Saturday, August 1, 2015

سیلاب ، انکوائری کمیشن کی رپورٹ ۔۔۔۔۔۔۔ سیلاب بلا سے بے پروا نوکر شاہی


23 جولائی کی شام جب وزیرا‏عظم پاکستان میاں محمد نواز شریف انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے شواہد کا جائزہ لینے والے انکوائری کمیشن کی آنے والی رپورٹ پر قوم سے خطاب کررہے تھے تو اس وقت روزنامہ خبریں ملتان کی 24 جولائی 2015ء کی شایع ہونے والی خبر کے مطابق ان کی انسپکشن ٹیم تونسہ بیراج ، عباس والہ بند سمیت ان علاقوں کا جائزہ لے رہی تھی جہاں سیلابی پانی آچکا تھا یا جہاں بند ٹوٹنے کا خطرہ موجود تھا ، جبکہ اس سے ایک روز پہلے جکھڑ امام شاہ ڈیرہ غازی خان بند میں شگاف پڑچکا تھا اور ہمارے چیف منسٹر شہباز شریف کے بقول وہ لندن سے اپنا علاج چھوڑکر وہاں آگئے تھے ، ایک انگریزی روزنامے کے انتہائی سئنیر رپورٹر کی خبر کے مطابق جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ جیسے ہی وزیراعظم کو موصول ہوئی تو وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں حکومتی وزراء اور مسلم لیگ نواز کے کے قائدین اکٹھے ہوئے اور 6 گھنٹے یہ اجلاس جاری رہا لیکن اس اجلاس میں کسی ایک کی جانب سے بھی متاثرین سیلاب کی حالت زار اور افسر شاہی کی روائتی سستی اور غفلت کے بارے میں سوال نہیں اٹھایا گیا چیف منسٹر شہباز شریف نوکر شاہی کی جھرمٹ میں جھکڑامام شاہ بند کا معانہ کرنے پہنچے اور اس دوران یہ موسم تھا جس نے ان کو 7 گھنٹے ملتان میں قیام کرنے پر مجبور کردیا اور اس دوران بھی ان سے عام آدمی تو مل ہی نہيں سکا ، اخبارات ، الیکٹرانک میڈیا ان کے دورے کے دوران بار بار خالی نمائشی کیمپ دکھا رہا تھا اور روزنامہ خبریں ملتان کی ہی ایک خبر ضلع مظفر گڑھ میں صوبائی وزراء ڈاکٹر فرخ جاوید ، ملک اقبال چنڑ اور صوبائی سیکرٹر افتخار علی سہو کے دورے بارے شایع ہوئی ، جس میں وزراء نے کہا کہ سیلاب کے متاثرین کے لئے ریلیف کیمپ قائم کیا گیا لیکن اس میں متاثرین آئے ہی نہیں جبکہ اس کے اوپر ہی ایک خبر موجود ہے کہ جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ، متاثرین بدستور امداد کے منتظر روزنامہ خبریں کی انسپکشن ٹیم کے مطابق 2010ء میں سیلاب نے جنوبی پنجاب میں جو تباہی مچائی تھی ، اس کو دیکھتے ہوئے جن حفاظتی اقدامات کی پیشگی تیاری کی جانی چاہئے تھی ، وہ افسر شاہی نے نہیں کی ، مبینہ طور پر کروڑوں کے فنڈ ڈکار لئے گئے ، ڈی سی او ملتان کے حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی کہ انھوں نے ملتان ریجن مین نچلے درجے کا سیلاب ماننے سے بھی انکار کرڈالا ، تونسہ بیراج پر جو غیر قانونی شکار گاہيں بنائی گئیں اور بااثر زمینداروں نے جو درخت کٹوائے ، اس پر بھی کوئی کاروائی بیوروکریسی نے نہیں کی میں ایک ہفتے سے جنوبی پنجاب میں سیلاب کے حوالے سے ہونے والی انوسٹی گیٹو رپورٹنگ کو فالو کررہا ہوں اور یہ دیکھنے کا خواہش مند ہوں کہ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کا کہیں وجود نظر آئے لیکن اس بارے کوئی خبر نہیں مل رہی ، چیف منسٹر کے دورے کی جو خبر شایع ہوئی اخبارات میں اور ٹی وی چینلز نے جو نشر کی اس میں بھی اس اتھارٹی کے کسی نمائندے کا نام موجود نہیں ہے ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ مجھے لگتا ہے کہ ابھی تک صوبائی اور ضلعی سطح پر ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں نہیں آسکا اور اٹکل پچو طریقوں سے کام لیا جارہا ہے ، محکمہ انھار کے افسران کی سستی بھی صاف ظاہر ہے ، ایک رپورٹ مظفر گڑھ کے ایک صحافی ملک تحسین نے ایک ماہ شایع کی تھی کیا مظفر گڑھ سیلاب کے لئے تیار ہے ؟ اس رپورٹ میں صاف صاف افسر شاہی کی بے حسی ، کرپشن اور لوٹ مار کا تذکرہ کیا گیا ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ چیف سیکرٹری سے لیکر دیگر مجاز افسران نے اس جیسی اور اس سے ملتی جلتی درجنوں رپورٹس کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی چیف منسٹر کے مانیٹرنگ سیل کی جانب سے کوئی کاروائی نظر آئی ، اس سیلاب سے جنوبی پنجاب کے ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے ، بے سروسامان ہوئے ، طلباء و طالبات کے اسکولز پانی میں گھر گئے ، اس ساری صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی ٹھوس پیشگی اقدامات کہیں نہیں کئے گئے ، چیف منسٹر کی جنوبی پنجاب کی آمد پر چند کیمپ لگا کر آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی اور چیف منسٹر نے بھی خیال کیا کہ لانگ شوز پہن کر ، ماؤ سٹائل لانگ کوٹ پہن کر جھکڑامام شاہ بن پر بنی ان کی تصویریں اس خطے کے لوگوں کی بے سروسامانی کا مدوا کردیں گی اور انھوں نے ملتان اپنے قیام اور جھکڑ امام شاہ بند کے دورے پر بھی سب سے زیادہ گفتگو جوڈیشل انکوائری کمیشن کے بارے میں کی اور قوم کو الیکشن کے شفاف ہونے پر مبارکبار پیش کی ، اور ساتھ ہی ایک بڑی نوید دی کہ بندوں کی مرمت کے تیس کروڑ روپے مختص کردئے گئے ہیں اور ان کو سرخ فیتے کی نظر نہیں ہونے دیا جائے گآ ، یہاں فوری طور پر سوال یہ پیدا ہوا کہ 2010ء میں سیلاب کے حوالے سے افسر شاہی کی جو نااہلی سامنے آئی تھی ، اس حوالے سے انکوائری رپورٹ آج تک پبلک کیوں نہیں کی گئی ، ان افسروں کو کیا سزا دی گئی جو سیلاب کی تباہ کاریوں کے زژہ ٹھہرائے گئے تھے ، سپریم کورٹ نے اس حوالے سے جو نشاندھی کی تھی اس پر کہاں تک عمل کیا گيا ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آج 2015ء ہے پانچ سال تک جنوبی پنجاب کے شکستہ بندوں کی مرمت کا سامان کیوں نہیں ہوسکا ؟ جب سیلاب آن پہنچتا ہے تب ہی سارے اعلانات سامنے آتے ہیں ، کیا دریاؤں کے کنارے اور سیلاب کے خطرے کی زد ميں آنے والے شہروں اور دیہاتوں کے بچاؤ کے لئے پیشگی اقدامات کوئی فوری ضرورت کی بات نہیں ہیں ؟لندن سے شہباز شریف کا آنا ثابت کرتا ہے کہ آگر وہ اپنا علاج کچھ روز ملتوی کردیتے اور یہیں پاکستان رہتے تو کچھ نہیں ہونے کا تھا ، ویسے وہ کون سا علاج ہے جو صرف لندن ہی میں ہوتا ہے اور پاکستان میں نہیں ہوتا ؟ اس کا تسلی بخش جواب آنا چاہئیے ، 30 کروڑ روپے بندوں کی مرمت کے لئے مختص کرنے پر مجھے یار آیا کہ ابھی شہباز شریف اور نوآز شریف کی نواسی کا نیویارک میں شادی کا جو پروگرام تھا اس میں شرکت کے لئے پی آئی اے کے جہآز کو استعمال کیا گیا اور اس حوالے سے سرکار کے اربوں روپے خرچ کردئۓ گئے جبکہ چینوٹ میں دریائے چناب پر ڈیم کی تجويز 25 سال سے پنجاب کی نوکر شاہی نے سردخانے میں ڈالی ہوئی ہے ، روزنامہ خبریں ملتان کی خبر کے مطابق دریائے چناب پر چینوٹ میں یہ ڈیم اگر تعمیر ہوجائے تو سیلاب سے بھی بچا جاسکتا ہے اور اس سے 11 ہزار ایکٹر زمین سیراب کی جاسکتی ہے جبکہ 68 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ، پنجاب حکومت کو گزشتہ برس بھی اس ڈیم کی تعمیر کے لئے کہا گيا ، لیکن انھوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی ، دیہی غریبوں اور شہری غریبوں کی فلاح و بہبود کا کوئی منصوبہ جلدی سے منظور نہیں ہوتا ، کیونکہ اس میں سرمایہ داروں اور بڑے کیمشن کھانے والوں کا زیادہ مفاد نہیں ہوتا ہے ، عباس والا بند 2010ء ميں جہآں سے ٹوٹا ، وہیں سے دوبارہ رسنا شروع ہوگیا ، اس کا نوٹس کس نے لینا ہے ، ہیڈ محمد والا پر جو شگاف ہے اگر سیلاب وہاں کا رخ کرلیتا تو کیا ہوتا ؟ افسر شاہی اس سوال پر یہی کہے گی کہ سیلاب نے رخ نہیں کیا نا ؟ گویا یہ قدرت ہے جس نے ہیڈ محمد والا کے گرد رہنے والوں کو بچا لیا ، ورنہ اس ملک کی سول بیوروکریسی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے جمہوریت ، منتخب حکومت یہ ساری باتیں جب سول حکومت ڈیلیور کرنے میں ناکام رہتی ہے تو فضول لگنے لگتی ہیں ، ابھی آئی اے اے رحمان کے بیٹے اور ایک انگریزی اخبار کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر نے اپنے کالم میں بائی پاپولر چوائس کے عنوان سے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ لاہور سمیت پنجاب کے اکثر شہروں اور دیہاتوں ميں جنرل راحیل شریف کی مقبولیت اور ساکھ میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور سیاست دانوں کی مقبولیت گراف نیچے جارہا ہے ، کیونکہ " نیا پاکستان " بنانے والے خیبرپختون خوا ميں اور پرانا پاکستان کو ہی بہتر بنانے والے پنجاب میں کوئی معجزہ دکھا نہ سکے ، ابتری مزید ابتری میں بدل گئی ہے ، لوگوں کو غربت ، مہنگائی ، دربدری ، اور سسٹم کے ڈیلیور نہ کرنے کا احساس ستا رہا ہے جبکہ وزیراعظم نواز شریف قوم سے خطاب ميں کہتے ہیں کہ آج کا پاکستان دو سال کے پاکستان سے بہت بہتر ہے ، اس میں سچائی اس حد تک ہے کہ لوگوں کو آپریشن ضرب عضب ، خیبر 1 کی کامیابی اور پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کے آگے بڑھ کر فیصلے کرنے کی روش نظر آتی ہے جبکہ سویلین ایڈمنسٹریٹو سیٹ اپ عوام کو ڈیلیور کرنے ميں ناکام نظر آتا ہے ، تعلیم ، صحت ، کا انفراسٹرکچر تباہی کا شکار ہے لیکن سول ایڈمنسٹریشن کا دعوی ہے کہ راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے ، دربار کا راوی چین لکھتا ہے اور دربار سے باہر راوی عذاب لکھتے ہیں وزیراعلی پنجاب اگر عوام کی کھلی کہچریوں ميں عوام کے دکھڑے سننے سے گھبراتے ہیں تو ان کو چاہئیے کہ صرف تعلیم ، صحت ، پولیس ، ریونیو اور ٹی ایم ایز و کارپوریشنز کی کھلی کہچریاں ان مخکموں کے صوبائی سیکرٹریز سے کہيں جاکر منعقد کریں اور وہ وڈیو لنک کے زریعے سے اس کو دیکھیں ان کو پتہ چل جائے گا کہ لاہور سے دور اضلاع میں عوام کس قدر مصائب میں مبتلا ہیں ، ابھی ریجنل پولیس آفسیر ملتان طارق مسعود یاسین ڈسٹرکٹس ميں گئے اور کھلی کہچریوں کا انعقاد کیا تو ان کا اپنا یہ کہنا ہے کہ تھانوں ميں سائلین کو ذلیل کرنے اور دھکے دینے اور مدعی سے ملزم جیسا سلوک اور ملزم سے مجرم جیسا سلوک کرنے کا کلچر عام ہے ، صحت ، تعلیم ، پولیس ، ریونیو میں چیف منسٹر جن ریفارمز کا دعوی کرتے ہيں وہ کہيں ںطر نہیں آتیں ، ہاں ان کی شاندار پروجیکشن اور پریذینٹشن ہميں پروجیکٹر کے زریعے سے سکرین پر بہت نظر آتی ہے ایک لفظ چیف منسٹر بار بار بولتے ہیں اور وہ ہے " ترقی کا وژن " آخر یہ وژن عمل کی صورت میں اسقدر بھیانک کیوں لگتا ہے کہ اربوں روپے کے میٹرو بس پروجیکٹ بننتے ہیں لیکن ریسکیو 1122 کے لئے چندے کی اپیل کی جاتی ہے ، وزیرآباد کارڑیالوجی نہیں فنکشنل ہوتا ، ملتان کارڑیالوجی کے فنڈز ميں کٹوتی کی جاتی ہے ، پہلے سے موجود نشتر ہسپتال مسلسل زوال پذیر ہوتا ہے ، سرکاری سیکٹر ميں ہسپتال ، اور تعلیمی سیکٹر پيچھے اور پرائیویٹ سیکٹر آگے جاتا ہے ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ تعلیم اور صحت جن کے پاس پیسے نہیں ہیں یا بہت تھوڑے ہيں ، ان کا حق نہیں ہے ، وہ بیماریوں سے مریں ، وہ سیلاب سے مریں ، وہ بارشوں سے مريں ، وہ حادثات سے مريں ، ہماری نوکر شاہی اس کی زمہ دار نہيں ہے

No comments:

Post a Comment