ناھض حتر عرب دنیا کے ایک معروف دانش ور ہیں اور انھوں نے
روزنامہ "الاخبار بیروت"کی تازہ اشاعت میں ایک مضمون "داعش فی العقول و القلوب"کے عنوان سے لکھا ہے
اس مضمون میں انھوں نے بنیادی خیال یہ پیش کیا ہے کہ داعش جس کے عراق اور شام کے ایک وسیع علاقے پر کنٹرول کا چرچا عالمی سطح پر ہورہا ہے اور اس کے اس کنٹرول کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں کی جڑیں عرب تاریخ میں پیوست ہیں اور مضمون نگار نے داعش کو ایک نفسیاتی و فکری لہر بتایا ہے جس نے عرب لوگوں کے دل اور دماغ میں ایک طویل پروسس کے بعد گھر کیا ہے
یہ مضمون پاک و ہند کے سماج کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا عربوں کے لیے ہے کیونکہ ہمارے ہاں بھی دیوبندی اور وہابی مکاتب فکر کے اندر مثل داعش لوگوں کی اکثریت اس فکری و نفسیاتی لہر سے متاثر دکھائی دیتی ہے اور ہم اسے "التکفیری سلفیہ و دیابنہ فی العقول و القلوب"کا عنوان دے کر دیکھ سکتے ہیں
ناھض حتر لکھتا ہے کہ
شام ہو یا عراق آج وہاں پر ہمیں انقلابیوں کے نام سننے کو نہیں ملتے -شام کے اندر بہار عرب اور اس سے نکلنے والا جیش حر کہیں نظر آتا ہے نہ ہی جیش اسلام ،نہ تو ہمیں قومی شامی کونسل نظر آتی ہے اور نہ ہی متحدہ شامی اپوزیشن بس کہیں کہیں جبھۃ النصرہ کا نام سننے کو مل جاتا ہے مگر ان میں سب سے روشن نام داعش کا ہے
عراقی انقلاب کے ہر اول دستہ قرار دئے جانے والے نہ تو سنّی گروپوں کا نام آج کے عراق میں نظر آتا ہے نہ ہی ایک ماہ پہلے تک جیش الحریہ النقشبندیہ ،بعث اور عزت الدوری کے جو نام سننے کو ملے تھے وہ سب اب نہ جانے کہاں چلے گئے ہیں ،عراقی زمین پر اگر کسی کا نام ہے تو وہ داعش ہے
نوٹ :جس وقت نام نہاد افغان جہاد شروع ہوا تو ہم نے 90 ء کے عشرے تک افغان اسلامی مجاہدین کا بہت نام سنا اور اسلامی انقلاب کا خواب بھی تواتر سے ہمیں دکھایا گیا لیکن جس اسلامی انقلاب کی نوید سنائی جارہی تھی افغان جہاد کے بطن سے وہ تو برآمد نہ ہوا بلکہ اس کی جگہ طالبان ،لشکر جھنگوی جیسے سخت گیر اور متشدد تکفیری نے لی اور یہی حال ہم نے جہاد کشمیر سے برآمد ہوتے دیکھا اور آج افغانستان سے لیکر وزیرستان کے پہاڑوں تک اگر کوئی نام ہے تو وہ اسی تکفیری گروہ کا ہے
ناھض کہتا ہے کہ
لم يحدث ذلك بالمصادفة، ولا نتيجة مؤامرة، ولا بسبب فشل «الثورتين» وأخطاء «الثوريين». كلا، فـ «داعش» كانت مركوزة في قلب أول مظاهرة «سلمية» شهدتها سوريا في العام 2011، وكانت الجوهر العلني لـ «الثورة» العراقية، وللحركة الاخوانية والتحريرية والسلفية الخ... إن عيون قادة الاخوان لتلمع وهم يرفضون إدانة جرائم «داعش»، أو حتى التعرّض لها بكلمة؛ إنهم، بالعكس، يغبطونها على ما يحيطها من ظروف وما تملكه من قدرة على اطلاق غرائز الكراهية والقتل والإقصاء والسلب والسبي، وهي نفسها الغرائز الاخوانية ــــ السلفية
داعش نہ تو حادثہ ہے نہ ہی کسی سازش کا نتیحہ نہ ہی دو انقلابی گروہوں کے درمیان انتشار کا اور نہ انقلابیوں کی غلطیوں کا بلکہ داعش تو اس اولین بڑے مظاہرے کے قلب میں بھی تھی جو شام میں 2011ء میں ہوا اور اس کا جوہر خاص انقلاب عراق میں بھی تھا اور یہی داعش اخوانی ،تحریری اور سلفی تحریکوں میں بھی موجود تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان قائدین اخوان کی آنکھیں جمکنے لگتی تھیں اور وہ داعش کے جرائم کی مذمت کرنے سے انکار کرتے تھے اور کسی ایک جملے سے بھی ان کو بے نقاب نہیں کرتے تھے اس کے الٹ ان برتنوں سے جو ثپکتا اس پر خوش ہوتے اور جو کچھ ان کے قبضے میں تھا اور جن مکروہ افعال جیسے قتل ،قبضہ ہے ،غصب کرنا ہے اور سب و شتم ہے اس پر یہ خوش ہوتے اور اصل میں داعش کی جو خصوصیات ہیں یہ تو بذات خود غرائز الاخوان اور اصل میں سلفیہ کا جوہر ہیں
خواجہ عامر جیسے نوجوان بریلوی بچے کہتے ہیں کہ
عامر بھائی !آپ اخوان اور حماس کو یونہی اس صف میں کھڑا کرتے ہو جس صف میں داعش ہے ،نصرہ ہے اور دیگر تکفیری دیوبندی سلفی خوارج ہیں
ان کو ناھض حتر کا یہ مضمون ضرور پڑھنا چاہئیے لیکن میں سوچتا ہوں کہ بیچارے ان نوجوانوں کا کیا قصور ہے ،ان کے سامنے اردو اور انگریزی کے وہی مضامین آتے ہیں جو ہمارا میڈیا بہت زیادہ سیلف نسر شپ کے تحت ان کے سامنے لیکر آتا ہے اور اسی لیے وہ داعش کو اس کے تاریخی روٹس سے ہٹ کر الگ تھلگ مظہر کے طور پر دیکھتے ہیں
ناھض لکھتا ہے کہ
«داعش» ليست ظاهرة مستجدة؛ إنها تمثّل ميولاً ما تزال ماثلة حتى تحت الجلود الناعمة واللحى الحليقة وربطات العنق الأنيقة، كما هو حال تيار المستقبل المعدود ليبراليا
داعش کوئی جدید رونما ہونے والا مظہر نہیں ہے بلکہ یہ تو ان کی نمائندگی بھی کرتا ہے جن کی جلد نرم ،ڈاڑھی غآئب اور گلے میں خوشنما ٹائیاں ہیں جیسے کہ فیوچر پارٹی لبنان کے چند لبرل ہیں
نوٹ :مطلب یہ ہوا کہ تکفیریوں کے ساتھ پاکستان کے ہی لبرل کا اتحاد نہیں ہے بلکہ یہ اتحاد تو مڈل ایسٹ میں بھی موجود ہے یعنی کما ھو حال لیبرالیا فی الباکستان بھی کہا جآسکتا ہے
ناھض نے آگے ایک ایسا تاریخی جملہ تحریر کیا ہے جس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے اور اسے ہم قلم توڑ جملہ کہہ سکتے ہیں
«داعش» هي تاريخ وهاجس ونزعة، لم تستطع الدول الوطنية الحديثة انتزاعها من العقول والقلوب، وأطلقها ربيع الخليج من أقفاصها وقيودها.
داعش تاریخ کے اس آسیب اور جھکاؤ کا نام ہے جسے جدید نیشنل سٹیٹس کا تصور بھی عقول و قلوب سے نکال نہیں سکا اور داعش کا خمیر بہار عرب کے پنجروں اور اس کی تنگنائیوں سے اٹھا ہے
ناھض کہتا کہ عراق اور شام دونوں انقلاب کی بنیاد کو اگر اوپر والی سطح سے دیکھا جائے یا گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو اس کی بنیاد بہت تنگ نظر فرقہ پرستی پر ہے نہ کہ اس کی بنیاد نیشنل ازم ہے اور یہ انقلاب ایسے گروہوں کی جانب سے لانے کی کوشش ہوئی جو تعصب ،عدم برداشت اور ابال کے احساسات کا شکار تھے اور انھوں نے اس انقلاب میں سارے ہم وطنوں کو شریک کرنے سے انکار کیا اور ان کا مقصد اپنے اوپر مسلط لوگوں سے انتقام کا تھا اور اسے شام میں انھوں نے ایک اقلیتی گروہ سے اور عراق میں ایک غالب گروہ سے انتقام سے تعبیر کیا
أولاً، الثورتان، بالأساس وفي العمق وعلى السطح، عبّرتا عن نزعة طائفية مغلقة لا وطنية، مشحونة بالتعصّب والتوتر واختمار مشاعر رفض الشركاء الوطنيين على الجملة، وتصعيد غريزة الانتقام من سلطات يُزعم بأنها تعبّر عن أقلية طائفية (في سوريا)، وتعبّر فعلاً عن أغلبية طائفية في العراق
نوٹ:اگر ہم افغانستان اور پاکستان میں اس کو دیکھیں تو یہاں بھی اور وہاں دونوں جگہ اسلامی یا دیوبندی انقلاب کی بنیادیں وہی تنگ نظر فرقہ پرستی ،عدم برداشت اور نسلی و مذھبی تعصبات سے بھرے گروہوں کی پر تھیں اور ہیں
ناھض کے مطابق یہ سارا گروہ فرقہ وارانہ سوچ سے مملو تھا اور اس دائرے کے اندر پہلے اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے درمیان معرکہ ہوا جس میں انتہا پسندوں نے اعتدال پسندوں کو خوراک بنایا اور اکثر یوں ہوتا ہے کہ پھر زیادہ انتہا پسند کم انتہا پسندوں کو اپنا رزق بناتے ہیں اور یوں انتہا پسندی کی کمال فکری حالت کا ظہور ہوتا ہے اور ناھض کے مطابق شام اور عراق میں یہی کچھ ہوا اور آج ہمیں عراق اور شام میں اس انتہا پسند فرقہ پرست مثالی شکل کا سامنا ہے جسے ناھض کی اصطلاح میں بدویۃ التکفیریۃ اجرامیہ کہہ سکتے ہیں اور ناھض کے بقول اس کی سب سے مثالی شکل داعش ہے
اس کے مطابق داعش اصل میں صحرائی یا بدوی زندگی کی طرف پلٹ پڑنے اور عراق شام سمیت عرب ملکوں میں جو شہری تہذیبی زندگی سامنے آئی ہے اسے تباہ کرنے اور تاریخ کا پہیہ الٹا گھماکر پھر سے غزوات ،فتوحات ،زبج کردینے ،دین و تہذیب کی تطہیر کرنے ،گردنیں مارنے ،عورتوں کو اغواء کرنے ،کنیزیں و لونڈیوں کے بازار پھر سے کھولنے کے دور کو واپس لے آیا جائے جوکہ کسی زمانے میں عرب تاریخ پر چھایا رہا
على مهاد التحشيد الطائفي، يبدأ الصراع، داخل ذلك التحشيد، حتمياً؛ فالمتطرف يأكل المعتدل، والأكثر تطرفاً يأكل المتطرف، وهكذا حتى وصلنا إلى اكتمال الصورة الفكرية ــــ التنظيمية التي تعكس العقلية الطائفية كلياً في صيغة بدوية ــــ تكفيرية ــــ اجرامية، تلك التي تمثّلها «داعش»؛ الردة إلى الصحراء، وشطب كل التراث الحضاري الاسلامي، والعودة إلى الغزوات والفتوحات والمذابح والتطهير العرقي والديني وقطع الرؤوس وسبي النساء واستعادة سوق الجواري وكل ذلك المشهد الذي استغرقت المجتمعات العربية ــــ الاسلامية، 14 قرناً لاستيعابه ووأده عندما يطل برأسه، واخضاعه لمنطق الاستقرار والانتاج الزراعي والحرفي والثقافي، أي لمنطق التحضّر المدني.
میں جب ناھض کا یہ پیرا گراف پڑھ رہا تھا تو مجھے اچانک خیال آیا کہ ابھی دو روز پہلے میں نے ایک ہندوستانی لکھاری کا ایک آرٹیکل سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر پوسٹ کیا تھا
Legacy of Syed Ahmad Baralvi
اس میں مصنف نے پاک وہند کے اندر مسلمانوں کے اندر دھشت گردی اور انتہا پسندی کی تاریخی اور فکری جڑوں کا جائزہ لیا تھا اور اس جائزے کے دوران اس نے یہ کہا تھا کہ مغل دور کے زوال کے بعد جتنی بھی تحریکیں جہاد کے نام پر پاک و ہند کے اندر اٹھیں وہ اصل میں ہندوستان کے اندر اس دور حکمرانی کو واپس لانا تھا جس میں ہندؤ ،سکھ سب اشراف و اجلاف مسلمانوں کے ماتحت ہوا کرتے تھے اور اس یوٹوپیا کو حاصل کرنے کے خواب سے شروع ہونے والا سفر وہیں آکر ختم ہوا ہے جسے حضر المدنی سے بدویت کی طرف لوٹنے کا نام ناھض دیتا ہے
کیا ایسا نہیں لگتا جیسے نسیم حجازی کے ناولوں کے کردار لوٹ آئے ہوں اور کردار بھی ایک قدرے جذباتی اور انتہائی سنجیدگی کے ساتھ کامیڈی کرنے میں مصروف ہوں
ناھض داعش کے پس پردہ تاریخی رشتوں کی تلاش میں جب نکلتا ہے تو وہ داعش کے ظہور کو عرب خطے میں پائے جانے والی فرقہ وارانہ و نسلی بنیادوں پر مستقل عنصر کے طور پر موجود نسل کشی کے تناظر میں دیکھتا ہے اور اسے اسی کا تسلسل بتلاتا ہے اور اس کے نزدیک اس کا سلسلہ عثمانی ایمپائر کے زوال سے انسیویں صدی کے وسط میں شروع ہونے والے اس قتل عام سے شروع جو دمشق اور لبنان میں ہوا تھا اور جب پہلی جنگ عظیم میں عثمانی ترک ہارے تو انھوں نے اپنی شکست کا غصّہ آرمینیوں پر اتارا اور ان کی زبردست نسل کشی کی
ناھض کہتا ہے کہ آرمینیوں کے دانشور ،سیاست دان ،فنکار ،شاعر ادیب ،مذھبی رہنماء سبھی تو تہہ تیغ کرڈالے گئے تھے اور آرمینیوں کی قومی شناخت اور ان کے ایک قوم ہونے کو فنا کرڈالا تھا اورایسے رخنے ڈالے کہ آج تک آرمینی ان رخنوں کو بھرنے کی کوشش کررہے ہیں
ناھض کہتا ہے کہ اسی زمانے میں عرب یہودیوں کا اخراج اور بے دخلی شروع ہوئی اور عرب یہودی جوکہ عربوں کی تہذیب ،معاشرت اور شہری و دیہی زندگی کا جزو لاینفک تھے ان کو اس سے الگ اور خارج کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور اس وقت کرسچن عرب نے بھی اس اخراج پر خاموشی اختیار کی تھی اور وہآں سے یہ سلسلہ شروع ہوا تو پھر رکا نہیں کلاڈین ۔اسارین ،شہباک عرب ،پھر یہودی عرب ،پھر عیسائی عرب ،پھر یزیدی اور پھر شیعہ اور پھر داڑھی منڈھے اور وہ جو خلیفہ کی بیعت نہ کریں ،وہ سنّی جو شیدائی نذرونیاز و زیارات قبور و مقابر ہوں اور پھر وہ جو ہوں تو سلفی لیکن خلیفہ کی بیعت نہ کریں اور پھر ہ جو جہادیوں کو نکاح کے لیے عورتیں نہ دیں
نوٹ:مجھے آرمینیوں کی طرح کا معاملہ پاکستان میں احمدیوں کا نظر آتا ہے جن سے یہ سلسلہ شروع ہوکر کرسچن ،ہندؤ اور شیعہ سے ہوتا ہوا سنّی بریلوی اور وہاں سے ہر اس آدمی تک آن پہنچا ہے جو دیوبندی تکفیریوں سے اتفاق نہیں کرتا
ناھض کہتا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ داعش کہ الردہ الی الصحراء یا بدویۃ التکفیریہ الاجرامیہ کا مقابلہ عرب مدنی ثقافتی قومی انقلاب سے کرنے کے خواہش مند ہیں تو اس کا آغاز ہميں خود تنقیدی سے کرنا ہوگا اور یہ خود تنقیدی یہ ہے کہ ہم صہیونیت اور اسرائیل کے بارے میں اظہار خیال اور نفرت کے لیے ان دونوں کے متردادف لفظ بہودی کا استعمال بند کردیں اور یہ جان لیں کہ فلسطین کی آزادی اور فلسطین میں صہونیت کا خاتمہ عرب یہودیوں کی طرف یک جہتی ،ان سے انسانیت پرستی اور قومی محبت پر مبنی بیاںئے کے بغیر ممکن نہیں ہے
ناھض کہتا ہے کہ داعش کی جو سخت گیر بدویت اور تکفیریت ہوسکتا ہے جلد ہی سامراجیوں کے ساتھ کسی ایڈجسمنٹ کی صورت میں ختم ہوجائے لیکن داعش کا جو فکری اور نظریاتی اثر ہے اس کا پھیلاؤ بہت زیاہ ہے اور اس کے فی الفور ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اس لیے داعش کے جرائم سے زیادہ داعش کی فکری اور نفسیاتی جڑوں کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے
المطلوب الآن، ليس فقط حملة ضد جرائم «داعش»، بل ضد العقلية والسيكولوجية الداعشية التي ثبت أنها متجذرة في العقول والقلوب
ناھض نے اگرچہ اپنے اس مضمون میں مذھبی نسلی اقلیتوں کو اپنا موضوع بنایا ہے اور اس نے قومی نسلی اکثریتی عرب گروہوں کے مقابلے مين اقلیتی قومی گروہ جیسے کرد ،خراسانی عرب ،بلوچ ہیں کا زکر نہیں کیا اگرچہ اس نے کلاڈین ،اسارین اور شہباک کا زکر کیا ہے اور اسے عرب مہا قومیت کے تعصب اور نوآبادیاتی تسلسل کو بھی بیان کرتے ہوئے اس کی مذمت کرنی چاہئیے تھی اور اگر کرد اور بلوچ عربوں اور پرشین سے اپنی الگ پہچان بنانے اور الگ قومی ریاست بنانے کے خواہاں ہیں تو اس کی حمایت کا کھل کر اظہار کرنا چاہئیے تھا جو نہیں ہوا شاید ناھض کےالثورة العربية الحضارية میں اس کی گنجائش نہیں بنتی جیسے محمود اچکزئی جیسوں کے ہاں اب سرائيکیوں کی آزادی اور ان کی پنجابیوں سے ہٹ کر شناخت کا سوال اور ان کی آزادی کچھ زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے جیسے وہ پشتون بالادستی کی بات آئے تو اکثر پشتون قوم پرست بھی افغان ہزاروں ،ازبک ،تاجکوں ویسے ہی الگ قومی شناخت ماننے سے انکاری ہوتے ہیں اگرچہ میں ناھض کو اس قدر بے حس خیال نہیں کرتا ہوں لیکن اس مضمون کی اہمیت پھر بھی باقی ہے
روزنامہ الاخبار بیروت سے شایع ہوتا ہے اور یہ اخبار مارکسسٹ اور بائیں بازو کی قوم پرستانہ لہروں کی ترجمانی کرتا ہے اور اس کے چیف ايڈیٹر جس کمرے میں بیٹھتے ہیں اس کمرے میں عین ان کی کرسی کے اوپر دیوار پر کارل مارکس کا بڑا سا پوٹریٹ لگا ہے اور یہ روزنامہ لبنان میں ایک طرف تو فیوچر پارٹی جیسی بورژوا پارٹیوں کا سخت مخالف ہے تو دوسری طرف یہ عرب دنیا میں گے ،ليزبین رآئٹس جیسے حساس اور انتہائی خطرناک نتائج کو دعوت دینے والے ایشوز پر بھی مین سٹریم دھارے کے خلاف بات کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مزاحمت کی بنیاد پر یہ حزب اللہ ،حماس کا ساتھ بھی دیتا ہے لیکن مجھے ناھض ان میں سے نہیں لگتا کیوں کہ اس نے اس نے بہودی ہونے کو صہیونی ہونے اور اسرائيلی ریاست کے جرائم میں برابر کا شریک بنانے والی سوچ کا رد کیا ہے اگرچہ یہ اخبار بھی لفظ صہانیہ ہی استعمال کرتا ہے لیکن حماس و اخوان کے بارے میں اخبار کی پالیسی مختلف ہے
پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہے کہ اس کے مین سٹریم میڈیا میں ایسا کوئی بھی ميڈیا گروپ یا صحافی نہیں ہے جس نے فرقہ واریت ،تکفیریت ،جہاد ،نسل پرستی کو اس طرح سے دیکھنے کی کوشش کی ہو جیسے ناھض حتر سمیت کئی ایک عرب انٹلیکچوئل دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں
بلکہ اگر کسی نے ایسے وسیع کنویس کے ساتھ دیکھنے کی کوشش کی تو اسے مین سٹریم دھارے کے اخبار اور جریدے سے نکلنا پڑا ،میرے سامنے حیدر جاوید سید کی مثال ہے جو ناھض جیسی اپروچ رکھتے ہیں بلکہ وہ کسی بھی قوم کے حوالے سے تعصب کا شکار نہیں ہیں ان کو روزنامہ مشرق پشاور سے اسی لیے نکلنا پڑا اور پھر کالم بھی بند ہوگئے اور آج پاکستان کا کوئی بھی قومی اخبار حیدر جاوید سید کو اپنے مین ادارتی صفحے پر چھاپنے کو تیار نہیں ہے اور ایسی ہی ایک اور مثال عبدل نیشا پوری کی ہے جو جنگ میں کام کرتے رہے لیکن ان کو اپنی فکری ازادی کے لیے ایک ویب بلاگ کی بنیاد رکھنا پڑی
ناھض کا یہ مضمون بیروت کے ایک بڑے ميڈیا گروپ کے عربی ایڈیشن میں شایع ہوا اور اس کے اس مضمون پر یہ تبصرہ اور حاشیہ نگاری پاکستان کے کسی ایک اخبار نے بھی شایع کرنے کی ہمت نہ کی
ہم پاکستان میں تکفیریت ،فرقہ واریت ،نام نہاد جہاد ،نسل پرستی کے فکری و نفسیاتی اثرات اور اس کی تاریخی جڑوں کا ایمانداری کے ساتھ اور ایک معروضی تجزیہ کرنے کی ہمت کریں تو بھی پاکستان کے ازاد ميڈیا کی ٹانگیں اس کو چھاپتے ہوئے کانپنے لگتی ہیں اور اگر اس کے دانت نکال دیں تو بھی اس کو چھاپنے سے پہلے ایک وضاحتی نوٹ تیار کیا جاتا ہے جسے اوپر یا نیچے مضمون کے آپ کا منہ چڑانے کے لیے لکھا جاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ چھپے بہت سے ملٹری اسٹبلشمنٹ ،مذھبی فسطائیوں کے جواز ڈھونڈنے والے مضمونوں بلکہ سرخ عمارت میں بیٹھے قومی و خارجہ و سیکورٹی پالسیوں کے خالق اور کنٹرولرز کی سفارش سے آنے والے آرٹیکلز پر کہیں ایسا وضاحتی نوٹ لکھا نظر نہیں آتا
تو ہمارے ہاں متبادل بیانئیے ابھی تک اندھیروں اور گمنامی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھرتے ہیں اور ان کو نکاس کی جگہ کی تلاش ہے اگرچہ سوشل میڈیا قدرے ایک کتھارسس ہائیڈ پارک بنکر ابھرا ہے اور اس نے رخنے بھی اس دیوار برلن میں ڈالے ہیں جسے ہم فلسفے کی زبان میں ایپیسٹمک بلاک بھی کہہ سکتے ہیں
داعش» التي في العقول والقلوب
http://www.al-akhbar.com/node/213125
No comments:
Post a Comment