Tuesday, July 13, 2010

پنجاب میں نیا سیاسی میدان لگنے کا امکان

پنجاب میں نیا سیاسی میدان لگنے کا امکان
پی پی پی، مسلم لیگ اتحاد پنجاب میں خطرے میں پڑگیا
عامر حسینی
18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ اب کم از کم پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں سٹریٹ پالیٹکس کی طرف جانے کا عندیہ دینا بند کر دیں گی اور ملک میں جمہوری سفر ہموار طریقے سے اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گا، لیکن اس سفر کے ہموار طریقے سے طے ہونے کے آثار افق سیاست پر نظر نہیں آتے۔ ایک طرف عدلیہ ہے جہاں 18 ویں ترمیم پر سماعت ہو رہی ہے، این آر او کیس کے عمل درآمد ہونے کی سماعت جاری ہے۔ جبکہ لاہور ہائی کورٹ صدر آصف علی زرداری کے دو عہدے رکھے جانے والا کیس سن رہی ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ محمد شریف نے گزشتہ دنوں ایک مقامی بار کی تقریب میں مسلم لیگ (نواز) کو پیپلز پارٹی سے اتحاد ختم کرنے کا مشورہ دے دیا۔ ان کے اس بیان پر پی پی پی کے پارلیمانی لیڈر برائے پنجاب راجہ ریاض نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ چیف جسٹس کے خلاف وہ جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کریں گے۔ اس بیان پر عدلیہ بحالی تحریک کے روح رواں چوہدری اعتزاز احسن ایڈووکیٹ نے بھی سخت غصے کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو سیاست کا شوق ہے تو وہ مستعفی ہو کر سیاسی پارٹی کا حصہ بن جائیں۔ اس متنازعہ تقریر میں خواجہ محمد شریف نے میاں نواز شریف کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کا بھی اعتراف کیا اور کہا کہ وہ جدہ اور لندن میں میاں نواز شریف کے مہمان بنتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحبان کے ان پر بے تحاشہ احسانات ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کو ایسی کون سی ضرورت آن پڑی تھی کہ انہوں نے مسلم لیگ (نواز) کو علانیہ سیاسی مشورے بھی دیے اور ان سے اپنے تعلقاتِ خاطر کا اظہار بھی کر دیا۔ اس سے قبل انہوں نے دوران سروس ہی جو کتاب لکھی ہے اس کے مندرجات بھی زیر بحث آ رہے ہیں۔ ان پر بعض حلقوں نے جانبداری کا جو الزام عائد کیا اب اس کو شواہد بھی مل رہے ہیں۔
خواجہ محمد شریف کی طرف سے یہ اظہار خیال ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ وکلاءکو پیسے دے کر خریدنا چاہ رہی ہے۔ میاں محمد نواز شریف نے وفاقی وزیر قانون بابر اعوان ایڈووکیٹ پر کافی الزامات لگائے اور سیکرٹری قانون کی تقرری کی مذمت کی۔ میاں نواز شریف نے حکومتی کارکردگی کو سخت الفاظ میں ہدف تنقید بنایا اور حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف بھرپور جدوجہد کا عندیہ دیا۔ میاں نواز شریف نے عدلیہ کے لیے دوبارہ سٹرکوں پر آنے کا اشارہ بھی دیا۔ مسلم لیگ (نواز) عدالتی، انتظامی اور معاشی پالیسیوں کے حوالے سے قومی اسمبلی کا ایک اجلاس بھی بلوانا چاہتی ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (نواز) کے قائد میاں محمد نواز شریف اب پارٹی کے عقابوں کے زیر اثر آ گئے ہیں، اسی لیے اب ان کی گفتگو میں جارحانہ رنگ دکھائی دے رہا ہے۔مسلم لیگ (نواز) کا جو اعلیٰ سطحی اجلاس لاہور میں منعقد ہوا اس میں پارٹی کے ہارڈ لائنرر قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف وغیرہ نے پارٹی کو میثاق جمہوریت کی رٹ لگانے سے منع کیا۔ ان کے خیال میں اب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی خیر سگالی یاترا اور زرداری صاحب کی فون ڈپلومیسی کا سرد مہری سے جواب دینا چاہیے۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ (نواز) کی جنوبی پنجاب، سندھ، خیبر پختون خوا میں انتہائی کمزور پوزیشن کا جائزہ لیا گیا۔ تفصیلی بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسلم لیگ (نواز) کے قائد میاں نواز شریف جنوبی پنجاب اور سندھ کا تفصیلی دورہ کریں گے۔ سندھ میں عوامی تحریک سندھ، سندھ ترقی پسند پارٹی، سندھ نیشنل فرنٹ کے سربراہان رسول بخش پلیجو، ڈاکٹر قادر مگسی اور ممتاز بھٹو سے سیاسی اتحاد کی بات چلانے پر غور کیا گیا۔
اسی طرح سے صوبہ خیبر پختون خوا میں پی پی پی (شیر پاؤ) کے آفتاب احمد خان شیر پاؤ کو سیاسی اتحاد میں شامل کرنے پر غور کیا گیا۔ مسلم لیگ (نواز) اپنی پارٹی کو مضبوط بنانے کے لیے مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ (ہم خیال) کی کئی شخصیات کو دوبارہ پارٹی میں شامل کرنے کو تیار ہے۔ یہ سب تیاریاں بتلاتی ہیں کہ مسلم لیگ (نواز) ایک طرف تو پارٹی بنیاد وسیع کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے اور دوسری طرف وہ حزب اختلاف کا نیا سیاسی پلیٹ فارم بنانے میں کوشاں ہے۔ مسلم لیگ (نواز) کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ سندھ، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خوا میں کسی بھی بڑی طاقتور پارلیمانی جماعت سے اتحاد بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ علاوہ ازیں متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، جمعیت العلمائے اسلام سے اس کی دوریاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب مستقبل قریب میں اتحاد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
مسلم لیگ (نواز) کی ایک بڑی پریشانی بین الصوبائی تنازعوں میں اس کی مبہم پوزیشن بھی ہے۔ وہ پنجاب میں عوامی رائے عامہ کے مطابق کالا باغ ڈیم، این ایف سی ایوارڈ، ارسا میں ہونے والا تنازعہ پر مؤقف اختیار کرتی ہے تو اسے سندھ، صوبہ خیبر پختون خوا، بلوچستان میں غیر مقبولیت کا خطرہ لاحق ہے۔ جیسے ابھی اسے مرضی کے برخلاف صوبہ پختون خوا کو مان لینے سے ہزارہ ڈویژن کے عوام کی ناراضی مول لینا پڑی ہے۔ اسی طرح کالا باغ ڈیم پر اس کا مؤقف سندھی، پشتون اور بلوچ عوام کے لیے غصہ کا باعث بنتا ہے۔ مسلم لیگ (نواز) اپنی پالیسیوں سے صوبوں کے درمیان خاصی سینڈوچ بن چکی ہے۔ اس سے مسلم لیگ کی سیاسی تنہائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پنجاب حکومت کی کمزور مالیاتی حالت، صوبہ کا ڈیفالٹ لائن پر کھڑے ہونا، غربت، بے روزگاری اور معاشی تنگ دستی نے بھی مسلم لیگ (نواز) کا مورال گرایا۔ لاہور پی پی 160 میں پاکستان تحریک انصاف کا 18 ہزار سے زائد ووٹ نکلنا ایک علامت ہے عوامی ناراضی کی۔ مسلم لیگ (نواز) اس بڑھتی ہوئی سیاسی تنہائی سے نکلنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے مسلم لیگ (نواز) جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنے کا سوچ رہی ہے، جس سے سیاسی درجہ حرارت تیز ہو گا۔ لیکن مسلم لیگ (نواز) اگر حکومت کو مدت پوری کرنے سے پہلے گرانے کی کوشش کرے گی تو اس کا اسے فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔

No comments:

Post a Comment