کالعدم تنظیمیں نہ صرف مدارس چلا رہی ہیں بلکہ وہ اپنا لٹریچر چھاپنے کے ساتھ ساتھ آزادی سے جلسے جلوس بھی کر رہی ہیں
سربراہ سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ فضل کریم سے بات چیت
عامر حسینی
صاحبزادہ فضل کریم کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ وہ معروف عالم دین مولانا سردار احمد رضوی کے صاحبزادے ہیں۔ فیصل آباد سے وہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ یہ انتخاب انہوں نے مسلم لیگ (نواز) کے ٹکٹ پر لڑا تھا۔ وہ مرکزی جمعیت العلمائے پاکستان کے صدر بھی ہیں۔ بریلوی مکتبہ فکر کی تنظیموں کے اتحاد ’سنی اتحاد کونسل‘ کے سربراہ بھی ہیں۔ گزشتہ دنوں ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے حوالے سے ان سے خصوصی بات چیت کی گئی جو قارئین کی نذر ہے۔
ہم شہری: ملک میں دہشت گردی کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ پنجاب کے مرکز لاہور میں حضرت علی عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش کا مزار بھی اس کا نشانہ بنا۔ حکومت اس کی روک تھام کیوں نہیں کر پا رہی؟
فضل کریم: میرے خیال میں دہشت گردی کے عفریت پر قابو نہ پانے کی سب سے بڑی وجہ تو حکومت کا اپنے ہی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنا ہے۔ وفاقی حکومت کا حال یہ ہے کہ اس نے مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے سیاسی رشوت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بریلوی اور شیعہ کی نسل کشی، ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اہل سنت اس ضلع میں سخت عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ لیکن وہاں کوئی کارروائی اس لیے نہیں کی جا رہی کیونکہ مولانا فضل الرحمان وفاقی حکومت کا حصہ ہیں۔ جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت بھی اس حوالے سے کچھ نہیں کر رہی۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے اندر اس وقت بھی یہ حال ہے کہ وہاں اہل سنت کے مزارات مقدسہ، جو تباہ کر دیے گئے، ان کی اب تک مرمت کا کام نہیں ہوا جبکہ جن مزارات پر قبضہ ہوا وہ قبضہ بھی واگزار نہ ہوا۔ علمائے اہل سنت و مشائخ عظام کا جو قتل ہوا اس کے ذمہ دار بھی تاحال گرفتار نہیں کیے گئے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں بریلوی اور شیعہ عوام کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی مذہبی آزادیوں پر قدغن لگا دی گئی ہے۔ یہ قدغن دہشت گردوں نے لگائی ہے اور اس صورت حال پر وفاقی اور صوبائی حکومت خاموش بیٹھی ہیں۔ دوسری بڑی اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف رائے عامہ بیدار کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے ’پنجاب علما بورڈ‘ بنایا۔ بدقسمتی سے اس بورڈ کا ممبر ایسے لوگوں کو بھی بنایا گیا جن کو جیل میں ہونا چاہیے تھا۔
ہم شہری: مثال کے طور پر کون سے لوگ؟
فضل کریم: کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی اس کی بڑی مثال ہیں۔
ہم شہری: آپ مسلم لیگ (نواز) کے ٹکٹ پر فیصل آباد سے منتخب ہوئے۔ میاں برادران کے ساتھ آپ کے گہرے روابط موجود ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (نواز) کی حکومت ہے، لیکن لگتا ہے کہ آپ پنجاب حکومت سے خاصے ناراض ہیں۔ کیا شکایات ہیں پنجاب حکومت سے آپ کو؟
فضل کریم: جب سے میاں محمد شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ہم نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ پنجاب کے اندر دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس حکمت عملی ترتیب دیں۔ ہمارا ان سے مطالبہ تھا کہ وہ پنجاب حکومت اور پنجاب کی سول ایڈمنسٹریشن کے اندر سے ایسے لوگوں کو فارغ کریں جن کے بارے میں یہ خبریں ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے ہمدرد اور حامی ہیں۔ ہم نے انہیں آگاہ کیا تھا کہ علمائے اہل سنت کو دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دینے اور اس کے خلاف جدوجہد کرنے کی وجہ سے قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ہمیں اس بات پر بھی سخت تشویش تھی کہ پنجاب کے اندر کالعدم تنظیمیں نہ صرف مدارس چلا رہی ہیں بلکہ وہ اپنا لٹریچر چھاپنے کے ساتھ ساتھ آزادی سے جلسے جلوس بھی کر رہی ہیں۔ ہمیں بجا طور پر پنجاب کے اندر کالعدم سپاہ صحابہ کے ’اہلسنت والجماعت‘ کے نام سے کام کرنے پر تشویش تھی۔ اس طرح جماعت الدعوة کو پابندی کے باوجود کام کرنے کی آزادی بھی تشویش کا باعث بن رہی تھی۔ ہمارے خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب اہل سنت کے عظیم رہنما مہتمم ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد جھنگ کے ضمنی انتخاب میں وزیر قانون نے اپنی گاڑی میں کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی کو بیٹھا کر کیمپین کی اور ان کی گاڑیاں فیصل آباد میں بارہ ربیع الاوّل کے جلوس میں فائرنگ کے لیے استعمال ہوئیں۔ ہمارے لیے یہ بڑے دُکھ اور تکلیف کی بات تھی کہ پنجاب حکومت کا وزیر قانون، جو وزیر داخلہ بھی ہے، وہ دہشت گردوں کا سرپرست بنا ہوا ہے۔ پنجاب کے اندر عوام اہلسنت میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارا پنجاب حکومت سے اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ حکومتی اور انتظامی عہدوں پر متنازعہ بلکہ ملزم لوگ فائز کیے ہوئے ہے اور ان مدارس کو سرکاری تحویل میں لیے جانے سے قاصر ہے جو کالعدم تنظیموں نے بنائے اور چلائے جا رہے ہیں۔
ہم شہری: کیا آپ ان مدارس کی نشاندہی کر سکتے ہیں؟
فضل کریم: ویسے تو پنجاب حکومت کے پاس خفیہ اداروں کی جانب سے فراہم کردہ رپورٹیں موجود ہیں، ان میں مدارس کی تفصیل موجود ہے۔ میں آپ کو فیصل آباد میں گول مسجد کے ساتھ قائم مدرسے کی مثال دوں گا۔ یہ مدرسہ سپاہ صحابہ کے سپریم کونسل کے سرپرست مرحوم ضیا القاسمی کا ہے جسے اب ان کا بیٹا زاہد القاسمی چلا رہا ہے۔ یہ وہ آدمی ہے جسے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ اس نے 12 ربیع الاوّل کے جلوس پر مسجد سے مورچہ زن ہو کر فائرنگ کی اور بعد میں کلاشنکوفوں سے لیس ہو کر جلوس بھی نکلا۔ اسی طرح جھنگ کے اندر جامعہ محمودیہ ہے جسے مولوی حق نواز جھنگوی نے قائم کیا اور یہ مدرسہ آج بھی سپاہ صحابہ کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اسی طرح کراچی کے اندر اور جنوبی پنجاب میں کئی مدارس ہیں۔ جامعہ عبداللہ بن مسعود بہاولپور میں مولانا مسعود اظہر، بانی جیش محمد، کا مدرسہ ہے۔ اس مدرسے کے بارے میں ایجنسیوں کی چونکا دینے والی رپورٹس موجود ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ آخر کون سی مجبوری ہے میاں برادران کو کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔
ہم شہری: سانحہ داتا دربار کے بعد سنی اتحاد کونسل کے وزیراعلیٰ سے مذاکرات ہوئے ہیں۔ آپ کی طرف سے 30 سے زائد مطالبات پیش ہوئے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس حوالے سے ایک کمیٹی بھی بنائی ہے۔ کیا آپ اس سے بہتری کی امید رکھتے ہیں؟
فضل کریم: دیکھئے۔ سنی اتحاد کونسل کے دو اہم اور بڑے مطالبے ہیں، اوّل وزیر قانون رانا ثنااللہ کی برطرفی کا۔ ہمیں وزارت کی تبدیلی قابل قبول نہیں ہو گی۔ دوم تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی، اور یہ کارروائی ایسی ہو کہ سب کو نظر آئے۔ اگر کالعدم تنظیموں کے لوگ آزادی کے ساتھ کام کرتے رہیں گے تو پھر ایسی پابندی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ہم جولائی کے آخری ہفتے میں ملک بھر کے علما اور مشائخ کا ایک اجلاس جامعہ حزب الاحناف لاہور، میں بلا رہے ہیں۔ اس اجلاس میں متفقہ طور پر مطالبات کا چارٹر تیار کیا جائے گا۔ ابھی پنجاب حکومت نے 100 سے زائد تنظیموں پر پابندی کے احکامات جاری کیے ہیں، ہم ان پر عمل درآمد کے منتظر ہیں لیکن اس میں ’جماعت الدعوة‘ کو شامل نہ کر کے پھر منفی سگنل دیا گیا ہے، جس پر ہمیں سخت تشویش ہیں۔
ہم شہری: وفاقی حکومت نے اس مسئلے پر قومی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ کیا سنی اتحاد کونسل اس اجلاس میں جائے گی؟
فضل کریم: بالکل۔ دعوت ملی تو ضرور جائیں گے۔ لیکن ایک بات ضرور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہم باور کرانا چاہیں گے اور وہ یہ کہ ان کانفرنسوں میں دہشت گرد اور کالعدم تنظیموں کے لوگوں کو مت بلایا جائے۔ انہیں سرکاری طور پر عزت و احترام دینے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کانفرنس بے کار ہے۔
ہم شہری: کچھ لوگ ملی یکجہتی کونسل طرز کا اتحاد تشکیل دینے کی بات کرتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملے گی؟
فضل کریم: دیکھئے! ہم صاف یہ بات کہتے ہیں کہ یہ کوئی مسالک کے درمیان جھگڑے کا معاملہ نہیں ہے۔ ایک گروہ ہے تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، جیش محمد، حرکت الجہاد الاسلامی، جماعت الفرقان، لشکر طیبہ، لشکر اسلام اس گروہ سے تعلق رکھنے والی مساجد، امام بارگاہوں، مزارات مقدسہ، پولیس، فوج، بازار، عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ سارے گروہ پاکستان کی ریاست اور اس کے عوام کے مجرم ہیں۔ ان کی فکری حمایت کرنے والے، ان کی مالی اور لاجسٹک مدد کرنے والے اور ان کو پناہ گاہیں فراہم کرنے والے سب کے سب اسلام، پاکستان اور اس کے عوام کے دشمن ہیں۔ ان سے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم تو وفاق المدارس کے سربراہ مولانا سلیم اللہ خان، جنرل سیکرٹری قاری حنیف جالندھری، دارالعلوم کراچی کے مفتی رفیع الدین، دارالعلوم جامعہ بنوریہ کراچی کے مفتی نعیم اور سابق جج شرعی عدالت نقی عثمانی سے محض اتنا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے اندر مذکورہ بالا تمام تنظیموں سے اعلان لاتعلقی کریں اور ان کے خلاف فتویٰ دیں کہ احمد لدھیانوی، قاری زاہد القاسمی، مسعود اظہر سمیت ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان سے الحاق کو ختم کریں۔ خودکش حملوں کے خلاف متفقہ فتویٰ جاری کریں۔ میں آپ کو بتلاؤں کہ جامعہ اشرفیہ میں خودکش حملوں کے خلاف متفقہ فتویٰ نہیں آیا۔ وفاق المدارس سے تعلق رکھنے والے بعض مدارس کے علما نے پاکستانی ریاست کو دارالحرب قرار دے کر اس کے خلاف لڑنے والوں کے فعل کو جہاد قرار دے دیا۔ اس کے خلاف جب وفاق المدارس کے ایک جید عالم مولانا سرفراز گھگڑوی کے صاحبزادے نصرة العلوم کے مہتمم علامہ زاہد الراشدی نے فتویٰ دیا اور دیگر علما سے رائے مانگی تو اس پر مفتی رفیع الدین عثمانی نے خاموشی اختیار کر لی، جس کا ذکر انہوں نے اپنے ماہنامے میں بھی کیا۔
یہ طرزِ عمل ہمارے تحفظات کا سبب بنتا ہے۔ ہم نے جنرل پرویز مشرف کی نام نہاد روشن خیالی کے خلاف جدوجہد کے لیے اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ قائم کیا۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی اس میں آگے آگے تھے۔ ہمارا وفاق المدارس سے ہر اجلاس میں مطالبہ ہوتا تھا کہ وہ ایسے مدارس کی رجسٹریشن منسوخ کرے جو ایک طرف کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کے تحت چل رہے ہیں اور دوسری طرف ان میں سے کئی مدارس ناجائز قبضہ کر کے بنائے گئے ہیں۔ کالعدم سپاہ صحابہ سمیت اکثر دہشت گرد تنظیمیں ہمارے مدارس اور مساجد پر قبضوں میں ملوث ہیں۔ ہم نے وفاق المدارس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان لوگوں سے علانیہ لاتعلقی کریں اور اپنے علما کو ایسے لوگوں کی سرپرستی سے منع فرمائیں لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہوا۔ یہ جو دو عملی ہے جب تک یہ ختم نہیں ہو گی اس وقت تک ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی۔
وفاق المدارس کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ اس کی بے عملی، تساہل اور ڈھیل سے ملک کا امن خراب ہو رہا ہے۔ وفاق المدارس قبائلی علاقوں، صوبہ خیبر پختونخوا، سوات اور اسلام آباد میں غازی برادران کی اسلام اور نفاذ شریعت کی آڑ میں دہشت گردی کی لہر کو روکنے اور اس پر دیوبندی اسلام کا لیبل لگانے والوں کو منع کرنے میں اگر تندہی سے کام کرتا اور پاکستان کے اندر نجی لشکر بنانے والوں کو اور غیر سرکاری طور پر اعلان جہاد کرنے والوں کے خلاف ٹھیک ٹھیک اسلامی اور شرعی رائے بیان کرتا تو پاکستان میں دہشت گردی کا کب کا خاتمہ ہو جانا تھا۔
No comments:
Post a Comment