آج جب کہ میں یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں تو دنیا بھر کے میڈیا سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ جیسے ہی جینواء میں اقوام متحدہ کے ثالث کار نے یمن کے حریف فریقوں کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کیا تو سعودی عرب نے یمن پر فصائی حملے شدید کردئے اور ایک ہی دن میں پندرہ مرتبہ سعودی طیاروں نے یمن میں عدن پر بمباری کی ، اگرچہ سعودی عرب کا حامی میڈیا اور مغربی میڈیا کے بعض منافق سیکشن سعودی طیاروں کی بمباری کو زیدی شیعہ حوثی ملیشیاء پر حملے سے تعبیر کررہا ہے ، لیکن کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ کیا ان بموں میں حوثی ملیشیا اور عام یمنی شہری کے درمیان تمیرکرنے کا کوئی پروگرام فیڈ ہے ، یقینی بات ہے کہ ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے جو بموں کو حارب و غیر حارب کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت دیتا ہو اور یہی وجہ ہے کہ خود اقوام متحدہ بار بار یہ تنبہ کررہا ہے کہ یمن میں انسانی صورت حال بہت گھمبیر ہوگئی ہے ، لوگ پانی ، خوراک ، ادویات سے محروم ہوگئے ہیں اور سمویلین اس بمباری کے سب سے زیادہ متاثرہ ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ یمن پر سعودی عرب کی کھلی جارحیت اور اس وحشیانہ کھیل کو فرقہ وارانہ اصطلاحوں میں رپورٹ کیا جارہا ہے جبکہ برطانوی جریدہ ڈیلی اںڈیپینڈینث نے اپنے رپورٹر کے حوالے سے کہا ہے کہ یمن کے اندر جاری لڑائی اور سعودی بمباری نے ناقابل یقین حد تک عمارتوں اور گھروں کو ملبے میں بدل ڈالا ہے اور گلیوں میں لاشیں بکھری پڑی ہیں اور ان کو دفنانے والا کوئی نہیں ہے ، جبکہ عورتیں ، بچے ، بوڑھے ، مریضوں کے ساتھ ناقابل بیان المئے رونما ہورہے ہیں ، ایسے میں سعودیہ عرب کی بمباری جاری ہے ، ، سعودی عرب کے طیارے کلسٹر اور ڈزنی کٹر بموں کا استعمال کررہے ہیں ، یہ وہ بم ہیں جو امریکیوں نے عراق اور افغانستان پر حملے کے دوران استعمال کئے تھے اور شرم کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی بدمعاشی کو " سنّی اسلام کا دفاع " قرار دیا جارہا ہے اور یہ بدمعاشی کرنے میں آل سعود کے زرخرید صحافی ، نام نہاد تجزیہ نگار اور مولوی طاہر اشرفی جیسے ننگ دین و ملت شامل ہیں
کارپوریٹس اور ریاستوں کے راز شایع کرنے والی معروف ویب سائٹ وکی لیکس نے سوموار کے روز اس وقت سعودی عرب کی خفیہ کیبل کو شایع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ، جب سعودی عرب میں اس سال کے سویں قیدی کے سرکاٹنے کا سنگ میل عبور کیا جارہا تھا
وکی لیکس نے کہا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر وہ سعودی عرب کے خفیہ خارجہ و سفارتی مراسلات کی جو تعداد شایع کرنے جارہا ہے وہ پانچ لاکھ ہوسکتے ہیں اور اس حوالے سے ویکی لیکس نے پہلے پہل جو خفیہ مراسلت جاری کی ہے ، اسے اس نے
" خاموشی کے خریدار " کا عنوان دیا ہے اور ان مراسلات میں ایک اخبار کے بقول یہ بتانے کی کوشش ہے کہ سعودی عرب کیسے اہل سیاست و صحافت کو سعودی عرب کے معاملے میں خاموش رہنے پر راضی کرتا ہے ، اس حوالے سے سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک اور ٹوئٹر پر جو سعودی عرب کے کی خفیہ دستاویزات کے سامنے آنے پر بیانات سامنے آرہے ہیں ، ان میں سعودی عرب کی ڈپلومیسی کے لئے ایک طرف تو
Buying Silence
مقبولیت حاصل کررہا ہے ، وہیں ایک اور عنوان " چیک بک ڈپلومیسی " بھی مقبولیت حاصل کررہا ہے
ویکی لیکس نے بائينگ سائلنس کے عنوان سے سعودی لیکس کے ابتدائیے میں صاف صاف لکھا کہ مغربی اور عرب میڈیا ان لیکس کے حوالے قدرے خاموشی دکھا رہا ہے اور اگر یہی لیکس کسی اور ملک کے بارے میں ہوتیں تو میڈیا پر شور کا اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ( غالبا کسی اور ملک سے وکی لیکس کے رائٹر کی مراد ایران ہوسکتا ہے )
میں نے ابتک پاکستان کے بڑے ، بڑے لبرلز اور پاکستان کے اندر شیعہ - سنّی بائنری کے ںطریہ سازوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹ ، فیس بک سٹیٹس اور ان کے بلاگ کا جو جائزہ لیا تو مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ جبکہ اس وقت سعوی لیکس سب سے مقبول ٹرینڈ ہے ٹوئٹر پر لیکن اس مقبول ٹریںڈ میں پاکستانی لبرلز کا ایک حصّہ سرے سے غائب ہے اور وہ اس پر کچھ نہیں لکھ رہا
نجم سیٹھی کے ٹوئٹ میں زرداری کے خلاف شایع کیا گیا فرآئیڈاۓ ٹائمز کا اداریہ کا لنک ہے یا پھر سرفراز نواز کے بارے میں یہ بھد کہ
وہ کرکٹ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا
بشری گوہر ، بینا سرور ، المانہ فصیح ، طارق فتح ، رضا رومی سب نے خاموشی اختیار کررکھی ہے
عامر سعید دیوبندی کا سٹیٹس تو زید حامد کی بیوی کے سعودی عرب سے اکیلے واپسی خبر اور سعودی انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے زید حامد کو اینٹی کنگ سلمان ٹوئٹ کرنے پر اٹھائے جانے کی خبر پر مشتمل ہے
پاکستان کے انگریزی اور اردو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے سعودی کیبلز کے حوالے سے زیادہ تر اسامہ بن لادن کے بیٹے عبد اللہ بن لادن کی جانب سے اسامہ کے ڈیتھ سرٹیفیکٹ کے لئے امریکی حکام سے رابطے اور امریکیوں کی جانب سے اس سے انکار بارے آگاہ کرنے والی سعودی مراسلت کی خبر شایع کی ہے اور کسی ایک اخبار یا ٹی وی چینل نے سعودی عرب کی خفیہ ڈکٹیٹر شپ اور چیک بک ڈپلومیسی اور سعودی عرب کے کیش مشین ہونے جیسے تصورات کا ان کیبلز سے ابھرنے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا
جبکہ پاکستانی میڈیا نے بھی ان وکی لیکس کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے
بیروت سے شایع ہونے والے روزنامہ الاخبار نے روزانہ کی بنیاد پر سعودیہ عرب کی سفارتی دستاویزات اور وزرات خارجہ کے متعلق دستاویزات کو شایع کرنا شروع کیا ہے
پاکستان کے میڈیا نے بھی کافی وکی لیکس سے مستعار سفارتی کیبل شایع کی تھیں ، لیکن اس میں مڈل ایسٹ اور بالخصوص سعودی عرب بارے وکی لیکس دستاویزات بہت کم تھیں ، ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ سعودی عرب کے بارے میں یہ وکی لیکس کی منکشف کردہ دستاویزات کیوں شایع نہیں کی گئیں اور کیوں ان پر بہت زیادہ بحث مین سٹریم میڈیا میں دیکھنے کو نہیں ملی اس کا جواب بھی ہمیں " الاخبار " میں شایع ایک وکی لیکس " صناعۃ الصمت : کیف طوّعت السعودیہ اعلام العربی " ( خاموش انڈسٹری : سعودیہ نے کیسے عرب میڈیا کو اپنے مطابق ڈھالا ) کے عنوان سے شایع ہونے والی تحریر میں مل سکتا ہے ، جس کا خلاصہ میں اپنے پڑھنے والوں کے گوش گزار کروں گا
روزنامہ الاخبار بیروت کے ایڈیٹر نے ان وکی لیکس کو شایع کرنے کے آغاز میں جو عنوان دیا ہے وہ بھی بہت دلچسپ ہے
ویکیلیکس مملکۃ القمع
شراء الصمت
جابر ریاست کے بارے ویکیلیکس
خاموشی کی خریدار
ابراہیم الامین کہتے ہیں کہ
ریاستی میڈیا ، فنانس اور بزنس کے ساتھ طاقت رکھنے والا ، سیکورٹی اور ملٹری ، طاقتور مذھبی ادعائیہ اور مذھبی پیشواؤں کی فوج کے ساتھ سعودی عرب کے بارے میں آپ اگر دو بنیادی حقیقتوں کو نہیں سمجھتے تو اس کو کبھی نہیں جان سکتے
" ظالم ، گناہ گار امراء کی بقاء اور غریبوں کے لیے موت "
ابراہیم الامین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے سفارتی کیبلز اور وزرات خارجہ کی فائلوں کے مطالعے سے یہ واضح ہوجاتا ہے
ان سلطۃ آل السعود قائمۃ بقوۃ الحدید و النار والمال ، و انھا سلطۃ ترید کمّ الآفواہ حیث امکن ، لا تقف عند حدود جغرافیۃ ولا عند خصوصیات دول او شعوب ، ولا تھتم لثقافات او تنوع ۔ کل ما بھمھا ، ھو ان تمنع ای نقد لحکامھا او سیاستھا ، او لما تقوم فی السر او العلن
آل سعود کا غلبہ حدید و نار و مال کی قوت سے قائم ہے اور یہ اپنا غلبہ ہر مکن حد تک برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور ان کو اس کے لیے نہ تو کسی جغرافیائی حدود کا خیال ہے اور نہ ہی ایک ملک یا اقوام تک یہ محدود ہے اور نہ ہی ان کو ثقافتوں یا تنوع ایسا کرنے سے روکتا ہے ، ان کا جو واحد مقصد ہے وہ ہے کہ کسی طرح سے بھی ان کے احکام اور سیاست پر تنقید سے روکا جائے چاہے خفیہ طور سے روکا جائے یا اعلانیہ
ابراہیم الامین کہتا ہے کہ
سعودیہ عرب کے جو جابر ریاستی ادارے ہیں وہ ابھی تک بہت ابتدائی سطح پر ہیں ، نہ تو ان کا بہت واضح سٹرکچر ہے ، نہ ہی کسی قسم کا پروفیشنل ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ترجیحات یا تنظیم ہے اور نہ ہی کوئی متعین ریفرنس ہیں ، جو کوئی بھی اس ریاست کے کام کرنے کے سکوپ کے تحت آتا ہے ، اس کا اول و آخر تعلق اور وفاداری ریاست کے حکمران خاندان سے ہے اور اسے سوائے تعریف کے کسی شہزادے یا شہزادی کا زکر نہیں کرنا ہے اور سینکڑوں ایسے سیاست اور میڈیا سے منسلک افراد اور اداروں کی فہرست ہمارے سامنے ہے جو اس سلطنت کی حمائت حاصل کرنے کے لئے یہ خدمت سرانجام دینے پر راضی ہیں اور یہ مخبروں کی ایک فوج ہے جو ان کے ساتھ کام کرنے کے لئے راضی ہے اور ان کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ ان کا لکھا یا کہا ہوا لفظ سچ ہے بھی کہ نہیں اور ان کو تو بس وہ لفظ کہنا یا لکھنا ہے جو سعودی بادشاہت کو خوش کرنے والی ہو اور اس کے بدلے میں ان کو دیناروں سے بھرے ہوئے بیگ مل جاتے ہیں اور جو ان کے دام میں نہ آئیں اور ان کے بارے میں سچ بولیں تو یہ جابر ریاست ان کے خلاف فرقہ وارانہ ہتھیار استعمال کرتی ہے اور ایسے سچ بولنے والے چاہے ان کے ملک کے اندر ہوں یا سمندر پار ہوں ، ان کو سبق سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے
ابراہیم امین کہتا ہے کہ
ہم نے وکیلیکس کی جاری کردہ ایسی دستاویزات شایع کرنےکا فیصلہ کیا ہے جو کہ آل سعود اور شاہی خاندان کی زھنیت کو آشکار کرتی ہیں
وکی لیکس نے اپنی ویب سائٹ پر " خاموشی کی خریداری " پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے
The oil-rich Kingdom of Saudi Arabia and its ruling family take a systematic approach to maintaining the country's positive image on the international stage. Most world governments engage in PR campaigns to fend off criticism and build relations in influential places. Saudi Arabia controls its image by monitoring media and buying loyalties from Australia to Canada and everywhere in between.
سعودیہ عرب آسٹریلیا سے کینڈا تک اور ان کے درمیان ہرجگہ اپنے امیج کو کنٹرول کرنے کے لئے میڈیا کی مانیٹرنگ کرتا ہے اور اسے خریدتا ہے
وکی لیکس نے سعودی عرب کی جانب سے عرب اور عالمی میڈیا کو خاموش کرانے کے طریقہ کار بارے کافی تفصیل سے لکھا ہے اور بتایا ہے کہ عرب اور عالمی میڈیا میں جو افراد یا ادارے سعودی عرب کے امیج بارے حقیقت حال کو آشکار کرتے ہیں تو ان تک اپروچ کی جاتی ہے اور پیسہ دیکر یا تو ان کو خاموش رہنے کو کہا جاتا ہے یا ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ پیسے لیکر سعودی عرب کی امیج بلڈنگ کا کام کریں اور جو اس کے باوجود باز نہیں آتے تو ان کو سبق سکھانے کی بات بھی کی جاتی ہے
وکی لیکس نے ایک مراسلہ شایع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے 500 ڈالر سے لیکر لاکھوں ڈالر تک میڈیا آؤٹ لیٹس کو خاموش رہنے یا آل سعود کا ترجمان بننے کے لئے ادا کئے گئے
ایک مراسلے میں بتایا گیا ہے کہ لبنانی ایم ٹی وی کو سعودی پروپیگنڈے کے لئے کئی لاکھ ڈالر دئے گئے ، اور جن جریدوں نے سعودی عرب کی حمائت میں خبریں شایع کیں یا مخالف خبروں اور رپورٹس کو بلیک آؤٹ کیا ، ان کی ہزاروں کی تعداد میں شایع کاپیوں کو خرید کرنے کا معاہدہ کیا گیا اور ایسے ہی ایک مراسلے میں گنی نیوز ایجنسی کو کئی ہزار ڈالر فی الفور ادا کرنے کو کہا گیا ہے جو مشکلات کا شکار تھی مگر سعودی عرب کی حامی ایجنسی کا کردار ادا کررہی تھی
ایسے ہی جب مصر کے آن ٹی وی نے سعودی عرب کے حزب مخالف کے سیاست دان سعد الرفیق کا انٹرویو چلایا گیا تو سعودی عرب کی مصر میں موجود سفارت خانے کو سعودی وزرات خارجہ نے ہدائت کی کہ اس ٹی وی کے مالک کو پیغام دیا جائے کہ اگر وہ ایسے انٹرویو چلائے گا تو اسے سعودی عرب کا دشمن سمجھ لیا جائے گا ، جس پر ٹی وی مالک نے نیوز ڈائریکٹر کو سعد الفقیہ کا انٹرویو چلانے پر سخت جھڑکی دی اور سعودی سفیر کو اس پروگرام میں آنے کی دعوت دی
اسی طرح سے ایرانی عربی ٹی وی العالم جس سیارے سے آن ائر تھا اس کو خریدنے کی کوشش کی گئی اور جب اس میں ناکامی ہوئی تو فیصل الترکی نے اس چینل کے سگنل کمزور کرنے کی کوشش کی
ایک کیبل بتاتی ہے کہ کیسے لبنان میں دائیں بازو کی کرسچن پارٹی کے سربراہ جعجع سمیر نے کیسے سعودی عرب سے اپنی پارٹی کے لئے فنڈ مانگے اور اس کے بدلے میں اپنی حمائت کا یقین دلایا
اسی طرح سعودی کیبلز یہ بھی بتاتی ہیں کہ سعودی عرب اپنے ملکی میڈیا کو زرا محتلف اپروچ کے ساتھ کنٹرول کرتا ہے ، ایک کیبل کے مطابق جب رفیق حریری کے بیٹے اور لبنانی سابق وزیر اعظم سعد حریری نے شرق الاوسط اور الحیات سعودی اخبارات میں اپنے اوپر شایع ہونے والے تنقیدی مضامین کی شکائت سعودی حکام کو کی تو فوری طور پر ایک لیٹر لکھ کر ایسے مضامین لکھنے کو منع کیا گیا
سعودی عرب کے قومی و علاقائی اخبارات و ریجنل رسائل و جرائد کو سختی سے آل سعود ، محمد بن عبدالوہاب اور وہابی آئیڈیالوجی پر تنقید سے بھی منع کیا گیا ہے
No comments:
Post a Comment