Thursday, September 25, 2014

مڈل ایسٹ - وہابی مذہبی اسٹبلشمنٹ ، واشنگٹن اور اخوان المسلمون - دوسرا حصّہ


پہلی جنگ عظیم کے ساتھ ہی عرب معاشرے موجودہ بحران کے طویل ترین دور میں داخل ہوگئے جو اب تک چل رہا ہے اور اس بحران نے نوآبادیاتی / سامراجی غلبوں سے جنم لینے والے بحرانوں اور دوسرے بڑے بحران جو سرمایہ داری کے بڑے مراکز میں پیدا ہورہے تھے کے ساتھ اپنی جگہ بنائی پہلی جنگ عظیم اور اس کے پیچھے ، پیچھے چلے آنے والے انقلابی ابھار نے اس دو جہتی بحران کو دن کی روشنی میں لاکھڑا کیا اور دوسری جنگ عظیم کے زریعے سرمایہ داری نظام اس بحران کے نازک ترین دور کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا لیکن اس سرمایہ داری نظام کے بڑے مراکز سے دور حاشئے پر جو خطے اور زون واقع تھے وہاں پر ڈویلپمنٹ سست رہی اور دنیا کا نظام ایسی سامراجی معشیتوں کے ڈھانچے پر مشتمل ہوگیا جس میں حاشئے پر موجود زون میں ترقی کی سست رفتاری معمول سمجھ لی گئی سرمایہ داری نظام کے حاشیوں پر جو علاقے تھے وہاں پر صنعت کاری کی سست رفتاری کو ختم کرنے کے لیے 20 ویں صدی میں بہت سے ریڈیکہ تجربات بھی ردعمل کے طور پر سامنے آئے ایک رد عمل کمیونسٹ تحریک کی شکل میں سامنے آیا ، اور کئی ایک ملکوں میں کمیونسٹ پارٹیوں نے اقتدار پر قبضہ کیا ، پیداوار کے سماجی زرایع کی نجی ملیکت ختم کردی اور یہ انقلاب ان کمیونسٹ پارٹیوں نے پرولتاریہ (جس مراد اجرتی مزدور اور وہ جو اجرتی مزدور بننے جارہے تھے ہیں) اور کسانوں کی مدد سے برپا کیا اور ان پارٹیوں نے بیوروکریٹک موڈ آف پروڈکشن کو جنم دیا جس میں صنعتیں اور حکومت پارٹی کے عہدے داران چلاتے تھے اور اس بیورکریٹک مشین نے بنیادی صنعتوں کی تشکیل کی ،اگرچہ یہ کوالٹی کے ایشو کو حل نہ کرسکے اوریہ ماڈل صرف وہیں بچ سکا جہاں اس نے سرمایہ داری سے مفاہمت کی راہ نکالی اور اس طریقے کا انجام آخرکار سرمایہ دارانہ موڈ آف پروڈکشن کے احیاء کی شکل میں برآمد ہوا -اس میں سوویت یونین کی " نیو اکنامک پالیسی " سے لیکر چین کی مکس معشيت کے تجربات شامل ہیں عرب خطّے میں سویت یونین کے بیوروکریٹک ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے ریاستی سرمایہ داری کے طریقہ پیداوار کو اس وقت صنعت کاری کو تیز کرنے کے لیے اپنایا گیا جب یہاں نیشنلسٹ ، پاپولسٹ فوجی افسروں یا نیشنلسٹ و پاپولسٹ فوجی افسروں اور نیشنلسٹ پارٹیوں کے ساتھ ملکر بونا پارٹ حکومتیں قائم ہوئیں لیکن ان بونا پارٹ حکومتوں نے پیداوار کے سماجی زرایع کی نجی ملکیت کا خاتمہ نہ کیا ان کو قائم رکھا جبکہ پیٹی بورژوازی کی پروپرائٹرشپ کو بھی ختم نہ کیا ، اس کی وجہ سے بونا پارٹ حکومتیں ایک اور نئی قسم کی بورژوازی پیدا کرنے کا سبب بن گئیں اور یہ حکمرانوں کے ساتھ گھل مل گئی اور اقرباء پرور ریاستی بورژوازی سامنے آگئی تیسری دنیا میں یہ جو سرمایہ داری ںظام کی گماشتہ شکل سامنے آئی ، جس نے کمپراڈور سرمایہ دار طبقے کو جنم دیا اور جس کی وجہ سے تیسری دنیا کے ملکوں میں وہ قومی بورژوازی انقلابات بھی نہ آئے جیسے یورپ میں آئے تھے تو اس کے خاتمے کے لیے جہاں ہم نے نیشنلسٹ ، کمیونسٹ ، لیفٹ ریڈیکل پاپولسٹ ردعمل دیکھے وہیں اس کے ردعمل میں رجعتی ردعمل بھی دیکھنے کو ملّا اور یہ رجعتی عمل ہمیں تیسری دنیا کے معاشروں میں شہری ، نیم شہری صنعتی علاقوں میں پنپتا نظر آيا اور مڈل ایسٹ میں بھی ایسے شہری و نیم شہری مراکز موجود تھے جوکہ اسلام کا مرکز بھی تھے گلبرٹ آشکار کے بقول ایسی سماجی تشکیل ان یوروپی معاشروں ميں بھی موجود تھی جہاں سرمایہ داری زرا دیر سے پہنچی اور پوری طرح سے بالغ نہیں ہوئی تھی اور ان یوروپی معاشروں مين روائتی پیٹی بورژوازی پرتیں موجود تھیں جن کو "مڈل کلاس " کی اصطلاح سے گڈ مڈ کرنا نہيں چاہئیے بلکہ یہ اصطلاح تو بورژوازی ( سرمایہ دار ) خود گمراہ کرنے کے لیے ڈیزائن کرتے ہیں -تو جب یوروپی سماج عظیم سرمایہ دارانہ ٹرانسفارمیشن کے دور سے گزرے تو یہ روائتی پیٹی بورژوازی پرتیں زوال پذیر اور تباہ ہونے لگیں کارل مارکس اور اینگلس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں ایسی پیٹی بورژوازی پرتوں کے بارے میں لکھا تھا The lower strata of the middle class — the small tradespeople, shopkeepers, and retired tradesmen generally, the handicraftsmen and peasants — all these sink gradually into the proletariat, partly because their diminutive capital does not suffice for the scale on which Modern Industry is carried on, and is swamped in the competition with the large capitalists, partly because their specialised skill is rendered worthless by new methods of production. Thus the proletariat is recruited from all classes of the population. The lower middle class, the small manufacturer, the shopkeeper, the artisan, the peasant, all these fight against the bourgeoisie, to save from extinction their existence as fractions of the middle class. They are therefore not revolutionary, but conservative. Nay more, they are reactionary, for they try to roll back the wheel of history. If by chance, they are revolutionary, they are only so in view of their impending transfer into the proletariat; they thus defend not their present, but their future interests, they desert their own standpoint to place themselves at that of the proletariat. عرب خطّے میں وہ تحریک جس نے گماشتہ سرمایہ داری سے جنم لینے والے بحران کا ردعمل رجعتی شکل میں دیا اور تاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے کی کوشش کی اسے عمومی طور پر " مسلم بنیاد پرستی " کہا جاتا ہے (آگے چل کر ہم بتائیں گے کہ کیسے جسے مسلم بنیاد پرستی کہا جاتا ہے اس کی فکری تشکیلات میں وہابی ازم نے کس قدر حصّہ لیا ) اسلامی بنیاد پرستی اسلامی تاریخ کو دیومالائی اور یوٹوپیائی شکل دیکر اس کے ابتدائی ادوار کو " سنہری دور " میں بدلتی ہے اور اس گھڑے ، گھڑائے سنہری دور کی طرف واپسی کی طرف بلانے کا کام کرتی ہے عرب خطّے میں بھی اس رجعتی تحریک کی جڑیں روائتی دانشوروں ، درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے اساتذہ ، طلباء اور دیگر لبرل پیشوں سے جڑے درمیانے طبقے کے لوگوں کے اندر تھیں اس رجعتی ردعمل کا ایک اظہار تو نجد کے خطے سے اٹھنے والی وہابی تحریک تھی جبکہ دوسرا ردعمل مصر میں بہت مربوط طریقے سے اخوان المسلمون کی شکل میں سامنے آیا اخوان المسلمون 1928ء میں قائم ہوئی ، یہ اسلامی بنیاد پرستی پر مبنی پروگرام کے ساتھ جدید سیاسی شکل میں سامنے آنے والی تنظیم تھی اور مصر میں رجعتی ردعمل کا اظہار تھی جس نے عرب خطّے کی رجعتی سیاست کو نجد وحجاز پر قابض ہوجانے والی وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ملکر ایک واضح شکل و صورت دی پہلی جنگ عظیم کے بعد بنیاد پرسپ تحریک نے عربوں کے درمیانی سماجی پرتوں پر غلبہ پانے کے لئے نیشنلسٹ اور کمیونسٹ لیفٹ کے ساتھ مقابلہ کرنا شروع کردیا فلسطین میں جب 1948 ء میں عربوں کو شکست ہوگئی تو نیشنلسٹ پاور میں آگئے اور بعد میں 1960ء کی ریڈکلائزیشن کی وجہ سے وہ بنیاد پرست تحریک کا اثڑ کم کرنے میں کامیاب رہے اور انھوں نے اس کو دبایا بھی انیس سو ستر کے آتے آتے عرب نیشنلزم کی ناکامی واضح ہوگئی تھی جبکہ اس کی ساکھ بھی سویت یونین کے بحران کی وجہ سے خاصی متاثر ہوچکی تھی نیشنل ازم کی ناکامی اور سوویت یونین کے بحران کے باعث بنیاد پرست تحریک کو پھیلاؤ اور وسعت کے لیے میدان صاف مل گيا اور اسی دوران سعودی عرب کی جانب سے بنیاد پرست تحریک کو عرب خطّے میں فیاضانہ امداد ملنا شروع ہوگئی اور جب 70ء کے عشرے کا اختتام ہورہا تھا تو بنیاد پرست تحریک کو ایک اور بوسٹ ملا اور وہ بوسٹ ایران میں شیعی اسلامی انقلاب کی کامیابی تھی
عرب خطّے کی بہت سی حکومتیں جنھوں نے بعض موقعوں پر بنیاد پرست تحریک کو فروغ دینے میں کردار ادا کیا تھا اس تحریک کے خلاف ہوگئے اور انھوں نے ان پر جبر شروع کیا ، بنیاد پرستوں کو مصر میں جزوی اور مستقل جبر کا نشانہ بنایا اور جبکہ لیبیا ، عراق ، شام ، الجزائر اور تیونس میں ان پر زبردست جبر ہوا لیکن بنیاد پرستوں نے کسی بڑے مسابقتی اور مقابلہ کرنے والوں کی عدم موجودگي کی وجہ سے خطّے میں اٹھنے والی احتجاجی تحریکوں پر اپنا غالب اثر برقرار رکھا -کسی بھی سیاسی تحریک کو جبر دبانے اور اس کو مارجنلائز کرنے میں اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب یہ سماجی بنیادوں سے محروم ہوتی ہے اور 1950ء اور 1960ء میں بنیاد پرست تحریک اس سماجی بنیاد سے محروم تھی اور اسی لیے اس کو دبانے میں کامیابی ہوئی لیکں بعد میں عرب خظے میں جو سوشو- اکنآمک پیش رفت ہوئیں تو اس نے بنیاد پرست تحریک کو وہ سماجی بنیاد بھی فراہم کردی اور بنیاد پرست تحریک کے اثر کو بڑھادیا اور اس دوران کوئی ایسی ٹھوس مسابقتی و مقابلہ کرنے والی تںظیم موجود نہ تھی نیشنل ازم کی ناکامی کے پہلو میں عرب حکومتوں نے نیولبرل ازم کو اپنایا اور اس کی وجہ سے ریاست کا سماجی کردار اور سماجی خدمات کی فراہمی میں کردار کم ہوتا گيا اور اس نے ان عوامل کو پیدا کیا جس سے بنیاد پرست تحریک کی بالقوہ سماجی بنیاد کو بھی وسیع کرنے میں مدد فراہم کی مثال کے طور پر مصر میں اخوان المسلمون کے پاس عرب ریاستوں سے تیل کی بے تحاشہ آمدنی میں سے جو رقم موصول ہوئیں اس نے اس کی مالی حثیت کو مضبوط کرڈالا اور اس نے اسے ایسی کئی سماجی خدمات غریبوں کو فراہم کرنے کے قابل بناڈالا جس سے ریاست دست بردار ہوگئی تھی اور یہ سب کام اخوان نے چئیریٹی کے نام پر کیا جوکہ نیولبرل تناظر میں بہت مناسب خیال نظر آتا تھا گلبرٹ آشکار کے مطابق اخوان المسلمون کے لیے مصر میں سیاسی شروعات آزادی کے ساتھ کرنے کے لیے جو بریک تھرو پیدا ہوئے وہ پہلے سے ہی معلوم تھے Hosni Mubarak knew what would be coming his way once he was forced to bow to the pressure from Washinton . Hassan Abdul-Rahman , the head of Egyptian State Security , met with Muhammad Habib , first Deputy to the Brotherhood ,s Supereme guide at the time , in order to inform him that government intended to hold " democratic " election in 2005 and , accordingly , to work our an agreement covering the number of candidates the Muslim Brotherhood would be authorised to put up for election. دو ہزار پانچ میں حسنی مبارک نے واشنگٹن کے دباؤ کی وجہ سے اخوان المسلمون کو پہلے اور دوسرے مرحلے میں کسی حد تک انتخاب میں حصّہ لینے کی اجازت دی لیکن نتائج کو ایک خاص حد سے آگے جانے نہ دیا جبکہ اخوان کو 88 نشستیں دلاکر امریکہ کو پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ اگر وہ اخوان المسلمون کو فری ہینڈ دینے پر مصر رہے گآ تو پھر نتیجہ امریکہ مخالف حکومت کے آنے کی صورت نکل سکتا ہے جبکہ اس دوران نور ایمان جیسے اعتدال پسند رہنماء کے ساتھ حسنی مبارک نے جو سلوک کیا اس پر امریکیوں کی خاموشی حیران کن تھی بش انتظامیہ نے حسنی مبارک اور اس کے حامی دانشوروں کی جانب سے اسے اخوان المسلمون سے ڈرانے کا جو حربہ اختیار کیا گیا تھا کو زیادہ اہمیت نہ دی اور اس نے اخوان المسلمون کی قیادت سے مذاکرات شروع کردئے اور ان مذاکرات کے نتیجے میں اخوان اور امریکیوں کے درمیان برف پگھلنے لگی اخوان اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کے زمانے میں کمیونزم اور نیشنل ازم جیسے مشترکہ دشمنوں کے خلاف لمبا تعاون رہا تھا اور دونوں ناصر ازم کو ان دو دشمن نظریات کا ہی ثمر خیال کرتے تھے جمال عبدالناصر اور اخوان کے درمیان ابتدائی طور پر تعاون کی فضاء تھی لیکن یہ تعاون 1954ء میں ختم ہوگیا ، یہ وہ دور ہے جب جمال عبدالناصر وزیر اعظم بنے تھے -اور جب اخوان سے تعلقات خراب ہونے کے بعد کچھ عرصے ميں جمال عبدالناصر کے تعلقات امریکیوں سے بھی خراب ہوگئے تو اخوان اور امریکہ نے مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد بنالیا تھا اور ناصر کی دشمنی میں ایک تیسرا اتحادی بھی ان کے ساتھ شامل ہوگیا اور وہ تھا سعودی عرب اخوان المسلمون کا سعودی عرب سے تعلق ناصر کے خلاف اتحاد کے وقت نہیں بنا تھا بلکہ یہ حسن البناّ کی جانب سے مصر میں اخوان المسلمون کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ہی قائم ہوگیا تھا حسن البناّ کا نظریاتی استاد رشید رضا تھے جن کے سعودی عرب سے گہرے رشتے اس ریاست کے قیام کے آغاز سے ہی بن گئے تھے اور یہ رشتے رشید رضا کی 1935ء میں وفات تک قائم رہے جب شاہ فاروق نے مصر میں اخوان المسلمون پر پابندی لگادی تو سعودی عرب نے حسن البناّ کو اپنے ہاں سیاسی پناہ لینے کی دعوت دی اور حسن البنّا ابھی وہاں جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ان کو گولی مار کر ہلاک کردیا گيا جب اخوان المسلمون کے ناصر کی حکومت سے تعلقات بگڑے تو ناصر نے اخوان کے خلاف زبردست کریک ڈاؤن کا آغاز کرڈالا اور ایسے میں ہزاروں کارکن جیل میں ڈالے کئے ، اخوان کے مرشد سید قطب کو ساتھیوں سمیت سزائے موت دے دی گئی تو سعودیہ عرب نے اخوان المسلمون کے کارکنوں کے لیے اپنی سرحد کے دروازے کھول ڈالے ، اس وجہ سے بہت سے اخوان نے وہاں مستقل رہائش اختیار کرلی اور کئی ایک نے وہیں کی شہریت حاصل کی اور وہیں اخوان کے بہت سے لوگ سعودی سرمایہ کی مدد سے سرمایہ داری کی دنیا میں قدم رکھنے کے قابل ہوگئے اخوان المسلمون نے سعودی عرب ، امریکہ کے ساتھ ملکر جو ناصر مخالف اور اشتراکیت مخالف اتحاد بنایا ، اسی سے فاغڈہ اٹھاتے ہوئے اخوان المسلمون نے ورلڈ مسلم لیگ کی بنیاد 1966ء میں رکھ دی اور اس کا مرکزی دفتر مکّہ میں بنایا گیا یہ وہی رابطۃ العالم الاسلامی ہے جس سے پاکستان کی جماعت اسلامی ، دیوبندی اور وہابی مذھبی تںظیموں نے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا وہابی سپانسر شپ اور وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ کی مدد سے اس تنظیم کے بینر تلے دنیا بھر سے وہابی و دیوبندی اسلامی گروپوں کو جمع کیا گیا اور اس تنظیم کے بے پناہ مالی وسائل کی مدد سے ہی اخوان المسلمون نے عرب ملکوں کے اندر اخوان المسملون کی شاخیں قائم کیں جس دن سے رابطۃ العالم الاسلامی قائم ہوئی ،اسی دن سے حس البناّ کے داماد سعید رمضان نے پورے یورپ اور امریکہ میں اخوان المسلمون کا نیٹ ورک قائم کرنا شروع کردیا تھا اور سعید رمضان یورپ میں ورلڈ مسلم لیگ کو مضبوط کرنے کا سبب بھی بنا اور اس راستے سے یورپ اور امریکہ وہابی و دیوبندی اسلامی کرنٹ کے پھیلاؤ کے اہم مرکز بن گئے جب 1970ء میں ناصر کی موت ہوئی تو اس کے جانشین انور سادات نے ناصر ازم سے چھٹکارا پانے کا فیصلہ کرڈالا، اس نے ایک طرف نیولبرل اکنامی کی جانب سفر شروع کیا تو دوسری طرف مصر میں ناصر اور سویت یونین کے حامیوں کا مقابلہ کرنے کے کے لیے لڑائی میں مذھبی بنیاد پرستی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور یہاں اس کی مدد اخوان المسلمون ، سعودیہ عرب اور امریکہ نے کی جو خود بھی ناصر ازم اور سوویت یونین کے خلاف لڑ رہے تھے
سادات نے اخوان المسلمون کے قیدی اراکین و رہنماؤں کو رہا کرڈالا اور اخوان المسلمون کو اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دے ڈالی اگرچہ اخوان المسلمون کو قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت نہ تھی اخوان کے حامی طلباء گروپوں نے قاہرہ یونیورسٹی سمیت اہم تعلیمی اداروں سے ناصر اور اشتراکیت کے حامی طلباء کا صفایا کرڈالا اور اس میں انور سادات کی حکومت نے ان کا بھرپور ساتھ دیا 1973ء میں ہی مکّہ کے اندر ورلڈ مسلم لیگ کے دفتر میں اخوان المسلمون کے دنیا بھر میں موجود شاخوں کے رہنماء کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں اخوان کے موجودہ مرشد عام بھی شامل تھے اور راشد الغوشی تیونس سے موجود تھے اور اس موقعہ پر اخوان المسلمون کی ایک سنٹرل کمیٹی بنائی گئی اور راشد اس میں تیونس کی اخوان کی نمائندگی کررہے تھے آنے والے سالوں میں اخوان المسلمون سمیت رابطۃ العالم الاسلامی کے بینر تلے جمع ہونے والی مذھبی بنیاد پرست تنظیموں سے وابستہ اراکین کے لیے سعودیہ عرب میں ایجوکیشن اور مذھبی شعبہ جات سمیت کئی ایک شعبوں میں ملازمتوں کے درمازے کھل گئے اور سعودیہ عرب سیٹل ہونے کا موقعہ بھی میسر آیا اور سعودی عرب سمیت گلف عرب ریاستوں کی تیل کی آمدنی سے مستفید ہونے کا موقعہ میسر آیا نوٹ: یہ وہی دور ہے جب دیوبندی تنظیم عالمی تحریک ختم نبوت کے بہت سے لوگ سعودیہ عرب سیٹل ہوئے اور یہ ایک دیوبندی تنظیم ہے اور اس کے موجودہ چئیرمین عبدالحفیظ مکّی نے اس کا سنٹر مکّہ ميں قائم کیا اور ان کے توسط سے دیوبندی تکفیری تںطیم سپاہ صحابہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی مکّہ اور مدینہ منتقل ہوئے اور آج یہ بھی وہابی اسٹبلشمنٹ کی بہت قابل قدر پراکسی ہیں سعودی عرب اور دیگر عرب بادشاہتوں کی جانب سے سرمایہ کی فراہمی اور مراعات کے ملنے سے اخوان المسلمون کے اندر بورژوازی پروان چڑھنا شروع ہوئی اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ديگر بنیاد پرست تنظیموں کے افراد کی ایک پرت بھی بورژوازی کی شکل اختیار کرگئی سعودیہ عرب کی وہابی اسٹبلشمنٹ کے زیر سایہ پلنے والے اسلامی بنیاد پرستی کے مراکز میں سرمایہ داروں کے پیدا ہوجانے کے اس عمل سے وہابی ازم کی سماجی بنیادوں میں وسعت اختیار کرنے کی وضاحت بھی اسی عمل سے ہوجاتی ہے خیرات الشاطر جو کہ اخوان المسلمون کی سابق حکومت میں مرسی کا نائب تھا اس نے ایک مرتبہ یہ انکشاف کیا تھا کہ مصر میں حسنی مبارک کے حکم پر مصری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے نو سو کے قریب ایسی سرمایہ دار کمپنیوں کا سراغ لگالیا تھا جس کے مالکان اخوان المسلمون کے ممبر تھے لیکن اخوان المسلمون جیسی بنیاد پرست تنظیموں کے اراکین میں بورژوازی کی پرتوں کے جنم کے باوجود اس کے پروگرام میں کوئی جدت نہیں آئی اور یہی حال دوسری وہابی ازم سے جڑی مسلم بنیاد پرست تنظیموں کا تھا اور اس کی وجہ صاف ظاہر تھی کہ ان کا رشتہ عرب کی سب سے بڑی رجعتی ، بنیاد پرست ریاست سعودیہ عرب سے تھا اور سرمایہ داری کی جو شکل ان بنیاد پرست تنظیموں میں سرائت کی تھی وہ اپنی ساخت کے اعتبار سے کمرشل اور قیاسی سٹہ باز تھی اور اس کے جن سرمایہ دار ماڈیلٹی کے ساتھ رشتہ بنا تھا وہ بھی انتہائی رجعتی تھا سرمایہ دار پرتوں کے مسلم بنیاد پرستی کی تحریک کے اندر در آنے کی وجہ سے آخوان المسلمون جیسی تنظیموں میں ایک ماڈریٹ عنصر وجود میں آیا جو اعتدال پسندانہ اصلاح پسندی کا حامل تھا اور یہی وجہ ہے کہ اخوان نے اس انتہا پسند ریڈیکلائزیشن کو اختیار نہ کیا جس کا تقاضا سید قطب کی ریڈیکل سوچ کے غلبے سے ابھرا تھا اور یہی وہ مرحلہ ہے جس کی وجہ سے مصری اخوان سے کئی ایک ڈھڑے الگ ہوئے الگ ہوئے اور انھوں نے "جہاد ، قتال ، اور تکفیر " کا راستہ اختیار کرلیا گلبرٹ آشکار اخوان کے اس ماڈرنسٹ سیکشن کے ابھار کی سماجی بنیادیں تلاش کرتا ہوا لکھتا ہے The Brotherhood,s modernist _ those for whom Turkey,s Party for Justice and Development have been recurited , as a general rule . from ranks of " organic intellectual " petty and middle beourgeoise.The modernists are , for the most part , members of liberal professions and students. اخوان المسلمون کے ساتھ سعودیہ عرب کا پہلا بڑا اختلاف ایرانی انقلاب پر موقف اختیار کرنے پر ہوا اور اسلامی بنیاد پرستانہ ایرانی انقلاب نے عرب خطے میں بالعموم اور پوری دنیا میں بالخصوص مسلم بنیاد پرستی کو زبردست تقویت دی اور یہ تقویت اس لیے بھی ملی کہ ان دنوں عرب خطے میں نیشنل ازم اور کمیونزم کی علمبردار قوتیں زبردست بحران کا شکار ہوچکی تھیں اخوان المسلمون جب خمینی رجیم کو تحسین کی ںظر سے دیکھ رہی تھی تو اس وقت سعودی عرب نے اس کو اپنی بادشاہت کے لیے کے سخت خطرہ کے طور پر محسوس کیا اور اس کی امریکی دشمنی پر مبنی نعروں کو براہ راست اپنے لیے حظرناک شمار کیا جبکہ سعودی عرب کو انھی دنوں اپنے ملک کے اندر الٹرا وہابی آزم کے حامل ایک گروہ کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تھا جس نے مکّہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی اور ایرانی شیعہ انقلاب کے آںے سے سعودی عرب کا جو شیعہ اکثریت کا مشرقی صوبہ تھا وہاں بھی سیاسی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اسی وجہ سے سعودیہ عرب نے ایرانی شیعی انقلاب کی جانب زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا اخوان المسلمون کی ایران کے معاملے کو لیکر سعودی عرب سے دوری زیادہ دیر قائم نہ رہی بلکہ جونہی اپریل 1979ء میں سودیت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں اور سعودیہ عرب نے سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی مدد سے افغان جہاد کا پروجیکٹ شروع کیا تو اخوان نے سعودی عرب سے اپنے اختلاف کو ایک طرف رکھ دیا اور اس کے ساتھ ویسے ہی شریک " جہاد " ہوگئی جیسے جماعت اسلامی پاکستان اور دیگر وہابی ، دیوبندی تںظیمیں ہوگئیں تھیں
اخوان المسلمون اور سعودیہ عرب کے درمیان تعلقات میں دوسری بڑي اور طویل عرصے تک جاری رہنے والی دراڑ 90ء کے عشرے میں اس وقت پڑی جب کویت پر عراق کے قبضے کے بعد امریکی فوجیں بڑی تعداد میں عرب خطے میں آئیں اور سعودیہ عرب میں آکر قیام پذیر ہوئیں ، اس دوراان عراق کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ کے خلاف اخوان المسلمون نے عرب خطے کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی بلکہ اخوان المسلمون کی اردنی شاخ نے تو صدام کے شانہ بشانہ امریکی افواج سے لڑنے کا اعلان کیا سعودیہ عرب اس زمانے میں اخوان سے اسقدر ناراض ہوا کہ اس نے طارق رمضان کی خواہش کے مطابق اس کو مدینہ میں دفن ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا یہ وہی زمانہ ہے جب امریکہ کا ایک اور وہابی اتحادی گروپ اسامہ بن لادن کی قیادت میں امریکیوں کی خلیج عرب آمد اور سعودی عرب میں امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد میں تعیناتی کے خلاف ہوگيا اور اس نے امریکہ اور اس کے خطّے میں اتحادیوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا پوسٹ خلیج وار وہ دور ہے جس میں قطر اس سارے کھیل میں داخل ہوتا ہے اور وہ اخوان سمیت وہابی بنیاد پرست تحریک کے ایک بڑے سیکشن کو گود لے لیتا ہے اور واشنگٹن سے اپنے تعلقات کی ںئی تاریخ رقم کرنے کی طرف سفر کرتا ہے ، جس پر ہم اگلی قسط میں بات کریں گے

No comments:

Post a Comment