Sunday, February 1, 2015

طاعون زدہ معاشرہ - جہاں " دانش برائے فروخت " ہے


اتوار یکم فروری ،2015ء کو روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر جناب ضیاء شاہد کا کالم پڑھا جس میں انھوں نے سابق گورنر چودھری سرور کے استعفی کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کئ‏ی بار لکھا کہ پاکستانی سماج جھوٹ کی دلدل ہے یہاں زیادہ اور پورا سچ کسی کو ہضم نہیں ہوتا ، اب یہ اتفاق ہی ہے کہ ایسا ہی ایک اور کالم حامد جلال نے بھی اپنی یادداشتوں کے سہارے مرتب کرڈالا کہ کیسے زمانہ طالب علمی سے عملی دنیا تک آتے آتے قدم قدم پر سفارش ، رشوت ، دھونس ، دھاندلی کے نظارے انھوں نے کئے میں اس سارے سلسلہ اتفاقات پر اس لیے بھی حیران تھا کہ ابھی 23 جنوری 2015ء کی شام ہم نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخ کے تحت حلقہ ارباب زوق کے سابق صدر و معروف شاعر ، صحافی احمد فرید کے ساتھ منائی جو بیس سال بعد واپس شہر لوٹے تو انہوں نے ماضی کی یادوں کو گھنگالنا شروع کیا اور مجھے کہنے لگے کہ ان کے محلے میں این ایس ایف پنجاب کے جنرل سیکرٹری شفقت منیر ان کے ہمسائے تھے اور ان کے ہاں سے انھوں نے فیض ، ساحر ، منٹو ، علی سردار جعفری کو اواغل عمری میں پڑھ ڈالا اور ضیاء کے تاریک مارشل لائی دور میں معراج محمد خان ،فتح یاب علی خان ، افراسیاب خٹک ، اقبال حیدر سے ترقی پسندی کے بہت سے دروس سنے ، شفقت منیر نے ان کو درس دیا کہ دنیا میں کمٹمنٹ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی احمد فرید نے کہا کہ میں جو تانگا چلانے والے کالا بابا کا بیٹا تھا نے اس نصحیت کو پّلے باندھ لیا اور پھر لاہور ، کراچی ، اسلام آباد پاکستان کے نامور اخبارات ، ٹی وی چینل میں بہت سی نوکریاں کرتے ہوئے کئی مواقع ملنے کے باوجود کمٹمنٹ سے چمٹا رہا ، اس دوران اس کے کئی دوست احمد فراز ، ابو شیراز وغیرہ این جی او کے سیلاب میں بہہ گئے اور کئی ایک نے حاکموں کے لیے اپنے قلم مختص کرڈالے اور کئی سیاسی ورکر حلقہ بگوش زرداری و نواز شریف ہوگئے ، میں کمٹمنٹ سے جڑا رہا ، ایک دن مجھے "شفقت منیر " کا خط ملا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ عزیزم احمد فرید ! میں نے سنا ہے کہ تم آج بھی " کمٹمنٹ " کی گردان کرتے ہو ، دیکھو اس سے چو۔۔۔۔یا شئے دنیا میں اور کوئی نہیں ہے ، اسے تیاگ دو اور یہاں اسلام آباد آؤ ، مرے پاس این جی او کی ایک بہت پرکشش جاب تمہارے لیے ہے " احمد فرید نے کہا کہ اس خط کو پڑھنے کے بعد چھناک سے کوئی شئے مرے اندر ٹوٹ گئی میں اس واقعہ سے تھوڑا اثر پذیر ہوا اور زرا فنتاسی کے ساتھ ایک افسانہ " کمٹمنٹ " کے ساتھ لکھا اور اسے فیس بک پر ڈال ڈیا ، اس افسانے پر کمنٹس میں ہی استاد سالک واردر ہوئے اور انھوں نے کہا کہ شفقت تو بہت رحمدل آدمی تھا کہ اس نے اپنے حالات کو سمجھوتے بازی سے بدلنے کے بعد اپنے دوستوں اور شاگردوں کو یاد رکھا اور ان کو نوکری کی پیشکش بھی کی (ویسے شفقت زاتی زندگی میں بہت ہی رحمدل اور مصیبت میں کام آنے والوں میں سے ہیں اور میں زاتی طور پر اس بات سے واقف ہوں ) لیکن ملتان میں جہاں آج کل علی بابا آئس کریم بنی ہوئی ہے اس کے اوپر ایک دفتر ہوا کرتا تھا وہاں عزيز نام کا ایک سیاسی دانشور کارکن تھا جس نے ساری زندگی " کمٹمنٹ " کے ساتھ گزاری اور کمالیہ سے آنے والا ایک جولاہا کے بیٹے سمیت کئی ایک نوجوانوں کو سیاسی شعور سے آراستہ کرتا رہا اور وہ جولاہے کا بیٹا این ایس ایف کا مرکزی صدر بنا اور پھر وہ ملتان کی پاور پالیٹکس کی نذر ہوگیا ، سنا ہے لاہور ہائی کورٹ بہاول پور بنچ کا کچھ عرصہ صدر بھی رہا اس نے پھر پلٹ کر انے محسنوں کی خبر نہیں لی ، ایک امیر زادہ محمود نواز بابر بھی غریبوں کے بچوں کو انقلابی بننے اور بغاوت کے دروس دیتا رہا اور پھر وہ بھی دوبارہ اپنے طبقے کی طرف چلا گیا اور " کمٹمنٹ " اس کے ہآں بھی بے معنی شئے بن گئی استاد سالک نے ایک بہت عجیب بات اس دوران یہ کہ " کمٹمنٹ " کے سراب میں گھرے ان لوگوں میں ایک جاگیردار گھرانے کا بیٹا بہادر خان سہیڑ تھا جو سوشلسٹ گروپ کا یونیورسٹی میں حصّہ ہونے کے ابوجود کہتا تھا کہ بھئی میں نے تعلیم سے فارغ ہوکر الیکشن لڑنا ہے اور پاور کوریڈور میں جانا ہے ، پھر نہ مجھے طعنے دینا شروع کردینا استاد سالک کہتے ہیں کہ اس حوالے سے وہ جاگیردار بہادر خان سہیڑ مجھے ان سب میں زیادہ ایماندار لگا میں بائيں بازو کے اکثر سابق طالب علم کارکنوں اور دانشوروں کو جانتا ہوں کہ وہ زاتی زندگی میں آج بھی اپنے ساتھیوں اور پرانے رفقا کا خیال کرتے ہیں ، حبیب اللہ شاکر دوستوں کے مشکل وقت میں کام آتے ہیں اور ایسے کئی اور دوست شیخ یوسف سابق یونین جنرل سیکرٹری اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور ، ملک امجد ایڈوکیٹ فیصل آباد والے ، درجنوں نام مرے ذھن میں ہیں ، لیکن غریب ، نچلے متوسط طبقے سے آنے والے یہ بہت سارے لوگ " نظریات اور افکار " کے حوالے سے آج نہ " سرخ " ہیں اور نہ ہی " سبز " یہ ان کے درمیان کی کوئی چیز ہیں اور درمیان میں ہمیشہ موقعہ پرستی اور لینن نے جو کاوتسکی کو " غدار کاؤتسکی " کا لقب دیا تھا اسی قسم کی چیز ہوا کرتی ہے ، یہ لوگ اچھے صحافی ، اچھے ادیب ، اچھے وکیل ، اچھے سیاسی کارکن ، سول سوسائٹی کے بہترین ایکٹوسٹ تو ہیں لیکن سسٹم میں یہ سسٹم کو تلپٹ کرکے " انقلاب " لانے والے ہرگز نہیں ہیں بلکہ جن کو یہ استحصالی ، جاگیردار ، سرمایہ دار ، موقعہ پرست مڈل کلاس کا نمائندہ کہتے تھے اور جن طبقات کے خلاف لڑائی کرنے نکلے تھے انھی کے سامنے سرنگوں ہوئے اور ان کی " مہربانیوں " سے اپنا حال بہتر اور مستقبل محفوظ بنا پائے مرے سامنے اپریل 1986ء کے کئی اردو اخبارات کے تراشے پڑے ہیں ، یہ تراشے ایک بوری میں ٹھونسے گئے اس ريکارڑ سے مجھے ملے جو قومی محاذ آزادی کے اس وقت کے ترجمان روزی خان نے ایک لیفٹ پارٹی کے دفتر لاکر پھینک دیا تھا ، اس میں حبیب اللہ شاکر ، سینٹر اقبال حیدر ، پرویز صالح ، علمدار کاظمی ، سید امیر حیدر کاظمی مرحوم کے کئی ایک بیانات لگے ہوئے ہیں ، جن کا لب لباب یہ بنتا ہے کہ قومی محاز آزادی ایک چھوٹی پارٹی ہے جس کے پلیٹ فارم پر "عوام " نہیں ہیں ، پی پی پی ماس کی پارٹی ہے ہم وہاں جاکر " انقلاب اور تبدیلی " کے پیغام کو بزے پیمانے پر پھلا سکیں گے ایک خبر روزنامہ جنگ نے شایع کی ہوئی ہے کہ لاہور میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے قومی محاز آزادی سمیت کئی ایک لیفٹ پارٹیوں کے سرکردہ رہمناؤں کی ملاقاتیں ، پی پی پی میں شمولیت کا اعلان ایک اخبار نے ایک اور سرکردہ کراچی کے مہان بائیں بازو کے لیڈر ڈاکٹر ظفر عارف کی مسلم لیگ نواز مین شمولیت کی خبر شایع کی اور لکھا کہ لیفٹ کے کئی ایک لیڈر صنعتکار نواز شریف کو جاگيردارنی بے ںظیر بھٹو پر ترجیح دیتے ہوئے مسلم لیگ نواز میں شامل ہونے کا سوچ رہے ہیں ، ویسے این ایس ایف کا سرکردہ لیڈر پرویز رشید آج نواز شریف کی ناک کا بال بنا ہوا ہے یہ المیہ صرف بائیں بازو کے کارکنوں کے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ شاہنواز فاروقی اور عبدالکریم عابد مرحوم سابق ایڈیٹر روزنامہ جسارت نے کئی ایک جگہ لکھا کہ جمعیت اور جماعت کے کئی ایک سرکردہ رہنماء 80ء کی دھائی میں پاور پالیٹکس کی نذر ہوگئے اور پھر واپس نہیں پلٹے ابھی ایک کھلا خط احسن واہگہ کا سوشل میڈیا میں گردش کررہا ہے جو انھون نے استاد فدا حسین گاڈی کی برسی کے حوالے سے " سرائيکی قومی تحریک " کو موقعہ پرستی سے پہنچنے والے نقصانات کے حوالے سے لکھا جس کو میں جوں کا توں درج کررہا ہوں Shahryar Taunsavi, You have very kindly printed Mazhar Arif's letter to me. Also please take my letter to All. Recently, Mazhar Arif sb preferred to get boost by dragging Rauf Kalasra the freelance journalist, actually our ‘Siraiki Asset’, brother of a late, and great friend thus an AZEEZ to us all, in Siraiki movement. Few years back, in 2005 probably, Mazhar sb had preferred to call “creation Siraiki province, creation of one more Israel”. This he admits even today but with a lame excuse. His recent venture worried me on two counts: First, Rauf is a bit too big person to fit in the vulnerable Siraiki movement. Only the other day he made a stunt in a TV show that a Rtd. Gen. , Ex Chief of the most important national institution told him “TALIBAN are our men”. No one questioned Rauf as ‘on whose orders, you refrained from making it public at that time? And on whose orders, are you making it public now ? ?’ No one can have objection on Rauf’s kind attention to Siraiki movement but the consequences also be in mind. Second, someone has to give alert to our young Siraiki activists that persons with high stakes like Mazhar Arif sb and Rauf Kalasra sb can do anything to your Siraiki movement as they have done to many things. I threw some comment about it on the ‘available to all’ media i.e. Facebook. Mazhar Arif sb, wrote a letter of resentment to me through you aka Shahryar Taunsavi aka Community pictures. This motivated me to write about the part of the Siraiki movement namely Siraiki Lok Saanjh which I remained part of, and for the reason that events cannot be told without telling about individuals, I will have to tell about a couple of men, mainly Mazhar Arif sb, Fida Husain Khan Gadi; the first really proved to be the dark shadow of a ‘light house’ i.e. the second. If civility and Truth come face to face, one should prefer the later. Hiding, or holding truth is one thing but killing truth is not good. Rightly we have been relishing the ‘All is good’ feature of Siraiki civilization. ‘Rightly’ in the sense that avoiding untimely conflict helps saving energies of your movement. But some of us, like Ashiq Khan Buzdar took this “All is good” notion for ‘Always good’ interpreting it as part of Sufism. If all is good then why not domination of Punjab is good? The oppotunism of the like Mazhar Arif was also tolerated by friends under this lesson of ‘All is good.” Tendency of resignation among the men with self respect, like our Siraiki researcher Akram Mirani sb although promotes the polite Siraiki behavior, it causes bigger loss of encouraging the pompous beings like me and Mazhar Arif sb. I don’t know much about me, but Mazhar’s opportunism and his snobbishness during his Secretarial stint in Lok Saajnh annoyed many important Siraiki cadre like those from Mehrevala and Bahawalpur. Feeling the heat, Mazhar, a born introvert, adopted a behavior—'decide and act covertly and never share'. We have a good contrast in Siraiki cadre to grasp the problem: The Mehrevala-valas who work on the basis of strength of their close circle but keep crying “DOSTAIN DA EHSAAN E” (we are doing because friends are kind to us !). This also is an extreme, though a nice one. At contrast are fewer modeled in Mazhar Arif: He starts his talk with you: “Tainu pata e ?, keh pata e tainun?” (do you know ? what you know ?), a pomp inbuilt. This false self-perception of being ‘Mr. Know All’ results in endless effort to collect nitty-gritty to use it as power to to escape ACCOUNTABILITY. Mazhar Arif escaped accountability in a Vasaib which being in utter want, is highly critical, and this we will see soon. He deserted the Lok Sannjh, he boycotted all Siraiki activity for about 2 decades; he never joined any Siraiki event for about last 15 years xcept the one where he came to oppose Siraiki province. He exploited links with a non-Siraiki Multani Mirza sahib to make his way into presidency of Farooq Laghari, he preferred to stay with Farooq Laghari when BB’s government was dissolved by Laghari and Zardari sb was jailed—and now he is back to test potential of young Siraiki cadre—All decisions made by one's good-self; as if Siraiki movement is one’s personal pillow. It is not about the character of Mazhar Arif; it is about the dangerous fault line of Siraiki movement. Remember the wrong side of such a great people of Kashmir which was exploited during Zia’s rule; Once the Zia govt. learnt to make a brief list of opportunist few Kashmiris, they were always on call of Islamabad, rather the bunch came to live here. Azad Kashmir was kept starved of development; not a Penney was spent on the bridge connecting Azad Kashmir with Pakistan. And the majority of Kashmiris waited for the soul Bhutto to come back. [This rejoinder to Mazhar Arif is again for service of Siraiki movement except for one point: he asked me remember his 'good' things. One of his good among many I remember is: he walked extra miles in 2010 to go to BZU where I was candidate for job and pressed his influential friends there that "Wagha should sit at home" and was thereby rebuffed by a straightforward professor who asked him 'Mazhar sb, why did not you act upon your advice and stayed at home?'. This is just a bit out of total sum of his character as life friend] --continues - - - Ahsan Wagha مجھے احسن واہگہ سے سو اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن میں ان کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ " سچ " کو کبھی مارنا نہیں چاہئیے ، دوستی ، تعلق اپنی جگہ ، کسی کی زاتی خوبیاں اپنی جگہ لیکن اگر اس کا سماجی و سیاسی و دانشورانہ کردار آپ کی سیاسی ، سماجی ، قومی تحریک کو نقصان پہنچارہا ہے تو اس کی نشاندھہی ضرور ہونی چاہئیے ہمارے ہاں سیاست ، صحافت ، بارز اور ادب کی دنیا میں اسی سچائی کا زوال ہوا ہے اور ہم اپنے زاتی تعلقات کو خراب ہونے سے بچآنے کے لیے جو ںظریاتی و فکری کجی ہے اس سے چشم پوشی کرنے لگے ہیں اور پورے معاشرے کا زوال ہے کرپٹ ، بے ضمیر ، جھوٹے اور بے ایمان لوگ جن کے پاس دولت ، طاقت اور فرعونیت کی اکٹر سب کچھ ہے وہ اس صورت حال سے خوش ہیں کیونکہ ان کو یہ پتہ لگ کيا ہے کہ دائیں اور بائیں دونوں اطراف کے دانشور ، صحافی ، وکیل ، ٹریڈ یوننیسٹ ، شاعر ، طالب علم رہنما کوئی بھی بھوک کا عذاب ، الگ کردئے جانے جیسی صورت حال کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ہے ، جیل جانا ، معاشرے میں الگ تھلگ کردئے جانا اور پھر طرح طرح کی ازیتوں سے گزرنا اب پاکستان کے اندر " اہل قلم ، اہل صحافت ، اہل سیاست " کے بس کی بات نہیں رہی ، جو بھی ذھین دماغ ہے ، لفظ تراش سکتا ہو اسے " شاہ کا مصاحب " ہی بننا ہے یہ بہت تاریک منظر نگاری ہے جو میں نے کی ہے ، یہ اس لیے بھی کرنا پڑی کہ ابھی کچھ دن پہلے " پی پی پی جنوبی پنجاب " کے اجلاس میں ہر طرف مخدوم ہی مخدوم دیکھ کر اور یہ خبر پڑھ کر پہلی مرتبہ جیالوں نے کھانا تہذیب کے ساتھ کھایا دل میں ایک ٹیس سی اٹھی ، کیونکہ مخدوم ، جاگیردار ، وڈیرے ، سرمایہ دار " افتادگان خاک " کی حقوق مانگنے اور اور سیاسی لڑائی لڑنے کو " بدتہذیبی " گردانتے رہے ہیں ، پی پی پی نے سیاسی کارکنوں کو اپنی قیادت کے گریبان تک ہاتھ لیجانے اور ان کو کہٹرے میں کھڑا کرنے کی جو "ادا " سکھائی تھی وہ گیلانی ہاؤس اور رحیم یار خان میں جمال دین والی میں مخدوم ہاؤس میں جاکر " بدتہذیبی " ٹھہری ہے اور اب حبیب اللہ شاکر ، الطاف کھوکر ، مختار اعوان ، راؤ ساجد ، سلیم راجہ کو یہ " تہذیب " خود بھی سیکھنی ہے اور اوروں کو بھی سکھانی ہے ، رہے نام اللہ کا

No comments:

Post a Comment