" فہم و دانش " کی ارتقائی منازل کا سائنسی جائزہ لینے پر یقین رکھنے والوں کا آپریشن کرنے کے دعوے دار گروپ نے کراچی کے ایک انگلش میڈیم اسکول جہاں پر " کو ایجوکیشن " رائج ہے ( کو -ایجوکیشن کا مخلوط تعلیم ترجمہ مجھے جماعتی سٹائل کا ترجمہ لگتا ہے کیونکہ اس سے " اختلاط " کا وہ مذموم معانی اکثر اخذ کرلیا جاتا ہے جو سید مودودی اور سید قطب کے اکثر ماننے والے اپنے سے اتفاق نہ کرنے والے مرد و زن کے اجتماع بارے آسانی سے اخذ کرلیتے ہیں ) میں سولہ سال کے دو " عاقل " اور " بالغ " لڑکا اور لڑکی کی محبت میں پڑنے والی مبینہ روکاٹوں سے تنگ آکر اور سماج میں گلی سڑی روائتوں سے کھڑی کی جانے والی دیواروں کو توڑنے میں ناکام ہوکر اپنی ہی زندگی کا خاتمہ کرنے زمہ دار " جدید طریقہ تعلیم " اور " کو - ایجوکیشن " کو ٹھہرا دیا ہے اور انہوں نے " کو - ایجوکیشن " کے حامیوں کو ایک ساتھ " ملحد لبرل " کا خطاب دیا ہے - یہ جو ملحد لبرل کا خطاب ہے ، یہ ایسا ہی خطاب ہے جو 80ء اور 90ء کی دھائی تک دائیں بازو کے مذھبی دھڑے ہر اس شخص کو " لادین ، ملحد ، دھریہ ، زندیق " کہہ ڈالتے تھے جو خود کو سیکولر کہتا تھا اور ستم ظریفی یہ تھی کہ " جماعت اسلامی " کے بانی " سید مودودی " اور ان کے تیار کردہ " خدائی فوجدار لکھت کاروں " کی ایک پوری پلاٹون نے جب " سیکولر " کا مطلب " لادین " کیا اور سیکولر طاقتوں کو " لادین و ملحد طاقتیں " کہنا اور لکھنا شروع کردیا تو یہی اصطلاح " دارالعلوم دیو بند " کی اس مرکزی دھار نے بھی اپنالی جس کے بطن سے " جمعیت العلمائے ہند " پھوٹی تھی اور جس کے بطن سے کبھی ہندؤ - مسلم اتحاد " کے سیکولر تصور سے " تحریک خلافت و ترک موالات " کا جنم ہوا تھا اور جس نے " پاکستان کے مطالبے " کی مخالفت اس بنیاد پر کی تھی کہ " نیشنلزم " کی بنیاد " وطن " ہوا کرتا ہے نہ کہ " مذھب " اور کوئی قوم ہو اس کی بنیاد " مذھب " نہیں ہوا کرتا بلکہ " زمین ، مشترکہ زبان و دیگر عوامل " ہوا کرتے ہیں اور اس بنیاد کو آج تک " دارالعلوم دیوبند " انڈیا میں اپنا " طرہ امتیاز " بتلاتا ہے اور دارالعلوم دیوبند کے مہتمم " مولوی ارشد مدنی " کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی بقا کا انحصار " سیکولر سیاست اور ہندوستان کے آئین کی سیکولر بنیاد پر ہے " اور سیکولر جماعتوں کی جیت ہی ہندوستان میں مسلمانوں سمیت تمام مذھبی اقلیتوں کو " ہندؤ فاشزم " سے بچاسکتی ہے " - لیکن دار العلوم دیو بند کی روائت سے خود کو جوڑنے والے پاکستان کے بڑے بڑے دیوبندی مفتیان اور بڑے قد کاٹھ کے سیاسی مولوی " سیکولر اور سیکولر ازم " کو " لادین ، ملحد - لادینیت و الحاد " کے ساتھ ترجمہ کرنے سے زرا نہیں شرماتے
کو - ایجوکیشن کو " اختلاط مرد و زن " سے تعبیر کرنے والی " ملّائیت " اور اس سے " کھلی فحاشی اور ننگے پن پر مبنی جنسیت " کے مطالب نکالنے والے " ملّائیت زدہ " لکھت کار جو مجھے " جنسی مرتاضیت " کی انتہا پر پہنچے کھڑے نظر آتے ہیں ، ایک ایسی انتہا جس پر مرض جنون کی شکل اختیار کرجاتا ہے - پاگلوں کی طرح جو منہ میں آتا ہے بکتے چلے جارہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ جو " سولہ سال " کے لڑکے اور لڑکی " تھے جنھوں نے " اپنی محبت " کا نوشتہ پڑھ کر " اپنے جیون " کا خاتمہ کرلیا ، اس کی وجہ " کو - ایجوکیشن " بنی ہے ، اس دلیل کو اصطلاحی زبان میں " قیاس مع الفارق " کہتے ہیں ، اور اسے دور کی کوڑی لانا بھی کہتے ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا کہ " اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی " اور اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ
چوراں دی پگ ساداں لالئی - چار چوفیرے پے گیا شور
چور وی آکھن ، چور او چور ، چور وی آکھن چور او چور
یعنی
خنجر پہ کوئی چھینٹ ، نہ دامن پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
" ملائیت " کم عمری کی شادی کے خلاف بننے والے صوبائی ایکٹوں کی مخالفت میں سب سے پیش پیش رہی ہے ، غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی میں اس کو سب سے زیادہ مروڑ اٹھتے رہے ہیں اور " ولی " کے بغیر اپنی پسند سے شادی کرنے والی عاقلہ ، بالغہ عورت کو ملائیت " بد کردار ، مادر پدر آزاد " " بے دین ، مرتد ، واجب القتل " قرار دینے سے بھی باز نہیں آئی اور وہ " بلوغت " کے سائنسی طبّی معانئے " میں اپنے " مناظراتی ارسطوئی استخراجی منطق " سے استخراج کردہ فرسودہ اور مردہ ہوچکے دلائل کو " مذھبی پیشوائیت " کے وینٹی لیٹر پر مصنوعی زندگی دیکر کیڑے نکالتی آئی ہے اور طبّی معائنہ کسی مظلوم کے ساتھ ہونے والی " جنسی زیادتی و درندگی " کو ثابت کردے تو بھی یہ چار انتہائی " متقی ، پرہیز گار" گواہوں کی اس " درندگی " کے اپنی آنکھوں سے " براہ راست مشاہدے " کی شرط پر اصرار کرتی ہے بصورت دیگر ملزم کو " معصوم " اور مدعیہ کو "ملزم " ٹہرا کر اس کے خلاف " قذف " کی کاروائی کی سفارش کرتی ہے
ملائیت کو " سرسید " کے علی گڑھ کالج کے قیام سے جو تکلیف شروع ہوئی تھی وہ آج تک ختم ہونے کو نہیں آئی اور تب سے لیکر ابتک یہ ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش میں بسنے والے کروڑوں " مرد و عورتوں " کو جدید تعلیم حاصل کرنے ، کو -ایجوکیشن سسٹم میں پڑھنے اور ان کی جانب سے " ملائیت کی تعبیر پردہ " کو تسلیم نہ کرنے پر ان سب کو " مادر پدر آزاد ، لادین ، بے دین ، ، بے حیا ، بے شرم ، بے غیرت ، ننگ دین و ملت " قرار دینے میں کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے
ملائیت اس قدر " چھوئی موئی " بن چکی ہے کہ کہ اس کے ایوان کبھی تو " سجاد ظہیر " کے افسانے " دلاری " سے لرزنے لگتے ہیں اور کبھی یہ " عصمت چغتائی " کے افسانے " لحاف " سے " دھڑام سے زمین بوس ہونے لگ جاتے ہیں - ایک چھوٹی سی کتاب " انگارے " چھپی تو " ملائیت " اس قدر غیظ وغضب کا شکار ہوئی کہ " سیکولر اقدار " کی پاسداری کے دعوے دار " کالونیل ماسٹرز " نے اس " کتاب " پر پابندی لگادی اور اس زمانے میں " عبدالماجد در؛یا آبادی " سمیت کئی نام تھے کہ جن کی تحریروں سے آگ برستی تھی اور تحریر پڑھ کر یہ اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ لکھتے وقت " منہ سے جھاگ " نکل رہے ہوں گے ، رال کلوں پر بہہ نکلی ہوگی اور گلے کی رگیں " تصوراتی دشمن " سے فرضی یدھ لڑتے ہوئے " پھول گئی " ہوں گی
کہا جارہا ہے کہ " کو - ایجوکیشن " نے سولہ سالہ لڑکے اور لڑکی کا جیون " ایک خط میں دفن کردیا ہے - یہ چور مچائے شور کے مصداق بات ہے - یہ خود کشی کرنے والے بچے اور بچی نے اصل میں میں تو اپنے خون سے " رجعت پسندی ، تاریک خیالی ، گلی سڑی روایتوں ، ریتوں ، رسموں اور فرسودہ خیالات " میں جکڑے سماج اور اس جکڑ بندی کو " شرعی " چادر پہنانے والی " ملّائیت " کے خلاف " فرسٹ انفارمیشن رپورٹ " درج کرائی ہے ، جس نے ان عاقل ، بالغ بچوں کو اس بات سے مایوس کردیا کہ کبھی ان کو اپنی پسند اور اپنی مرضی سے " اپنے جیون ساتھی " کے انتخاب کا حق دیا جائے گا ، ان کو بہت جلد یہ احساس ہوگیا کہ پاکستان کے سماج میں مذھب اور رسوم و رواج کے نام پر ان کو کبھی بھی " پسند کی شادی " کی اجازت نہیں ملے گی اور ان کے ایک دوسرے کو پسند کرنے کو " ناقابل معافی " جرم خیال کیا جاتا رہے گا - یہ ابھی نوجوان تھے اور ظاہر ہے کہ پاکستانی سماج میں ہر " لڑکی " صائمہ ارشد " تو نہیں ہے کہ جس کو کسی " وحید روپڑی " کے پیچھے مضبوطی سے کھڑی " ملائيت " اور مفتیان کی جباری و قہاری فوج سے بچانے کے لئے کوئی " عاصمہ جہانگیر " میدان میں اترے گی اور اس ملک کی " بڑی لبرل کمپنیاں " سب کی سب اس کی حمائت میں میدان میں اتر آئیں گی - ان بچوں کو نہ تو ان کے اسکول میں کوئی " استانی / استاد ایسا نہیں ملا ہوگا جس سے وہ " اپنی زھنی کیفیت " شئیر کرسکتے اور ہمارے سماج میں " مرد و عورت " کے تعلق اور اور ان کی پسندیدگی کا " مفہوم " جنسی مرتاضیت " کے زیر اثر ہی طے کئے جانے کی جڑیں بہت اندر تک پیوست ہیں اور جب کبھی کوئی مرد اورعورت " فطری تقاضوں " کے تحت ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور اس محبت کے رشتے کو " امر " کرنے کے لئے " رشتہ ازواج " میں بندھنے کی طرف سفر شروع کرتے ہیں تو " زات پات " ، سماج مقام و مرتبہ " سمیت کئی ایک فرسودہ گلی سڑی روایات سے ترتیب پانے والے سماجی شعور جس میں سب سے زیادہ غلبہ " جماعت اسلامی کی لکھتوں " سے پیدا ہونے والی " جنسی مرتاضیت " کا ہوتا ہے ان کے آڑے آتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس مرد و عورت کے گرد بہت سارے مرد اور بہت ساری عورتیں " غیرت کے مینارے " مذھب کے " سچے اور پکے محافظ " اور سماج کی "پگ " کو اونچا رکھنے کے دعوے داروں میں بدل جاتے ہیں اور یوں " پیار بھا دو دلوں کا جیون " اس نام نہاد " سچے دینی مذھبی غیرت مند سماجی شعور " میں دفن ہوجاتا ہے - کراچی میں کتنے ہی انگلش میڈیم اسکولز ہیں ، کتنے ہی کو - ایجوکیشن کے مراکز ہیں وہاں کتنوں نے " اپنا جیون خط میں دفن کیا " ؟ اور اس کے برعکس سندھ اور پنجاب کے دیہاتوں ، مضافاتی شہروں ، قصبوں ، گوٹھوں ، گاؤں ، دیہاتوں ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے پہاڑوں و دشت میں کتنے مرد تھے جو " کارو " قرار دیکر ماردئے گئے ؟ کتنی عورتیں تھیں جو کاری قرار دیکر جیون سے مکت ہو گئیں ؟ یہ سب کس شئے کے نام پر مارے گئے گئے ، مذھبی اقدار ، سماجی اقدار ، اخلاقیات ، بڑی ناک ، اونچے شملے اور ان سب سے تیار ہونے والی " ملائیت کے چورن " سے
ملائیت پہلے تو اپنے اندر " جنسی مرتاضیت " کے ناسور کو اکھاڑ پھینکنے کا انتظام کرے جو ہر مرد و عورت کی ستر اتارنے کے درپے رہتا ہے اور جس کو ہر مرد و عورت کی باہم ملاقات " اختلاط جنس " لگتی ہے اور وہ فوری طور پر اس ملاقات کو " مباشرت " سے جوڑنے میں مصروف ہوجاتا ہے اور اسے " اعضائے مخصوصہ " سے باہر آنے کا وقت ہی نہیں ملتا - اپنا ذھنی معائنہ کرنے کی بجائے وہ دوسروں پر " تعزیر " اور کبھی " حد " جاری کرنے کے فتوے جاری کرنے سے باز نہیں آتا - ایسے لوگ خود کو قضاۃ پر فائز کرلیتے ہیں جن کی جگہ " فونٹین " لاہور یا گدو حیدر آباد کے ایک معروف مرکز میں بنتی ہے
No comments:
Post a Comment