Wednesday, February 25, 2015

کیا حزب اللہ کی وجہ سے پاکستان میں شیعہ نسل کشی ہوری ہے ؟


کیا حزب اللہ کی وجہ سے پاکستان میں شیعہ نسل کشی ہوری ہے ؟ عامر حسینی پاکستان میں پریس اور سوشل میڈیا میں جب " شیعہ نسل کشی " اور شیعہ امام بارگاہوں پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے اکثر جب بحث ہوتی ہے تو کئی ایک لوگ جو غیر جانبدار اور خود کو سیکولر ، لبرل یا معتدل مسلم دانشور ، صحافی ، تجزیہ نگار ظاہر کرتے ہیں شیعہ - سنّی بائنری کو مقدمہ اولی کے طور پر سامنے لیکر آتے ہیں اور یہ فرض کرکے آگے چلتے ہیں کہ پاکستان کے اندر " شیعہ نسل کشی " اصل میں سنّی آبادی کے قتل کا نتیجہ ہے جو ان کے خیال ميں شیعہ ملیشیا کررہی ہیں اور اس حوالے سے حال ہی میں سوشل میڈیا پر علامہ ایاز نظامی نے اسی مقدمہ کے ساتھ بحث چھیڑی اور انھوں نے اپنی تنقید کے جواز اور " شیعہ نسل کشی " کی تشریح کے لیے یہ مقدمہ پیش کیا کہ دیوبندی و سلفی دھشت گردتںظیموں القائدہ ، داعش ، ٹی ٹی پی ، جنداللہ ، لشکر جھنگوی اور اہلسنت والجماعت جیسی تنظیموں کا وجود حزب اللہ جیسی شیعہ تنظیم کے وجود کی وجہ سے ہے ان جیسے لوگوں کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ " حزب اللہ " شیعہ کی القائدہ ، جنداللہ ، لشکر جھنگوی ہے اور وہ ایسے ہی قتل عام ، نسل کشی کی مرتکب ہے جیسے سلفی و دیوبندی دھشت گرد تںطیميں ہیں میں حزب اللہ کے بارے ميں پھیلائے جانے والے اس صریح غلط اور مسخ کردہ پروپیگنڈے کو نظر انداز کردیتا اگر یہ پروپیگنڈا محمد احمد لدھیانوی ، ایمن الذھروی ، اورنگ زیب فاروقی کی جانب سے کیا جارہا ہوتا ، لیکن اس پروپیگنڈے کو مرے لیے نظر انداز کرنا اس لیے ممکن نہیں رہا ہے کیونکہ یہ ایسے لوگوں کی طرف سے کیا جارہا ہے جو خود کو سیکولر ، لبرل ، ملحد ، کیمونسٹ اور بعض اوقات لیفٹسٹ کہتے ہیں ، وہ خود کو جرات مند محقق کہتے ہیں ، ہمت کفر سے سرشار کہتے ہیں اور ان کا یہ دعوی ہے کہ وہ بہت بڑے صنم شکن ہیں چاہے وہ مذھب اور تقدیس کے نام پر کیوں نہ ہو لیکن حزب اللہ کے بارے میں وہ نہ تو غیر جانبدار رہے ، نہ ہی جرات تحقیق کے دعوے پر قائم رہے میں حزب اللہ کی آئیڈیالوجی سے اتفاق نہیں کرتا ہوں اور نہ ہی حزب اللہ کو لیفٹ کی تںظیم خیال کرتا ہوں لیکن اس کے بارے میں جن حقائق سے واقف ہوں ان کو اس مضمون ميں ضرور بیان کرنا چاہتا ہوں حزب اللہ جنوبی لبنان میں 1982ء کے اندر اس وقت تشکیل پانا شروع ہوئی جب یہآں پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا اور یہاں پر جنوبی لبنان لبریشن آرمی زوال پذیر ہوگئی تو اس خطے میں جوکہ شیعہ اکثریت کا علاقہ تھا " شیعہ گوریلہ " جن کی اکثریت کا پس مںظر لبنان کمیونسٹ پارٹی اور لبنانی بعث پارٹی کا تھا اسرائیل کے قبضے کے خلاف جدوجہد شروع کردی اور ان کے روابط ایسے شیعہ علماء سیاسی قیادت سے استوار ہوگئے جو ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ موسوی خمینی سے متاثر تھے اور ان کی مدد سے اور اس وقت باقی ماندہ لبنان میں موجود شامی آرمی کی اجازت سے 1500 ایرانی نیشنل گارڑ جنوبی لبنان پہنچے اور انھوں نے حزب اللہ کے گوریلوں کی تربیت شروع کردی ، حزب اللہ نے 1985ء میں باقاعدہ اپنے قیام کا اعلان کیا اور اس نے اعلانیہ اپنی تنظیم کے تین مقاصد بیان کئے اسرائیل قبضے کا لبنان سے خاتمہ فلسطین کی آزادی عرب حظے سے سامراجیت کا خاتمہ حزب اللہ نے ان مقاصد کے حصول کے لیے " شیعی اسلامی آئیڈیالوجی " کو اپنی بنیاد قرار دیا لیکن ساتھ ہی اس نے واضح کیا کہ اس کا مقصد لبنان میں بسنے والی سنّی ، دیروزی ، کرسچن ، لبرل ، سیکولر جمہوریت پسندوں کے خلاف جدوجہد نہیں ہے اور نہ ہی ان کی مذھبی آزادی پر کوئی قدغن لگانا مقصود ہے اور حزب اللہ کی آئیڈیالوجی ميں کسی ایک جگہ بھی تکفیر اہل السنہ ایجنڈے کے طور پر موجود نہ تھی 2004ء ميں جب اسرائیلی قبضہ ختم ہوا تو حزب اللہ نے فیصلہ کیا کہ وہ لبنان میں ایک سیاسی پارٹی کے طور پر کام کرے گی اور چونکہ ابھی تک اسرائیل سے سارے مقبوضہ علاقے آزاد نہیں ہوئے تو وہ اپنے عسکری ونگ جہاد کونسل کو باقی رکھے گی ، اس کے ساتھ ساتھ حزب اللہ نے اپنا سٹلائٹ ٹی وی چینل ، ریڈیو اسٹیشن ، اپنا شعبہ خدمت خلق اور پولیٹکل ونگ قائم کیا اور اس کا جو پولیٹکل ونگ تھا اس نے لبنان کی سیاست میں کسی تکفیری ، فرقہ پرست ایجںڈے کے ساتھ اور پروگرام کے ساتھ سیاست کا آغاز بھی نہیں کیا حزب اللہ لبنان کی سیاست میں ایک طرف کرونی کیپٹل ازم ، نیولبرل ازم ، اور نیولبرل سرمایہ دارانہ معاشی ایجنڈے کے خلاف سوشل ویلفئر پروگرام کے ساتھ سامنے آئی اور دوسری طرف اس نے لبنان کی خارجہ پالیسی کو امریکہ اور اس کے اتحادی سعودیہ عرب و گلف اسٹیٹس کے اثر سے آزاد کرانے کا ایجنڈا پیش کیا ، حزب اللہ مڈل ایسٹ میں بیرونی مداخلت کے زریعے سے حکومتوں کا تختہ الٹے جانے کے خلاف بھی واضح سوچ کے ساتھ سامنے آئی اور حزب اللہ نے لبنان سمیت پورے مڈل ایسٹ میں وہابیت کے پیسے اور اسلحے کے زور پر پھیلاؤ اور اس مہم کے نتيجے میں جنم لینے والی سلفی تکفیری جہادی تحریکوں کے خلاف ابتدائی طور پر خود کو محض فکری جدال تک محدود رکھا اور حزب اللہ نے اپنے ملٹری ونگ کو شام ، عراق ، بحرین کہیں بھی ملوث نہ کیا اور یہاں تک کہ لبنان کے اندر بھی اس نے سلفی وہابی تکفیری جہادیوں کے خلاف عملی لڑائی شروع نہ کی حزب اللہ کی لبنان کے اندر جو سیاسی لڑائی تھی وہ کبھی بھی فرقہ پرستانہ نہ رہی اور یہی وجہ تھی کہ جب لبنان میں اسرائیلی قبضے کے بعد لبنان میں اقتدار کی لڑائی شروع ہوئی تو حزب اللہ نے سولوفلائٹ نہ کیا بلکہ اس نے لبنان میں ایک وسیع پیمانے پر قوم پرستانہ ، ترقی پسند ، سوشل ڈیموکریٹ ، سامراج مخالف اور صہیونیت مخالف سیاسی اتحاد تشکیل دینے کی طرف قدم بڑھایا اور اس کی کوششوں سے لبنان میں 8مارچ اتحاد سامنے آیا جس کے پاس لبنان کی اسمبلی میں 68 نشستیں اس وقت بھی موجود ہیں اور یہ اتحاد لبنان کے نمآئندہ سنّی ، سیکولر ، شیعہ ، کتھولک و پروٹسٹنٹ کرسچن ، دیروزی، آرمینی اور علوی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے اس اتحاد میں سنّی لبنانیوں کی دو بڑی پارٹیاں جن میں التنظیم الشعبی الناصری اور حرکۃ المجد (جس کے سربراہ نجیب مکاتی عبوری وزیراعظم بھی بنے ) شامل ہیں جبکہ اس میں لبنان کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی حزب اللبعث الاشتراکی العربی ، معروف سیکولر پارٹی الحزب السوری القومی الاجتماعی بھی شامل ہے جبکہ میرونائٹس کرسچن کی نمائندہ تنظیم حزب التضامن ، یونانی کتھولک کرسچن کی پارٹی کتلۃ سکاف ، علوی شیعہ کی نمائندہ پارٹی الحزب الدیمقراطی اور آرمینی آبادی کی نمآئندہ الطاشناق ، میرونائٹ کرسچن کی ایک اور پارٹی التیار الوطنی الحر ، شیعہ پارٹی حرکۃ امل اور دیروزی کی الحزب الدیمقراطی اللبنانی شامل ہیں اور اس بلاک کے پاس 68 نشتیں ہیں اور کابینہ میں اس کی نمآئندگی بھی نمایاں ہے اگست 2008ء میں لبنان کابینہ نے متفقہ طور پر ایک معاہدے کی منظوری دی جس میں حزب اللہ کو اس کے ملٹری ونگ کو باقی رکھنے اور مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کا حق رکھنے کی اجازت دی گئی لبنان میں فیوچر پارٹی کی قیادت میں بننے والا جو دوسرا حریف اتحاد ہے وہ تحالف 14 آزار یعنی مارچ 14 کے نام سے معروف ہے اور اس کی سب سے بڑی پارٹی فیوچر پارٹی یعنی التیار مستقبل ہے جس کے سربراہ سعد حریری ہیں جو رفیق حریری کے بیٹے ہیں اور فیوچر پارٹی لبنان کے بڑے سرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور اسے آپ لبنان کی مسلم لیگ نواز بھی کہہ سکتے ہیں اور اس پارٹی کے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں جبکہ اس پارٹی کے آل سعود کے ساتھ بھی گہرے رشتے ہیں اور یہ فیوچر اتحاد کہا جاتا ہے کہ امریکی ایڈمنسٹریشن نے مارچ 8 اتحاد کا لبنان میں اقتدار میں آنے کا راستہ روکنے کے لیے بنایا تھا ، اس اتحاد میں سلفی وہابی تنظیم جماعۃ الاسلامیہ بھی شامل ہے جس کو مغربی پریس سنّی تںظیم لکھتا ہے ،جبکہ یہ تںظیم اصل میں اخوان المسلمون سے متاثر ہونے والے سلفی ملاّ فتح یکن نے تشکیل دی تھی جوکہ پیدا تریپولی میں ہوا تھا اور اس نے سعودی امداد سے لبنان کے اندر ایک سلفی یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھی اور لبنان میں یہ تنظیم عرب قوم پرستوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی تھی ، آج بھی یہ تںظیم سرمایہ دار نیولبرل بلاک اور سعودی بلاک میں شامل ہے جبکہ فیوچر پارٹی کی لیڈرشپ وہ ہے جس کا اسرائیل کے لبنان پر قـبضے دوران کئی مزاحمتی کردار نہیں رہا ہے ۔ لبنانی معاشرے میں حزب اللہ کبھی بھی سنّی آبادی یا ان کی مساجد پر حملوں میں ملوث نہیں ہوئی اور نہ ہی لبنانی سماج میں کبھی اسے القائدہ ، جنداللہ ، داعش یا کسی اور طرح کی وہابی تکفیری دھشت گرد تںظیموں کی طرح دیکھا گیا ، اگرچہ سعودی عرب ، امریکی و مغربی میڈیا اسے شیعہ دھشت گرد تںظیم کے طور پر پیش کرتا رہا لیکن لبنان میں مارچ 8 الائنس کی کامیابی اور وہاں پر نسلی و مذھبی اعتبارسے متنوع سیاسی قوتوں اے ساتھ حزب اللہ کے اتحاد نے اس پروپیگنڈے کو رد کردیا بلکہ مارچ 14 میں شامل پروگریسو سوشلسٹ پارٹی نے مارچ 2011ء میں اس اتحاد کو چھوڑ دیا اور مارچ 8 اتحاد میں شامل ہوگئی ، مارچ 14 میں ایک اور پارٹی کتائب پارٹی بھی شامل ہے جس کا لیڈر امریکی حکومت کا دم چھلّہ سمجھا جاتا ہے اور مارچ 14 الائنس کی پوری انتخابی مہم میں شام کے اندر جاری سول وار میں سعودی کیمپ کی حمائت ، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا ایشو سرفہرست رہا لیکن اس ایجنڈے پر مارچ 14 الائنس ناکام رہا تو اگر حزب اللہ اگر لبنان کی کوئی سپاہ صحابہ پاکستان طرز کی پارٹی ہوتی یا وہ القائدہ جیسی تنظیم ہوتی تو کیا لبنانی سیاست کے مرکزی دھارے میں اس کی کامیابی انتخابی سیاست میں ایسے مکمن ہوپاتی جیسے ہمیں ںظر آرہی ہے حزب اللہ نے اپنے نظری اور عملی جدوجہد کے دائرے میں گذشتہ دو سالوں میں یہ اضافہ کیا ہے کہ وہ لبنان سمیت پورے مڈل ایسٹ میں " تکفیری عسکریت پسندی " کے خلاف بھی کھل کر میدان میں آگئی ہے اور اس نے شام کے اندر جاری لڑائی میں اس وقت شامل ہونے کا اعلان کیا جب لبنان کی جنوبی سرحد کے ساتھ ملحقہ علاقوں ميں تکفیری دھشت گرد تںظیم جبھۃ النصرہ اور داعش کے قدم جمنے لگے اور یہ صاف نظر آنے لگا کہ اگر ان کی پیش رفت کو نہ روکا گیا تو وہ جنوبی لبنان میں داخل ہوجائیں گے ، حزب اللہ شام ، عراق میں جاری تکفیری جنگ کو صہیونی - وہابی سازش قرار دیتی ہے اور اس کے خلاف اس نے نہ صرف حزب اللہ کے شیعہ گوریلوں کو لڑنے شام بھیجا ہے بلکہ اس نے حزب اللہ کے عسکری ونگ میں سنّی ، دیروزی ، کرسچن اور آرمینی باشندوں کو بھی شامل کیا ہے اور اس حوالے سے ایک مفصل رپورٹ خود سعودی عرب کے سرکاری میڈیا نیٹ ورک العربیہ نیوز ڈاٹ کام نے 13 نومبر 2014ء کو شایع کی حزب اللہ کی جانب سے بشار الاسد کی مدد کے لیے فوجی مدد نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی اور اس مداخلت نے شام کے اندر داعش اور جبھۃ النصرہ سمیت سلفی تکفیری جہادیوں کے بڑھتے قدم نہ صرف روکے بلکہ شیعہ ، سنّی ، کرد ، کرسچن آبادیوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام کا منصوبہ بھی رک گیا ، اس حوالے سے معروف صحافی رابرٹ فسک کے مراسلے 2012ء سے 2014ء تک پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور پیٹرک کوک برن کے مضامين اور " جہادیوں کی واپسی " کتاب بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے سعودیہ عرب سے جڑی انٹیلیجنٹیسیا اور امریکہ کے اندر بیٹھی ایک بڑی سامراجی پلٹن شیعہ نسل کشی کے بارے میں جن مغالطوں اور جھوٹ کو " سچ " بناکر دکھاتی ہے ان میں سے ایک بڑا مغالطہ اور جھوٹ یہ ہے کہ اس نسل کشی کو دو طرفہ جنگ میں ہونے والا نقصان بناکر دکھایا جائے اور اس دوران یہ صاف چھپالیا جاتا ہے کہ سلفی و دیوبندی دھشت گرد گروپ صرف شیعہ نسل کشی میں ہی ملوث نہیں ہیں بلکہ وہ سنّی آبادی کے قتل اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں میں بھی پوری طرح سے شریک ہیں پاکستان کے اندر تو ایسی کوئی حزب اللہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے اس کے باوجود دور کی کوڑی لائی جاتی ہے اور کسی نا کسی طریقے سے شیعہ نسل کشی کے جواز کو ثابت کرنے اور یہاں پر سنّی آبادی کی دیوبندی دھشت گردوں کے ہاتھوں قتل اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں کو چھپانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے تاکہ کسی بھی طرح سے سنّی - شیعہ بائنری کو درست ثابت کیا جائے ، اس طرح کے مذموم پروپیگنڈے سے نام نہاد روشن خیالوں اور نام نہاد ملحدوں کی جرات تحقیق کا پول بھی کھل جاتا ہے

No comments:

Post a Comment