“The oppressed are allowed once every few years to decide which particular representatives of the oppressing class are to represent and repress them.” ― Karl Marx
Wednesday, July 8, 2015
اور مسند خالی ہوگئی
Tuesday, July 7, 2015
Is military establishment serious to reverse Process of Saudization of Pakistan ?
میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان میں موجودہ افغان حکومت اور امریکی اتحادیوں کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے والے گروپوں میں سے ایک گروپ حزب اسلامی کی قیادت کرنے والے گلبدین حکمت یار نے اپنے تازہ ترین بیان میں افغانستان میں اپنے گوریلوں کو افغان طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے داعش کے اتحادی طالبان گوریلوں کی مدد و حمائت کا اعلان کردیا ہے
گلبدین حکمتیار نے ایک اور الگ سے دئے گئے بیان میں ایران پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ایران پوری اسلامی دنیا میں شیعہ -سنی تفریق کا زمہ دار ہے اور ایرانی پاسداران انقلاب سنی مساجد اور سنی تنظیموں پر حملوں میں ملوث ہے ، انھوں نے اپنے بیان میں سابق گورنر صوبہ خیبر پختون خوا اور جنرل ضیاء الحق کے معتمد خاص فضل حق کے قتل کا الزام بھی ایران پر ہی دھرا
گلبدین حکمتیار آغاز کار سے ہی ایک ایسے گوریلے لیڈر کے طور پر سامنے رہے کہ جن کے بارے میں یہ کہنا ہمیشہ مشکل رہا ہے کہ وہ کب تک کسی ایک پالیسی کے ساتھ رہیں گے ، ان کے بارے میں جتنی پروفائلز رپورٹس موجود ہیں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ آغاز کار سے خود اپنے نام نہاد مجاھدین افغانستان کے ساتھ مل جل کر چلنے میں ناکام رہے ، سوویت یونین کی حمائت یافتہ پی ڈی پی اے کے خلاف مسلح جدوجہد کے دوران جب وہ پاکستانی آئی ایس آئی ، امریکی سی آئی اے اور سعودی عرب کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے تھے اور یہ سب حکمت یار کی تنظیم حزب اسلامی کو دوسرے نام نہاد افغان جہادی گروپوں کے مقابلے میں زیادہ امداد اور زیادہ آسانیاں بہم پہنچارہے تھے تو بھی اس وقت گلبدین حکمت یار کا گروپ دوسرے نام نہاد مجاہدین گروپوں کے خلاف کاروائیوں میں مصروف تھا اور از دوران گلبدین حکمت یار کے گروپ پر یہ الزامات بھی لگتے رہے کہ وہ افغانستان میں مغربی صحافیوں کے قتل میں بھی ملوث ہے
گلبدین حکمتیار ، برھان الدین ربانی اور پروفیسر صبغت اللہ مجددی ، یونس سیاف سمیت کئی ایک اور افغان رہنماء ان اولین لوگوں میں شامل تھے جن کو پاکستان کی آئی ایس آئی نے افغانستان کی پاکستان کے خلاف مبینہ جارح رویے اور چلی آرہی کشیدگی کو کاونٹر کرنے کے لئے بطور پراکسی اپنی گود میں لے لیا
پاک ٹیک سوسائٹی لاہور میں ایک سیمینار کے بعد سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد سے راقم نے جب افغانستان کے حوالے سے 70ء کی دھائی میں ان کی سرگرمیوں بارے پوچھا اور یہ سوال کیا کہ افغان جہادیوں سے ان کے تعلقات کب قائم ہونا شروع ہوئے تو انھوں نے انکشاف کیا کہ وہ 70ء کے آخری عشرے میں افغانستان خاص طور پر جلال آباد اور کابل جانا شروع ہوگئے تھے ، جبکہ برھان الدین ربانی ، سیاف سے بھی ان کے تعلقات استوار تھے ، برھان الدین ربانی ، حکمت یار اکثر پشاور کا دورہ کرتے رہتے تھے اور قاضی حسین احمد نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس زمانے میں پاکستانی ریاست ان مجاہدین رہنماوں کو خاصا پروٹوکول دے رہی تھی
حکمتیار پاکستان کی عسکری ھئیت مقتدرہ کی آنکھ کا تارہ اس لئے بھی بن رہے تھے کہ وہ باقی کے دیگر افغان رہنماوں سے قدرے زیادہ متشدد اور تصادم پر یقین رکھتے تھے اور پھر حکمت یار ایک مدبر سیاست دان یا ایک بڑی سیاسی سماجی اسلام پسند تحریک چلانے کی بجائے بس مسلح جنگ کے زریعے معاملات کا تصفیہ کرنے پر یقین رکھتے تھے اور وہ افغانستان کے اندر زیادہ سیاسی و سماجی جڑیں رکھنے کی بجائے بعد ازاں پاکستان کے اندر بننے والے مہاجر کیمپوں میں اپنی جڑیں رکھتے تھے اور ان کی یہ پوزیشن ایک تو سعودی عرب کی ان پر نظر کرم کا نتیجہ تھی تو دوسری طرف اس زمانے میں جماعت اسلامی جنرل ضیاء الحق کی بی ٹیم تھی اور شاید آئی ایس آئی کے کہنے اور دباو پر ہی جماعت نے پرھان الدین ربانی کی جمعیت اسلامی سے کہیں زیادہ حکمت یار کو ترجیح دی اور برھان الدین ربانی بعد ازاں حکمت یار کی پالیسیوں اور 90ء کی دھائی میں بتدریج آئی ایس آئی کی جانب سے حکمتیار کو اہمیت دینے کے سبب وہ خود آئی ایس آئی سے بھی دور ہوئے ، مجددی کی حکومت کے خاتمے اور احمد شاہ مسعود کو گرانے کے لئے حکمت یار نے کابل پر 5000 سے زائد راکٹ فائر کئے اور کابل کو کھنڈر میں بدل ڈالا اور یہ اس دور کی بربریت تھی جس نے حکمت یار کو افغانوں کی نظر میں اور غیر معتبر کیا
حکمتیار نے افغانستان پر بلااشتراک غیرے حکمرانی کا جو خواب دیکھا تھا ،وہ شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اور وہ آئی ایس آئی کی امیدوں پر بھی پورا نہیں اترے ، اور 90ء کے پہلے عشرے میں پاکستان کی عسکری ھئیت مقتدرہ بھی نہ صرف افغانستان کے اندر اپنی نام نہاد جہادی پراکسی پر نظر ثانی کررہی تھی بلکہ اس نے جہاد کشمیر کی پراکسی بارے بھی اپنی پالیسی میں تبدیلی بارے کام شروع کردیا تھا ، اگر اس زمانے میں پاکستان کے اندر نام نہاد جہادی سیاست کے منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے افغانستان کے اندر پرانے جہادی وارلارڈز کی بجائے نسبتا نوجوان اور دیوبندی مدارس کے اندر پڑھنے والے جہادیوں کو ایک لڑی میں پرونا شروع کردیا ، یہی وہ دور ہے جس میں ہم نے تیزی سے جامعہ بنوریہ کراچی ، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک اور بہاولپور میں مسعود اظہر کے مدرسے کو جہادی تبلیغ اور جہادی ریکروٹمنٹ سنٹر میں بدلتے دیکھا ، کشمیر میں جیش محمد اور افغانستان میں افغان طالبان کا ابھار ایک ہی عشرے میں سامنے آئے اور اب یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اس پالیسی کو خود سعودی عرب اور دیگر گلف ریاستوں کی حمائت بھی حاصل تھی
احمد رشید سمیت افغانستان کے اندر جہادی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کی متفقہ رائے ہے کہ اس زمانے میں پرانے گھاگ نام نہاد جہادی افغان گروپوں اور ان کی قیادت کی ریشہ دوانیوں اور مستقل لڑائی سے افغانستان کے خراب حالات کی وجہ سے علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات متاثر ہورہے تھے اور اس دوران جو وسط ایشیا کی لینڈ لاک زمین کو دنیا سے جڑنے کے لئے افغانستان کی ضرورت تھی اور وہاں پر ایک مضبوط مرکزی حکومت کی ضرورت تھی جس نے پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی تزویراتی گہرائی کی پالیسی میں نئے موڑ کی حمائت پر مجبور کیا اور اس طرح سے طالبان دیکھتے ہی دیکھتے کابل پر قابض ہوگئے اور گلبدین حکمت یار ، برھان الدین ربانی ، دوستم ، احمد شاہ مسعود کو کابل چھوڑنا پڑا
کابل میں تحریک طالبان پاکستان کی مجموعی طور پر حمائت ایک طرف تو دیوبندی مدارس اور ان کی جملہ سیاسی ، مذھبی نمائیندہ تنظیموں کی جانب سے حاصل ہوئی اور اس کے لئے مزید سازگار ماحول پاکستانی اسٹبلشمنٹ اور سعودی عرب سمیت گلف ریاستوں نے بھی پیدا کیا
پاکستان کے اندر ملڑی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے تزویراتی گہرائی میں بدلاو سے ایک طرف تو جماعت اسلامی کی طرف ملڑی اسٹبلشمنٹ کا رویہ پہلے جیسا نہ رہا ، دوسرا اس کا فیورٹ گھوڑا حکمت یار بھی اب ترجیحات میں نہیں رہا اور ادھر پاکستانی ھئیت مقتدرہ نے کشمیر میں بھی حزب الماجدین اور البدر جیسی تنظیموں کو چھوڑکر پہلے جیش محمد پر ھاتھ رکھا ، پھر لشکر طیبہ فیورٹ گھوڑا بن گیا جس سے جماعت کی جانب سے شکوے اور شکایت سامنے آئی اور حکمتیار نے بھی 1996 ء میں ایران کا رخ کیا اور وہاں پناہ گزین ہوگئے
حکمتیار نے افغانستان میں داعش کے حامی طالبان سے تعاون کئے جانے کا اعلان جو کیا اور ساتھ ہی اینٹی ایران موقف جو اختیار کیا اس کو ہم حکمت یار کی جانب سے ایک
Smart move and clever strategy
کہہ سکتے ہیں ، حکمتیار کو پتہ ہے کہ ایران کے خلاف اس وقت دیا گیا بیان شاید سعودیہ عرب کی قیادت میں بنے اتحاد کی نظر کرم اس پر کرواسکتا ہے اور داعش سے اس کے تعاون کا اعلان کم از کم قطر سمیت دیگر ان ملکوں کو جو افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان کسی تصفیہ کو طے کرانے میں مشغول ہیں ، اشرف غنی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا ایک دور اسلام آباد میں شروع ہونے والا ہے لیکن اس ساری گیم سے باہر ہے جو وہ حکمت یار ہے .
حکمتیار نے 1996ء سے لیکر 2002 تک کا عرصہ شمالی تہران میں گزارا ، اس دوران ایرانیوں نے حکمتیار کو افغانستان میں پراکسی وار کے لئے مطلوب تعاون نہیں دیا اور شاید ایرانیوں نے اس حکمتیار پر داو کھیلنے سے گریز کیا اور پھر یو این کے دباو میں آکر ایران میں حزب اسلامی کے دفاتر بند .کئے اور حکمتیار کو بھی نکال دیا ، حکمتیار نے افغانستان میں واپس آکر حزب اسلامی کو منظم کرنا شروع کردیا ، لیکن اس دوران افغانستان کئی تبدیلیوں سے گزرا ہے اور ان تبدیلیوں کے بعد افغانستان میں گلبدین حکمتیار کی پوزیشن وہ نہیں ہے جو 80ء میں ھوا کرتی تھی ، ہاں اگر کسی موقعے پر حکمتیار طالبان کا جوئنیر پارٹنر بننا قبول کرے اور گلف ریاستیں خاص طور سعودیہ عرب اور پاکستان اس میں تعاون کریں ، لیکن یہ مشکل نظر آرہا ہے ، کیونکہ حکمتیار کا ٹریک ریکارڑ اس معاملے میں روکاوٹ بن رہا ہے
تحریک طالبان افغانستان اپنے آپ کو داعش سے فاصلے پر رکھے ہوئے ہے لیکن اس نے کھل کر داعش کی مخالفت بھی نہیں کی ، اس کے ترجمان کی جانب سے ابتک سوائے داعش کے خود ساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی کو تنبیہ کئے جانے کے اور کوئی بیان سامنے نہیں آئے ، اس کی صاف وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی آئی گلف ریاستوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی اور وہ اپنا قدرے سافٹ امیج برقرار رکھنا چاہتی ہے ، اسلام آباد تاحال کئی ایک بااثر طالبان دھڑوں پر اثر انداز ہے اور یہی حال ترکی ، سعودی عرب ، یو اے ای اور قطر کا بھی ہے اور سعودی عرب کے دیوبندی مدراس و تنظیموں سے خصوصی تعلقات کی وجہ سے طالبان پر ان کا اثر بھی موجود ہے
پاکستان کی اس وقت بظاہر کوشش یہ نظر آرہی ہے کہ وہ افغانستان کی موجودہ حکومت، طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان کوئی معاہدہ کرادے اور وہ افغانستان کو کم از کم پاکستانی ریاست کو زچ کرنے والے معاملات میں ملوث ہونے سے روکے اور اس ساری پیش رفت سے یہ بھی پتہ لگایا جانا محال نہیں ہے کہ تزویراتی گہرائی کی پالیسی یکسر مسترد نہیں کی بلکہ اس میں فوکس تھوڑا چینج کیا ہے
پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ ہندوستان کے حوالے سے بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کررہی ہے اور اس حساسیت کو مزید گہرا بھارتی پردھان منتری نریندر مودی اور کئی ایک منتریوں کے بیانات نے کیا ہے
کشمیر ایک مرتبہ پھر سے فلیش پوائنٹ بن چکا ہے اور کئی ایک جہاد کشمیر کے کردار پھر سے زندہ ہونے لگے ہیں
کشمیر اور افغانستان میں پاکستان کی پراکسی وار ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ہاں ابھی تک اچھے جہادی اور برے جہادی کی تقسیم باقی رکھے ہوئے ہے ، اگرچہ اسلام آباد حسب معمول اس سے انکار ہی کررہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک ، جماعت دعوہ ، جیش محمد ، افغان طالبان سمیت کئی اور دھڑے اب تک پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے " اچھے جہادی " ہیں اور خود پاکستان کے اندر بھی ایسے آثار موجود ہیں کہ کم از کم بلوچستان کے اندر بطور پراکسی پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ نے دیوبندی ، جماعتی پس منظر کے حامل عسکریت پسندوں کو بلوچ مزاحمت کاروں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے
جبکہ دوسری جانب برے جہادی ہیں جن سے پاکستانی فوج نبرد آزما ہے اور ان برے جہادیوں میں یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ کئی ایک گروپس بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کی پراکسی کے طور پر بھی کام کررہے ہوں ، جبکہ بہت سے گروپ جو خود کو داعش و القائدہ سے منسلک کرتے ہیں جن میں لشکر جھنگوی العالمی سر فہرست ہے اور اس کے علاوہ جماعت الاحرار وغیرہ بھی ہے خلافت کے قیام کے لئے کام کررہے ہیں
پاکستان میں دیوبندی مدارس اور کم شدت کے حوالے سے اہلحدیث اور جماعت اسلامی کے مدراس میں طلباء ، طالبات اور اساتذہ کے اندر گلوبل جہاد کے لئے زبردست کشش موجود ہے اور اس کشش میں اضافہ عراق ، یمن اور شام مڈل ایسٹ میں جبکہ شمالی افریقہ کے اندر الجزائر ، صومالیہ ، لیبیا کی صورت حال فرقہ پرست جہاد ازم کو دیوبندی نوجوانوں میں مقبول بنارہی ہے اور ریکروٹمنٹ ، ہمدرد ، سہولت کاروں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے
پاکستان کی ریاست ، اس کے اداروں ، سیاسی جماعتوں کے اندر سعودی عرب نواز لابی کی گہری جڑیں اور پاکستان کے اندر
Deep process of Saudization with process of Deobandization
اور اس کے نتیجے میں بہت تیزی کے ساتھ
Growing marginalization of Sufi Sunnis , Shias , Christians ,Hindus and marginalization of secular , liberal diverse and anti monolithic culture
ہمیں یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ اس ملک کی مقتدر طاقتوں کو پاکستان کو ایک جمہوری ، سیکولر ، سماجی طور پر مساوات و خوشحال روادار اقدار کا علمبردار ملک بنانے کے لئے ضروری اقدامات اٹھانے کی کوئی خاص فکر نہیں ہے
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پاکستان کی ھئیت مقتدرہ میں جو غیرمنتخب طاقت ہے وہ خود نیشنل سطح کی جماعتوں کو کٹ ٹو سائز کرنے کے عمل کو بھی تیز کرچکی ہے ، اس نے ایک جانب تو پاکستان کے اندر جاری تیزی سے پھیلتے ہوئے
Process of Deobandization of society
کو روکنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا تو دوسری جانب اس نے دیوبندی تکفیری دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جن سنی بریلوی اور شیعہ تنظیموں کا تعاون لیا ان کو بھی زیادہ تر اس نے مسلم لیگ نواز ، پی پی پی ، اے این پی اور ایم کیو ایم جیسی سیاسی قوتوں کے خلاف ہی استعمال کیا
یہ تنظیمیں پاکستانی سیاست میں ابتک اپنا آزاد و خودمختار امیج بنانے میں خاصی ناکام رہی ہیں ہیں اور یہ
Process of Deobandizatio , Saudization and Wahhabization
کو روکنے سے زیادہ نواز و زرداری کی حکومتوں کو گرانے کی کوشش کے نام پر عسکری اسٹبلشمنٹ کو غالب آنے کا موقعہ فراہم کرتی آئی ہیں جبکہ انھوں نے اس دوران ملٹری اسٹبلشمنٹ کے اندر سعودی نواز لابی کو یکسر نظرانداز کیا ہے اور ایسے ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے جیسے
Recently our military establishment has been fully withdrew from strategic depth policy and now it is very serious to reverse process of Deobandization in Pakistan.Military establishment just applied some light brake on this process and it is not interested to disintegerate this process fully.
I say that this is not only political parties in power at center and at provincial leval are not serious to ban really Deaobandi takfiri procribed terrorist organizations like ASWJ but Military establishment itself not serious to uproot process of deobandization of Pakistan.
تو خوش فہمی اور بڑا فریب جو ہم نے دہشت گردی سے متاثرہ مجبور و بے کس مذھبی برادریوں میں ملٹری جنتا بارے میں پشاور سانحہ کے بعد دیکھا ، وہ آہستہ آہستہ اب مایوسی میں بدل رہا ہے اور اس سے کئی اور طرح کے امکانات ابھرتے نظر آتے ہیں