Sunday, September 6, 2015

صلح کلیت ، تکثیریت ، ابتدائی نقشبندی روایت اور شیخ ابن عربی - آخری حصّہ


خواجہ محمد پارسا سلسلہ نقشبندیہ کی ادبی و فکری روایت کے علمبردار تھے تو اس طریقہ کو باقاعدہ ایک منظم شکل میں تنظیمی طور پر چلانے کے پیش رو خواجہ بہاءالدین نقشبند کے ایک اور مرید و خلیفہ مجاز خواجہ علاءالدین محمد بخاری متوفی 1400ء / 800 ھ تھے جو کہ صوفیاء نقشبند میں خواجہ علاءالدین عطار کے نام سے جانے جاتے ہیں اور علاءالدین محمد بخاری کے ہم نام ، ہم عصر تھے جوکہ سعد الدین تفتازانی اشعری کے شاگرد اور ابن عربی کے مکتب کے سخت خلاف تھے - جبکہ خواجہ عطار شیخ ابن عربی کے معتقد اور شیدا تھے ، فخرالدین سیفی متوفی 1531ء / 939ھ نے اپنی کتاب " رشحات عین الحیات " میں میں صوفیانہ اصطلاح " تلوین و تمکین " پر بحث کے دوران خواجہ علاءالدین عطار کا اس بارے میں تذکرہ کیا تو خواجہ عطار نے تلوین و تمکین کے درمیان فرق کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ ابن عربی کا تذکرہ بہت اہتمام اور شوق سے کیا ، ان کو امام العارفین اور صوفیاء عظام میں سب سے بڑے حقیقت شناس کہا - شیخ علاء الدین عطار نے بتایا کہ شیخ ابن عربی کہا کرتے تھے کہ مشائخ کرام کی اکثریت تلوین کو ناقص روحانی حالت خیال کرتی ہے جبکہ ہمارے نزدیک یہ سب سے بہترین اور سب سے برتر حالت ہے اور انہوں نے کہا کہ ان کی اپنی حالت تلوین ویسی ہے جیسی اللہ نے اپنے لئے پسند کی کہ ہر روز اس کی نئی شان ہوتی ہے - اور شیخ ابن عربی کا کہنا تھا کہ تلوین کے اندر ہی تمکین ہوتی ہے یہ واحد حوالہ ہمیں خواجہ علاءالدین عطار کے حوالے سے شیخ ابن عربی سے ان کی محبت اور عقیدت کا ملتا ہے اور اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے شیخ علاءالدین عطار بھی مسلک صلح کل پر ہی عمل پیرا تھے ، خواجہ علاءالدین عطار کے بعد نقشبندی سلسلے کی مرکزی نیابت حضرت مولانا یعقوب چرخی متوفی 1447ء / 851ھ کے پاس آئی اور ہمیں ان کی تحریروں میں کہیں بھی شیخ ابن عربی کے اثرات براہ راست نہیں ملتے ، ان کی کتاب " رسالہ ابدالیہ " میں " رجال الغیب " کی بحث میں توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ شیخ ابن عربی کی بات کرتے لیکن وہآں بھی ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ شیخ یعقوب چرخی نے تصوف کی فلسیفانہ معارفانہ مابعدالطبیاتی جہات کی بجائے اس کی عملی جہات پر زیادہ توجہ مرکوز کی لیکن ان کی تحریروں میں بھی ہم " محبت " اور " بھائی چارے " کا پیغام دیکھتے ہیں لیکن مولانا یعقوب چرخی کے بعد سلسلہ نقشبندیہ کی نیابت جب خواجہ عبیداللہ احرار متوفی 1490ء / 896ھ تک آئی تو سلسلہ نقشبندیہ پر شیخ ابن عربی کے اثرات کھل کر سامنے آگئے اور سلسلہ نقشبندیہ کی فکری و نظریاتی جہت بہت غالب حد تک " صلح کلیت ، تکثریت اور تنوع " کی طرف جھکتی نظر آئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ خواجہ عبیداللہ احرار ایک تو خواجہ بہاءالدین نقشبند کے بعد سلسلہ نقشبندیہ میں کئی پہلوؤں مين خواجہ بہاءالدین نقشبند کی طرح نظر آئے اور پھر ان کا تیموری سلطنت میں سماجی اور سیاسی کردار بھی بہت نمایاں تھا اور اکثر مورخین نے ان کے اسی سیاسی اور سماجی کردار کو ہی زیادہ موضوع بنایا جبکہ ان کی جو صوفیانہ جہات تھیں ان کو کم توجہ دی -لیکن خواجہ عبیداللہ احرار کی جو تحریریں ہیں اور ان کی جو مستند سوانح عمری ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواجہ عبیداللہ احرار شیخ ابن عربی کے بہت بڑے مداح ، ان کے نظریہ وحدت الوجود کے پرچارک تھے خواجہ عبیداللہ احرار اور شیخ ابن عربی میں ایک پہلو مشترک تھا اور وہ یہ تھا کہ دونوں روحانی تربیت میں روح عیسی کے فیض یافتہ اور سلوک میں عیسوی المشرب تھے -عبیداللہ الاحرار کی ایک غیرمطبوعہ کتاب " فصوص الحکم " کی مشکل عبارتوں کے حل پر مبنی ہے -اور ان کو شیخ ابن عربی کی فتوحات المکّیۃ پر عبور حاصل تھا اور مولانا عبدالرحمان جامی بھی شیخ ابن عربی کی مشکل عبارتوں کے حل کے لئے رجوع کرتے تھے خواجہ عبیداللہ احرار کی سب سے بڑی کتاب " فقرات " ہے اور یہ کتاب سلسلہ نقشبندیہ کے روحانی ورثہ اور عملی طریقے کی وضاحت پر مشتمل ہے اور اس کتاب کا جو آخری باب " حقیقت محمدیہ " کے عنوان سے ہے وہ سارے کا سارا فصوص الحکم میں اس حوالے سے آنے والی بحث سے لیا گیا ہے جبکہ اس میں جو "مقام صدق " کی بحث ہے وہ بھی شیخ ابن عربی کی اسی موضوع پر کی گئی بحث جو فتوحات المکیۃ مین ہے سے لی گئی ہے علی بن حسین فخرالدین سیفی کی کتاب " رشحات عین الحیات " خواجہ احرار کے حالات زندگی کے بارے میں سب سے پہلی اور بنیادی کتاب ہے اور اس کتاب میں کئی ایک صوفیانہ اصطلاحات ، خیالات ، کیفیات و حالات کی تشریخ خواجہ عبیداللہ احرار نے جگہ جگہ شیخ ابن عربی کے حوالے دیکر کی ہے اور خواجہ عبیداللہ احرار نے شیخ ابن عربی کی مابعدالطبعیاتی تصورات کی سماجی و عمرانی جہتوں پر بھی گفتگو کی ہے اور اس سے بھی ان کی صلح کلیت کی طرف روش کا اظہار ہوتا ہے - خواجہ احرار نے اپنے زمانے ے تیموری فرمانروا کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ اپنی سلطنت میں فرقہ وارانہ منافرت کو پھیلنے یا حکومت کو اس کا پشتیبان بننے سے روکے اور خواجہ احرار نے اس زمانے کے ہرات صلح کل مخالف علماء کے گروہ کا مقابلہ بھی کیا جوکہ اس زمانے میں شیخ ابن عربی اور ان کے صوفی مکتبہ فکر کی مخالفت بھی ان کی صلح کلیت کی وجہ سے کررہا تھا ، خواجہ عبیداللہ احرار نے واضح کیا کہ ان کے نزدیک " مذھبی علم " کی معراج اور مغز " وحدت الوجود " ہے اور اس تک رسائی تزکیہ قلب کے بغیر ممکن نہیں ہے -وحدت الوجود کو مذھبی علم کا مغز قرار دینے والا صوفی کبھی بھی " صلح کلیت ، تکثریت اور مذھبی تنوع " کا محالف نہیں ہوسکتا خواجہ عبیداللہ احرار کے بعد سلسلہ نقشبندیہ میں شیخ ابن عربی کے مکتبہ فکر اور ان کے تصورات کو نقشبندی عوام اور نقشبندی صوفیاء میں عام کرنے میں جس شخصیت کا سب سے بڑا ہاتھ ہے اور جس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے اپنے اس زمانے کے خراسان ، عثمانیہ سلطنت ، ہندوستان اور ایران میں " صلح کل تصوف " کو پھیلانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ، اس نقشبندی صوفی شاعر و عالم کا نام مولانا عبدالرحمان جامی متوفی 1492ء / 898ھ ہے اور عبدالرحمان جامی ایک طرف تو بچپن میں خواجہ بہاءالدین نقشبند کے خلیفہ مجاز اور سلسلہ نقشبندیہ کی فکری نیو ڈالنے والے خواجہ محمد پارسا سے ملے تھے تو دوسری طرف ان کی ہرات میں خواجہ محمد پارسا کے صاحبزادے خواجہ ابو نصر سے گہری دوستی تھی اور خواجہ نصر نے اپنے والد کی شیخ ابن عربی سے شیفتگی کا زکر کیا تھا ، پھر مولانا عبدالرحمان جامی کا خواجہ عبیداللہ احرار سے بھی رابطہ تھا اور مولانا عبدالرحمان جامی اکثر شیخ ابن عربی کی کتب کو سمجھنے کے لئے خواجہ عبیداللہ احرار سے رجوع کیا کرتے تھے اور عبدالرحمان جامی ہرات کے اندر شیخ ابن عربی اور ان کے تصورات تصوف کی مخالفت کرنے والے مولویوں سے براہ راست بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے اور اپنی نثر وشاعری میں وہ شیخ ابن عربی کے تصورات کو استعمال کرتے تھے اور ان کی انہی کوششوں کے سبب وہ وہ پوری فارسی خواں آبادی میں شیخ ابن عربی کے تصورات و افکار کے بڑے شارح بنکر ابھرے اور وہ فکر ابن عربی کو اپنے شاگردوں ، مریدوں اور عام لوگوں میں پھیلاتے تھے مولانا عبدالرحمان جامی کی شیخ ابن عربی میں دلچسپی کا سب سے بڑا تحریری اظہار ان کی معرکۃ الآراء کتاب " نقد النصوص فی شرح نقش الفصوص " میں ہوا اور یہ کتاب " نقش الفصوص " کی شرح ہے جو شیخ ابن عربی نے اپنی کتاب فصوص الحکم کے خلاصہ کے طور پر تیار کی تھی - مولانا عبدالرحمان جامی نے اس کتاب میں خود کو شیخ ابن عربی کی بیان کردہ اصطلاحات کے معانی اور ان کی تکنیکی مشکلات کے حل تک محدود رکھا اور اس شرح میں انہوں نے خواجہ احرار کی " فقرات " جیسا راستہ اختیار نہیں کیا - جامی کی اس کتاب کو ان کے زمانے میں ہی ہرات اور اس سے باہر " صوفی خانقاہوں " میں بطور نصاب شامل کرلیا گیا اور پھر مولانا عبدالرحمان جامی نے ترک عثمان بادشاہ محمود الفاتح کے لئے ایک کتاب عربی میں " الدرۃ الفاخرہ " لکھی جس ميں متکلمین و فلاسفہ و صوفیآء کا تذکرہ ہے اور اس میں بھی شیخ ابن عربی کو تصوف و باطنی فلسفہ کے امام میں شمار کیا گیا عبدالرحمان جامی نے معروف صوفی شاعر فخرالدین عراقی متوفی 1298ء / 688ھ کی کتاب اللمعات کی شرح " اشعۃ اللمعات " کے عنوان سے لکھی اور اسی طرح ان کی معروف کتاب " لوائح جامی " اور پھر فرید عطار 1235متوفی ء / 633ھ کی کتاب " لمعات و لوامع " کی شرح لکھی جس کا عنوان تھا " لوامع انوکر الکشف و الشہود علی قلوب ارباب زوق و الجود " اور اس نے پہلی مرتبہ فارسی خواں طبقات علمآء میں شیخ ابن عربی کی تھیوسوفی کو تفصیل کے ساتھ بيان کیا عبدالرحمان جامی کا شیخ ابن عربی پر کیا گیا دانشورانہ کام یقینی بات ہے اہل علم کے ایک مخصوص حلقے تک محدود رہا لیکن جامی نے اس دانشورانہ ، عالمانہ کام پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی شاعری کو بھی شیخ ابن عربی کی " صلح کل تھیوسوفی " کو پھیلانے اور عام فہم بنانے کے لئے استعمال کیا اور جامی کی شاعری صرف ہرات و خراسان تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے ہندوستان ، ترک عثمان سلطنت ، ايران کو بھی متاثر کیا اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کا سنٹرل ایشیا ، جنوبی ایشیاء ، ایران ، ترکی اور اس سے ملحق فارسی جہاں پڑھی لکھی جاتی ہے کے علاقے جامی کی شاعری سے اثر پذیر ہوئے اور شیخ ابن عربی کے صلح کل نظریات ان سارے علاقوں تک سفر کرتے گئے اور یہاں یہ ذھن مین رہنا چاہئیے کہ مولانا عبدالرحمان جامی نقشبندی سلسلہ کے ابتدائی اکابر صوفیاء مين سے تھے اور ان کا زمانہ شعور نفشبندی سلسلہ کے تیسرے پیشواء خواجہ احرار سے ہی شروع ہوجاتا ہے عبدالرحمان جامی نے اپنے شاگرد عبدالغفور لاری کو بتایا کہ ابتداء میں وہ " وحدت الوجود " بارے شک کا شکار تھے لیکن خواجہ پارسا کی تحریروں نے ان کے شک کو دور کیا اور ان کو شیخ ابن عربی کے قریب کردیا ، اسی طرح خواجہ پارسا کے صاحبزادے خواجہ ابو نصر جو خود بھی شیخ ابن عربی کی فکر کے بہت بڑے شناور تھے کے ساتھ دوستی اور رفاقت نے بھی جامی کو " وحدت الوجودی " بنانے میں اہم کردار ادا کیا ، اسی طرح سے بعدازان خواجہ عبداللہ احرار سے عبدالرحمان جامی کی رفاقت نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا عبدالرحمان جامی کا تعلق خواجہ عبیداللہ احرار سے تھا لیکن وہ ان سے بیعت نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے خواجہ سعدالدین کاشغری متوفی 1456ء/ 860ھ سے بیعت کی جو خواجہ نظام الدین خاموش کے خلیفہ تھے جوکہ خواجہ علاءالدین عطار کے خلیفہ تھے اور خواجہ سعدالدین کاشغری بھی شیخ ابن عربی کے متعقد تھے جبکہ ان کے مریدان میں خواجہ شمس الدین محمد کسوئی تھے متوفی 1489ء / 894ھ اور یہ شیخ ابن عربی پر ماہر خیال کئے جاتے اور شیخ ابن عربی کے تصورات توحید پر یہ ان کے مخالف علماء کو اپنے دلائل سے لاجواب کردیا کرتے تھے - کاشغری کے ایک اور شاکرد محمد شمس الدین روجی متوفی 1499ء / 904ھ تھے جو شیخ ابن عربی کے تصورات اور تحریروں کے بہت بڑے مبلغ بنکر ابھرے اور ان کا کہنا تھا کہ " تعینات کائنات ' کے اسرار تک وہ شیخ ابن عربی کے زریعے سے ہی پہنچے تھے جس زمانے میں جامی سانس لے رہے تھے اور جس زمانے میں سلسلہ نقشبندیہ خراسانی علاقوں میں اپنے پیر جمارہا تھا اس زمانے میں خراسان ہو کہ ایران اور ترک عثمان ہو وہآں پر فرقہ وارانہ فضاء بہت شدید ہوچکی تھی اور اس کے اثرات خود تصوف پر بھی مرتب ہورہے تھے جبکہ ایسے علمآء اور متکلمین سامنے تھے جو ہر اس صوفی اور عالم کے خلاف کمربستہ تھے جو " صلح کلیت " کی بات کرتا تھا اور فرقہ وارانہ منافرت سے دور رہتا تھا اور اس زمانے میں مخصوص ‎سیاسی حالات اور جیوپالیٹکس کی وجہ سے بھی جو شیعہ - سنّی لڑائی تھی وہ سخت تر ہوتی جارہی تھی اور اس وجہ سے ہرات جہاں پر سنّی مکتبہ فکر غالب تھا اور دربار میں ایسے علماء کی کمی نہیں تھی جو اس تنازعے کو " مذھب " کی بقاء سے جوڑ کر دیکھتے تھے اور اس زمانے میں علماء ماوراءالنھر کے کئی ایک حصّوں کی جانب سے شیعہ کو مرتد قرار دینے اور ان کا خون مباح قرار دینے کے فتوے بھی دے رہے تھے اور یہی صورت حال ایرانی صفوی علاقوں میں نظر آرہی تھی کہ جہاں " سنّی " ہونا جرم ٹھہرگیا تھا تو ایسے شیخ ابن عربی جیسے صوفی " نفرت " کا نشانہ بن رہے تھے جو کہ " اتحاد و امن و آتشی " کی بات کرتے تھے اور " صلح کل " کا درس دیا کرتے تھے اور ان کے حق میں آواز اٹھانا ہرات میں مشکل ہورہا تھا جامی کے زمانے میں ہمیں ہرات کی جامع مسجد کے اندر کئی مرتبہ علماء و صوفیاء کے اجتماع کی خبریں ملتی ہیں - سلطان حسین مرزا ایسی مجالس میں خصوصی دلچسپی لیتا نظر آتا ہے ایک ایسی ہی مجلس میں فصوص الحکم میں " ایمان فرعون " کے بارے میں شیخ ابن عربی کے مخالف علمآء نے شیخ ابن عربی کو " مرتد " قرار دیا تو شیخ ابن عربی کے حامیوں نے کہا کہ شیخ ابن عربی کے حامی تو " مولانا قطب الدین شیرازی " متوفی 1310ء / 710ھ بھی تھے تو یہ فتوی ارتداد تو ان تک بھی جائے گا ، اس محفل کی خبر جب جامی تک پہنچی تو انہوں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ جو شیخ ابن عربی اور ان کی فکر کو سمجھنے کے اہل نہ ہیں ان کا مسجد ہرات میں ایسی باتیں کرنا اظہار جہل کے سوا کچھ بھی نہيں ، جامی کہتے تھے کہ ان کے معاصر علماء میں سے ایک بھی " فقہیہ " ہوتا تو شیخ ابن عربی بارے اس جہل کا اظہار نہ کرتا اور وہ کہا کرتے تھے کہ ان کے معاصر علماء میں سے اگر ایک ہزار علماء بھی مجتھد ہوجائیں تو بھی شیخ ابن عربی کے کل علم کے دسویں حصّے کی معرفت تک نہیں پہنچ سکتے اور وہ کہتے تھے کہ " ہرات " میں شیخ ابن عربی کے حوالے سے جو دشنمی اور جہالت پائی جاتی ہے اس کے سبب خواجہ پارسا شیخ ابن عربی کا نام لئے بغیر ان کے اقوال کا تذکرہ کرتے اور بس یہ کہا کرتے کہ ایک عظیم عارف کا قول ہے جامی سے کسی نے کہا کہ امام غزالی بھی تو شیخ ابن عربی کے نظریات کے مخالف تھے تو مولانا عبدالرحمان جامی نے کہا کہ اگر غزالی نے شیخ ابن عربی کا زمانہ پالیا ہوتا تو وہ بھی ابن عربی کی پیروی کرتے عبدالرحمان جامی نے سلسلہ نقشبندیہ کے اشغال و آذکار اور طریقہ کی وضاحت کے ۂئے جو رسالہ تحریر فرمایا تھا اس کا نام ہے " سررشتہ طریق خواجگان " اور اس رسالہ میں انہوں نے نشبندی صوفیاء اور شیخ ابن عربی کی تھیوسوفی کو ایک دکھایا ہے اور اس رسالے میں عبدالرحمان جامی نے شیخ ابن عربی کے " زکر نرم " ، اور نقشبندی صوفیآء کے زکر خفی دونوں کو اکٹھا کردیا ہے عبدالرحمان جامی نے کیسے شیخ ابن عربی کے مکتب اور سلسلہ نقشبندیہ کے درمیان الحاق اور ادغام کو راہ دی اس کا پتہ چلانے کے لئے ہمیں ان کے شاگردوں کی کتابوں اور تذکروں سے مدد ملتی ہے - ایسی ہی ایک کتاب " نفحات الانس " ہے جس کا ایک تکملہ ان کے شاگرد عبدالغفور لاری نے تحریر کیا جو کہ " تکملہ حواشی نفحات الانس " کے نام سے شایع ہوا ، اس میں عبدالغفور لاری نے تحریر کیا ہے کہ مولانا جامی اپنے شاگردوں کو جب سلوک صوفیاء کا درس دیتے تو وہ ساتھ ساتھ فصوص الحکم اور فتوحات کی عبارات کا حوالہ بھی دیتے اور ہم اسے نقل کرکے لکھتے جاتے تھے عبدالرحمان جامی کے بارے میں ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ فقہ حنفی کے بہت بڑےامام مجتهد ابو عبدالله محمد بن حسن بن فرقد الشيباني کی اولاد میں سے تھے جوکہ امام ابوحنیفہ کے شاگرد تھے اور ان کی کتاب " موطا امام محمد " بہت معروف ہے اور خود مولانا جامی بھی مذھب اہلسنت کے پیرو اور فقہ حنفی کے ساتھ وابستہ تھے اور ان کا خاندان اصفہان ایران سے ہرات آیا تھا اور ان کی پیدائش جام نام کے ایک قصبہ میں ہوئی تھی علی بن حسین فخرالدین صفی مصنف " رشحات عین الحیات " اگرچہ شاگردان خواجہ عبیداللہ احرار میں شامل تھے لیکن وہ ہرات میں رہتے تھے اور اسی وجہ سے مولانا جامی کے انتہائی قریبی رفقاء میں ان کا شمار ہوتا تھا اور ان کا بھی ابن عربی سے لگاؤ اظہر من الشمس تھا اور وہ بھی وحدت الوجودی ، صلح کلیت کے علمبردار تھے ، ابن عربی کا کھل کر دفاع کرتے تھے پندرھویں صدی کے دوسرے عشرے کے وسط میں ویسٹرن اناطولیہ سے ملّا عبداللہ اللھی خراسان آئے اور انہوں نے خواجہ عبیداللہ احرار کے ساتھ بہت وقت گزارا اور وہ مولانآ عبدالرحمان جامی سے بھی ملے اور اس دوران وہ سلسلہ نقشبندیہ سے وابستہ ہوئے اور یہی ملّا عبداللہ نے جنھوں نے ترک عثمان سلطنت کے علاقوں ميں سلسلہ نقشبندیہ کو پھیلایا اور اس کے ساتھ ترک ‏عثمان سلطنت کے علاقوں میں ابن عربی اور وحدت الوجود کو بھی مقبول کیا -انہوں نے " واردات بدرالدین سماوی " کے نام سے ایک کتاب لکھی بدرالدین سماوی کی وفات 1420ء /823ھ میں ہوئی تھی ، اس کتاب میں انہوں نے جگہ جگہ شیخ ابن عربی کی فتوحات ، فصوص اور مولانا روقی کی نظموں کا زکر کیا اور ان کا رسالہ " رسالہ احدیہ " بھی وحدت الوجود پر ہے اور اس کے علاوہ انہوں نے ترکش زبان میں ایک کتاب " زاد المشتاقین " لکھی جس میں 100 سے زائد صوفیانہ اصطلاحات کا زکر ہے اور سب ابن عربی سے مستعار لی گئی ہيں - ملّا عبداللہ اللھی کے شاگرد اور ارادت مند جن میں صوفی شعراء بھی شامل تھے سلسلہ نفشبندیہ اور شیخ ابن عربی کے خیالات کو ساتھ ساتھ پھیلاتے رہے بلکہ اور ان میں امیر بخاری متوفی 1516ء / 920 ھ بہت اہم نام ہے اور اسی طرح سے ملّا عبداللہ کے ایک اور مرید صوفی شاعر تھے جو ٹرکش جامی کہلائے یہ 1532ء /938ھ میں فوت ہوئے تھے ، اسی طرح سے وحدت الوجودی نقشبندی افکار کی ترویج و اشاعت میں بابا نعمت اللہ متوفی 1514ء / 938ھ نے ترکی میں اہم کردار ادا کیا اور ان کا " رسالہ وحدت الوجود " بہت اہم ہے ہندوستان میں نقشبندی سلسلہ کے موسس اعلی خواجہ محمد باقی باللہ متوفی 1603ء / 1002ھ تھے اور یہ خواجہ عبیداللہ احرار کی اولاد میں سے تھے اور خواجہ باقی باللہ کے مکتبوبات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی وحدت الوجود " صوفی " تھے اور اب ایک معاملہ یہ ہے کہ یہی شیخ احمد سرہندی کے مرشد تھے اور شیخ احمد سرہندی نے ان کے نام اپنے مکتوبات میں اپنے بہت سے کشوف کا زکر کیا اور کئی ایک مکتوبات میں انہوں نے وحدت الوجود سے اپنی وحشت کا زکر بھی کیا لیکن خواجہ باقی باللہ کا کوئی مکتوب ایسا نہیں ہے جو یہ ظاہر کرتا ہو کہ خواجہ باقی باللہ نے اپنے پیش رو صوفیائے نقشبندیہ کا شیخ ابن عربی سے لگاؤ اور محبت کا جو چلن تھا اسے ترک کردیا ہو اور انہوں نے وحدت الوجودی راہ ترک کردی ہو - اگرچہ متاخرین اور خاص طور پر پاکستانی مجددی سلسلہ کے مورخین خواجہ باقی باللہ کی وحدت الوجود سے دستبرداری اور وحدت الشہود کو قبول کرنا ایک مسلمہ امر بتلاتے ہیں لیکن رجب علی نقشبندی کا کہنا ہے کہ اگر خواجہ باقی باللہ نے " وحدت الوجودی " مشرب ترک کردیا ہوتا تو وہ اپنے بیٹوں خواجہ کلاں اور خواجہ میر خورد کو ضرور " وحدت الوجودی " راستے کو ترک کرنے کا کہتے لیکن اس طرح کی کوئی وصیت ہمیں نظر نہیں آتی جبکہ خواجہ کلاں اور خواجہ میر خورد دونوں " وحدت الوجودی " تھے اور دونوں نے خواجہ معصوم کو خطوط میں " وحدت الوجود " کی مخالفت ترک کرنے کو کہا تھا شیخ احمد سرہندی کی نقشبندی سلسلے کی جو شاخ آگے چل کر " مجددیہ شاخ " کہلائی اس میں نقشبندی سلسلے میں شیخ ابن عربی اور ان کے وجودی مکتبہ فکر کو جو اہم مقام ابتدائی نقشبندی صوفیاء کے ہاں نظر آتا تھا وہ نہیں آیا اور اس کی جگہ " مکتوبات شیخ احمد سرہندی " نے لے لی اور یہ جو پوسٹ شیخ احمد سرہندی دور ہے اس میں " مجددی سلسلے " میں وحدت الوجودی مشرف سے دوری نے خود " صلح کلیت " سے دوری پیدا کی اور اس کا اثر متاخرین سلسلہ مجددیہ پر پڑتا نظر آیا اور سلطنت مغلیہ کے زوال سے کچھ عرصہ پہلے اورنگ زیب کے زمانے ميں کسی حد تک ' صلح کل مخالف اور ملامتیہ رنگ مخالف " خیالات کے حامی مذھبی پیشیواؤں کا غلبہ نظر آنے لگا اور یہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد ہندوستان میں پھیلتی ہوئی طوائف الملوکی کے زمانے میں اور زیادہ سنّی کلرجی کے ایک خاص حصّے ميں مقبول ہوا اور اس کے اثرات ہمیں ترک عثمان سلطنت میں سلسلہ نقشبندیہ کی بعض مجددی شاخوں پر بھی نظر آیا رجب نقشبندی کا کہنا ہے کہ مابعد احمد سرہندی دور میں نقشبندی مجددی شاخ نے شیخ ابن عربی کی مکتوبات کو فصوص و فتوحات کی جگہ دی اور یہ سلسلہ ترکی ، شام کے اندر بہت عرصہ تک چلا اور سنٹرل ایشیاء میں بھی یہ صورت حال جاری رہی لیکن اس سلسلے مں روک اور شیخ ابن عربی سے نقشبندی سلسلے کا بندھن پھر سے مولانا خالد بغدادی متوفی 1827ء / 1292ھ میں شیخ ابن عربی کی فکر کے احیاء سے شروع ہوا اور اس طرح سے تبدیلی نظر آئی رجب کہتا ہے کہ نقشبندی سلسلے کی بنیادیں استوار کرنے والے چاہے وہ سنٹرل ایشیاء میں تھے یا وہ ہندوستان میں تھے یا کہیں اور ان سب نے شیخ ابن عربی کی فکر اور صلح کلیت کو اپنے سامنے رکھا اور یہ امیر ہمدانی سے لیکر ہمیں شاہ نیامت ولی میں بھی نظر آتا ہے جوکہ 1431ء /834ھ میں فوت ہوئے اور شاہ نیامت ولی نے فتوحات المکّیۃ ، فصوص الحکم کی عربی میں شروح لکھیں اور اسے بلاد العرب میں بھی پھیلایا رجب علی نقشبندی کا کہنا تھا کہ خواجہ عبیداللہ احرار کے لفظوں میں صوفیاء کا فریضہ پہلے خود انسانیت پسند ہونا اور پھر دوسروں کو انسانیت پسندی کا درس دینا ہے اور یہ فرقہ و مسلک کی تنگنائیوں سے بہت اوپر کی چیز ہے جس سے شيخ ابن عربی بخوبی آگاہ تھے یہاں پر رجب نقشبندی کے تجزیہ میں ایک کمی ضرور ہے کہ اس نے مابعد شيخ احمد سرہندی دور میں ہندوستان کے اندر سلسلہ نفشبندیہ مجددیہ کے مکمل غلبے کا زکر تو کیا لیکن اس نے اس دوران ہندوستان پاک وہند کے وسیع و عریض خطے میں نقشبندیہ مجددیہ سلسلے کے بالمقابل دوسرے کئی طرق ہائے تصوف کی جانب اشارہ نہیں کیا جنہوں نے " صلح کلیت " کی جانب سفر جاری رکھا اور " تکثیریت مخالف " خیالات کو اپنے ہاں جگہ نہيں دی ، صلح کلیت کی طرف سفر ہمیں پاکستان میں شامل سندھ ، خیبرپختون خوا ، سرائیکی بیلٹ ، پنجاب اور دیگر علاقوں میں نظر آتا ہے اور یہاں کے صوفیاء کے بڑے بڑے نام سب کے سب صلح کل کے پیروکار نظر آتے ہیں یعنی بہاءالدین زکریا ملتانی ، شاہ شمس ، جلال سرخپوش ، سچل سرمست ، عثمان مروندی ، عبداللہ شاہ غازی ، بھٹائی ، بابا فرید گنج شکر ، سلطان باہو ، وارث شاہ ، میاں میر ، شال حسین ، بابا بلھّے شاہ ، خدابخش کھڑی شریف ، حضرت علی عثمان ہجویری ، میاں حسین زنجانی ، رحمان بابا یہ سب " صلح کلیت ، تکثیریت ۔ تنوع " کی روائت کو متشکل کرنے والے تھے اور یہ کوئی " اقلیتی ، اجنبی ، الگ تھلگ " رجحان نہیں تھا اور نہ ہی عوام اس سے کٹے ہوئے تھے بلکہ اس سے وابستہ تھے اور اسی رجحان نے تو " کٹھ ملائیت " اور " کٹر پنتھی " رویوں کی حوصلہ شکنی کی تھی اور اسی کٹّر پنتھی رویہ سے کراہت کا اظہار برملا ہمیں خواجہ فرید آف کوٹ مٹھن کے ہاں نظر آتا ہے ملّاں نی کئیں کار دے - شیوے نا جانن یار دے نوٹ : اس سمت تحقیق کا ایک رخ قاضی عابد ڈائریکٹر ادارہ ثقافت اسلامیہ نے اپنی تحریروں میں موڑا ضرور تھا لیکن ان کے چیدہ چیدہ بیانات کو اور زیادہ دلائل کے ساتھ پھیلانے کا کام نہیں ہوا حالانکہ " صلح کلیت " جس کا مطلب مذھبی ، نسلی شناختوں کے تنوع اور کثرت کے ساتھ جینے کا حق تسلیم کرنا بھی ہے کے خلاف چلنے والی " مذھبی یک نوعی اور یک شناختی تحریک " جس کے بطن سے مسلمانوں کے اندر سے تکفیری و خوارجی فتنوں کا جنم ہوا ہے کو چیلنج کرنے کے لئے اس رخ پر تحقیق لازم تھی مگر ہمارے ہاں اس سمت تحقیق کا باب کم از کم بڑے بڑے اداروں میں تو اب بند کردیا گیا ہے ، مجلس ترقی اردو ، اقبال اکادمی ، مقتدرہ ، اکادمی ادبیات سمیت کوئی ادارہ بھی اس موضوع پر ریسرچ کرنے یا کرانے کو تیار نہیں ہے کیونکہ اس سے ایک طرف تو وہ سارے "قضیے " دھڑام سے گرنے کا خدشہ ہے جو شیخ احمد سرہندی اور شاہ ولی اللہ کے گرد تعمیر کئے گئے ہیں

No comments:

Post a Comment