جب میں فلسطینی عرب نژاد دانشور ایڈورڈ سعید کی کتاب "کلچر اور امپریلزم " فرانز فینن کی کتاب "ریچڈ آف ارتھ " اور "بلیک سکن اینڈ وائٹ ماسک " کا مطالعہ کرچکا اور ساتھ ہی اقبال احمد کے چند ایک مضامین کو پڑھ چکا تو مجھے اسی دوران بلوچ شاعروں ،ادبیوں اور ساسی دانشوروں کی ںگارشات پڑھنے کا اتفاق بھی ہوگیا ہے اور اس سے پہلے میں رفعت عباس ،اشو لال ،حفیظ خان ،حیدر جاوید سید جیسے سرائیکی دانشوروں کی فکر اور سوچ سے بھی کافی حد تک واقف ہوچکا تھا تو میرے زھن میں بے اختیار ایک بات یہ منکشف ہوئی کہ جس طرح سے ایڈورڈ سعید نے مشرق کو اپنے ڈسکورس کے ساتھ مغرب کی جانب سے بیان کرنے کی حقیقت کو منکشف کرتے ہوئے اس بیانیہ کے کالونیل ،امپریلسٹ ،حاکمانہ ہونے کی طرف اشارا کیا تھا اور فرانز فینن نے نوآبادیات کے خاتمے کے بعد بورژوازی اور جاگیردار حکمران اشرافیہ اور ان کی مددگار ودردی ،بے وردی نوکر شاہی نے اسی وآئٹ ڈسکورس کے ساتھ عوام کے ساتھ جو سلوک کیا جسے بلیک سکن کے ساتھ وائٹ ماسک کا نام فینن دیتا ہے تو یہی عمل پاکستان کے اندر بلوچ ،پشتون ،سندھی سرائیکی نیٹوز کے ساتھ اس حکمران کلاس نے کیا جس کی بھاری اکثریت پنجابی اور اردو بولنے والے مہاجر لوگوں پر مشتمل تھی
ابھی حال ہی میں مجھے کے بی فراق جو کہ گوادر شہر سے تعلق رکھنے والے ایک استاد پیشہ شاعر ،ادیب دانشور ہیں کی کچھ نظمیں موصول ہوئیں اور پھر ایک اور بلوچ شاعر کی نظم لاپتہ ہوجانے والے بلوچ لوگوں پر ملی اور اسی طرح سے ایک نظم زبیر احمد آف تونسہ کی پڑھنے کا اتفاق ہوا اس سے مجھے اخوبی اندازہ ہوا کہ
پاکستان کی ریاست اور اس کے حکمران طبقات نے جو بیانیہ اور ڈسکورس بلوچ ،سرائیکی ،سندھی ،پشتون ،گلگتی بلتی ،کشمیری اقوام کے بارے میں تشکیل دیا تھا اور ان کے کلچر ،زمین اور تاریخ کے بارے میں اپنایا تھا جس کی حقیقت ایک دوسرے زاویہ سے سامراجی اور نوآبادیاتی ہی تھی اور یہ ایک طرح سے مقامی حکمرانوں کا کالونیل ماسک تھا جو انھوں نے برٹش سامراج کے جانے کے بعد پہن رکھا ہے اس کو پاکستان کی محکوم اور مظلوم اقوام کے دانشوروں ،ادیبوں ،انقلابی سیاسی کارکنوں نے چیلنچ کرنا شروع کردیا ہے
ایڈورڈ سعید کی کتاب کلچر اینڈ امپریلزم کا ایک باب "مخالفت اور مزاحمت " کے عنوان سے ہے اور اس کتاب کے اس باب سے چند ایک پیراگراف اپنے چند اخذ کردہ نتائج کے ساتھ یہاں درج کرتا ہوں تاکہ میرے اوپر زکر کردہ بات کی مزید وضاحت ہوسکے
"مغربی لوگوں کو اب بخوبی پتہ ہے کہ انھوں نے محکوم بنائے لوگوں کی تاریخ اور ثقافتوں کے بارے مں جو کہا اسے خود محکوم لوگوں نے چیلنج کرنا شروع کردیا ہے
وہ لوگ جو چند سال پہلے خود بھی اور ان کی ثفاقتیں ،زمین بھی اور تاریخ بھی عظیم مغربی ایمپائر اور اس کے منظم ڈسکورس کا حصّہ تھے (اب خود اس ڈسکورس کو چیلنج کررہے ہیں)
آج اگر آپ پاکستان کی ریاست ،اس کے سیاسی حکمران ،وردی بے وردی نوکر شاہی ،بورژوازی سرمایہ دار میڈیا اور سرکاری نصاب تعلیم اور سرکاری پروپیگنڈا مشین اور ان کی مددگار دائیں بازو کی مذھبی تنظیمیں ان کو دیکھیں تو ان کی تمام تر کوششوں کا مرکز اس شعور کو رد کرنا ہے جو بلوچ قوم کے اندر اس وقت غالب ہے اور وہ ریاست اور اس کے حاکموں کے ڈسکورس کو چیلنج کرتا ہے
اگرچہ حاکموں کی اپنی سرزمین پر حاکموں کا اپنا ڈسکورس غالب ہے لیکن بلوچ قوم کے اندر اس ڈسکورس کو چیلنچ کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور یہ حاکموں کے مہا بیانیہ کو جو پاکستانی نیشنل ازم ،اسلام ،دو قومی نظریہ اور اردو کے ملغوبے سے ملکر بنا ہے اسے پنجابی سامراجی مہابیانیہ کے طور پر چیلنج کرتا ہے
اب زرا ایڈورڈ سعید کی مذکورہ کتاب کے اس پیرا گراف کو پڑھیے
"نوآبادیاتی مخالف اور لامحالہ سامراجی مخالف سرگرمی ،خیال کی طاقت ور لہر مغربی ایمپائر کے بھاری بھر کم بیانیے پر غلبہ پاچکی ہے اور پہلی مرتبہ مغربیوں کو نہ صرف اپنے راج کے مالک ہونے بلکہ ایک ایسے کلچر اور نسل کے نمائندے کے طور پر بھی مزاحمت کا سامنا ہے جس پر دھشت گردی ،جبر وستم اور ضمیر کے مجرم ہونے کا الزام ہے "
اس پیرا گراف کو اگر بلوچستان کے کیس کے مطابق کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ
پاکستان مخالف لامحالہ سامراج مخالف سرگرمی یا خیال کی طاقت ور بلوچ مزاحمتی لہر پاکستانی ریاست کے بھاری بھر کم بیانیہ پر غالب آچکی ہے اور پہلی مرتبہ پاکستانی ریاست کے کرتا دھرتاؤں کو نہ صرف پاکستانی ریاست کے سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے اعتبار سے بلوچستان کو محکوم رکھنے والے کلچر اور نسل کے نمايندے کے طور پر بھی مزاحمت کا سامنا ہے اور اس پر دھشت گردی جبر وستم اور ضمیر کے مجرم ہونے کے الزامات بھی ہیں
اس وقت پاکستان کے حکمران طبقات کی جو خوشحالی اور حکمران طبقات کی موجودہ صورت گری جو ہے وہ اصل میں بلوچ قوم ،سندھی قوم سمیت دیگر مظلوم اقوام کے وسائل کی بے انتہا لوٹ مار اور ان اقوام کے بدترین استحصال کا نتیجہ ہےاور ان کی بے انتہا قربانیوں کا اور
فرانز فینن اپنی کتاب ریچڈ آف ارتھ میں لکھتا ہے کہ
تیسری دنیا یورپ کا کلوسل ماس کے طور پر سامنا کررہی ہے اور اس مقابلے کا مقصد ان مسائل کا حل ہونا چاہئیے جسے یورپ حل کرنے سے قاصر ہے ،مغرب کے خلاف مزاحمت اور بغاوت پہلے بھی ہوئیں لیکن موجود صورت حال میں ایمپائر کے خلاف اس کے ایک ظالم وجابر ثقافتی وجود کے خلاف پائیدار اور مستحکم مزاحمت پہلی مرتبہ سامنے آئی ہے
پیسفک سے لیکر انٹلاٹک تک سفید فام کے خلاف طویل عرصے سے موجود جذبات مکمل آزادی کی تحریکوں میں بدل چکے ہیں ،پین افریقی اور پین ایشیائی عسکریت پسند ابھرے ہیں جن کو اب روکا نہیں جاسکتا
دو عظیم جنگوں کے درمیان جو عسکریت پسند گروپ تھے وہ مکمل طور پر مغربی کالونیل مہا بیانیہ کے خلاف نہیں تھے ،بعض کا خیال تھا کہ اس مہا بیانیہ کے اندر رہتے ہوئے اگر مسیحیت سے رجوع کرلیا جائے تو نجات مل جائے گی اور بعض کا خیال تھا کہ اگر اسلام سے اس مہا بیاںئے کی مطابقت ہوجائے تو نجات مل جائے گی اور بعض سمجھتے تھے کہ پوری طرح سے اس غرب زدگی میں اگر خود کو ڈھال لیا جائے تو نجات مل سکتی ہے
باسل ڈیوڈسن کہتا ہے کہ افریقہ میں اس خیال کے حامل لوگ ہربرٹ میکاولی ،لیوپولڈ سنگرور ،جے ایچ کین لے ہیفرڈ ،سیموئل اھوجا تھے جبکہ عرب میں زغلول پاشا ،نوری السعید ،بشار الکھوری تھے
نوٹ:ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں اس خیال کے حامل سرسید ،اقبال ،راجہ موہن رائے اور سندھیوں میں ہم ابتدائی سندھی دانشوروں کو اس صف میں شامل کرسکتے ہیں
یہاں تک کہ انقلابی لیڈر جیسے ہوجی منھ تھے ان کا ابتداء میں خیال تھا کہ مہا بیانیہ میں کچھ مناسب ترمیم کرکے نوآبادیاتی غلامی سے نجات پائی جاسکتی ہے
مگر ان دانشوروں کی اس ترمیم پسندی کو بھی میٹرو پول میں کوئی پذیرائی نہ ملی اور اس طرح سے یہ ترمیم پسندی یا اصلاح پسندی مکمل مزاحمت میں بدل گئی
فرانز فینن کی کتاب ریچڈ آف ارتھ میں سارتر مغربی ڈسکورس کے خلاف نوآبادیات کی اقوام کی مزاحمت کے ارتقاء کے بارے میں اپنے دیباچے کے اندر لکھتا ہے کہ
اگر کالونیل ازم ایک سسٹم تھا تو پھر مزاحمت بھی خودبخود ایک سسٹم کی شکل اختیار کرنے لگی
اس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب نوآزاد کالونی میں ایک سسٹم کے تحت وائٹ ماسک پہنے بلیک و رنگ دار نسلوں کی حکمران کلاس نے استحصال جاری رکھا اور اسے ایک سسٹم میں ڈھلا رہنے دیا تو مزحمت بھی بتدریج ایک سسٹم میں ڈھل گئی
سارتر مزید کہتا ہے
دنیا حقیقت میں دو باہم متصادم گروپوں میں تقسیم ہے ایک طرف 5 ملین افراد ہیں اور دوسری طرف ایک سو پانچ ملین مقامی
آج بھی سامراج اور اس کے ماسک پہنے مقامی حکمران تاریخ کو دن اور رات میں واقعات کی گنتی کرنے والی مشین خیال کرتے ہیں لیکن ڈیوڈسن کے بقول یہ تو دماغوں پر منکشف ہونے اور دلوں پر الہام کی طرح نازل ہونے اور عوام کے کلچر اور عوام کے ظلم اور جبر کے خلاف ھیجانی ردعمل کی صورت ظاہر ہوتی ہے اور یہ مادی حقیقتوں ،معاشی حقیقت اور معروضی اشیاء کے درمیان تالیف کا کام کرتی ہے
ڈیوڈسن نے بالکل ٹھیک لکھا کہ جابر مہابیانیہ کے خلاف متعدد اور متنوع تکثیری چھوتے چھوٹے رد بیانیے اور ثقافتی رد عمل سامنے آتے ہیں اور ان سب میں تبدیلی کی امید شدید اور مشترک ہوتی ہے اور اس امید سے انسپائر ہونا مشترک ہوتا ہے اور یہ بڑے پیمانے پر اس میں کشش پائی جاتی ہے اور تاریخ ایک نئے راستے پر گامزن ہوتی ہے
محکوم علاقوں میں سامراجیت کا سوال دونوں یعنی محکوم اور حاکم دونوں کے لیے اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ دونوں نے اسے کیسے دیکھا
ایڈورڈ سعید نے مزاحمتی اور آزادی کی تحریکوں کی ایک اور خاصیت کی جانب بھی اشارہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ محکوم اور مظلوم اقوام جب اپنی آزادی کی جدوجہد اور لڑائی شروع کرتی ہیں اور حاکموں اور حکمرانوں کو چیلنج کرتی ہیں اور ان کے ڈسکورس کو رد کرتی ہیں تو وہ اپنی تحریک آزادی اور مزاحمت کو اچانک پھوٹ پڑنے یا کسی تسلسل کے بغیر ہونے کی نفی کرتے ہوئے اسے تاریخ میں ایک تسلسل کے ساتھ جوڑتے ہیں جیسے الجزائر کی نیشنل لبریشن فرنٹ نے 1954ء میں فرانس کے خلاف اپنی بغاوت کی جڑیں امیر عبدالقادر کی تحریک میں تلاش کیں جو کہ فرانسیسی قبضے کے خلاف 1830ء اور 1840ء کے درمیان لڑا تھا اور اسی طرح گنی اور مالی کی قومی مزاحمتی تحریکوں نے اپنی جڑیں کئی صدیوں پہلے سامورے اور حاجی عمر کی تحریکوں میں تلاش کیں
اس بات کو اگر ہم سندھی ،بلوچ ،سرائیکی ،پشتون ،گلگتی بلتی ،کشمیری مزاحمتی تحریکوں پر منطبق کریں تو تو وہاں بھی اپنی مزاحمتی تحریکوں کو دور ماضی میں ہونے والی بغاوتوں اور مزاحمتوں کی جڑوں میں تلاش کرنے کا رویہ پاتے ہیں
ایڈورڈ سعید لکھتا ہے کہ مزاحمت اور آزادی کی ان تحریکوں کو اس وقت بھی مغربیوں نے مسخ کرنے کی کوشش کی اور انھوں نے اسے بے اطمینانی اور اس ناکامی سے تعبیر کیا جو ان اقوام کو اپنے حاکموں سے ریلیف کی صورت ملنے کی توقع پوری نہ ہونے سے پیدا ہوئی
بلوچستان کے معاملے پر جب بھی بات ہو تو ہم اسلام آباد اور اس کے ہمنواؤں سے ایک ہی بات سنتے ہیں اور وہ ہے احساس محرومی اور بے چینی اور وہ ان تحریکوں کے پیچھے اس نئے ڈسکورس کی موجودگی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو حاکم کے مہا بیانیہ کو چیلنچ کرہا ہوتا ہے
بلوچ ،سندھی ،سرائيکی ،گلگت بلتستان ،کشمیری اور پختون قومی سوالوں پر آج بھی پنجابی حکمران کلاس کے ترتیب دئے ہوئے مہا بیانیوں کے حامی بلوچستان کے نورزخان ،سرائیکیوں کے احمد خان کھرل ،سندھیوں کے مراد سندھی وغیرہ کے کردار کو قومی مزاحمتی پہلو اور اس سے ابھرنے والے ھیروازم کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں
اگرچہ یہ ابھی تھوڑے سے غیر پختہ خیالات ہیں جو میں نے پاکستان میں قومی مزاحمتی تحریکوں کے کچھ ایسے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جو ابھی زیادہ ڈسکسس نہیں ہورہے جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے
پاکستان کی ریاست جو عالمی سامراجیت کی غلامی میں جنگوں کو پھیلارہی ہے اور اس کی جانب سے اس وقت پاکستانی نیشنل ازم ،اسلام ،اردو وغیرہ کے ملغوبے کے ساتھ جو جنگجویانہ ڈسکورس بنایا گیا ہے اس کو چیلنج کرنے کا عمل تیزی سے ترقی کررہا ہے اور ہمیں بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئیے