پنجاب اور کراچی کے اندر رہنے والے اکثر لوگوں کے لیے کلچر ،نوآبادیات ،سامراجیت اور اسی سے متعلق بہت سے دیگر سوالات پر غور فکر کرنا وقت کا زیاں لگتا ہے اور اس اکثریت میں ،میں اپنے ان کامریڈز کو شامل نہیں کررہا جن کی عمر کا ایک بڑا حصّہ اس دشت کی سیاحی میں گزر گیا لیکن ان کی تعداد بھی کم ہی ہوئی بڑھی نہیں ہے
لیکن کلچر ،نوآبادیات ،شناخت ،سامراجیت اور ترقی کے سرمایہ دارانہ ماڈل اور بالادستوں کی روشن خیالی سے ابھرنے والا خفیہ ریس ازم اور شاؤنزم بلوچ ،سندھی ،پشتون کے لیے بہت ہی غور فکر کا سامان رکھتے ہیں اور وہ اس حوالے سے اپنی سوچ کو پورے جگ جہان کے مجبوروں اور محکوموں سے جوڑنے کو بے تاب رہتے ہیں اور اس کی ٹھوس مادی وجوہات موجود ہیں
میں نے یہاں پر سرائيکی کو عمومی دھارے میں اس لیے نہیں رکھا کہ ان کے ہاں بس گنتی کے دو چار لوگ ایسے ہیں جنھوں نے محکومیت ،مظلومیت ،ثقافت ،کلچر اور شناخت کے سوالوں کو عالمی سامراجیت ،عالمی نوآبادیاتی نظام ،غالب سامراجی سرمایہ داری اور اس کے جلو میں ابھرنے والا وہ مہا بیانیہ جسے ایڈورڈ سعید اوریئنٹل ازم یا مستشرقیت کہتا ہے کے تناظر میں اپنے آپ کو رکھکر اور پھر اس مہا بیانیہ کی ردتشکیل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس ردتشکیل کو قبول عام بھی حاصل ہوا ہو اور اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ سرائیکی خطے کو ابھی اس ننگی جارحیت ،ننگی خون آشامی کا ماضی قریب میں تجربہ نہیں کرنا پڑا جس طرح کے تجربے سے نوآبادیاتی دور اور بعد میں کالی جلد والے سفید نقاب پہنے حکمران طبقوں کے ہاتھوں بلوچ ،سندھی ،پختون کو گزرنا پڑا لیکن پھر بھی استاد فدا حسین گاڈی،حیدر جاوید سید ، رفعت عباس ، اشو لال ،شمیم عارف قریشی اور رانا محبوب ایسے دانشور شاعر ادیب ہیں جن کے ہاں اس عالمی تناظر سے جڑ جانے کی لپک ملتی ہے لیکن سرائيکی قوم کے ہاں المیہ یہ ہے اس کی دانش پر ابھی تک دائیں بازو کے رجعت پسندوں اور شاؤنسٹوں کا قبضہ ہے یا ایسے نام نہاد ترقی پسندوں کا جو اپنی ترقی پسندی کو پی پی پی کی بورژوا لیڈر شپ کی دھلیز پر قربان کرنے میں کبھی دیر نہیں لگاتے اگرچہ انھوں نے عالمی تناظر پر بہت کچھ پڑھ رکھا ہے
میں گبرئیل گارشیا مارکیز پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر آفیشل پیج پر گیا تو وہاں مجھے لاس اینجلس ٹائمز کا ایک لنک نظر آیا جس پر گابو اور جاپانی فلم میکر اکیرا کارسوا کی گفتگو کا اقتباس موجود تھا اور یہ گفتگو اصل میں بیسٹ فلم ریویو بلاگ پر شایع ہوئی تھی اور میں نے دیکھا کہ اسے بہت سے سندھی ،بلوچ دانشوروں اور ساتھیوں نے لائک اور شئیر بھی کیا ہوا تھا لیکن اس لنک پر مجھے کسی سرائیکی کا لائک نظر نہیں آیا تو سوچا کہ یہ مہاجر نژاد سرائیکی (یہ ازراہ تفنن کہا ہے)اس معاملے میں سبقت لے جائے
گابو 1990ء میں جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو گیا تھا تو اس وقت وہاں پر جاپانی فلم میکر ایکرا ساراکوا بھی ھیروشیما اور نگاساکی پر دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی جانب سے ایٹم بم گرائے جانے کے المیے پر بننے والی فلم فارسوڈی ان اگست کی شوٹنگ کے سلسلے میں موجود تھے اور اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گابو نے اپنے پسندیدہ فلم میکرز میں ایک کے ساتھ مکالمے کی سبیل نکال لی
گابو اور کارسوا میں مجھے بہت سی چیزیں مشترک نظر آتی ہیں کہ دونوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور صحافی کیا ،گابو نے اپنا شہرہ آفاق ناول لکھنے سے پہلے بوگاٹا میں کئی سال بطور فلم نقاد کے کام کیا اور گابو فلموں کا بہت رسیا ہے اور اس کے ناول ھیضہ کی وبا کے دوران محبت پر فلم بھی بنی اور کارسوا نے بھی کئی عظیم ادیبوں بشمول شکسپئیر ، فیودر دستوسکی ،گورکی پر فلمیں بنائیں اور کئی ایک ناولوں کی فلمی تشکیل کی
گابو پر اگر لاطینی امریکہ کی لینڈ سکیپ ،اس کی تاریخ اور نوآبادیاتی ماضی کے ساتھ آنے والی طویل المدت آمریتیں ،خانہ جنگی ،تباہی ،انارکی ،انقلاب کی چھاپ ہے تو کارسوا کے ہاں دوسری جنگ عظیم اور اس کے آخر میں ایٹم بم گرائے جانے سے پیدا ہونے والی ٹریجڈی کا نقش بہت گہرا ہے اور اس کے ہاں بھی جنگ سے نفرت بہت شدت کے ساتھ موجود ہے
دونوں نے چھے گھنٹے مختلف موضوعات پر بات کی لیکن اس ساری گفتگو میں مجھے بین السطور یہ بھی نظر آیا کہ دونوں خلاق زھن رکھنے والے اس مہا بیانیہ کے رد میں اپنا اپنا بیانیہ بنانے کی کوشش کرتے نظر آئے جس کو ایڈورڈ سعید مستشرقانہ بیانیہ کہتا ہے اور یہ آقاؤں اور حکمرانوں کی ںظر سے ہی محکوموں کو اپنے آپ کا بیانیہ تشکیل دینے پر مجبور کرتا ہے جس کے خلاف ابھرنے والی اپوزیشن اور مزاحمت کو ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب کلچر اینڈ امپریلزم میں خوب کھول کربیان کیا ہے اور اس کے مقامی تناظر پر میں نے اپنے حال ہی میں ایک بلاگ ميں بات کی ہے
گبرئیل گارشیا مارکیز نے اس گفتگو کے آغاز میں کارسوا سے کہا تھا کہ وہ باہمی گفتگو کو روائتی پریس انٹرویو نہیں بنانا چاہتا اور دونوں سے آخر تک گفتگو کا یہ پیراڈائم برقرار رکھا
گابو نے کارسوا سے پوچھا کہ وہ سکرپٹ کیسے لکھتا ہے اور گابو کا یہ سوال اس لیے معنی خیز تھا کہ خود گابو بھی سکرپٹ رائٹر تھا تو کارسوا نے کہا
جب اس نے کوئی سکرپٹ لکھنا ہوتا ہے تو وہ خود کو ایک کمرے میں کاغذ ،پنسل لیکر بند کرلیتا ہے اور لکھنے بیٹھ جاتا ہے
گابو نے پوچھا کہ اس کے زھن میں پہلے خیال آتا ہے کہ تمثال یعنی امیج تو کارسوا نے کہا
وہ سٹریم آف آئیڈیاز کو فالو کرتا ہے ،ان کے بہاؤ کے ساتھ بہتا ہے اور پہلے اس کے زھن میں بکھرے بکھرے امیجز آتے ہیں جن کو وہ مناظر کے ساتھ نتھی کرلیتا ہے اور پھر ایک سکرپٹ کی شکل دیتا ہے اور اس نے کہا کہ دیگر جاپانی سکرپٹ رائٹر پہلے سکرپٹ کا مجموعی خاکہ بناتے ہیں پھر اس کے مطابق امیجز لاتے ہیں اور پھر سین بناتے ہیں اور اس طرح سے سکرپٹ کا پلاٹ تیار کرتے ہیں
"میرے خیال میں ایسے سکرپٹ لکھنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ہم خدا نہیں ہیں"
گابو نے جب یہ بات ڈسکس کی کہ جن ناول نگاروں کے ناولوں پر فلمیں بنیں تو بہت کم ناول نگار ایسے تھے جنھوں نے ان فلموں پر اطمینان کا اظہار کیا تو اس میں کارسوا کا تجربہ کیا ہے تو کارسوا نے گابو سے الٹا سوال کردیا اور پوچھا کہ
کیا تم نے میری فلم "ریڈ بیرڈ "دیکھی ہے ؟
گابو نے کہا کہ
میں نے ان 20 سالوں میں اس فلم کا پھے مرتبہ دیکھا اور ہر بار اپنے بچوں سے اس بارے بات کی یہاں تک کہ انھوں نے بھی اسے دیکھ لی اور اب نہ صرف میں اور میرا خاندان اس فلم کو پسند کرتا ہے بلکہ یہ فلم میری سب سے فیورٹ فلم بھی ہے
تو اس پر کاسوا کہتا ہے کہ
اس فلم سے قبل آنے والی فلموں سے بعد آنے والی فلمیں بالکل مختلف تھی اور یہ دراصل تبدیلی کا سنگ میل تھی اور ایک سٹیج سے دوسرے سٹیج کی طرف مراجعت تھی
گابو اس فلم کے دو مناظر کی طرف اشارہ کرتا ہے جن میں سے ایک منظر ایک ہسپتال کے صحن میں ہونے والی کراٹے فائٹ کا ہے
تو کارسوا کہتا ہے کہ اس سین میں اصل میں عورت کی مکمل ناکامی کو دکھایا جایا جانا مقصود تھا جسے ناول کا مصنف نہیں دکھا سکا تھا دراصل کارسوا کہنا یہ چاہتا کہ بعض اوقات کسی ناول پر فلم بناتے ہوئے ڈائریکٹر ناول میں موجود کسی کمزور تاثر کو زیادہ طاقت کے ساتھ کسی ایسے منظر کے ساتھ فلماتا ہے جو اس ناول میں موجود نہیں ہوتا لیکن اس ناول کی کہانی کے کسی کردار کو اور زیادہ مضبوط کرڈالتا ہے
تو میرے خیال میں ناول نگار اور فلم نگار کے درمیان جس تفاعل اور جاندار اشتراک عمل کو گابو اور کارسوا کی گفتگو نے واضح کیا ابتک میں نے کہیں نہیں دیکھا
گابو میرے خیال کے مطابق کارسوا کو دوران گفتگو بڑے طریقے سے انگیخت کرتا ہے جب وہ کارسوا کی فلم "فاسوڈی ان اگست" بارے گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کے خیال میں کارسوا نے ٹھیک نہیں کیا کہ ایٹم بم کی مخالفت کرتے کرتے ایٹمی توانائی کو ہی مسترد کردیا تو کارسوا اس پر سخت ردعمل کا آظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
ایٹمی توانائی سے چلنے والے مرکز اگر تابکاری خارج کرنے لگیں تو ان سے خارج ہونے والی تابکاری ہزاروں سال ابلتی رھتی ہے اور انسانوں کو معذور اور ہلاک کرتی رہتی ہے ،پانی اگر ابلنے لگے تو اسے فوری سرد کیا جاسکتا ہے لیکن تابکاری کو نہیں
اصل میں کارسوا یاد دلاتا ہے کہ اگرچہ ٹرومین نے ناگاساکی اور ھیرو شیما پر بم برسانے کی توجیہ یہ دی تھی کہ وہ جنگ بند کرانا چاہتا تھا اور اس توجیہ کو چاپانیوں نے امریکی دباؤ کے زیر اثر مان لیا لیکن اس کے نزدیک یہ عذر لنگ ہے کیونکہ ایک طرف تو اس بم گرائے جانے سے 5 لاکھ جاپانی ہلاک ہوگئے اور 2700 اب بھی ہسپتالوں میں اپنے مرنے کا انتظار کررہے ہیں جبکہ یہاں تابکاری سے اب بھی پیدا ہونے والے بچے متاثر ہورہے ہیں تو یہ جنگ ابھی جاپانیوں کے لیے تو ختم نہیں ہوئی
کارسوا کہتا ہے کہ وہ نوچوان صحافی تھا جب یہ المیہ رونماء ہوا اور وہ اس ٹریجڈی پر لکھنا چاھتا تھا لیکن امریکی قبضے کے سبب اور سنسر شپ کی وجہ سے اس پر لکھا نہیں جاسکتا تھا تو جب وہ ڈائریکٹر بنا تو اس نے اس ٹریجڈی بارے لکھا
کارسوا کہتا ہے
مصیبت یہ ہے کہ ایک مرتبہ جب شوٹنگ سٹارٹ ہوجاتی ہے تو یہاں تک کہ کرائسٹ اور فرشتے بھی ملٹری چیفس آف سٹافس میں بدل جاتے ہیں
گابو دوران گفتگو ہی بتاتا ہے کہ جنگ بندی تو ایک بہانہ تھا کیونکہ امریکہ کا اگر یہ مقصد ہوتا تو وہ بم چاپانی ٹوکیو کے شاہی محل پر بم گراتا اور جاپانی ملٹری و سیاسی قیادت کو مارتا لیکن ایسا نہیں کیا بلکہ شہری گنجان آبادی پر بم برسایا گیا مقصد فوجی اور ملٹری قیادت کو برقرار رکھتے ہوئے ان سے سودے بازی کرکے سویت یونین کو چاپان پر ٹیک اوور کرنے سے روکنا تھا اور اپنا قبضہ کرنا تھا
اس طرح سے فلم ،ناول ،سکرپٹ ،سٹریم آف آئیڈیاز پر بات ہوتے ہوتے اندر کہیں چپکے سے ماضی ،اس سے جڑے تجربات ،سامراج ،نوآبادیات ،کلچر ،روایت ،شناخت ،جنگ ،تباہی بربادی جیسے سیاسی سماجی موضوعات بھی گفتگو میں داخل ہوجاتے ہیں اور یہ اصل میں اس رد تشکیل بیانئے سے جڑ جانے کا عمل بھی ہے جسے ٹی ایس ایلیٹ کے تصور روایت سے معنوی طور پر ایڈورڈ جوڑتا ہے تو گابو اور کارسوا کی گفتگو بھی اپنے جوھر کے اعتبار سے اسی سے جاکر جوڑتی ہے
Source: http://kino-obscura.com/
http://blogs.indiewire.com/thompsononhollywood/gabriel-garcia-marquez-and-akira-kurosawa-talk-film-writing-and-rhapsody-in-august-in-1991-20140716
No comments:
Post a Comment