Wednesday, August 26, 2015

سیکولر ازم کی جیت یا ہار


شاداب رشید معروف ادیب و صحافی ساجد رشید مرحوم کے صاحبزادے ہیں اور ساجد رشید کی وفات کے بعد ممبئی مہاراشٹر ہندوستان سے وہ ساجد رشید کی یادگار " نیا ورق " کو باقاعدگی سے نکال رہے ہیں -مرے سامنے نیا ورق کا تنتالیسیواں شمارا ہے اور شاداب نے اس رسالے میں اپنے والد کے شروع کئے ہوئے اپنے ہی منفرد سٹائل کے اداريے ( جس کو انھوں نے دستخط کا نام دیا تھا ) کو لکھا ہے اور اداريے کا عنوان ہے " سیکولرازم کی جیت یا ہار " اس اداريے میں شاداب رشید نے ہندوستان کی مخصوص فضا میں جس اہم ترین سوال کو بغیر اس سوال کے اٹھائے ڈسکس کیا ہے ، ہمارے ہاں بھی اسی سے ملتی جلتی فضا موجود ہے اور یہ سوال اس فضا کے اندر ہمیں بھی اس موضوع کو زیر بحث لانے کا موقعہ فراہم کرتا ہے مہاراشٹر میں مسلمانوں کی ایک نئی جماعت سامنے آئی ہے اور اس کا نام ہے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور یہ پارٹی اس بنیاد پر بنی کہ بھارت کو ایک تو سیکولر جماعتوں نے مسلمانوں کے لئے سازگار ملک بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا اور دوسرا بھارت میں مسلمانوں کو " ہندوتوا " کی علمبردار جماعت کے سامنے لاچار بناکر ڈال دیا گیا تو اب اس کا ایک ہی حل ہے کہ مسلمان بھارت کی روائیتی " سیکولر " پارٹیوں سے الگ ہوجائیں اور وہ اپنی پارٹی بنالیں تاکہ ان کی بقا کو لاحق خطرات میں کمی آئے شاداب رشید کو مسلم کمیونٹی کو ہندوستان میں درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کی ایک سیاسی پارٹی بنانے اور ملک بھر کی " سیکولر سیاست " اور اس سے جڑی سیاسی پارٹیوں سے الگ تھلگ ہونے کی تجویز دینے اور ایسی پارٹیوں کی حمایت کرنے والوں سے شدید اختلاف ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب کزشتہ اکتوبر میں بھائیکلہ ممبئی مہاراشٹر ہندوستان کی سیٹ پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین - آے ایم آئی ایم آئی ) کے وارث پٹھان کے جیتنے پر ان کو کسی نے وٹس ایپ پر مبارکبادک کا پیغام بھیجا تو انھوں نے پیغام بھیجنے والے کو لکھا کہ افسوس صد افسوس اس پر پیغام بھیجنے والے کو بڑی حیرانی ہوئی اور اس نے جواب لکھا کہ کس بات کا افسوس ؟ تو شاداب نے جواب میں لکھا ایم آئی ایم کے جیتنے کا تو اس دوست نے جواب دیا کہ کیا آپ کو مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے امیدوار کی جیت کی خوشی نہیں ہوئی ؟ میں تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوگیا لیکن میں جانتا تھا کہ کانگریس کا ہارنا سیکولر ازم کے لئے جتنا فائدہ مند ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان دہ ایم آئی ایم کا جیتنا ہے شاداب رشید کی دلیل یہ ہے کہ جب بھی کوئی مسلم لیڈر مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کی بات کرتا ہے ، بابری مسجد کو مہرہ بناکر ان کے جذبات بھڑکاتا ہے تب پتہ نہیں کیوں ان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس مسلم لیڈر کے پیچھے مسلمانوں کا بال ٹھاکرے بول رہا ہے جب ہم بال ٹھاکرے یا راج ٹھاکرے کی تقریر یا اس کے بھڑکاؤ بھاشن برداشت نہیں کرسکتے تو کیوں ہم ایم آئی ایم کے امیدواروں کی بے لاگ جذباتی تقریر اور ان کے اشتعال انگیز فقروں پر تالی پیٹتے ہیں ! شاداب لکھتے ہیں کہ یہ خیال آتے ہی مجھے اس سوال کا جواب سوجھ گیا اور میں نے لکھا " مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی یا ان کے جذبات سے کھیلنے والی پارٹی ! ؟ " شاداب کہتے ہیں کہ مری اس سطر پر مرے ساتھی نے خاموشی اختیار کرلی اور شاید اس سطر نے اسے بھی سوچنے کی ترغیب دی ہوگی شاداب نے اس سے آگے اپنے " اداریہ " میں مہاراشٹر میں اے آئی ایم آئی کے ابھار سمیت ہندوستان میں اقلیتوں کی اگوائی اور ان کے حقوق کے تحفظ کے نام پر بننے والی پارٹیوں کی سیاست کا جائزہ لیا ہے اور شاداب رشید کا تجزیہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کے لئے بننے والی اکثر پارٹیاں خود کو " سیکولر پارٹیاں " کہلاتی ہیں لیکن یہ ساری کی ساری پارٹیاں اپنے آخری تجزیہ میں " فرقہ پرستی " کا شکار ہوتی ہیں اور یہ مذھبی اقلیتوں کے جذبات کو مشتعل کرتی ہیں اور اکثریت کی فرقہ پرست پارٹیوں کی طرح کا کام کرتی ہیں ، شاداب کا کہنا یہ ہے کہ اگر مہاراشٹر میں پروین توگڑیا اور ورون گاندھی کی زھر افشانی غلط ہے تو اکبر الدین اویسی کی زھر افشانی کیونکر ٹھیک ہوسکتی ہے ، شاداب کہتے ہیں کہ آئی ایم آئی کے امیدوار انتخابی مہم کے دوران ہندؤں کے عقائد اور ان کی مقدس ہستیوں کے خلاف توھین آمیز تقاریر کرتے رہے اور یہ کون سا سیکولر ازم ہے شاداب نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین جیسی جماعتیں سیکولر ازم کی مثال بن سکتی ہیں ؟ شاداب اس کا جواب نفی میں دیتا ہے شاداب کے اس اہم ایشو کو اٹھانے کی اہمیت مجھے پاکستان کے اندر بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے - پاکستان کے اندر سیکولر ، لبرل رجحان کو ویسے تو ہمیشہ سے سخت ترین چیلنجز کا سامنا رہا ہے لیکن 80ء کی دھائی تک پاکستان کے اندر بسنے والی غیر مسلم اقلیتیں اور خود مسلمانوں کی جو مسلکی اقلیتیں تھیں وہ سیکولر جماعتوں کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا کرتی تھیں لیکن 90ء کے بعد ابتک صورت حال میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے ، ایک تو یہ ہے کہ پاکستان میں مذھبی اقلیتوں اور یہاں تک کہ مسلمانوں ميں جو صوفی اکثریت تھی وہ بھی بری طرح سے عدم تحفظ کا شکار ہوئی ہے اور اسے سخت ترین پرتشدد انتہائی تنگ نظر مسلم مذھبی فسطائیت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس فسطائیت سے ان کی جان ،مال ، آبرو ، عزت ، شناخت سبھی پر سخت ترین حملے ہوئے ہيں ، اس میں خاص طور پر شیعہ ، کرسچن ، ہندؤ ، احمدی اور سنّی بریلوی قابل زکر ہیں - ان کمیونٹیز پر نام نہاد " جہادی اسلام پسندوں " کی جو یلغار ہے اس کا ایک جواب تو ویسا ہی سامنے آیا ہے جیسا ہم نے ہندوستان میں مہاراشٹر سے اٹھنے والی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی شکل میں دیکھا -ہم نے پاکستان میں جب شیعہ نسل کشی میں تیزی آئی اور شیعہ کو ایک تیز ترین عسکری ، تکفیری فرقہ وارانہ جنگجوئی کا سامنا ہوا تو دیکھا کہ ایک طرف تو شیعہ کی پرانی تنظیم تحریک جعفریہ جو خود بھی 80ء کی دھائی ميں ضیاء الحق کی وہابائزیشن کے پروسس کو زبردستی نافذ کرنے کے ردعمل میں سامنے آئی تھی بے اثر سی ہونے لگی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اور ملیٹنٹ تنظیم " مجلس وحدت المسلمین " نے شیعہ اکثریت کی آبادی کے علاقوں ميں اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کردیں اور یہ پارٹی ایک طرف تو گلگت بلتستان تو دوسری طرف یہ ہزارہ ٹاؤن ، علمدار روڈ سمیت کئی ایک علاقوں ميں خود کو شیعہ کی نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنے لگی اور اس نے بھی بظاہر خود کو " غیر فرقہ پرست اسلامی انقلاب " کی علمبردار بتلایا - اسی طرح سے بریلوی حضرات نے " سنّی اتحاد کونسل " " پاکستان سنّی تحریک " سمیت کئی ایک بریلوی کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کے نام پر سیاسی جماعتیں بنائیں - اگرچہ پاکستان میں دھشت گردی کا شکار مسلم فرقوں کی جانب سے جو سیاسی جماعتیں بنائیں گی وہ اس حد تک غیر فرقہ پرستانہ ہیں کہ وہ اپنے اوپر دیوبندی - سلفی دھشت گرد تںطیموں کے حملوں اور ان کی جانب سے مساجد ، امام بارگاہوں پر حملوں کی مذمت کرتی ہیں اور وہ عقیدے کی بنیاد پر کسی کے کم از کم " قتل " کی حمائت نہیں کرتیں جبکہ ان میں سے شیعہ کی نمآئندہ ہونے کی دعوے دار جماعت " مجلس وحدت المسلمین " کم از کم بریلوی ، دیوبندی ، وہابی کی تکفیر کی قائل نہیں ہے لیکن یہ سب جماعتیں احمدیوں ، اسماعیلیوں ، پرویزیوں وغیرہ کی تکفیر کی قائل ہیں اور یہ احمدیوں سمیت پاکستان میں بسنے والے ہندؤ ، کرسچن ، احمدیوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے پر بھی متفق ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ جماعتیں پاکستان کے اندر " اسلامی نظام " لانے کی داعی بھی ہیں ، گویا ہندوستان میں مسلم جماعتیں جو منہ سے " سیکولر " ہونے کی داعی ہیں جس میں اے آئی ایم آئی ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی ہند ، جمعیت اللعمائے ہند بھی شامل ہیں اور تو اور اس میں ہندوستان کی احمد رضا بریلوی کی روائت کو فالو کرنے والی " جماعت رضائے مصطفی " بھی شامل ہے ، احمد رضا خاں بریلوی کے پوتے مولوی توقیر رضا خان بھی " سیکولر ازم " کے حامی خود کو بتلاتے ہیں لیکن یہ سب کے سب اپنے تئیں مسلم کمیونٹی کے حقوق کی سیاست کے نام پر فرقہ پرستانہ سیاست ہی کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں ، شاداب رشید نے اس حقیقت کی نشاندھی کرتے ہوئے بہت کمال کا اختتامی پیرا لکھا ہے دراصل ہمارے کچھ انتہا پسند ملّا ، پنڈت الگ الگ مسلک اور فرقوں ميں بٹ کر اپنے زاتی مفاد کے تئیں پوری قوم کے خودساختہ نمآئندے کی حثیت سے اپنی اپنی پسند کی پارٹیوں کی حمائت کا اعلان کرتے ہیں اور ہمیشہ ہی دھوکا کھانے والی ہماری بے بس و لاچار قوم ہر بار کی طرح ان انتہا پسند ملّاوئ اور پنڈتوں کی باتوں میں آکر اپنا ووٹ بھی ایسے ہی لیڈران کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے -جبتک انتہا پسند ملّا اور پنڈت ، مسلک اور فرقوں کی کالی پٹیاں عوام کی آنکھوں پر باندھے رہیں گے تب تک اتحاد کی روشنی تک پہنچنا ناممکن ہے شاداب میں اتنی ہمت اور بے باکی ہے کہ وہ ہندوستان میں " سیکولر لبادے " میں چھپے فرقہ پرست ملّاؤں اور پنڈتوں کو بے نقاب کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے بعض لبرل آئیکونز ایسے ہیں جن کے اخبارات و جرائد ایسے نام نہاد اعتدال پسند ملّاؤں کو امن کے پیامبر بتلاتے ہیں ، ان کی جماعت کی " امن کی داعی " کے طور پر پروجیکشن بھی کی جاتی ہے ہمارے سامنے " پاکستان علماء کونسل " کی مثال موجود ہے - یہ پارٹی سپاہ صحابہ پاکستان کے پرانے کیڈرز نے ملکر بنائی ہے اور اس کے موجودہ سربراہ مولوی طاہر اشرفی کو پاکستان میں کئی ایک لبرل صحافی ، تجزیہ نگار اور دانشور " امن کا داعی " بناکر پیش کرتے ہیں اور اسے ماڈریٹ مولوی بناکر بھی دکھایا جارہا ہے اور پاکستان کے کئی ایک صحافی جو خود کو بہت ہی اعتدال پسند ظاہر کرتے ہیں اس سے آگے بڑھ کر سپاہ صحابہ پاکستان کی کور پارٹی اہلسنت والجماعت کی قیادت کو اعتدال پسند قیادت بناکر پیش کرتے ہیں - حال ہی میں جب لشکر جھنگوی سربراہ ملک اسحاق اور اس کے ساتھی مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے تو پاکستان کے ایک بڑے " لبرل " جریدے " فرائیڈے ٹائمز " نے ایک مرتبہ پھر " طاہر اشرفی " کو ماڈریٹ مولوی کے طور پر پیش کیا جبکہ طاہر اشرفی کی پوزیشن سب کو معلوم ہے ، ملک اسحاق کے بارے میں اس کا موقف یہ تھا کہ ملک اسحاق سے اس کی ملاقاتیں اس کو تشدد کی راہ چھوڑ کر " اپنے مطالبات " کے لئے پرامن سیاسی جدوجہد کی راہ اختیار کرنے پر راضی کرنا تھا اور اہلسنت والجماعت کی طرح عدم تشدد پر مبنی سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنانے پر قائل کرنا تھا طاہر اشرفی کی اس دلیل کو بنیاد بناکر طاہر اشرفی کو ایکاعتدال پسند مولوی بناکر پیش کیا جاتا ہے جبکہ اس دلیل کا مدعا اور مقصد صرف یہ تھا کہ ملک اسحاق اور اس کے ساتھی شیعہ ، احمدی سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف " جنگجو " راستہ اختیار کرنے کی بجائے " محمد احمد لدھیانوی ، اورنگ زیب فاروقی " کی طرح زبانی طور پر بس یہ کہیں کہ وہ " شیعہ کو آئین ، قانون اور شرع " کی رو سے کافر قرار دینے اور ان کا سٹیٹس " احمدیوں " کے برابر لانے کی جدوجہد کریں اور اسے اعتدال پسندی سے تعبیر کیا جارہا ہے جبکہ یہی اشرفی بہت کھل کر پاکستان میں آل سعود اور ان کے ایجنڈے کے حمائتی بنکر سامنے آئے ہیں لیکن ہمارے نجم سیٹھی اور ان کے حلقہ ارادت میں شامل بہت سارے لوگ اشرفی اور ان کی جماعت کو اعتدال پسند ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے حامد میر اہلسنت والجماعت اور محمد احمد لدھیانوی کو اعتدال پسند ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اندر جتنی بھی مذھبی جماعتیں ہیں چاہے وہ غیر فرقہ پرست ہونے کا رعوی کیوں نہ کریں ان کی سیاست اول و آخر فرقہ پرستانہ ہے اور وہ سیاست سیکولر ، لبرل ، روشن خیالی ، خرد افروزی کی سیاست سے دور ہے اقلیتی مذھبی برادریوں اور دھشت گردی کی متاثرہ اور نسل کشی کا شکار شیعہ و صوفی برادریوں کے حقوق کی جنگ اور ان کو ظلم و بربریت سے بچانے کی جنگ ان مظلوم و محکوم و کچلے و پسے ہوئے فرقوں اور مسالک کے نام پر ایک اور انداز کی فرقہ پرست سیاست شروع کرنے میں نہیں ہے یا اس کا حل مذھبی پیشیوائیت کی کسی ایک پرت کو آئیڈیل بناکر پیش کرنے میں نہیں ہے اور اس سے سیکولر ، لبرل روایات کو کسی بھی طرح سے مضبوطی حاصل نہیں ہوسکتی ہمیں پاکستان میں سیکولر ، لبرل جماعتوں کے اندر فرقہ پرستوں کی حمائت ، ان کی سرپرستی کی ضرور کرنی چاہئیے اور ان سرپرستوں کو بے نقاب بھی کرنا چاہئیے لیکن سیکولر ، لبرل سیاست کا متبادل فرقہ پرست سیاست کو گلوریفائی کرنا نہیں ہونا چاہئیے پاکستان کے اندر سیکولر لبرلز کو طاہر اشرفی ، محمد احمد لدھیانوی ، سراج الحق ، امین شہیدی ، ساجد نقوی جیسے لوگوں کو " فرقہ پرست سیاست کا توڑ " کے طور پیش نہیں کرنا چاہئیے - یہ بہت بڑی فاش غلطی ہے اور اس کو دوھرانے سے بچنے کی ضرورت ہے

No comments:

Post a Comment