Monday, September 28, 2015

شام : اوبامہ اور پیوٹن کی پوکر گیم


کل جب یو این کے 70 ویں جنرل اسمبلی سیشن میں امریکی صدر باراک اوبامہ اور ولادیمیرپیوٹن نے خاص طور پر مڈل ایسٹ اور شام پر اپنے اپنے موقف کے دفاع میں دلائل دئے تو سچی بات یہ ہے کہ مجھے باراک اوبامہ کی بے بسی پر سچ مچ رحم سا آنے لگا کہ زمین پر سارےحقائق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے کیس کو مضبوط کررہے ہیں اور باراک اوبامہ کی کسی حد تک " آرٹفیشل فاختائی رنگ لئے تقریر " ان حقائق کے سامنے آنے پر پھیکی پڑگئی جس کے تذکرے سے اوبامہ جی اور ان کے اتحادی بہت گبھراتے ہیں امریکی صدر اوبامہ کی شام کے ایشو پر ساری تقریر کا مدعا یہ تھا کہ وہ شام میں روس کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں اور ایران کو بھی ایک فریق مانتے ہیں لیکن وہ اس بات پے بضد تھے کہ یہ دونوں ملک " بشار الاسد کی رخصتی " پر بھی اتفاق کرلیں اور ایک نئے سیاسی سیٹ اپ کی طرف آنے پر رضامند ہوجائیں - یعنی وہی رجیم تبدیلی پروجیکٹ مگر ایک نئے نام سے جسے امریکی صدر اوبامہ نے " ڈپلومیٹک ڈسکورس " کہا ولادی میر پیوٹن جوکہ دس سالوں میں پہلی مرتبہ جنرل اسمبلی سیشن میں ڈائس پر نمودار ہوئے نے امریکی صدر کے بچھائے دام میں آنے سے یکسر انکار کیا اور اس مرحلہ پر ان کی جانب سے یہ موقف سامنے آیا کہ " داعش " کے خلاف جنگ جیتنی ہے تو شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا - امریکی جریدہ نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں دونوں صدور کی اس نوک جھوک بارے کسی حد تک بہت ہی درست تجزیہ کیا ہے Beyond the verbal jousting and steely looks over lunch after the morning speeches, however, the two leaders were still playing a subtle game of diplomatic poker, each trying to maneuver the other into shifting his position. امریکی کیمپ میں شامل کئی ایک پاکستانی " کمرشل لبرل " اور شام ، عراق ، یمن کے معاملے پر بالخصوص اور مڈل ایسٹ پر بالعموم ان کے اتحادی بن جانے والے " سعودی نواز " دایاں بازو کے مہان جہادی تجزہ نگاروں ، کالمسٹوں ، اینکر پرسنز اور نام نہاد انوسٹی گیٹو رپورٹنگ کرنے والوں کے لئے " شام " کی صورت حال خاصی شرمندگی پیدا کرنے والی ہے لیکن وہ گبھرائیں نہیں ، مغرب کے اندر ایسے " جادوگر تجزیہ کاروں " کی کمی نہیں ہے جو ان کو " بے بسی " کی اس کیفیت سے جلد نکالنے کے لئے ایک اور " فرضی خطرہ " تلاشنے کی کوشش میں ہیں اور ایسا ہی ایک رائٹر برطانوی نژاد مصنف جان آر برادلی ہے جو کہ عمر کے پانچویں عشرے ( 45 سال ) میں ہیں مشرق وسطی کے امور پر ماہر خیال کئے جاتے ہیں اور انہوں نے " بہار عرب " میں چھپے " سلفی جنونیت اور بنیاد پرستانہ رجحانات اور ان کے بہار عرب تحریک کو ہائی جیک " کرنے کے امکانات پر جو پیشن گوئیاں کی تھیں وہ بہت حد تک درست ثابت ہوئیں - ان کی کتابوں
Inside Egypt
Saudi Arabia Exposed
Arab Spring نے کافی شہرت پائی مجھے جان آر برادلی اس لئے یاد آگئے کہ انہوں نے برطانوی ہفت روزہ رسالے Spectator میں حال ہی میں ایک آرٹیکل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی صدر باراک حسین اوبامہ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے خطابات کا باہمی موازانہ کرتے ہوئے لکھا ہے اور ان کے مضمون کا آغاز ہی اس جملے سے ہوتا ہے Bizarrely, Putin is talking more sense on Syria than anyone else عجیب و غریب طور پر پیوٹن شام کے بارے میں کسی سے بھی زیادہ عقل مندی سے بات کررہا ہیں نوٹ : ویسے برادلی کے نزدیک پیوٹن کا زیادہ ہوش مندی کے ساتھ بات کرنے کو عجیب و غریب کہنا اس کے اپنے تعصبات کی عکاسی بھی کرتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں ہوش مندی کی باتیں تو یورپی اور امریکی حکومتوں کو زیب دیتی ہیں کیونکہ وہی عقل کے مدار المہام گردانے جاتے ہیں اور یہاں بھی اس پورے آرٹیکل میں برادلی نے امریکہ اور برطانیہ سمیت جملہ اتحادیوں کی مڈل ایسٹ بارے سٹریٹجی پر جو تنقید کی ہے اس میں بذات روس یا ایران کے لئے جذبہ خیر خواہی نہیں ہے بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکیوں کی حماقتوں کی وجہ سے روسی صدر پیوٹن " مدبر نظر آرہے ہیں ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ان میں اور وہ اسے روسی صدر پیوٹن کی ایک بلف گیم کہتے ہیں اور یورپ و امریکہ کو " روس " کے عزائم سے ڈراتے نظر آتے ہیں اسی لئے اس مضمون کی ایک ذیلی سرخی رسالے کی ویب سائٹ پر یہ نظر آتی ہے
Our Syria plans have been a total shambles – leaving a vacuum for Russia's شام بارے ہمارا منصوبہ مکمل طور پر باعث شرم بن چکا ہے - اس نے روس کے ہماری جگہ لینے کا خلا پیدا کیا ہے یعنی برادلی کو روس کے مغربی بلاک ( اگرچہ یہ اصطلاح اب خاصی گمراہ کن ہوچکی ہے مگر پھر بھی اس سے کام چلانا مجبوری ہے ) کی جگہ مڈل ایسٹ میں شام کے اندر لینے پر خاصا دکھ ہے جان برادلی اپنے آرٹیکل کے آغاز میں لکھتا ہے کہ
At the outset of Syria’s brutal four-year civil war, I was an almost unique voice in the British media deploring the push to depose the secular dictator President Bashar al-Assad, especially in the absence of a genuinely popular uprising against him. Here in The Spectator I tried to point out that such a short-term strategy would have devastating long-term consequences. Assad, I argued, would not fall, because the people of Damascus would not rise up against him. The so-called secular rebels were in fact vicious Islamists in disguise. Western interests in the region would be dramatically undermined by Saudi and Iranian militias, who would fight a devastating proxy war. Syria’s extraordinarily diverse population risked annihilation as a result. شام کی چار سالہ خوفناک خانہ جنگی کے نمودار ہونے پر ہی میں برٹش میڈیا میں وہ منفرد آواز تھا جس نے خاص طور پر ایک حقیقی قسم کے پاپولر ، مقبول عوامی ابھار کی غیر موجودگی میں سیکولر آمر بشار الاسد کو ہٹانے کی کوششوں کی مذمت کی تھی - سپکٹیٹر رسالے ہی میں ، مين نے ایسی شارٹ ٹرم حکمت عملی کے تباہ کن نتائج و عواقب نکلنے کی نشاندہی کی تھی - نام نہاد سیکولر شامی باغی اصل میں " اسلامسٹ " ہیں اور میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ " مغربی مفاد " سعودی اور ایرانی ملیشیاؤں کے مفادات کے باہمی ٹکراؤ میں گم ہوجائے گا ، جو کہ ایک تباہ کن پراکسی وار لڑیں گی - شام کی غیرمعمولی متنوع آبادی اس جنگ کے نتیجے میں مکمل طور پر فنا ہونے کے خطرے سے دوچار ہوگی جان آر برادلی مغرب اور امریکہ کی حکومتوں کی حماقتوں کے نتائج و عواقب کا آئینہ بھی ہمارے سامنے اس آرٹیکل میں رکھتا ہے ، وہ لکھتا ہے کہ
No one listened, and I tired of trying to convince them of their folly. Four years on, the suffering of the Syrian people — 250,000 slaughtered, half of the population internally displaced and millions more made refugees — is obvious. And last week, in the midst of Europe’s biggest refugee crisis since the second world war (brought about in no small part by fleeing Syrians), the extent of the West’s geopolitical miscalculations became painfully evident کسی نے نہیں سنا ، اور میں ان کی حماقت بارے ان کو باور کرانے کی کوشش کرتا تھک گیا - چار سال کے دوران شام کے لوگوں کے مصائب اب سب پر ظاہر و باہر ہیں - ڈھائی لاکھ لوگ زبح کردئے گئے ، آدھی سے زیادہ آبادی داخلی طور پر مہاجر ہوگئی اور لاکھوں لوگ مہاجر بن گئے - گزشتہ ہفتے دوسری جنگ ‏عظیم کے بعد آنے والے یورپ کے سب سے بڑے " رفیوجی بحران " کے دوران مغرب کی تکلیف دہ حد تک " جیو پولیٹکل پیش بینی اور شماریت پسندی کے مغالطوں کی حد " بہت واضح ہوگئی برادلی شام میں جاری کشاکش کی خوفناکی کی مزید پرتیں کھولتا ہوا لکھتا ہے مختلف وابستگیاں رکھنے والے جہادی ، جوکہ اب بلاشک واحد اپوزیشن ہیں علوی اکثریت کے علاقے اور ساحلی پٹی پر مشتمل شامی علاقے کی جانب بڑھ رہے ہیں اور انچ بہ انچ دمشق کے قریب تر ہوتے جاتے ہیں - تو لمبے عرصے سے چلے آرہے شام کے اتحادی روس نے جسے واشنگٹن کو دھوکہ دینے کے لئے کہا جائے گا شامی رجیم کے سب سے مضبوط گڑھ لٹکیا میں فوجی اڈے بنائے - اور چشم زدن میں اس کے ٹینک ، لڑاکا جیٹ طیارے ، فوجی مشیر ، جنگی طیارے اور یہاں تک کہ سب سے جدید ترین اینی کرافٹ مزائل سسٹم بھی وہاں پر موجود تھے -اس کے انجئینروں نے راتوں رات ہوائی جہازوں کی لینڈنگ کے لئے پٹی بھی تعمیر کردی اور اس کی بحریہ نے شامی بندرگاہ ٹارٹس جوکہ لیز پر رشیا کے پاس ہے کے ںزدیک فوجی مشقیں بھی کیں برادلی کے مطابق ایک طرف تو روس تھا جس نے بشار الاسد کی حکومت اور اس کے دفاع کو مضبوط بنایا جبکہ دوسری طرف مغربی حکومتیں تھیں جو داعش کے خطرے سے اس وقت تک بے خبر رہیں جب تک یو ٹیوب پر اس کے خودساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی نے اپنے خلیفہ ہونے اور نام نہاد اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان نہ کرڈالا -برادلی کہتا ہے کہ مغربی حکومتیں بشمول امریکہ نے داعش کا مقابل کرنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی ترتیب دینے کی بجائے روس اور ایران کی مدد سے مضبوط ہونے والے بشار الاسد کی حکومت کے طوالت اختیار کرنے کے ڈر کو اپنے اعصاب پر سوار رکھا اور اس خوف کا تدارک کرنے کے لئے ایک نئی ماڈریٹ ، سیکولر باغی فوج بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا اور 500 ملین ڈالر کے اس پروجیکٹ سے ابتک چار سے پانچ فوجی تیار ہوئے جبکہ ایک اور فوجی دستے کے75 کے ایک فوجی بیج میں سے 35 القائدہ کے ساتھ جاکر مل گئے ہیں جان آر برادلی کا پیوٹن سے تعصب بلکہ جیلسی ایک مرتبہ پھر عود کرکے آتی ہے اور وہ کہتا کہ مغرب کی حماقتوں کی وجہ سے آج پیوٹن یورپ کے سامنے خود کو یورپ کو " رفیوجی کرائسز " سے بچانے والا بناکر پیش کررہا ہے - اور وہ کہتا ہے کہ " مہاجروں کے اس بہاؤ کو ہم صرف شام میں بشار الاسد کی حکومت کو بچاکر ہی روک سکتے ہیں جان برادلی کہتا ہے کہ بشار الاسد کی فوجیں شمال میں داعش کے ٹھکانوں پر ایک کے بعد ایک فضائی حملہ کرتی ہیں اور حیرت انگیز طور پر ٹھیک ٹھیک اہداف کو نشانہ بناتی ہیں اور مغربی سیاست دان جو بشار الاسد کو ایک شیطان آمر کہتے نہیں تھکتے تھے اور کہتے تھے کہ " بشار الاسد کی رخصتی کے دن " گنے جاچکے ہيں وہ داعش کے خلاف بشار الاسد کی فوجوں کی ان کامیابیوں پر " دانتوں میں انگلی " دبائے حیرت سے دیکھتے ہیں اور ان کے پاس اس پر اعتراض کی گنجائش نہیں رہی جبکہ پیوٹن اب ان کو کہہ رہا ہے کہ داعش کا مقابلہ کرنے اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے بشار الاسد رجیم سے لڑنے کی بجائے اس کے ساتھ ملکر نیٹو فورسز کو داعش کے خلاف کاروائی اور شام کے دفاع کی ضرورت ہے برادلی پیوٹن کے اس رويے اور پالیسی کو پیوٹن کی " بلف گیم " قرار دیتا ہے - ہم اسے بھی برادلی کا تعصب کہہ کر نظر انداز کرسکتے ہیں لیکن یہ برادلی یہ اعتراف بھی کرتا ہے کہ بشارالاسد جوکہ اس وقت شام کے ایک تہائی حصّے کو کنٹرول کررہا ہے پہلے سے کہیں زیادہ شامیوں میں مقبول ہوچکا ہے - حال ہی میں ایک سروے نے بتایا کہ 80 فیصد شامی آبادی کا خیال یہ ہے کہ داعش کو " مغرب " نے جنم دیا ہے اور اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ بشار الاسد کے زیر کنٹرول شامی علاقوں اور دمشق میں بشار الاسد کے مخالفوں میں سے جو باقی رہے ان میں سے کچھ نے تو داعش کی صفوں مين شمولیت کرلی جبکہ باقیوں نے اپنے آپ کو ان شامیوں ميں جاکر پھاڑ لیا جو ان کے خیال ميں " کافر اور مرتد " تھے واشنگٹن اور اس کے اتحادی بشمول رجعتی عرب ریاستیں اب یہ ماننے لگے ہیں کہ شام کے بارے میں پیوٹن کا موقف درست ہے اگرچہ انہوں نے یہ ماننے میں بہت دیر لگائی ، ابربوں ڈالر خرچ کئے برادلی کی طرح ایک اور برطانوی نژاد سابق انٹیلی جنس افسر اور مڈل ایسٹ کے امور پر ماہر پیٹرک کوک برن نے بھی مغرب کی مڈل ایسٹ پالیسی پر آغاز کار سے ہی شدید تنقید کی اور اس نے " داعش " کے عراق میں ابھار پر ایک مبسوط کتاب " جہادیوں کی واپسی " لکھی اور اس کے درجنوں تجزیاتی آرٹیکل بھی انھی باتوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں جن کا تذکرہ برادلی نے کیا ہے اور " عراق " ميں امریکیوں کا فوجی ایڈونچر ایک ڈروآنے خواب میں بدلا اور یہآں بھی آخرکار امریکیوں کو اپنے سب سے بڑے " دشمن " ایران کا سہارا داعش کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے لینا پڑا اور ایرانیوں سے تعاون کرنا پڑا برادلی داعش اور دیگر تکفیری فاشسٹوں کے خلاف بشار الاسد کی کامیابیوں اور اس حوالے سے ایران ، روس کے وہآن پر بڑھتے ہوئے اثر کی ایک " انتہائی پکچر " بناکر مغرب کے سامنے رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کی مضبوطی نے روس کو جدید ترین مزائل سسٹم اور جدید نیوی کے ساتھ ٹارٹس بندرگاہ کے زریعے سے یورپ کے دروازے پر لابٹھایا ہے اور اب اگر مستقبل قریب میں امریکہ نے بشار الاسد کے خلاف فوجی کاروائی کی تو یہ روس سے براہ راست جنگ بن جائیگی اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ امریکہ بشار الاسد کی حکومت کا حاتمہ اس لئے چاہتا تھا کہ اس کے زریعے سے ایران کی سب سے مضبوط اتحادی تنظیم حزب اللہ سے اس کو نجات ملے گی اور ایران کے مضبوط ٹھکانے ختم ہوں گے ، لیکن اوبامہ اور مغرب کی پالیسیوں اور حماقت نے الٹا بشار الاسد ، حزب اللہ کو مزید مضبوط کرڈالا ہے اور ایران سے " ایٹمی پروگرام پر ڈیل " کو بھی برادلی مغرب کی جانب سے اپنے مضبوط ترین اتحادی اسرائیل کو " کنارے " لگانے سے تعبیر کرتا ہے اور اسے ایک اور امریکی اور مغربی حماقت قرار دیتا ہے -مجھے برادلی بین السطور یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ مغرب اور امریکہ کو بشار الاسد کو روسی اور ایرانی کیمپ میں گرنے کی بجائے گود لے لینا چاہئیے تھا اور اپنے رجعت پسند اتحادی " سعودی عرب " کی ایران سے پراکسی وار کا حصّہ نہیں بننا چاہئیے تھا لیکن یہ ایک طرح سے زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے ایک یوٹوپیائی تصور سامنے لانے کی کوشش ہے برادلی کے مخصوص تعصبات سے بھرے تجزیے کی بجائے برطانوی وار رپورٹر رابرٹ فسک نے ڈیلی انڈی پینڈنٹ لندن میں اپنی تازہ رپورٹ میں کہیں زیادہ متوازن اور مثبت تبصرہ کیا ہے اس نے حال ہی میں ایک آرٹیکل Russia now has troops on the ground in the fight against Isis
روسی زمینی فوجی دستے داعش کے خلاف لڑنے کے لئے اب شام میں موجود ہیں کے عنوان سے لکھی رپورٹ میں وہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ روسی صدر پیوٹن جائز طور پر مغرب اور امریکیوں کی شام پر پالیسی کو ناکام پالیسی قرار دیتا ہے اور اپنی حکمت عملی کی کامیابی کا دعوی کرتا ہے اور زیادہ تفصیل سے بتاتا ہے کہ کیسے روسی فوجی زمینی دستے بشارالاسد اسد کے زیر کنٹرول شامی ساحلی پٹیوں کے گرد شہروں کی چیک پوسٹوں پر تعینات ہیں اور وہ روسی فوجی یونیفارم میں ملبوس ہیں اور شامی شہریوں سے اپنی شناخت چھپاتے نہیں ہیں اور روسی ڈرون روسی شام کے اندر بنے کنٹرول رومز سے کنٹرول کرتے ہیں اور جدید ترین جیٹ بمبار طیارے بھی ابھی روسی پائلٹ ہی چلارہے ہیں کیونکہ شامی پائلٹوں کو ان کو چلانے میں ابھی وقت لگے گا اور یہ بات حقیقت ہے کہ شام کے اندر اب اکثر سنّی ، شیعہ ، کرد ، علوی ، یہودی ، یزدی روسیوں ، ایرانیوں اور بشار الاسد کی فوجوں کو داعش کے خلاف اپنا " نجات دہندہ " خیال کرتے ہیں اور شام میں اکثر اب امریکیوں ، مغربی حکومتوں اور ان کے رجعت پسند اتحادی عرب بادشاہوں اور ترکی کے جعلی خلیفہ اعظم رجب طیب اردوغان کو ایک ولن کے طور پر دیکھا جارہا ہے

Tuesday, September 22, 2015

سعودی عرب : منتظر سر قلم و مصلوب علی محمد النمر کون ہے ؟


پاکستان کے انگریزی پریس میں ایک ، دو اخبارات میں خبر آئی ہے کہ 21 سالہ شیعہ ایکٹوسٹ علی محمد النمر کو سعودی عرب سرقلم کرکے مصلوب کرنے کی تیاری کررہا ہے اور اس کی آخری اپیل بھی مسترد کردی گئی ہے اردو پریس اس معاملے پر بالکل خاموش ہے اور الیکٹرانک میڈیا میں کسی ایک چینل نے بھی اس خبر کو نشر کرنا ضروری خیال نہیں کیا ہے جبکہ روزنامہ ایکسپریس سمیت کئی ایک اردو اخبارات نے ٹیکساس کے ہائی اسکول میں اپنا بنایا ہوا " گھڑیال " لیجانے اور اسے بم سمجھ کر پکڑے جانے والا سعودی نژاد احمد کے اسکول چھوڑ کر عمرہ ادا کرنے کی خبر کو صفحہ اول پر شایع کیا ہے ہالی ووڈ کے فلم سٹار اور امریکی ٹی وی چینل "ایچ بی او "پر " رئیل ٹائم " کے نام سے ٹاک شو کرنے والے بل ماہر نے اپنے شو میں پروگرام کرتے ہوئے " علی محمد النمر " کی المیاتی کہانی کو اجاگر کیا اور کہا کہ " اگر آپ نے اپنا سارا ھیرو ازم " آئی سٹینڈ ود احمد " ہیشٹیگ کے لئے خرچ نہ کردیا ہو تو ہیشٹیگ علی محمد النمر کے لئے بھی وقف کریں علی محمد النمر کون ہے ؟ اور اس کے لئے آواز اٹھانی کیوں ضروری ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جو اکثر ذھنوں میں پیدا ہوسکتا ہے - فروری کی 14 تاریخ اور سال 2012ء سعودع عرب کے مشرقی دو صوبے قطیب اور الاحصاء جو سعودی عرب کے تیل کی دولت سے مالا مال ہیں " بہار عرب " سے متاثر ہوئے اور وہاں پر اپنے حقوق کی جو تحریک تھی اس میں تیزی آگئی اور ان دونوں صوبوں کی عوام سڑکوں پر آگئی ، مظاہرے شروع ہوگئے اور اس تحریک کے روح رواں الشیخ محمد نمر النمر بنکر ابھرے جوکہ ایک روشن خیال ، اعتدال پسند شیعہ عالم اور سیاسی رہنماء خیال کئے جاتے ہیں - سعودی عرب کے یہ دونوں مشرقی صوبے یعنی احصاء اور قطیف 99 فیصدی شیعہ آبادی پر مشتمل ہیں اور سعودی عرب میں شاید یہ دو صوبے ایسے ہیں جہاں کی غیر وہابی آبادی اپنی مذھبی شناخت کو قربان کرکے سعودی عرب کا برابر کا شہری بننے کے حقوق حاصل کرنے سے انکاری ہی نہیں بلکہ مزاحمت کررہی ہے اور اس آبادی نے آج تک " آل سعود " کے حجاز پر قبضے کو تسلیم نہیں کیا - سعودی عرب کی جابر ریاستی مشینری ان صوبوں کو زبردست جبر ، خوف ، تشدد اور پابندیوں مین رکھے ہوئے ہے اور ان دونوں صوبوں ميں بدترین انسانی حقوق کی پامالیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ، سعودی پولیس ، انٹیلی جنس اور فوج نے خفیہ ٹارچر سیل بنارکھے ہیں جہآں سیاسی مخالفین پر جبر و تشدد کیا جاتا ہے -شیخ محمد نمر النمر اپنی بے مثال جدوجہد ، استقامت اور انتہائی واضح خیالات کی وجہ سے شیعہ اکثریت کے ان دو صوبوں میں مقبول ترین سیاسی رہنماء کے طور پر ابھرے ہیں اور وہ اس علافے میں جاری سیاسی مزاحمت اور اپوزیشن کی تحریک کے بلااختلاف متفقہ قائد بھی ہیں - ان کی مقبولیت اور ان دونوں صوبوں ميں تحریک مزاحمت میں اضافہ ہوتے چلے جانے سے سعودی حکام سخت پریشان تھے اور جب فروری 2014ء میں قطیف و احصاء میں بڑے پیمانے پر بہار عرب پھیل گئی اور مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تو سعودی حکام نے اسے کچلنے کا پروگرام بنالیا - پہلے شیخ محمد نمر النمر کو گرفتار کیا گیا اور ان پر " اللہ سے بغاوت کرنے " کا الزام عائد کیا گیا کیونکہ سعودی عرب میں سعودی بادشاہ کے خلاف سیاسی احتجاج کا مطلب اللہ سے بغاوت کرنا ہے اور ان پر دوسرا الزام " ایرانی ایجنٹ " ہونے اور سعودی عرب کے خلاف بغاوت کے لئے ہتھیار جمع کرنے کا لگایا گیا جبکہ ساری دنیا کو علم ہے کہ شیخ محمد نمر النمر " عدم تشدد پر مبنی پرامن سیاسی جدوجہد " کے قائل ہیں اور ان کی تقریروں میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جس سے یہ کہا جاسکے کہ وہ سعودی عرب کی مشرقی صوبے کی شیعہ اکثریت کو تشدد ، دھشت گردی پر اکسارہے ہیں - شیخ محمد نمر النمر کی گرفتاری اور عقوبت خانے میں ان پر تشدد کے باوجود سعودی عرب کے مشرقی صوبوں میں مظاہرے اور مزاحمت میں کمی نہیں آئی اور شیخ محمد نمر النمر نے بھی سعودی حکومت کے آگے جھکنے سے انکار کردیا تو چودہ فروری 2012ء کو قطیف کی پولیس نے شیخ محمد نمر النمر کے 17 سالہ بھتیجے علی محمد النمر کو آتشیں ہتھیار جمع کرنے اور قطیف کے لوگوں کو سعودی حکام کے خلاف تشدد اور دھشت گردی کے لئے اکسانے سمیت کئی سنگین الزامات لگاکر گرفتار کرلیا اور ٹارچر سیل میں اس کو تشدد کا نشانہ بنایا علی محمد النمر جو اپنی گرفتاری کے وقت محض 17 سال کا تھا کو پہلے " بچّہ جیل " میں رکھا گیا اور ایک سال اس جیل میں بھی علی محمد النمر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس سے زبردستی ایک اعترافی بیان بھی لیا گیا - ایک سال بعد جب علی محمد النمر 18 سال کا ہوا تو اس کو بالغوں کی جیل میں بھیج دیا گیا اور اس کا مقدمہ سعودی مذھبی عدالت مین پیش کیا گیا سعودی عرب کا عدالتی نظام بہت ہی خوفناک قسم کا ہے اور پراسراریت ، اخفاء اور اندھیرے ميں رکھے جانا اس نظام کے نمایاں اوصاف ہیں - علی محمد النمر کے کیس پر ایک تنظیم جو کہ " لیگل چئیرٹی ری پرائیو " کہلاتی ہے کی ڈائریکٹر فویا علی کا کہنا ہے کہ " علی جب گرفتار ہوا اور اس پر جب مقدمہ چلا تو وہ کم عمر تھا اور اس لئے اگر وہ کسی جرم کا بالفرض مرتکب بھی ہوا تو اس کو سزائے موت دیئے جانا انتہائی غلط ، قانون ، بین الاقوامی قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی ہے اور یہ اخلاقیات کے بھی سراسر منافی بات ہے " علی محمد النمر جب پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوا تو اسے نہ تو کوئی وکیل کرنے کی اجازت ملی ، اس کے خاندان کو ابتک اس سے ملنے کی اجازت نہیں ملی ہے اور اس نے عدالت کو بتایا کہ جو بیان سعودی حکام نے اس کے نام پر پیش کیا ہے وہ زبردستی لیا گیا ہے اور اس نے اپنے اوپر کئے جانے والے بہیمانہ تشدد کی شکائت بھی کی لیکن سعودی جج نے اس پر کوئی نوٹس نہ لیا - چار سال بعد جب علی محمد النمر کی آخری اور فائنل اپیل بھی عدالت نے مسترد کرڈالی اور اس کا سر قلم کرکے ، اسے قطیف کے چوک میں مصلوب کئے جانے کا حکم سنایا تو ستمبر میں اس کے اہل خانہ کو بس اس سزا کی اطلاع دی گئی جبکہ اس کی گرفتاری سے لیکر اس کے ٹرائل چلائے جانے تک اس کے اہل خانہ کو کوئی اطلاع اس بارے میں نہ تو دی گئی اور نہ ہی ان کے وکیل کو علی محمد النمر تک رسائی دی گئی علی محمد النمر کے خلاف جتنے الزامات ہیں سب فرضی اور بناوٹی ہیں - علی محمد النمر کا سب سے بڑا جرم اس کا شیخ محمد النمر کا بھتیجا ہونا ہے جسے سعودی حکومت مشرقی صوبوں میں تحریک مزاحمت سے پیدا ہونے والی تمام مشکلات کا زمہ دار خیال کرتی ہے اور وہ اب شیخ محمد النمر کو اس کی سزا سنانے سے پہلے ایک اور عذاب سے گزارنا چاہتی ہے سعودی عرب میں حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے اور سیاسی جدوجہد کرنے والوں کے صرف سر ہی قلم نہیں کئے جاتے بلکہ ان کو کئی روز مصلوب کرکے بیچ چوراہے میں لٹکاکر بھی رکھا جاتا ہے تاکہ کسی اور کو آل سعود کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی ہمت نہ ہو -سعودی عرب کے اندر اس سال 87 سے زیادہ لوگوں کے سر قلم کئے جاچکے ہیں جبکہ گرفتاریوں اور عقوبت خانوں میں آذیتیں دئے جانے کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے یورپ اور امریکہ میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تںطیموں نے یورپی یونین ، مغربی حکومتوں اور امریکی حکومت کی سعودی عرب کی جانب سے علی محمد النمر کے سر کو قلم کرکے مصلوب کرنے کی سزا پر خاموشی اختیار کرنے اور نمر کے کیس کو " احمد " کے کیس کی طرح ہینڈل نہ کرنے پر شدید تنقید کی ہے -امریکی ٹاک شو ہوسٹ بل ماہر نے اپنے ٹی وی شو میں امریکی صدر اور اور دیگر حکومتی حکام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ علی محمد النمر کے کیس میں ان کی خاموشی سوائے منافقت اور دوھرے معیار کے اور کچھ بھی نہیں ہے انٹرنیشنل بزنس ٹائم میں کلائیو سٹیفورڑ سمتھ نے اپنے ایک مضمون میں برطانوی حکومت کی علی محمد النمر کے خلاف سعودی حکومت کی خوفناک سزا پر خاموشی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ برطانوی حکومت کو سعودی عرب سے اپنی بزنس ڈیل زیادہ عزیز ہے نہ کہ انسانی حقوق کا احترام جبکہ اسی جریدے میں اورنلڈو کروکرافٹ نے اپنے ایک مضمون میں سعودی عرب کے ظالمانہ عدالتی نظام کے وحشیانہ پن بارے کھل کر لکھا ہے اور اس حوالے سے یورپی اور امریکی حکومتوں کی منافقت کو بے نقاب کیا ہے مغرب میں انسانی حقوق کی تنظیمیں ، انٹرنیشل ہیومن رائٹس واچ ، ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ليگل چئیرٹی ری پرائیو وغیرہ اور انٹرنیشنل میڈیا کا ایک سیکشن پوری تندھی کے ساتھ " علی محمد النمر " کی جان بچانے اور سعودی عرب پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے لیکن اس کے برعکس مسلم دنیا کے اکثر ملکوں ميں مین سٹریم ميڈیا ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور لبرل ، لیفٹ پارٹیوں نے بھی اس معاملے پر قریب قریب خاموشی سادھ رکھی ہے - سوشل میڈیا پر اپنی طنز و مزاح سے بھرپور تنقید نگاری کے لئے معروف ریاض ملک الحجاجی نے اپنے حال ہی میں پوسٹ کئے گئے ایک آرٹیکل میں سعودی عرب کے فنڈز سے چلنے والی امریکہ میں قائم تنظیم " کونسل فار اسلامک ریلیشنز " کے منافقانہ کردار کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایا کہ جیسے ہی ٹیکساس میں سعودی نژاد ہائی اسکول طالب علم کے ساتھ " مسلم شناخت " کی بنیاد پر کیا جانے والا امتیازی سلوک اور گرفتاری کا معاملہ سامنے آیا تو اس تنظیم نے سوشل میڈیا ، مین سٹریم ميڈیا پر اس ایشو کو ہائی لائٹ کرنے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے اور ہیشٹیگ آئی سٹینڈ ود احمد کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن یہ تنظیم ایک طرف تو سعودی عرب کے شیعہ اکثریتی صوبوں قطیف و الاحصاء میں سعودی عرب کی ریاستی مشینری کی جانب سے شیعہ شناخت رکھنے والے سعودی باشندوں کے خلاف تعصب ، امتیازی سلوک ، ان کے انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش ہے تو دوسری طرف " علی محمد النمر " کے کیس پر بھی یہ ٹس سے مس نہیں ہورہی اور اس نے آج تک ہیشٹیگ علی محمد النمر کو سوشل میڈیا میں پروموٹ کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا اور یہی کردار باراک اوبامہ کا ہے کہ انہوں نے جس طرح سے ہیشٹیگ آئی سٹینڈ ود احمد کو ری ٹیوٹ کیا اور امریکی عوام کو اس ایشو پر حساس کیا ویسے انہوں نے علی محمد النمر کے کیس میں نہیں کیا جبکہ حال ہی میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے ایک وفد کی قیادت بھی سعودی عرب کے حوالے کی گئی جس پر شدید تنقید سامنے آئی ہے پاکستان کے اندر اپنے آپ کو کئی ایک صحافی اور انسانی حقوق کے علمبردار " انصاف کا مدارالمہام بناکر دکھاتے ہیں اور حال ہی میں شامی مہاجر بچّے ایلان کردی کے ڈوب کر مرجانے کے واقعے پر ان کی جانب سے بہت گریہ و ماتم کیا گیا لیکن علی محمد النمر جیسے جوان رعنا کے لئے ان کا قلم اور زبان دونوں حرکت کرنے سے قاصر ہیں اور اس خاموشی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو " مئے لانا اشرفی " کی پروجیکشن میں آج بھی جتے ہوئے ہیں اور ایرانی مذھبی ملائیت کی " سفاکیت " کو بے نقاب کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں مگر سعودی عرب کے " مشرقی صوبوں " ميں ہونے والے جبر اور ظلم پر بولنے سے پہلے ہی ان کی سٹّی گم ہوجاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اردو اور انگريزی پریس میں کسی بڑے سے بڑے جغادری کو " علی محمد النمر " کے بارے میں کوئی ایک کالم لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی ، کیونکہ ایک تو یہ ایسا کالم لکھ کر " مستحق عتاب آل سعود و نواز " نہیں ہونا چاہتے دوسرا پاکستان کا بالخصوص اردو پریس " سعودیہ عرب " کے خلاف ایک لفظ بھی شایع کرنا " گناہ گبیرہ " خیال کرتا ہے اور اسی لئے میں نے بھی یہ کالم بلاگ پر پوسٹ کیا ، کسی اخبار کو بھیجنے کا سوچا تک نہیں ہے اپنے پڑھنے والوں سے فقط اتنی گزارش ہے کہ ایک تو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جائیں اور
#AliMohammedAlNimr
پر جائیں اور علی محمد النمر سے اظہار یکجہتی کا ٹوئٹ کریں ، اسی ہیش ٹیگ کے ساتھ فیس بک پر بھی النمر کے ساتھ اظہار یک جہتی کریں اور اگر آپ کے پاس وقت ہو تو سعودی سفارت خانے کو بھی احتجاجی مراسلہ ارسال کریں اور ایک یاد دھانی امریکی سفارت خانے کو بھی بھیجیں کہ وہ سعودی عرب کے آمرو مطلق العنان حکمرانوں اور جابر رجیم کے خلاف بھی اسی طرح سے بیان دے اور اقدامات اٹھائے جس تندھی کے ساتھ وہ ایران میں مذھبی پیشوائیت ، شام میں بشار الاسد اور عراق میں صدام حسین کی آمریت کے خلاف خود کو جمہوریت پسند ثابت کرنے کے لئے دکھاتا آیا ہے - ایران میں بہائی اقلیت کے خلاف ، پارسیوں کے خلاف اٹھائے جانے والے ظالمانہ اور انسانی حقوق کی پامالی پر جس طرح سے ردعمل آتا ہے اس طرح سے ردعمل سعودی عرب کے خلاف بھی آنا ضروری ہے جماعت اسلامی نے " عید قربان پر جانوروں کی کھالوں " کے لئے کراچی میں بینرز پر مسلم دنیا پر سامراج کے مظالم سے متاثر ہونے والوں کی امداد کے لئے قربانی کی کھالیں جماعت اسلامی کو دینے کے لئے " ایلان کردی " کی تصویر پر مبنی پینافلیکس چھپوائے ہیں جبکہ اس کی " مظلوم پسندی " سعودی عرب کے باب میں اسی طرح سے ٹھس ہے جیسے جے یوآئی ف ، س ، ن ، جماعت دعوہ سمیت دائیں بازو کی اکثر جماعتوں کی ٹھس ہوجاتی ہے اور اگر معاملہ کبھی ایران کا ہو تو وحدت و تحریک نفاز۔۔۔۔۔۔ و ش کونسل و ج کونسل کی مظلومیت پسندی ٹھس ہوجاتی ہے - ان سب کے ہاں سلیکٹو قسم کی انصاف پسندی اور مظلومیت کے راگ ہی الاپے جاتے ہیں اور ولن و ظالم و آمر بھی " شناختوں اور علامتوں " کے ساتھ طے کئے جاتے ہیں اور اپنے اپنے مربیوں کا ہر ظلم روا اور دوسرے کا ناروا ہوتا ہے - شاید ہمیں ابھی " انسانیت پسندی " کی مںزل تک پہنچنے کے لئے اور طویل سفر طے کرنا پڑے گا اور کئی " علی محمد النمر " اس راستے میں قربان ہوں گے میں علی محمد النمر کے ساتھ کھڑا ہوں اور سعودی عرب کی حکومت کے نام نہاد نظام انصاف کا منکر ہوں ۔۔۔۔۔ مرگ بر آل سعود

نقشبندی مجددی سلسلے کا ہندوستان میں پھیلاؤ


ہندوستان میں نقشبندی مجددی شاخ کا پھیلاؤ ڈاکٹر آرتھر ایف بوہلر یونیورسٹی آف ولنگٹن نیوزی لینڈ کے اسکول آف آرٹ ہسٹری ، کلاسیک اینڈ ریلیجس اسٹڈیز میں سیئنر لیکچرر ہیں اور نقشبندی سلسلے کی شاخ " نقشبندیہ مجددیہ " پر ان کی ریسرچ کو دنیا بھر میں قبول عام ملا ہے اور حال ہی میں ان کی ایک کتاب Revealed Grace : Jurist Sufism of Ahmad Sirhindi 1564 - 1624 شایع ہوئی ہے اور اس میں آرتھر نے شیخ احمد سرہندی کے ان مکتوبات کا ترجمہ اور ان مکتوبات کی لینڈ سکیپ اور ان کے مخاطبین کا حدوداربعہ تفصیل سے بیان کیا ہے جن میں شیخ احمد سرہندی نے اپنے صوفی خیالات کے ساتھ سیاست حاضرہ کو بھی ملایا ہے - ڈاکٹر آرتھر ایف بوہلر نے پوسٹ کالونیل صوفی روایت اور خصوصی طور پر پوسٹ کالونیل ہندوستان میں نقشبندی مجددی صوفی روایت پر بھی ایک معروف کتاب Sufi Heirs of the Prophet: The Indian Naqshbandiyya and the Rise of the Mediating Sufi معروف صوفی لکھاری این میری شمل کے ساتھ ملکر لکھی ہے ، میں نے ان کا ایک مقالہ ہندوستان میں نقشبندی مجددی سلسلے کا ارتقاء کو " شیخ احمد سرہندی " کے حوالے سے اپنی تحقیق کو آگے بڑھانے کے لئے چنا ہے جو " نقشبندی مجددی سلسلے " بارے ہمارے تاریخی شعور میں مزید کئی ایک باتوں کا اضافہ کرے گا آرتھر ایف بوہلر کا کہنا ہے کہ ابھی ٹھیک سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ نقشبندی سلسلہ جس کا نام خواجہ بہاء الدین نقشبند متوفی 1389ء / 791ھ کے نام پر پڑا اور اس کی اصل سنٹرل ایشیا ہے کیسے ہندوستانی پنجاب کے اندر ایک بااثر طریقہ کے طور پر پھیل گیا اور اس بارے میں بھی بہت کم تحقیق ہوئی ہے کہ وسط ایشیائی نقشبندی روایت کی جگہ کیسے ہندوستانی پنجابی نقشبندی مجددی شاخ نے لے لی اور میں نے اپنے مقالے میں ان دو سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے نقشبندی صوفی ہندوستان میں تیموری فتوحات کے ساتھ آئے جوکہ 1600ء / 10ویں صدی ھجری میں ہوئی تھیں اور اسی صدی میں شیخ احمد سرہندی متوفی 1624ء / 1034ھ نے نقشبندی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا شیخ احمد سرہندی نے نقشبندی سلسلے کی ازسرنو تعریف متعین کی اور سلوک نقشبندیہ میں عملی و نظری اعتبار سے نئی جہات متعارف کرائیں اور ان کو جو " مجدد الف ثانی " کا لقب دیا گیا وہ بھی ان کے بعد آنے والوں پر ان کے اثر کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور ان کے بعد میں آنے والوں نے ان کی روایت کو نقشبندی مجددی شاخ کا نام دیا نقشبندیوں کے ہندوستان مين دیرپا اثرات کا براہ راست تعلق ان کے مربوط تصور مذھبی قیادت سے ہے اور نقشبندیوں نے ہندوستان میں موجود دوسرے صوفی سلسلوں کے مقابلے میں سیاسی معاملات پر اثرانداز ہونے کی کوشش زیادہ کی اور انہوں نے حکمران کو صوفی رہبر شریعت کے طور پر متارف کرایا تاکہ ہندوستان کی مسلم برادری میں سرکاری سطح پر مسلم سماجی اداروں کی نیو ڈالی جاسکے اور نقشبندی مجددی شاخ سے وابستہ صوفیوں نے اپنے آپ کو داخلی و خارجی ، شخصی و غیر شخصی اعتبار سے تصوف اور ریاست کی تشکیل نو کے لئے وقف کردیا اور یہ اسی وقف کرنے کا اثر تھا جس نے سترھویں صدی عیسوی میں ہندوستان کے اندر مذھبی کرسٹلائزیشن کے عمل کو آگے بڑھایا اور اس نے ہندوستان کے مسلم برادری کے اندر بہت سے رجحانات کو جنم دیا اور پاکستان کے قیام میں بھی اسی کرسٹلائزیشن نے اپنا کردار ادا کیا نقشبندی مجددی قیادت نے ہندوستان میں ماقبل نوآبادیاتی ادوار کے اندر صوفی اور جیورسٹ دونوں کو ایک ہی شخصیت میں اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور یہ پروسس تیز سے تیز تر ہوتا چلاگیا ( شاید اورنگ زیب کے زمانے میں صوفی و قاضی دونوں کے ایک ہی شخص مین اکٹھا ہونے کا مظہر اپنی بلوغت کو پہنچ گیا تھا ) اور نقشبندی مجددی سلسلے کے اندر روحانی اتھارٹی کے ساتھ ساتھ " مذھبی پیشوائی اتھارٹی " کو حاصل کرنے کا رجحان بھی طاقتور ہوگیا ہندوستان میں نقشبندیوں کی آمد تاریخی اعتبار سے نقشبندی سلسلے کے پھیلاؤ کو ہم تین بڑے ممتاز مراحل میں بانٹ سکتے ہیں اور ہر ایک مرحلہ ایک ممتاز نقشبندی شخصیت کے ساتھ منسلک ہے جس نے اس سلسلے میں تجدید کے فرائض سرانجام دئے پہلے مرحلہ کو ہم " طریقہ خواجگان " کہہ سکتے ہیں اور اس کا آغاز خواجہ عبدالحالق متوفی 1179ء / 575ھ سے ہوتا ہے دوسرا مرحلہ خواجہ بہاءالدین نقشبند سے شروع ہوتا ہے تیسرا مرحلہ شیخ احمد سرہندی سے شروع ہوتا ہے اور یہاں پر یہ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کہلانے لگتا ہے ہندوستان میں نقشبندی سلسلے کو پھیلانے میں اولین کردار خواجہ نصیر الدین عبیداللاحرکر متوفی 1490ء / 895ھ کے خلفاء و اولاد وامجاد کا ہے خواجہ عبیداللہ کے مریدان اور خلفاء و اولاد نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ایران ، ترکی اور بلاد عرب میں بھی نقشبندی سلسلے کے پھیلاؤ کا سبب بنے خواجہ عبیداللہ احرار خراسان کے سب سے بڑے جاگیردار ہونے کے ساتھ ساتھ مشرقی تیموری سلطنت کے ڈیفیکٹو حکمران بھی خیال کئے جاتے تھے اور یہ خواجہ احرار تھے جنھوں تیموری حکمرانوں سے اپنے تعلقات کو سلسلہ نقشبندیہ کی ترویج و اشاعت کے لئے استعمال کیا اور خواجہ عبیداللہ احرار نے اسلامی قوانین و شریعت کو اپنے علاقے میں ترک - منگول رواج اور قانون سے مطابقت دینے کي کوشش بھی کی احرار خاندان تھوڑی سی مشکلات کا شکار اس وقت ہوا جب تیموری حکمرانی کا پہلا دور ختم ہوا اور شیبانی بادشاہت آئی تو اس کے پہلے حاکم محمد شیبانی نے نہ صرف احرار خاندان کی جاگیر ضبط کرلی بلکہ احرار کے ایک بیٹے خواجہ یحیحی اور خواجہ کے تین پوتوں کو قتل کے الزام میں گرفتار بھی کیا لیکن یہ دور عتاب تھوڑی دیر چلا اور پھر شیبانی سلطنت سے احراری نقشبندی خاندان کے تعلقات بہتر ہوگئے اور سمر قند سے آنے والی بادشاہت اور پھر بخارا سے شروع ہونے والی بادشاہت ازبک سے بھی اس خاندان کے اور نقشبندیوں کے تعلقات بہتر رہے تیموری فرمانروا ظہیرالدین بابر متوفی 1530ء / 937ء سے احرار نقشبندی خاندان اور خلفاء کے تعلقات ابتداء سے ہی بہت گہرے تھے اور بابر کے کابل پر قبضہ سے پہلے ہی احرار کی اولاد و خلفاء کابل منتقل ہوگئے تھے بابر کو فتح دھلی کی پیشن گوئی بارے کہا جاتا ہے کہ وہ خواجہ احرار نے کی تھی - ہمایوں متوفی 1556ء / 963ھ کے کزن مرزا حیدر متوفی 1530ء / 937 ھ کے مطابق خواجہ اخوند محمود عرف خواجہ نورا نے بابر کے بیٹے مرزا کامران کے لئے فتح قندھار کا خواب دیکھا تھا اور جب ہمایوں نے خواجہ نورا سے بدسلوکی کی تو کہا جاتا ہے کہ اس نے ہمایوں کی شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کی پیشن گوئی کی ، ہمایوں بادشاہ خواجہ بہلول کا عقیدت مند تھا جوکہ خواجہ ‏غوث قادری شطاری گوالیاری متوفی 1562ء / 970ھ کے بڑے بھائی تھے یہ امثال ظاہر کرتی ہیں کہ کیسے بعض صوفیاء اپنے دور کی سیاست اور سیاسی گروہ بندیوں پر اثر انداز ہوا کرتے تھے اور اس سے نقشبندی سلسلے اور تیموری فوجی کامیابیوں کے درمیان تعلق کی عکاسی بھی ہوتی ہے اور تیموری دور میں بھی ہمیں صوفی شیخ کے لئے روحانی دنیا پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات پر بھی اثر انداز ہونے کی طاقت و صلاحیت رکھے جانے کا عقیدہ ملتا ہے نقشبندی اور تیموری حکمرانوں کے درمیان تعلقات کی کئی ایک اطراف ہیں - خواجہ معین الدین عبدالحق متوفی 1554ء / 962ھ جوکہ خواجہ نورا کے بڑے بھائی تھے مرزا کامران کے روحانی استاد تھے - اکبّر کا اتالیق بیرم خان ایرانی نقشبندی صوفی مولانا ضیاءالدین کمانکر کا مرید تھا - ہمایوں کے دور میں خواجہ احرار کے پوتے خواجہ عبدالکافی اور خواجہ قاسم حکومتی مناصب پر فائز رہے - نقشبندی صوفی خواجہ عبدالشاہد کا مرید سلطان خواجہ نقشبندی اکبّر کے زمانے ميں زمانے مین وقف اور جاگیریں عطا کرنے کے منصب پر فائز رہا جبکہ محمد یحیحی اپنے والد ابو فیض نقشبندی کے خلیفہ مجاز بنے اور 1590ء / 999ھ میں اکبّر کی جانب سے امیر حج مقرر ہوئے - نقشبندی صوفیوں نے اس طرح سے تیموری حاکموں کو جواز حکمرانی کی سند فراہم کی تو جواب میں تیموری حکمرانوں نے نقشبندیوں کو اپنا سیاسی - سماجی مرتبہ محفوظ کرنے میں مدد فراہم کی اور یہ دو طرفہ تعاون تھا احرار نقشبندی خاندان کے لوگوں کی شادیاں بھی تیمری خاندان کے اندر ہوئین - بابر کی ایک بیٹی خواجہ نور الدین نقشبندی سے بیاہی گئی تو بیرم خان اتالیق اکبّر کی شادی خواجہ نور الدین کی بیٹ؛ سے ہوئی اور جب بیرم خان فوت ہوا تو اکبّر نے خواجہ نور الدین کی بیٹی سے شادی کرلی جبکہ ہمایوں کی ایک بیٹی کی شادی خواجہ حسن نقشبندی سے ہوئی تو تیموری اور احراری خاندان کی ان باہم شادیوں نے بھی افغانستان اور شمالی ہندوستان میں نقشبندی سلسلے کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ایک اور دانشور مورخ Stephn Dale نے نوٹ کیا کہ نقشبندی - تیموری تعلقات اور شراکت داری نقشبندیوں ، ترک منگول اور افغان اشراف کے درمیاں جنوبی ایشیاء کے مغل علاقوں میں انیسویں صدی تک جاری رہی اور جب نقشبندی زعماء افغانستان اور سنٹرل ایشیا سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تو ان کے ساتھ یہاں سرکاری نوازشات کے ساتھ سلوک کیا گیا - 18 ویں صدی میں شیخ احمد سرہندی کی اولاد و خلفاء کے افغانستان کے امراء و اشراف سے گہرے سمبندھ تھے اور جب 1764ء / 1177ھ میں سکھوں نے سرہند کو فتح کیا تو ان کی ہجرت انہی تعلقات کی وجہ سے آسان ہوئی ہندوستان برصغیر پاک وہند میں ابتداء میں احرار نقشبندیوں کے ہی تیموری حکمرانوں سے تعلقات تھے جبکہ دوسرے نقشبندیوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں تھا ، وہ دوسرے مسلمانوں کی طرح خراسان سے جحاز کی طرف سفر حج کرتے اور اکثر حج کے بعد حجاز کے راستے میں پڑنے والے بڑے شہروں بخارا ، کابل ، لاہور ، آگرہ اور سورت میں رہ پڑتے تھے - مثال کے طور پر خواجہ جمال الدین عرف بادشاہ پردہ پوش خوارزمی متوفی 1606ء / 1015ھ نے سفر حج کے بعد سورت بندرگاہ پر ڈیرہ ڈالا - یہ خواجہ دانا کے نام سے بھی مشہور تھے اور یہ خواجہ اسلام جبیری متوفی 1564ء / 971ھ کے مرید ہوگئے یہ بلخ گئے اور پھر ٹھٹھہ ، آگرہ اور آحر میں سورت قیام پذیر ہوئے -بعض نقشبندی تلاش روزگار میں کابل سے ہندوستان آئے جیسے خواجہ عبداللہ کابلی نقشبندی جوکہ خواجہ لطف اللہ متوفی 1571ء / 979ھ کے مرید و خلیفہ تھے تلاش روزگار میں ہندوستان آئے تو اکبّر نے ان کو ضلع تربت میں مذھبی علوم کا استاد مقرر کردیا خواجہ باقی باللہ متوفی 1603ء / 1012ھ نقشبندی تاریخ کے دوسرے اہم مرحلہ میں سب سے اہم ترین شخصیت ہیں اور احمد سرہندی کے مرشد ہونے کے ناطے ان کی اہمیت اور دوچند ہوجاتی ہے اور خواجہ باقی باللہ 16ویں صدی عیسوی / 10ویں صدی ھجری کے ہندوستان میں نقشبندی سلسلے کے سب سے اہم صوفی ہیں خواجہ باقی باللہ بچپن سے ہی سلسلہ نقشبندیہ سے واقف تھے کیونکہ ان کے دادا جان نقشبندیہ سلسلے کے معروف پیشوا خواجہ محمد زکریا کے بیعت تھے اور وہ خواجہ عبید اللہ احرار کے پوتے تھے اور ان دونوں خاندانوں کے درمیان شادیاں بھی ہوئیں خواجہ باقی باللہ کی ملاقات کابل میں خواجہ عبداللہ کابلی نقشبندی سے ثابت ہے اور پھر وہ کامل مرشد کی تلاش میں ہندستان تک آئے اور ان کی ملاقات کشمیر میں کبراوی سلسلہ کے بزرگ شیخ علائی متوفی 1602ء / 1011ھ سے ہوئی جن کی خدمت میں خواجہ باقی باللّہ نے ایک عرصّہ گزارا اور پھر وہ سمرقند گئے جہاں ان کی ملاقات خواجہ امکنگی متوفی 1600ء / 1008ھ سے ہوئی اور وہ بس ان کے ہی ہوکر رہ گئے اور یہاں پر وہ درجہ ولایت تک پہنچے -اپنے شيخ کی ایک سال وفات کے بعد وہ لاہور چلے ائے اور اس کے بعد وہ دلّی آئے اور فیروزی قلعہ کے سامنے انہوں نے " خانقاہ " کی بنیاد رکھی جس کی تعمیر کے سارے اخراجات اکّبر بادشاہ کے وزیر شیخ فرید بخاری نے برداشت کئے خواجہ باقی باللہ کا دلّی میں قیام مختصر ثابت ہوا اور وہ محض 40 سال کی عمر میں ہی انتقال کرگئے لیکن اس دوران انہوں نے کئی لوگوں کو درجا ولایت پر فائز کیا - ان کے سیئنر ترین خلیفہ خواجہ تاج الدین سنبھلی متوفی 1641ء / 1050ھ خواجہ باقی باللہ کی وفات کے بعد حجاز منتقل ہوگئے اور ان کے مریدوں نے سلسلہ نقشبندیہ کو مصر اور یمن تک پھیلادیا جبکہ خواجہ باقی باللہ کی گدی ان کے دوسرے بڑے خلیفہ خواجہ حسّام الدین متوفی 1633ء /1043ھ نے سنبھالی اور انہوں نے خواجہ باقی باللہ کے کم عمر بچوں خواجہ کلاں اور خواجہ میر خورد کی پروش کی ان کی شادی اکبّر کے وزیر ابوالفضل کی بہن سے ہوئی تھی اور یہ ہزاری منصب دار تھے اور بعدازاں خواجہ باقی باللہ کی خدمت میں ہی آگر رہ گئے تھے خواجہ باقی باللہ جب دھلی آئے تو اس وقت تک اکبّر بادشاہ خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر کئی مرتبہ حاضری دے چکا تھا اور 1564ء/ 972ء میں وہ مزار پر پیدل حاضری کی منت بھی پوری کرچکا تھا اور اکبّر نے ایک اور چشتی بزرگ حضرت سلیم چشتی متوفی 1571ء / 971ھ کے دربار پر حاضری دی تھی اور یہاں پر حاضری کے نتیجہ میں اس کے بقول اس کا بیٹا سلیم پیدائش کے بعد زندہ رہا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمایوں نے اپنے باپ بابر کے برعکس نقشبندی صوفیاء کو وہ مقام و مرتبہ نہ دیا جو پہلے وہ تیموری حکمرانوں سے لیتے آئے تھے اور اکبّر کے زمانے میں نقشبندی صوفی مزید مارجنلائز ہوئے اور چشتی صوفیاء کا اثر دربار پر بڑھا اور اکـّر سمیت مغل تیموری امرآء ایسی رسوم اور اشغال میں مشغول ہوئے جو نقشبندی صوفیاء کے ںزدیک ٹھیک نہ تھیں ، مغل دربار میں سماع کی محافل کا قیام شروع ہوا اور نقشبندی صوفیآء اور سخت گیر علماء کافی مارجنلائز ہوئے اور اکبر کی وفات کے بعد شیخ احمد سرہندی کو گئی بااثر افغان امراء کی حمایت بھی انہی حالات کے نتیجے میں ملی تھی خواجہ احرار نے نقشبندی اور تیموری سلطنت کے درمیان تعلقات کی جو مثال قائم کی تھی اس کو ان کے ہندوستان میں پیش روؤں نے بھی قائم رکھا اور ہندوستان میں تیموری حکمرانوں اور نقشبندی صوفیاء کے باہمی تعلقات نے مغل سطنت کی اسلامی شناخت کے ایک خاص امیج کو ابھارنے میں مدد دی اور ہندوستان کی مسلم آبادی میں نقشبندی روایت کو جگہ بنانے اور پھیلنے میں بھی ان تعلقات نے اہم کردار ادا کیا نقشبندی - تیموری تعلقات چودھویں صدی عیسوی میں مغل سلطنت کے اندر نقشبندی - افغان تعلقات کا سبب بنے - افغان امراء او نقشبندی صوفیاء کے درمیان رشتہ داریوں کا سلسلہ بھی چل نکلا -نقشبندی پیر بطور روحانی شیخ ہی حکمرانوں کی تربیت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا سیاسی کردار یہ تھا کہ وہ حکمران کو ترغیب و ترہیب بھی دیا کرتے تھے - نقشبندی صوفیاء نہ صرف سیاسی امور میں وعظ و نصحیت کا کام کرتے بلکہ وہ حکمرانوں کے فائدے کے لئے آسمانی مدد فراہم کرنے کے زمہ دار بھی خیال کئے جاتے تھے - اس طرح سے نقشبندی صوفیاء کا یہ دنیاوی اور روحانی کردار پر مبنی جو ورثہ تھا وہ ہندوستان منتقل ہوا اور یہاں پر بھی اس نے ہندوستانی اسلامی ورثے پر اپنے اثرات مرتب کئے ماقبل 1857ء تک نقشبندی مجددی شاخ کا ہندوستان میں پھیلاؤ ہندوستان میں شیخ احمد سرہندی سے نقشبندی سلسلے کی تاریخ کے تیسرے فیصلہ کن دور کا آغاز ہوتا ہے اور وہ مجدد الف ثانی کہلائے -اصل میں صوفیاء کے ہاں یہ حدیث موجود ہے کہ ہر ایک ہزار سال بعد ایک شخصیت جنم لیتی ہے جو دین میں تجدید و احیاء کا کام سرانجام دیتی ہے اور شیخ احمد سرہندی دوسری ہزاری کے مجدد کہلائے -شیخ احمد سرہندی جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا کہ وہ ایک چشتی صابری پیر و عالم کے گھر پیدا ہوئے تھے اور آغاز کار میں وہ سلسلہ چشتیہ صابریہ کے ہی پیرو تھے لیکن ان کے خیالات میں اغلب یہ ہے کہ تبدیلی اس وقت آنا شروع ہوئی جب وہ سیالکوٹ میں ملّا عبدالحکیم سیالکوٹی کے مدرسہ میں پڑھنے گئے اور جب دھلی میں ان کی ملاقات خواجہ باقی باللہ سے ہوئی تو وہ مکمل طور پر نقشبندی سلسلہ کے ساتھ منسلک ہوگئے آرتھر بوہلر کا خیال یہ ہے کہ شیخ احمد سرہندی نے " نقشبندی سلسلہ " کو ازسر نو مرتب کرنے کا کام کیا - انہوں نے اس سلسلے میں نت نئی روحانی مشقیں متعارف کرائیں اور اسی لئے ان کے بعد نقشبندی سلسلے کی جو روایت ان سے آگے چلی اس کا نام بھی " مجددیہ " پڑ گیا - اور شیخ احمد سرہندی کے خیالات نے اپنے زمانے کے غالب صوفیانہ تناظر کے مقابلے میں ایک اور صوفی تناظر دیا آرتھر بوہلر کہتا ہے کہ شیخ احمد سرہندی کا صوفی تناظر " سنّی اسلام کی سخت حنفی و سخت کلامی تعبیر سے ملکر اور ان سے پیش رو ہندوستان و وسط ایشیا میں موجود نقشبندی صوفی روایت " سے زرا ہٹ کر بنایا گیا تھا - اور یہ ہندوستان میں اس وقت کی غالب " صلح کل اور تکثریت " کے رجحان پر بھی زد لگانے والا صوفی تناظر تھا -اور یہ تناظر شماریت پسند کم اور خارجیت پسند زیادہ تھا - اور اس تناظر کا اگرچہ اکبّر سے لیکر جہانگیر کے دور تک اور پھر شاہ جہاں کے دور تک اس قدر چرچا نہ تھا کہ ہم یہ کہیں کہ ہندوستان میں شیخ احمد سرہندی کے " صوفی تناظر " نے " وحدت الوجودی صوفی تناظر " کی جگہ لے لی تھی مگر پھر بھی یہ اس وقت کے مین سٹریم " صوفی تناظر " سے کہیں زیادہ یک نوعی تھا - شیخ مجدد کے صوفی تناظر کے جو ناقد ہیں وہ اس تناظر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اس کے مغل امراء اور شہزادوں میں جو اثرات پڑے اور شیخ مجدد اور ان کی اولاد کے مغل دربار کے جن امراء اور وزراء پر اثرات ہوئے اور اس سے جو اتحاد ظہور پذیر ہوئے اس نے مغل سلطنت اور دربار میں جو " عالمگیریت " کا رجحان تھا اور جو سیکولر انداز تھا ، صلح کلیت کی طرف جو جھکاؤ تھا اسے دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کیا آرتھر بوہلر کہتا ہے کہ نقشبندی صوفی اورنگ زیب کی وفات تک مغل دربار پر اثرانداز ہوتے رہے جوکہ 1707ء / 1119ھ میں ہوئی اور نقشبندی مجددی شاخ کا اثر نہ صرف سیاست پر پڑا بلکہ اس نے ہندوستان میں نقشبندی سلسلے کی جو دوسری شاخیں تھیں ان کو بھی مغلوب کرلیا - آرتھر بوہلر جس بات کو اشاروں اور کنایوں میں کرگیا اس کو ہمیں کھل کر بیان کرنا چاہئیے کہ جیسے میں نے ابتدائی نقشبندی روایت پر شیخ ابن عربی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ابتدائی نقشبندی صوفی روایت کے خدوخال اور بعد کی مجددی شاخ کے خدوخال میں فرق دکھایا ، اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خواجہ باقی باللہ اور ان کے بیٹوں کی جو نقشبندی روایت ہندوستان میں تھی وہ وحدت الوجودی ، صلح کلی اور کسی حد تک تکثریت کے قریب تر تھی - اگر ہم شیخ احمد سرہندی اور خواجہ باقی باللہ کے درمیان خط وکتابت پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس میں " سیاست " بالکل زیر بحث نہ آئی بلکہ شیخ اپنی روحانی واردات قلب اور روحانی کشف وغیرہ بارے خواجہ باقی باللہ کو اطلاع دے رہے ہیں اور ان کے روحانی مرتبے اور مقام کا جو ارتقائی سفر ہے خواجہ باقی باللہ اسے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور پھر اسی بنیاد پر ان کو اپنا سب سے قابل مرید گردانتے ہیں اور اکبّر کے دربار سے وابستہ امراء سے بھی شیخ کے ابتدائی روابط اسی روحانی کمال کی شہرت کے سبب ہوتے ہیں - شاید یہی وجہ تھی کہ اسرائیلی نژاد ڈچ سکالر یوحنان نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں سارا زور یہ بات ثابت کرنے میں صرف کیا کہ شیخ احمد سرہندی ایک " سیاسی مصلح " کے طور پر اپنی زندگی میں سامنے آنے کی بجائے ایک روحانی استاد کے طور پر سامنے آئے تھے اور ان کے جو روحانی دعاوی تھے ان کی بنیاد پر جہانگیر بادشاہ نے ان کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے ان کو " ذھنی طور پر عدم توازن کا شکار " کہہ کر قید بھی کرڈالا تھا لیکن ان کے معتقدین افغان امراء کی سفارش اور مداخلت سے ان کو رہائی ملی - لیکن 1619ء میں جب شیخ احمد سرہندی کے لکھے مکتوبات کی دوسری جلد سامنے آئی تو شاہ جہاں نے ایک مرتبہ پھر شیخ احمد سرہندی کو قید کردالا کیونکہ ان پر الزام لگا تھا کہ اس کتاب میں ایک مکتوب میں انہوں نے خود کو مقام صدیقیت سے بھی اوپر والے مقام پر فائز بتلایا ہے - شاہ جہاں کو سرہند کے پنجاب میں پھیلتے اثرات کے سیاسی نتائج کا کچھ کچھ اندازہ ہوچلا تھا - اس نے سید آدمی بنوری متوفی 1644ء/ 1053ھ کو اس وقت سفر حجاز سے روکا جب اسے معلوم ہوا کہ لاہور میں دسویں ہزار افغان جنگجو ان کے حامی ہيں - اور بعد ازاں ایسے آثار ملتے ہیں کہ مغل دربار سے شیخ احمد سرہندی اور ان کی اولاد کے تعلقات ٹھیک ہوگئے - شیخ احمد سرہندی نے اپنے منجھلے بیٹے خواجہ محمد معصوم متوفی 1668ء / 1079ھ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور وہ قیوم دوم کہلائے - اپنے والد کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے خواجہ معصوم قیوم ثانی نے بھی شاہی خاندان کو خط لکھے اور ترغیب و ترھیب کا سلسلہ جاری رکھا - ایک روایت کے مطابق جب 1666ء میں شاہ جہاں کی وفات ہوئی تو اورنگ زیب عالمگیر نے سرہند کا دورہ کیا اور خواجہ معصوم قیوم ثانی سے ملاقات کی اور ان سے بیعت بھی ہوگیا - اورنگ زیب کے نقشبندی ہونے کا ثبوت خواجہ معصوم کے غیر مطبوعہ مخطوطات بھی ہیں - اور ان کا بیٹا حجۃ اللہ نقشبندی متوفی 1702ء / 1114ء کہتے ہیں کہ ایک زمانے تک اورنگ زیب نقشبندی اوراد و اشغال پر عمل پیرا تھا - شاہ جہاں کی وفات کے بعد جب شاہ جہاں کے بیٹوں میں جانشینی کی جنگ فیصلہ کن مرحلے پر آن پہنچی تو اس وقت تک اورنگ زیب نے نقشبندی سلسلہ کی اس مجددی شاخ اور اس کے مرکز سرہند سے اپنے تعلقات انتہائی مضبوط کرلئے تھے - اورنگ زیب نے نقشبندی سلسلے کے قیوم ثانی خواجہ محمد معصوم سے مدد مانگی - خواجہ معصوم اور ان کے خلفاء نے نہ صرف اورنگ زیب کے لئے مغل دربار سے وابستہ افغان امراء کو حمایت کے لئے تیار کیا بلکہ مغل فوج میں کئی کمانداروں کی اورنگ زیب کے ساتھ شمولیت بھی خواجہ معصوم کی حمایت کے سبب تھی - اورنگ زیب خواجہ معصوم سے روحانی مدد کا طالب بھی تھا - اس سلسلے میں نقشبندی تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خواجہ معصوم نے اپنے بھتیجے شیخ ثناءالدین محمد سعید کے بیٹے اور اپنے بیٹے محمد اشرف کو جو حج پر جانے کی تیاری کررہے تھے کو اورنگ زیب کے پاس بھیجا تاکہ اورنگ زیب کے ساتھ نقشبندی مجددی حمایت نظر آئے جبکہ خواجہ معصوم اور ان کا بڑا بیٹا صبغت اللہ مکّہ چلے گئے - صبغت اللہ نے مکّہ میں علماء و صوفیاء سے ملاقات کی اور ان سے اورنگ زیب کی فتح کے لئے دعا کے لئے کہا - صبغت اللہ کو بعد ازاں خواجہ معصوم نے بغداد روانہ کیا اور شیخ عبدالقادر جیلانی کے مزار پر حاضری دینے کو کہا - مقصد یہ تھا کہ صبغت اللہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی روح سے رابطہ کریں اور ان سے دارشکوہ کی مدد نہ کرنے کو کہیں کیونکہ دارشکوہ سلسلہ قادریہ میں حضرت میاں میر قادری شطاری کا مرید خاص تھا - نقشبندی مجددی سلسلے سے وابستہ لوگوں نے اسی زمانے میں یہ دعوی بھی کیا کہ دار شکوہ کا سلسلہ قادریہ سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے کیونکہ وہ دین سے ہی باغی ہوگیا ہے - اس کا تعلق اب شیخ عبدالقادر جیلانی سے بھی نہیں رہا اور اس کے بارے میں یہ بھی مشہور کیا گیا کہ اس نے اپنے نام کے ساتھ قادری لکھوانا ترک کردیا ہے - گویا نقشبندی مجددی سلسلہ کے لوگ ہندوستان والوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے تھے کہ دار شکوہ اور اس کی فوج کے ساتھ کسی کی روحانی مدد نہیں ہے - شیخ عبدالقادر جیلانی جوکہ " غوث اعظم " کے نام سے مشہور ہیں اور قادری سلسلے میں ہی نہیں بلکہ اس زمانے کے ہندوستان بھر میں " غوث پاک " کو ہر مشکل میں پڑے آدمی کی مدد کو پہنچنے والا بتایا جاتا تھا تو جب دارشکوہ اور اس کی فوج کا اورنگ زیب سے مقابلہ ہوا تو اس وقت اورنگ زیب کی ‌فوج اور ہندوستان کی عام جنتا کو نفسیاتی اعتبار سے یہ یقین دلانا ضروری تھا کہ " شیخ عبدالقادر جیلانی " کی مدد اورنگ زیب کے ساتھ ہے نہ کہ دار شکوہ کے ساتھ - اس بات سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ حریف مغل شہزادے ، مغل دربار سے وابستہ اور عوام الناس کے اندر " صوفیاء کرام " کے دنیاوی حوادث کا رخ موڑنے اور کسی بھی لڑائی کے نتیجے کو اپنے پیارے کی جانب موڑ لینے کی طاقت کا خیال کتنا طاقتور تھا آرتھر بوہلر کہتا ہے کہ دار شکوہ قادری کی شکست اور اس کو بے دین قرار دیکر مصلوب کئے جانے کے بعد اورنگ زیب کی فتح ایک طرح سے مغل سلطنت کی طرف سے " صلح کلیت " کی پالیسی اور سیکولر ، روادار رجحان کے زوال پذیر ہوجانے کا اعلان تھا اور یہ مغل دربار اور اس کی پالیسیوں پر " وحدت الوجودی صوفی تناظر " کے غالب اثر اور چھاپ کے خاتمے کا اعلان بھی تھا - یہ دور مغل سلطنت میں کٹّر پنتھی ، سخت گیر ، خارجیت پسند سنّی اسلام اور تنگ تعبیر پر مبنی فقہ کے تسلط کا دور بھی تھا جس میں انتہائی قدامت پرست ملّا اور ان کی جامد فقہ کو بہت زیادہ حثیت مل گئی - سرہند اور دھلی میں نقشبندی مجددی صوفیاء کو اورنگ زیب کے دربار میں مرکزی حثیت مل گئی اور اورنگ زیب نے تاریخ میں پہلی مرتبہ نفشبندی صوفیاء کو کثرت سے درگاہوں کے لئے جاگیریں دینا شروع کردیں اور ان عطیات زمین نے اکثر نقشبندی صوفیاء کو خوشحال کردیا - لیکن ایسا لگتا ہے کہ خود اورنگ زیب عالمگیر روائتی علماء کے ایسے گروپ کے زیر اثر آگیا تھا کہ " تصوف " سے ہی اس کا دھیان ہٹ گیا اور اس کا کچھ کچھ انداہ ہمیں ایسے ہوتا ہے کہ اس نے علماء کے کہنے پر " مکتوبات " پر پابندی لگادی اور ایک مدت بعد غاس نے نقشبندی وظائف ، ورد اور اشغال کو بھی ترک کردیا -نقشبندی صوفیاء کے سیاسی اثر نے جہاں خود مغل طاقت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی وہاں پر مغل حکمرانوں نے اس کا سخت ردعمل دیا مابعد اورنگ زیب دور : شاہ ولی اللہ اور میر درد بیسویں صدی کے آغاز سے ہی ہندوستان کی تاریخ کا ایک اور منفرد دور شروع ہوا - اس دور کی سب سے بڑی انفرادیت یہ تھی کہ مغل سلطنت کا شیرازہ بکھر رہا تھا اور ہندوستانی سماج میں ہندؤ ، سکھ اور مسلمانوں کے بہت سے طاقتور گروہ زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ جمانے کی کوشش کررہے تھے اور مغل سلطنت کے انتشار کے دوران ابھرنے والی تین طاقتیں سکھ ، مرہٹہ اور افغان روھیلہ مسلم کے درمیان ایک کشاکش جاری تھی اور اس کا ایک اظہار فرقہ وارانہ شکل میں بھی ہورہا تھا - جب 1707ء میں اورنگ زیب کی وفات ہوگئی تو نقشبندی مجددی سلسلے کے جو جانشین تھے وہ بہت طاقتور روحانی خانوادے بن چکے تھے - ان طاقتور نقشبندی مجددی روحانی خانوادوں ميں سے ایک خانوادہ شاہ ولی اللہ متوفی 1762ء / 1176ھ کا بھی تھا -آرتھر وہلر کہتا ہے کہ شاہ ولی اللہ نے شیخ مجدد الف ثانی احمد سرہندی کی نقشبندی مجددی شاخ سے جو ریفارم ازم شروع ہوا تھا اسے مزید آگے کی طرف پہنچایا - شاہ ولی اللہ نے اصل میں شیخ احمد سرہندی کی روایت کا جو مغز تھا اس کی بنیادیں حدیث ، فقہ ، تفسیر اور تصوف میں انتہائی گہرائی مين جاکر تلاش کرنا شروع کیں اور اس طرح سے انہوں نے نقشبندیہ مجددیہ سلسلے کے اندر شاہ ولی اللہی نقشبندی مجددی شاخ کی نیو ڈالی - میں جب شاہ ولی اللہ کی جملہ تصنیفات اور مکتبوبات کو پڑھتا ہوں اور ان کے مکتوب مدنی کو دیکھتا ہوں تو مجھے نظر یہ آتا ہے کہ شاہ ولی اللہ نے شیخ احمد سرہندی کی طرح یہ نہیں کہا کہ وحدت الوجود غلط ہے اور شیخ ابن عربی کو رد کردیا ہو بلکہ شاہ ولی اللہ کے ہآن مجھے نظر یہ آیا کہ انہوں نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے درمیان ایسا تطابق تلاش کیا کہ جس سے وحدت الشہود یعنی شیخ احمد سرہندی کا نظریہ ہی حقیقت الحقائق کے طور پر ابھرتا ہے اور وہ ایک طرح سے " اورنگ زیب کے دور کی جو سرکاری مذھبی روح " ابھری تھی اور اس کی جو باقیات تھی اس کو زرا جدت کے ساتھ ایک تحریک کی شکل دینے میں کامیاب ہوگئے شاہ ولی اللہ کے ہی ایک اور معاصر نقشبندی صوفی شاعر میر درد متوفی 1784ء / 1199ء دھلی میں تھے - میر درد کے والد میر ناصر عندلیب متوفی 1759ء /1172ھ بھی نقشبندی مجددی صوفی تھے -اور یہ شاہ سعید اللہ گلشن متوفی 1728ء / 1140ھ کے خلیفہ مجاز تھے - میر درد وہ پہلے صوفی تھے جنھوں نے اپنے طریقہ تصوف کو " طریقہ محمدیہ " کا باضابطہ نام دیا - 19 ویں صدی ميں شمالی افریقہ میں ادریسیہ و سنوسیہ سلسلے والوں نے اپنے طریقہ کو طریقہ محمدیہ کا نام دیا اور ہندوستان میں میر درد کے بعد سید احمد رائے بریلی متوفی 1831ء / 1247ھ نے بھی اپنے طریقہ کو طریقہ محمدیہ کا نام دیا - مجددیہ اور دوسری نقشبندی شاخیں ہندوستان میں مجددی شاخ کے ساتھ ساتھ نقشبندی سلسلے کی دیگر آٹھ شاخیں بھی موجود تھیں -شاہ ولی اللہ نے ایک جگہ ان نقشبندی ذیلی شاخوں کے بارے میں بہت تفصیل سے بیان کیا ہے اور پھر شاہ ولی اللہ نے ان آٹھ شاخوں سے ہٹ کر نقشبندی مجددی شاخ کو اپنایا اور اس کی وجہ یہ بتلائی کہ یہ بہت پاک صاف ، روشن ، واضح اور سب سے زیادہ ماحی سنت و مخالف بدعت ہے - شاہ ولی اللہ کے ںزدیک نقشبندی مجددی شاخ وہ سلسلہ طریقت ہے جو ایک طرف تو سختی سے خود کو شریعت کی حدود میں رکھتا ہے اور دوسری طرف یہ اخلاق و عادات میں آپ کو سلف کے قریب تر کرتا ہے - شيخ ابوالعلاء اور خواجہ باقی باللہ کی اولاد سے ہندوستان میں جو نقشبندی شاخیں سامنے آئیں وہ آلات موسیقی کے ساتھ سماع کا اہتمام کرتیں اور حالت وجد میں صوفیانہ رقص بھی کرتی تھیں اور اسے روحانی ترقی کا زریعہ خیال کرتیں تھیں - شیخ ابو العلاء کی نقشبندی شاخ نے ایک طرح سے خواجہ عبیداللہ کے زکر اور چشتی صوفیاء کے سماع و رقص کو ملاکر اپنا ایک طرز ایجاد کیا تھا لیکن یہ دونوں شاخیں جنوبی ایشیآء میں زیادہ نہ پھیل سکیں - اٹھارویں صدی عیسوی میں خواجہ باقی باللہ کی غیر مجددی شاخ بھی اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اور یہ بھی اس میں ہی مدغم ہوگئی -خواجہ خوند محمود متوفی 1642ء / 1052ھ کی لاہور ميں غیر مجددی شاخ کافی پھیلی مگر اچانک یہ بھی معدوم ہوگئی ، اسی طرح اورنگ آباد میں بابا شاہ محمد مسافر متوفی 1714ء / 1126ھ کی غیر مجددی شاخ کافی پھیلاؤ رکھتی تھی لیکن یہ بھی ختم ہوگئی - شيخ احمد سرہندی کی وفات کے ایک سو سال کے اندر اندر مجددی نقشبندی شاخ نے دوسری غیر مجددی شاخوں پر بالادستی قائم کرلی تھی شیخ احمد سرہندی کو امر کرنے میں ایک محدود سا کردار اس مجددی نقشبندی لٹریچر کا بھی ہے جو شیخ احمد سرہندی کی وفات کے بعد سامنے آیا - شيخ احمد سرہندی کی وفات کے بعد محمد ہاشم کشمیری بدخشانی نے " زبدۃ المقامات " ترتیب دی - اس سے پہلے خواجہ بدرالدین سرہندی متوفی 1648ء / 1057ھ نے " حضرات القدس " ترتیب دی - ابو الفیض الحسن متوفی 1790ء / 1152ھ نے " روضات القیومیہ " لکھی - لیکن سب سے بڑا کارنامہ شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات ہیں - یہ 536 مکتبوبات ہیں جو شیخ احمد سرہندی نے لکھے اور ان کی خوب ، خوب شہرت ہوئی - کسی اور نقشبندی شاخ میں آنے والی نسلوں کے لئے اتنی بڑی تعداد میں لٹریچر موجود نہيں ہے اور نہ ہی اس طرح کی علمی تدوین کی روایت ان کے ہاں نظر آئی - شیخ احمد سرہندی کے مکتبوبات کی کتاب کی شہرت ، اثر اور پھیلاؤ کا اگر ہندوستان میں کسی صوفیانہ کتاب سے مقابلہ و موازانہ کیا جاسکتا ہے تو وہ امیر حسن سجزی کی کتاب " فواد الفئواد " ہے جو کہ خواجہ نظام الدین اولیاء کے ملفوظات ہیں - شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات اگرچہ متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں لیکن ان کو ّرھنے کے لئے علوم اسلامی کی بنیادی شد بدھ لازم ہے اور نقشبندی مجددی صوفیانہ ٹرمنالوجی سے واقفیت بھی ضروری ہے - مکتوبات کا موضوع انتہائی دقیق اور یہ 200 افراد کے نام لکھے گئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کی شناخت ممکن نہیں ہے -آرتھر بوہلر کہتا ہے کہ مکتوبات کوئی آسان کتاب نہ ہے کہ عام آدمی اس کو بنا کسی مشکل سے پڑھ سکے تو اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عام آدمی میں نقشبندی سلسلے کی مقبولیت کا سبب " مکتوبات " کا درک نہیں ہے مکتوبات کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ ان مکتوبات میں شاید کسی باقاعدہ سیاسی آئیڈیالوجی کو پیش کیا گیا اور طاقتور دلائل کے ساتھ یک نوعی اور تنوع مخالف تصورات پیش کئے گئے ہونگے لیکن ایسا نہیں ہے - ان مکتوبات میں زیادہ تر شیخ احمد سرہندی نے نقشبندی مجددی روحانی مشقوں ، وظائف اور واردات قلبی ، روحانی مقامات پر کمنٹری اور ہدایات دیں یا یہ اپنے شیخ باقی باللہ کو اپنے تجربات روحانی ، مشاہدات سے باخبر رکھنے اور اپنے خیالات پیش کرنے تک محدود ہیں اور ان مکتبوبات میں شریعت کہيں اگر زیر بحث آئی بھی تو وہ ٹھیک حنفی اعمال کو واضح کرنے تک محدود ہے اور ساتھ ساتھ شیخ مجدد کی اپنی وضح کردہ جو روحانی مشقیں ہیں اور صوفی خیالات ہیں ان کی نظیر ابتدائی نقشبندی روایت اور خود اسلامی روایت سے ڈھونڈ کر لانے پر مشتمل ہے - مجددی شاخ کا جو علمی اور ادبی ورثہ ہے اس کے مقابلے میں ہمیں خواجہ باقی باللہ ، شیخ العلاء پلنگ پوش ، بابا شاہ محمد مسافر اورنگ آبادی ، خواجہ محمود خوند کے ہاں نظر نہیں آتا اور اس لئے یہ شاخیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غائب ہوگئیں غدر کے نتائج اور نقشبندیہ مجددیہ کا پھیلاؤ 1857ء سے 1947ء تک نقشبندیوں کا حکمرانوں پر اثر اس وقت زائل ہوا جب ہندوستان میں باقاعدہ برطانوی نوآبادیاتی دور حکمرانی شروع ہوگیا - 1803ء / 1217ء میں برٹش نے مرہٹہ کو دلی سے نکال باہر کیا اور مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور اس کی بچی کچھی سلطنت کے بطاہر محافظ بن گئے - 1949ء میں انگریز نے پنجاب پر قبضہ جمالیا اور 1849ء مين مغل نظام کے خلاف جو بغاوت ہوئی تھی اس کے بعد کسی کے دل میں مغل قانون کا احترام نہ تھا اور پھر اس کے نتیجے میں مغل بادشاہ رنگون بھیج دیا گیا - 1857ء کو جو غدر ہوا اس میں قربانی کے بکرے مسلمان بنے اور انگریز نے سب سے زیادہ سزائیں مسلمانوں کو ہی سنائیں اور اس نے مغل زمانے کے جو ہائی پروفائل انسٹی ٹیوٹ تھے ان کو بری طرح سے متاثر کیا -1899ء تک بادشاہی مسجد کو تالا لگا رہا -1899ء تک یورپی برٹش حکمران جوتوں سمیت شاہی مسجد دلّی میں آنا اپنا حق سمجھتے تھے - جنگ غدر 1857ء سے دلّی سب سے زیادہ متاثر ہوا اور اس سے خود نقشبندی سرگرمیاں دلّی اور اس کے گردو نواح میں بری طرح سے متاثر ہوئیں -دلّی میں سب سے بڑا نقشبندی مرکز خواجہ احمد سعید کی خانقاہ تھی جس میں چٹلی قبر مقبرہ مرزا جانجاں متوفی 1178ء / 1195ء اور غلام علی شاہ متوفی 1824ء / 1240ھ تھے اور 1858ء میں سعید احمد نقشبندی متوفی 1860ء / 1277ء کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر وہ مقیم دھلی رہے تو انگریز کی انتقامی کاروائیوں کا نشانہ ضرور بن جائیں گے تو انہوں نے خفیہ طور پر چھپتے ، چھپاتے 1858ء میں اپنے سارے خاندان کے ساتھ حجاز ہجرت کرلی اور وہاں پر وہ صرف دو سال بعد 1860ء مين فوت ہوگئے اور 30 سال بعد ان کے پوتے ابوالخیر نقشبندی متوفی 1924ء / 1277ھ واپس دلّی آئے اور خانقاہ کو دوبارہ آباد کیا اور دلّی میں نقشبندی سرگرمی دوبارہ شروع ہوئی - 1857ء کے بعد ایک لمبے عرصہ تک نقشبندیوں کی سیاسی سرگرمیاں قصّہ پارینہ بن گئیں اور اس دور میں انگریز کا رویہ مسلمانوں کی کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمیوں مين شرکت کے خلاف بہت حوصلہ شکن اور جارحانہ تھا -آرتھر بوہلر کہتا ہے کہ ہندوستان کی فضاء مین اس تبدیلی نے نقشبندی مجددی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا پنجاب ایک نقشبندی مرکز کے طور پر غدر 1857ء کے بعد 90 سال تک ہندوستان میں نقشبندی مجددی مراکز کا ارتکاز زیادہ تر پنجاب کے علاقوں میں رہا - بلکہ پنجاب کے بعض علاقوں میں تو یہ ارتکاز اس زمانے کے سارے مسلم سماجوں سے زیادہ تھا - لیکن پنجاب کا جو جنوب مغربی علاقہ تھا اور اس کے اضلاع ڈیرہ غازی خان ، مظفر گڑھ ، ملتان اور منٹگمری جو تھے ان میں نقشبندی مراکز نہ تھے بلکہ ان علاقوں کے لوگ 30 ایسی درگاہوں ، خانقاہوں کے ساتھ جڑے تھے جہآں پر سید جلال الدین سرخ پوش بخاری متوفی 1292ء /692ھ کی اولاد مدفون ہے اور ان درباروں کے متولی ، سجادہ نشین جو تھے یہ مزارات ان کی سیاسی اور معاشی طاقت کا جواز تھے -پنجاب کے دیہی علاقوں میں جو مسلم معاشرت تھی ان میں مقامی چھوٹے دیہی مزار اور درگاہ مذھبی طاقت اور روحانی وراثت تک رسائی کا زریعہ بالکل ویسے ہی تھے جیسے بڑے پیمانے پر رسائی کی علاماتیں لاہور میں داتا گنج بخش کا مزار ، پاکپتن میں بابا فرید گنج شکر اور ملتان میں رکن الدین کا مزار تھے - ان مزارات پر ہونے والی سرگرمیوں میں جو عقیدت مند ہاتھ بٹاتے ان کی شفاء اور نجات کی زمہ داری ان درباروں کے سجادہ نشینوں کے زمہ ہوتی تھی - نقشبندیوں نے ایسے دیہی علاقوں ميں میں درگاہ نہ بنائی جہآں مقامی صوفی درگاہيں پہلے سے موجود تھیں برطانوی ہندوستان میں یہ معاشی و سیاسی حالات تھے جن کی وجہ سے برطانوی ان کی طرف توجہ دیتے تھے - اگرچہ برٹش کالونیل حکمرانوں نے مغل حکام کی طرح بلاامتیاز درگاہوں والوں کو نوآزنے کا سلسلہ جاری نہ رکھا اور ان کا التفات نقشبندیوں کی جانب کم تھا تو ایسے میں نقشبندی انڈین سماج میں اگر کوئی موثر کردار ادا کرنے کے قابل ہونا چاہتے تھے تو وہ برٹش کالونیل ماسٹرز سے بے نیاز نہیں ہوسکتے تھے تو نقشبندیوں میں پنجاب کے ایک صوفی امام علی شاہ کو انگریزوں نے خدمات کی خوشی میں 500 بیگھے زمین عطیہ کی اور تحریک پاکستان میں پنجاب کے پیران عظام کو لانے میں اہم ترین کردار ادا کرنے والے پیر جماعت علی شاہ امام علی شاہ کی اولاد تھے اور پنجاب ک دیہی سماج کی کسان مسلم آبادی پر ان کا اثر اور تعلق بہت گہرا تھا - اور پنجابی دیہی سماج کا جو ڈھانچہ تھا اس سے جڑے آدمی کا برٹش سامراج سے بے نیاز رہنا کارے دارد تھا تو پیر جماعت علی شاہ وسطی پنجاب کے اندر برٹش کے قریب سمجھے جانے والے پیر خیال کئے جاتے تھے اور 1935ء میں جب مسجد صادق گنج کو بچانے کے سوال پر مجلس احرار پارٹی دم سادھے رہی تو اتحاد ملت پارٹی بنی اور پیر جماعت علی شاہ کو اس کا سربراہ چن لیا گیا - اس پر ردعمل دیتے ہوئے دیوبندی مذھبی سکالر ، مجلس احرار کے رکن مولوی حبیب الرحمان نے سوال اٹھایا ایسا آدمی جو برطانوی حکومت کو اپنا مائی باپ کہتا ہو ، وہ مسلمانوں کی کیسے نمائندگی کرسکتا ہے ؟ نقشبندیوں کا دیہی پنجاب میں نفوز غدر کے بعد اکثر صوفیآء نے اپنی درگاہیں ہندوستان کے اربن سنٹرز سے باہر قائم کیں تاکہ وہ مرکزی حکومت سے محاز آرائی سے بچ سکیں - اور انہوں نے اپنے گزارے کے لئے دیہاتیوں اور قبائیلوں کی آمدنی پر انحصار کیا - دوست محمد قندھاری 1850ء میں قندھار کے گرد و نواح میں سیاسی اتھل پتھل سے مجبور ہوکر قندھار چھوڑ آئے اور ان کے مرشد نے ان کو نئی خانقاہ ایسے جگہ پر بنانے کو کہا جہاں پنجابی اور پشتو دونوں بولنے والے ہوں - دوست محمد قندھاری نے اپنے مرشد احمد سعید کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان سے 41 میل دور موسی زئی گاؤں میں خانقاہ بنائی اور جلد ہی یہ خانقاہ افغانستان ، پشاور اور - پنجاب سے آنے والے طالب علموں کا مرکز ثقل بن گئی دوست محمد قندھاری کے خلیفہ محمد عثمان متوفی 1896ء نے بھی موسی زئی میں خانقاہ میں روایت کو جاری رکھا اور 1893ء میں انہوں نے میاںوالی پنجاب کے ایک گاؤں کنڈیاں میں نئی خانقاہ بنائی اور یہ خانقاہ بھی پنجاب اور پشتون علاقوں کے ارادت مندوں میں سلسلہ نقشبندیاں کے پھیلاؤ کا سبب بن گئی - عثمان کے جانشین سراج الدین متوفی 1915ء گرمیاں کنڈیاں خانقاہ میں گزارتے اور سردیاں موسی زئی میں بنی خانقاہ میں اور ان کی وجہ سے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ حیدر آباد سندھ تک پھیل گیا - نقشبندی مجددی شاخ کے شیوخ نے پنجاب کے اندر تبلیغی مقاصد کے لئے بھی دیہی علاقوں کا رخ کیا اور انہوں نے دیہاتی مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ شعائر اسلام کی پابندی کرنے کی تلقین کی - محی الدین قصوری متوفی 1854ء لاہور میں ، ان کے خلفاء ڈیرہ اسماعیل خان ، بھیرا اور نمک میانی میں ، میاں شیر محمد شرقپوری ارائیں متوفی 1928ء نے خانقاہ شرقپور ، ان کے حلیفہ عمر بیربل سرگودھا ضلع میں اور ان کے سجادہ نشین سید اسماعیل کرمانوالی متوفی 1966ء لاہور میں اور سید حسن کلیانوالی گوجرانوالہ کے گردونواح میں سلسلہ نقشبندیہ کے پھیلاؤ کا سبب بنے اور ان کا ناتہ جاکر دھلی کی 1857ء کی ماقبل نقشبندی مجددی شیوخ کی لڑی سے جاکر ملتا ہے شمالی پنجاب میں نقشبندی مجددی شاخ اسقدر تیزی سے کیوں پھیلی اس کا ٹھیک ٹھیک جواب تو ملنا کافی مشکل ہے لیکن یہ طے ہے کہ نقشبندی سلسلے کو ہندوستان بھر کے اندر ویسی مقبولیت نہیں ملی جو اسے شمالی پنجاب میں ملی - آرتھر کہتا ہے کہ شیخ احمد سرہندی کی وفات کے بعد اگرچہ ان کے جانشینوں نے ہندوستان کی کلچرل فضا سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی لیکن وہ بڑی جگہ نہ پاسکے - پنجاب کے شمال میں دیہی علاقوں ميں نقشبندی خانقاہیں ابتداء میں پنجاب کی دوسری خانقاہوں اور درگاہوں کے میلے ، ٹھیلے اور دعوتی کلرفل ماحول سے زرا الگ تھیں اور یہاں زیادہ تر سخت ضابطوں کی پابندیاں رہیں جبکہ نقشبندی صوفی پنجاب کی دوسری درگاہوں پر بھی جاتے تو لئے دئے رکھتے تھے تو اس ماحول میں نقشبندی خانقاہوں نے پنجاب کے دیہی علاقوں میں جو پیر اور مولوی کے کے درمیان دوری تھی اسے ختم کرنے میں کردار ادا کیا اور اس طرح سے پنجابی دیہی سماج میں اپنی جگہ بنالی - علماء اور نقشبندیہ مجددیہ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم معاشروں میں عالم / مولوی / ملّا کا اطلاق مفتی ، امام مسجد اور قاضی پر ہوتا رہا ہے - علماء کا حکمرانوں سے تعلق دو طرفہ رہا کہ مسلم حکمران ان کے اداروں کو مالی مدد دیتے ، جاگیریں عطا کرتے اور جواب میں یہ علماء ان حکمرانون کی حکومت کو جائز اسلامی حکومت کی سند دے دیتے - مغل دور میں مغلیہ حکمران اپنی حکمرانی کی سند جواز صوفی اور عالم دونوں سے حاصل کرتے تھے اٹھارویں صدی میں جب مغل سلطنت بکھرنے لگی تو اس کے سب سے بڑے متاثر علماء تھے اور نقشبندی بھی اس کا شکار تھے جن کے ہاں صوفی اور عالم دونوں گھل مل گئے تھے -1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب مغل سلطنت کی آخری نشانی بھی انگریزوں نے ختم کردی تو اس کا سب سے تباہ کن نشانہ علمائے دھلی اور مغلوں کے قریب نقشبندی صوفی تھے اگرچہ کئی سجادہ نشین پھر بھی اپنے علاقوں ميں بااثر رہے لیکن علمائے دھلی اور دہلی کی نقشبندی خانقاہيں تو جیسے کسی آفت کا شکار ہوگئے تھے اور انگریز نے ہندوستان میں اس ثقافتی محور کے ختم ہونے کا سگنل بھی دے ڈالا جس کے گرد ہندوستان میں مغل منصب داری نظام تشکیل پایا تھا جسے اسلامی ںظام کہا جاتا ہے - علمائے دھلی کی بہت بڑی تعداد پنجاب کے دیہی اور قصباتی شہروں کو منتقل ہوگئی -اور کئی اصلاح پسند علماء نے دینی تعلیم کے مدارس بنائے جیسے 1867ء ميں یوپی کے ایک غیر معروف قصبے دیوبند میں دارالعلوم العربیہ کا قیام عمل میں آیا اور دیوبند والوں نے ماضی سے مختلف روش اختیار کی کہ تصوف کے نام پر چشتیہ سلسلے کے اندر موجود ایک اصلاح پسند لہر کو جزوی طور پر اپنایا لیکن مزارات اور سجادہ نشینی سے خود کو دور رکھا اور جبکہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کا بنا تو اس نے خود کو نقشبندیہ مجددیہ ریفارمسٹ صف میں شامل کرلیا اور یہ اصل میں ایک طرف تو عرب کے اندر اٹھنے والی وہابی ازم سے مستعار لئے نظریات کا ملغوبہ تھا تو دوسری طرف یہ نقشبندی و چشتیہ سلسلے کی اصلاح پسند اور زیادہ تنگ شرعی تعبیر کی جانب جھکنے والی روایت کا سمبندھ تھا لیکن پنجاب میں دیہی علماء تھے وہ خود کو نہ تو دیوبندی پوزیشن کے ساتھ رکھ پائے اور نہ ہی وہ ندوۃ العلماء کی پوزیشن کا ساتھ دے پآئے - انہوں نے پنجاب کے اندر پھیلتے ہوئے نقشبندی ریفارمسٹ رجحان میں اپنے لئے کشش محسوس کی اور اس طرح سے پنجاب کے اندر جو " صوفی مولوی " یا " صوفی عالم " کا ایک آمیزہ سامنے آیا وہ بطور بریلوی مسلک کے سامنے آیا - بریلویوں کے ہآن مذھبی تعلیم کے لئے پنجاب میں پیر جماعت علی شاہ کی مالی مدد اور اساتذہ کی فراہمی کی صورت میں لاہور کے اندر دو بڑے مدارس " دارالعلوم نعمانیہ " اور " دارالعلوم حزب الاحناف " بالترتیب 1887ء اور 1924ء کو وجود میں ائے لیکن پنجاب میں دیوبندی روایت سے جڑے علماء کے نقشبندی مجددی سلسلے میں آنے کے شواہد بھی موجود ہیں تو علماء جو پنجاب کے اندر چاہے دیوبندی یا بریلوی روایت سے جڑے تھے اور دوسرے تعلیم یافتہ گروپ وہ نقشبندی سلسلے سے جڑے اور یہ اصل میں ہندوستان کے وہ مسلم اشراف کے اندر مقبول پذیر ہوا جو بار بار " اصلی و شفاف اسلام " کہاں ملے گا جیسے سوال اٹھاتے ہیں نتیجہ نقشبندی مجددی صوفیاء کے مغل سلطنت کے زوال تک منگول ترک حاکموں سے گہرے تعلقات قائم ہوچکے تھے - بہت سے مکتوبات ایسے ہیں جو منگول حاکموں کو لکھے گئے اور ان کا ایک جائزہ بتاتا ہے کہ نقشبندی صوفیاء ایک جانب تو مغل حکمرانوں کی مذھبی فرائض بارے فکر مند رہتے تو دوسری طرف وہ ہندوستان میں اسلامی قوانین شریعت کے نفاذ پر زور دیتے تھے اور وہ عام آدمیوں اور امراء کو اپنی زندگیوں ميں شریعت کے مطابق بدلاؤ لانے پر اصرار کرتے اور یہی وہ فیکٹر تھا کہ نقشبندیوں کے رینک میں علماء کی آمد ہوئی تو اس سے جو " صوفی مولوی / عالم برآمد ہوا اس نے نقشبندیوں کی سیاست میں اور دربار میں مداخلت کو اور بڑھایا - اگرچہ وہلر کہتا ہے کہ صوفیاء عمومی طور پر سیاسی کردار ادا کرتے رہے ہیں لیکن نقشبندیوں نے اسے کچھ زیادہ ہی کیا اٹھارویں صدی میں جب مغل سلطنت زوال کے دور سے گزری تو نقشبندیوں کے ماڈس آپرینڈی میں کافی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں - شاہ ولی اللہ نے اس زمانے ميں ایک طرف تو مغل سلطنت کے بکھرتے شیرازے کو بچانے کی کوشش کی اور یہآن تک کہ احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا جس نے شمالی پنجاب کی اینٹ سے اینٹ بجادی تو اس زمانے ميں شاہ ولی کی جانب سے یہ کوشش کہ "} نصحیت یا وعظ لکھکر حکمرانوں کی اصلاح اور مغل دور پھر پلٹایا جاسکتا ہے ناکام ہوئیں پھر سید احمد بریلی متوفی 1831ء کی مسلح بغاوت بھی ناکام ہوئی تو پھر 1857ء کے بعد ایک لمبے عرصے تک نقشبندیوں نے " سیاسی کردار " ادا کرنے سے فاصلہ رکھا اور یہ تحریک پاکستان تھی کہ نقشبندی ہمیں ایک مرتبہ پھر متحرک نظر ائے ........................................................................................................................
Notes and references given by Arthur F. Buehler
[1] When two dates are juxtaposed, the first is the Islamic lunar hijri date followed by a slash and the Common Era date. All date conversions were calculated with Professor John Woods's "Taqwim" software, using Julian equivalents for the hijri era up to October 4, 1582 and Gregorian equivalents thereafter. [2] Indo-Muslim sources give Ghujduvani's death date as 575/1179 while Western scholars use 617/1220. For a thorough analysis of the dating difficulties see Fritz Meier, Zwei Abhandlungen uber die Naqshbandiyya (Istanbul: Franz Steiner Verlag, 1994), p.25. At least a few Sufis before Khwaja Ghujduvani were named Khwaja, e.g., Khwaja Yusuf Hamadan (d. 535/1140) who was Khwaja Ghujduvani's spiritual guide (murshid), in addition to Khwaja Ahmad Yasawi (d. 562/1166-67) and Khwaja Abu Muhammad al-Hasan b. al-Husayn al- Andaqi(d.522/1157) who were Khwaja Ghujduvani's fellow disciples. [3] Dina Le gall states, on the basis of hagiographical sources, that the tariqa was not named after Baha'uddinh Naqshband until roughly one hundred years after his death. See Dina Le Gall, "The Ottoman Naqshbandiyya in the Pre-Mujaddidi Phase: A Study in Islamic Religious Culture and its transmission" ) Ph.D. dissertation, Princeton University, 1992), pp. 12-13. [4] A fourth stage, the Naqshbandiyya-Khalidiyya named after Maulana Khalid Baghdadi (d. 1282/1827), may also be included. The spread of this branch has been largely limited to the Arab world and Indonesia. See Mahindokht Mu'tamadi, Maulana Khalid Naqshband (Teheran: Pazhang Publishing, 1990). Some modern Naqshbandi writers include two additional stages, from Abu Bakr Siddiq (d. 13/634) to Tayfur ibn ' Isa Abu Yzaid Bistami (d. 261/874) called the Siddiqiyya and form Abu Yazid Bistami to Khwaja 'Abdulkhaliq Ghujduvani (d. 575/1179) called the Tayfuriyya. See Muhammad Nur Bakhsh Tawakkuli, Ta,lhkiralyi' masha'ikb-i naqshband with additions by Muhammad Sadiq Qusuri (Gujarat: Fadl Nur Academy, n. d.), p. 488. This typology has bee duplicated by various later Arab Naqshbandi authors. See Muhammad Parsa, Qudsiyya: Kalimat-i Baba'uddin Naqshband, ed. Ahmad Tahiri (Teheran: Kitabkhana-yi Tahuri, 1975), p. 28 (introduction). There is n historical evidence that any Sufis identified themselves as members of the "Siddiqiyya" or "Tayfuriyya." [5] See Hamid Algar, "A Brief History of the Naqshbandi Order," in Marc Gaborieau, Alexander Popovic, and Thierry Zarcone, eds., Naqshbandis: Historical Development and Present Situation of a Muslim Mystical Order (Istanbul: Editions Isis, 1990), pp. 13-15. [6] Hamid Algar, "Political Aspects of Naqshbandi History," in Gaborieau et. al., in Naqshbandis, p. 126. [7] Muhammad Hashimi Kishmi, Nasamat al-quds, Urdu translation by Mahbub Hasan Wasiti (Sialkot? Maktaba-yi Nu` maniyya, 1990), p. 153 and Babur, Babur nama, 2 vols., English translation by Annette S. Beveridge, The Memoirs of Babur(Delhi: Low Price Publications [1922], 1989), p. 128. [8] Babur's father, his paternal uncle Sultan Ahmad Mirza, as well as Babur himself respected Khwaja Ahrar but were not formally Ahrar's disciples. Naqshbandi sources sometimes exaggerate Tumurid connections to the Naqshbandiyya, e.g., Khurshid Hasan Bukhari, "Mughal siyasat par awliya'-i naqshband ka athar," Nur al- Islam, awliya'-i naqshband narnber, part 1, vol. 24 (March-April 1979), p. 138. In his memoirs, Babur recounts a dream where Ahrar predicted his successful victory taking Samarqand. See Babur, Babur nama, p. 132. In addition, he relates having especially honoured a visiting grandson of Ahrar, Khwaja 'Abdushshahid (d. 983/1575) (ibid, p. 631). Khwaja 'Abdusshshahid later spent fifteen years in India (966/1558-59 to 982/1574-75) where he reportedly had a following of twelve thousand people before returning to Samarqand in 983/1575. Kishmi, Nasamat, pp. 168-169. [9] Stephen Dale describes Ahrar's extensive waqf holdings probably obtained in cooperation with Babur's uncle Ulugh Beg Kabuli. One holding was a madrasa, maktab, and a mospue, a base for education and patronage and that could have been one of Baqi Billah's (d. 1012/1603) institutional affiliations when he was in Kabul before migrating to Delhi in 1007-8/1599. Dale, revising earlier studies by S. Athar Abbas Rizvi, Muslim Revival Movements in the 16th and 17th Centuries (Agra: Agra University, 1965), pp. 179-183, has shown the close interrelationship of the Naqshbandiyya and Timurid dynasty in India, particularly in marriage ties between the Ahraris and the Timurids ruling India. Stephen Dale, "The Legacy of the TImurids," in David Morgan and Francis Robinson, eds., The Legacy of the Timurids(Delhi: Oxford University Press for the Royual Asiatic Society, forthcoming). I am particularly grateful for Stephen Dale making this unpaginated pre-publication available and giving me permission to cite. See also Bukhari, "Mughal siyasat," pp. 140-141. [10] Kishmi, Nasamat, pp. 153-154. [11] Khwajagi Ahmad, known as Maulana Khwajagi Ahmad b. Jalaluddin (d. 950/1543-44), was a disciple of Muhammad Qadi (d. 911 or 912/1505-7), a famous successor of Ahrar. See Muhammad Ghawthi Mandawi, Adhkar-i abrar, Urdu tar juma-yi gulzar-i abrar, 2nd ed., Urdu translation by Fadl Ahmad Jewari (Lahore: Islamic Book Foundation [1908], 1975), p. 259. It was a common practice of the time to have holy men accompany armies as a kind of "spiritual artillery" to assist in gaining victory. Baba Palangposh (d. 1110-11/1699), originally from Ghujduvan, was a Naqshbandi military pir, who accompanied Ghazi'uddin Khan, an immigrant Mughal general fighting in India. See Simon Digby, "The Naqshbandis in the Deccan in the Late Seventeenth and Early Eighteenth Century A.D.: Baba Palangposh, Baba Musafir and Their Adherents," in Gaborieau et. al., Naqshbandis, pp. 167-207. [12] N. Elias, ed., English translation by E. Denison Ross, A History of the Mughals in Central Asia Being the Tarikh-i Rashidi of Mirza Muhammad Haidar Dughlat, 2nd ed. (London: Curzon Press, 1972) p. 399 cited by Dale, "The Legacy of the Timurids." Mirza Muhammad was a disciple of Khwawand Mahmud. [13] Kishmi, Nasamat, p. 161. Both of these forecasts were inerpreted as divine assistance mediated by the Naqshbandis. [14] Ibid., p. 156. [15] Ibid., p. 163. ' Abdulhaqq parted ways with Humayun due to some unspecified animosity between them. [16] Dale, "The Legacy of the Timurids." [17] Ibid., Khwaja 'Abdushshahid (d. 983/1575-76) was one of Ahrar's grandsons. [18] Bada'ni, 'Abdulqadir Muntakhab al-tawarikh,, vol. 2, English translation by W.H. Lowe (Delhi: Idarah-i Adabiyat-i Deli [1884-1925], 1973), pp. 246, 275. According to Bada'uni, Sultan Khwaja was the son of Khwaja Khawand Mahmud. Ibid., p. 246. Others say he was disciple of Khwaja Dost whose shaykh was a disciple of Khwaja 'Abdushshahid. See Abu Fadl ' Allami, Akbar nama: History of the reign of Akbar inculuding an account of his predecessors, 3 vols., English translation by H. Beveridge (Delhi: Ess Ess Publications [1897-1921], 1977), 3. 192, 271. [19] Dale, "The Legacy of the Timurids." [20] Ibid., [21] Sirhindi's name is derived form his birthplace, Sirhind. the ties between Sirhindi's descendants and Afghani affairs is an intriguing subject that requires further research. See 'Azizuddin Wakil Fufalza'i Timur Shah Durrani, 2 vols., 2nd ed. (Kabul: n.p., n.d.), 2.677-688. [22] Abu'l Hasan Zayd Faruqi, Maqamat-i khayr (Delhi: Dr. Abu'l-Fadl Muhammad Faruqi, 1975), p.344. Members of teh Mujaddidi family, e.g., Sibghatullah Mujaddidi, are still prominent in the contemporary Afghani political scene. For further examples of Afghan-Naqshbandi affinities see Juan Cole, Roots of North Indian Shi 'ism in Iran and Iraq: Religion and State in Awadh, 1722-1859 (Delhi: Oxford University Press, 1989), pp. 230-239. [23] SHah Zuhur al-Hasan Sharib, Tarikh-i sufiya'-i Gujarat (Ahmadabad: Jamil Academy, 1981), pp. 97-113. His sobriquet is also Khwaja Divana, see 'Abdulhayy b. Fakhruddin al Hasani, Nuzhat al-khawatir wa bahjat al-masami' wa'l-nawazir, 9. vols., 3rd ed. (Hyderabad, Deccan: Osmania Oriental Publications Bureau, 1989), 5.115. The shift in sobriquet reflects a preference of sobriety over intoxication in Sufi identity (dana = = wise and diviana==ecstatic). His son, Abu'l-Hasan b. al-Jamal (d. 1054/1644-45) and Abu'l-Hasan's son Muhammad (d. 1078/1667-68) continued his teaching in Surat. Ibid., pp. 15, 337. [24] The other is Khwaja Ahrar. [25] A common misperception among historians of Indian Sufism has been that Baqi Billah was the first Naqshbandi in India, e.g., Abdul Haqq Ansari, Sufism and Shari'ah: A Study of Shaykh Ahmad Sirhindi's Effort to Reform Sufism (Leicester: Foundation, 1986), p. 13. Baqi Billah was not the first spiritual descendant of Ahrar outside of Ahrar's blood line to arrive in India (contrary to Algar, cf. Algar, "A Brief History," p. 19). Non-Ahrari Naqshbandis, i.e., those not of Ahrari lineal descent, had been arriving and initiating disciples long before Baqi Billah arrived in India. The biographical sources mention many spiritual descendants of Muhammad Qadi (d. 903/1497-98 Samarqand), one of Ahrar's important successors, who came to India spreading the Naqshbandiyya, e.g., Maulana Tarsun Qadi (d. 1013/1604-5 Mecca) with disciples in Lahore and Fathpur; Himiduddin Harwi, son of Muhammad Qadi, who died in Surat; and Khawand Mahmud (d. 1052/1642 Lahore) who came to India the same year as Baqi Billah. See Kishmi, Nasamat, pp. 226, 265-266, 242. For more specific information on Khawand Mahmud, see David Mamrel, "Forgotten Grace: Khwaja Khawand Mahmud Naqshbandi in Central Asia and Mughal India," (Ph.D. dissertation, Duke University, 1991). [26] Kishmi, Nasamat, pp. 153-154. [27] Wilaya, meaning "proximity" and walaya, meaning "protection and authority," are both derived from the same Arabic root "w 1 y." The meanings have been conflated to a large extent because 1) Both words, when applied to holy persons, usually share both meanings; and 2) Short vowels are not mormally written in Arabic to distinguish between the two words. The convention has been for scholars to use wilaya which I have chosen to translate as "intimacy," a suitable type of proximity for shaykhs not involiving physical distance. The most detailed discussion on these two terms and the notion of wali is Michel Chodkiewicz, Le sceau des saints: Prophetic et saintete dans la doctirne d'Ibn Arabi (Paris: Gallimard, 1986), pp. 35-39. [28] Mandawi, Gulzar-i abrar, p. 477. He is also known as Mir Murtada Khan. [29] For more information on Baqi Billah see Muhammad Hashmi ,Kishmi Badakhshani, Zubdat al-maqamat (Isbanbul: Isik Kitabevi, 1977) and Muhammad Sadiq Dihlawi Kashmiri Hamadani, Kalimat al-sadiqin, ed. Muhammad Saleem Akhtar (Lahore: Maktaba 'Ilmiyya Press, 1988), pp. 161-196. ALl of Baqi Billah's writing has been collected in Baqi Billah, Kulliyat-i Baqi Billah, eds, Abu'l-Hasan Faruqi and Burhan AHmad Faruqi (Lahore: Din Muhammadi Press, n.d.). In one of the few biographical compendiums detailing Muslim religious personages of the eleventh/seventeenth entury, Nuzhat al-khawatir, there are 32 prominent ' Naqshbandis from Baqi Billah's lineage mentioned, 26 " Naqshbandi-Mujaddidis, and five with Central Asian shaykhs. See ' Abdulhayy, Nuzhat al-khawatir, vol. 3. [30] Naqshbandis claim that Sirhindi was imprisoned because of the Shi'i intrigues initiated by Nurjahan, Jahangir's Sh'i wife. Supposedly this measure was precipitated by Sirhindi's failing to perform the necessary court obeisance mandted by court protocol, This controversy was one of many which has involved Sirhindi from his lifetime to the present. Yohanan Friedmann, in his lucid but brief monograph, Shaykh Ahmad Sirhindi: An outline of His Thought and a Study of His Image in the Eyes of Posterity (Montreal: McGill-Queen's University Press, 1971), discusses Sirhindi's self-image, the perceptions of his contemporaries, and how critics and supporters up to the present have interpreted Sirhindi. From a pro. Sirhindi perspective, Muhammad Iqbal Mujaddidi in his Ahwal wa-athar-i 'Abdullah Khushagi Qusuri. (Lahore: Ashraf Press, 1972) analyses critically many of the eleventh/seveteenth-century sources used by Friedmann in addition to adding data from sources not available to Friedmann. The most complete scholarly treatments of Sirhindi are Zawwar Husayn, Hadrat Mujaddid-i Alfi Thani (Karachi: Idara-yi Mujaddidiyya, 1983) and Muhammad Mas' ud Ahmad, Sirat-i Mujaddid-i Alf-i Thani(Karachi: Medina Publishing Company, 1974), pp. 164-214, where he discusses Sirhindi's detention and parole in considerable detail. [31] Qayyum or qutb al-aqtab is a living person considered to have the highest spiritual rank of all Sufis on earth. After Muhammad Ma'sum, the next two qayyums were Hujjatullah Naqshband (d. 1114/1702) and Muhammad Zubayr (d. 1152/1740), both lineal descendants of Muhammad Ma' sum. [32] Sirhindi wrote many letters to persons holding a governmental post during the reigns of Akbar and Jahangir. For an analysis of these letters, most of which were written requesting help on hehalf of a third person; see J. G. J. ter Haar, Follower and Heir of the Prophet: Shaykh Ahmad Sirhindi (1564-1624) as Mystic (Leiden" Het Oosters Instituut, 1992), p. 16-17. [33] Five letters to Auragnzeb are collected in Muhammad Ma'sum, Maktubat-i ma'sumiyya, ed. Ghulam Mustafa Khan, 3 vols. (Karachi, Walend Military Press, n.d.), Letter 64 in volume one [henceforth written 1.64] was written before Aurangzeb became Emperor and 2.5, 3.6, 3.122, 3.221, 3.227, were all written after Aurangzeb became Emperor. A discussion of letters written by Ahmad Sirhindi's descendants to Aurangzeb, his family members, and members of the Mughal Court are collected in S. Athar Abbas Rizvi, A History of Sufism in India: From Sixteenth Century to Modern Century, 2 vols. (New Delhi: Munshiram Manoharlal, 1983), 2.482-491. Due to the Emperor Shahjahan's and Crown Prince Dara Shikoh's (d. 1069-70/1659) devotion to Mulla Shah, a Qadiri shaykh in Srinagar, Ma' sum has no reason to write any letters to them. [34] Khwaja Sayfuddin, Maktubat-i sayfiyya, compiled by Muhammad A'zam, ed. Ghulam Mustafa Khan (Hyderabad, Slnd: Sa'id Art Press, n.d.), letter 83, pp. 123-124, dited in Mujaddidi, Hasanat, p. 112. Aurangzeb was in Ma' sum's spiritual presence three times according to Ma' sum's son and successor, Sayfuddin. See Sayfuddin, Maktubat, letter 84, p. 123 cited in Mujaddidi, Hasanat, p. 112. Aurangzeb allegedly went to Sirhind and became Ma'sum's formal disciple in 1048/1638. See Kamaluddin Muhammad Ihsan Sirhindi, Rawdat al-qayyumiyya, 2 vols. (Lahore, n.e.), 2.38-39, an unreliable hagiographical source for Naqshbandi history, cited in Mujaddidi, Hasanat, p. 111. Aurangzeb's Naqshbandi connection should not be exaggerated; he visited Burhanuddin Shattari Burhanpuri a few times for spiritual blessing. His request to be buried near the Naynuddin Shirazi Chishti's tomb indicates no particular Naqshbandi affinity toward the latter part of his reign. Carl Ernst perceptively details the biases of Sufi istoriography in his Eternal Garden: Mysticism, History, and Politics at a South Asian Sufi Centre (Albany: State University of New York Press, 1992), pp. 38-61. [35] Ma'sum, Maktubat, letters 6, 122, 194, 220, 221, 227. Hujjatullah Naqshband, Wasilat al-qabul ila Allah wa'l-rasul (Hyderabad, Sind: Sa' id Art Press, 1963), p. 139 cited in Khaliq Ahznad Nizami, "Naqshbandi Influence on Mughal Rulers and Politics," in Islamic Culture, January, 1965, pp. 49-50. [36] Ihsan Sirhindi, Rawdat al-qayyumiyya 2.91, cited in Mujaddidi, Hasanat, p. 126. Muhammad Ashraf, by performing supplications (sing. du' a') for Divine intervention on the battlefrield, was supposed to help Aurangzeh emerge victorious. Dara Shikoh took Tantrics and Hindu holy men in addition to Sufis on his Qandahar campaign in 1063/1653 [he lost the battle]. See S.A.A. Rizvi, A History of Sufism in India, 2.414. [37] Mujaddidi, Hasanat, pp. 126-127. Professor Mujaddidi lists the numerous contemporary sources (without page references) that mention this'all-important intervention by Sibghatullah. [38] See Mujaddidi, Hasanat, pp. 126-159 for an analysis of the maktubat leterature between Aurangzeh and the Naqshbandis of the time. [39] A statement noted in a late-Mughal land grant to the shrine of Bahawal Haq at Multan and part of a translated abstract of a copy of a Chaknama dated 25th Rabi' II, 1141 A.H. (Board of Revenue, file 131/1575). Cited in David Gilmartin, Empire and Islam (Delhi: Oxford University Press, 1989),p. 45. Lest "praying for prosperity" be considered simply a literary courtesy (which it might well have been) another alternative is a shaykh praying for ruin. In modern Pakistani politics, legal proceedings were brought aginst the pir of Manki Sharif after he had "tried to restrain the Members of the Electoral College from the free exercise of their right to vote by invoking divine wrath against those who do not support President Ayub." See Pakistan Times 12/21/64 cited by Adrian C. Mayer, "Pir and Murshid: An Aspect of Religious Leadership in West Pakistan," Middle Eastern Studies 3 (January, 1967), p. 166. Later, Presidential Election Rules were revised with the inclusion of a clause prohibiting the threatening of electors with divine displeasure. See Pakistan Times 1/12/65. Ibid., p. 169 n. 15. [40] Although not explicitly stated, many of these Afghans were probably armed. Ghulam- Sarvar Lahuri, Khazinat al-asfiya', 2 vols. (Lucknow: Nawal Kishor Press. 1864), 1.630-631. [41] For further information on this subject see J.M.S. Baljon, Religion and Thought of Shah Walt Allah Dihlawi, 1703-1762, (Leiden" E.J. Brill, 1986). [42] Annemarie Schmmel, Pain and Grace: A Study of Two Mystical Writers of Eighteenth-Century Muslim India (Leiden: E.J. Brill: 1976), p. 42. [43] He was first initiated into the Naqshbandiyya by his father, Shaykh 'Abdurrahim (d. 1131-32/1719) who had received instruction from four different Naqshbandi shaykhs: 1) Sayyid Abdullah ' Akbarabadi, a spiritual great-grandson of Ahmad Sirhindi through Adam Banuri (d. 1053/1644), 2) Amir Abu Qasim Akbarabadi, the spiritual grandson of Abu'! Ula Akbarabadi (d. 1061/1651), a lineal descendant of 'Ubaydullah Ahrar, 3) Khwaja Khurd, the -son of Bali Billah, and 4) Amir Nurul-' ula (d. 1081/1671), the son of Abu'l-'Ula Akbarabadi. See Shah Waliullah, Intibah fa salasil awliya' Allah, (Lyallpur: Panjab Electric Press, n.d.), p. 31. Shah Waliullah wrote a book about his father, and his other teachers, Anfas al-'arifin (Multan: Islami Kutubkhana, n.d.). For more information on the non-Mujaddidi branch of an Ahrari, Abu'l-'Ula, see Abu'l-'Ula'i Ahrari, Israr-i Abul Ula (Agra: Shamsi Machine Press, n.d.), pp. 5-8. This non-Mujaddidi branch still has functioning Sufi hospices in Gaya, Bihar and Agra. At least through the nineteenth century, descendants of Khwaja Ahrar were sajiadanishins at the Sufi hospice in Agra (contrary to Algar's assertion that the physical descendants of Ahrar in India "died out in the eleventh/seventeenth century," Algar, "A Brief History," p. 19) Initiation from his father involved no Naqshbandi-Mujaddidi spiritual practices; Shah Waliullah mentions that he learned these practices from Mulla Balil Kakyani, a spiritual grandson of Muhammad Ma' sum. The scholar/mystic Abu Tahir Muhammad (d. 1145-46/1733) initiated Shah Waliullah into the Naqshbandiyya in Medina. See Baljon, Religion and Thought, pp. 5-6. he also initiated him into the Shadhiliyya, Shattariyya, Suhrawardiyya, and Kubrawiyya. Abu Tahir had three Naqshbandi affiliations:. 1) His father, Ibrahim al-Kurani (d. 1101-2/1690), who was a non-Ahrari spiritual descendant in 'Abdurrahman Jami's (d. 898/1492) chain, 2) Ahmad Nakhli (d. 1130/1717-18 Mecca) of Ahrari lineage, and 3) 'Abdullah Basri, the spiritual grandson of Tajuddin Sanbhali, s senior khalifa of Baqi Billah. [44] Ibid., p. 85. Later he makes favourable, inclusive comments about other Indian Sufi groups, Chishtiyya, Suhrawardiyya, and Qadiriyya. [45] 'Abdulhayy, Nuzhat, vol. 5. p. 22, Shah Amir Abu'l-'Ula'i AHrari, Israr, p. 21. There are presently hospices of Abu'l-' Ula's lineage in gaya, Bihar, and Agra. Ji Hli Abu ' Ula' i (d. 1250/1834-35) had many didciples in Hyderabad, Deccan. See 'Ata' Husayn, Kayfiyat al-'arifin, (Gaya: n.p., 932), pp. 105-106. Successors of 'Ata' Husayn (d. 1311/1893-94 in gaya), e.g., Mir Ashraf 'Ali, transmitted the teachings to Dacca, Bombay, and Hyderabad. There have been hospices in these last two locations. [46] Khwaja Khurd, Baqi Billah's younger son studied with Ahmad Sirhindi, see Shah Waliullah, Intibah, p.31. 'Abdulhaqq Muhaddith Dihlawi's son, Nurulhaqq Mashraqi (d. 1073/1662), instead of following Baqi Billah's senior disciples, became a- disciple of Muhammad Ma'sum. Rahman 'Ali, Tadhkira-yi 'ulama'-i Hind,(Lucknow: Nawal Kishor Press, 1 1894), p. 246. [47] For further information on Khawand Mahmud, see David Damrel, "Forgotten Grace." For additional information on the Deccan Naqshbandi, Baba Musafir, see Gigby, "The Naqshbandis in the Deccan," pp. 167-207. [48] The comparison of Amir Hasan Sijzi's Fawa'id al fu'ad and Sirhindi's Maktubat is on the basis of subsequent popularity. Sijzi pioneered the genre of malfiazat in India while Sirhindi continued the maktubat tradition, following the precedents of Sharafuddin Yahya Maneri (d. 782/1381) and Ashraf Jahangir Simnani (d. 829/1425). See Bruce Lawrence, Notes from a Distant Flute: The Extant Literature of pre-Mughal Indian Sufism (Teheran: Imperial Iranian Academy of Philosophy, 1978), pp. 53-55; 72-76. For a discussion of malfuzat literature in India, see K.A. Nizami's introduction to Nizamuddin Awliya', Fawa 'id al-fu 'ad, compiled by Amir Hasam Sijzi, English translation by Bruce Lawrence, Morals of the Heart (New York: Paulist Press, 1992), pp. 43-49. The letters of Sirhindi's son, Muhammad Ma'sum, have also been collected in a three-volume work, Maktubat-i ma'sumiyya. Numerous Naqshbandis and other Indian Sufis have had their letters published, although scholars of Indian Sufism have rarely consulted this invaluable source material. [49] For translations see Friedmann, Shaykh Ahmad Sirhindi, p. 1, notes 3, 4, 5, and Ansari, "A Select Bibliography," The latest publication of Nur Ahmad's edition of Maktubat-i Imam-i Rabbani is by University Book Depot in Peshawar, Pakistan, in 1991. [50] This is Damrel's argument for Khawand Mahmud's Naqshbandi lineage failing to prosper. See David Damrel, "The Naqshbandi Order in Transition: A Central Asian Shaykh in Mughal India," (unpublished paper given at MESA meeting, San Antonio, Texas, 11/11/90). Digby notes that Baba Shah's Naqshbandi lineage did not survive pat the twelfth/eighteenth century because Baba Shah's hospice appealed to Turkish immigrants and did not adapt to Indian conditions, See Digby, "The Naqshbandis in the Deccan," pp. 204-205. [51] Home political proceedings cited by Warren Fusfeld, "The Shaping of Sufi Leadership in Delhi: The Naqshbandiyya-Mujaddidiyya, 1750-1920" (Ph.D. dissertation, University of Pennsylvania, 1981), p. 53. [52] Fusfeld, "The Shaping of Sufi Leadership," pp. 243-248. In addition, Fakhruddin Jahan Chisti Dihlawi's (d. 1199/1785) khanaqah also was forced to close. Ghulam Muhyiuddin Qusuri, •Malfuzat-i sharif with introduction and footnotes by Muhammad Iqbal Mujaddidi, Urdu translation by Iqbal Ahmad Faruqi (Lahore: Al-Ma' arif press, 1978), p. 12. [53] This speculative statement can only be based on extant hagiographic literature of the period, facilitated in part by the flourishing Urdu publication boon of the latter nineteenth— and early twentieth-century India. See Barbara Metcalf, Islamic Revival in British India: Deoband, 1860-1900 (Princeton Princeton.Univerity Press, 1982), pp. 198-200. In Indonesia the. Naqshbandiyya were also the most popular Sufi group during the same period. Perhaps there were more Naqshbandi centres and disciples in Indonesia than in the Panjab, but since Sufisrn in Indonesia does not have as extensive a hagiographical tradition as the Subcontinent., precise comparison is impossible. [54] Jhang District Gazetteer, 1908, p. 58, cited in Gilmartin, Empire and Islam, p. 43. There were at least thirty such shrines by the turn of the twentieth century. the question of a pir's spiritual power being exercised in a specific geographical area (walayat) began in fifth/eleventh-century Khorasan and became a recurring phenomenon in later Indian Sufi literature. Not only was walayat impossible to share with non-Muslim holy persons, but it was difficult for two powerful shaykhs to co-exist in the same vicinity. See Simon Digby, "Encounters with Jogis in Indian Sufi Hagiography," (unpublished paper, given at University of London, 1/27/79). [55] The former Sikh government of the Panjab also conformed to this practice. See B.N. Goswany and J.S. Grewal, The Mughal and Sikh Rulers and the Vaishnavas of Pindori (Simla: Indian Institute of Advanced Study, 1969). For examples of British colonial policy using Sufis' local political authority, see Gilmarin, Empire and Islam, pp. 46-52. The British supported Sufis solely for political purposes and did not share the paradigm of divine intervention. [56] This land, however, was not under Naqshbandi control until Amiruddin (d.1331/1913) came and courageously asserted his authority. It is said one of Amiruddin's belligeraent adversaries among the villagers paid for this opposition to the shaykh by contracting a serious illness. See Muhammad Ibrahim Qusuri, Khazina-yi Ma'rifat (Lahore: Naqush Press, n.d.), p. 97 One ghuma'o is between .2 and .75 of a acre, see John T. Platts, A Dictionary of Urdu and Classical Hindi and English, (New Delhi: Munshiram Manoharlal, 1977), p. 935. [57] Ihsan, 9/23/35 Press Branch file #8331, vol. 7a, cited in Gilmartin, Empire and Islam, pp. 104-105. Gilmartin's book discusses rural pirs in pre-independence Panjab. [58] Muhammad Isma'il, Tajalliyat al-dostiyya, pp. 65-66. [59] Mahbubullahi, Tuhfa-yi sa 'diyya, (Lahore: Al-Hamra Art Printers, 1979), pp. 40-42. [60] The train station at Khundian is about a mile from the second Khanaqah. In comparison, the original khanaqah at Musa Zai even today is a bumpy thirteen-hour bus ride form Peshawar. [61] Zawwar Husayn (d. 1400/1980) and his disciple, Dr. Ghulam Mustafa Khan, two prolific Naqshbandi scholars form the Sind, are siritual descendants fo Sirajuddin. [62] One exception is 'Abdulkarim (d. 1355/1936), whose hospice was in Rawalpindi. [63] Muhammad Ibrahim Qusuri, Khazina-yi ma'rifat, p. 61. These hospices were still functioning in 1977. [64] A biradari is a Panjabi clan grouping within which most Panjabis marry. the Arains were one of these clans who the British classified as an "agricultural tribe." See Gilmartin, Empire and Islam, pp. 89-95. [65] Tawakkuli, Tadhkira-yi masha'ikh-i naqshband, p. 550. Muhammad 'Umar's father was Ghulam Murtada Birbali (d. 1321/1903), the spiritual grandson of Muhyiuddin Qusuri. [66] Muhammad 'Umar Birbali, Inqilab al-haqiqat (Lahore: Aftab-i 'Alam Press, n.d.) For information concerning Muhammad Ismail see Nur Ahmad Maqbul, Khazina-yi karam, (Karachi: Kirmanwala Publishers, 1978), and for Nurul-Hasan see Munir Husayn Shah, Inshirah al-sadur bi-tadhkirat al-nur (Gujarat: Small State Industries, 1983). [67] Gilmartin, Empire and Islam, p. 53. [68] See Metcalf, Islamic Revival. [69] Pakistani scholars have informed me that in the Panjab. the Naqshbandiyya and Qadiriyya have tended to attract more ulama than other tariqas. The Chishtiyya -and Suhrawardiyya resolutely followed Hanafi fiqh but as a rule did not interpret Islamic behaviour as strictly as the Naqshbandis who forbid the practices fo sama' . According to a two-volume biographical work of non-Barelwi ulama in nineteenth and twentieth-century Panjab, Safir Akhtar, Tadhkira-yi 'ulama '-i Panjab, 2 vols. (Lahore: Za'id Bashir Printers, 1980), out of 173 ulama with a specified Sufi-affiliation, 42% were Naqshbandis, 35% Chishtis, 20% Qadiris, and 2% Suhrawardis. The Naqshbandi ulama were much more prominent among Lahori Barelwi ulama. [70] See Metcalf, Islamic Revival, pp. 296-314. [71] Iqbal Ahmad Faruqi, Tadhkira-yi abl-i sunnat wa-jama at Lahur-(Lahore: Maktaba-yi Nabawiyya, 1987), p: 272, and Gilmartin, Empire and Islam, pp. 60-61. Of twenty-three prominent Sufi-affiliated Barelwi ulama in British colonial Lahore, there were fourteen Naqshbandis, six Chishtis, and three Qadiris. See Faruqi, Tadhkira-yi ahl-i sunnat. [72] See Algar, "Political aspects," pp. 123-152, which discusses this question in detail. [73] Shah Faqirullah (d. 1195/1781) and Shah Waliullah were anong the last Nqashbandis in northern India to continue the Naqshbandi practice of advising rulers. For additional information concerning Shah - Waliullah's letters, see Khaliq Ahmad Nizami, ed., Shah Waliullah Diblawi ke siyasi maktubat(Delhi: Nadqat al-Musannifin, 1969). For letters by Faqirullah to Shah Abdali, see Faqirullah Shikarpuri, Maktubat-i Faqirullah, ed. Maulwi Karam Bakhsh (Lahore: Islamiyya Steam Press, n.d.), letters: 18, 29, 57, 66; for communications with the Shah Abdali's chief minister, Shall Wali Khan, letters 56, 69; for letters to Qadi Idris, a grandson of Ahmad Sirhindi and Shah Abdali's chief mufti, letter 19. As far as Indian Muslims were conerned, these letters were of little avail in preventing the pillaging by Shah Abdali's armies. [74] Credal affirmation ('aqa'id) are often written in dogmatic lists that Muslims are expected to accept as true. These lists vary from time to time, between Sunni and Shi'i, and between the various Shi'i groups. For the early Sunni formulations of credal dogma see A.J. Wensinck, The Muslim Creed: Its Genesis and Historical Development (Cambridge: Cambridge University Press, 1932). the goal of these affirmations is to make one's inner faith (irnan), the quality of religiousness, outwardly tangible. [75] Muslims chose other avenues to individualise Islamic identity which also allowed them to participate in the larger geographical and historical Islamic community. One alternative was to identify Islam totally on the basis of Islamic scriptural norms, i.e., the Qur'an and Hadith. Although considerably less popular in Muslim India, these scripturalist groups, pejoratively termed "Wahhabis" by Sufis, have had an influence on the religious life of Indian Muslims. Their definition of Sunni orthodoxy based on scripture and a totally transcendent God is diametrically opposed to Sufis who espouse a mediatory paradign involving the personal guidance of pirs with or without the practice of a contemplative discipline. For a description of such a group, the Ahl-i hadith, a scripturalist-minded organisation in northern India, See Metcalf, Islamic Revival, pp. 264-296. [76] Speaking in cotemporary times, the late Fazlur Rahman noted that many people nearly equate a person without a pir (be pira) to a “godless person.” See his Islam, 2nd ed. (Chicago: University of Chicago press, 1979), p. 154. In Urdu the adjective “be pur” (lit. without pir) commonly assumes a meaning of pitiless, cruel, or vicious

Sunday, September 6, 2015

صلح کلیت ، تکثیریت ، ابتدائی نقشبندی روایت اور شیخ ابن عربی - آخری حصّہ


خواجہ محمد پارسا سلسلہ نقشبندیہ کی ادبی و فکری روایت کے علمبردار تھے تو اس طریقہ کو باقاعدہ ایک منظم شکل میں تنظیمی طور پر چلانے کے پیش رو خواجہ بہاءالدین نقشبند کے ایک اور مرید و خلیفہ مجاز خواجہ علاءالدین محمد بخاری متوفی 1400ء / 800 ھ تھے جو کہ صوفیاء نقشبند میں خواجہ علاءالدین عطار کے نام سے جانے جاتے ہیں اور علاءالدین محمد بخاری کے ہم نام ، ہم عصر تھے جوکہ سعد الدین تفتازانی اشعری کے شاگرد اور ابن عربی کے مکتب کے سخت خلاف تھے - جبکہ خواجہ عطار شیخ ابن عربی کے معتقد اور شیدا تھے ، فخرالدین سیفی متوفی 1531ء / 939ھ نے اپنی کتاب " رشحات عین الحیات " میں میں صوفیانہ اصطلاح " تلوین و تمکین " پر بحث کے دوران خواجہ علاءالدین عطار کا اس بارے میں تذکرہ کیا تو خواجہ عطار نے تلوین و تمکین کے درمیان فرق کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ ابن عربی کا تذکرہ بہت اہتمام اور شوق سے کیا ، ان کو امام العارفین اور صوفیاء عظام میں سب سے بڑے حقیقت شناس کہا - شیخ علاء الدین عطار نے بتایا کہ شیخ ابن عربی کہا کرتے تھے کہ مشائخ کرام کی اکثریت تلوین کو ناقص روحانی حالت خیال کرتی ہے جبکہ ہمارے نزدیک یہ سب سے بہترین اور سب سے برتر حالت ہے اور انہوں نے کہا کہ ان کی اپنی حالت تلوین ویسی ہے جیسی اللہ نے اپنے لئے پسند کی کہ ہر روز اس کی نئی شان ہوتی ہے - اور شیخ ابن عربی کا کہنا تھا کہ تلوین کے اندر ہی تمکین ہوتی ہے یہ واحد حوالہ ہمیں خواجہ علاءالدین عطار کے حوالے سے شیخ ابن عربی سے ان کی محبت اور عقیدت کا ملتا ہے اور اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے شیخ علاءالدین عطار بھی مسلک صلح کل پر ہی عمل پیرا تھے ، خواجہ علاءالدین عطار کے بعد نقشبندی سلسلے کی مرکزی نیابت حضرت مولانا یعقوب چرخی متوفی 1447ء / 851ھ کے پاس آئی اور ہمیں ان کی تحریروں میں کہیں بھی شیخ ابن عربی کے اثرات براہ راست نہیں ملتے ، ان کی کتاب " رسالہ ابدالیہ " میں " رجال الغیب " کی بحث میں توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ شیخ ابن عربی کی بات کرتے لیکن وہآں بھی ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ شیخ یعقوب چرخی نے تصوف کی فلسیفانہ معارفانہ مابعدالطبیاتی جہات کی بجائے اس کی عملی جہات پر زیادہ توجہ مرکوز کی لیکن ان کی تحریروں میں بھی ہم " محبت " اور " بھائی چارے " کا پیغام دیکھتے ہیں لیکن مولانا یعقوب چرخی کے بعد سلسلہ نقشبندیہ کی نیابت جب خواجہ عبیداللہ احرار متوفی 1490ء / 896ھ تک آئی تو سلسلہ نقشبندیہ پر شیخ ابن عربی کے اثرات کھل کر سامنے آگئے اور سلسلہ نقشبندیہ کی فکری و نظریاتی جہت بہت غالب حد تک " صلح کلیت ، تکثریت اور تنوع " کی طرف جھکتی نظر آئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ خواجہ عبیداللہ احرار ایک تو خواجہ بہاءالدین نقشبند کے بعد سلسلہ نقشبندیہ میں کئی پہلوؤں مين خواجہ بہاءالدین نقشبند کی طرح نظر آئے اور پھر ان کا تیموری سلطنت میں سماجی اور سیاسی کردار بھی بہت نمایاں تھا اور اکثر مورخین نے ان کے اسی سیاسی اور سماجی کردار کو ہی زیادہ موضوع بنایا جبکہ ان کی جو صوفیانہ جہات تھیں ان کو کم توجہ دی -لیکن خواجہ عبیداللہ احرار کی جو تحریریں ہیں اور ان کی جو مستند سوانح عمری ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواجہ عبیداللہ احرار شیخ ابن عربی کے بہت بڑے مداح ، ان کے نظریہ وحدت الوجود کے پرچارک تھے خواجہ عبیداللہ احرار اور شیخ ابن عربی میں ایک پہلو مشترک تھا اور وہ یہ تھا کہ دونوں روحانی تربیت میں روح عیسی کے فیض یافتہ اور سلوک میں عیسوی المشرب تھے -عبیداللہ الاحرار کی ایک غیرمطبوعہ کتاب " فصوص الحکم " کی مشکل عبارتوں کے حل پر مبنی ہے -اور ان کو شیخ ابن عربی کی فتوحات المکّیۃ پر عبور حاصل تھا اور مولانا عبدالرحمان جامی بھی شیخ ابن عربی کی مشکل عبارتوں کے حل کے لئے رجوع کرتے تھے خواجہ عبیداللہ احرار کی سب سے بڑی کتاب " فقرات " ہے اور یہ کتاب سلسلہ نقشبندیہ کے روحانی ورثہ اور عملی طریقے کی وضاحت پر مشتمل ہے اور اس کتاب کا جو آخری باب " حقیقت محمدیہ " کے عنوان سے ہے وہ سارے کا سارا فصوص الحکم میں اس حوالے سے آنے والی بحث سے لیا گیا ہے جبکہ اس میں جو "مقام صدق " کی بحث ہے وہ بھی شیخ ابن عربی کی اسی موضوع پر کی گئی بحث جو فتوحات المکیۃ مین ہے سے لی گئی ہے علی بن حسین فخرالدین سیفی کی کتاب " رشحات عین الحیات " خواجہ احرار کے حالات زندگی کے بارے میں سب سے پہلی اور بنیادی کتاب ہے اور اس کتاب میں کئی ایک صوفیانہ اصطلاحات ، خیالات ، کیفیات و حالات کی تشریخ خواجہ عبیداللہ احرار نے جگہ جگہ شیخ ابن عربی کے حوالے دیکر کی ہے اور خواجہ عبیداللہ احرار نے شیخ ابن عربی کی مابعدالطبعیاتی تصورات کی سماجی و عمرانی جہتوں پر بھی گفتگو کی ہے اور اس سے بھی ان کی صلح کلیت کی طرف روش کا اظہار ہوتا ہے - خواجہ احرار نے اپنے زمانے ے تیموری فرمانروا کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ اپنی سلطنت میں فرقہ وارانہ منافرت کو پھیلنے یا حکومت کو اس کا پشتیبان بننے سے روکے اور خواجہ احرار نے اس زمانے کے ہرات صلح کل مخالف علماء کے گروہ کا مقابلہ بھی کیا جوکہ اس زمانے میں شیخ ابن عربی اور ان کے صوفی مکتبہ فکر کی مخالفت بھی ان کی صلح کلیت کی وجہ سے کررہا تھا ، خواجہ عبیداللہ احرار نے واضح کیا کہ ان کے نزدیک " مذھبی علم " کی معراج اور مغز " وحدت الوجود " ہے اور اس تک رسائی تزکیہ قلب کے بغیر ممکن نہیں ہے -وحدت الوجود کو مذھبی علم کا مغز قرار دینے والا صوفی کبھی بھی " صلح کلیت ، تکثریت اور مذھبی تنوع " کا محالف نہیں ہوسکتا خواجہ عبیداللہ احرار کے بعد سلسلہ نقشبندیہ میں شیخ ابن عربی کے مکتبہ فکر اور ان کے تصورات کو نقشبندی عوام اور نقشبندی صوفیاء میں عام کرنے میں جس شخصیت کا سب سے بڑا ہاتھ ہے اور جس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے اپنے اس زمانے کے خراسان ، عثمانیہ سلطنت ، ہندوستان اور ایران میں " صلح کل تصوف " کو پھیلانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ، اس نقشبندی صوفی شاعر و عالم کا نام مولانا عبدالرحمان جامی متوفی 1492ء / 898ھ ہے اور عبدالرحمان جامی ایک طرف تو بچپن میں خواجہ بہاءالدین نقشبند کے خلیفہ مجاز اور سلسلہ نقشبندیہ کی فکری نیو ڈالنے والے خواجہ محمد پارسا سے ملے تھے تو دوسری طرف ان کی ہرات میں خواجہ محمد پارسا کے صاحبزادے خواجہ ابو نصر سے گہری دوستی تھی اور خواجہ نصر نے اپنے والد کی شیخ ابن عربی سے شیفتگی کا زکر کیا تھا ، پھر مولانا عبدالرحمان جامی کا خواجہ عبیداللہ احرار سے بھی رابطہ تھا اور مولانا عبدالرحمان جامی اکثر شیخ ابن عربی کی کتب کو سمجھنے کے لئے خواجہ عبیداللہ احرار سے رجوع کیا کرتے تھے اور عبدالرحمان جامی ہرات کے اندر شیخ ابن عربی اور ان کے تصورات تصوف کی مخالفت کرنے والے مولویوں سے براہ راست بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے اور اپنی نثر وشاعری میں وہ شیخ ابن عربی کے تصورات کو استعمال کرتے تھے اور ان کی انہی کوششوں کے سبب وہ وہ پوری فارسی خواں آبادی میں شیخ ابن عربی کے تصورات و افکار کے بڑے شارح بنکر ابھرے اور وہ فکر ابن عربی کو اپنے شاگردوں ، مریدوں اور عام لوگوں میں پھیلاتے تھے مولانا عبدالرحمان جامی کی شیخ ابن عربی میں دلچسپی کا سب سے بڑا تحریری اظہار ان کی معرکۃ الآراء کتاب " نقد النصوص فی شرح نقش الفصوص " میں ہوا اور یہ کتاب " نقش الفصوص " کی شرح ہے جو شیخ ابن عربی نے اپنی کتاب فصوص الحکم کے خلاصہ کے طور پر تیار کی تھی - مولانا عبدالرحمان جامی نے اس کتاب میں خود کو شیخ ابن عربی کی بیان کردہ اصطلاحات کے معانی اور ان کی تکنیکی مشکلات کے حل تک محدود رکھا اور اس شرح میں انہوں نے خواجہ احرار کی " فقرات " جیسا راستہ اختیار نہیں کیا - جامی کی اس کتاب کو ان کے زمانے میں ہی ہرات اور اس سے باہر " صوفی خانقاہوں " میں بطور نصاب شامل کرلیا گیا اور پھر مولانا عبدالرحمان جامی نے ترک عثمان بادشاہ محمود الفاتح کے لئے ایک کتاب عربی میں " الدرۃ الفاخرہ " لکھی جس ميں متکلمین و فلاسفہ و صوفیآء کا تذکرہ ہے اور اس میں بھی شیخ ابن عربی کو تصوف و باطنی فلسفہ کے امام میں شمار کیا گیا عبدالرحمان جامی نے معروف صوفی شاعر فخرالدین عراقی متوفی 1298ء / 688ھ کی کتاب اللمعات کی شرح " اشعۃ اللمعات " کے عنوان سے لکھی اور اسی طرح ان کی معروف کتاب " لوائح جامی " اور پھر فرید عطار 1235متوفی ء / 633ھ کی کتاب " لمعات و لوامع " کی شرح لکھی جس کا عنوان تھا " لوامع انوکر الکشف و الشہود علی قلوب ارباب زوق و الجود " اور اس نے پہلی مرتبہ فارسی خواں طبقات علمآء میں شیخ ابن عربی کی تھیوسوفی کو تفصیل کے ساتھ بيان کیا عبدالرحمان جامی کا شیخ ابن عربی پر کیا گیا دانشورانہ کام یقینی بات ہے اہل علم کے ایک مخصوص حلقے تک محدود رہا لیکن جامی نے اس دانشورانہ ، عالمانہ کام پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی شاعری کو بھی شیخ ابن عربی کی " صلح کل تھیوسوفی " کو پھیلانے اور عام فہم بنانے کے لئے استعمال کیا اور جامی کی شاعری صرف ہرات و خراسان تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے ہندوستان ، ترک عثمان سلطنت ، ايران کو بھی متاثر کیا اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کا سنٹرل ایشیا ، جنوبی ایشیاء ، ایران ، ترکی اور اس سے ملحق فارسی جہاں پڑھی لکھی جاتی ہے کے علاقے جامی کی شاعری سے اثر پذیر ہوئے اور شیخ ابن عربی کے صلح کل نظریات ان سارے علاقوں تک سفر کرتے گئے اور یہاں یہ ذھن مین رہنا چاہئیے کہ مولانا عبدالرحمان جامی نقشبندی سلسلہ کے ابتدائی اکابر صوفیاء مين سے تھے اور ان کا زمانہ شعور نفشبندی سلسلہ کے تیسرے پیشواء خواجہ احرار سے ہی شروع ہوجاتا ہے عبدالرحمان جامی نے اپنے شاگرد عبدالغفور لاری کو بتایا کہ ابتداء میں وہ " وحدت الوجود " بارے شک کا شکار تھے لیکن خواجہ پارسا کی تحریروں نے ان کے شک کو دور کیا اور ان کو شیخ ابن عربی کے قریب کردیا ، اسی طرح خواجہ پارسا کے صاحبزادے خواجہ ابو نصر جو خود بھی شیخ ابن عربی کی فکر کے بہت بڑے شناور تھے کے ساتھ دوستی اور رفاقت نے بھی جامی کو " وحدت الوجودی " بنانے میں اہم کردار ادا کیا ، اسی طرح سے بعدازان خواجہ عبداللہ احرار سے عبدالرحمان جامی کی رفاقت نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا عبدالرحمان جامی کا تعلق خواجہ عبیداللہ احرار سے تھا لیکن وہ ان سے بیعت نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے خواجہ سعدالدین کاشغری متوفی 1456ء/ 860ھ سے بیعت کی جو خواجہ نظام الدین خاموش کے خلیفہ تھے جوکہ خواجہ علاءالدین عطار کے خلیفہ تھے اور خواجہ سعدالدین کاشغری بھی شیخ ابن عربی کے متعقد تھے جبکہ ان کے مریدان میں خواجہ شمس الدین محمد کسوئی تھے متوفی 1489ء / 894ھ اور یہ شیخ ابن عربی پر ماہر خیال کئے جاتے اور شیخ ابن عربی کے تصورات توحید پر یہ ان کے مخالف علماء کو اپنے دلائل سے لاجواب کردیا کرتے تھے - کاشغری کے ایک اور شاکرد محمد شمس الدین روجی متوفی 1499ء / 904ھ تھے جو شیخ ابن عربی کے تصورات اور تحریروں کے بہت بڑے مبلغ بنکر ابھرے اور ان کا کہنا تھا کہ " تعینات کائنات ' کے اسرار تک وہ شیخ ابن عربی کے زریعے سے ہی پہنچے تھے جس زمانے میں جامی سانس لے رہے تھے اور جس زمانے میں سلسلہ نقشبندیہ خراسانی علاقوں میں اپنے پیر جمارہا تھا اس زمانے میں خراسان ہو کہ ایران اور ترک عثمان ہو وہآں پر فرقہ وارانہ فضاء بہت شدید ہوچکی تھی اور اس کے اثرات خود تصوف پر بھی مرتب ہورہے تھے جبکہ ایسے علمآء اور متکلمین سامنے تھے جو ہر اس صوفی اور عالم کے خلاف کمربستہ تھے جو " صلح کلیت " کی بات کرتا تھا اور فرقہ وارانہ منافرت سے دور رہتا تھا اور اس زمانے میں مخصوص ‎سیاسی حالات اور جیوپالیٹکس کی وجہ سے بھی جو شیعہ - سنّی لڑائی تھی وہ سخت تر ہوتی جارہی تھی اور اس وجہ سے ہرات جہاں پر سنّی مکتبہ فکر غالب تھا اور دربار میں ایسے علماء کی کمی نہیں تھی جو اس تنازعے کو " مذھب " کی بقاء سے جوڑ کر دیکھتے تھے اور اس زمانے میں علماء ماوراءالنھر کے کئی ایک حصّوں کی جانب سے شیعہ کو مرتد قرار دینے اور ان کا خون مباح قرار دینے کے فتوے بھی دے رہے تھے اور یہی صورت حال ایرانی صفوی علاقوں میں نظر آرہی تھی کہ جہاں " سنّی " ہونا جرم ٹھہرگیا تھا تو ایسے شیخ ابن عربی جیسے صوفی " نفرت " کا نشانہ بن رہے تھے جو کہ " اتحاد و امن و آتشی " کی بات کرتے تھے اور " صلح کل " کا درس دیا کرتے تھے اور ان کے حق میں آواز اٹھانا ہرات میں مشکل ہورہا تھا جامی کے زمانے میں ہمیں ہرات کی جامع مسجد کے اندر کئی مرتبہ علماء و صوفیاء کے اجتماع کی خبریں ملتی ہیں - سلطان حسین مرزا ایسی مجالس میں خصوصی دلچسپی لیتا نظر آتا ہے ایک ایسی ہی مجلس میں فصوص الحکم میں " ایمان فرعون " کے بارے میں شیخ ابن عربی کے مخالف علمآء نے شیخ ابن عربی کو " مرتد " قرار دیا تو شیخ ابن عربی کے حامیوں نے کہا کہ شیخ ابن عربی کے حامی تو " مولانا قطب الدین شیرازی " متوفی 1310ء / 710ھ بھی تھے تو یہ فتوی ارتداد تو ان تک بھی جائے گا ، اس محفل کی خبر جب جامی تک پہنچی تو انہوں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ جو شیخ ابن عربی اور ان کی فکر کو سمجھنے کے اہل نہ ہیں ان کا مسجد ہرات میں ایسی باتیں کرنا اظہار جہل کے سوا کچھ بھی نہيں ، جامی کہتے تھے کہ ان کے معاصر علماء میں سے ایک بھی " فقہیہ " ہوتا تو شیخ ابن عربی بارے اس جہل کا اظہار نہ کرتا اور وہ کہا کرتے تھے کہ ان کے معاصر علماء میں سے اگر ایک ہزار علماء بھی مجتھد ہوجائیں تو بھی شیخ ابن عربی کے کل علم کے دسویں حصّے کی معرفت تک نہیں پہنچ سکتے اور وہ کہتے تھے کہ " ہرات " میں شیخ ابن عربی کے حوالے سے جو دشنمی اور جہالت پائی جاتی ہے اس کے سبب خواجہ پارسا شیخ ابن عربی کا نام لئے بغیر ان کے اقوال کا تذکرہ کرتے اور بس یہ کہا کرتے کہ ایک عظیم عارف کا قول ہے جامی سے کسی نے کہا کہ امام غزالی بھی تو شیخ ابن عربی کے نظریات کے مخالف تھے تو مولانا عبدالرحمان جامی نے کہا کہ اگر غزالی نے شیخ ابن عربی کا زمانہ پالیا ہوتا تو وہ بھی ابن عربی کی پیروی کرتے عبدالرحمان جامی نے سلسلہ نقشبندیہ کے اشغال و آذکار اور طریقہ کی وضاحت کے ۂئے جو رسالہ تحریر فرمایا تھا اس کا نام ہے " سررشتہ طریق خواجگان " اور اس رسالہ میں انہوں نے نشبندی صوفیاء اور شیخ ابن عربی کی تھیوسوفی کو ایک دکھایا ہے اور اس رسالے میں عبدالرحمان جامی نے شیخ ابن عربی کے " زکر نرم " ، اور نقشبندی صوفیآء کے زکر خفی دونوں کو اکٹھا کردیا ہے عبدالرحمان جامی نے کیسے شیخ ابن عربی کے مکتب اور سلسلہ نقشبندیہ کے درمیان الحاق اور ادغام کو راہ دی اس کا پتہ چلانے کے لئے ہمیں ان کے شاگردوں کی کتابوں اور تذکروں سے مدد ملتی ہے - ایسی ہی ایک کتاب " نفحات الانس " ہے جس کا ایک تکملہ ان کے شاگرد عبدالغفور لاری نے تحریر کیا جو کہ " تکملہ حواشی نفحات الانس " کے نام سے شایع ہوا ، اس میں عبدالغفور لاری نے تحریر کیا ہے کہ مولانا جامی اپنے شاگردوں کو جب سلوک صوفیاء کا درس دیتے تو وہ ساتھ ساتھ فصوص الحکم اور فتوحات کی عبارات کا حوالہ بھی دیتے اور ہم اسے نقل کرکے لکھتے جاتے تھے عبدالرحمان جامی کے بارے میں ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ فقہ حنفی کے بہت بڑےامام مجتهد ابو عبدالله محمد بن حسن بن فرقد الشيباني کی اولاد میں سے تھے جوکہ امام ابوحنیفہ کے شاگرد تھے اور ان کی کتاب " موطا امام محمد " بہت معروف ہے اور خود مولانا جامی بھی مذھب اہلسنت کے پیرو اور فقہ حنفی کے ساتھ وابستہ تھے اور ان کا خاندان اصفہان ایران سے ہرات آیا تھا اور ان کی پیدائش جام نام کے ایک قصبہ میں ہوئی تھی علی بن حسین فخرالدین صفی مصنف " رشحات عین الحیات " اگرچہ شاگردان خواجہ عبیداللہ احرار میں شامل تھے لیکن وہ ہرات میں رہتے تھے اور اسی وجہ سے مولانا جامی کے انتہائی قریبی رفقاء میں ان کا شمار ہوتا تھا اور ان کا بھی ابن عربی سے لگاؤ اظہر من الشمس تھا اور وہ بھی وحدت الوجودی ، صلح کلیت کے علمبردار تھے ، ابن عربی کا کھل کر دفاع کرتے تھے پندرھویں صدی کے دوسرے عشرے کے وسط میں ویسٹرن اناطولیہ سے ملّا عبداللہ اللھی خراسان آئے اور انہوں نے خواجہ عبیداللہ احرار کے ساتھ بہت وقت گزارا اور وہ مولانآ عبدالرحمان جامی سے بھی ملے اور اس دوران وہ سلسلہ نقشبندیہ سے وابستہ ہوئے اور یہی ملّا عبداللہ نے جنھوں نے ترک عثمان سلطنت کے علاقوں ميں سلسلہ نقشبندیہ کو پھیلایا اور اس کے ساتھ ترک ‏عثمان سلطنت کے علاقوں میں ابن عربی اور وحدت الوجود کو بھی مقبول کیا -انہوں نے " واردات بدرالدین سماوی " کے نام سے ایک کتاب لکھی بدرالدین سماوی کی وفات 1420ء /823ھ میں ہوئی تھی ، اس کتاب میں انہوں نے جگہ جگہ شیخ ابن عربی کی فتوحات ، فصوص اور مولانا روقی کی نظموں کا زکر کیا اور ان کا رسالہ " رسالہ احدیہ " بھی وحدت الوجود پر ہے اور اس کے علاوہ انہوں نے ترکش زبان میں ایک کتاب " زاد المشتاقین " لکھی جس میں 100 سے زائد صوفیانہ اصطلاحات کا زکر ہے اور سب ابن عربی سے مستعار لی گئی ہيں - ملّا عبداللہ اللھی کے شاگرد اور ارادت مند جن میں صوفی شعراء بھی شامل تھے سلسلہ نفشبندیہ اور شیخ ابن عربی کے خیالات کو ساتھ ساتھ پھیلاتے رہے بلکہ اور ان میں امیر بخاری متوفی 1516ء / 920 ھ بہت اہم نام ہے اور اسی طرح سے ملّا عبداللہ کے ایک اور مرید صوفی شاعر تھے جو ٹرکش جامی کہلائے یہ 1532ء /938ھ میں فوت ہوئے تھے ، اسی طرح سے وحدت الوجودی نقشبندی افکار کی ترویج و اشاعت میں بابا نعمت اللہ متوفی 1514ء / 938ھ نے ترکی میں اہم کردار ادا کیا اور ان کا " رسالہ وحدت الوجود " بہت اہم ہے ہندوستان میں نقشبندی سلسلہ کے موسس اعلی خواجہ محمد باقی باللہ متوفی 1603ء / 1002ھ تھے اور یہ خواجہ عبیداللہ احرار کی اولاد میں سے تھے اور خواجہ باقی باللہ کے مکتبوبات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی وحدت الوجود " صوفی " تھے اور اب ایک معاملہ یہ ہے کہ یہی شیخ احمد سرہندی کے مرشد تھے اور شیخ احمد سرہندی نے ان کے نام اپنے مکتوبات میں اپنے بہت سے کشوف کا زکر کیا اور کئی ایک مکتوبات میں انہوں نے وحدت الوجود سے اپنی وحشت کا زکر بھی کیا لیکن خواجہ باقی باللہ کا کوئی مکتوب ایسا نہیں ہے جو یہ ظاہر کرتا ہو کہ خواجہ باقی باللہ نے اپنے پیش رو صوفیائے نقشبندیہ کا شیخ ابن عربی سے لگاؤ اور محبت کا جو چلن تھا اسے ترک کردیا ہو اور انہوں نے وحدت الوجودی راہ ترک کردی ہو - اگرچہ متاخرین اور خاص طور پر پاکستانی مجددی سلسلہ کے مورخین خواجہ باقی باللہ کی وحدت الوجود سے دستبرداری اور وحدت الشہود کو قبول کرنا ایک مسلمہ امر بتلاتے ہیں لیکن رجب علی نقشبندی کا کہنا ہے کہ اگر خواجہ باقی باللہ نے " وحدت الوجودی " مشرب ترک کردیا ہوتا تو وہ اپنے بیٹوں خواجہ کلاں اور خواجہ میر خورد کو ضرور " وحدت الوجودی " راستے کو ترک کرنے کا کہتے لیکن اس طرح کی کوئی وصیت ہمیں نظر نہیں آتی جبکہ خواجہ کلاں اور خواجہ میر خورد دونوں " وحدت الوجودی " تھے اور دونوں نے خواجہ معصوم کو خطوط میں " وحدت الوجود " کی مخالفت ترک کرنے کو کہا تھا شیخ احمد سرہندی کی نقشبندی سلسلے کی جو شاخ آگے چل کر " مجددیہ شاخ " کہلائی اس میں نقشبندی سلسلے میں شیخ ابن عربی اور ان کے وجودی مکتبہ فکر کو جو اہم مقام ابتدائی نقشبندی صوفیاء کے ہاں نظر آتا تھا وہ نہیں آیا اور اس کی جگہ " مکتوبات شیخ احمد سرہندی " نے لے لی اور یہ جو پوسٹ شیخ احمد سرہندی دور ہے اس میں " مجددی سلسلے " میں وحدت الوجودی مشرف سے دوری نے خود " صلح کلیت " سے دوری پیدا کی اور اس کا اثر متاخرین سلسلہ مجددیہ پر پڑتا نظر آیا اور سلطنت مغلیہ کے زوال سے کچھ عرصہ پہلے اورنگ زیب کے زمانے ميں کسی حد تک ' صلح کل مخالف اور ملامتیہ رنگ مخالف " خیالات کے حامی مذھبی پیشیواؤں کا غلبہ نظر آنے لگا اور یہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد ہندوستان میں پھیلتی ہوئی طوائف الملوکی کے زمانے میں اور زیادہ سنّی کلرجی کے ایک خاص حصّے ميں مقبول ہوا اور اس کے اثرات ہمیں ترک عثمان سلطنت میں سلسلہ نقشبندیہ کی بعض مجددی شاخوں پر بھی نظر آیا رجب نقشبندی کا کہنا ہے کہ مابعد احمد سرہندی دور میں نقشبندی مجددی شاخ نے شیخ ابن عربی کی مکتوبات کو فصوص و فتوحات کی جگہ دی اور یہ سلسلہ ترکی ، شام کے اندر بہت عرصہ تک چلا اور سنٹرل ایشیاء میں بھی یہ صورت حال جاری رہی لیکن اس سلسلے مں روک اور شیخ ابن عربی سے نقشبندی سلسلے کا بندھن پھر سے مولانا خالد بغدادی متوفی 1827ء / 1292ھ میں شیخ ابن عربی کی فکر کے احیاء سے شروع ہوا اور اس طرح سے تبدیلی نظر آئی رجب کہتا ہے کہ نقشبندی سلسلے کی بنیادیں استوار کرنے والے چاہے وہ سنٹرل ایشیاء میں تھے یا وہ ہندوستان میں تھے یا کہیں اور ان سب نے شیخ ابن عربی کی فکر اور صلح کلیت کو اپنے سامنے رکھا اور یہ امیر ہمدانی سے لیکر ہمیں شاہ نیامت ولی میں بھی نظر آتا ہے جوکہ 1431ء /834ھ میں فوت ہوئے اور شاہ نیامت ولی نے فتوحات المکّیۃ ، فصوص الحکم کی عربی میں شروح لکھیں اور اسے بلاد العرب میں بھی پھیلایا رجب علی نقشبندی کا کہنا تھا کہ خواجہ عبیداللہ احرار کے لفظوں میں صوفیاء کا فریضہ پہلے خود انسانیت پسند ہونا اور پھر دوسروں کو انسانیت پسندی کا درس دینا ہے اور یہ فرقہ و مسلک کی تنگنائیوں سے بہت اوپر کی چیز ہے جس سے شيخ ابن عربی بخوبی آگاہ تھے یہاں پر رجب نقشبندی کے تجزیہ میں ایک کمی ضرور ہے کہ اس نے مابعد شيخ احمد سرہندی دور میں ہندوستان کے اندر سلسلہ نفشبندیہ مجددیہ کے مکمل غلبے کا زکر تو کیا لیکن اس نے اس دوران ہندوستان پاک وہند کے وسیع و عریض خطے میں نقشبندیہ مجددیہ سلسلے کے بالمقابل دوسرے کئی طرق ہائے تصوف کی جانب اشارہ نہیں کیا جنہوں نے " صلح کلیت " کی جانب سفر جاری رکھا اور " تکثیریت مخالف " خیالات کو اپنے ہاں جگہ نہيں دی ، صلح کلیت کی طرف سفر ہمیں پاکستان میں شامل سندھ ، خیبرپختون خوا ، سرائیکی بیلٹ ، پنجاب اور دیگر علاقوں میں نظر آتا ہے اور یہاں کے صوفیاء کے بڑے بڑے نام سب کے سب صلح کل کے پیروکار نظر آتے ہیں یعنی بہاءالدین زکریا ملتانی ، شاہ شمس ، جلال سرخپوش ، سچل سرمست ، عثمان مروندی ، عبداللہ شاہ غازی ، بھٹائی ، بابا فرید گنج شکر ، سلطان باہو ، وارث شاہ ، میاں میر ، شال حسین ، بابا بلھّے شاہ ، خدابخش کھڑی شریف ، حضرت علی عثمان ہجویری ، میاں حسین زنجانی ، رحمان بابا یہ سب " صلح کلیت ، تکثیریت ۔ تنوع " کی روائت کو متشکل کرنے والے تھے اور یہ کوئی " اقلیتی ، اجنبی ، الگ تھلگ " رجحان نہیں تھا اور نہ ہی عوام اس سے کٹے ہوئے تھے بلکہ اس سے وابستہ تھے اور اسی رجحان نے تو " کٹھ ملائیت " اور " کٹر پنتھی " رویوں کی حوصلہ شکنی کی تھی اور اسی کٹّر پنتھی رویہ سے کراہت کا اظہار برملا ہمیں خواجہ فرید آف کوٹ مٹھن کے ہاں نظر آتا ہے ملّاں نی کئیں کار دے - شیوے نا جانن یار دے نوٹ : اس سمت تحقیق کا ایک رخ قاضی عابد ڈائریکٹر ادارہ ثقافت اسلامیہ نے اپنی تحریروں میں موڑا ضرور تھا لیکن ان کے چیدہ چیدہ بیانات کو اور زیادہ دلائل کے ساتھ پھیلانے کا کام نہیں ہوا حالانکہ " صلح کلیت " جس کا مطلب مذھبی ، نسلی شناختوں کے تنوع اور کثرت کے ساتھ جینے کا حق تسلیم کرنا بھی ہے کے خلاف چلنے والی " مذھبی یک نوعی اور یک شناختی تحریک " جس کے بطن سے مسلمانوں کے اندر سے تکفیری و خوارجی فتنوں کا جنم ہوا ہے کو چیلنج کرنے کے لئے اس رخ پر تحقیق لازم تھی مگر ہمارے ہاں اس سمت تحقیق کا باب کم از کم بڑے بڑے اداروں میں تو اب بند کردیا گیا ہے ، مجلس ترقی اردو ، اقبال اکادمی ، مقتدرہ ، اکادمی ادبیات سمیت کوئی ادارہ بھی اس موضوع پر ریسرچ کرنے یا کرانے کو تیار نہیں ہے کیونکہ اس سے ایک طرف تو وہ سارے "قضیے " دھڑام سے گرنے کا خدشہ ہے جو شیخ احمد سرہندی اور شاہ ولی اللہ کے گرد تعمیر کئے گئے ہیں