پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی پی پی کی ایک غیر منتخب کور کمیٹی کا اجلاس بلایا اور اس اجلاس کے بعد پی پی پی کے سینئر وائس چئیرمین سید یوسف رضا گیلانی نے اعلان کیا کہ 18 اکتوبر سے پی پی پی پورے ملک میں اپنی بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرے گی اور 18 اکتوبر کو کراچی میں بہت بڑے جلسہ عام سے چئیرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری خطاب کریں گے
پی پی پی کی نام نہاد کور کمیٹی کا اجلاس بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ایک معذرت نامہ شایع ہونے کے فوری بعد ہوا اور اس معذرت نامے میں بلاول بھٹو نے بار بار پی پی پی کی قیادت کی جانب سے " پارٹی میں جمہوری کلچر " کے پائے جانے پر اصرار بھی کیا تھا
بلاول بھٹو زرداری نے اپنے معذرت نامے کی اشاعت کے فوری بعد پی پی پی کی سب سے بڑی آئینی باڈی سنٹرل کمیٹی کا اجلاس بلانے کی بجائے کور کمیٹی کا اجلاس بلایا اور اس کور کمیٹی کے اندر زیادہ تر لوگ وہ تھے جو اس ملک کی فیوڈل و زمیندار اشرافیہ کے نمائندے ہیں جیسے یوسف رضا گیلانی ، مخدوم شہاب الدین ، مخدوم امین فہیم یا وہ نواز شریف کا ماؤتھ آرگن بنے ہوئے ہیں جیسے خورشید شاہ اور یہاں اگر کوئی مڈل کلاسیہ موجود بھی تھا تو وہ ان فیوڈل اشرافیہ کا بے دام غلام تھا ، جبکہ اس کور کمیٹی میں وہ لوگ تو نظر ہی نہیں آئے جو پی پی پی کے ناراض کارکنوں اور ہمدردوں کی نمائندگی کرسکتے تو اس عمل سے بھی یہ ظاہر ہوگیا کہ اصل میں وہ معذرت نامہ محض ایک فیس سیونگ تھا اور پی پی پی کے کارکنوں اور اس کے ہمدردوں کو جذباتی بلیک میلنگ کے زریعے راست اقدام اٹھانے سے روکنا تھا
پی پی پی کے کارکنوں کی اکثریت نظریاتی اعتبار سے پی پی پی کے بنیادی منشور کی بحالی کی حامی ہے اور وہ یہ چاہتی ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے سوشلزم کی راہ ترک کرکے سرمایہ داری کا راستہ جو اختیار کیا ہے اسے ترک کیا جائے
پی پی پی کے کارکن چاہتے ہیں کہ پارٹی میں نامزدگیوں کا طریقہ ہر سطح پر ختم کیا جائے اور اوپر سے نیچے تک تمام یونٹس میں انتخابات شفاف ممبر شپ کی فہرستوں کے زریعے سے کرائے جائیں تاکہ پارٹی کے اندر جمہوریت کو متعارف کرایا جاسکے
یہ دو اقدام ایسے ہیں جن کو اٹھا کر پی پی پی کو تباہی سے بجآیا جاسکتا ہے اور پنجاب سمیپ پورے ملک میں پی پی پی دائیں بازو اور انتہا پسند جماعتوں کا مقابلہ کرسکتی ہے
مگر پی پی پی کے اصل چئیرمین جو شریک چئیرمین بنکر پردے کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری کی ڈوریاں ہلانے کے لیے انھوں نے شیری رحمان ، اعتزاز احسن ، رضا ربانی ، رحمان ملک ، یوسف رضا گیلانی کو رکھا ہوا ہے سب معاملات کو چلارہے ہیں اور ان کی سیاست کی ڈکشنری سے " کارکن " کا لفظ کبھی کا غائب ہوچکا ہے
آصف علی زرداری کا خیال یہ تھا کہ پی پی پی کا کارکن شاید کوئی مزارعہ ، ان کی رعایا ہے جو بھٹو اور بے نظیر سے ان کو ورثے میں ملا ہے اور اس کی مجال نہیں ہے کہ وہ ان کے آگے سراٹھائے گآ
آصف علی زرداری نے جس کمرے میں بیٹھنا وہاں ایک بڑی سی تصویر بے نظیر بھٹو شہید کی لگا لینی اور ہر انٹرویو میں سائیڈ ٹیبل پر پڑی بے نظیر شہید کی پوٹریٹ کو بھی کارکنوں کے جذباتی استحصال کے لیے استعمال کرنا ، جیسے ابھی حال ہی میں انھوں نے انتہائی ٹھس ، مایوس کن انٹرویو عارف نظامی کو دیتے ہوئے کیا تھا
آصف علی زرداری کی پی پی پی کے کارکنوں کے بارے میں یہ غلط فہمی خود جئیرمین بلاول بھٹو زرداری کے اندر بھی در آئی تھی اور ایک مرتبہ جب میں بلاول بھٹو کے ٹوئٹس پڑھ رہا تھا تو میں نے ایک ٹوئٹ پڑھا جس میں انھوں نے پی پی پی کے کارکنوں کے بارے میں کہا تھا کہ بھٹو کا سیاسی ورثہ صرف ان کے پاس ہی رہ سکتا ہے جو آصف علی زرداری کے ساتھ ہوں گے اور پھر بلاول بھٹو زرداری نے کسی ایک موقعہ پر بھی اپنے والد کی سوچ سے ہٹ کر حالات کا معروضی جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی اور ایک طرح سے پی پی پی کے اندر ورکرز دشمن پالیسی اور آصف علی زرداری کی پالیسی کو ہی آگے لیکر چل پڑنے کی روش نے بلاول بھٹو کے بارے میں کارکنوں کے اندر موجود امید پرست لہر کو آہستہ آہستہ دبانا شروع کردیا
دو دن پہلے جب بلاول بھٹو نے اپنا نام نہاد اور مبہم سا معذرت نامہ شایع کیا تو نہ جانے اسی وقت مجھے کیوں آصف علی زرداری کا بظور صدرمملکت بلوچوں سے معذرت اور معافی مانگنے والے واقعے اور اس کے بعد پی پی پی کے پانچ سالہ دور میں بلوچستان کو عملی طور پر فوج ، ایف سی ، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ان کی پراکسی جہادی ، تکفیری دھشت گرد تںظیموں کے حوالے کردینے والا عمل یاد آگیا
بلاول بھٹو زرداری کو معلوم ہونا چآہئیے کہ ایک معافی پی پی پی نے 1996ء میں پارٹی کی حکومت جانے کے بعد بھی اپنے کارکنوں سے مانگی تھی اور یقین دلایا تھا کہ آئیندہ اقتدار ملا تو کسی کو کوئی نوکری بیچنے اور اقرباء پروری کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور شہید بے ںظیر بھٹو نے راولپنڈی کے آخری جلسے تک ہر مرتبہ جلسے کفے اختتام پر ٹکٹ ہولڈرز اور پارٹی عہدے داروں سے حلف لئے تھے ہاتھ اٹھاکر کہ وہ نوکریاں فروخت نہ کریں گے ، نہ ہی اپنے رشتہ داروں میں بانٹیں گے اور پارٹی کارکنوں کی خدمت کریں گے ؟
کیا ایسا ہوا؟ اور کیا آج جو پی پی پی کی سندھ میں حکومت ہے تو اس کی کارکردگی دیکھ کر لگتا ہے کہ اس نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھا ہے
سندھ اور کراچی میں شیعہ اور صوف سنّی نسل کشی ، ٹارگٹ کلنگ پوری شدت سے جاری ہے اور اس صوبے میں کالعدم تںظیموں کو کام کرنے ، جلسے جلوس کرنے کی آزادی ہے اور نوکریاں بیچنے کا کام آج بھی جاری وساری ہے
پیپلز پارٹی کا پورا تںظیمی سٹرکچر ایک اوور ہالنگ کا تقاضہ کررہا ہے اور اس اوورہالنگ کا مطالبہ پی پی پی کے کارکنوں کی آواز ہے
اور بلاول بھٹو زرداری کو اگر پارٹی کارکنوں و ہمدردوں کا اعتماد جیتنا ہے تو پھر عملی اقدامات اٹھانا پڑیں گے
آخری بات یہ کہ پی پی پی نے کراچی سے جلسے کا آغاز کرکے پورے ملک میں جلسے جلوس کرنے کا جو اعلان کیا ہے ، اس کا ایجنڈا اور پروگرام کیا ہے؟
کیا پاکستان پیپلز پارٹی جمہوریت اور آئین کو لاحق مفروضہ ان خطرات کا ڈھونڈرا پیٹنا چاہتی ہے جو حکومتی کیمپ اور اس کے بکاؤ مال لفافہ صحافیوں کی جانب سے مسلسل جاری ہے؟
کیا یہ " لندن پلان " اور عالمی سازش " کے تانے بانوں کو عوام کے سامنے لانا چاہتی ہے ؟
کیا پیپلز پارٹی عوامی جلسے جلوس کرکے سٹیٹس کو آکسیجن ٹینٹ سے باہر لانا چاہتی ہے اور وہ احتجاجی اور سٹریٹ پالیٹکس پر مبنی اپوزیشن کی اپوزیشن کرنا چاہتی ؟
یا پھر وہ پاکستان میں نواز شریف کی اقرباء پرور سیاست ، اس کی جانب سے بجلی و گیس کے بحران کو حل کرنے میں ناکامی اور بجلی چوری کا سارا بوجھ ایمانداری سے بل دینے والے صارفین پر ڈالنے ، مہنگائی کے بڑھ جانے ، شیعہ نسل کشی ، صوفی سنّیوں پر حملے اور اقلیتوں کے خلاف بڑھ جانے والی مذھبی شدت پسندی اور سب سے بڑھ کر بے تحاشا طبقاتی خلیج کے بڑھنے جیسے عوامل کے خلاف عوام کے اندر بیداری پیدا کرنے کے لیے مہم چلائے گی ؟
فیصلہ بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ ہے کہ وہ اپنے جلسے جلوس کی سیاست کو سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی طرف موڑتے ہیں یا اس کو توڑنے کی طرف جاتے ہیں
میرے دوست علی عباس تاج نے ایک جگہ لکھا ہے کہ
کیا بلاول بھٹو زرداری کی سیاست پی پی پی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی ؟
مجھے خدشہ ہے کہ اگر بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد کی شاطرانہ اور حد سے زیادہ چالاکی پر مبنی بہت ہی نیچے درجے کی سیاست کا ملبہ اپنے چئیرمین ہوے کے زعم پر پی پی پی کے کندھوں پر دھرنے کی کوشش کی تو اس ملبے تلے پی پی پی کی سیاست دم توڑ دے گی اور اس ملبے سے اسے نکالنا بہت مشکل ہوجائے گا
پی پی پی میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے لیکر مارشل لاء کے 11 سال بے ںظیر بھٹو کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے والے آصف زیدی تو یہ کہتے ہیں
پی پی پی کی سیاست تو اسی دن مردہ ہوگئی تھی جس دن اس نے ضیاء الحق کا خرقہ خلافت زیب تن کرلیا تھا
لیکن امید اور رجائیت باقی تھی اور پی پی پی کے حقیقی ورثے کی حفاظت کرنے والے اور پی پی پی کے ساتھ ایک بڑا وقت بتانے والے عبدل نیشا پوری کا کہنا ہے کہ
اگر بے نظیر بھٹو اور یہاں تک کہ بھٹو اپنے سمجھوتوں کے باوجود اگر جھک بھی جاتے آصف زرداری اور بلاول کی طرح تو شاید آج ہم میں زندہ ہوتے
بالکل ٹھیک ہے کہ بھٹو اور بے نظیر شہید نے بہت سے بلنڈر مارے ، بہت سی غلطیاں کیں اور سمجھوتے بھی کئے لیکن مکمل سرنڈر نہ کیا اور جب آدمی سمجھوتے بھی کرے اور سرنڈر بھی نہ کرے تو وہ قبر میں اتار دیا جاتا ہے جیسے بھٹو صاحب اور بے نظیر اتار دئے گئے تھے اور اگر بلنڈر کرے ، غلطیاں کرے شعوری طور پر اور انحراف کرے چالاکی سے اور سرنڈر بھی کڑدالے تو انجام آصف زرداری جیسا ہوتا ہے کہ
رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت نہ گئی
پی پی پی کا وہ کارکن جو ترقی پسند ، محنت کش ، کسان ، طالب علم دوست سیاست کا قائل ہے اور پاکستان کو سوشلسٹ ریاست دیکھنے کا خواہ ہے وہ پارٹی کی قیادت کا بے دام غلام بننے اور اس کی مزارعہ گیری کرنے کو تیار نہیں ہے
ویسے بلاول بھٹو زرداری کے نام پر جس نے بھی پی پی پی کے ترقی پسند کارکنوں اور ہمدردوں کو عوامی ورکرز پارٹی میں جانے کا مشورہ دیا ہے تو خوب دیا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ عوامی ورکرز پارٹی تو چھوٹی پیپلز پارٹی ہے جو آپ بھی نواز شریف کو بچانے کا کردار ادا کررہی ہے
عوامی ورکرز پارٹی بلوچستان میں ڈاکٹر مالک کی کٹھ پتلی حکومت کی حمائت کرتی ہے اور " جنگ " کی سب سے بڑی حامی ہے - یہ اسقدر بے بصیرت ، اندھی اور موقعہ پرست پارٹی ہے کہ اس کی لیڈر شپ سامراجی اور سامراجی کے پٹھوؤں کی جنگ کو " وار آف لبریشن " قرار دیتی ہے اور ایک بیان جاری کرتی ہے جس میں ضرب عضب کی حمائت ہوتی ہے اور دوسرا جاری کرتی ہے جس میں مخالفت ہوتی ہے اور دونوں ہی آفیشل ہیں
بلاول بھٹو زرداری کو ٹھیک پٹی پڑھائی گئی کہ ایک خصّی جماعت میں جانے کا مشورہ ریڈیکل ورکرز کو دیں تاکہ وہاں سے مایوسی کے ان کو ایسے ٹیکے لگيں کہ وہ ساری اک بک بھول جائیں
پیپلز پارٹی کے نوجوان کارکن تو شاید اسی عوامی ورکرز پارٹی کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں لیکن پارٹی میں بائیں بازو کے پرانے تجربہ کار اس کے بارے میں خوب جانتے ہیں
اس پارٹی کا صدر وہ ہے جو لندن میں نواز شریف کی جانب سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں آے آرڈی توڑنے کے منصوبے میں شریک ہونے کے لیے عوامی تحریک سندھ کے اس وقت کے صدر رسول بخش پلیجو اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر حاصل بزنجو کے ہمراہ جاپہنچا تھا ، اس حقیقت کے باوجود کہ اس وقت لیفٹ گروپوں کے الائنس سے بننے والی پارٹی عوامی تحریک نے اس کی سخت مخالفت کی تھی
اس پارٹی میں ایک این جی او مافیا بھی موجود ہے جس نے بے نظیر بھٹو کے خلاف جنرل (ر) تنویر نقوی کے ساتھ ملکر نام نہاد لبرل لیفٹ الائنس بنانے کی کوشش کی تھی اور اس کوشش کا سرغنہ سرور باری تھا جس نے لیبر پارٹی کے دفتر میں فاروق طارق کی موجودگی میں اور پھر جم خانہ کلب میں ایک سابق جنرل کی موجودگی میں راقم کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ لیفٹ جنرل مشرف کے ساتھ مل کر وہ کرجائے گا جو لیفٹ بھٹو سے تعاون کرکے نہیں کرپایا تھا
اس این جی او مافیا نے یہاں تک دعوی کرڈالا تھا کہ یہ پورے ملک سے انتخابات میں سو امیدوار کھڑے کریں گے اور لاڑکانہ سے سرور باری بے ںطیر بھٹو کا مقابلہ کرے گآ
اس سے پہلے این جی او مافیا اور لبرل لیفٹ گروپوں نے اصغر خان سے ملکر جنرل مشرف کے رجیم کو جواز دینے کے لیے ایک پارٹی تشکیل دینے کی کوشش کی تھی
بے نظیر بھٹو کو ان کوششوں بارے جب معلوم ہوا تو انھوں نے اپنے طور پر ان کوششوں کے خلاف سول سوسائٹی کے اندر سے بلاک کھڑا کرنے کی کوشش اور عاصمہ جہانگیر کے گھر اجلاس اسی بھی اسی حوالے سے کیا گیا تھا
اور اس سے پہلے بھی یہ نام نہاد لیفٹ 88ء میں نواز شریف کو قومی سرمایہ دار اور بے نظیر کو جاگیرداروں کی نمائندہ کہہ کر آئی جے آئی کی سپورٹ کا باعث بنا تھا
No comments:
Post a Comment