی اکثریت نہ چاہے تو کیا میں اس بار کا دورہ کر سکوں گا؟ کیا میں اس بار سے خطاب کر سکوں گا؟ وکلاء کا مزاج سب جانتے ہیں۔ اگر مجھے پنجاب کی بارز کا اعتماد حاصل نہ ہوتا تو میں کبھی بھی کسی بار سے خطاب نہیں کر سکتا تھا۔ میں سب سے پہلے تو وکیل ہوں، اس کے بعد میرے پاس وزارت قانون کا قلم دان ہے۔ اس وزارت سے میں وکیلوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کر سکتا ہوں تو میں وہ کیوں نہ کروں۔ میں جو گرانٹس دے رہا ہوں وہ کسی کی ذات کو نہیں دے رہا بلکہ اجتماعی اداروں کو امداد دی جا رہی ہے۔ اب میں آپ کو بتاؤں کہ میں ڈسٹرکٹ بار خانیوال گیا تو وہاں ڈسٹرکٹ بار کے صدر سید ضیا حیدر زیدی، جنرل سیکرٹری راشد محمود اور پی ایل ایف کے صدر وزیر اقبال نیازی نے مجھے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ ضلع کی اس بار میں نہ تو سائلین کے لیے شیڈ ہے، نہ مسجد ہے اور نہ ہی کیفے ہے۔ اکثر بارز میں عورتوں کے لیے کوئی ریڈنگ روم نہیں ہے۔ نوجوان وکلاء کے پاس لاء کی حوالہ بکس خاص طور پر میجر ایکٹ اور فیملی لاز مینول خریدنے کی استطاعت نہیں ہے۔ نوجوان وکلاء اگر لاء کی کتابیں نہیں پڑھیں گے تو وہ بہتر وکیل کیسے بنیں گے۔ میں اگر وکلاء کی بڑی مصیبتوں میں سے چند کو ختم کرنے کی استطاعت رکھتا ہوں تو میں ایسا کیوں نہ کروں۔ پھر محض وکلاء ہی نہیں میں نے وکلاء کے منشیوں کے حالات کار بہتر بنانے کے لیے بھی اقدامات اٹھائے ہیں۔ اگر میں نے ایسا کیا تو کیا بُرا کیا؟ اس میں وکلاء کو خریدنے اور جج صاحبان کے خلاف سازش کہاں سے آ گئی؟

ہم شہری: میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف آپ سے سخت ناراض ہیں۔ بلکہ میاں نواز شریف نے تو آپ کے خلاف پے در پے پریس کانفرنسیں کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ پنجاب حکومت گرانے کی سازش کر رہے ہیں۔ کیا ہوا کہ میاں برادران آپ سے سخت ناراض ہو گئے ہیں؟

Eبابر اعوان: وہ کسی کا شعر ہے نا کہ

Qہم عرض بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

Kوہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا





یہی معاملہ ہمارے ساتھ ہے۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف تخت لہور کے شہزادے ہیں۔ انہوں نے دروں بینی اور خود احتسابی کبھی سیکھی نہیں۔ میری غلطی فقط اتنی ہے کہ میں نے ان کو جواباً آئینہ دکھایا ہے تو وہ اس پر بُرا منا گئے ہیں۔ میاں نواز شریف وفاقی حکومت پر بہت برستے ہیں۔ انہیں اچھی حکمرانی وفاق میں نظر نہیں آتی لیکن پنجاب کی بدترین صورت حال پر ان کی نگاہ نہیں جاتی۔ مجھے پنجاب کے سینئر وزیر راجہ ریاض نے بتایا کہ سانحہ داتا دربار کے بعد بھی پنجاب کابینہ کا اجلاس نہیں بُلایا گیا۔ پنجاب کابینہ کا اجلاس نہ بلانا رول آف بزنس کی خلاف ورزی ہے۔ میں آج آپ کو بتا رہا ہوں کہ میاں برادران ہمیں کفایت شعاری کا درس دیتے نہیں تھکتے، انہیں غریب وکلاء میں امداد تقسیم کرنا بُرا لگتا ہے، انہیں ملازمین کی 50 فیصد تنخواہوں میں اضافہ بوجھ لگتا ہے لیکن ان کا اپنا طرزِ حکومت شاہانہ ہے کہ پورے سرائیکی بیلٹ کو جتنی رقم دی اس سے 20 گنا زیادہ رقم ٹھوکر نیاز بیگ سے اپنے محل تک آنے والی سڑک پر خرچ کر دی۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی حفاظت کے لیے چار ہزار سے زیادہ پولیس اور ایلیٹ فورس کے جوان تعینات ہیں، جبکہ صوبے اور دارالخلافہ میں 8 محلات کو وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ قرار دے رکھا ہے۔ جبکہ صورت حال یہ ہے کہ فیصل آباد میں ہمارے دو مسیحی بھائیوں کو ہتھکڑی لگی ہوئی کے ساتھ دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا، سانحہ گوجرہ میں مسیحی بستی نذر آتش ہوئی، ایک وکیل کے چیمبر پر بموں سے حملہ ہوا۔ لاہور میں ہونے والے خود کش حملے ہمارے سامنے ہیں۔ دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں۔ عوام کی جان و مال کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ صوبائی مشینری اور فنڈز تو شہزادوں کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ میں آپ کو بتاؤں کہ لاہور میں ان شہزادوں نے پہلے ریڑھے ٹانگے بند کیے۔ اب رکشے بند کرنا چاہتے ہیں۔ یہ غریب کا لاہور میں رہنا برداشت نہیں کرتے۔ یہ غربت کو خوشحالی اور امارت میں بدلنے کے بجائے غریب کے خاتمے کو آسان سمجھتے ہیں۔ میری یہ کڑوی سچی باتیں ہیں جن کے باعث میاں برادران کے ہاں تلخی زیادہ ہو گئی ہے۔

?ہم شہری: اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کے بل کی سمری کہاں ہے؟ آپ نے سرگودھا اور فیصل آباد میں ہائی کورٹ بینچز بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟

بابر اعوان: اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کی منظوری پارلیمنٹ کے دونوں ایوان دے چکے ہیں۔ اب اس کی سمری صدر مملکت کو بھیج دی گئی ہے، جلد ہی اس پر دستخط ہو جائیں گے۔ جہاں تک فیصل آباد اور سرگودھا ہائی کورٹ کے الگ بینچز کے قیام کا فیصلہ ہے تو ہم نے گورنر اور سینئر وزیر راجہ ریاض سے کہہ دیا ہے، وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ ان بینچز کی منظوری پنجاب کابینہ نے دینی ہے۔ جوں ہی پنجاب کابینہ اسے منظور کرے گی الگ بینچز کا قیام عمل میں آ جائے گا۔ اب گیند پنجاب حکومت کے کورٹ میں ہے۔

Oہم شہری: ملک میں ایک مرتبہ پھر جمہوریت اور پارلیمنٹ کی ناکامی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے یہاں تک کہہ دیا کہ مشرف آمریت موجودہ جمہوریت سے بہتر تھی۔ پنجاب کے اندر سرائیکی اور پوٹھوہار صوبے کی آواز اُٹھ رہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

بابر اعوان: جمہوریت اور پارلیمنٹ کی ناکامی کی باتیں وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے خیال میں یہ خناس بھرا ہوا تھا کہ 2008ء کے انتخابات کا وہ بائیکاٹ کر دیں گے تو عوام ووٹ نہیں دیں گے۔ نظام زیادہ دیر چل نہیں پائے گا لیکن 18ویں ترمیم کے پاس ہونے نے ان کی کئی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ 18ویں ترمیم کوئی عام ترمیم نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی ترمیم ہے جو 5 جولائی 1977ء سے پاکستانی سیاست کے غیر جمہوری، غیر انسانی، غیر مساوی نظام ہائے سماجی سیاست اور معاشی سیاست کے خاتمے کا اعلان کرتی ہے۔

اس نے صرف صدر اور وزیر اعظم کے اختیارات پر نظرثانی نہیں کی بلکہ اس نے دورِ آمریت کی تمام سیاسی، معاشی، قومیتی، نسلی، لسانی، مذہبی، صنفی ناانصافیوں کا ازالہ کیا ہے، اسی لیے تو اس ترمیم کے خلاف وہ لوگ سپریم کورٹ میں گئے ہیں جو جنرل ضیاالحق کے حقیقی اور معنوی بیٹے ہیں۔ یہ سب مل کر 18ویں ترمیم کا عدالتی قتل چاہتے ہیں اور عدالت کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر چلانے کے خواہاں ہیں۔ لیکن یہ سازش کامیاب نہیں ہو گی۔ جہاں تک پنجاب کی تقسیم کے مطالبات کا تعلق ہے تو میں آپ کو بتاؤں کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے ہم نے 28 سے زائد شعبے حکومت پنجاب سمیت دیگر صوبوں کو دیے ہیں۔ ہم نے این ایف سی ایوارڈ کا جو فارمولہ دیا اس کے تحت پنجاب کو جو رقوم ملی ہیں ان میں سب اضلاع اور تحصیلوں کا حصہ ہے۔ پنجاب حکومت اگر فنڈز کی تقسیم کا فارمولہ ضلع و تحصیل لیول پر آبادی، غربت، پسماندگی اور آمدنی کو بنائے تو میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب کی تقسیم کی آوازیں بند ہو جائیں گی۔ تخت لہور جب تک لاہور سے باہر مساوی بنیادوں پر فنڈز جاری نہیں کرے گا اور تحصیل لاہور کے برابر دیگر تحصیلوں کو فنڈز نہیں ملیں گے تو پھر تقسیم ہی کی آواز بلند ہو گی۔ مجھے تو ڈر ہے کہ لاہور کے، غریب اور نچلے متوسط طبقے کی آبادی والے علاقے ”شہزادوں“ کے محلات والے علاقوں سے الگ صوبے کا مطالبہ نہ کر دیں۔

بدانتظامی اور سیاسی انتقام کا حال یہ ہے کہ میں نے تین سال قبل اپنے گاؤں واقع یونین ڈھوک سہالاں میں 20 کنال زمین کا انتقال پنجاب حکومت کے نام کرایا۔ اس زمین پر ہسپتال کی عمارت تعمیر ہو گئی، مطلوبہ مشینری بھی آ گئی، لیکن تاحال یہاں ڈاکٹر تعینات نہیں ہونے دیا جا رہا۔ خادم اعلیٰ پنجاب مجھ سے دشمنی کی سزا میری یونین کونسل کے تمام لوگوں کو دے رہے ہیں۔ میں آپ کے رسالے کے ذریعے سے بھی ان سے کہتا ہوں کہ وہ میری دشمنی کی سزا میرے علاقے کے لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت سے محروم کر کے نہ دیں۔ این ایف سی ایوارڈ اور صوبائی خود مختاری کے بعد غربت، پسماندگی اور محرومی کی اصل جڑ کچھ علاقوں کا دوسرے علاقوں سے زیادہ فنڈز لے جانا ہے۔

]ہم شہری: حکومت ویج بورڈ ایوارڈ کب نافذ کرے گی؟

بابر اعوان: میں وہ وکیل ہوں جس نے ویج بورڈ ایوارڈ کے نفاذ کے لیے سپریم کورٹ میں صحافی کارکنوں کا مقدمہ پیش کیا۔ سندھ حکومت نے اس حوالے سے ایک ’سٹے‘ دیا ہوا ہے جس کو چھ ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ اس ’سٹے‘ کو ختم ہونا چاہیے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ اخباری کارکنوں کو جلد خوش خبری دے۔ بلکہ حکومت ریٹائرڈ اور بوڑھے ہو جانے والے صحافیوں کے لیے ای او بی آئی(ایمپلائز اولڈ ایچ بنفیٹس انسٹی ٹیوٹ) طرز کی سکیم لانے کا سوچ رہی ہے۔ جمہوریت پانچ سال کا سفر طے کرنے کے دوران اس ملک کے تمام مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کو قعرمذلت سے نکالے گی۔

ہم شہری: حکومت مستقبل قریب میں کون سے اہم اقدامات اٹھانے جارہی ہے؟

بابر اعوان:26 جولائی کو سینٹ کا اجلاس شروع ہورہا ہے جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ اور بے نظیر انکم سپورٹ ایکٹ منظور کیا جائے گا۔ ہم قومی اسمبلی اور سینٹ کے کل سیشن اجلاسوں کی تعداد میں اضافہ کرنے جارہے ہیں۔



تبصرہ

No comments:

Post a Comment