Sunday, August 3, 2014

نواز شریف کے اقتدار کی ڈولتی ناؤ


پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان 14 اگست کو اسلام آباد لاکھوں افراد کے ساتھ پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیں گے اور اپنے اس پروگرام کو انھوں نے آزادی مارچ کا نام دیا ہے جبکہ وفاقی حکومت نے 14 اگست کو ڈی چوک میں جشن آزادی ،مسلح افواج کی پریڈ کا پروگرام بنایا ہوا ہے انیس سو تہتر کے آئین کی شق 245 کا استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد کو فوج کے حوالے کردیا گیا ہے گویا پاکستان کی مسلح افواج اس دوران اگر کوئی کاروائی عمل میں لائیں تو ان کے اقدامات کو ہائی کورٹس میں چیلنج نہ کیا جاسکے ڈاکٹر طاہر القادری ،چوہدری شجاعت سے پی ٹی آئی کے مذاکرات جاری ہیں اور شنید یہ ہے کہ یہ بھی پی ٹی آئی کے آزادی مارچ کی حمائت کریں گے جبکہ شیعہ سیاسی جماعت مجلس وحدت المسلمین ،سنّی تنظیم سنّی اتحاد کونسل آزادی مارچ کی حمائت کا اعلان کرچکی ہیں اور ایم کیو ایم بھی آخری لمحات میں ڈاکٹر طاہر القادری کے ہم رکاب ہوسکتی ہے اب تک اس سیاسی جوار بھاٹے کا جو مقصد سامنے آرہا ہے اس کا کم از کم ایجنڈا صاف صاف وسط مدتی انتخابات لگتا ہے کیونکہ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان اور ایک انگریزی معاصر اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماء سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہی مطالبہ دوھرایا ہے پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کے فوری بعد کئی ایک حلقوں میں دھاندلی کا الزام عائد کیا اور دو ہفتوں تک احتجاج اور دھرنے چلے اس وقت یہ خدشات موجود تھے کہ کہیں عمران خان بلند توقعات کے برعکس نتیجہ سامنے آنے پر الیکشن کو ماننے سے انکار کرڈالیں لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ عمران خان نے خیبر پختون خوا میں کولیشن گورنمنٹ بنائی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنا شروع کرڈالا اس دوران عمران خان کی طرف سے انتخابی عذرداریاں دائر کی گئیں اور یہاں پر مسلم لیگ نواز کے کامیاب امیدواروں نے عدالتی اسٹے آڈر لینے شروع کئے اور ووٹوں کی تصدیق کا عمل کرانے سے انکار کیا آغاز کار میں ایسا نظر آتا تھا کہ پی ٹی آئی حامد زمان ،عمران خان کی لاہور کی نشستوں اور لودھراں میں جہانگیر ترین کی نشست پر رزلٹ کو ناقبال یقین خیال کررہی ہے اور ان نشستوں پر اگر اس وقت ووٹوں کی تصدیق کا پروسس کرلیا جاتا تو نواز لیگ کی فیس سیونگ ہوسکتی تھی لیکن جیسے جیسے اس معاملے پر مسلم لیگ نواز کی طرف سے ہٹ دھرمی دکھائی گئی اور الیکشن ٹربیونل جاکر انتخابی بے قاعدگیوں کی شکایات کی تفصیل تحقیق سے اور باخبر زرایع سے سامنے آنے لگی اور اس دوران ایک ٹیپ نگران چیف منسٹر نجم سیٹھی کی مبینہ گفتگو کی سامنے آئی اور 35 پنکچر پنجاب میں لگانے کا تذکرہ ہوا ،ایک ایم آئی کے سابق افسر کی نگرانی میں رزلٹ بدلنے کی کہانی سامنے آئی اور پھر نادرا کے سابق چئیرمین طارق ملک کے ساتھ وزیر داخلہ نے جو کیا اس سے شکوک و شبہات بڑھتے چلے گئے اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ،مسلم لیگ ق ،عوامی مسلم لیگ ،مجلس وحدت المسلمین ،سنّی اتحاد کونسل سارے الیکشن کو فراڈ کہہ رہی ہیں جبکہ پی پی پی کی قیادت کہتی ہے کہ انھوں نے جمہوریت کی خاطر الیکشن کو تسلیم کیا گویا ان کو بھی اس الیکشن کے انجئینرڈ ہونے پر شک نہیں ہے میرا خیال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان اور ان کے دیگر رفقاء نے گذشتہ قومی انتخابات کے بارے میں اپنے خیال کو عوام کی اکثریت میں مقبول کردیا ہے اور لوگ اب میاں نواز شریف کے مینڈیٹ کو اصلی خیال نہیں کررہے شنید یہ ہے کہ عدالتی اسٹبلشمنٹ میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی لابی کے میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے کے باوجود اس وقت اسٹبلشمنٹ کا سب سے طاقت ور عنصر یعنی عسکری اسٹـبلشمنٹ غیر جانبدار ہے اور وہ میاں نواز شریف کے مخالفین کو فکس اپ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں ایک معاصر انگريزی اخبار کے مطابق میاں محمد نواز شریف نے اپنے انتہائی قریبی دوستوں کا ایک اجلاس لاہور رائے ونڈ جاتی امراء میں بلایا تھا جس میں کوئی ایک کابینہ کا رکن شامل نہیں تھا اور نہ ہی وفاقی وزیر ااطلاعات ،ترجمان نواز شریف پرویز رشید بھی مدعو تھے اور اس اجلاس میں میاں نواز شریف نے تسلیم کیا کہ ان سے چند موو غلط ہوئیں اور وہ یہ تسلیم کررہے تھے کہ ان کی حکومت پر ون مین شو ہونے کا امیج بری طرح سے چسپاں ہوگیا ہے جس سے وہ نکلنا چاہتے ہیں مسلم لیگ نواز کی سیاسی تنہائی میں اضافہ اور عوام کے اندر ان کی ساکھ کے بری طرح سے گرجانے کی ایک وجہ ان کی حکومت کے بلند وبانگ دعوے اور جھوٹی میڈیا کمپئین بھی بنی ہے جب سے یہ حکومت آئی ہے اس وقت سے مہنگائی نے بڑھنا شروع کیا ہے اور اس میں کمی دیکھنے کو نہیں مل رہی جبکہ اس حکومت نے 500 ارب سرکلر ڈیٹ کی مد میں بجلی کی کمپنیوں کو پری آڈٹ کے بغیر دے ڈالے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ ميں کمی کے دعوے کئے لیکن پتہ یہ چلا کہ بجلی ایک طرف تو بہت مہنگی ہوئی دوسرا بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہونے کی بجائے اور بڑھ گئی اور یہ رمضان اور عید تو اس بحران کے سنگین ہونے میں خود نواز لیگ کی ساکھ کو بھی بٹھا گیا بجلی کی پیداوار ،گیس کی لوڈشیدنگ ختم کرنے کے لیے قطر سے گیس کی درآمد کے حوالے سے بھی حکومت کا کوئی ایک دعوی پورا نہیں ہوا بلکہ نندی پور پاور پروجیکٹ ،تونسہ اچ پاور پلانٹ ،گدو پاور پلانٹ کے بجلی کی پیداوار شروع کرنے کے نام پر افتتاحی تقاریب ہوئیں ،کروڑوں کے کے اشتہارات جاری کئے گئے لیکن پتہ چلا کہ وہ سب کاغذی اعلانات تھے میگا پروجیکٹس افسانہ ہائے ترقی کا کاروبار نواز شریف اور ان کے مشیروں اور ان کے بھائی شہباز شریف نے شروع کیا اور اربوں روپوں کے پروجیکٹس شروع ہوچکے ہیں لیکن چراغ تلے اندھیرے کے مصداق سرکاری تعلیمی اداروں ،ہسپتالوں ،روڈ انفراسٹرکچر کی حالت بہت بری ہوچکی ہے اور غربت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے ،چند اربن سنٹرز میں ساری ترقی مرتکز ہے اور وہاں بھی امیر اور غریب میں بے تحاشا خلیج پیدا ہوئی ہے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ روالپنڈی ،ملتان ،لاہور کے ہسپتالوں کے لیے ،کئی ایک تعلیمی اداروں کے لیے ،ادویات کی فراہمی کے لیے فنڈز نہیں ہیں لیکن میٹرو بس ،فلائی اوورز اور مونو ٹرین منصوبوں کے لیے پیسہ ہے خود سنٹرل پنجاب میں مڈل کلاس اور غریب شہری و دیہی آبادی کے اندر سخت بے چینی پائی جاتی ہے اور نوجوان بے روزگاروں کی ایک فوج ہے جس کو دینے کے لیے مسلم لیگ نواز کی حکومت کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور اس نے مسلم لیگ نواز کے سیاسی حمایت کے قلعے تصور ہونے والے شہروں میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کی انقلابی لفاظی اور تبدیلی کے نعرے کو مقبول کیا ہے جبکہ پنجاب کا سرائيکی ریجن تو اس دوسرے دور میں مسلم لیگ نواز کی پہلے سے زیادہ معتصبانہ اور شاؤنسٹ پالیسیوں کا مشاہدہ کررہا ہے اور یہاں بھی بھوک راج ہے اور ننگ روائت اور ایسے میں اس ریجن میں مسلم لیگ نواز کا روایتی حامی سمجھے جانے والا دوکاندار ،پروفیشنل ،اور درمیانہ صنعت کار پرتیں جو پیٹی بورژوازی پرت کہلاتی ہے جس کی ایک معتدبہ تعداد پہلے ہی پی ٹی آئی کا رخ کرچکی تھی اب اور تیزی سے پی ٹی آئی کی ہمنواء بن رہی ہے اور لمپن پرولتاریہ یعنی کچے مزدور اور انڈسٹریل ایریا کی نچلی مزدور پرتیں یہ بھی عمران خان کی سیاست اور طاہر القادری کے ریڈیکل سیاسی و معاشی نعروں سے متاثر نظر آتے ہیں میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی پاکستان کے اندر دھشت گردی اور فرقہ پرستانہ سوچ رکھنے والوں کے حوالے سے ایک طرح سے ناکام سیاسی حکمت عملی کا شکار ہوئے ہیں اور اس ناقص حکمت عملی میں ان کے بھائی چیف منسٹر شہباز شریف کی غلطیوں کا بہت ہاتھ ہے پنجاب اور سندھ میں بریلوی سنٹر رائٹ جماعتوں نے ہمیشہ سے نواز شریف کا ساتھ دیا تھا لیکن یہ اتحاد وقت گزرنے کے ساتھ کمزور پڑتا گیا اور اس وقت سنٹر رائٹ بریلوی سیاسی تںظیموں ميں طاقت ور سیاسی تنظیمين سنّی اتحاد کونسل ،پاکستان سنّی تحریک ،جمعیت العلمائے پاکستان ،نظام مصطفی پارٹی وغیرہ ان کے ساتھ نہیں ہیں اور مخالف کیمپ میں کھڑی ہیں جبکہ شیعہ سنٹر رائٹ بھی ان سے ناراض ہے اور اب جبکہ شمالی وزیرستان کے فوجی آپریشن کو نواز شریف نے پوری طرح سے اون کیا ہے تو دیوبندی سنٹر رائٹ بھی ان سے خوش نظر نہیں آرہا اور اہل حدیث سنٹر رائٹ اور فار رائٹ جیسے جماعت دعوہ ہے وہ کشمیر ،افغانستان ،جیو بمقابلہ آئی ایس آئی جیسے واقعات کی وجہ سے نواز شریف سے دور ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ بہت تیزی سے نواز شریف نے مختلف مسالک کے سنٹر رائٹ گروپوں کو یا تو نیوٹرل کردیا یا ان کو مخالف کیمپ میں کھڑا کردیا پاکستان میں جہاں مسلم لیگ نواز کو سنٹر رائٹ سے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہیں مسلم لیگ نواز کی حکومت کی بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت کی وجہ سے پی پی پی جیسی بڑی لبرل ڈیموکریٹک جماعت بھی اس سے زرا فاصلہ رکھنے اور کہیں کہیں حکومت کے خلاف تند و تیز بیانات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے سابق وزیر ا‏عظم سید یوسف رضا گیلانی کی کراچی میں مشرف -حکومت-نواز لیگ معاہدے کی کہانی پر مشتمل پریس کانفرنس ،زرداری کی جانب سے وزیر اعظم منتحب کرنے بادشاہ نہ بنائے جانے کا بیان ایسے تھے جنھوں نے نواز لیگ کو اور کونے میں دھکیلا ہے اس سارے معاملے کو دیکھتے ہوئے یہ نظر آتا ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف مڈٹرم انتخابات کے موقف پر ڈٹی رہی تو پھر مڈ ٹرم انتخابات کے انعقاد کے سوا اور کوئی آئین کے اندر رہتے ہوئے طریقہ کار نہیں ہے اس ساسی بحران کے حل ہونے کا مسلم لیگ نواز کی قیادت نے پارلیمنٹ کے اندر اس معاملے کے نمٹ جانے کے امکان کو ضایع کرڈالا ہے اور اب پانچ سال حکمرانی کی ٹرین میں سوار رہنے کا خواب شرمندہ تعیبر ہوتا نظر نہیں آرہا ایک بات بہت حیرت انگیز ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان بھر کے تمام سیاسی و صحافتی حلقے کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کا یہ ممکنہ زوال حزب اختلاف کی شاندار اور بے عیب حکمت علمی کا نتیجہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اس حکومت کی کوہ ہمالیائی غلطیوں اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار وزیروں اور مشیروں نے حکومت کو اس حال تک پہنچایا ہے اور خود مسلم لیگی کیمپ کا حال یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے پر الزام دھرتا نظر آتا ہے اور ساری حکومتی ٹرین کے ڈبوں کو باہمی جوڑنے والی کڑیاں بس ایک جھٹکے کی دیر ہے کہ سارے ڈبے بمعہ انجن سیاسی پٹری سے اترتے نظر آتے ہیں

No comments:

Post a Comment