Monday, August 17, 2015

کرنل شجاع خانزادہ کی ہلاکت اور پنجاب حکومت کا کردار


کرنل شجاع خانزادہ صوبائی وزیر داخلہ پنجاب اور انچارج نیشنل ایکشن پلان ان پنجاب سمیت متعدد افراد کی اٹک میں ان کے آبائی گاؤں مبینہ خود کش حملے میں شہادت بارے میں آپ کے سامنے اپنی زاتی معلومات اور میڈیا سے اخذ کی گئی چند چیزوں کو اپنے پڑھنے والوں سے شئیر کرنا چاہتا ہوں اور یہ ایسی باتیں ہیں جن سے عمومی طرف پر ہوسکتا ہے کہ صرف نظر کیا جارہا ہو یا حکومتی شور شرابے میں اس پر کسی کا دھیان نہ جائے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کام کرنے والے مختلف رپورٹرز نے سانحہ اٹک پر جو نیوز سٹوریز اور تجزیئے فائل کئے وہ کرنل شجاع کو لاحق خطرات بارے متضاد دعووں پر مشتمل ہیں لیکن ان تمام رپورٹرز نے سوائے ایکسپریس ٹرائبون اور روزنامہ دنیا لاہور کے کسی اور اخبار یا ٹی وی چینل نے کرنل شجاع خانزداہ کی سیکورٹی سے غفلت برتے جانے پر کوئی تفصیلی نیوز سٹوری شایع نہیں کی اور مجھے لگتا ہے کہ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے خود کو بچانے کے لئے کروڑوں روپے کے اشتہارات کی رشوت ہمارے میڈیا کو دی ، کوارٹر پیج کا اشتہار آج سب اخبارات کو ملا ہوا ہے ڈان کی انگریزی ویب سائٹ پر راولپنڈی سے سٹاف رپورٹر محمد اصغر کی سٹوری http://www.dawn.com/news/1200970/questions-arise-about-is-presence-in-attock بتاتی ہے سی ٹی ڈی کے افسران اور انٹیلی جنس آفیشل نے بتایا ہے کہ کرنل شجاع خاںزداہ کو ان پر کسی خود کش حملے کی پیشگی خبردار کرنے والا الرٹ جاری نہیں کیا گیا تھا However, he said, they had not issued any specific alert regarding threats to Mr Khanzada’s life. جبکہ ڈیلی ڈان کے لاہور میں سٹاف رپورٹر عمران گبول کی ڈان کی اردو ویب سائٹ پر پوسٹ ہونے والی رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ وزیر داخلہ اس لسٹ کے ناموں میں شامل تھے جن پر ملک اسحاق کی ہلاکت کے بعد حملے کا خطرہ ظاہر کیا گیا اور ان کو آگاہ کیا گیا تھا اور یہ بات بقول نبیل گبول آئی جی پنجاب کی جانب سے چیف منسٹر پنجاب شہباز شریف کو کرنل شجاع خانزداہ کو پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ میں کہی گئی ہے http://www.dawnnews.tv/news/1025332/ ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ خفیہ اداروں کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا کہ سینیئر سرکاری حکام کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے جس میں پنجاب کے وزیر داخلہ بھی شامل تھے مجھے ایسے لگتا ہے کہ لاہور میں ڈان کے سٹاف رپورٹرز میں نسبتا نئے شامل ہونے والے یہ رپورٹر عمران گبول " کم تجربہ کار " ہیں اور ان کی رسائی ابتک تک " ان سورسز " تک نہیں ہے جہاں تک محمد اصغر کی ہے ، اسی لئے انھوں نے پنجاب پولیس کے زرایع پر ہی انحصار کیا ہے جبکہ ڈان راولپنڈی کے سٹاف رپورٹر کی خبر زیادہ مصدقہ زرایع سے حاصل کی ہوئی لگتی ہے ، لیکن مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ محمد اصغر کی رپورٹ انگريزی ڈان میں شایع ہوئے 6 گھنٹے ہوچکے ہیں جبکہ عمران گبول کی رپورٹ دو گھنٹے پہلے شایع ہوئی تو کیا عمران گبول نے اپنے ہی ادارے کی انگریزی ویب سائٹ کا وزٹ نہیں کیا ، وہ اس پر اگر محمد اضغر سے ہی رابطہ کرتے تو ان کی سٹوری میچور ہوسکتی تھی ڈان کے لاہور کے سٹاف رپورٹر انتخاب حنیف نے ایک آرٹیکل لکھا ہے جس کا عنوان ہے Colonel calm departs کرنل کی رخصتی کا حوالہ دیتے ہوئے جو انکشاف انتخاب حنیف نے کیا ، وہ یہ ہے کہ کرنل شجاع خانزادہ سے شہباز شریف کے قریبی ساتھی خار کھاتے تھے اور ان کو خانزادہ کے وزیر داخلہ بننے کی بہت تکلیف تھی میں نے کل اپنی ایک پوسٹ میں جتنی باتیں کرنل شجاع خانزادہ کے بارے میں لکھ دی تھیں آج انگریزی پرس میں وہ کئی " فالو اپ سٹوریز " میں بکھری پڑی ہیں http://www.dawn.com/news/1200919/colonel-calm-departs ایک اور خبر انگریزی میں ڈان کی ویب سائٹ پر موجود ہے جو اردو سائٹ میں نہیں ہے اور عنوان ہے Sindh waits for Islamabad’s nod to launch drive against banned outfits اس خبر کے مطابق سندھ ہوم منسٹری وفاقی وزرات داخلہ کے ونگ نیکٹا کی جانب سے اس لسٹ کا انتظار کررہا ہے جس میں ان کالعدم تنظیموں کی نشاندھی کی گئی ہے جو نئے ناموں سے کام کررہی ہیں اور ابتک نیکٹا نے وہ لسٹ فراہم نہیں کی کیا نیکٹا وہ لسٹ اس لئے فراہم نہيں کررہا کہ اس میں الرشید ٹرسٹ ، اہلسنت والجماعت کا نام بھی شامل ہے ؟ الرشید ٹرسٹ وہ ٹرسٹ ہے جس کے تحت روزنامہ اسلام ، ضرب مومن اور کئی رسائل و جرائد شایع کئے جارہے ہیں اور اسی کے تحت جامعہ رشیدیہ بھی ہے جو یونیورسٹی کا درجہ پاچکی اور اس کے پاکستان کے اسلامی بینکنک سیکٹر میں کثیر سرمایہ بھی لگا ہوا ہے ؟ اور اسی سٹوری میں یہ خبر بھی ہے کہ سندھ حکومت ابھی تک سندھ میں قائم مدرسوں کی میپنگ کا کام مکمل نہیں کرپائی اور غیر رجسٹرڈ مدارس کے خلاف بھی کاروائی مکمل نہیں ہوسکی روزنامہ جنگ لاہور کے سٹاف رپورٹرز نے بس باوثوق زرایع سے یہ بتایا ہے کہ ملک اسحاق کے قتل کے بعد سے ان کو مسلسل دھمکیاں مل نہی تھیں ، یہ بات انسداد دھشت گردی کے محکمے پنجاب کے زرایع سے درج کی گئی ہے ، اسی روزنامہ جنگ کا ایک اور رپورٹر کہتا ہے کہ ملک اسحاق کے قتل کے بعد لشکر جھنگوی کا سولہ رکنی گروہ ان کے تعاقب میں تھا اور اسی روزنامہ کے مطابق کرنل شجاع خانزادہ کے ساتھ پنجاب ایلیٹ فورس کا اسکواڈ بھی نہين تھا https://e.jang.com.pk/08-17-2015/lahore/page1.asp#; دنیا نیوز کے رپورٹر رانا عظیم اور حسن رضا نے تھوڑی سی کوشش کی ہے اور ان کو یہ پتہ چلا کہ پنجاب پولیس کے آئی جی ، ڈی آئی جی آپریشنز ، سی پی لاہور ، چیف سیکرٹری اور دیگر کئی افسران کی سیکورٹی میں اضافہ ہوا مگر کرنل شجاع خانزادہ کی سیکورٹی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا تھا اور پولیس حکام سے خانزادہ کی سیکورٹی نہ بڑھانے کے حوالے سے پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ ایسے تھریٹس آتے رہتے ہیں ، یہ سٹوری بہت کچھ بتاتی ہے http://dunya.epaper.pk/lahore.php اردو اور انگریزی پریس دونوں میں زیادہ تر نے جس سوال کو اٹھاکر آج اور کل سانحہ اٹک کے تناظر میں سیکورٹی لیپس بارے کوئی نیوز سٹوری یا تجزیہ نہیں دیا اور یہ رجحان عمومی طور پر دوسرے صوبوں خاص طور پر سندھ میں رونماء ہونے والے ایسے سانحات میں دیکھنے کو نہیں ملتا ایکسپریس ٹرائبون میں کامران یوسف نے جو نیوز سٹوری فائل کی ہے اس کا عنوان ہے Security lapse or sign of terrorists’ invulnerability کامران یوسف کا کہنا ہے کہ حکومتی حلقے جس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں وہ یہ ہے کہ کیا شجاع خانزادہ کے معاملے میں سیکورٹی لیپس سامنے آتا ہے ؟ کیا یہ واقعہ سیکورٹی لیپس کا نتیجہ ہے ؟ کامران یوسف کا کہنا ہے کہ جتنے بھی دفاعی امور کے تجزیہ نگار ہیں اور دھشت گردی کے امور پر ماہرانہ رائے رکھنے والے ہیں وہ اسے سیکورٹی لیپس ہی کہہ رہے ہیں http://tribune.com.pk/story/939353/security-lapse-or-sign-of-terrorists-invulnerability/ اسی ایکسپریس ٹرائبون میں زاہد گشکوری نے فائل کی ہے اور اس کا عنوان ہے Leading the way for a terror-free Punjab اور سٹوری میں زاہد گشکوری نے کرنل (ر ) شجاع خانزادہ کے ساتھ سی ٹی ڈی اور ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں کام کرنے والے دو افسران سے انٹرویوز کئے ہیں اور انھوں نے انتہائی اہم انکشافات کئے ہیں کرنل شجاع خانزادہ نے پنجاب کے اندر پنجاب کے اندر 170 مدرسے بند کرنے کا حکم دیا تھا جن کے بارے میں شواہد موجود تھے کہ وہ کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ مدارس کوٹ ادو ، لیہ ، مظفر گڑھ ، وہاڑی ، ڈیرہ غازی خان ، تونسہ ، حاصل پور اور دیگر اضلاع سے تعلق رکھتے تھے ( زاہد شرماگیا ان مدارس بارے یہ زکر کرتے ہوئے کہ یہ سب مدارس وہ تھے جن کی انتظامیہ بظاہر " پرامن ، سیاسی و قانونی طور پر شیعہ کو کافر قرار دلوانے کی تحریک چلانے والی دیوبندی تنظیم اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھتے تھے ) شجاع خانزادہ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت لشکر جھنگوی ، تحریک طالبان ، جماعت الاحرار کی جڑیں پنجاب سے اکھاڑنے کے لئے سرگرداں تھے افسر نے انکشاف کیا ہوم منسٹر کی جانب سے ملنے والے ڈائریکٹو کے بعد ہم پنجاب میں ایسے تمام مدارس کو بند کرنے جارہے تھے جن کے دھشت گردی میں ملوث ہونے کا شبہ موجود تھا ----- مذکورہ افسر نے مزید بتایا زرا ایک اور انٹیلی جنس افسر کا انکشاف بھی پڑھ لیں Another official who worked with Khanzada said that with serious threats posed to his life, particularly after Ishaq’s killing, the home minister held a meeting with intelligence officials, who briefed him how the LeJ had established links with the Islamic State, TTP, Jamaatul Ahrar, Lashkar-e-Islam and other sectarian groups, planning to seek revenge with a ‘now or never’ bearing. “He was told that some of them had also established links with India.” The official said the meeting was informed of a 13-member death squad that comprised al-Qaeda and LeJ militants and was tasked with eliminating all the officials involved in the crackdown on militants in the province. “Its infrastructure has existed in southern Punjab even before Ishaq’s killing.” لشکر جھنگوی کے روابط داعش ، ٹی ٹی پی ، جماعت الاحرار ، لشکر اسلام اور دوسرے گروپوں سے بن چکے ہیں اور اب وہ " اب نہیں تو کبھی نہیں " کے جذبے کے ساتھ بدلے کی سوچ رہے ہیں اسی آفیشل کا کہنا ہے کہ 13 افراد پر مشتمل موت کے ہرکاروں کا ایک سکواڈ القائدہ ، لشکر جھنگوی کے دھشت گردوں نے تشکیل دیا ہے جس کا کام ان تمام آفیشلز کا خاتمہ کرنا ہے جو صوبے میں دھشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کررہے ہیں اور جنوبی پنجاب میں یہ انفراسٹرکچر پہلے سے ہی موجود ہے اس کے باوجود بھی پنجاب حکومت اور اس کی سیکورٹی اداروں نے اپنے وزیر داخلہ کو لاہور سے ایسے اٹک بھیجا کہ اس کے ساتھ نہ تو جیمرز تھے ، نہ ہی ایلیٹ فورس کا محافظ دستہ ، وفاقی حکومت نے اسے رینجرز کا کوئی اسکواڈ فراہم نہیں کیا اور یہاں قدرتی طور پر سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ پاکستان کا سب سے مضبوط ادارہ فوج اور اس کے ونگز اپنے سب سے قابل اعتماد پنجاب ایڈمنسٹریشن ميں آدمی کی حفاظت سے کیسے بے خبر رہ گئے ؟ کرنل شجاع خانزادہ کے ساتھ بہت عرصہ کام کرنے والے محمود شاہ کہتے ہیں کہ Brig (retd) Mahmood Shah, who served with Khanzada in the military, said it would be very difficult for the Punjab government to fill the vacuum in the ongoing operation against militants. رستم شاہ مہمند جنھوں نے نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا کہتے ہیں کہ Rustam Shah Mohmand, a key member of the team that prepared the 20-point NAP, said Khanzada’s death had dealt a serious blow to the government’s efforts to tackle militancy in Punjab. http://tribune.com.pk/story/939352/leading-the-way-for-a-terror-free-punjab/ نقصان تو اب ہوگیا ہے ، لیکر پیٹنے کا فائدہ بھی کوئی نہیں لیکن کیا جو ٹیم کرنل شجاع خانزادہ نے تکشکیل دی تھی اسے پنجاب کی مسلم لیگ نواز کے اراکین اسمبلی میں سے کوئی ایسا آل راؤنڈر مل پائے گا جو اس قدر تجربہ رکھتا ہو جس قدر تجربہ " کرنل شجاع خانزادہ " کے پاس تھا مجھے تو یہ انتہائی مشکل ٹاسک لگ رہا ہے اور اب پنجاب میں ہوم منسٹر کوئی " سرفراز بگٹی " یا سندھ کے ہوم منسٹر کی طرح کے آنے کے امکان زیادہ ہیں اور ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب اور اس کا محکمہ سی ٹی ڈی اب کہیں اور سے کنٹرول اور ہینڈل کئے جانے کے امکانات زیادہ ہیں

No comments:

Post a Comment