“The oppressed are allowed once every few years to decide which particular representatives of the oppressing class are to represent and repress them.” ― Karl Marx
Saturday, July 27, 2013
خطرے کی گھنٹی
پاکستان پیپلزپارٹی نے صدراتی انتخاب کا بائیکاٹ کردیا اور اس معاملے میں اس کا ساتھ دینے والوں میں صوبہ خبیر پختوں خواہ ،بلوچستان ،کراچی سمیت دیگر علاقوں میں پشتونوں کی اکثریت کی نمائندگی کرنے والی جماعت اے این پی اور بلوچوں کی ایک نمائندہ جماعت بی این پی عوامی بھی شامل ہے-
پی پی پی کے اعتدال پسند جمہوریت پسند رہنماء جو اس صدراتی الیکشن میں پی پی پی کے امیدوار بھی تھے انہوں نے اس بائیکاٹ کے فیصلے کے جواز پر روشنی ڈالتے ہوئے جو باتیں کیں وہ خطرے کی گھنٹی ہیں-انہوں نے کہا کہ
"صدراتی الیکشن کا شیڈول سپریم کورٹ کی جانب سے تبدیل کرنا اور اس کیس کے متاثرہ فریق کو نوٹس جاری کئے بنا فیصلہ سنانا عدلیہ ،ایکشن کمیشن اور مسلم لیگ نواز کے گٹھ جوڑ کا ثبوت ہے-یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ جنرل الیکشن میں نواز لیگ کی جیت ملی بھگت کا نتیجہ تھی-اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی سازش ہورہی ہے اور اس کے سائے وفاق پر بہت برے اثرات مرتب کریں گے"
پی پی پی اور اس کا ساتھ دینے والی جماعتوں کی جانب سے صدراتی الیکشن کے رکنے کا سوال خارج از امکان ہے-اور اس فیصلے سے ممنون حسین کے جیت جانے کے امکانات بھی کم نہیں ہوئے ہیں-لیکن اس فیصلے سے سندھی،پشتون ،سرائیکی اور بلوچ آبادی کے ایک حصّے میں بے چینی ضرور پیدا ہوئی ہے-اور بہت سے نازک اور حساس ایشوز ایک مرتبہ پھر سے سراٹھانے جارہے ہیں-
مسلم لیگ نواز کی موجودہ سیاست نے ایک طرف تو صوبوں کی خود مختاری اور اٹھارویں ترمیم سے ان کو ملنے والے اختیارات کو سلب کئے جانے کا خدشہ پیدا کرڈالا ہے-کیونکہ اس وقت وفاقی کابینہ میں پشتون،سندھی ،بلوچ اور سرائيکی آبادی کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے-وسطی پنجاب کے غلبے نے بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے-پاور پالیسی بناتے ہوئے حکومت نے جیسے خیبر پختون خوا اور سندھ کو نظرانداز کیا اور مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل میں تاخیر کی اور اس کے اجلاس بلانے میں لیت ولعل سے کام لیا اس نے بھی شبہات میں اضافہ کیا-
مسلم لیگ نواز کی حکومت کی جانب سے سرائیکستان کو اتنی توجہ نہ ملنا جتنی توجہ یہ پچھلے دور میں دے رہی تھی تھی بھی ایک پریشان کن معاملہ اس خطے کے لوگوں کے لیے بنا ہوا ہے-
پنجاب حکومت کے انرجی بورڈ کی جانب سے چولستان کے اندر دو بجلی گھروں کے قیام کے لیے جو سولر انرجی سے چلائیں جائیں گے چولستان کی پانچ ہزار ایکڑ زمین محض ایک ڈالر فی ایکڑ کے حساب سے ایک چینی کمپنی کو بیس سال کی لیز پر دینے کا فیصلہ کیا ہے-اور یہ دو بجلی گھر 322 کلو واٹ بجلی پیدا کریں گے جو نیشنل گرڈ میں شامل کردی جائے گی-اسی طرح سے مظفر گڑھ میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے ایک منصوبے کے لیے چینی کمپنی کو زمین دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے-یہ بات تو طے ہے چولستان کی 5000 ہزار ایکڑ زمین کو لیز پر دئے جانے کا یہ فیصلہ شہباز شریف نے خود ہی کرلیا ہے اور اس حوالے سے جولستانیوں کی رائے نہیں لی گئی ہے-دوسری بات یہ ہے کہ سولر پینل اور سولر بیٹریز و سولر سیل تیار کرنے کی فیکٹری فیصل آباد میں لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے-ایک کنسورشیم یہ فیکڑی لگانے جارہا ہے-یہ وہ منصوبہ تھا جس سے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہونے کا امکان تھا اس منصوبے کو سرائیکی خطے میں نہیں لایا گیا-بلکہ اس خطے کی زمینوں کو ٹوکن لیز پر دےکر اس کو اربوں روپے کا چونا لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے-
پھر ابھی تک سرائیکی خطے میں جو پاور پلانٹس موجود ہیں ان کی بجلی پر اصولی طور پر پہلا حق سرائیکی خطے کا ہونا تھا مگر ایسا نہیں ہوا-بلکہ جو اس خطے کا حصّہ بنتا ہے اس سے بجلی کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کو دی جارہی ہے-اب جو پاور پلانٹس اس خطے میں بننے جارہے ہیں ان کی بجلی پر پہلا حق اس خطے کے لوگوں کا ہونے کا کوئی امکان ںظر نہیں آرہا ہے-جبکہ یہ بات بھی طے ہے کہ زیادہ ہیٹ اور زیادہ آلودگی پھیلانے والے بجلی کے منصوبے سرائیکی خطے میں بنائے جارہے ہیں-جس سے ماحولیاتی تبدیلیاں اس خطے کو براہ راست متاثر کریں گی-
مسلم لیگ نواز لوکل گورنمنٹ کا جو بل پنجاب اسمبلی میں لےکر آئی ہے اس میں اضلاع کو پرانے نظام میں منتقل ہونے والے بہت سے اختیارات واپس لے لئے گئے ہیں اور اس سے سب سے زیادہ اثر سرائیکی خطے کے اضلاع میں متاثر ہوں گے-یہ بل ایک ڈرون اٹیک ہے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے تصور پر-اس سے سرائیکی خطے کے لوگوں میں احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوگا-
میں جب یا کالم لکھنے بیٹھا تھا تو میرے ای میل باکس مین بہاول پور کے ایک قاری نے یہ خبر بھیجی کہ نواب آف بہاول پور سر صادق کے آخری بیٹے رشید الحسن بہاول پور ملٹری کمبائنڈ ہسپتال میں انتقال کرگئے-ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد کا انتقال وکٹوریہ ہسپتال بہاول پور کے ڈاکٹرز کی غفلت کی وجہ سے ہوا ہے-ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہاول پور سے تعلق رکھنے والے ایم این اے بلیغ الرحمان اور ایم پی اے چنڑ کو موبائل سے کئی مرتبہ کال کی مگر کسی نے کال کا جواب نہیں دیا-یہ ایک رائل فیملی کے خاندان کے ساتھ ہوا جس کے آباء نے وکٹوریہ ہسپتال کی بنیاد رکھی تھی-اس سے ہم اندازا لگاسکتے ہیں کہ عام آدمی کا وہاں کیا حشر ہوتا ہوگا-
جنوبی پنجاب میں لوگ بجلی کی غیراعلانیہ طویل بندش اور ٹرانسفارمرز کے جل جانے اور کئی کئی دن بجلی کی سپلائی بحال نہ ہونے پر شدید غم وغصّے کا شکار ہیں-ان کی غربت اور مشکلات میں مسلم لیگ نواز کی مہنگائی تیز کرنے والی پالیسیوں نے مزید اضافہ کرڈالا ہے-اور ایسے میں ہمارے نیشنل پریس اور الیکٹرانک میڈیا میں سوائے ملتان سے شایع ہونے والے اخبارات اور ان میں بھی خبریں ملتان میں زیادہ اس خطے کی محرومیوں کے بارے میں کوئی آواز بلند نہیں ہورہی-میں کہتا ہوں اگر پانچ ہزار ایکڑ زمین بلوچستان یا سندھ میں ایک ڈالر فی ایکڑ کے عوض غیر ملکی کمپنی کو لیز پر دئے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہوتا تو کیا ایسی ہی خاموشی ہوتی جیسی اب نظر آرہی ہے-یہ مجرمانہ خاموشی اس خطے کے لوگوں کو راست اقدام کی جانب تو دھکیلے گی لیکن ساتھ ساتھ اس خطے کے وفاق کے ساتھ اور سنٹرل پنجاب کے ساتھ رشتے اور کمزور کرے گی-
مسلم ليگ نواز نے برطانیہ سے ایک گورنر امپورٹ کرکے اس خطے میں عوام کے اندر مسلم ليگ نواز کی جڑیں بنانے کے لیے دن رات جو محنت کی اس محنت کو کھوہ کھاتے میں ڈالنے کا تاثر پیدا کردیا ہے-اور یہ بھی ایک بہت منفی پیغام دیا گیا ہے-
میں اکثر کہتا رہا ہوں کہ اس خطے کے نوجوانوں کو اپنے اور اس خطے میں بسنے والے باشندوں کے حقوق اور ان کے وسائل کو لوٹ مار سے محفوظ بنانے کے لیے سرمایہ داری کے موجودہ ماڈل کو چیلنچ کرنے کی اشد ضرورت ہے-پاکستان کے مظلوم خطوں کو اپنے وسائل کی کارپوریٹ لوٹ کھسوٹ سے بچانے کے لیے باہمی اتحاد اور یک جہتی کی ضرورت ہے-سرائیکی خطے میں آباد لوگوں کو اجتماعی طاقت ور مزاحمت دکھانے کی ضرورت ہے اور چولستان میں کمیونٹی سکولوں کی بندش کا خطرہ،چولسان کی 5000 ہزار ایکٹر زمین کی لیز کا ایشو اس خطے کی عوام کے لیے ٹیسٹ کیس ہیں-یہ یہاں کی سول سوسائٹی،بارز،سرائیکی کاز سے جڑی جماعتوں کا بھی امتحان ہے کہ وہ کیسے اس زیادتی کے خلاف احتجاج منظم کرتے ہیں اور زمینوں کی بندر بانٹ کو روکتے ہیں-
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment