اہلسنت سواد اعظم جو پاکستان کے اندر 60 فی صد سے زیادہ ہیں کی تنظیم سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا قادری رضوی پر جمعہ کی شب اس وقت موٹر سائیکل سوار دیوبندی تکفیری دہشت گردوں نے قاتلانہ حملہ کیا جب وہ جھنگ سے افطار کی تقریب سے واپس فیصل آباد جارہے تھے ، اس حملے میں وہ بلٹ پروف گاڑی کی وجہ سے بچ گئے ، سٹئرنگ لگنے سے معمولی زخمی ہوئے
صاحبزادہ حامد رضا پر یہ حملہ رانا ثناء اللہ کے صوبائی وزیر قانون کے منصب پر دوبارہ براجمان ہونے کے فوری بعد کیا گیا ، جن کے بارے میں نہ صرف سنی اتحاد کونسل بلکہ اکثر سنی تنظیموں کا یہ کہنا ہے کہ وہ پنجاب میں کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان / اھلسنت والجماعت / لشکر جھنگوی کے سرپرست ہیں اور انھوں نے گذشتہ انتخابات میں پنجاب کے اندر کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کے ساتھ نہ صرف اتحاد قائم کیا بلکہ مسلم لیگ نواز کے 22 سے زیادہ قومی و صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ بھی کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو دلوائے جن میں گجرات سے منتخب ہونے والا عابد گجر ، اور مظفرگڑھ سے ہار جانے والا سردار عباد ڈوگر بھی شامل ہے
صاحبزادہ حامد رضا قادری رضوی کے والد صاحبزادہ فضل کریم جمعیت العلمائے پاکستان کے مرکزی رہنماوں میں سے تھے اور وہ 90ء میں مولانا شاہ احمد نورانی کی جانب سے نواز شریف کی مخالفت کی وجہ سے ایک دھڑے کے ساتھ اپنی جے یو پی بنانے پر مجبور ہوئے تھے جوکہ مرکزی جمعیت العلمائے پاکستان کے نام سے قائم ہوئی اور پھر وہ 2008ء تک مسلم لیگ نواز کے اتحادی رہے لیکن اس دوران مسلم لیگ نواز کی سعودی عرب سے بڑھتی قربت اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر سعودی عرب کے معتمد سیاسی و مذھبی سلفی و دیوبندی گروپوں کے ساتھ ان کے تعلق کے مضبوط ہونے کی وجہ سے صاحبزادہ فضل کریم کے میاں برادران سے تعلقات میں دراڑ پڑنے لگی
جبکہ دوسری طرف رانا ثناء اللہ پنجاب میں بالعموم اور فیصل آباد ڈویژن میں بالخصوص سپاہ صحابہ پاکستان کی پوری سرپرستی کرنے لگا ، جبکہ اسی دوران خیبرپختون خوا میں بڑھتی طالبانائزیشن کے سبب مزارات اولیاء کرام پر حملے شروع ہوگئے اور علماء و مشائخ کا قتل بھی شروع ہوگیا ، یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے ڈاکٹر سرفراز نعیمی آف گڑھی شاہو لاہور کے خود کش بم دھماکے میں ھلاکت تک جاپہنچا اور پھر حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر حملہ ہوا ، ان سب حملوں میں کالعدم سپاہ صحابہ جو لشکر جھنگوی کے نام سے کام کررہا تھا اور جس کے طالبان و القائدہ سے روابط تھے کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت پائے گئے تھے ، صاحبزادہ فضل کریم نے نواز شریف اور شہباز شریف کو کہا کہ وہ سپاہ صحابہ پاکستان کے ساتھ اتحاد ختم کریں اور جو وزراء و مشیر و عیدے داران ان کی سرپرستی کرتے ہیں ان کو بھی پارٹی سے نکال باہر کریں ، جبکہ طالبانائزیشن کے خلاف گول مول موقف ختم کردیں لیکن نواز شریف اور شہباز شریف نے ایسا نہ کیا کیونکہ بقول صاحبزادہ فضل کریم نواز شریف پاکستان میں دیوبندی تکفیری لابی کے ھاتھوں یرغمال بن چکے تھے اور سعودی عرب کے بے پناہ دباو میں بھی تھے ، اگرچہ میرے نزدیک دباو سے کہیں زیادہ نواز شریف کے سعودی عرب کے مالدار شیوخ اور شاہی خانوادے کے ساتھ شروع ہونے والے بزنس وینچرز تھے جنھوں نے شریف برادران کو پاکستان کا حریری بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا
صاحبزادہ فضل کریم مسلم لیگ نواز اور نواز شریف برادران سے مایوس ہوئے تو انھوں نے اہلسنت کی جملہ تنظیموں کے اتحاد کی ٹھان لی اور اس طرح سے سنی اتحاد کونسل وجود میں آئی ، جس کی جدوجہد کا بنیادی مرکز پاکستان کے اندر دیوبندی -سلفی عسکریت پسندی ، دیوبندی طالبنائزیشن کے بڑھتے ہوئے اثر اور اہلسنت المعروف بریلوی کی اکثریت کو سعودی فنڈڈ مدارس و اداروں اور دہشت گردی کے زریعے اقلیت میں بدلنے کے خلاف سیاسی مزاحمتی پلیٹ فارم تشکیل دینا تھا ، یہ بنیادی طور پر پاکستان کے 60 فیصد مسلم آبادی کی نمائیندگی کرنے والے سنیوں کا پلیٹ فارم تھا
صاحبزادہ فضل کریم نے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے پہلی مرتبہ پاکستان کی سیکولر اور لبرل امیج رکھنے والی جماعتوں کی جانب تعاون کا ھاتھ بڑھایا اور اس سلسلے میں انھوں نے 2012ء کی الیکشن کے دوران ایک طرف تو مسلم لیگ قائد اعظم سے اتحاد کیا تو پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات چیت کی ، صاحبزادہ فضل کریم نے ایک طرح سے 1970ء سے سنی سیاست کے ڈسکورس میں نمایاں تبدیلی پیدا کی اور ان سے پہلے پاکستان عوامی تحریک کی شکل میں ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے یہ تبدیلی سامنے آئی تھی جب انھوں نے نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں پاکستان پیپلزپارٹی سے اتحاد بنایا اور پاکستان عوامی اتحاد کے سربراہ بھی بنے جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی ان کی سربراہی میں کام کررہی تھیں
صاحبزادہ فضل کریم الیکشن کمپئن کے دوران پراسرار حالت میں جان بحق ہوگئے ، ان کے بیٹے صاحبزادہ حامد رضا قادری رضوی کا الزام ہے کہ ان کے والد کو سروسز ھسپتال میں زھر دیا گیا ، جس سے ان کی ھلاکت ہوئی اور وہ اس کی زمہ داری رانا ثناء اللہ اور میاں برادران پر عائد کرتے ہیں
عارف جمال جوکہ امریکہ میں مقیم ہیں اور وہ پاکستان کے اندر عسکریت پسند رجحان ، 80ء ، 90ء اور پھر پوسٹ نائن الیون مذھبی دہشت گردی و نام نہاد جہاد پر رپورٹنگ و تجزیوں کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں ، انھوں نے صاحبزادہ حامد رضا قادری رضوی پر جھنگ میں قاتلانہ حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے فیس بک وال پر جو تبصرہ پوسٹ کیا ، ایک تو وہ حقائق کے سخت منافی ہے ، دوسرا وہ پاکستان میں اہلسنت سواد اعظم کی شناخت ، ان کے عقائد اور طرز زندگی پر سعودی فنڈڈ سلفیت و دیوبندنائزیشن کی یلغار سے پیدا ہونے والی صورت حال کی بھی نفی ہے
عارف جمال نے سنی اتحاد کونسل اور صاحبزادہ حامد رضا قادری رضوی کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرکے اپنے دی نیوز انٹرنیشنل سنڈے میگزین میں وقار گیلانی کو دئے جانے والے انٹرویو میں کہی ہوئی باتوں کی بھی نفی کی ہے
اس انٹرویو میں اگرچہ انھوں نے پاکستان میں دیوبندنائزیشن کو
Sunnification
کا بڑھتا ہوا رحجان قرار دیا تھا لیکن اسی جگہ اگلے جملے میں انھوں نے لکھا تھا کہ
پاکستان کے اندر ہر غیر سلفی و دیوبندی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خوف کے ساتھ زندگی بسر کرے گا ، انھوں نے اس انٹرویو میں خود یہ تسلیم کیا تھا کہ پاکستان میں سنی بریلوی اکثریت بھی نام نہاد جہادی فرقہ پرست دہشت گرد تنظیموں کے حملوں کی زد میں ہے اور اسی انٹرویو میں انھوں نے زور دیکر یہ بات کہی تھی کہ سپاہ صحابہ پاکستان یا اہلسنت والجماعت اور لشکر جھنگوی میں کوئی فرق نہیں ہے ، یہ الگ الگ تنظیمیں نہیں ہیں بلکہ ان کو حکمت عملی کے تحت الگ الگ شو کیا جاتا ہے ، عارف جمال نے یہ بھی لکھا تھا کہ جب طارق اعظم نے ایرانی سفیر صادق گنجی کے قتل میں ملوث حق نواز کی پھانسی روکے جانے کے لئے سپاہ صحابہ کے پلیٹ فارم سے تحریک چلائی تھی تو ثابت ہوگیا تھا کہ یہ الگ الگ نہیں ہیں
لیکن عارف جمال کی جب سے کتاب " ٹرانس نیشنل جہاد " سامنے آئی ہے جس میں انھوں نے لشکر طیبہ اور آج جماعتہ الدعوہ کے حوالے سے بہت مبالغہ آمیز تھیوری پیش کی ہے اور وہ اس حوالے سے پاکستان میں دیوبندی تکفیری دہشت گرد تنظیموں اور ان کے جنوبی ایشیا ، مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ اور یہاں تک کہ انڈو چین اور یورپ و امریکہ تک پر اثرات بارے قدرے عارضی فنومن کی تھیوری پیش کرتے ہوئے پاکستان میں " سلفیت کو مستقبل کا سب سے بڑا خطرہ بتاتے ہیں ، اور وہ مفروضوں میں بات کرتے ہوئے جماعت دعوہ کو مستقبل کی سب بڑی اور خطرناک ترین جہادی تکفیری تنظیم بننے کی پیشن گوئی کرتے ہیں اور حال ہی میں انھوں نے داعش کے معاملے کو لیکر انگریزی جریدے ھیرالڈ میں آرٹیکل لکھا
Who is Afraid of ISIS
اس مضمون میں بھی انھوں نے تحریک طالبان پاکستان کے مولوی فضل اللہ گروپ کو سلفی ثابت کرنے کی کوشش کی اور بالواسطہ یہ کہنے کی کوشش کی کہ دیوبندی جہادی تنظیمیں عارضی مظہر ہیں مستقبل میں سلفی جہادی تنظیمیں ہی پاکستان کے اندر لیڈ کریں گی
عارف جمال جو ایک لمبے عرصے سے جہاد ، دہشت گردی پر کام کررہے ہیں کے ہاں سے اس طرح کا خام تجزیہ آنا کچھ شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے ، کیونکہ ان کو بخوبی علم ہوگا کہ سعودی عرب ، کویت ، قطر ، متحدہ عرب امارات وغیرہ سے 80ء کی دھائی سے دیوبندی مدارس ، دیوبندی عسکری تنظیموں کو جو مالی مدد ملنا شروع ہوئی ، وہ ان مدارس و عسکری تنظیموں کے حنفی فقہ سے دستبرادری کی شرط پر منحصر نہیں ہے اور دیوبندی تکفیری دہشت گرد تنظیمیں جہادی و عسکری انتہا پسندانہ نظریات کو مستعار لینے کی حد تک اور عقائد کے باب میں رہنمائی کی حد تک شیخ ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوھاب نجدی اور دیگر رہنماوں کے نظریات سے استفادہ کرتی ہیں لیکن فقہ کے باب میں وہ حنفیت کو ہی اپنائے ہوئے ہیں اور پاکستان سمیت بھارت و جنوبی ایشیا میں القائدہ ہو ، داعش ہو انھوں نے اپنے جو ریجنل برانچ بنائے ان کی سربراہی دیوبندی تکفیری ہی کررہے ہیں ، القائدہ برصغیر والھند کی سربراہی بھی دیوبندی تکفیری عاصم عمر کے پاس ہے جبکہ ان کے لئے 99.5 فیصد ریکروٹمنٹ بھی دیوبندی تنظیموں کی ہے اور ایک طرح سے القائدہ و داعش کا عقائدی و سیاسی ڈھانچہ تو شیخ ابن تیمیہ و محمد بن عبدالوھاب نجدی کے نظریات سے مستعار ہوگا جنوبی ایشا میں لیکن یہ ہوگا حنفی ٹچ لئے دیوبندی تکفیری برانڈ
اگر طالبان یا دیوبندی تنظیموں کو سلفی جہاد یا سلفی عسکریت پسندی اپنے دیوبندی جہادی و عسکریت پسند ماڈل کے منافی لگتی ہوتی تو ملا عمر کبھی بھی القائدہ کو افغانستان میں آنے اور وہاں پر تربیتی مراکز قائم نہ کرنے دیتے اور نہ ہی اس کی خاطر امریکیوں کو ناراض کرتے
عارف جمال میرے خیال میں پاکستان اور پاکستان سے باہر ان تجزیہ نگاروں کی لائن فالو کررہے ہیں جو دیوبندی تکفیری فاشزم کے جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہونے سے انکاری ہیں اور وہ لفظ دیوبندی کی تکفیریت ، جہادیت ، عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے اور اس کو جنوبی ایشیا سمیت کئی ایک خطوں میں سنجیدہ خطرے کے طور پر بیان کرنے سے گریزاں ہیں اور وہ اس کو شعوری طور پر چھپاتے ہیں اور اسے منظم اور باقاعدہ طور پر
Obfuscate
کرتے ہیں
عارف جمال کی جانب سے سلمان تاثیر کے قتل کے معاملے میں صاحبزادہ حامد رضا رضوی قادری کی جانب سے ممتاز قادری کی حمائت کو ہی پاکستان میں ممتاز قادری کو سزا نہ ملنے کی وجہ قرار دینا بھی تعصب اور جانبداری پر مبنی تجزیہ ہے ، میں صاحبزادہ حامد رضا قادری ، ثروت اعجاز قادری یا کسی اور سنی بریلوی کی جانب سے ممتاز قادری کے دفاع کو غلط خیال کرتا ہوں ، کیونکہ سلمان تاثیر سے کسی قسم کی گستاخی رسول کا صدور نہیں ہوا تھا اور اس لئے ممتاز قادری کی جانب سے سلمان تاثیر کا قتل وقتی اشتعال کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا ، اس موقف کی تائید منھاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری اور دعوت اسلامی کے بانی سربراہ مولانا الیاس قادری کی جانب سے بھی ہوا ہے ، سلمان تاثیر کے قتل سے پہلے جو فضا تیار کی گئی ، اس میں عارف جمال پاکستانی میڈیا ، اینکرز پرسن ، کالم نگاروں ، تجزیہ کاروں ، تحریک طالبان پاکستان ، جامعہ بنوریہ ، سپاہ صحابہ پاکستان ، وکلاء ، ججز کے کردار کو نظرانداز کرگئے ، وہ سلمان تاثیر کے قتل پر ایک کروڑ کے انعام کا اعلان کرنے والے مسلم لیگ نواز مظفر گڑھ کے رہنماء و امیدوار سردار عباد ڈوگر جوکہ کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان / اہلسنت والجماعت کے بھی رکن ہیں کو بھی یکسر نظر انداز کرگئے اور انھوں نے سارا ملبہ حامدرضا قادری رضوی اور سنی اتحاد کونسل پر ڈالنے کی کوشش کی
ان کی اس پوسٹ پر جن لوگوں نے لائک کے بٹن کو دبایا ہے ، ان کے ناموں اور کارناموں پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ دراصل عارف جمال بھی پاکستان میں اس کمرشل لبرل مافیا کو سپورٹ کررہے ہیں جو پاکستان کے اندر منظم دیوبندی تکفیری دہشت گردی اور دیوبندی تکفیری فاشزم کو چھپانے اور ان کی طرف سے پاکستان کے اندر 72 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کو شہید کرنے جن میں سب سے زیادہ سنی بریلوی اور پھر شیعہ ہیں کے منظم دہشت گردانہ جرم کی زمہ داری سنیت کی مبہم اور ناروا اصطلاح استعمال کرکے یا سلفی تکفیریت کی اصطلاح استعمال کرکے زبردستی اس میں اہلسنت بریلوی اور شیعہ کو بھی شریک کرنا چاہتا ہے
سنی بریلویوں یا شیعہ کے ہاں انفرادی یا وقتی اکا دکا دہشت گردی کی کوئی مثال سامنے رکھکر ان سب پر منظم تکفیری دہشت گردی اور تکفیری فاشزم کا الزام دھرنا اصل میں جنوبی ایشیا میں دیوبندی تکفیری دہشت گردی اور مڈل ایسٹ سمیت دنیا بھر میں سلفی -تکفیری فاشزم اور دہشت گردی کے منظم نیٹ ورک کے ساتھ بریلوی /شیعہ انفرادی دہشت گردی کی غلط طور پر بائنری بنانا ہے اور یہ شیعہ و صوفی سنی نسل کشی پر پردہ ڈالنا اور اس کو گول مول کرنا بھی ہے
کمرشل لبرل مافیا جس کے سرغنہ نجم سیٹھی ہیں کیونکہ انہوں نے ڈیلی ٹائمز کی ملکیت اور پھر فرائیڈے ٹائمز میں اور اس کے بعد جنگ ، جیو سے وابستہ ہونے کے بعد سے ایک پوری لاٹ ایسی تیار کی ہے جو امریکی سامراجیت کی جانب سے پوری دنیا میں نام نہاد جہادی دہشت گردی اور تکفیریت کو شیعہ -سنی اور سعودی ایران بائنری میں ٹرانسلیٹ کرتی ہے اور نجم سیٹھی اور ان کے ماوتھ آرگن نام نہاد لبرل صحافی ، تجزیہ کار ، کالمسٹ اور اینکر پرسنز تو اس معاملے میں دو قدم آگے گئے ہیں وہ سپاہ صحابہ پاکستان / اہلسنت والجماعت کی نرم تمثال کاری ، اور اس کی موجودہ لدھیانوی و فاروقی اور سابقہ جو اب دیوبندی پاکستان علماء کونسل کی شکل میں موجود ہے کی قیادت جیسے طاہر اشرفی اور زاہد القاسمی جس کا باپ سپاہ صحابہ پاکستان کا بانی اور اس کی سپریم کونسل کا چئیرمین تھا اور وہ خود بھی سرگرم رہنماء رہا اور آج کل رانا ثناء اللہ کا رایٹ ہینڈ ہے کو امن کے پیامبر کے طور پر پیش کرتے ہیں ، نجم سیٹھی اور ان کے جملہ ساتھیوں کے اس کردار کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سب سے زیادہ سرگرم ان دنوں میں بینا سرور گروپ ہے اور اس گروپ کا واحد مقصد نجم سیٹھی کے سیاہ کارناموں کو چھپانا ہے اور پھر پاکستان میں لبرل اور سیکولر حلقوں میں
False binaries
غلط مساوات کا پروپیگنڈا کرنا ہے ، عارف جمال کا حالیہ فیس بک سٹیٹس اس بات کا آئینہ دار ہے کہ وہ اپنی ہی کہی ہوئی بہت سی باتوں کی تردید کرکے شیعہ -سنی بائنری اور اسی تناظر میں سعودی - ایران بائنری کو زبردستی درست ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں
پاکستان کا یہ کمرشل لبرل مافیا اور نام نہاد دفاعی تجزیہ نگار سعودی ویکیلیس پر خاموش بیٹھے ہیں اور بہت تندی اور مستعدی کے ساتھ دیوبندی تکفیری دہشت گردی کا شکار شیعہ ، صوفی سنی کے اندر تکفیریت کے منظم رجحان کی تلاش میں مصروف ہیں ، ان کو وہاں سے لے دیکر صرف و صرف ممتاز قادری کی چند ایک حلقوں کی جانب سے موافقت نظر آتی ہے تو یہ 22 ہزار شیعہ ، 45 ہزار سنی بریلوی ، کئی سو کرسچن و احمدی و ہندو ، عام دیوبندی و سلفیوں کے قاتل دیوبندی تکفیری دہشت گردوں کی بائنری سنی بریلوی اور شیعہ کے ساتھ بنانے لگتے ہیں
پاکستان کا لبرل رائٹ بلاگ ایل یو بی پاک المعروف تعمیر پاکستان اس وقت کمرشل لبرل مافیا اور ان کی صفوں میں جا شامل ہونے والے چند ایک کرئیرسٹ لبرلز کے مسلسل حملوں کی زد میں بھی اس لئے ہے کہ وہ
False Shia -Sunni Binary , Saudi -Iran Binary and obfuscation if Deobandi Takfiri identity of Pakistani based takfiri terrorist groups and their sympathisers
کے خلاف سرگرم ہے اور ان بائنریز اور شناخت کو ابہام کے اندھیروں میں پھینکنے والے کمرشل لبرل مافیا کو بے نقاب کررہا ہے
راقم نے بھی جب اس کھلی بے ایمانی ، ڈھٹائی اور علمی بدیانتی کا پردہ چاک کرنا شروع کیا تو چند اور چہرے بے نقاب ہوکر سامنے آگئے اور ان کی جانب سے اس قدر جھوٹ اور تہمتوں کی بارش ہوئی کہ الامان الحفیظ کی صدائیں بلند ہونے لگیں
میں اپنے ان دوستوں کو جنھوں نے مجھ سے ای میل ، فون ، میسجنگ کے زریعے سے یہ پوچھا کہ آخر بظاہر لبرل ، سیکولر اور ترقی پسند نظر آنے والوں کی جانب سے مجھ پر حملے اور میری طرف سے جوابی تنقید کا سلسلہ کیوں جاری ہے سب کو انباکس ، اور فون چیٹ پر بھی بتاچکا ہوں اور اب اس بلاگ کے زریعے سے بھی بتارہا ہوں کہ سلمان حیدر سمیت جتنے بھی نئے نئے لوگ ہیں جو نجم سیٹھی کے لبرل کمرشلز کو بچانے کے لئے سرگرداں ہیں ان کا حملہ سوائے مفاد عاجلہ اور زاتی کرئیرازم کے اور کچھ بھی نہیں ہے اور ان کی جانب سے مجھ پر یا علی عباس تاج ایڈیٹر انچیف ایل یو بی پاک ، خرم زکی پر جو الزامات لگائے گئے جن میں سرفہرست ہم پر تکفیری ہونے کا الزام ہے اور بلاسفیمی کارڈ کھیلنے کا تو ان کی جھوٹ کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے تو یہ کوئی سچا ، جھوٹا ثبوت لا نہ سکے لیکن پھر انہوں نے جعل سازی کرتے ہوئے میرے ، علی عباس تاج ، خرم زکی ، ایل یو بی پاک آرکائیوز کے من گھڑت سکرین شاٹ کے نام پر سٹیٹس بنائے جن کا فیس بک لنک مانگنے کے باوجود نہ دیا گیا اور علی عباس تاج کے نام پر جعل سازی سے جو سکرین شاٹ بنایا گیا اس پر تاریخ 2013 ء کی اور تھریڈ المانہ فصیح پر توھین مذھب کا مقدمہ درج خرنے کے مطالبے کا تھا ، المانہ فصیح کی جانب سے نازیبا کلمات 2015 ء جون کے ماہ میں سامنے آئے اور اس کے خلاف تکفیری تھریڈ 2013ء یعنی دو سال پہلے ہی آگیا .... اس کو کہتے ہیں دروغ گو حافظہ نہ باشد کہ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا
سلمان حیدر ، علی ارقم نے تواتر سے ایل یو بی پاک پر یہ الزام لگایا کہ المانہ فصیح کے واجب القتل ہونے اور اس پر بلاسفیمی کے تحت مقدمہ درج کرنے کی کمپئن چلائی گئی ہے لیکن جب بھی ثبوت مانگے گئے کسی کے پاس اس کی شہادت ایل یو بی پاک کے بلاگ ، ایل یو بی کی ٹیم کے اکاونٹس کی تھریڈ یا اس کے موقف کی حمائت کرنے والے میرے جیسے بلاگر کے بلاگ یا فیس بک و ٹوئٹر سے ان کے پاس نہ کل تھی نہ آج ہے اور یہی وجہ ہے کہ زید پر قتل کا الزام ثابت کرنے کے لئے بنا کسی ثبوت کے کہا جارہا ہے کہ وہ جو بکر کے نام سے گولی حنیف کو لگی تھی وہ اصل میں زید تھا بکر کے لباس میں اور جب ثبوت مانگا جائے تو کہا جاتا ہے بس بکر کا گولی چلانا ہی زید کے قاتل ہونے کی نشانی اور ثبوت ہے اور اگر داخلی شواہد سے یہ پتہ چلے کہ زید کو قاتل قرار دینے والے بکر کے بھیس میں خود تھے تو پھر بھی ان کی جانب سے شور مچانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے
، ابراہیم امین ایڈیٹر انچیف روزنامہ الاخبار بیروت نے اپنے ایک کالم
غبی ، چور اور فقیر
میں لکھا ہے کہ وکیلیکس سے لبنان کے جن صحافیوں ، سیاست دانوں اور مذھبی لیڈروں اور نام نہاد سیکولر لبرل تجزیہ نگاروں کے سعودی عرب کے در کے فقیر ، چور اور غبی ہونے کا ثبوت ملا ہے وہ چور بھی اور چتر بھی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اب یہ کہتے ہیں کہ
ھاں ہم سعودی عرب کے کیمپ میں ہیں اور جنھوں نے یہ وکیلیکس شایع کی ہیں وہ ایرانی کیمپ میں ہیں ، یہ ہی صورت حال پاکستان کے کمرشل لبرل مافیا کی ہے کہ وہ بے شرمی کے ساتھ پاکستان میں شیعہ و صوفی سنی نسل کشی کو ردعمل قرار دیتا ہے اور اسے دو متحارب کیمپوں کی لڑائی قرار دیتا ہے جس میں 22 ہزار صوفی سنی ، 45 ہزار شیعہ اور باقی جو دیوبندی اور سلفی عام بھی مارے گئے سب کے سب دیوبندی دہشت گردوں کے ھاتھ مارے گئے اور خود تکفیری گروپ ملک اسحاق کے لوگوں نے شمس معاویہ کو مارا تو الزام شیعہ پر لگاڈالا بعد میں پول کھل گیا ، گویا شیعہ - دیوبندی بائنری کا سامان بھی دیوبندی تکفیری خود ہی پیدا کرتے ہیں ، یہ یک طرفہ منظم قتل و غارت گری اور نسل کشی ہے جس پر پردہ ڈالا جارہا ہے
No comments:
Post a Comment