Friday, February 27, 2015

ڈاکٹر ابجیت رآئے : آزاد دانشور زندگی سے آزاد کردیا گیا


کل دن دیہاڑے ڈھاکہ بنگلہ دیش میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے پاس ڈاکٹر ابجیت رائے اور ان کی بیوی رافدہ احمد پر چھریوں اور آہنی سلاخوں سے لیس لوگوں نے حملہ کیا اور اس حملے میں ڈاکٹر ابجیت رائے مارے گئے جبکہ ان کی بیوی ڈاکٹر رافدہ احمد ان کو بچاتے ہوئے شدید زخمی ہوگئیں ابجیت رائے جنھوں نے ایک بنگلہ زبان میں بلاگ شروع کیا جس کا نام تھا " مکتو مونو " اور اس کا اردو میں ترجمہ بنتا ہے " آزاد خیال دانشور " یہ بلاگ دیکھتے ہی دیکھتے بنگلہ بولنے والے آزاد خیال دانشوروں اور آزادی اظہار کو بنیادی حق خیال کرنے والوں میں مقبولیت کی انتہائی حدوں کو چھونے لگا اور ڈاکٹر ابجیت رائے کو بے مثال مقبولیت ملنے لگی میں نے ابجیت رائے کو ان کی کتاب "اوبس شاشر دروشن " یعنی ایک "ملحد کا فلسفہ " سے دریافت کیا جو ان کی آخری دو کتابوں میں سے ایک کتاب تھی اور پھر ان کی آخری کتاب "بسواشر وائرس " یعنی عقیدے کا وائرس " بھی پڑھی اور اس کے اندر چھپی بغاوت کی آگ کی تپش سے خود بھی پسینے ،پسینے ہوگیا ڈاکٹر ابجیت رآئے ایک قوم پرست سیکولر اور ناتک بنگالی استاد کا بیٹا تھا اور اس کے باپ نے بنگلہ دیش کی آزادی ، بنگالی قوم کے محنت کشوں کی نجات اور بنگالی عورتوں کے حقوق کے لیے ساری عمر جدوجہد کی ہے اور اسے سچا بنگالی قوم پرست مانا جاتا ہے اپنے باپ سے ملے سیکولر ازم ، روشن خیالی اور انسان دوستی کے خیالات کو خود ابجیت رائے نے بھی نکھارا اور اس نے بنگلہ دیش میں پھیلی توہم پرستی ، ملّا و پنڈت و پادری کی تاریک الخیالی اور مذھبی جنونیت اور انتہا پسندی کے خلاف علم بغاوت بلند کرڈالا بنگلہ دیش میں روشن خیال ، سیکولر نوجوانوں کی نئی نسل جو تیار ہوئی ہے اس کے اس انٹرنیٹ کا ہتھیار موجود ہے اور وہ اس ہتھیار سے مذھبی جنونیت ڈری ہوئی ، سہمی ہوئی بنگلہ پریس اور حکومت کی سنسرشپ کو پاش پاش کئے ہوئے ہے اور وہ جماعت اسلامی سمیت کسی بھی مذھبی جنونیت کے علمبردار فسطائی گروہ کے مقابلے ميں ڈٹ چکی ہے ابجیت رائے نے بھی ایک طرف تو "ہندوتوا " کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو دوسری طرف اس نے مجموعی طور پر "مذھبی جنونیت " اور اس جنونیت کے پس پردے کارفرما " اندھے عقیدے کی وائرل بیماری " کے خلاف بھرپور جدوجہد شروع کی ابجیت رائے نے " مکتو مونو " کے نام سے بنگالی آزاد دانشوروں ، ملحدوں اور متشککین کی انٹرنیٹ کیمونٹی سائٹ کا اجراء کیا اور اس نے بنگالی سماج کے اندر ایک ہلچل مچادی مکتو مونو ایک طرح سے بنگالی سماج کی نئی ترقی پسند تحریک ہے جس کے بانیوں نے " انگارے " کی طرح کی چیزبنگالی سماج میں متعارف کروائی جس سے بنگالی سماج میں "چھوٹی چيزوں کے خدا " چیخ اٹھے اور ایک ہنگامہ ہآئے ہو برپا ہوگیا اسی تحریک کے زیر اثر بنگلہ دیش کے نوجوان دانشوروں کی جانب سے " روشن خیالی " کو پروان چڑھانے والے بلاگ کے سامنے آنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ سامنے آیا اور بنگلہ دیش میں سیکولر ازم ، سوشل جسٹس ، فیمنسٹ تحریک مضبوط ہوگئی اور رجعت پسندی ، بنیاد پرستی ، مذھبی جنونیت اور تکفیریت کو خاص طور پر سخت فکری چیلنج کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی جانب سے اس کا فکری سطح پر جواب دینے یا مکالمے کی طرف آنے کے تشدد ، دھشت گردی سے جواب دیا جانے لگا اور اس رجعت پرست طبقے کا دباؤ تھا کہ بنگلہ دیشن ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی نے کئی ایک بلاگز پر پابندی عائد کردی اور کئی ایک بلاگرز کے خلاف مقدمات درج ہوئے اوران کو جیل ہوگئی بنگلہ دیش میں آزادی اظہار کے اوپر اس نئی سنسر شپ اور مذھبی جنونیوں کی غنڈا گردی اور ہمایوں نام کے ایک بلاگر کے بہیمانہ قتل کے خلاف ڈھاکہ کے راج شاہی باغ سے ایک تحریک کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ اس تحریک کا حصّہ بن گئے ڈاکٹر ابجیت رائے اور ان کی بیوی ڈاکٹر رافیدہ احمد نے بھی اس تحریک میں بڑھ جڑھ کر حصّہ لیا اور ان کی تحریروں نے مذھبی جنونیت کو ٹف ٹائم دیا ڈاکٹر ابجیت رائے کے لیے بھی بنگلہ دیش میں رہنا ناممکن ہوگیا تھا ، اسی لیے وہ امریکہ شفٹ ہوگئے اور اس مرتبہ وہ ڈھاکہ کے اندر "مکتو دھارا " اشاعت گھر کی جانب سے کرائے جانے والے کتاب میلے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے جوکہ 1972ءسے اس وقت شروع ہوا تھا جب 21 فروری کا دن تھا اور بنگلہ زبان کے لیے اپنی جانوں کا ںذرانہ دینے والوں کا دن " یوم شہداء " کے طور پر منایا جارہا تھا اور یہ ہر سال اب 21 فروری کو ہی منایا جاتا ہے ، یہ اب آفیشل کتاب میلہ بن چکا ہے اور سب سے مقبول کتاب میلہ ہے اور یہ ایکوشے کتاب میلہ کہلاتا ہے آثار یہ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر ابجیت رائے کے قتل کی اصل وجہ ان کے " ملا عبدالقادر " کی اصلیت بے نقاب کرنے والے آرٹیکلز بنے ہیں ، ان کے دو آرٹیکلز ایسے تھے جنھوں نے ملاّ عبدالقادر کی شخصیت سے سارے نقاب نوچ کر پھینک دئے اور بتایا کہ یہ شخ کس قدر گھناؤنے جرائم کا مرتکب ہوا جس نے بعد میں خود کو ایک " ملّا " کے روپ میں ایک معزز ایڈیٹر اور ميڈیا مالک کے طور پر پیش کیا Real or Fake Quader Mullag :An avidential investigation مذکورہ بالا مضمون نے جماعت اسلامی کے پریس کی جانب سے کئے جانے والے اس جھوٹے پروپیگںڈے کا پول کھولا جو ملاّ قادر کے حوالے سے مسلسل کیا جارہا تھا بلکہ میں حیران تھا کہ پاکستان کی سول سوسائٹی کے کسی بڑے طرم خان نے اس حوالے سے پاکستانی جماعت اسلامی کے جھوٹے پروپیگنڈے پر ڈاکٹر ابجیت رائے کے اس مضمون سے استفادہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی بلکہ کئی ایک کو تو میں نے اس ٹرائل کے بارےمیں وہی دلائل دیتے دیکھا جو حافظ ادریس ، ‏عبدالفغار اور دیگر جماعت اسلامی کے ہمدرد اخبارات و جرائد میں دے رہے تھے ڈاکٹر ابجیت رائے اس لحاظ سے بہرحال خوش قسمت ہیں کہ ان کے قتل پر بنگالی پریس اور بنگلہ دیش کا انگریزی پریس مصلحت کا شکار نہیں ہے اور وہاں کے روشن خیال اور سیکولر پریس نے کھل کر ڈاکٹر ابجیت رائے کو ایک ھیرو اور آزادی افکار کے ھیرو کے طور پر پیش کیا ہے اور ڈیلی سٹار سمیت بنگلہ کا روشن خیال پریس " مذھبی جنونیوں " کے خلاف احتجاج اور مذمت سے بھرا ہوا ہے مکتو مونو ویب سائٹ کا بیک گڑاؤنڈ مکمل سیاہ ہے اور اس پر بہت جلی حروف میں بنگالی میں یہ لکھا ہوا ہے আমরা শোকাহত কিন্তু আমরা অপরাজিত We mourn But we are not out واقعی ماتم داری تو ہے مگر اس کا مطلب فرار نہیں ہے ، ڈاکٹر ابجیت رآئے کے قتل نے ثابت کیا ہے کہ روشن خیالی کے حریفوں کے پاس اپنی سوچ اگر اسے سوچ کہا جاسکے تو کے لیے کوئی دلائل نہیں ہیں اور ان کے پاس استدلال کا مایہ نہیں ہے تبھی تو وہ خنجروں ، چھریوں ، گولیوں اور خود کش بموں سے حملہ آور ہوتے ہیں اور اس گمان باطل میں گرفتار ہوتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ سچ کو فنا کرڈالیں گے اور فکر پر خوف کا پہرہ بیٹھاکر اسے پرواز کرنے سے روک لیں گے میں ابجیت رائے کی بیوہ ڈاکٹر رافدہ احمد کو سلام پیش کرتا ہوں ، جس نے پیشہ ور قاتلوں کے سامنے ڈٹ کر ان کے سب حامیوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے ، آج ان کی خون کے چھینٹوں سے سرخ قمیص اور جینز پر جابجا پڑجانے والے خون مظلوم کے دھبوں کے ساتھ ایک تصویر چھپی ہے جس میں کچھ قدم پرے ڈاکٹر ابجیت رآئے " شہید آزادی فکر " کی لاش پڑی ہے اور ڈاکٹر رافدہ کسی کو پاس آنے سے شاید روک رہی ہے ، یہ تصویر ہی مذھبی جنونیوں کی شکست ہے اور ان کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے مذھبی جنون ایک وائرل بیماری ہے ، یہ وائرس ہے اور جس سماج میں یہ انجیکٹ ہوجائے تو اس سماج کی تباہی یقینی ہوتی ہے ، ڈاکٹر ابجیت رائے جیسے لوگ اس وائرس کو کمزور کرنے اور اس کو بے اثر بنانے کے لیے روشن خیالی کی ویکسئن کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور ایک ڈاکٹر ابجیت گیا ہے لیکن اس کے پيچھے کئی اور ابجیت رائے موجود ہیں ، بنگلہ دیشی سماج اس وائر اٹیک سے ضرور ایک دن نجات پائے گا ڈاکٹر ابجیت نے اپنی موت سے چند دن پہلے لکھا کہ
“I do not have much faith in any religion, but many people around and close to me are Muslims. I have no abhorrence or repugnance for them. I rejoice with them in their moments of happiness. I feel pain when oppressions befall them. I never hesitate to stand beside the Muslims in Palestine or Kashmir when they become victims of torture and oppression. I did that in the past, I will do that in future. This is the manifestation of my humanism.”
ڈاکٹر ابجیت رائے ، ان کی بیوی اور بیٹی کی ایک یاد گار تصویر
جی ہاں ابجیت رائے فلسطینیوں ، کشمیریوں پر ہونے والے جبر اور ان پر ہونے والے ٹارچر پر اسی طرح سے درد محسوس کرتا تھا جیسے دوسرے مسلمان محسوس کرتے ہیں اور وہ یہ درد انسانیت کے رشتہ کے ناطے سے محسوس کرتا تھا اور یہ انسانیت پر اس کا یقین تھا جو کبھی متزلزل نہیں ہوا تھا ہم ایک دردمند ، انسانیت پسند ، مظلوموں کے حامی اور جبر کے مخالف سچے دانشور اور سرگرم کارکن سے محروم ہوگئے ہیں

Wednesday, February 25, 2015

کیا حزب اللہ کی وجہ سے پاکستان میں شیعہ نسل کشی ہوری ہے ؟


کیا حزب اللہ کی وجہ سے پاکستان میں شیعہ نسل کشی ہوری ہے ؟ عامر حسینی پاکستان میں پریس اور سوشل میڈیا میں جب " شیعہ نسل کشی " اور شیعہ امام بارگاہوں پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے اکثر جب بحث ہوتی ہے تو کئی ایک لوگ جو غیر جانبدار اور خود کو سیکولر ، لبرل یا معتدل مسلم دانشور ، صحافی ، تجزیہ نگار ظاہر کرتے ہیں شیعہ - سنّی بائنری کو مقدمہ اولی کے طور پر سامنے لیکر آتے ہیں اور یہ فرض کرکے آگے چلتے ہیں کہ پاکستان کے اندر " شیعہ نسل کشی " اصل میں سنّی آبادی کے قتل کا نتیجہ ہے جو ان کے خیال ميں شیعہ ملیشیا کررہی ہیں اور اس حوالے سے حال ہی میں سوشل میڈیا پر علامہ ایاز نظامی نے اسی مقدمہ کے ساتھ بحث چھیڑی اور انھوں نے اپنی تنقید کے جواز اور " شیعہ نسل کشی " کی تشریح کے لیے یہ مقدمہ پیش کیا کہ دیوبندی و سلفی دھشت گردتںظیموں القائدہ ، داعش ، ٹی ٹی پی ، جنداللہ ، لشکر جھنگوی اور اہلسنت والجماعت جیسی تنظیموں کا وجود حزب اللہ جیسی شیعہ تنظیم کے وجود کی وجہ سے ہے ان جیسے لوگوں کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ " حزب اللہ " شیعہ کی القائدہ ، جنداللہ ، لشکر جھنگوی ہے اور وہ ایسے ہی قتل عام ، نسل کشی کی مرتکب ہے جیسے سلفی و دیوبندی دھشت گرد تںطیميں ہیں میں حزب اللہ کے بارے ميں پھیلائے جانے والے اس صریح غلط اور مسخ کردہ پروپیگنڈے کو نظر انداز کردیتا اگر یہ پروپیگنڈا محمد احمد لدھیانوی ، ایمن الذھروی ، اورنگ زیب فاروقی کی جانب سے کیا جارہا ہوتا ، لیکن اس پروپیگنڈے کو مرے لیے نظر انداز کرنا اس لیے ممکن نہیں رہا ہے کیونکہ یہ ایسے لوگوں کی طرف سے کیا جارہا ہے جو خود کو سیکولر ، لبرل ، ملحد ، کیمونسٹ اور بعض اوقات لیفٹسٹ کہتے ہیں ، وہ خود کو جرات مند محقق کہتے ہیں ، ہمت کفر سے سرشار کہتے ہیں اور ان کا یہ دعوی ہے کہ وہ بہت بڑے صنم شکن ہیں چاہے وہ مذھب اور تقدیس کے نام پر کیوں نہ ہو لیکن حزب اللہ کے بارے میں وہ نہ تو غیر جانبدار رہے ، نہ ہی جرات تحقیق کے دعوے پر قائم رہے میں حزب اللہ کی آئیڈیالوجی سے اتفاق نہیں کرتا ہوں اور نہ ہی حزب اللہ کو لیفٹ کی تںظیم خیال کرتا ہوں لیکن اس کے بارے میں جن حقائق سے واقف ہوں ان کو اس مضمون ميں ضرور بیان کرنا چاہتا ہوں حزب اللہ جنوبی لبنان میں 1982ء کے اندر اس وقت تشکیل پانا شروع ہوئی جب یہآں پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا اور یہاں پر جنوبی لبنان لبریشن آرمی زوال پذیر ہوگئی تو اس خطے میں جوکہ شیعہ اکثریت کا علاقہ تھا " شیعہ گوریلہ " جن کی اکثریت کا پس مںظر لبنان کمیونسٹ پارٹی اور لبنانی بعث پارٹی کا تھا اسرائیل کے قبضے کے خلاف جدوجہد شروع کردی اور ان کے روابط ایسے شیعہ علماء سیاسی قیادت سے استوار ہوگئے جو ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ موسوی خمینی سے متاثر تھے اور ان کی مدد سے اور اس وقت باقی ماندہ لبنان میں موجود شامی آرمی کی اجازت سے 1500 ایرانی نیشنل گارڑ جنوبی لبنان پہنچے اور انھوں نے حزب اللہ کے گوریلوں کی تربیت شروع کردی ، حزب اللہ نے 1985ء میں باقاعدہ اپنے قیام کا اعلان کیا اور اس نے اعلانیہ اپنی تنظیم کے تین مقاصد بیان کئے اسرائیل قبضے کا لبنان سے خاتمہ فلسطین کی آزادی عرب حظے سے سامراجیت کا خاتمہ حزب اللہ نے ان مقاصد کے حصول کے لیے " شیعی اسلامی آئیڈیالوجی " کو اپنی بنیاد قرار دیا لیکن ساتھ ہی اس نے واضح کیا کہ اس کا مقصد لبنان میں بسنے والی سنّی ، دیروزی ، کرسچن ، لبرل ، سیکولر جمہوریت پسندوں کے خلاف جدوجہد نہیں ہے اور نہ ہی ان کی مذھبی آزادی پر کوئی قدغن لگانا مقصود ہے اور حزب اللہ کی آئیڈیالوجی ميں کسی ایک جگہ بھی تکفیر اہل السنہ ایجنڈے کے طور پر موجود نہ تھی 2004ء ميں جب اسرائیلی قبضہ ختم ہوا تو حزب اللہ نے فیصلہ کیا کہ وہ لبنان میں ایک سیاسی پارٹی کے طور پر کام کرے گی اور چونکہ ابھی تک اسرائیل سے سارے مقبوضہ علاقے آزاد نہیں ہوئے تو وہ اپنے عسکری ونگ جہاد کونسل کو باقی رکھے گی ، اس کے ساتھ ساتھ حزب اللہ نے اپنا سٹلائٹ ٹی وی چینل ، ریڈیو اسٹیشن ، اپنا شعبہ خدمت خلق اور پولیٹکل ونگ قائم کیا اور اس کا جو پولیٹکل ونگ تھا اس نے لبنان کی سیاست میں کسی تکفیری ، فرقہ پرست ایجںڈے کے ساتھ اور پروگرام کے ساتھ سیاست کا آغاز بھی نہیں کیا حزب اللہ لبنان کی سیاست میں ایک طرف کرونی کیپٹل ازم ، نیولبرل ازم ، اور نیولبرل سرمایہ دارانہ معاشی ایجنڈے کے خلاف سوشل ویلفئر پروگرام کے ساتھ سامنے آئی اور دوسری طرف اس نے لبنان کی خارجہ پالیسی کو امریکہ اور اس کے اتحادی سعودیہ عرب و گلف اسٹیٹس کے اثر سے آزاد کرانے کا ایجنڈا پیش کیا ، حزب اللہ مڈل ایسٹ میں بیرونی مداخلت کے زریعے سے حکومتوں کا تختہ الٹے جانے کے خلاف بھی واضح سوچ کے ساتھ سامنے آئی اور حزب اللہ نے لبنان سمیت پورے مڈل ایسٹ میں وہابیت کے پیسے اور اسلحے کے زور پر پھیلاؤ اور اس مہم کے نتيجے میں جنم لینے والی سلفی تکفیری جہادی تحریکوں کے خلاف ابتدائی طور پر خود کو محض فکری جدال تک محدود رکھا اور حزب اللہ نے اپنے ملٹری ونگ کو شام ، عراق ، بحرین کہیں بھی ملوث نہ کیا اور یہاں تک کہ لبنان کے اندر بھی اس نے سلفی وہابی تکفیری جہادیوں کے خلاف عملی لڑائی شروع نہ کی حزب اللہ کی لبنان کے اندر جو سیاسی لڑائی تھی وہ کبھی بھی فرقہ پرستانہ نہ رہی اور یہی وجہ تھی کہ جب لبنان میں اسرائیلی قبضے کے بعد لبنان میں اقتدار کی لڑائی شروع ہوئی تو حزب اللہ نے سولوفلائٹ نہ کیا بلکہ اس نے لبنان میں ایک وسیع پیمانے پر قوم پرستانہ ، ترقی پسند ، سوشل ڈیموکریٹ ، سامراج مخالف اور صہیونیت مخالف سیاسی اتحاد تشکیل دینے کی طرف قدم بڑھایا اور اس کی کوششوں سے لبنان میں 8مارچ اتحاد سامنے آیا جس کے پاس لبنان کی اسمبلی میں 68 نشستیں اس وقت بھی موجود ہیں اور یہ اتحاد لبنان کے نمآئندہ سنّی ، سیکولر ، شیعہ ، کتھولک و پروٹسٹنٹ کرسچن ، دیروزی، آرمینی اور علوی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے اس اتحاد میں سنّی لبنانیوں کی دو بڑی پارٹیاں جن میں التنظیم الشعبی الناصری اور حرکۃ المجد (جس کے سربراہ نجیب مکاتی عبوری وزیراعظم بھی بنے ) شامل ہیں جبکہ اس میں لبنان کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی حزب اللبعث الاشتراکی العربی ، معروف سیکولر پارٹی الحزب السوری القومی الاجتماعی بھی شامل ہے جبکہ میرونائٹس کرسچن کی نمائندہ تنظیم حزب التضامن ، یونانی کتھولک کرسچن کی پارٹی کتلۃ سکاف ، علوی شیعہ کی نمائندہ پارٹی الحزب الدیمقراطی اور آرمینی آبادی کی نمآئندہ الطاشناق ، میرونائٹ کرسچن کی ایک اور پارٹی التیار الوطنی الحر ، شیعہ پارٹی حرکۃ امل اور دیروزی کی الحزب الدیمقراطی اللبنانی شامل ہیں اور اس بلاک کے پاس 68 نشتیں ہیں اور کابینہ میں اس کی نمآئندگی بھی نمایاں ہے اگست 2008ء میں لبنان کابینہ نے متفقہ طور پر ایک معاہدے کی منظوری دی جس میں حزب اللہ کو اس کے ملٹری ونگ کو باقی رکھنے اور مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کا حق رکھنے کی اجازت دی گئی لبنان میں فیوچر پارٹی کی قیادت میں بننے والا جو دوسرا حریف اتحاد ہے وہ تحالف 14 آزار یعنی مارچ 14 کے نام سے معروف ہے اور اس کی سب سے بڑی پارٹی فیوچر پارٹی یعنی التیار مستقبل ہے جس کے سربراہ سعد حریری ہیں جو رفیق حریری کے بیٹے ہیں اور فیوچر پارٹی لبنان کے بڑے سرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور اسے آپ لبنان کی مسلم لیگ نواز بھی کہہ سکتے ہیں اور اس پارٹی کے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں جبکہ اس پارٹی کے آل سعود کے ساتھ بھی گہرے رشتے ہیں اور یہ فیوچر اتحاد کہا جاتا ہے کہ امریکی ایڈمنسٹریشن نے مارچ 8 اتحاد کا لبنان میں اقتدار میں آنے کا راستہ روکنے کے لیے بنایا تھا ، اس اتحاد میں سلفی وہابی تنظیم جماعۃ الاسلامیہ بھی شامل ہے جس کو مغربی پریس سنّی تںظیم لکھتا ہے ،جبکہ یہ تںظیم اصل میں اخوان المسلمون سے متاثر ہونے والے سلفی ملاّ فتح یکن نے تشکیل دی تھی جوکہ پیدا تریپولی میں ہوا تھا اور اس نے سعودی امداد سے لبنان کے اندر ایک سلفی یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھی اور لبنان میں یہ تنظیم عرب قوم پرستوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی تھی ، آج بھی یہ تںظیم سرمایہ دار نیولبرل بلاک اور سعودی بلاک میں شامل ہے جبکہ فیوچر پارٹی کی لیڈرشپ وہ ہے جس کا اسرائیل کے لبنان پر قـبضے دوران کئی مزاحمتی کردار نہیں رہا ہے ۔ لبنانی معاشرے میں حزب اللہ کبھی بھی سنّی آبادی یا ان کی مساجد پر حملوں میں ملوث نہیں ہوئی اور نہ ہی لبنانی سماج میں کبھی اسے القائدہ ، جنداللہ ، داعش یا کسی اور طرح کی وہابی تکفیری دھشت گرد تںظیموں کی طرح دیکھا گیا ، اگرچہ سعودی عرب ، امریکی و مغربی میڈیا اسے شیعہ دھشت گرد تںظیم کے طور پر پیش کرتا رہا لیکن لبنان میں مارچ 8 الائنس کی کامیابی اور وہاں پر نسلی و مذھبی اعتبارسے متنوع سیاسی قوتوں اے ساتھ حزب اللہ کے اتحاد نے اس پروپیگنڈے کو رد کردیا بلکہ مارچ 14 میں شامل پروگریسو سوشلسٹ پارٹی نے مارچ 2011ء میں اس اتحاد کو چھوڑ دیا اور مارچ 8 اتحاد میں شامل ہوگئی ، مارچ 14 میں ایک اور پارٹی کتائب پارٹی بھی شامل ہے جس کا لیڈر امریکی حکومت کا دم چھلّہ سمجھا جاتا ہے اور مارچ 14 الائنس کی پوری انتخابی مہم میں شام کے اندر جاری سول وار میں سعودی کیمپ کی حمائت ، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا ایشو سرفہرست رہا لیکن اس ایجنڈے پر مارچ 14 الائنس ناکام رہا تو اگر حزب اللہ اگر لبنان کی کوئی سپاہ صحابہ پاکستان طرز کی پارٹی ہوتی یا وہ القائدہ جیسی تنظیم ہوتی تو کیا لبنانی سیاست کے مرکزی دھارے میں اس کی کامیابی انتخابی سیاست میں ایسے مکمن ہوپاتی جیسے ہمیں ںظر آرہی ہے حزب اللہ نے اپنے نظری اور عملی جدوجہد کے دائرے میں گذشتہ دو سالوں میں یہ اضافہ کیا ہے کہ وہ لبنان سمیت پورے مڈل ایسٹ میں " تکفیری عسکریت پسندی " کے خلاف بھی کھل کر میدان میں آگئی ہے اور اس نے شام کے اندر جاری لڑائی میں اس وقت شامل ہونے کا اعلان کیا جب لبنان کی جنوبی سرحد کے ساتھ ملحقہ علاقوں ميں تکفیری دھشت گرد تںظیم جبھۃ النصرہ اور داعش کے قدم جمنے لگے اور یہ صاف نظر آنے لگا کہ اگر ان کی پیش رفت کو نہ روکا گیا تو وہ جنوبی لبنان میں داخل ہوجائیں گے ، حزب اللہ شام ، عراق میں جاری تکفیری جنگ کو صہیونی - وہابی سازش قرار دیتی ہے اور اس کے خلاف اس نے نہ صرف حزب اللہ کے شیعہ گوریلوں کو لڑنے شام بھیجا ہے بلکہ اس نے حزب اللہ کے عسکری ونگ میں سنّی ، دیروزی ، کرسچن اور آرمینی باشندوں کو بھی شامل کیا ہے اور اس حوالے سے ایک مفصل رپورٹ خود سعودی عرب کے سرکاری میڈیا نیٹ ورک العربیہ نیوز ڈاٹ کام نے 13 نومبر 2014ء کو شایع کی حزب اللہ کی جانب سے بشار الاسد کی مدد کے لیے فوجی مدد نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی اور اس مداخلت نے شام کے اندر داعش اور جبھۃ النصرہ سمیت سلفی تکفیری جہادیوں کے بڑھتے قدم نہ صرف روکے بلکہ شیعہ ، سنّی ، کرد ، کرسچن آبادیوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام کا منصوبہ بھی رک گیا ، اس حوالے سے معروف صحافی رابرٹ فسک کے مراسلے 2012ء سے 2014ء تک پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور پیٹرک کوک برن کے مضامين اور " جہادیوں کی واپسی " کتاب بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے سعودیہ عرب سے جڑی انٹیلیجنٹیسیا اور امریکہ کے اندر بیٹھی ایک بڑی سامراجی پلٹن شیعہ نسل کشی کے بارے میں جن مغالطوں اور جھوٹ کو " سچ " بناکر دکھاتی ہے ان میں سے ایک بڑا مغالطہ اور جھوٹ یہ ہے کہ اس نسل کشی کو دو طرفہ جنگ میں ہونے والا نقصان بناکر دکھایا جائے اور اس دوران یہ صاف چھپالیا جاتا ہے کہ سلفی و دیوبندی دھشت گرد گروپ صرف شیعہ نسل کشی میں ہی ملوث نہیں ہیں بلکہ وہ سنّی آبادی کے قتل اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں میں بھی پوری طرح سے شریک ہیں پاکستان کے اندر تو ایسی کوئی حزب اللہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے اس کے باوجود دور کی کوڑی لائی جاتی ہے اور کسی نا کسی طریقے سے شیعہ نسل کشی کے جواز کو ثابت کرنے اور یہاں پر سنّی آبادی کی دیوبندی دھشت گردوں کے ہاتھوں قتل اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں کو چھپانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے تاکہ کسی بھی طرح سے سنّی - شیعہ بائنری کو درست ثابت کیا جائے ، اس طرح کے مذموم پروپیگنڈے سے نام نہاد روشن خیالوں اور نام نہاد ملحدوں کی جرات تحقیق کا پول بھی کھل جاتا ہے

Saturday, February 21, 2015

مسلم مذھبی جنونیت اور لیفٹ - والزر کہآں غلط ہیں ؟


-اسلامی مذھبی جنونیت ، مغرب اور لیفٹ اور والزر اینڈریو ایف مارچ-
اینڈریو مارچ ییل یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کے استاد ہیں اور لیفٹسٹ دانشور ہیں ، انھوں نے مائیکل والزر کے مضمون پر اپنا ایک رد عمل دیا جو کہ ڈیسنٹ میگزین میں شایع ہوا مائیکل والرز نے کئی سیاسی نظریہ سازوں کی کئی نسلوں کو سیاسی فیصلے میں وابستگی اور تعلق کی اہمیت بارے پڑھایا ہے - اگرچہ اس مضمون میں وہ " فرد کی آزادی " ، جمہوریت ، صنفی برابری اور مذھبی تکثریت پر زور دینے کے شائق زیادہ نظر آئے اور یہ بتانے کے کہ یہ محض مغربی اقدار نہیں ہیں ؛ یہ عالمی اقدار ہیں ، والزر کے سیاسی نظریہ کا امتیازی پہلو تجریدی سیاسی جواز پر عدم اعتماد اور ان سیاسی جدوجہد کی تعریف رہا ہے جو کمیونٹیز کو اندر سے بدلتی ہیں - والزر کے لیے ، اخلاقی ہیرو ہمیشہ سے وہ پیامبر رہا جو اپنے قبیلے کے محاورے میں بات کرتا ہو اور اپنے لوگوں کو وہ اچھائی یاد دلاتا ہو جو وہ پہلے ہی کرچکے ہوں نہ کہ وہ جو وہ کرنے کے قابل تھے مگر کرنہ پائے ہوں ایک معنی میں " اسلام ازم اور لیفٹ " مضمون کو اسی طرح کے سیاسی استدلال پر مبنی طریق کار کو استعمال میں لانے کی سعی کے طور پر پڑھا جاسکتا ہے - والرز کے ہاں خود ہم ایک جھنجھلائے ہوئے اور مایوس نقاد کی باز گشت سن سکتے ہیں - والرز فاکس نیوز کے مہا دایاں بازو کے دانشوروں سے مخاطب نہیں ہے اور نہ ہی وہ مسلمانوں کے خلاف نسل پرستانہ خیالات میں راسخ لوگوں سے کلام کررہا ہے - وہ تو اس قبیلے سے ہم کلام ہے ، جس کے اپنے ہونے کا دعوی وہ ابتک کرتا ہے - یعنی عالمی لیفٹ - لیکن اس کی اپنے قبیلے سے بے گانگی اس کی اس سے وابستگی پر بہت غالب آئی ہوئی ہے - والرز لیفٹ سے مخاطب ہے ، لیکن نہ تو وہ اس کی اینگزائٹی کو شئیر کرتا ہے نہ ہی اس کے اخلاقی اور جذباتی ردھم کے ساتھ حرکت تھرکتا ہے والزر کے مضمون کے یہاں دو پہلو قابل غور ہیں -پہلا ، والرز لیفٹ کے ایک خاص حصّے کی جانب سے خاص فیصلے سے غیر متفق نظر نہیں آتا - وہ یہ نہیں سوچتا کہ ان کی کوششیں کئی مقاصد کے درمیان توازن پیدا کرنے کی جانب مائل ہیں - مساوات کی حمائت اور سامراجیت کی محالفت - بعض لیفٹسٹ ان میں سے کسی ایک کو جائز اہمیت دینے میں ناکام ہوگئے ہیں - وہ سوچتا ہے کہ ہم غلط عقیدے کے زیر اثر کام کررہے ہیں - کم از کم وہ " لیفٹسٹ جو اپنے اوپر اسلامو فوب ہونے کا الزام لگنے سے بچانے میں اسلامسٹ جنونیت کی مذمت کرنے سے زیادہ مشغول ہیں -اس کا یہ خیال نہیں ہے کہ بائیں بازو والے اسلامسٹوں کے ہمدرد ہیں ؛ اس کا تو بس خیال یہ ہے کہ چونگہ وہ اسلامسٹ خطرے کے بارے میں اس طرح سے نہیں بولنے کے اسباب نہيں دیکھتے جیسے وہ بولتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا تحرک " عقل " سے زیادہ کسی اور چیز کا مرہون منت ہے دوسرا ، والزر بائیں بازو والوں پر الزام لگاتا ہے کہ وہ اسلامو فوبک کہلائے جانے سے اسقدر خوفزدہ ہیں کہ دنیا میں جو ہورہا ہے اس کی تشریح کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں - لیکن دنیا میں جو ہورہا ہے ، اس بارے اس کا اپنا تجزیہ ہلکا اور خود تضادی کا شکار ہے - ایک جانب وہ خود سوچتا ہے کہ لیفٹسٹ ان کی اپنی اصطلاحوں ميں " مذھب کے احیاء " کا تجزیہ نہیں کرسکتے -اور اسی لیے وہ اسلام ازم کی واپسی کو لیفٹ کے روائتی دشمن کی واپسی سے تعبیر نہیں کرتے - لیکن پھر وہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ یہ " مذھب نہیں ہے جس سے ہمیں خوفزدہ ہونا چاہئیے بلکہ یہ حسن البنّا ، قطب اور مودودی کی آئیڈیالوجی ہے جس ہمیں ڈرنا چاہئیے -پھر یہ کہ لیفٹ کے مقابلے میں مذھب کو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ لینے کے دعوے کے ساتھ ، اس کی سیاسی تجویز پوسٹ سیکولر عصر میں سیکولر ریاست کا دفاع کرنا ہے -اور زیادہ پریشان کن پہلو اس مضمون کا یہ ہے کہ وہ نہ صرف "اسلام ازم " کے ابھار کا ایک غیر تحکمانہ تجزیہ کرنے میں ناکام رہا بلکہ وہ " مذھبی اکثریت پسندی کی واپسی ریڈیکل اسلام ہے " جیسے نتیجہ سے آگے بھی نہیں جاسکا - لیکن اس مضمون کا جو عملی مقصد ہے وہ اسے اس سے روکتا ہے _ ریڈیکل اسلام ازم کے ابھار کے لیے ایک سیاسی ، تاریخی تجزئے کی فراہمی اس کے خاص ملکوں اور خاص زمانوں میں ابھار کے ساتھ والرز سے اسلام ازم کے بذات خود ایک اخلاقی خطرہ ہونے کی بجآئے دوسرے اسباب یا تشریحات پیش کرنے کا تقاضا کرتیں ، اور وہ پھر اسلام ازم کے لیے اپالوجی پیش کرنے جیسی صورت حال پیدا کردیتں - لیکن عالمی اسلام ازم کے ابھار کے حوالے سے یہ کہنا کیسے ایک لیفٹ رسپانس ہوسکتا ہے کہ کالونیل ازم ، سامراجیت اور عالمی سرمایہ داری کا مطالعے کو لازمی دنیا میں جو ہورہا ہے کی تشریح میں کم کردار ادا کرنا چاہئیے ( والرز کے مضمون میں جو الفاظ ظاہر ہوتے ہیں وہ خود دوسروں کی تجزیاتی ناکامیوں کے ثبوت کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں ) ؟ کیا لیفٹ کے اسلام ازم کے بارے میں رویے کو ایسی مطلق ، عمومی اصطلاحوں میں بیان کرنا چاہئیے ؟ جبکہ لیفٹ کی شام ، ترکی ، تنزانیہ اور ایران بارے خاص مباحث کو چھوڑ ددیا جائے - کوئی نہ مدد کرنے والی شئے تو ہونے جارہی ہوتی ہے جب ہم دنیا میں انصاف کے لیے ہونے والی خاص جدوہائے جہد کو چھوڑ کر مغرب کے لکھاریوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کی اخلاقی مرتاض پن پر فوکس رکھتے ہیں ایسے کسی بھی آدمی سے مباحثہ کرنا مشکل ہوجاتا جو یہ فرض کر بیٹھتا ہے کہ آپ کے فیصلے ، آپ کی دانشورانہ کاوشیں اور آپ کی اخلاقی جدوجہد ایک غلط عقیدے کے زیر اثر ہے کیونکہ آپ کو ہر دم اپنے اوپر اسلامو فوبک ہونے کے لیبل کے لگ جانے کا ڈر لگا ہوا ہے - وہ جو یہ فرض کرلیتا ہے کہ آپ کسی بھی طاقت کو سپورٹ کروگے ، چاہے وہ کسی بھی پردے میں ہو ، جب تک وہ مغربی سامراجیت سے لڑرہی ہوگی -میں سمجھتا ہوں کہ "دوسرے کیوں غلط ہوتے ہیں" یہ تشخیص کرنا ان پر یہ واضح کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہوتا ہے " وہ کیسے غلط ہیں " پھر یہ ، انتقاد کی پریکٹس سے یا تھنکنگ ود سے زیادہ ، والرز کی پولیمک کی منطق ہے - درحقیقت والرز بخوبی آگاہ ہے کہ اس کا مضمون ایک مشکل معاملے کے بارے میں اپنے دانشور ساتھیوں کے ساتھ (جو لیفٹ کمیپ میں ہیں) ملکر سوچ و بچار نہیں کرنی - 21 ویں صدی میں عالمی یک جہتی کیسے حاصل ہوسکتی ہے ؟ - بلکہ آئیڈیالوجیکل جنگوں میں شرکت کا عندیہ دینے والے اعلامیے کا اعلان کرنا ہے - بدترین ، الزام یہ ہے کہ فلاں پرزور یا صاف مذمت نہیں کرتا اور یہ بدنام ترین پھسلن ہے - جیسے مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ بلند آہنگ سے ٹیرر ازم کی مذمت کریں ، امریکی یہودیوں سے اسرائیلی آبادکاری کا ، یا کالے لیڈروں سے اندرون شہر ہونے والے ہنگاموں کی مذمت کا مطالبہ ۔ والرز کا مضمون تصدیق اور چناؤ دونوں طرح کے تضادات سے دوچار ہے -اسے انٹرنیٹ پر مصروف کجھ لیفٹسٹوں سے یہ گلہ ہے کہ وہ درست وقت پر درست چیزیں نہیں کرتے - اور پھر یہ عمومی غلط نتیجہ بھی نکالتا ہے کہ لیفٹ کو اسلام ازم سے کوئی مسئلہ ہے - لیکن کتنی استثنیات یہ لے سکتا ہے جب تک اصل مقدمے پر سوال نہ اٹھایا جائے؟ مسئلہ یہ ہے کہ متضاد شواہد کی کوئی بھی مقدار کبھی بھی کافی نہیں ہوا کرتی - جو پہل کرتا ہے وہ ہمیشہ جواب دے سکتا ہے ہاں ، یہاں یہ استثنیات ہیں ، لیکن بہنحال میں ابھی اپنے اتنے کامریڈ نہیں دیکھتا جو اسلامی جنونیوں کو اپنا دشمن اولین قرار دیتے ہوں یہ جواب نہ صرف زبان کا پھسلاؤ ہے بلکہ یہ مناظراتی و کلامی جواب بھی ہے - ہم ایک جیسے لوگوں کی ایک جیسی کہانیوں کا سامنا کرتے ہیں جو ایسی چیزیں کہتی ہیں جو ان کے لیے شرم کا باعث ہوں ، لیکن - حقیقی طور پر - کتنی مرتبہ ہم حماقت پر مبنی گفتکو کرنے سے پہلے ایڈورڈ سعید ، پال برمان اور ایان حریسی علی بارے بات کرسکتے ہیں ؟ ہمیں یہ تسلیم کرنا زیادہ دیانت پر مبنی لگتا ہے مسئلہ لیفٹسٹ کا اسلامسٹوں کو خوش کرنے کا جرم نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم خاص تناظرات میں سیاسی فیصلوں کے بارے میں بہت کم سیاہ - سفید اختلاف رکھتے ہیں - مسئلہ کو عمل میں حل کرنا آسان نہیں ہے لیکن دانشورانہ طور پر بہت ہی سیدھا ہے : ہمیں اسلامسٹ کے افعال پر تنقید کا وہ کون سا توازن اختیار کرنا چاہئیے جو ہمیں دائیں بازو کی مسلمانوں کو شیطان بناکر دکھانے جیسی بند گلی میں داخل نہ کردے - یہ سوال اسی فکر سے نکلا ہے جو 21 ویں ودی میں اسلام ازم کو لیفٹ سیاست کے لیے ایک چيلنج کے طور پر دیکھتا ہے میں ان لیفٹ کے لوگوں کی ایک لسٹ بتلانے میں سارا وقت ضایع کرنے کی بجائے جنھوں نے اسلام ازم کی مذمت کرتے ہوئے اپنی اخلاقی برتری ثابت کی یہ ڈسکس کرنا پسند کروں گا کہ ہمیں کیسے اسلام ازم کو بطور ایک دانشورانہ اور اخلاقی سوال کے لیفٹ کے لیے زیر بحث لاسکتے ہیں اول : اسلامسٹ کیسے مابعد خرد افروز دور میں لیفٹ اصولوں کو جس راستے سے چیلنج کرتے ہیں اسے زیر بحث لانا اس کی پہلی سمت ہے اور یہ ان کا کاز ہوسکتا ہے جو لبرل لیفٹ ہیں کہ وہ اپنی بنیادی کمٹمنٹس بارے ازسر نو سوچ بچار کریں - ماڈل یہآں مارکس کی بورژوازی کے حقوق پر وہ تنقید ہے جو انھوں نے " جیوش سوال پر " کی ہے اور روائتی حقوق ، قانونی برابری اور انفرادی منفی آزادی پر تمام تر بائیں بازو کے تشکیک پن کی بنیاد یہی تنقید ہے - اس تنقید کے کئی نرم و گرم ورژن دستیاب ہیں - اس کا سخت گیر ورژن حقوق و پارلیمانی جمہوریت کو بورژوازی /سرمایہ دارانہ فکشن قرار دے کر مسترد کرتا ہے جوکہ ایڈوانس نجات کی بجائے روکاوٹ کا کام کرتا ہے -جبکہ اس کا نرم ورژن ہمیں حقوق کے حصول ، نمائندہ جمہوریت اور سلبی آزادیوں کو آخری فتح خیال کرنے پر متنبہ کرتا ہے اور ان کو آزادی کی زیادہ عمیق اشکال اور یک جہتی کی طرف جانے کے لیے پہلا قدم خیال کرتا ہے کیا ایسی کوئی چیز لیفٹ اور اسلام ازم کے ساتھ ہورہی ہے ؟ میں کسی ایسے راسخ لیفٹسٹ سے بے خبر ہوں جس نے مذھبی آزادی ، صنفی برابری اور سماجی انصاف جیسی اقدار پر محض اس لیے سوال اٹھایا ہو کہ اسلامسٹ ان پر اپنے مذھبی تناظر کے ساتھ سوال اٹھاتے ہیں ؟ کسی ایک کو بھی اس میں شک نہیں ہے کہ ایرانی عورت کو پردے سے آزادی ملنی چاہئیے یا کہ عورتوں کے ختنے ان کی تذلیل ہے - اور کسی نے کبھی بھی بہائیوں اور یزیدیوں کے مذھبی احتساب یا ان کو ذبح کرنے کی حمائت نہیں کی ہے یہ درست ہے کہ بعض نے ایک نیک ، باپردہ مسلم خاتون کے خیالات جاننے کے بعد عورتوں کی نجات کی بعض عالمگیر صورتوں پر سوال اٹھائے ہیں - لیکن یہآں بھی جو تنقید ہے وہ خالص لبرل ہے : اس کی بنیاد آزادی ، خود مختاری اور عورتوں کی اپنی نمآئندگی کا سوال ہے - نہ کہ اسکی بنیاد مطلق مذھبی ضابطے ہیں - مذھب اور آزادی کے درمیان کٹّر قسم کی مخالفت پر سوال اٹھایا جاتا ہے - یہ بھی درست ہے کہ لیفٹ میں سے بعض نے مسلم ملکوں یورپی سیکولر ازم کے مطلق اطلاق پر سوال اٹھایا ہے- لیکن یہاں تنقی کا محرک جمہوری ہے : اس کی بنیاد آزادی ، خود مختاری اور اپنی آپ نمائندگی پر ہے اور سیکولر ازم کی کسی ایک شکل کی عالمگیریت پر سوال اٹھاتی ہے مسلم دنیا میں سیاست بارے سوچنے کا یہ انداز اصل میڑ والزرین پولیٹکل تھیوری سے بالکل الگ ہے : سیاسی گروہ اپنے معیارات ڈویلپ کرنے ، ان پر عمل کرنے اور جدوجہد کے زریعے کمٹمنٹس کو ڈویلپ کرنے کے خود زمہ دار ہیں نہ کہ وہ کوئی ایسی باہمی مبدل جگہیں ہیں کہ جن کا مقصد انصاف کے ایک اولین تصورات کا مطلق اطلاق ہو - بہت سے لیفٹسٹ بالکل ٹھیک طور پر یہ جانتے ہیں کہ مسلم ممالک میں جمہوری انصاف کو حقیقی مقامی جدوجہد کے دوران مشہود ہونا چاہئیے ہر کوئی یہ امید کرے گآ کہ والرز خود بھی اس تناظراتی سیاسی تجزیے کے عمل کو سراہے گا بنسبت اس کے کہ وہ " اچھے سیکولرسٹوں کے ایک تنگ نظر ٹولے کی تلاش کرے تاکہ ان کی تعریف کرسکے دوم : والزر کی نظر میں لیفٹ دو حصوں میں تقسیم یں ، ایک وہ جو اصولوں سے وفادار ہیں اور دوسرے وہ جو نہیں ہیں ، لیکن مرے خیال میں عدم اتفاق اصل میں سیاسی فکر کی دوسری سمت میں پایا جاتا ہے - اور یہ سمت ان خوفناکیوں اور ناانصافیوں کے بارے میں ہمارے فیصلے کی ہے جو دنیا میں پائی جاتی ہیں کہ ہم ان کی مخالفت میں ترجیح کسے دیتے ہیں - والزر کا خیال ہے کہ یہ خوفناکیاں اسلام ازم کی وجہ سے ہیں - لیکن لیفٹ کا ایک آدمی والزر کا مضمون پڑھ کر آسانی سے جواب دے سکتا ہے ، " میں نہیں سمجھتا کہ اسلامزم پر زبدرست تنقید کوئی ایسی چیز ہے جس کی یہآں کوئی کمی ہے - کیا ماسکو ، واشنگٹن ، مصر سمیت عالمی طاقتیں اس بات کی منتظر ہیں کہ لیفٹ کا پریشر آئے گا تو وہ اسلامسٹوں کے خلاف کوئی آخری معرکہ لڑیں گی ؟ جہاں تک مرا تعلق ہے تو مجھے اس بات میں شک ہے کہ مستقبل کا مورخ جب 2001ء سے 2014ء تک کی تاریخ لکھے گآ تو وہ اسے اسلامسٹ دھشت گردی کی طرف خوشامد ، معذرت ، اپالوجی کے کلچر کا دور قرار دے گا متشدد اسلامزم کے خلاف جنگ اپنا خیال آپ کررہی ہے - یہ پڑھنا ہمارے لیے زرا حیرت کا سبب ہے کہ ہم سے جو لبرل لیفٹ ہیں ان کو صاف صاف جنونیوں کو اپنے دشمن قرار دیں - اس کی بجآئے کیا لیفٹ کا جواب ایسا نہیں ہونا چاہئیے جو اس جاری جنگ کے حوالے سے زیادہ امید دلانے والا ہو ، اور قابل تعریف متبادل پیش کرنے والا ہو؟ اگر ہم یہ نہیں کرسکتے تو لیفٹ کا اس پر خیال کیا ہے ؟ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ان متبادل ک رسد کم ہے - اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ مسلم ملکوں میں جو لوگ انصاف ، برابری اور جمہوریت کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ، کیا وہ مغربیوں سے ان کی رسد بھی چاہتے ہیں کہ نہیں - بلکہ ، وہ تو غیر لیفٹسٹ مغربی طاقتوں کی ان کے ملکوں میں مداخلت کے خلاف مدد چاہتے ہیں - والزر بھی اس بات سے اسی طرح سے واقف ہے جیسے لیفٹ کیمپ کا ہر آدمی واقف ہے -میں والزر کے مغربی سامراجیت کے بارے میں مذمتی ماتم داری کے متعصب سکرپٹ کو الٹانا نہیں چاہتا اور اس پر یقین کرلیتا ہوں کہ وہ واقعی اس کا ماتم کرتا ہے -لیکن میں یہ کہوں گا : ہم سے وہ جو مغرب میں رہتے ہیں اور ٹیکسز دیتے ہیں اگر انھوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہوا ہے کہ ہمارا زیادہ فوکس اپنے خود کے جرائم اور ان تباہ کن اثرات پر ہوگا جو ہم نے باہر ڈالے ہیں ، تو والزر کو اس بات کا کیسے یقین ہے کہ ہم غلط ہیں ؟ کیا یہ چوائس لیفٹ کی بہترین تنقیدی روائت کا عکس نہیں ہے ؟ اپنے خوف کو اور دوسروں کے جرائم کو وجہ بناکر آپ اپنے جرائم کو چھپانے کی اجازت نہیں دیتے - اور کیا یہ والزر کی اپنی تھیوری خود اپنی کمیونٹی کے اندر سے جدوجہد کریں تاکہ اپنے بلند ترین اخلاقی آدرش کو حاصل کیا جاسکے کے عین مطابق نہیں ہے مغرب میں بھاری فوجی ، سیاسی اور میڈیا آپریٹس اسلامسٹوں کو دشمن میں بدلنے اور لاشوں میں بدلنے کا پہلے ہی بہترین کام کررہا ہے - مرا اصرار یہ ہے کہ ہمیں اس حقیقت پر فخر کرنا چاہئیے کہ مغربی عوام کا ایک حصّہ اس پر سوال اٹھانے سے مخلص ہے سوم : اس کی تیسری سمت شمٹین ( ایک جرمن سیاسی فلسفی جس کی منطقی استدلال کو شمٹین کہا جاتا ہے ) ہے : مرا دشمن کون ہے ؟ والزر شمیٹین سینس میں اس مضمون میں کسی بھی عار کے بغیر سیاسی ہے - وہ کہتا ہے ہمیں صاف طور پر اسلامسٹ جنونیوں کو اپنا دشمن قرار دینا چاہئیے اور اپنے آپ کو ان کے خلاف دانشورانہ مہم کے لیے مختص کردینا چاہئیے -یہ مجھے جعلی سورما پن لگتا ہے - میں جانتا ہوں کہ یہ یک گونہ اطمینان کا سبب ہوتا ہے کہ آپ ایسے شذرے لکھیں جس میں مرتدوں کو مارنے ، خواتین کے ختنے کرنے اور اسکول کی بچیوں کو اغواء کرنے والوں کے خلاف موقف اختیار کیا گیا ہو - لیکن کسے شک ہے کہ ہم ان کے خلاف نہیں ہیں ؟ کیا ان چیزوں کے خلاف مغرب میں کسی غیر معمولی اخلاقی ہمت کی ضرورت ہے ؟ اور وہ کون سی لڑائیاں ہیں جن سے ہم بچنے کی کوشش کرتے ہیں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مغرب میں یہی ایک واحد چیز ہے جس کے لیے لڑنا چاہئیے جو بات بتدریج ظاہر ہوجاتی ہے ، وہ یہ ہے کہ والزر نہ تو اصلی مسلم دنیا کی سیاست بارے کوئی بات کررہا ہے اور نہ ہی اس میں اسے کوئی دلچسپی ہے - مسلم ممالک کے لیفٹسٹ نہیں ہیں جن کے بارے میں اس کا یہ خیال ہو کہ وہ اسلام ازم کے خلاف سٹینڈ لینے میں ناکام ہوگئے ہیں اور نہ ہی اسے ان کی جدوجہد بارے کوئی زیادہ پرواہ ہے - یہ ردی سوال ہے کہ کس نے ہریسی علی کو گرم جوشی سے قبول کیا یا نہیں کیا ، کون ٹھیہ بلاگ یا مضامین لکھ رہا ہے یا نہیں یا کون ٹھیک پیٹشن پر سائن کررہا ہے - جتنی میں کوشش کرسکتا ہوں کرتا ہوں ، لیکن میں اس پر سارا فوکس نہیں کرسکتا کیا ہوتا اگر ہم خود کو زرا دیر کے لیے اس سے الگ کرتے اور سخت سیاسی سوالات کرتے ہیں کہ وہ کون سی چیزیں جو لیفٹ لبرل مقاصد کو آگے لیجاسکتی ہیں ؟ صرف چار سال پہلے ہم نے کہا تھا کہ ہمیں تیونس ، قاہرہ اور دمشق سے جمہوری لہروں سے امید رکھنی چاہئیے -اب کوئی نہیں کہتا کہ اب شام اور عراق جل رہے ہیں ، مصر پھر سے 1960ء کی دھائی میں چلاگيا ہے اور ایران میں سخت گیر عناصر کے ہاتھ میں پہلے سے زیادہ کنٹرول ہے - تو کیا ہم اپنی امیدیں انسانی حقوق کے انٹرنیشنل لیگل انسرومنٹس کے زریعے سے پھیلاؤ کے پروجیکٹس کی طرف واپس موڑ دیں اور اپنی امیدیں لوکل این جی اوز کی ایڈوکیسی مہم سے باندھ لیں ؟ میں انسانی حقوق کی عالمی تحریک کو یکسر رد نہیں کرتا لیکن اس کے زریعے سے مستقبل میں مسلم دنیا میں کوئی بڑی ، بڑی کامیابی حاصل نہيں کی جاسکتیں میرے پاس اس کا بہتر جواب نہیں ہے - لیکن والزر نے بھی اس کا بہتر جواب نہیں دیا ہے - میں اس کو الزام نہیں دیتا - میں اس سے توقع نہیں کرتا کہ وہ گلوبل ابھار کے بارے میں وژن کی حمایت کرے گآ مسلم ممالک میں آج زیادہ تر جو بغاوت ہے عوامی انقلاب کی بجائے عالمی جہاد ازم کی شکل اختیار کررہی ہے - لیکن پھر میں یہ سوچتا ہوں کہ والزر کی لیفٹسٹوں کے ساتھ فرسٹریشن جوکہ اسلامسٹ جنونیوں کے ساتھ جنگ کا اعلان کرنے سے گریزاں ہیں ان کئی ایک چیزوں کی علامت ہے جن کا لیفٹسٹوں کی اخلاقی کم ہمتی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے یہ ہمارے پاس جوابات کی کمی اور پاور کے نہ ہونے کی علامت ہے - میں نہيں جانتا کہ گلوبل وارمنگ کو کیسے روکا جاسکتا ہے - میں نہیں جانتا کہ عدم مساوات اور عالم اشرافیت کو کیسے پلٹایا جاسکتا ہے - میں نہیں جانتا آیا کہ مجھے 21 ویں صدی ميں ایک قسم کے ٹرانسفارمیٹو انقلاب میں یا موجودہ نیشن سٹیٹس کے اندر ترقی پسند کشاکش بارے رجائی روش اختیار کرنی چاہئیے یا نہیں میں نہیں جانتا کہ معاصر ٹیکنالوجیکل انقلاب اچھی چیز ہے یا بری - دوسروں کے جرائم پر فوکس کرنا اور جو جرم آپ کرو اس سے صرف نظر کرنا ہمیشہ ہی آسان رہا ہے - دوسروں کی اخلاقی تنزلی پر حملہ کرنا اور اپنی نیک نیتی کا ثبوت دینا بھی ہمیشہ آسان رہا ہے - لیکن لیفٹ کی بہترین روائت اور لبرل سیاست کی روش یہ رہی ہے کہ اپنی کئی موثر احساسات کو تاریخی پرسپیکٹو کے ٹربیونل کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے سر کاٹنے ، قتل عام کرنے اور یزیدی لڑکیوں کو لونڈیا بناکر بیچنے کے عمل سے بے زار ہوں - اور میں داعش اور اس جیسی دوسری تنظیموں کی شکست کی امید بھی رکھتا ہوں : لیکن میں عراق میں حکومت کی جانب سے یورنیم کے استعمال ، بڑے پیمانے پر قیدیوں پر تشدد کرنے اور بڑۓ پیمانے پر نگرانی کے غیر احتسابی آپریٹس کی تنفیذ سے بھی بے زار ہوں یہ غیر انسانی عمل ہے کہ کسی ایک طرف کی جانب سے موت مسلط کرنے کے عمل پر خاموش رہا جائے ، اگر جہادی زمین پر موت بانٹ رہے ہیں تو وہی موت ہم فضا سے بانٹ رہے ہیں - میں امید کرتا ہوں کہ والزر جس قدر فکر اسلامسٹ جنونیوں کی کررہا ہے وہ اتنی فکر مغربی سامراجیت اور اس کے مظالم بارے بھی کرے گا اور مغربی سامراجی تشدد اور سامراجی جنونیت بارے بھی اتنا ہی فکر مند ہوگآ جتنا وہ اسلامسٹ و جہادی جنونیوں کے بارے میں ہے -اگر آپ امریکہ میں رہتے ہیں تو آپ کو اس تشدد اور مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی جو آپ کے نام سے امریکی حکومت مسلم دنیا میں کررہی ہے اور والزر مسلم معاشروں کی تلخ حقیقتوں بارے بھی اتنا ہی فکر مند ہوگا جتنا وہ اسلامسٹ جنونیوں کے بارے میں ہے Andrew F. March is Associate Professor of Political Science, Yale University. He is the author of Islam and Liberal Citizenship: The Search for an Overlapping Consensus (2009), and numerous articles on Islamic political and legal thought.

Friday, February 13, 2015

حزب اللہ کا ارتقاء ...... کلاسیکل مزاحمت سے مابعد مزاحمت تک


امل سعد لبنانی نژاد پولیٹیکل سائنس کی استاد ہیں اور وہ مڈل ایسٹ میں لبنان پر اسرائیل کے قبضے سے لیکر فلسطین کی آزادی تک ہونے والی مزاحمت پر لکھ رہی ہیں ، وہ بنیادہی طور نیوکالونیل ازم اور سامراجیت کے خلاف تحریریں لکتھی ہیں اور لبنان ، شام ، فلسطین اور اسرائیل ان کی دلچسپی کے خصوصی موضوعات ہیں - انہوں نے حزب اللہ پر بھی ایک کتاب لکھی اور حزب اللہ کی سیاست اور مزاحمت پر ان کی معلومات وسیع ہیں - اپنے ایک حال ہی میں شایع ہونے والے مضمون میں انہوں نے حزب اللہ کی مزاحمت کی تحریک میں بنیادی شفٹ کے حوالے سے شروع ہونے والی بحث پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے - مڈل ایسٹ میں حزب اللہ کے اکثر ناقد یہ کہہ رہے تھے کہ حزب اللہ کی جانب سے شام اور عراق میں جاری جنگ باقاعدہ شمولیت کے بعد حزب اللہ اسرائیل کے خلاف ایک مزاحمتی آرگنائزیشن کے طور پر باقی نہیں رہی بلکہ وہ ایک فرقہ وارانہ جنگ میں شریک ہوگئی ہے اور اب اس کا کوئی ترقی پسندانہ سامراج مخالف کردار نہیں رہا ہے امل سعد غریب اس نکتہ نظر کی مخالف ہیں بلکہ ان کا خیال یہ یے کہ حزب اللہ آج بھی اسرائیل کے قبضے اور اسرائیلی صہیونیت کے خاتمے کے بنیادی نصب العین کے ساتھ جڑی ہوئی ہے لیکن اس کے مزاحمتی کردار میں توسیع ہوگئی ہے - امل سعد کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے مڈل ایسٹ میں عراق ، جنوبی لبنان ، شام کے اندر اپنے باقاعدہ گوریلے فوجی دستے جو روانہ کئے اور وہاں پر جو لڑائی اس نے داعش ، جبھہ النصرہ اور دیگر جہادی تکفیریوں کے خلاف چھیڑی ہے وہ بھی اصل میں اسرائیل کے خلاف اپنی تحریک مزاحمت کو بچانے کی ہی سٹریٹیجی ہے کیونکہ امل سعد کا کہنا ہے کہ شام میں سعودی عرب سمیت گکف رعرب ریاستوں نے شام میں رجیم کی تبدیلی کے لئے جو جنگ شروع کی اور اس میں سلفی تکفیری جہادیوں کو جو مواقع دئے اس نے شعوری یا غیر شعوری طور پر اسرائیل کے خلاف مزاحمتی تحریک کو کمزور کیا اور صہیونیت کو ردرپیش مشکلات کو مڈل ایسٹ میں جاری وھابی دیوبندی جہادی تکفیری جنگ کم کرنے میں عمل انگیز کا کام کیا اور شام میں جنوبی لبنان سے ملنے والی سرحد پر جہادی تکفیریوں کا ھدف بھی حزب اللہ تھی ، کیونکہ ان تکفیری جہادیوں نے کبھی بھی اسرائیلی سرحد پر حملے کی کوشش ہی نہیں کی امل سعد کے مطابق حزب اللہ نے شام ، عراق ، ایران کی جانب سے جہادی تکفیریوں کے خلاف جس مزاحمت میں شرکت کی ہے اس میں یہ جو ایرانی انقلابی نیشنل گارڈ ، القدس بریگیڈ اور شامی نیشنل آعرمی کا محور ہے یہ اصل میں خطے میں سامراجی غلبے اور اثر کے پھیلاو کی کوشش اور اسرائیل کے صہیونی ازم کو ختم کرنے کے خلاف مزاحمت کے کلاسیکل دور سے پوسٹ مزاحمت دور میں آنے کی نشانی ہے ، جس میں حزب اللہ کا آپریشنل نیٹ ورک وسیع ہوا ہے اور پھر حزب اللہ کی جو نفسیاتی اور فکری جنگ تھی اس کے دائرے میں بھی وسعت آئی ہے اور وہ اب محض اسرائیلی صہونیت کو بے نقاب کرنے تک محدود نہین رہی بلکہ اس کا مقصد " جہادی تکفیریت کو بھی بے نقاب کرنا اور جیادی تکفیری تنظیموں کی سامراج اور اسرائیل کے ساتھ شعوری یا لاشعوری طور پر جو تزویراتی مقاصد کا اشتراک بن گیا ہے اسے بے نقاب کرنا ہے سعد بین السطور میں اہنے اس مضمون میں یہ واضح کرتی ہیں کہ " حزب اللہ " عراق ، شام کے اندر جس فوجی کاروائی میں شریک ہوئی ہے اس کا مقصد سنیوں کی ہلاکت نہیں ہے ، نہ ہی اس کا مقصد کسی قسم کا شیعی انقلاب ان ملکوں میں لانا مقصقد ہے اور نہ ہی یہ سنیوں کی تکفیر کرتے ہوئے ان کے قتل کی تکفیری ترغینب دینے کے لئے ہے ، بلکہ یہ ان نام نہاد جہادی تکفیری دہٹ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف لڑائی ہے جو شام میں شیعہ ، سنی ، عیسائی ، یزدیوں کو مار رہی ہیں اور ان کو اپنے گھروں سے بے گھر کررہی ہیں اور اسے کسی بھی اعتبار سے فرقہ پرست لڑائی نہیں کہا جاسکتا حزب اللہ امل سعد کے مطابق سمجھتی ہے کہ جہادی تکفیریت بھی شام ، عراق اور جنوبی لبنان سے اتنے ہی بڑے پیمانے پر لوگوں کی بے دخلی کا سبب بن رہی ہے جتنی بے دخلی اسرائیلی صہیونی قبضے کے بعد سے ہوئی ہے اور جہادی تکفیریت اگر اسی بطرح سے چھاگئی تو یہ صہیونیت سے زیادہ بڑے پیمانے پر مظالم کا سبب بنے گی اور داعس کے اقدامات سے صاف نظر آرہا ہے امل سعد خطے میں شام ، ایران اور حزب اللہ کے محور کو ساماراجیت کے اور صہیونیت کے خلاف ایک وسیع مزاحمتی تحریک کی شروعات سے تعبیر کرتی ہے اور جہادی تکفیریت کے خلاف اس محور کی کاروائیوں کے دور رس اثرات مرتب ہوتے دیکتی ہیں ایران ، حزب اللہ ، بشار الاسد اس مزاحمتی تحریک میں غیر تکفیری سلفیوں کو بھی اپنے ساتھ شریک کرنے کا خواہش مند ہیں جیسے وہ صوفی سنیوں کو اس میں اپنا اتحادی بنارہے ہیں اور گذشتہ دنوں حزب اللہ اور لبنان کی فیوچر پارٹی میں مذاکرات ہوئے اور شیعہ و سنی کے درمیان تناو کم کرنے اور جہادی تکفیریت کے خلاف لڑنے پر اتفاق ہوا میں سمجھتا ہوں کہ کہ پاکستان کے اندر بھی جہادی تکفیریت کے خلاف اس طرح کا اتحاد عوامی سطح پر سامنے آنا چاہئیے
Amal Saad Hezbollah’s intervention in Syria has been criticized by many in the Arab world as a sign that “they have abandoned resistance to fight fellow Muslims.” Their recent qualitative operation in Sheba’a against an Israeli military convoy, however, serves as a reminder that the movement has not shifted its focus away from Israel and is able to fight on several fronts simultaneously. Hezbollah’s continued prioritization of its resistance activity, while entangled in multiple military theaters across the region, indicates that it has transcended its original, singular mission of resisting Israel. Confronting Israel is now one role among several others Hezbollah has assumed in the post-uprising regional political order, which has ushered in the rise of takfiri-jihadism. Outgrowing its resistance role, Hezbollah now assumes responsibility for guarding Lebanon’s borders, facilitating homeland security and counter-terrorism, as well as counter-insurgency operations in Syria and Iraq. The Resistance is no longer confined to expelling Zionist occupiers and preventing Israeli aggression, but is now intent on preserving the political-territorial framework and strategic environment that it requires for its continued operational integrity. The destabilization of both spheres by takfiri-jihadists has compelled Hezbollah to transform itself into a post-resistance movement. The prefix “post” here does not denote the end of resistance, or what comes after it, but should be understood in much the same way that the concept of “post” in postcolonial can be interpreted as “the continuation of colonialism, albeit through different or new relationships concerning power.” The resistance, by no means over, has now morphed into a transnational Resistance Army whose core identity and mission remain tied to its raison d’être of resisting Israel, but which is also committed to protecting the Resistance’s “backbone” as Nasrallah describes it. To that end, Hezbollah has sought to wrest Syrian, Lebanese and Iraqi territories from jihadist control. In essence, Hezbollah is confronting a transnational insurgency that seeks to expand its proto-state, by transnationalizing its resistance in turn. Just as the movement conventionalized its guerilla warfare in 2006 with its new “hybrid” resistance paradigm, which fuses conventional and unconventional methods, it has now created a new model of counterinsurgency in which its own irregular, hybridized Resistance Army seeks to suppress the insurgent activity of another hybridized irregular force. The destabilization of both spheres by takfiri-jihadists has compelled Hezbollah to transform itself into a post-resistance movement. Existential battle with ISIS The war with ISIS and al-Nusra Front is viewed as an existential battle with an annihilative and uncompromising force that is hell-bent on eliminating all Shia, and by extension, the Resistance. While takfiri ideology is not politically delegitimized in the same way that Zionism is, nor is its right to exist as a religious doctrine questioned, takfiri militancy or jihadism is unequivocally equated with Israel. Hezbollah’s discourse likens the danger posed by ISIS and Nusra to Israel’s; in one speech, Nasrallah invoked Israeli oppression as an analogy for the potential loss of land, destruction of homes, capture of women, killing of children, and humiliation that the jihadists could inflict. In his “Resistance and Liberation Day” speech last year, Nasrallah even went beyond this analogy when he drew parallels between the mass migration of Jewish settlers to Palestine sponsored by colonial powers in the twentieth century and the mobilization and deployment of jihadists in the region, which he argued had been facilitated by modern day imperialists. Jihadists are not just morally and politically equated with Israel, according to this interpretation, but strategically linked, as well. ISIS is portrayed as being the witting or “unwitting” servant of the US-Israeli scheme to divide the region and foment strife, while Nusra — whose military and intelligence cooperation with Israel has now been well documented by the UN and Western mainstream , as well as Zionist media — is considered the jihadists incarnation of Israel’s collaborationist South Lebanon Army (SLA). It is on this basis that Hezbollah does not view the US-led coalition’s strikes on ISIS targets in Syria and Iraq as anything more than a “declawing” operation designed to “contain” the organization, rather than defeat it. Offensive warfare While empirically supported arguments such as these have enabled Hezbollah to intellectualize its war against jihadism as an extension of its resistance campaign, the nature of its military intervention in Syria and Iraq has required it to reconceptualize and expand its concept of resistance warfare qua warfare. Resistance has now been stretched to encompass military strategies which have not traditionally been associated with classic guerrilla or resistance warfare — fighting groups that don’t qualify as occupation forces, defending allies outside its national borders, and adopting counter-insurgent warfare. Advancing into enemy territory or territory contested by an adversary on the soil of an allied neighbor, is neither typical of armed resistance movements nor of a defensive military strategy, unless one views it as an act of “preemptive” self-defense as Nasrallah accurately described it. Fearing a jihadist onslaught into Lebanese territory, Hezbollah has subscribed to the old adage that “the best defense is a good offense” in Syria and to a more limited extent, Iraq. In 2013, Hezbollah’s military role in Syria shifted dramatically from a small advisory mission to a direct combat role involving a large numbers of fighters. Starting with Qusayr, Hezbollah’s expanded military presence helped the Syrian government regain traction in areas which had been lost to rebel control. In fact, the ground assaults in Qusayr and Qalamoun were essentially led by Hezbollah forces, while the Syrian army provided artillery and air cover for its senior partner. Moreover, according to the Syrian Observatory of Human Rights (SOHR) Hezbollah is currently taking “the initiative to lead [Syrian] army and Iranian forces in the triangle of territory linking Daraa, Quneitra and the southwest of Damascus provinces." In other areas such as parts of Damascus, Eastern Ghouta, and Kassab, Hezbollah forces engaged in direct combat alongside the Syrian armed forces, improving the latter’s combat performance. In Homs, Aleppo and the Golan, Hezbollah deployed special operations forces to assist, train, advise and organize Syrian regular forces and paramilitary NDF forces. Given the movement’s combat experience in unconventional warfare, and its training in urban warfare, Hezbollah’s special forces unit has served as a significant force multiplier for Syrian troops. Hezbollah’s military intervention in Syria and Iraq has fundamentally recast its classic resistance role and placed it on a par with its long-time mentor, Iran’s special operations, Quds Force, itself an active partner in Syria and Iraq. Extraterritorial operations like these have usually been the province of major powers, rather than non-state actors who have customarily been the recipients of such assistance. As defined by the United States Army Special Operations Command, unconventional warfare usually “involves external parties aiding indigenous actors against governments. Such aid can involve training, organizing, recruiting, operational advising…” In other words, special operations forces affiliated with conventional, state armies have normally been deployed to assist unconventional forces rather than the other way around. Hezbollah’s military intervention in Syria and Iraq has fundamentally recast its classic resistance role and placed it on a par with its long-time mentor, Iran’s special operations, Quds Force, itself an active partner in Syria and Iraq. The Resistance Axis In the post-resistance phase, the politics of resistance has been supplanted by the politics of the Resistance Axis. The strategic alliance between Iran, Hezbollah, Syria and Iraq is now characterized by a unity of military forces and a unity of military theaters vis-à-vis ISIS and Israel. In Syria, force integration among Hezbollah’s Resistance Army, the Islamic Revolutionary Guards Corps (IRGC), Syrian armed forces and Iraqi militias has led to the emergence of a single military front. Just days before Israel’s assassination of Hezbollah fighters and an Iranian commander in the Golan governorate of Quneitra, Nasrallah threatened to respond to Israeli attacks on targets in Syria as though they “targeted the entire Resistance Axis.” Nasrallah later declared that “the fusion of Lebanese-Iranian blood on Syrian soil [in Quneitra], reflects the unity of cause and the unity of fate of the countries of the Resistance Axis.” Mohammed Ali Jaafari, commander of the IRGC, echoed this sentiment when he implied that Hezbollah’s retaliatory attack in Shebaa, represented a united response: “We are one with Hezbollah. Wherever the blood of our martyrs is spilled on the front line, our response will be one.” Coupled with its defense of Syria and Iraq from jihadist forces, Hezbollah’s retaliation for Israel’s Golan strike with an attack in Sheba’a in occupied Lebanon, has meant that the territories of the Resistance Axis now constitute a single battlefront. Nasrallah introduced this new security doctrine when he announced that the resistance was “no longer concerned with any rules of engagement [with Israel]. We no longer recognize the separation of arenas or battlefields.” This new regional security architecture has dire implications for Israel. In the next war, Israel not only has to contend with offensive military operations in the Galilee and “beyond the Galilee” as Nasrallah recently promised, but also with the potential involvement of other members of the Resistance Axis, particularly Iran. As the region-wide war with takfiri-jihadists has demonstrated, any Israeli aggression on Syria, Lebanon or Iran, will be viewed as a war against the Resistance Axis as a whole. Amal Saad is a Lebanese academic and political analyst. She is the author of Hizbullah: Politics and Religion, published by Pluto Press.

Sunday, February 1, 2015

طاعون زدہ معاشرہ - جہاں " دانش برائے فروخت " ہے


اتوار یکم فروری ،2015ء کو روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر جناب ضیاء شاہد کا کالم پڑھا جس میں انھوں نے سابق گورنر چودھری سرور کے استعفی کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کئ‏ی بار لکھا کہ پاکستانی سماج جھوٹ کی دلدل ہے یہاں زیادہ اور پورا سچ کسی کو ہضم نہیں ہوتا ، اب یہ اتفاق ہی ہے کہ ایسا ہی ایک اور کالم حامد جلال نے بھی اپنی یادداشتوں کے سہارے مرتب کرڈالا کہ کیسے زمانہ طالب علمی سے عملی دنیا تک آتے آتے قدم قدم پر سفارش ، رشوت ، دھونس ، دھاندلی کے نظارے انھوں نے کئے میں اس سارے سلسلہ اتفاقات پر اس لیے بھی حیران تھا کہ ابھی 23 جنوری 2015ء کی شام ہم نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخ کے تحت حلقہ ارباب زوق کے سابق صدر و معروف شاعر ، صحافی احمد فرید کے ساتھ منائی جو بیس سال بعد واپس شہر لوٹے تو انہوں نے ماضی کی یادوں کو گھنگالنا شروع کیا اور مجھے کہنے لگے کہ ان کے محلے میں این ایس ایف پنجاب کے جنرل سیکرٹری شفقت منیر ان کے ہمسائے تھے اور ان کے ہاں سے انھوں نے فیض ، ساحر ، منٹو ، علی سردار جعفری کو اواغل عمری میں پڑھ ڈالا اور ضیاء کے تاریک مارشل لائی دور میں معراج محمد خان ،فتح یاب علی خان ، افراسیاب خٹک ، اقبال حیدر سے ترقی پسندی کے بہت سے دروس سنے ، شفقت منیر نے ان کو درس دیا کہ دنیا میں کمٹمنٹ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی احمد فرید نے کہا کہ میں جو تانگا چلانے والے کالا بابا کا بیٹا تھا نے اس نصحیت کو پّلے باندھ لیا اور پھر لاہور ، کراچی ، اسلام آباد پاکستان کے نامور اخبارات ، ٹی وی چینل میں بہت سی نوکریاں کرتے ہوئے کئی مواقع ملنے کے باوجود کمٹمنٹ سے چمٹا رہا ، اس دوران اس کے کئی دوست احمد فراز ، ابو شیراز وغیرہ این جی او کے سیلاب میں بہہ گئے اور کئی ایک نے حاکموں کے لیے اپنے قلم مختص کرڈالے اور کئی سیاسی ورکر حلقہ بگوش زرداری و نواز شریف ہوگئے ، میں کمٹمنٹ سے جڑا رہا ، ایک دن مجھے "شفقت منیر " کا خط ملا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ عزیزم احمد فرید ! میں نے سنا ہے کہ تم آج بھی " کمٹمنٹ " کی گردان کرتے ہو ، دیکھو اس سے چو۔۔۔۔یا شئے دنیا میں اور کوئی نہیں ہے ، اسے تیاگ دو اور یہاں اسلام آباد آؤ ، مرے پاس این جی او کی ایک بہت پرکشش جاب تمہارے لیے ہے " احمد فرید نے کہا کہ اس خط کو پڑھنے کے بعد چھناک سے کوئی شئے مرے اندر ٹوٹ گئی میں اس واقعہ سے تھوڑا اثر پذیر ہوا اور زرا فنتاسی کے ساتھ ایک افسانہ " کمٹمنٹ " کے ساتھ لکھا اور اسے فیس بک پر ڈال ڈیا ، اس افسانے پر کمنٹس میں ہی استاد سالک واردر ہوئے اور انھوں نے کہا کہ شفقت تو بہت رحمدل آدمی تھا کہ اس نے اپنے حالات کو سمجھوتے بازی سے بدلنے کے بعد اپنے دوستوں اور شاگردوں کو یاد رکھا اور ان کو نوکری کی پیشکش بھی کی (ویسے شفقت زاتی زندگی میں بہت ہی رحمدل اور مصیبت میں کام آنے والوں میں سے ہیں اور میں زاتی طور پر اس بات سے واقف ہوں ) لیکن ملتان میں جہاں آج کل علی بابا آئس کریم بنی ہوئی ہے اس کے اوپر ایک دفتر ہوا کرتا تھا وہاں عزيز نام کا ایک سیاسی دانشور کارکن تھا جس نے ساری زندگی " کمٹمنٹ " کے ساتھ گزاری اور کمالیہ سے آنے والا ایک جولاہا کے بیٹے سمیت کئی ایک نوجوانوں کو سیاسی شعور سے آراستہ کرتا رہا اور وہ جولاہے کا بیٹا این ایس ایف کا مرکزی صدر بنا اور پھر وہ ملتان کی پاور پالیٹکس کی نذر ہوگیا ، سنا ہے لاہور ہائی کورٹ بہاول پور بنچ کا کچھ عرصہ صدر بھی رہا اس نے پھر پلٹ کر انے محسنوں کی خبر نہیں لی ، ایک امیر زادہ محمود نواز بابر بھی غریبوں کے بچوں کو انقلابی بننے اور بغاوت کے دروس دیتا رہا اور پھر وہ بھی دوبارہ اپنے طبقے کی طرف چلا گیا اور " کمٹمنٹ " اس کے ہآں بھی بے معنی شئے بن گئی استاد سالک نے ایک بہت عجیب بات اس دوران یہ کہ " کمٹمنٹ " کے سراب میں گھرے ان لوگوں میں ایک جاگیردار گھرانے کا بیٹا بہادر خان سہیڑ تھا جو سوشلسٹ گروپ کا یونیورسٹی میں حصّہ ہونے کے ابوجود کہتا تھا کہ بھئی میں نے تعلیم سے فارغ ہوکر الیکشن لڑنا ہے اور پاور کوریڈور میں جانا ہے ، پھر نہ مجھے طعنے دینا شروع کردینا استاد سالک کہتے ہیں کہ اس حوالے سے وہ جاگیردار بہادر خان سہیڑ مجھے ان سب میں زیادہ ایماندار لگا میں بائيں بازو کے اکثر سابق طالب علم کارکنوں اور دانشوروں کو جانتا ہوں کہ وہ زاتی زندگی میں آج بھی اپنے ساتھیوں اور پرانے رفقا کا خیال کرتے ہیں ، حبیب اللہ شاکر دوستوں کے مشکل وقت میں کام آتے ہیں اور ایسے کئی اور دوست شیخ یوسف سابق یونین جنرل سیکرٹری اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور ، ملک امجد ایڈوکیٹ فیصل آباد والے ، درجنوں نام مرے ذھن میں ہیں ، لیکن غریب ، نچلے متوسط طبقے سے آنے والے یہ بہت سارے لوگ " نظریات اور افکار " کے حوالے سے آج نہ " سرخ " ہیں اور نہ ہی " سبز " یہ ان کے درمیان کی کوئی چیز ہیں اور درمیان میں ہمیشہ موقعہ پرستی اور لینن نے جو کاوتسکی کو " غدار کاؤتسکی " کا لقب دیا تھا اسی قسم کی چیز ہوا کرتی ہے ، یہ لوگ اچھے صحافی ، اچھے ادیب ، اچھے وکیل ، اچھے سیاسی کارکن ، سول سوسائٹی کے بہترین ایکٹوسٹ تو ہیں لیکن سسٹم میں یہ سسٹم کو تلپٹ کرکے " انقلاب " لانے والے ہرگز نہیں ہیں بلکہ جن کو یہ استحصالی ، جاگیردار ، سرمایہ دار ، موقعہ پرست مڈل کلاس کا نمائندہ کہتے تھے اور جن طبقات کے خلاف لڑائی کرنے نکلے تھے انھی کے سامنے سرنگوں ہوئے اور ان کی " مہربانیوں " سے اپنا حال بہتر اور مستقبل محفوظ بنا پائے مرے سامنے اپریل 1986ء کے کئی اردو اخبارات کے تراشے پڑے ہیں ، یہ تراشے ایک بوری میں ٹھونسے گئے اس ريکارڑ سے مجھے ملے جو قومی محاذ آزادی کے اس وقت کے ترجمان روزی خان نے ایک لیفٹ پارٹی کے دفتر لاکر پھینک دیا تھا ، اس میں حبیب اللہ شاکر ، سینٹر اقبال حیدر ، پرویز صالح ، علمدار کاظمی ، سید امیر حیدر کاظمی مرحوم کے کئی ایک بیانات لگے ہوئے ہیں ، جن کا لب لباب یہ بنتا ہے کہ قومی محاز آزادی ایک چھوٹی پارٹی ہے جس کے پلیٹ فارم پر "عوام " نہیں ہیں ، پی پی پی ماس کی پارٹی ہے ہم وہاں جاکر " انقلاب اور تبدیلی " کے پیغام کو بزے پیمانے پر پھلا سکیں گے ایک خبر روزنامہ جنگ نے شایع کی ہوئی ہے کہ لاہور میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے قومی محاز آزادی سمیت کئی ایک لیفٹ پارٹیوں کے سرکردہ رہمناؤں کی ملاقاتیں ، پی پی پی میں شمولیت کا اعلان ایک اخبار نے ایک اور سرکردہ کراچی کے مہان بائیں بازو کے لیڈر ڈاکٹر ظفر عارف کی مسلم لیگ نواز مین شمولیت کی خبر شایع کی اور لکھا کہ لیفٹ کے کئی ایک لیڈر صنعتکار نواز شریف کو جاگيردارنی بے ںظیر بھٹو پر ترجیح دیتے ہوئے مسلم لیگ نواز میں شامل ہونے کا سوچ رہے ہیں ، ویسے این ایس ایف کا سرکردہ لیڈر پرویز رشید آج نواز شریف کی ناک کا بال بنا ہوا ہے یہ المیہ صرف بائیں بازو کے کارکنوں کے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ شاہنواز فاروقی اور عبدالکریم عابد مرحوم سابق ایڈیٹر روزنامہ جسارت نے کئی ایک جگہ لکھا کہ جمعیت اور جماعت کے کئی ایک سرکردہ رہنماء 80ء کی دھائی میں پاور پالیٹکس کی نذر ہوگئے اور پھر واپس نہیں پلٹے ابھی ایک کھلا خط احسن واہگہ کا سوشل میڈیا میں گردش کررہا ہے جو انھون نے استاد فدا حسین گاڈی کی برسی کے حوالے سے " سرائيکی قومی تحریک " کو موقعہ پرستی سے پہنچنے والے نقصانات کے حوالے سے لکھا جس کو میں جوں کا توں درج کررہا ہوں Shahryar Taunsavi, You have very kindly printed Mazhar Arif's letter to me. Also please take my letter to All. Recently, Mazhar Arif sb preferred to get boost by dragging Rauf Kalasra the freelance journalist, actually our ‘Siraiki Asset’, brother of a late, and great friend thus an AZEEZ to us all, in Siraiki movement. Few years back, in 2005 probably, Mazhar sb had preferred to call “creation Siraiki province, creation of one more Israel”. This he admits even today but with a lame excuse. His recent venture worried me on two counts: First, Rauf is a bit too big person to fit in the vulnerable Siraiki movement. Only the other day he made a stunt in a TV show that a Rtd. Gen. , Ex Chief of the most important national institution told him “TALIBAN are our men”. No one questioned Rauf as ‘on whose orders, you refrained from making it public at that time? And on whose orders, are you making it public now ? ?’ No one can have objection on Rauf’s kind attention to Siraiki movement but the consequences also be in mind. Second, someone has to give alert to our young Siraiki activists that persons with high stakes like Mazhar Arif sb and Rauf Kalasra sb can do anything to your Siraiki movement as they have done to many things. I threw some comment about it on the ‘available to all’ media i.e. Facebook. Mazhar Arif sb, wrote a letter of resentment to me through you aka Shahryar Taunsavi aka Community pictures. This motivated me to write about the part of the Siraiki movement namely Siraiki Lok Saanjh which I remained part of, and for the reason that events cannot be told without telling about individuals, I will have to tell about a couple of men, mainly Mazhar Arif sb, Fida Husain Khan Gadi; the first really proved to be the dark shadow of a ‘light house’ i.e. the second. If civility and Truth come face to face, one should prefer the later. Hiding, or holding truth is one thing but killing truth is not good. Rightly we have been relishing the ‘All is good’ feature of Siraiki civilization. ‘Rightly’ in the sense that avoiding untimely conflict helps saving energies of your movement. But some of us, like Ashiq Khan Buzdar took this “All is good” notion for ‘Always good’ interpreting it as part of Sufism. If all is good then why not domination of Punjab is good? The oppotunism of the like Mazhar Arif was also tolerated by friends under this lesson of ‘All is good.” Tendency of resignation among the men with self respect, like our Siraiki researcher Akram Mirani sb although promotes the polite Siraiki behavior, it causes bigger loss of encouraging the pompous beings like me and Mazhar Arif sb. I don’t know much about me, but Mazhar’s opportunism and his snobbishness during his Secretarial stint in Lok Saajnh annoyed many important Siraiki cadre like those from Mehrevala and Bahawalpur. Feeling the heat, Mazhar, a born introvert, adopted a behavior—'decide and act covertly and never share'. We have a good contrast in Siraiki cadre to grasp the problem: The Mehrevala-valas who work on the basis of strength of their close circle but keep crying “DOSTAIN DA EHSAAN E” (we are doing because friends are kind to us !). This also is an extreme, though a nice one. At contrast are fewer modeled in Mazhar Arif: He starts his talk with you: “Tainu pata e ?, keh pata e tainun?” (do you know ? what you know ?), a pomp inbuilt. This false self-perception of being ‘Mr. Know All’ results in endless effort to collect nitty-gritty to use it as power to to escape ACCOUNTABILITY. Mazhar Arif escaped accountability in a Vasaib which being in utter want, is highly critical, and this we will see soon. He deserted the Lok Sannjh, he boycotted all Siraiki activity for about 2 decades; he never joined any Siraiki event for about last 15 years xcept the one where he came to oppose Siraiki province. He exploited links with a non-Siraiki Multani Mirza sahib to make his way into presidency of Farooq Laghari, he preferred to stay with Farooq Laghari when BB’s government was dissolved by Laghari and Zardari sb was jailed—and now he is back to test potential of young Siraiki cadre—All decisions made by one's good-self; as if Siraiki movement is one’s personal pillow. It is not about the character of Mazhar Arif; it is about the dangerous fault line of Siraiki movement. Remember the wrong side of such a great people of Kashmir which was exploited during Zia’s rule; Once the Zia govt. learnt to make a brief list of opportunist few Kashmiris, they were always on call of Islamabad, rather the bunch came to live here. Azad Kashmir was kept starved of development; not a Penney was spent on the bridge connecting Azad Kashmir with Pakistan. And the majority of Kashmiris waited for the soul Bhutto to come back. [This rejoinder to Mazhar Arif is again for service of Siraiki movement except for one point: he asked me remember his 'good' things. One of his good among many I remember is: he walked extra miles in 2010 to go to BZU where I was candidate for job and pressed his influential friends there that "Wagha should sit at home" and was thereby rebuffed by a straightforward professor who asked him 'Mazhar sb, why did not you act upon your advice and stayed at home?'. This is just a bit out of total sum of his character as life friend] --continues - - - Ahsan Wagha مجھے احسن واہگہ سے سو اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن میں ان کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ " سچ " کو کبھی مارنا نہیں چاہئیے ، دوستی ، تعلق اپنی جگہ ، کسی کی زاتی خوبیاں اپنی جگہ لیکن اگر اس کا سماجی و سیاسی و دانشورانہ کردار آپ کی سیاسی ، سماجی ، قومی تحریک کو نقصان پہنچارہا ہے تو اس کی نشاندھہی ضرور ہونی چاہئیے ہمارے ہاں سیاست ، صحافت ، بارز اور ادب کی دنیا میں اسی سچائی کا زوال ہوا ہے اور ہم اپنے زاتی تعلقات کو خراب ہونے سے بچآنے کے لیے جو ںظریاتی و فکری کجی ہے اس سے چشم پوشی کرنے لگے ہیں اور پورے معاشرے کا زوال ہے کرپٹ ، بے ضمیر ، جھوٹے اور بے ایمان لوگ جن کے پاس دولت ، طاقت اور فرعونیت کی اکٹر سب کچھ ہے وہ اس صورت حال سے خوش ہیں کیونکہ ان کو یہ پتہ لگ کيا ہے کہ دائیں اور بائیں دونوں اطراف کے دانشور ، صحافی ، وکیل ، ٹریڈ یوننیسٹ ، شاعر ، طالب علم رہنما کوئی بھی بھوک کا عذاب ، الگ کردئے جانے جیسی صورت حال کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ہے ، جیل جانا ، معاشرے میں الگ تھلگ کردئے جانا اور پھر طرح طرح کی ازیتوں سے گزرنا اب پاکستان کے اندر " اہل قلم ، اہل صحافت ، اہل سیاست " کے بس کی بات نہیں رہی ، جو بھی ذھین دماغ ہے ، لفظ تراش سکتا ہو اسے " شاہ کا مصاحب " ہی بننا ہے یہ بہت تاریک منظر نگاری ہے جو میں نے کی ہے ، یہ اس لیے بھی کرنا پڑی کہ ابھی کچھ دن پہلے " پی پی پی جنوبی پنجاب " کے اجلاس میں ہر طرف مخدوم ہی مخدوم دیکھ کر اور یہ خبر پڑھ کر پہلی مرتبہ جیالوں نے کھانا تہذیب کے ساتھ کھایا دل میں ایک ٹیس سی اٹھی ، کیونکہ مخدوم ، جاگیردار ، وڈیرے ، سرمایہ دار " افتادگان خاک " کی حقوق مانگنے اور اور سیاسی لڑائی لڑنے کو " بدتہذیبی " گردانتے رہے ہیں ، پی پی پی نے سیاسی کارکنوں کو اپنی قیادت کے گریبان تک ہاتھ لیجانے اور ان کو کہٹرے میں کھڑا کرنے کی جو "ادا " سکھائی تھی وہ گیلانی ہاؤس اور رحیم یار خان میں جمال دین والی میں مخدوم ہاؤس میں جاکر " بدتہذیبی " ٹھہری ہے اور اب حبیب اللہ شاکر ، الطاف کھوکر ، مختار اعوان ، راؤ ساجد ، سلیم راجہ کو یہ " تہذیب " خود بھی سیکھنی ہے اور اوروں کو بھی سکھانی ہے ، رہے نام اللہ کا