Monday, August 11, 2014

گارشیا مارکیز اور کارسوا ،،،،،،،،گفتگو محض فلم ،سکرپٹ تک نہ رکی


پنجاب اور کراچی کے اندر رہنے والے اکثر لوگوں کے لیے کلچر ،نوآبادیات ،سامراجیت اور اسی سے متعلق بہت سے دیگر سوالات پر غور فکر کرنا وقت کا زیاں لگتا ہے اور اس اکثریت میں ،میں اپنے ان کامریڈز کو شامل نہیں کررہا جن کی عمر کا ایک بڑا حصّہ اس دشت کی سیاحی میں گزر گیا لیکن ان کی تعداد بھی کم ہی ہوئی بڑھی نہیں ہے لیکن کلچر ،نوآبادیات ،شناخت ،سامراجیت اور ترقی کے سرمایہ دارانہ ماڈل اور بالادستوں کی روشن خیالی سے ابھرنے والا خفیہ ریس ازم اور شاؤنزم بلوچ ،سندھی ،پشتون کے لیے بہت ہی غور فکر کا سامان رکھتے ہیں اور وہ اس حوالے سے اپنی سوچ کو پورے جگ جہان کے مجبوروں اور محکوموں سے جوڑنے کو بے تاب رہتے ہیں اور اس کی ٹھوس مادی وجوہات موجود ہیں میں نے یہاں پر سرائيکی کو عمومی دھارے میں اس لیے نہیں رکھا کہ ان کے ہاں بس گنتی کے دو چار لوگ ایسے ہیں جنھوں نے محکومیت ،مظلومیت ،ثقافت ،کلچر اور شناخت کے سوالوں کو عالمی سامراجیت ،عالمی نوآبادیاتی نظام ،غالب سامراجی سرمایہ داری اور اس کے جلو میں ابھرنے والا وہ مہا بیانیہ جسے ایڈورڈ سعید اوریئنٹل ازم یا مستشرقیت کہتا ہے کے تناظر میں اپنے آپ کو رکھکر اور پھر اس مہا بیانیہ کی ردتشکیل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس ردتشکیل کو قبول عام بھی حاصل ہوا ہو اور اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ سرائیکی خطے کو ابھی اس ننگی جارحیت ،ننگی خون آشامی کا ماضی قریب میں تجربہ نہیں کرنا پڑا جس طرح کے تجربے سے نوآبادیاتی دور اور بعد میں کالی جلد والے سفید نقاب پہنے حکمران طبقوں کے ہاتھوں بلوچ ،سندھی ،پختون کو گزرنا پڑا لیکن پھر بھی استاد فدا حسین گاڈی،حیدر جاوید سید ، رفعت عباس ، اشو لال ،شمیم عارف قریشی اور رانا محبوب ایسے دانشور شاعر ادیب ہیں جن کے ہاں اس عالمی تناظر سے جڑ جانے کی لپک ملتی ہے لیکن سرائيکی قوم کے ہاں المیہ یہ ہے اس کی دانش پر ابھی تک دائیں بازو کے رجعت پسندوں اور شاؤنسٹوں کا قبضہ ہے یا ایسے نام نہاد ترقی پسندوں کا جو اپنی ترقی پسندی کو پی پی پی کی بورژوا لیڈر شپ کی دھلیز پر قربان کرنے میں کبھی دیر نہیں لگاتے اگرچہ انھوں نے عالمی تناظر پر بہت کچھ پڑھ رکھا ہے میں گبرئیل گارشیا مارکیز پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر آفیشل پیج پر گیا تو وہاں مجھے لاس اینجلس ٹائمز کا ایک لنک نظر آیا جس پر گابو اور جاپانی فلم میکر اکیرا کارسوا کی گفتگو کا اقتباس موجود تھا اور یہ گفتگو اصل میں بیسٹ فلم ریویو بلاگ پر شایع ہوئی تھی اور میں نے دیکھا کہ اسے بہت سے سندھی ،بلوچ دانشوروں اور ساتھیوں نے لائک اور شئیر بھی کیا ہوا تھا لیکن اس لنک پر مجھے کسی سرائیکی کا لائک نظر نہیں آیا تو سوچا کہ یہ مہاجر نژاد سرائیکی (یہ ازراہ تفنن کہا ہے)اس معاملے میں سبقت لے جائے گابو 1990ء میں جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو گیا تھا تو اس وقت وہاں پر جاپانی فلم میکر ایکرا ساراکوا بھی ھیروشیما اور نگاساکی پر دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی جانب سے ایٹم بم گرائے جانے کے المیے پر بننے والی فلم فارسوڈی ان اگست کی شوٹنگ کے سلسلے میں موجود تھے اور اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گابو نے اپنے پسندیدہ فلم میکرز میں ایک کے ساتھ مکالمے کی سبیل نکال لی گابو اور کارسوا میں مجھے بہت سی چیزیں مشترک نظر آتی ہیں کہ دونوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور صحافی کیا ،گابو نے اپنا شہرہ آفاق ناول لکھنے سے پہلے بوگاٹا میں کئی سال بطور فلم نقاد کے کام کیا اور گابو فلموں کا بہت رسیا ہے اور اس کے ناول ھیضہ کی وبا کے دوران محبت پر فلم بھی بنی اور کارسوا نے بھی کئی عظیم ادیبوں بشمول شکسپئیر ، فیودر دستوسکی ،گورکی پر فلمیں بنائیں اور کئی ایک ناولوں کی فلمی تشکیل کی گابو پر اگر لاطینی امریکہ کی لینڈ سکیپ ،اس کی تاریخ اور نوآبادیاتی ماضی کے ساتھ آنے والی طویل المدت آمریتیں ،خانہ جنگی ،تباہی ،انارکی ،انقلاب کی چھاپ ہے تو کارسوا کے ہاں دوسری جنگ عظیم اور اس کے آخر میں ایٹم بم گرائے جانے سے پیدا ہونے والی ٹریجڈی کا نقش بہت گہرا ہے اور اس کے ہاں بھی جنگ سے نفرت بہت شدت کے ساتھ موجود ہے دونوں نے چھے گھنٹے مختلف موضوعات پر بات کی لیکن اس ساری گفتگو میں مجھے بین السطور یہ بھی نظر آیا کہ دونوں خلاق زھن رکھنے والے اس مہا بیانیہ کے رد میں اپنا اپنا بیانیہ بنانے کی کوشش کرتے نظر آئے جس کو ایڈورڈ سعید مستشرقانہ بیانیہ کہتا ہے اور یہ آقاؤں اور حکمرانوں کی ںظر سے ہی محکوموں کو اپنے آپ کا بیانیہ تشکیل دینے پر مجبور کرتا ہے جس کے خلاف ابھرنے والی اپوزیشن اور مزاحمت کو ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب کلچر اینڈ امپریلزم میں خوب کھول کربیان کیا ہے اور اس کے مقامی تناظر پر میں نے اپنے حال ہی میں ایک بلاگ ميں بات کی ہے گبرئیل گارشیا مارکیز نے اس گفتگو کے آغاز میں کارسوا سے کہا تھا کہ وہ باہمی گفتگو کو روائتی پریس انٹرویو نہیں بنانا چاہتا اور دونوں سے آخر تک گفتگو کا یہ پیراڈائم برقرار رکھا گابو نے کارسوا سے پوچھا کہ وہ سکرپٹ کیسے لکھتا ہے اور گابو کا یہ سوال اس لیے معنی خیز تھا کہ خود گابو بھی سکرپٹ رائٹر تھا تو کارسوا نے کہا جب اس نے کوئی سکرپٹ لکھنا ہوتا ہے تو وہ خود کو ایک کمرے میں کاغذ ،پنسل لیکر بند کرلیتا ہے اور لکھنے بیٹھ جاتا ہے گابو نے پوچھا کہ اس کے زھن میں پہلے خیال آتا ہے کہ تمثال یعنی امیج تو کارسوا نے کہا وہ سٹریم آف آئیڈیاز کو فالو کرتا ہے ،ان کے بہاؤ کے ساتھ بہتا ہے اور پہلے اس کے زھن میں بکھرے بکھرے امیجز آتے ہیں جن کو وہ مناظر کے ساتھ نتھی کرلیتا ہے اور پھر ایک سکرپٹ کی شکل دیتا ہے اور اس نے کہا کہ دیگر جاپانی سکرپٹ رائٹر پہلے سکرپٹ کا مجموعی خاکہ بناتے ہیں پھر اس کے مطابق امیجز لاتے ہیں اور پھر سین بناتے ہیں اور اس طرح سے سکرپٹ کا پلاٹ تیار کرتے ہیں "میرے خیال میں ایسے سکرپٹ لکھنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ہم خدا نہیں ہیں" گابو نے جب یہ بات ڈسکس کی کہ جن ناول نگاروں کے ناولوں پر فلمیں بنیں تو بہت کم ناول نگار ایسے تھے جنھوں نے ان فلموں پر اطمینان کا اظہار کیا تو اس میں کارسوا کا تجربہ کیا ہے تو کارسوا نے گابو سے الٹا سوال کردیا اور پوچھا کہ کیا تم نے میری فلم "ریڈ بیرڈ "دیکھی ہے ؟ گابو نے کہا کہ میں نے ان 20 سالوں میں اس فلم کا پھے مرتبہ دیکھا اور ہر بار اپنے بچوں سے اس بارے بات کی یہاں تک کہ انھوں نے بھی اسے دیکھ لی اور اب نہ صرف میں اور میرا خاندان اس فلم کو پسند کرتا ہے بلکہ یہ فلم میری سب سے فیورٹ فلم بھی ہے تو اس پر کاسوا کہتا ہے کہ اس فلم سے قبل آنے والی فلموں سے بعد آنے والی فلمیں بالکل مختلف تھی اور یہ دراصل تبدیلی کا سنگ میل تھی اور ایک سٹیج سے دوسرے سٹیج کی طرف مراجعت تھی گابو اس فلم کے دو مناظر کی طرف اشارہ کرتا ہے جن میں سے ایک منظر ایک ہسپتال کے صحن میں ہونے والی کراٹے فائٹ کا ہے تو کارسوا کہتا ہے کہ اس سین میں اصل میں عورت کی مکمل ناکامی کو دکھایا جایا جانا مقصود تھا جسے ناول کا مصنف نہیں دکھا سکا تھا دراصل کارسوا کہنا یہ چاہتا کہ بعض اوقات کسی ناول پر فلم بناتے ہوئے ڈائریکٹر ناول میں موجود کسی کمزور تاثر کو زیادہ طاقت کے ساتھ کسی ایسے منظر کے ساتھ فلماتا ہے جو اس ناول میں موجود نہیں ہوتا لیکن اس ناول کی کہانی کے کسی کردار کو اور زیادہ مضبوط کرڈالتا ہے تو میرے خیال میں ناول نگار اور فلم نگار کے درمیان جس تفاعل اور جاندار اشتراک عمل کو گابو اور کارسوا کی گفتگو نے واضح کیا ابتک میں نے کہیں نہیں دیکھا گابو میرے خیال کے مطابق کارسوا کو دوران گفتگو بڑے طریقے سے انگیخت کرتا ہے جب وہ کارسوا کی فلم "فاسوڈی ان اگست" بارے گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کے خیال میں کارسوا نے ٹھیک نہیں کیا کہ ایٹم بم کی مخالفت کرتے کرتے ایٹمی توانائی کو ہی مسترد کردیا تو کارسوا اس پر سخت ردعمل کا آظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایٹمی توانائی سے چلنے والے مرکز اگر تابکاری خارج کرنے لگیں تو ان سے خارج ہونے والی تابکاری ہزاروں سال ابلتی رھتی ہے اور انسانوں کو معذور اور ہلاک کرتی رہتی ہے ،پانی اگر ابلنے لگے تو اسے فوری سرد کیا جاسکتا ہے لیکن تابکاری کو نہیں اصل میں کارسوا یاد دلاتا ہے کہ اگرچہ ٹرومین نے ناگاساکی اور ھیرو شیما پر بم برسانے کی توجیہ یہ دی تھی کہ وہ جنگ بند کرانا چاہتا تھا اور اس توجیہ کو چاپانیوں نے امریکی دباؤ کے زیر اثر مان لیا لیکن اس کے نزدیک یہ عذر لنگ ہے کیونکہ ایک طرف تو اس بم گرائے جانے سے 5 لاکھ جاپانی ہلاک ہوگئے اور 2700 اب بھی ہسپتالوں میں اپنے مرنے کا انتظار کررہے ہیں جبکہ یہاں تابکاری سے اب بھی پیدا ہونے والے بچے متاثر ہورہے ہیں تو یہ جنگ ابھی جاپانیوں کے لیے تو ختم نہیں ہوئی کارسوا کہتا ہے کہ وہ نوچوان صحافی تھا جب یہ المیہ رونماء ہوا اور وہ اس ٹریجڈی پر لکھنا چاھتا تھا لیکن امریکی قبضے کے سبب اور سنسر شپ کی وجہ سے اس پر لکھا نہیں جاسکتا تھا تو جب وہ ڈائریکٹر بنا تو اس نے اس ٹریجڈی بارے لکھا کارسوا کہتا ہے مصیبت یہ ہے کہ ایک مرتبہ جب شوٹنگ سٹارٹ ہوجاتی ہے تو یہاں تک کہ کرائسٹ اور فرشتے بھی ملٹری چیفس آف سٹافس میں بدل جاتے ہیں گابو دوران گفتگو ہی بتاتا ہے کہ جنگ بندی تو ایک بہانہ تھا کیونکہ امریکہ کا اگر یہ مقصد ہوتا تو وہ بم چاپانی ٹوکیو کے شاہی محل پر بم گراتا اور جاپانی ملٹری و سیاسی قیادت کو مارتا لیکن ایسا نہیں کیا بلکہ شہری گنجان آبادی پر بم برسایا گیا مقصد فوجی اور ملٹری قیادت کو برقرار رکھتے ہوئے ان سے سودے بازی کرکے سویت یونین کو چاپان پر ٹیک اوور کرنے سے روکنا تھا اور اپنا قبضہ کرنا تھا اس طرح سے فلم ،ناول ،سکرپٹ ،سٹریم آف آئیڈیاز پر بات ہوتے ہوتے اندر کہیں چپکے سے ماضی ،اس سے جڑے تجربات ،سامراج ،نوآبادیات ،کلچر ،روایت ،شناخت ،جنگ ،تباہی بربادی جیسے سیاسی سماجی موضوعات بھی گفتگو میں داخل ہوجاتے ہیں اور یہ اصل میں اس رد تشکیل بیانئے سے جڑ جانے کا عمل بھی ہے جسے ٹی ایس ایلیٹ کے تصور روایت سے معنوی طور پر ایڈورڈ جوڑتا ہے تو گابو اور کارسوا کی گفتگو بھی اپنے جوھر کے اعتبار سے اسی سے جاکر جوڑتی ہے Source: http://kino-obscura.com/ http://blogs.indiewire.com/thompsononhollywood/gabriel-garcia-marquez-and-akira-kurosawa-talk-film-writing-and-rhapsody-in-august-in-1991-20140716

Friday, August 8, 2014

داعش فی العقول والقلوب ۔۔۔۔۔ناھض حتر


ناھض حتر عرب دنیا کے ایک معروف دانش ور ہیں اور انھوں نے روزنامہ "الاخبار بیروت"کی تازہ اشاعت میں ایک مضمون "داعش فی العقول و القلوب"کے عنوان سے لکھا ہے اس مضمون میں انھوں نے بنیادی خیال یہ پیش کیا ہے کہ داعش جس کے عراق اور شام کے ایک وسیع علاقے پر کنٹرول کا چرچا عالمی سطح پر ہورہا ہے اور اس کے اس کنٹرول کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں کی جڑیں عرب تاریخ میں پیوست ہیں اور مضمون نگار نے داعش کو ایک نفسیاتی و فکری لہر بتایا ہے جس نے عرب لوگوں کے دل اور دماغ میں ایک طویل پروسس کے بعد گھر کیا ہے یہ مضمون پاک و ہند کے سماج کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا عربوں کے لیے ہے کیونکہ ہمارے ہاں بھی دیوبندی اور وہابی مکاتب فکر کے اندر مثل داعش لوگوں کی اکثریت اس فکری و نفسیاتی لہر سے متاثر دکھائی دیتی ہے اور ہم اسے "التکفیری سلفیہ و دیابنہ فی العقول و القلوب"کا عنوان دے کر دیکھ سکتے ہیں ناھض حتر لکھتا ہے کہ شام ہو یا عراق آج وہاں پر ہمیں انقلابیوں کے نام سننے کو نہیں ملتے -شام کے اندر بہار عرب اور اس سے نکلنے والا جیش حر کہیں نظر آتا ہے نہ ہی جیش اسلام ،نہ تو ہمیں قومی شامی کونسل نظر آتی ہے اور نہ ہی متحدہ شامی اپوزیشن بس کہیں کہیں جبھۃ النصرہ کا نام سننے کو مل جاتا ہے مگر ان میں سب سے روشن نام داعش کا ہے عراقی انقلاب کے ہر اول دستہ قرار دئے جانے والے نہ تو سنّی گروپوں کا نام آج کے عراق میں نظر آتا ہے نہ ہی ایک ماہ پہلے تک جیش الحریہ النقشبندیہ ،بعث اور عزت الدوری کے جو نام سننے کو ملے تھے وہ سب اب نہ جانے کہاں چلے گئے ہیں ،عراقی زمین پر اگر کسی کا نام ہے تو وہ داعش ہے نوٹ :جس وقت نام نہاد افغان جہاد شروع ہوا تو ہم نے 90 ء کے عشرے تک افغان اسلامی مجاہدین کا بہت نام سنا اور اسلامی انقلاب کا خواب بھی تواتر سے ہمیں دکھایا گیا لیکن جس اسلامی انقلاب کی نوید سنائی جارہی تھی افغان جہاد کے بطن سے وہ تو برآمد نہ ہوا بلکہ اس کی جگہ طالبان ،لشکر جھنگوی جیسے سخت گیر اور متشدد تکفیری نے لی اور یہی حال ہم نے جہاد کشمیر سے برآمد ہوتے دیکھا اور آج افغانستان سے لیکر وزیرستان کے پہاڑوں تک اگر کوئی نام ہے تو وہ اسی تکفیری گروہ کا ہے ناھض کہتا ہے کہ لم يحدث ذلك بالمصادفة، ولا نتيجة مؤامرة، ولا بسبب فشل «الثورتين» وأخطاء «الثوريين». كلا، فـ «داعش» كانت مركوزة في قلب أول مظاهرة «سلمية» شهدتها سوريا في العام 2011، وكانت الجوهر العلني لـ «الثورة» العراقية، وللحركة الاخوانية والتحريرية والسلفية الخ... إن عيون قادة الاخوان لتلمع وهم يرفضون إدانة جرائم «داعش»، أو حتى التعرّض لها بكلمة؛ إنهم، بالعكس، يغبطونها على ما يحيطها من ظروف وما تملكه من قدرة على اطلاق غرائز الكراهية والقتل والإقصاء والسلب والسبي، وهي نفسها الغرائز الاخوانية ــــ السلفية داعش نہ تو حادثہ ہے نہ ہی کسی سازش کا نتیحہ نہ ہی دو انقلابی گروہوں کے درمیان انتشار کا اور نہ انقلابیوں کی غلطیوں کا بلکہ داعش تو اس اولین بڑے مظاہرے کے قلب میں بھی تھی جو شام میں 2011ء میں ہوا اور اس کا جوہر خاص انقلاب عراق میں بھی تھا اور یہی داعش اخوانی ،تحریری اور سلفی تحریکوں میں بھی موجود تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان قائدین اخوان کی آنکھیں جمکنے لگتی تھیں اور وہ داعش کے جرائم کی مذمت کرنے سے انکار کرتے تھے اور کسی ایک جملے سے بھی ان کو بے نقاب نہیں کرتے تھے اس کے الٹ ان برتنوں سے جو ثپکتا اس پر خوش ہوتے اور جو کچھ ان کے قبضے میں تھا اور جن مکروہ افعال جیسے قتل ،قبضہ ہے ،غصب کرنا ہے اور سب و شتم ہے اس پر یہ خوش ہوتے اور اصل میں داعش کی جو خصوصیات ہیں یہ تو بذات خود غرائز الاخوان اور اصل میں سلفیہ کا جوہر ہیں خواجہ عامر جیسے نوجوان بریلوی بچے کہتے ہیں کہ عامر بھائی !آپ اخوان اور حماس کو یونہی اس صف میں کھڑا کرتے ہو جس صف میں داعش ہے ،نصرہ ہے اور دیگر تکفیری دیوبندی سلفی خوارج ہیں ان کو ناھض حتر کا یہ مضمون ضرور پڑھنا چاہئیے لیکن میں سوچتا ہوں کہ بیچارے ان نوجوانوں کا کیا قصور ہے ،ان کے سامنے اردو اور انگریزی کے وہی مضامین آتے ہیں جو ہمارا میڈیا بہت زیادہ سیلف نسر شپ کے تحت ان کے سامنے لیکر آتا ہے اور اسی لیے وہ داعش کو اس کے تاریخی روٹس سے ہٹ کر الگ تھلگ مظہر کے طور پر دیکھتے ہیں ناھض لکھتا ہے کہ «داعش» ليست ظاهرة مستجدة؛ إنها تمثّل ميولاً ما تزال ماثلة حتى تحت الجلود الناعمة واللحى الحليقة وربطات العنق الأنيقة، كما هو حال تيار المستقبل المعدود ليبراليا داعش کوئی جدید رونما ہونے والا مظہر نہیں ہے بلکہ یہ تو ان کی نمائندگی بھی کرتا ہے جن کی جلد نرم ،ڈاڑھی غآئب اور گلے میں خوشنما ٹائیاں ہیں جیسے کہ فیوچر پارٹی لبنان کے چند لبرل ہیں نوٹ :مطلب یہ ہوا کہ تکفیریوں کے ساتھ پاکستان کے ہی لبرل کا اتحاد نہیں ہے بلکہ یہ اتحاد تو مڈل ایسٹ میں بھی موجود ہے یعنی کما ھو حال لیبرالیا فی الباکستان بھی کہا جآسکتا ہے ناھض نے آگے ایک ایسا تاریخی جملہ تحریر کیا ہے جس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے اور اسے ہم قلم توڑ جملہ کہہ سکتے ہیں «داعش» هي تاريخ وهاجس ونزعة، لم تستطع الدول الوطنية الحديثة انتزاعها من العقول والقلوب، وأطلقها ربيع الخليج من أقفاصها وقيودها. داعش تاریخ کے اس آسیب اور جھکاؤ کا نام ہے جسے جدید نیشنل سٹیٹس کا تصور بھی عقول و قلوب سے نکال نہیں سکا اور داعش کا خمیر بہار عرب کے پنجروں اور اس کی تنگنائیوں سے اٹھا ہے ناھض کہتا کہ عراق اور شام دونوں انقلاب کی بنیاد کو اگر اوپر والی سطح سے دیکھا جائے یا گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو اس کی بنیاد بہت تنگ نظر فرقہ پرستی پر ہے نہ کہ اس کی بنیاد نیشنل ازم ہے اور یہ انقلاب ایسے گروہوں کی جانب سے لانے کی کوشش ہوئی جو تعصب ،عدم برداشت اور ابال کے احساسات کا شکار تھے اور انھوں نے اس انقلاب میں سارے ہم وطنوں کو شریک کرنے سے انکار کیا اور ان کا مقصد اپنے اوپر مسلط لوگوں سے انتقام کا تھا اور اسے شام میں انھوں نے ایک اقلیتی گروہ سے اور عراق میں ایک غالب گروہ سے انتقام سے تعبیر کیا أولاً، الثورتان، بالأساس وفي العمق وعلى السطح، عبّرتا عن نزعة طائفية مغلقة لا وطنية، مشحونة بالتعصّب والتوتر واختمار مشاعر رفض الشركاء الوطنيين على الجملة، وتصعيد غريزة الانتقام من سلطات يُزعم بأنها تعبّر عن أقلية طائفية (في سوريا)، وتعبّر فعلاً عن أغلبية طائفية في العراق نوٹ:اگر ہم افغانستان اور پاکستان میں اس کو دیکھیں تو یہاں بھی اور وہاں دونوں جگہ اسلامی یا دیوبندی انقلاب کی بنیادیں وہی تنگ نظر فرقہ پرستی ،عدم برداشت اور نسلی و مذھبی تعصبات سے بھرے گروہوں کی پر تھیں اور ہیں ناھض کے مطابق یہ سارا گروہ فرقہ وارانہ سوچ سے مملو تھا اور اس دائرے کے اندر پہلے اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے درمیان معرکہ ہوا جس میں انتہا پسندوں نے اعتدال پسندوں کو خوراک بنایا اور اکثر یوں ہوتا ہے کہ پھر زیادہ انتہا پسند کم انتہا پسندوں کو اپنا رزق بناتے ہیں اور یوں انتہا پسندی کی کمال فکری حالت کا ظہور ہوتا ہے اور ناھض کے مطابق شام اور عراق میں یہی کچھ ہوا اور آج ہمیں عراق اور شام میں اس انتہا پسند فرقہ پرست مثالی شکل کا سامنا ہے جسے ناھض کی اصطلاح میں بدویۃ التکفیریۃ اجرامیہ کہہ سکتے ہیں اور ناھض کے بقول اس کی سب سے مثالی شکل داعش ہے اس کے مطابق داعش اصل میں صحرائی یا بدوی زندگی کی طرف پلٹ پڑنے اور عراق شام سمیت عرب ملکوں میں جو شہری تہذیبی زندگی سامنے آئی ہے اسے تباہ کرنے اور تاریخ کا پہیہ الٹا گھماکر پھر سے غزوات ،فتوحات ،زبج کردینے ،دین و تہذیب کی تطہیر کرنے ،گردنیں مارنے ،عورتوں کو اغواء کرنے ،کنیزیں و لونڈیوں کے بازار پھر سے کھولنے کے دور کو واپس لے آیا جائے جوکہ کسی زمانے میں عرب تاریخ پر چھایا رہا على مهاد التحشيد الطائفي، يبدأ الصراع، داخل ذلك التحشيد، حتمياً؛ فالمتطرف يأكل المعتدل، والأكثر تطرفاً يأكل المتطرف، وهكذا حتى وصلنا إلى اكتمال الصورة الفكرية ــــ التنظيمية التي تعكس العقلية الطائفية كلياً في صيغة بدوية ــــ تكفيرية ــــ اجرامية، تلك التي تمثّلها «داعش»؛ الردة إلى الصحراء، وشطب كل التراث الحضاري الاسلامي، والعودة إلى الغزوات والفتوحات والمذابح والتطهير العرقي والديني وقطع الرؤوس وسبي النساء واستعادة سوق الجواري وكل ذلك المشهد الذي استغرقت المجتمعات العربية ــــ الاسلامية، 14 قرناً لاستيعابه ووأده عندما يطل برأسه، واخضاعه لمنطق الاستقرار والانتاج الزراعي والحرفي والثقافي، أي لمنطق التحضّر المدني. میں جب ناھض کا یہ پیرا گراف پڑھ رہا تھا تو مجھے اچانک خیال آیا کہ ابھی دو روز پہلے میں نے ایک ہندوستانی لکھاری کا ایک آرٹیکل سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر پوسٹ کیا تھا Legacy of Syed Ahmad Baralvi اس میں مصنف نے پاک وہند کے اندر مسلمانوں کے اندر دھشت گردی اور انتہا پسندی کی تاریخی اور فکری جڑوں کا جائزہ لیا تھا اور اس جائزے کے دوران اس نے یہ کہا تھا کہ مغل دور کے زوال کے بعد جتنی بھی تحریکیں جہاد کے نام پر پاک و ہند کے اندر اٹھیں وہ اصل میں ہندوستان کے اندر اس دور حکمرانی کو واپس لانا تھا جس میں ہندؤ ،سکھ سب اشراف و اجلاف مسلمانوں کے ماتحت ہوا کرتے تھے اور اس یوٹوپیا کو حاصل کرنے کے خواب سے شروع ہونے والا سفر وہیں آکر ختم ہوا ہے جسے حضر المدنی سے بدویت کی طرف لوٹنے کا نام ناھض دیتا ہے کیا ایسا نہیں لگتا جیسے نسیم حجازی کے ناولوں کے کردار لوٹ آئے ہوں اور کردار بھی ایک قدرے جذباتی اور انتہائی سنجیدگی کے ساتھ کامیڈی کرنے میں مصروف ہوں ناھض داعش کے پس پردہ تاریخی رشتوں کی تلاش میں جب نکلتا ہے تو وہ داعش کے ظہور کو عرب خطے میں پائے جانے والی فرقہ وارانہ و نسلی بنیادوں پر مستقل عنصر کے طور پر موجود نسل کشی کے تناظر میں دیکھتا ہے اور اسے اسی کا تسلسل بتلاتا ہے اور اس کے نزدیک اس کا سلسلہ عثمانی ایمپائر کے زوال سے انسیویں صدی کے وسط میں شروع ہونے والے اس قتل عام سے شروع جو دمشق اور لبنان میں ہوا تھا اور جب پہلی جنگ عظیم میں عثمانی ترک ہارے تو انھوں نے اپنی شکست کا غصّہ آرمینیوں پر اتارا اور ان کی زبردست نسل کشی کی ناھض کہتا ہے کہ آرمینیوں کے دانشور ،سیاست دان ،فنکار ،شاعر ادیب ،مذھبی رہنماء سبھی تو تہہ تیغ کرڈالے گئے تھے اور آرمینیوں کی قومی شناخت اور ان کے ایک قوم ہونے کو فنا کرڈالا تھا اورایسے رخنے ڈالے کہ آج تک آرمینی ان رخنوں کو بھرنے کی کوشش کررہے ہیں ناھض کہتا ہے کہ اسی زمانے میں عرب یہودیوں کا اخراج اور بے دخلی شروع ہوئی اور عرب یہودی جوکہ عربوں کی تہذیب ،معاشرت اور شہری و دیہی زندگی کا جزو لاینفک تھے ان کو اس سے الگ اور خارج کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور اس وقت کرسچن عرب نے بھی اس اخراج پر خاموشی اختیار کی تھی اور وہآں سے یہ سلسلہ شروع ہوا تو پھر رکا نہیں کلاڈین ۔اسارین ،شہباک عرب ،پھر یہودی عرب ،پھر عیسائی عرب ،پھر یزیدی اور پھر شیعہ اور پھر داڑھی منڈھے اور وہ جو خلیفہ کی بیعت نہ کریں ،وہ سنّی جو شیدائی نذرونیاز و زیارات قبور و مقابر ہوں اور پھر وہ جو ہوں تو سلفی لیکن خلیفہ کی بیعت نہ کریں اور پھر ہ جو جہادیوں کو نکاح کے لیے عورتیں نہ دیں نوٹ:مجھے آرمینیوں کی طرح کا معاملہ پاکستان میں احمدیوں کا نظر آتا ہے جن سے یہ سلسلہ شروع ہوکر کرسچن ،ہندؤ اور شیعہ سے ہوتا ہوا سنّی بریلوی اور وہاں سے ہر اس آدمی تک آن پہنچا ہے جو دیوبندی تکفیریوں سے اتفاق نہیں کرتا ناھض کہتا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ داعش کہ الردہ الی الصحراء یا بدویۃ التکفیریہ الاجرامیہ کا مقابلہ عرب مدنی ثقافتی قومی انقلاب سے کرنے کے خواہش مند ہیں تو اس کا آغاز ہميں خود تنقیدی سے کرنا ہوگا اور یہ خود تنقیدی یہ ہے کہ ہم صہیونیت اور اسرائیل کے بارے میں اظہار خیال اور نفرت کے لیے ان دونوں کے متردادف لفظ بہودی کا استعمال بند کردیں اور یہ جان لیں کہ فلسطین کی آزادی اور فلسطین میں صہونیت کا خاتمہ عرب یہودیوں کی طرف یک جہتی ،ان سے انسانیت پرستی اور قومی محبت پر مبنی بیاںئے کے بغیر ممکن نہیں ہے ناھض کہتا ہے کہ داعش کی جو سخت گیر بدویت اور تکفیریت ہوسکتا ہے جلد ہی سامراجیوں کے ساتھ کسی ایڈجسمنٹ کی صورت میں ختم ہوجائے لیکن داعش کا جو فکری اور نظریاتی اثر ہے اس کا پھیلاؤ بہت زیاہ ہے اور اس کے فی الفور ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اس لیے داعش کے جرائم سے زیادہ داعش کی فکری اور نفسیاتی جڑوں کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے المطلوب الآن، ليس فقط حملة ضد جرائم «داعش»، بل ضد العقلية والسيكولوجية الداعشية التي ثبت أنها متجذرة في العقول والقلوب ناھض نے اگرچہ اپنے اس مضمون میں مذھبی نسلی اقلیتوں کو اپنا موضوع بنایا ہے اور اس نے قومی نسلی اکثریتی عرب گروہوں کے مقابلے مين اقلیتی قومی گروہ جیسے کرد ،خراسانی عرب ،بلوچ ہیں کا زکر نہیں کیا اگرچہ اس نے کلاڈین ،اسارین اور شہباک کا زکر کیا ہے اور اسے عرب مہا قومیت کے تعصب اور نوآبادیاتی تسلسل کو بھی بیان کرتے ہوئے اس کی مذمت کرنی چاہئیے تھی اور اگر کرد اور بلوچ عربوں اور پرشین سے اپنی الگ پہچان بنانے اور الگ قومی ریاست بنانے کے خواہاں ہیں تو اس کی حمایت کا کھل کر اظہار کرنا چاہئیے تھا جو نہیں ہوا شاید ناھض کےالثورة العربية الحضارية میں اس کی گنجائش نہیں بنتی جیسے محمود اچکزئی جیسوں کے ہاں اب سرائيکیوں کی آزادی اور ان کی پنجابیوں سے ہٹ کر شناخت کا سوال اور ان کی آزادی کچھ زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے جیسے وہ پشتون بالادستی کی بات آئے تو اکثر پشتون قوم پرست بھی افغان ہزاروں ،ازبک ،تاجکوں ویسے ہی الگ قومی شناخت ماننے سے انکاری ہوتے ہیں اگرچہ میں ناھض کو اس قدر بے حس خیال نہیں کرتا ہوں لیکن اس مضمون کی اہمیت پھر بھی باقی ہے روزنامہ الاخبار بیروت سے شایع ہوتا ہے اور یہ اخبار مارکسسٹ اور بائیں بازو کی قوم پرستانہ لہروں کی ترجمانی کرتا ہے اور اس کے چیف ايڈیٹر جس کمرے میں بیٹھتے ہیں اس کمرے میں عین ان کی کرسی کے اوپر دیوار پر کارل مارکس کا بڑا سا پوٹریٹ لگا ہے اور یہ روزنامہ لبنان میں ایک طرف تو فیوچر پارٹی جیسی بورژوا پارٹیوں کا سخت مخالف ہے تو دوسری طرف یہ عرب دنیا میں گے ،ليزبین رآئٹس جیسے حساس اور انتہائی خطرناک نتائج کو دعوت دینے والے ایشوز پر بھی مین سٹریم دھارے کے خلاف بات کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مزاحمت کی بنیاد پر یہ حزب اللہ ،حماس کا ساتھ بھی دیتا ہے لیکن مجھے ناھض ان میں سے نہیں لگتا کیوں کہ اس نے اس نے بہودی ہونے کو صہیونی ہونے اور اسرائيلی ریاست کے جرائم میں برابر کا شریک بنانے والی سوچ کا رد کیا ہے اگرچہ یہ اخبار بھی لفظ صہانیہ ہی استعمال کرتا ہے لیکن حماس و اخوان کے بارے میں اخبار کی پالیسی مختلف ہے پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہے کہ اس کے مین سٹریم میڈیا میں ایسا کوئی بھی ميڈیا گروپ یا صحافی نہیں ہے جس نے فرقہ واریت ،تکفیریت ،جہاد ،نسل پرستی کو اس طرح سے دیکھنے کی کوشش کی ہو جیسے ناھض حتر سمیت کئی ایک عرب انٹلیکچوئل دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ اگر کسی نے ایسے وسیع کنویس کے ساتھ دیکھنے کی کوشش کی تو اسے مین سٹریم دھارے کے اخبار اور جریدے سے نکلنا پڑا ،میرے سامنے حیدر جاوید سید کی مثال ہے جو ناھض جیسی اپروچ رکھتے ہیں بلکہ وہ کسی بھی قوم کے حوالے سے تعصب کا شکار نہیں ہیں ان کو روزنامہ مشرق پشاور سے اسی لیے نکلنا پڑا اور پھر کالم بھی بند ہوگئے اور آج پاکستان کا کوئی بھی قومی اخبار حیدر جاوید سید کو اپنے مین ادارتی صفحے پر چھاپنے کو تیار نہیں ہے اور ایسی ہی ایک اور مثال عبدل نیشا پوری کی ہے جو جنگ میں کام کرتے رہے لیکن ان کو اپنی فکری ازادی کے لیے ایک ویب بلاگ کی بنیاد رکھنا پڑی ناھض کا یہ مضمون بیروت کے ایک بڑے ميڈیا گروپ کے عربی ایڈیشن میں شایع ہوا اور اس کے اس مضمون پر یہ تبصرہ اور حاشیہ نگاری پاکستان کے کسی ایک اخبار نے بھی شایع کرنے کی ہمت نہ کی ہم پاکستان میں تکفیریت ،فرقہ واریت ،نام نہاد جہاد ،نسل پرستی کے فکری و نفسیاتی اثرات اور اس کی تاریخی جڑوں کا ایمانداری کے ساتھ اور ایک معروضی تجزیہ کرنے کی ہمت کریں تو بھی پاکستان کے ازاد ميڈیا کی ٹانگیں اس کو چھاپتے ہوئے کانپنے لگتی ہیں اور اگر اس کے دانت نکال دیں تو بھی اس کو چھاپنے سے پہلے ایک وضاحتی نوٹ تیار کیا جاتا ہے جسے اوپر یا نیچے مضمون کے آپ کا منہ چڑانے کے لیے لکھا جاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ چھپے بہت سے ملٹری اسٹبلشمنٹ ،مذھبی فسطائیوں کے جواز ڈھونڈنے والے مضمونوں بلکہ سرخ عمارت میں بیٹھے قومی و خارجہ و سیکورٹی پالسیوں کے خالق اور کنٹرولرز کی سفارش سے آنے والے آرٹیکلز پر کہیں ایسا وضاحتی نوٹ لکھا نظر نہیں آتا تو ہمارے ہاں متبادل بیانئیے ابھی تک اندھیروں اور گمنامی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھرتے ہیں اور ان کو نکاس کی جگہ کی تلاش ہے اگرچہ سوشل میڈیا قدرے ایک کتھارسس ہائیڈ پارک بنکر ابھرا ہے اور اس نے رخنے بھی اس دیوار برلن میں ڈالے ہیں جسے ہم فلسفے کی زبان میں ایپیسٹمک بلاک بھی کہہ سکتے ہیں داعش» التي في العقول والقلوب http://www.al-akhbar.com/node/213125

Sunday, August 3, 2014

نواز شریف کے اقتدار کی ڈولتی ناؤ


پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان 14 اگست کو اسلام آباد لاکھوں افراد کے ساتھ پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیں گے اور اپنے اس پروگرام کو انھوں نے آزادی مارچ کا نام دیا ہے جبکہ وفاقی حکومت نے 14 اگست کو ڈی چوک میں جشن آزادی ،مسلح افواج کی پریڈ کا پروگرام بنایا ہوا ہے انیس سو تہتر کے آئین کی شق 245 کا استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد کو فوج کے حوالے کردیا گیا ہے گویا پاکستان کی مسلح افواج اس دوران اگر کوئی کاروائی عمل میں لائیں تو ان کے اقدامات کو ہائی کورٹس میں چیلنج نہ کیا جاسکے ڈاکٹر طاہر القادری ،چوہدری شجاعت سے پی ٹی آئی کے مذاکرات جاری ہیں اور شنید یہ ہے کہ یہ بھی پی ٹی آئی کے آزادی مارچ کی حمائت کریں گے جبکہ شیعہ سیاسی جماعت مجلس وحدت المسلمین ،سنّی تنظیم سنّی اتحاد کونسل آزادی مارچ کی حمائت کا اعلان کرچکی ہیں اور ایم کیو ایم بھی آخری لمحات میں ڈاکٹر طاہر القادری کے ہم رکاب ہوسکتی ہے اب تک اس سیاسی جوار بھاٹے کا جو مقصد سامنے آرہا ہے اس کا کم از کم ایجنڈا صاف صاف وسط مدتی انتخابات لگتا ہے کیونکہ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان اور ایک انگریزی معاصر اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماء سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہی مطالبہ دوھرایا ہے پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کے فوری بعد کئی ایک حلقوں میں دھاندلی کا الزام عائد کیا اور دو ہفتوں تک احتجاج اور دھرنے چلے اس وقت یہ خدشات موجود تھے کہ کہیں عمران خان بلند توقعات کے برعکس نتیجہ سامنے آنے پر الیکشن کو ماننے سے انکار کرڈالیں لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ عمران خان نے خیبر پختون خوا میں کولیشن گورنمنٹ بنائی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنا شروع کرڈالا اس دوران عمران خان کی طرف سے انتخابی عذرداریاں دائر کی گئیں اور یہاں پر مسلم لیگ نواز کے کامیاب امیدواروں نے عدالتی اسٹے آڈر لینے شروع کئے اور ووٹوں کی تصدیق کا عمل کرانے سے انکار کیا آغاز کار میں ایسا نظر آتا تھا کہ پی ٹی آئی حامد زمان ،عمران خان کی لاہور کی نشستوں اور لودھراں میں جہانگیر ترین کی نشست پر رزلٹ کو ناقبال یقین خیال کررہی ہے اور ان نشستوں پر اگر اس وقت ووٹوں کی تصدیق کا پروسس کرلیا جاتا تو نواز لیگ کی فیس سیونگ ہوسکتی تھی لیکن جیسے جیسے اس معاملے پر مسلم لیگ نواز کی طرف سے ہٹ دھرمی دکھائی گئی اور الیکشن ٹربیونل جاکر انتخابی بے قاعدگیوں کی شکایات کی تفصیل تحقیق سے اور باخبر زرایع سے سامنے آنے لگی اور اس دوران ایک ٹیپ نگران چیف منسٹر نجم سیٹھی کی مبینہ گفتگو کی سامنے آئی اور 35 پنکچر پنجاب میں لگانے کا تذکرہ ہوا ،ایک ایم آئی کے سابق افسر کی نگرانی میں رزلٹ بدلنے کی کہانی سامنے آئی اور پھر نادرا کے سابق چئیرمین طارق ملک کے ساتھ وزیر داخلہ نے جو کیا اس سے شکوک و شبہات بڑھتے چلے گئے اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ،مسلم لیگ ق ،عوامی مسلم لیگ ،مجلس وحدت المسلمین ،سنّی اتحاد کونسل سارے الیکشن کو فراڈ کہہ رہی ہیں جبکہ پی پی پی کی قیادت کہتی ہے کہ انھوں نے جمہوریت کی خاطر الیکشن کو تسلیم کیا گویا ان کو بھی اس الیکشن کے انجئینرڈ ہونے پر شک نہیں ہے میرا خیال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان اور ان کے دیگر رفقاء نے گذشتہ قومی انتخابات کے بارے میں اپنے خیال کو عوام کی اکثریت میں مقبول کردیا ہے اور لوگ اب میاں نواز شریف کے مینڈیٹ کو اصلی خیال نہیں کررہے شنید یہ ہے کہ عدالتی اسٹبلشمنٹ میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی لابی کے میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے کے باوجود اس وقت اسٹبلشمنٹ کا سب سے طاقت ور عنصر یعنی عسکری اسٹـبلشمنٹ غیر جانبدار ہے اور وہ میاں نواز شریف کے مخالفین کو فکس اپ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں ایک معاصر انگريزی اخبار کے مطابق میاں محمد نواز شریف نے اپنے انتہائی قریبی دوستوں کا ایک اجلاس لاہور رائے ونڈ جاتی امراء میں بلایا تھا جس میں کوئی ایک کابینہ کا رکن شامل نہیں تھا اور نہ ہی وفاقی وزیر ااطلاعات ،ترجمان نواز شریف پرویز رشید بھی مدعو تھے اور اس اجلاس میں میاں نواز شریف نے تسلیم کیا کہ ان سے چند موو غلط ہوئیں اور وہ یہ تسلیم کررہے تھے کہ ان کی حکومت پر ون مین شو ہونے کا امیج بری طرح سے چسپاں ہوگیا ہے جس سے وہ نکلنا چاہتے ہیں مسلم لیگ نواز کی سیاسی تنہائی میں اضافہ اور عوام کے اندر ان کی ساکھ کے بری طرح سے گرجانے کی ایک وجہ ان کی حکومت کے بلند وبانگ دعوے اور جھوٹی میڈیا کمپئین بھی بنی ہے جب سے یہ حکومت آئی ہے اس وقت سے مہنگائی نے بڑھنا شروع کیا ہے اور اس میں کمی دیکھنے کو نہیں مل رہی جبکہ اس حکومت نے 500 ارب سرکلر ڈیٹ کی مد میں بجلی کی کمپنیوں کو پری آڈٹ کے بغیر دے ڈالے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ ميں کمی کے دعوے کئے لیکن پتہ یہ چلا کہ بجلی ایک طرف تو بہت مہنگی ہوئی دوسرا بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہونے کی بجائے اور بڑھ گئی اور یہ رمضان اور عید تو اس بحران کے سنگین ہونے میں خود نواز لیگ کی ساکھ کو بھی بٹھا گیا بجلی کی پیداوار ،گیس کی لوڈشیدنگ ختم کرنے کے لیے قطر سے گیس کی درآمد کے حوالے سے بھی حکومت کا کوئی ایک دعوی پورا نہیں ہوا بلکہ نندی پور پاور پروجیکٹ ،تونسہ اچ پاور پلانٹ ،گدو پاور پلانٹ کے بجلی کی پیداوار شروع کرنے کے نام پر افتتاحی تقاریب ہوئیں ،کروڑوں کے کے اشتہارات جاری کئے گئے لیکن پتہ چلا کہ وہ سب کاغذی اعلانات تھے میگا پروجیکٹس افسانہ ہائے ترقی کا کاروبار نواز شریف اور ان کے مشیروں اور ان کے بھائی شہباز شریف نے شروع کیا اور اربوں روپوں کے پروجیکٹس شروع ہوچکے ہیں لیکن چراغ تلے اندھیرے کے مصداق سرکاری تعلیمی اداروں ،ہسپتالوں ،روڈ انفراسٹرکچر کی حالت بہت بری ہوچکی ہے اور غربت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے ،چند اربن سنٹرز میں ساری ترقی مرتکز ہے اور وہاں بھی امیر اور غریب میں بے تحاشا خلیج پیدا ہوئی ہے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ روالپنڈی ،ملتان ،لاہور کے ہسپتالوں کے لیے ،کئی ایک تعلیمی اداروں کے لیے ،ادویات کی فراہمی کے لیے فنڈز نہیں ہیں لیکن میٹرو بس ،فلائی اوورز اور مونو ٹرین منصوبوں کے لیے پیسہ ہے خود سنٹرل پنجاب میں مڈل کلاس اور غریب شہری و دیہی آبادی کے اندر سخت بے چینی پائی جاتی ہے اور نوجوان بے روزگاروں کی ایک فوج ہے جس کو دینے کے لیے مسلم لیگ نواز کی حکومت کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور اس نے مسلم لیگ نواز کے سیاسی حمایت کے قلعے تصور ہونے والے شہروں میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کی انقلابی لفاظی اور تبدیلی کے نعرے کو مقبول کیا ہے جبکہ پنجاب کا سرائيکی ریجن تو اس دوسرے دور میں مسلم لیگ نواز کی پہلے سے زیادہ معتصبانہ اور شاؤنسٹ پالیسیوں کا مشاہدہ کررہا ہے اور یہاں بھی بھوک راج ہے اور ننگ روائت اور ایسے میں اس ریجن میں مسلم لیگ نواز کا روایتی حامی سمجھے جانے والا دوکاندار ،پروفیشنل ،اور درمیانہ صنعت کار پرتیں جو پیٹی بورژوازی پرت کہلاتی ہے جس کی ایک معتدبہ تعداد پہلے ہی پی ٹی آئی کا رخ کرچکی تھی اب اور تیزی سے پی ٹی آئی کی ہمنواء بن رہی ہے اور لمپن پرولتاریہ یعنی کچے مزدور اور انڈسٹریل ایریا کی نچلی مزدور پرتیں یہ بھی عمران خان کی سیاست اور طاہر القادری کے ریڈیکل سیاسی و معاشی نعروں سے متاثر نظر آتے ہیں میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی پاکستان کے اندر دھشت گردی اور فرقہ پرستانہ سوچ رکھنے والوں کے حوالے سے ایک طرح سے ناکام سیاسی حکمت عملی کا شکار ہوئے ہیں اور اس ناقص حکمت عملی میں ان کے بھائی چیف منسٹر شہباز شریف کی غلطیوں کا بہت ہاتھ ہے پنجاب اور سندھ میں بریلوی سنٹر رائٹ جماعتوں نے ہمیشہ سے نواز شریف کا ساتھ دیا تھا لیکن یہ اتحاد وقت گزرنے کے ساتھ کمزور پڑتا گیا اور اس وقت سنٹر رائٹ بریلوی سیاسی تںظیموں ميں طاقت ور سیاسی تنظیمين سنّی اتحاد کونسل ،پاکستان سنّی تحریک ،جمعیت العلمائے پاکستان ،نظام مصطفی پارٹی وغیرہ ان کے ساتھ نہیں ہیں اور مخالف کیمپ میں کھڑی ہیں جبکہ شیعہ سنٹر رائٹ بھی ان سے ناراض ہے اور اب جبکہ شمالی وزیرستان کے فوجی آپریشن کو نواز شریف نے پوری طرح سے اون کیا ہے تو دیوبندی سنٹر رائٹ بھی ان سے خوش نظر نہیں آرہا اور اہل حدیث سنٹر رائٹ اور فار رائٹ جیسے جماعت دعوہ ہے وہ کشمیر ،افغانستان ،جیو بمقابلہ آئی ایس آئی جیسے واقعات کی وجہ سے نواز شریف سے دور ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ بہت تیزی سے نواز شریف نے مختلف مسالک کے سنٹر رائٹ گروپوں کو یا تو نیوٹرل کردیا یا ان کو مخالف کیمپ میں کھڑا کردیا پاکستان میں جہاں مسلم لیگ نواز کو سنٹر رائٹ سے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہیں مسلم لیگ نواز کی حکومت کی بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت کی وجہ سے پی پی پی جیسی بڑی لبرل ڈیموکریٹک جماعت بھی اس سے زرا فاصلہ رکھنے اور کہیں کہیں حکومت کے خلاف تند و تیز بیانات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے سابق وزیر ا‏عظم سید یوسف رضا گیلانی کی کراچی میں مشرف -حکومت-نواز لیگ معاہدے کی کہانی پر مشتمل پریس کانفرنس ،زرداری کی جانب سے وزیر اعظم منتحب کرنے بادشاہ نہ بنائے جانے کا بیان ایسے تھے جنھوں نے نواز لیگ کو اور کونے میں دھکیلا ہے اس سارے معاملے کو دیکھتے ہوئے یہ نظر آتا ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف مڈٹرم انتخابات کے موقف پر ڈٹی رہی تو پھر مڈ ٹرم انتخابات کے انعقاد کے سوا اور کوئی آئین کے اندر رہتے ہوئے طریقہ کار نہیں ہے اس ساسی بحران کے حل ہونے کا مسلم لیگ نواز کی قیادت نے پارلیمنٹ کے اندر اس معاملے کے نمٹ جانے کے امکان کو ضایع کرڈالا ہے اور اب پانچ سال حکمرانی کی ٹرین میں سوار رہنے کا خواب شرمندہ تعیبر ہوتا نظر نہیں آرہا ایک بات بہت حیرت انگیز ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان بھر کے تمام سیاسی و صحافتی حلقے کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کا یہ ممکنہ زوال حزب اختلاف کی شاندار اور بے عیب حکمت علمی کا نتیجہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اس حکومت کی کوہ ہمالیائی غلطیوں اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار وزیروں اور مشیروں نے حکومت کو اس حال تک پہنچایا ہے اور خود مسلم لیگی کیمپ کا حال یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے پر الزام دھرتا نظر آتا ہے اور ساری حکومتی ٹرین کے ڈبوں کو باہمی جوڑنے والی کڑیاں بس ایک جھٹکے کی دیر ہے کہ سارے ڈبے بمعہ انجن سیاسی پٹری سے اترتے نظر آتے ہیں

Friday, August 1, 2014

بلوچ قومی مزاحمت کتاب کلچر و سامراجیت کے آئینے میں


جب میں فلسطینی عرب نژاد دانشور ایڈورڈ سعید کی کتاب "کلچر اور امپریلزم " فرانز فینن کی کتاب "ریچڈ آف ارتھ " اور "بلیک سکن اینڈ وائٹ ماسک " کا مطالعہ کرچکا اور ساتھ ہی اقبال احمد کے چند ایک مضامین کو پڑھ چکا تو مجھے اسی دوران بلوچ شاعروں ،ادبیوں اور ساسی دانشوروں کی ںگارشات پڑھنے کا اتفاق بھی ہوگیا ہے اور اس سے پہلے میں رفعت عباس ،اشو لال ،حفیظ خان ،حیدر جاوید سید جیسے سرائیکی دانشوروں کی فکر اور سوچ سے بھی کافی حد تک واقف ہوچکا تھا تو میرے زھن میں بے اختیار ایک بات یہ منکشف ہوئی کہ جس طرح سے ایڈورڈ سعید نے مشرق کو اپنے ڈسکورس کے ساتھ مغرب کی جانب سے بیان کرنے کی حقیقت کو منکشف کرتے ہوئے اس بیانیہ کے کالونیل ،امپریلسٹ ،حاکمانہ ہونے کی طرف اشارا کیا تھا اور فرانز فینن نے نوآبادیات کے خاتمے کے بعد بورژوازی اور جاگیردار حکمران اشرافیہ اور ان کی مددگار ودردی ،بے وردی نوکر شاہی نے اسی وآئٹ ڈسکورس کے ساتھ عوام کے ساتھ جو سلوک کیا جسے بلیک سکن کے ساتھ وائٹ ماسک کا نام فینن دیتا ہے تو یہی عمل پاکستان کے اندر بلوچ ،پشتون ،سندھی سرائیکی نیٹوز کے ساتھ اس حکمران کلاس نے کیا جس کی بھاری اکثریت پنجابی اور اردو بولنے والے مہاجر لوگوں پر مشتمل تھی ابھی حال ہی میں مجھے کے بی فراق جو کہ گوادر شہر سے تعلق رکھنے والے ایک استاد پیشہ شاعر ،ادیب دانشور ہیں کی کچھ نظمیں موصول ہوئیں اور پھر ایک اور بلوچ شاعر کی نظم لاپتہ ہوجانے والے بلوچ لوگوں پر ملی اور اسی طرح سے ایک نظم زبیر احمد آف تونسہ کی پڑھنے کا اتفاق ہوا اس سے مجھے اخوبی اندازہ ہوا کہ پاکستان کی ریاست اور اس کے حکمران طبقات نے جو بیانیہ اور ڈسکورس بلوچ ،سرائیکی ،سندھی ،پشتون ،گلگتی بلتی ،کشمیری اقوام کے بارے میں تشکیل دیا تھا اور ان کے کلچر ،زمین اور تاریخ کے بارے میں اپنایا تھا جس کی حقیقت ایک دوسرے زاویہ سے سامراجی اور نوآبادیاتی ہی تھی اور یہ ایک طرح سے مقامی حکمرانوں کا کالونیل ماسک تھا جو انھوں نے برٹش سامراج کے جانے کے بعد پہن رکھا ہے اس کو پاکستان کی محکوم اور مظلوم اقوام کے دانشوروں ،ادیبوں ،انقلابی سیاسی کارکنوں نے چیلنچ کرنا شروع کردیا ہے ایڈورڈ سعید کی کتاب کلچر اینڈ امپریلزم کا ایک باب "مخالفت اور مزاحمت " کے عنوان سے ہے اور اس کتاب کے اس باب سے چند ایک پیراگراف اپنے چند اخذ کردہ نتائج کے ساتھ یہاں درج کرتا ہوں تاکہ میرے اوپر زکر کردہ بات کی مزید وضاحت ہوسکے "مغربی لوگوں کو اب بخوبی پتہ ہے کہ انھوں نے محکوم بنائے لوگوں کی تاریخ اور ثقافتوں کے بارے مں جو کہا اسے خود محکوم لوگوں نے چیلنج کرنا شروع کردیا ہے وہ لوگ جو چند سال پہلے خود بھی اور ان کی ثفاقتیں ،زمین بھی اور تاریخ بھی عظیم مغربی ایمپائر اور اس کے منظم ڈسکورس کا حصّہ تھے (اب خود اس ڈسکورس کو چیلنج کررہے ہیں) آج اگر آپ پاکستان کی ریاست ،اس کے سیاسی حکمران ،وردی بے وردی نوکر شاہی ،بورژوازی سرمایہ دار میڈیا اور سرکاری نصاب تعلیم اور سرکاری پروپیگنڈا مشین اور ان کی مددگار دائیں بازو کی مذھبی تنظیمیں ان کو دیکھیں تو ان کی تمام تر کوششوں کا مرکز اس شعور کو رد کرنا ہے جو بلوچ قوم کے اندر اس وقت غالب ہے اور وہ ریاست اور اس کے حاکموں کے ڈسکورس کو چیلنج کرتا ہے اگرچہ حاکموں کی اپنی سرزمین پر حاکموں کا اپنا ڈسکورس غالب ہے لیکن بلوچ قوم کے اندر اس ڈسکورس کو چیلنچ کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور یہ حاکموں کے مہا بیانیہ کو جو پاکستانی نیشنل ازم ،اسلام ،دو قومی نظریہ اور اردو کے ملغوبے سے ملکر بنا ہے اسے پنجابی سامراجی مہابیانیہ کے طور پر چیلنج کرتا ہے اب زرا ایڈورڈ سعید کی مذکورہ کتاب کے اس پیرا گراف کو پڑھیے "نوآبادیاتی مخالف اور لامحالہ سامراجی مخالف سرگرمی ،خیال کی طاقت ور لہر مغربی ایمپائر کے بھاری بھر کم بیانیے پر غلبہ پاچکی ہے اور پہلی مرتبہ مغربیوں کو نہ صرف اپنے راج کے مالک ہونے بلکہ ایک ایسے کلچر اور نسل کے نمائندے کے طور پر بھی مزاحمت کا سامنا ہے جس پر دھشت گردی ،جبر وستم اور ضمیر کے مجرم ہونے کا الزام ہے "
اس پیرا گراف کو اگر بلوچستان کے کیس کے مطابق کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان مخالف لامحالہ سامراج مخالف سرگرمی یا خیال کی طاقت ور بلوچ مزاحمتی لہر پاکستانی ریاست کے بھاری بھر کم بیانیہ پر غالب آچکی ہے اور پہلی مرتبہ پاکستانی ریاست کے کرتا دھرتاؤں کو نہ صرف پاکستانی ریاست کے سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے اعتبار سے بلوچستان کو محکوم رکھنے والے کلچر اور نسل کے نمايندے کے طور پر بھی مزاحمت کا سامنا ہے اور اس پر دھشت گردی جبر وستم اور ضمیر کے مجرم ہونے کے الزامات بھی ہیں اس وقت پاکستان کے حکمران طبقات کی جو خوشحالی اور حکمران طبقات کی موجودہ صورت گری جو ہے وہ اصل میں بلوچ قوم ،سندھی قوم سمیت دیگر مظلوم اقوام کے وسائل کی بے انتہا لوٹ مار اور ان اقوام کے بدترین استحصال کا نتیجہ ہےاور ان کی بے انتہا قربانیوں کا اور فرانز فینن اپنی کتاب ریچڈ آف ارتھ میں لکھتا ہے کہ تیسری دنیا یورپ کا کلوسل ماس کے طور پر سامنا کررہی ہے اور اس مقابلے کا مقصد ان مسائل کا حل ہونا چاہئیے جسے یورپ حل کرنے سے قاصر ہے ،مغرب کے خلاف مزاحمت اور بغاوت پہلے بھی ہوئیں لیکن موجود صورت حال میں ایمپائر کے خلاف اس کے ایک ظالم وجابر ثقافتی وجود کے خلاف پائیدار اور مستحکم مزاحمت پہلی مرتبہ سامنے آئی ہے پیسفک سے لیکر انٹلاٹک تک سفید فام کے خلاف طویل عرصے سے موجود جذبات مکمل آزادی کی تحریکوں میں بدل چکے ہیں ،پین افریقی اور پین ایشیائی عسکریت پسند ابھرے ہیں جن کو اب روکا نہیں جاسکتا دو عظیم جنگوں کے درمیان جو عسکریت پسند گروپ تھے وہ مکمل طور پر مغربی کالونیل مہا بیانیہ کے خلاف نہیں تھے ،بعض کا خیال تھا کہ اس مہا بیانیہ کے اندر رہتے ہوئے اگر مسیحیت سے رجوع کرلیا جائے تو نجات مل جائے گی اور بعض کا خیال تھا کہ اگر اسلام سے اس مہا بیاںئے کی مطابقت ہوجائے تو نجات مل جائے گی اور بعض سمجھتے تھے کہ پوری طرح سے اس غرب زدگی میں اگر خود کو ڈھال لیا جائے تو نجات مل سکتی ہے باسل ڈیوڈسن کہتا ہے کہ افریقہ میں اس خیال کے حامل لوگ ہربرٹ میکاولی ،لیوپولڈ سنگرور ،جے ایچ کین لے ہیفرڈ ،سیموئل اھوجا تھے جبکہ عرب میں زغلول پاشا ،نوری السعید ،بشار الکھوری تھے نوٹ:ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں اس خیال کے حامل سرسید ،اقبال ،راجہ موہن رائے اور سندھیوں میں ہم ابتدائی سندھی دانشوروں کو اس صف میں شامل کرسکتے ہیں یہاں تک کہ انقلابی لیڈر جیسے ہوجی منھ تھے ان کا ابتداء میں خیال تھا کہ مہا بیانیہ میں کچھ مناسب ترمیم کرکے نوآبادیاتی غلامی سے نجات پائی جاسکتی ہے مگر ان دانشوروں کی اس ترمیم پسندی کو بھی میٹرو پول میں کوئی پذیرائی نہ ملی اور اس طرح سے یہ ترمیم پسندی یا اصلاح پسندی مکمل مزاحمت میں بدل گئی فرانز فینن کی کتاب ریچڈ آف ارتھ میں سارتر مغربی ڈسکورس کے خلاف نوآبادیات کی اقوام کی مزاحمت کے ارتقاء کے بارے میں اپنے دیباچے کے اندر لکھتا ہے کہ اگر کالونیل ازم ایک سسٹم تھا تو پھر مزاحمت بھی خودبخود ایک سسٹم کی شکل اختیار کرنے لگی اس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب نوآزاد کالونی میں ایک سسٹم کے تحت وائٹ ماسک پہنے بلیک و رنگ دار نسلوں کی حکمران کلاس نے استحصال جاری رکھا اور اسے ایک سسٹم میں ڈھلا رہنے دیا تو مزحمت بھی بتدریج ایک سسٹم میں ڈھل گئی سارتر مزید کہتا ہے دنیا حقیقت میں دو باہم متصادم گروپوں میں تقسیم ہے ایک طرف 5 ملین افراد ہیں اور دوسری طرف ایک سو پانچ ملین مقامی آج بھی سامراج اور اس کے ماسک پہنے مقامی حکمران تاریخ کو دن اور رات میں واقعات کی گنتی کرنے والی مشین خیال کرتے ہیں لیکن ڈیوڈسن کے بقول یہ تو دماغوں پر منکشف ہونے اور دلوں پر الہام کی طرح نازل ہونے اور عوام کے کلچر اور عوام کے ظلم اور جبر کے خلاف ھیجانی ردعمل کی صورت ظاہر ہوتی ہے اور یہ مادی حقیقتوں ،معاشی حقیقت اور معروضی اشیاء کے درمیان تالیف کا کام کرتی ہے ڈیوڈسن نے بالکل ٹھیک لکھا کہ جابر مہابیانیہ کے خلاف متعدد اور متنوع تکثیری چھوتے چھوٹے رد بیانیے اور ثقافتی رد عمل سامنے آتے ہیں اور ان سب میں تبدیلی کی امید شدید اور مشترک ہوتی ہے اور اس امید سے انسپائر ہونا مشترک ہوتا ہے اور یہ بڑے پیمانے پر اس میں کشش پائی جاتی ہے اور تاریخ ایک نئے راستے پر گامزن ہوتی ہے محکوم علاقوں میں سامراجیت کا سوال دونوں یعنی محکوم اور حاکم دونوں کے لیے اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ دونوں نے اسے کیسے دیکھا ایڈورڈ سعید نے مزاحمتی اور آزادی کی تحریکوں کی ایک اور خاصیت کی جانب بھی اشارہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ محکوم اور مظلوم اقوام جب اپنی آزادی کی جدوجہد اور لڑائی شروع کرتی ہیں اور حاکموں اور حکمرانوں کو چیلنج کرتی ہیں اور ان کے ڈسکورس کو رد کرتی ہیں تو وہ اپنی تحریک آزادی اور مزاحمت کو اچانک پھوٹ پڑنے یا کسی تسلسل کے بغیر ہونے کی نفی کرتے ہوئے اسے تاریخ میں ایک تسلسل کے ساتھ جوڑتے ہیں جیسے الجزائر کی نیشنل لبریشن فرنٹ نے 1954ء میں فرانس کے خلاف اپنی بغاوت کی جڑیں امیر عبدالقادر کی تحریک میں تلاش کیں جو کہ فرانسیسی قبضے کے خلاف 1830ء اور 1840ء کے درمیان لڑا تھا اور اسی طرح گنی اور مالی کی قومی مزاحمتی تحریکوں نے اپنی جڑیں کئی صدیوں پہلے سامورے اور حاجی عمر کی تحریکوں میں تلاش کیں
اس بات کو اگر ہم سندھی ،بلوچ ،سرائیکی ،پشتون ،گلگتی بلتی ،کشمیری مزاحمتی تحریکوں پر منطبق کریں تو تو وہاں بھی اپنی مزاحمتی تحریکوں کو دور ماضی میں ہونے والی بغاوتوں اور مزاحمتوں کی جڑوں میں تلاش کرنے کا رویہ پاتے ہیں ایڈورڈ سعید لکھتا ہے کہ مزاحمت اور آزادی کی ان تحریکوں کو اس وقت بھی مغربیوں نے مسخ کرنے کی کوشش کی اور انھوں نے اسے بے اطمینانی اور اس ناکامی سے تعبیر کیا جو ان اقوام کو اپنے حاکموں سے ریلیف کی صورت ملنے کی توقع پوری نہ ہونے سے پیدا ہوئی بلوچستان کے معاملے پر جب بھی بات ہو تو ہم اسلام آباد اور اس کے ہمنواؤں سے ایک ہی بات سنتے ہیں اور وہ ہے احساس محرومی اور بے چینی اور وہ ان تحریکوں کے پیچھے اس نئے ڈسکورس کی موجودگی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو حاکم کے مہا بیانیہ کو چیلنچ کرہا ہوتا ہے بلوچ ،سندھی ،سرائيکی ،گلگت بلتستان ،کشمیری اور پختون قومی سوالوں پر آج بھی پنجابی حکمران کلاس کے ترتیب دئے ہوئے مہا بیانیوں کے حامی بلوچستان کے نورزخان ،سرائیکیوں کے احمد خان کھرل ،سندھیوں کے مراد سندھی وغیرہ کے کردار کو قومی مزاحمتی پہلو اور اس سے ابھرنے والے ھیروازم کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں اگرچہ یہ ابھی تھوڑے سے غیر پختہ خیالات ہیں جو میں نے پاکستان میں قومی مزاحمتی تحریکوں کے کچھ ایسے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جو ابھی زیادہ ڈسکسس نہیں ہورہے جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے پاکستان کی ریاست جو عالمی سامراجیت کی غلامی میں جنگوں کو پھیلارہی ہے اور اس کی جانب سے اس وقت پاکستانی نیشنل ازم ،اسلام ،اردو وغیرہ کے ملغوبے کے ساتھ جو جنگجویانہ ڈسکورس بنایا گیا ہے اس کو چیلنج کرنے کا عمل تیزی سے ترقی کررہا ہے اور ہمیں بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئیے