بیرونی مداخلت؟ پرویز مشرف پر مقدمہ اور سعودی عرب
عامر حسینی
مسلم لیگ (نواز) جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت بغاوت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہی تھی اور اس کے قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی میں پُرجوش تقاریر کر رہے تھے کہ سعودی عرب کی مداخلت نے صورت حال کو بدل دیا۔ میاں نواز شریف کے بعض ساتھی تو اتنے پُرجوش تھے کہ انہوں نے ایک اور لانگ مارچ کی دھمکی دینا شروع کر دی تھی۔ ادھر ایک ماتحت عدالت میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور ان کے بیوی بچوں کو پرویز مشرف کی طرف سے محبوس کیے جانے کے خلاف رٹ دائر ہوئی تو ایک رٹ مسلم لیگ (نواز) کے مرکزی جنرل سیکرٹری ظفر اقبال جھگڑا نے سپریم کورٹ میں دائر کی جس میں سپریم کورٹ سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرنے کا حکم صادر کرنے کی درخواست کی گئی تھی، اسی طرح ایک درخواست سبی کی عدالت میں نواب اکبر خان بگٹی کے بیٹے نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف ان کے والد کے قتل کا مقدمہ درج کیے جانے کا حکم حاصل کرنے کے لیے دائر کی جبکہ دوسری طرف پارلیمان سے باہر بیٹھی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سڑکوں پر نکلنے کی تیاری کرنے لگی تھیں تاکہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے ٹرائل کے لیے عوامی دباﺅ بڑھانے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ عوامی اور سیاسی حلقوں میں جنرل(ر) پرویز مشرف کے ٹرائل کے لیے بحث کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ میڈیا کے ایک حصے نے بھی پروان چڑھایا اور ظاہر یہ کیا جا رہا تھا کہ جنرل(ر) پرویز مشرف کا ٹرائل ملک کو درپیش تمام مسائل کا حل ثابت ہو گا۔ یہ بالکل ویسا ہی وتیرہ اختیار کیا جا رہا تھا جیسا عدلیہ کے ایشو پر کیا گیا تھا کہ چیف جسٹس کی بحالی سے ملک کے مسائل حل ہو جائیں گے۔
ابھی یہ سارا شور جاری تھا کہ آئی ایس آئی کے ایک اہم کردار اور آئی بی کے سابق سربراہ بریگیڈئیر (ر) امتیاز احمد درمیان میں کود پڑے۔ انہوں نے 88 ءسے 99 ءتک اسٹیبلشمنٹ کی دائیں بازو سے محبت کی کہانی کے چند اہم واقعات سے پردہ اٹھایا اور اپنے انداز میں ان کی تشریح کی جس کا نشانہ زیادہ تر مسلم لیگ (نواز) بنی اور عمومی طور پر اس سے دائیں بازو کی ساکھ کو نقصان پہنچا جو آج بظاہر جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا سب سے بڑا علمبردار اور اصولوں کی سیاست کا تن تنہا ستون کہلانا پسند کرتا ہے۔ اس پر متحدہ قومی موومنٹ نے، جو مسلم لیگ(نواز) کی طرف سے ہونے والے مسلسل حملوں سے کافی رنجیدہ تھی، فائدہ اٹھایا اور اسٹیبلشمنٹ اور میاں نواز شریف کے باہمی رشتوں کو خوب اچھالا۔ مسلم لیگ (نواز) نے اس ساری مہم سے بچنے کا یہ جواز ڈھونڈا کہ یہ سب کچھ جنرل(ر) پرویز مشرف کو ٹرائل سے بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت مسلم لیگ (نواز) کے سخت رویے اور مہم جویانہ کردار کو کم سے کم کرنے کی اپنے تئیں کوشش کرتی رہی ہے۔ اس نے اپنے طور پر کاوش کی ہے کہ ان شرائط کی پابندی کی جائے جن کے تحت ملک میں جمہوریت بحال ہوئی اور ملک سے فوجی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ دبئی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور فوج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان جو مذاکرات ہوئے ان میں فوج کی اعلیٰ قیادت کسی بھی معاہدے کو صرف پاکستان پیپلز پارٹی تک محدود رکھناچاہتی تھی۔ فوج کی اعلیٰ قیادت کی خواہش تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ان کے ساتھ مل کر بعد از انتخابات منظرنامے کا بھی تعین کریں اور مسلم لیگ (قائد)، ایم کیو ایم سمیت فوج کے دیگر اتحادیوں سے مل کر حکومت بنانے کا عندیہ دیں۔
فوجی قیادت مسلم لیگ (نواز) اور اس کی قیادت کو اس سارے عمل سے باہر رکھنے کی خواہاں تھی۔ یہ بات بہت ہی اہمیت کی حامل ہے کہ جنرل(ر) پرویز مشرف اور ان کے فوجی اعلیٰ افسران میں سے کوئی بھی میاں نواز شریف کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتا تھا۔ خود امریکا اور برطانیہ بھی اس حوالے سے زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے فوجی قیادت پر واضح کر دیا کہ وہ پاکستان کی تمام مقبول سیاسی قیادت کو انتخابات میں حصہ لینے اور انتخابات سے قبل ملک میں آنے کی اجازت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھائیں گی۔ انہوں نے انتخابات کے بعد کے منظر نامے کا تعین کرنے سے بھی انکار کیا اور شنید یہ ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف بعد ازاں کوئی کارروائی نہ کرنے سے اتفاق کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے فوجی قیادت سے یہ مذاکرات اپنی رفتار سے جاری تھے اور کہا جاتا ہے کہ انہی دنوں سعودی عرب کی حکومت نے برطانیہ اور امریکا کی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی اور سیاست میں شرکت کی راہ ہموار کرنے کے لیے کام کریں۔سعودی عرب کے دباﺅ کا یہ سلسلہ جاری تھا اور ادھر محترمہ بے نظیر بھٹو میاں نواز شریف پر زور دے رہی تھیں کہ وہ از خود وطن واپس جانے کا فیصلہ نہ کریں کیونکہ میاں نواز شریف وطن واپسی کا اعلان کر چکے تھے اور انہوں نے وطن واپسی کی تاریخ محترمہ بے نظیر بھٹو کی آمد سے قبل کی رکھ دی تھی۔ میاں نواز شریف کی یہ سولو فلائیٹ جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت کو مشتعل کرنے کے لیے کافی تھی۔ انہوں نے سعودی حکومت اور ان ضامنوں سے رجوع کیا جن کی مدد سے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی جلا وطنی کا معاہدہ ہو ا تھا۔ اس کے نتیجے میں سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ مکرن بن عبدالعزیز اور سابق وزیر اعظم لبنان رفیق حریری کے بیٹے سعد حریری پاکستان آئے اور انہوں نے پہلی مرتبہ وہ معاہدہ میڈیا کے سامنے پیش کیا جو جنرل(ر) پرویز مشرف اور میاں برادران کے درمیان ہوا تھا۔
اس معاہدے کے سامنے آنے کی وجہ سے بھی اس امیج کو نقصان پہنچا جو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پنجاب میں میاں نواز شریف کے ایک اصول پسند سیاست دان ہونے کے طور پر بڑی محنت سے بنا رہا تھا۔ بہر حال میاں نواز شریف پہلی مرتبہ از خود کوشش کے باعث پاکستان نہیں آ سکے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007 ءکو ملک میں واپس آئیں تو انہوں نے مسلم لیگ (نواز) سے اپنے تعلقات برقرار رکھے باوجود اس کے کہ مسلم لیگ (نواز) اے آر ڈی توڑ چکی تھی اور اے پی ڈی ایم کا حصہ بن گئی تھی اور دائیں بازو کی ان جماعتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی تھی جو پاکستان پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرف سے بحالی جمہوریت کی کوششوں کو بظاہر سبو تاژ کرنا چاہتی تھیں۔اس سے معاملات فوج اور سیاسی قوتوں کے درمیان ڈیڈلاک کی طرف جا سکتے تھے۔ تاہم محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز شریف، اسفندیار ولی، الطاف حسین سمیت تمام سیاسی رہنماوںکے آزادی سے سیاسی عمل میں حصہ لینے پر زور دیے رکھا۔ ادھر جنرل(ر) پرویز مشرف نے بھی سعودی عرب کے کئی دورے کیے اور سعودی، برطانوی اور امریکی نمائندوں کے مذاکرات بھی اس مسئلے پر شروع ہوئے۔ سعودی عرب کی کوششوں سے برطانیہ اور امریکا نے جنرل(ر) پرویز مشرف کو راضی کیا کہ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو بھی ملک واپس آنے دیا جائے۔ مبینہ طور پر ایک مرتبہ پھر سعودی عرب میاں برادران کا ضامن بنا اور یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ مسلم لیگ (نواز) جنرل(ر) پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے اور ” نئی ڈیل“ کے تحت بننے والے سیاسی سیٹ اپ میں رخنے نہیں ڈالے گی۔
شاید اسی دباﺅ کا نتیجہ تھا کہ مسلم لیگ (نواز) ایک وقت میں پی پی پی کے ساتھ مرکزی حکومت میں شریک ہونے پر بھی رضا مند ہو گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد گزرتے دنوں کے ساتھ مسلم لیگ(نواز) کے رویے میں تبدیلی کے آثار نظر آئے۔ مسلم لیگ (نواز) کی قیادت کو شاید یہ احساس ہونے لگا کہ جن شرائط پر ملک میں جمہوریت بحال ہوئی ہے اس کی پاسداری سے اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ پورے ملک میں آئندہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیت کو ممکن بنا سکے۔ مسلم لیگ (نواز) کا شاید خیال تھا کہ گھمبیر معاشی صورت حال، ججوں کا معاملہ، جنرل(ر) پرویز مشرف کے حوالے سے پنجاب میں پائے جانے والے جذبات اور زور دار میڈیا مہم کے سہارے وہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کو مڈٹرم انتخابات پر راضی کر لے گی۔ اسی لیے مسلم لیگ (نواز) اور پارلیمنٹ سے باہر بیٹھی جماعتوں اور ان کے ہم دردوں نے پورے زور و شور سے آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی کارکردگی کو دھند لانے کے ساتھ یہ کوشش بھی کی کہ کسی طرح اتحادی جماعتوں کو پی پی پی سے الگ کیا جائے لیکن جس طرح سے ججوں کا معاملہ حل ہوا اور پھر 17 ویں ترمیم پر پارلیمانی کمیٹی بنی تو اس سے مہم جوئی کے راستے رک گئے اور ایک نیا راستہ جنرل (ر) پرویز مشرف پر غداری کے مقدمے کے اندراج اور اس معاملے کو آگے چلانے کی مہم کی صورت میں نکلا جس کا آغاز ہی بڑے جارحانہ انداز میں ہوا۔ اب یہ معلوم نہیں ہے کہ مسلم لیگ (نواز) کی قیادت نے اس معاملے پر سخت رویہ اور لچک کے خاتمے پر مبنی جو پالیسی اپنائی تھی اس کے نتائج و عواقب پر بھی غور کیا تھا یا نہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کو جذباتی فیصلوں پر بہت سا نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کی برطرفی، کارگل مہم جوئی، ازخود وطن واپسی کا فیصلہ، اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے خلاف سخت رویہ، بعدازاں ان سے حلف لیے جانے کا اقدام، انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان اور پھر واپسی وغیرہ، اے پی ڈی ایم میں جانا اور واپس آنا، پرویزمشرف کے خلاف پارلیمنٹ میں قرار داد لانے کا اعلان اور پھر اس سے پھر جانا اس کی چند نمایاں مثالیں ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی شاید بار بار بھول جاتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی ملک کے اندر سیاست میں دوبارہ سے شریک کار کسی انقلاب کے باعث نہیں ہوئے بلکہ وہ مذاکرات کے ایک طویل سلسلے کے نتیجے میں ملک واپس آئے ہیں جس کی نگرانی امریکا، برطانیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ نے کی۔ اس حوالے سے ان عالمی قوتوں کی ضمانتیں موجود ہیں۔ ان کی ذات کے حوالے سے سعودی عرب ’بڑے ضامن‘ کی حیثیت سے موجود ہے۔ مسلم لیگ (نواز) نے جب یہ مہم شروع کی تو اسے سب سے پہلے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا جو اس کے لیے بڑی سبکی تھی۔ پھر سپریم کورٹ نے ظفر اقبال جھگڑا کی درخواست مسترد کر دی۔ اس کے بعد مسلم لیگ (نواز) اس کا حساب ذرائع ابلاغ کے ذریعے اور سڑکوں پر پورا کرنے کی خواہاں تھی۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی خواہش تھی کہ فوجی قیادت جنرل(ر) پرویز مشرف سے اعلان برات کرے۔ لندن میں ایک استقبالیہ میں میاں نواز شریف نے برملا فوجی قیادت کو مخاطب بھی کیا۔ اپنی پارٹی کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر مشرف کا احتساب نہیں ہو سکتا تو ہمارے سمیت سب کو استعفیٰ دے کر گھر چلنے جانا چاہیے۔ مسلم لیگ (نواز) کی قیادت کی اس پالیسی پر برطانیہ اور امریکا کو بھی تشویش ہے۔ اس حوالے سے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ اور رچرڈ ہالبروک نے مسلم لیگ کی قیادت سے رابطے اور طویل ملاقاتیں کیں۔ سعودی عرب کے پاکستان میں سفیر نے میاں نواز شریف سے ملاقات کی۔ سعودی عرب کے انٹیلی جنس چیف پاکستان کے خصوصی دورے پر آئے اور انہوں نے جہاں وزیر داخلہ رحمان ملک سے خصوصی ملاقات کی وہیںمسلم لیگ (نواز) کی قیادت کو بھی پیغامات دیے۔
ادھر جنرل (ر) پرویز مشرف بھی بہت متحرک نظر آ رہے تھے۔ لندن میں ان کے اعلیٰ حکام سے رابطوں میں تیزی آ گئی تھی۔ پاکستان سے بھی کئی سیاستدان، ریٹائرڈ بیورو کریٹس اور اعلیٰ شخصیات ان سے ملیں۔ صدر مملکت آصف علی زرداری لندن کے دورے میں وزیر اعظم گورڈن براﺅن، وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ، الطاف حسین اور دیگر کئی لوگوں سے ملے۔
ان تمام سرگرمیوں کے بعد سعودی حکمران شاہ عبداللہ نے اپنا خصوصی طیارہ لندن بھجوایا اور جنرل(ر) پرویز مشرف کواپنے پاس بلوایا۔ سعودی عرب میں جنرل(ر) پرویز مشرف کو شاہی پروٹوکول دیا گیا اور دو دن تک جنرل(ر) پرویز مشرف اور سعودی حکام کے درمیان مذکرات ہوئے۔ اسی دوران وزیر داخلہ رحمان ملک ہنگامی طور پر کسی پیشگی شیڈول کے اعلان کے بغیر سعودی عرب پہنچ گئے اور وہ بھی دو دن تک سعودی حکام سے مذاکرات کرتے رہے۔ اس حوالے سے تجزیوں، رپورٹوں اور خبروں سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ جو ڈیل جنرل(ر) پرویز مشرف اور سیاست دانوں میں ہوئی اس کا احترام کرنے کے لیے برطانیہ اور امریکا نے سعودی عرب پر کردار ادا کرنے کے لیے زور ڈالا ہے اور یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اس دوران جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے ساتھی کور کمانڈروں کا ایک اجلاس منعقد کیا ہے۔ امکان یہی ہے کہ اس اجلاس میں دیگر امور کے علاوہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے ٹرائل کے حوالے سے چلنے والی مہم پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہو گا کیونکہ اس کی زد میں خود جی ایچ کیو بھی آتا ہے۔ اوریہ بات بعیداز قیاس نہیں کہ فوج نے بھی سعودی عرب کو کوئی پیغام دیا ہو۔
سعودی عرب پاکستان کے دائیں بازو کے سیاستدانوں اور دائیں طرف رجحان رکھنے والی نوکر شاہی (فوجی اور سویلین) کے ایک حصے پر خاصا اثرو رسوخ رکھتا ہے۔ میاں نواز شریف پران کے زبردست اثرو رسوخ سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق میاں نواز شریف بھی سعودی بادشادہ عبداللہ سے ملنے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے ہی مسلم لیگ (نواز) اور اس کی قیادت کسی قدر پسپائی کے موڈ میں نظر آ رہی ہے۔ سعودی عرب کی مداخلت کا یہ کردار پہلی مرتبہ پاکستانی ریاست کے اندر نمایاں نہیں ہوا لیکن مسلم لیگ (نواز) اور جماعت اسلامی کے لوگ بڑی معصومیت اور انتہائی نرم لہجے میں سعودی عرب کو پاکستانی سیاست کے داخلی مسائل سے دور رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ یہ مطالبہ دائیں بازو نے اس وقت کبھی نہیں کیا جب مبینہ سعودی عرب مداخلت کے سبب پاکستان کے اندر فرقہ پرستوں اور بنیاد پرستوں کو امداد فراہم کی گئی یا جب جنرل (ر) پرویز مشرف سے میاں برادران کی جان بخشی اور جلاوطنی کے لیے مذاکرات کیے جا رہے تھے۔ سعودی عرب میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو وہ معاہدے یاد دلا رہا ہے جن کی وجہ سے وہ آج پاکستان میں سیاست کر رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment