“The oppressed are allowed once every few years to decide which particular representatives of the oppressing class are to represent and repress them.” ― Karl Marx
Wednesday, July 24, 2013
سرائیکستان کے باشندوں کی آزادی کا سوال
ایڈورڈ سعید فلسطینی نژاد امریکہ میں ایک آزاد اور باغی دانشور کے طور پر جانے جاتے تھے-انہوں نے اپنی آزاد اور باغی سوچ کی ہمیشہ سے حفاظت کی-ان کا کہنا تھا کہ دانشور کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی حریت فکر کا ہر قیمت پر تحفظ کرے-وہ حکومتی مناصب و عہدوں سے دور رہے-اور بنے بنائے ضابطوں اور مقدمات سے آگے جاکر سوچنے کی اہلیت رکھتا ہو-اس میں سوال اٹھانے کی ہمت ہو-اور وہ سماج میں ایک آوٹ سائیڈر یعنی اجنبی کے طور پر رہنا سیکھ لے-امریکی دانشور نوم چومسکی کہتا ہے کہ اگر آپ سماج میں ایک تلخ اختلاف کار کے طور پر جینے کا سلیقہ نہیں رکھتے تو آپ عوامی دانشور نہیں کہلاسکتے-انتینو گرامچی کہتا ہے کہ اگر آپ سٹیٹس کو کو نہیں توڑتے تو پھر آپ کی دانش انقلابی نہیں ہوسکتی-
میرے نظریات بھی اوپر پیراگراف میں بیان کردہ خیالات سے مختلف نہیں ہیں-مجھے ادھورا پن پر قانع ہوجانے والے لوگ ذھنی اعتبار سے امپوٹنٹ لگتے ہیں-اس لیے میں اپنی حریت فکر کو ہر طرح کی مصلحت سے بالاطاق رکھتا ہوں-لیکن کسی بھی سماج کے اندر اختلاف رائے مستحسن ہوتا ہے اگر اس کو اپنی ذات پر حملہ خیال نہ کرلیا جائے-
سرائیکستان کے لیے اس وقت جو پوٹینشل ہمارے ہاں موجود ہے اس کو ٹھیک طرح سے بروئے کار نہ لائے جانے کی سب سے بڑی وجہ میرے نزدیک اس خطے میں اکثر قوم پرستوں کے مغالطے ہیں جن کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے-اور میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ ان پرکھل کر بات کرلی جائے-
قوم پرست جب بھی قومی سوال بارے بات کرتے ہیں ہیں تو ان کے دانش ور طبقے کی پرت پوسٹ کالونیل نظریات اور آئیڈیالوجی کا سہارا لگتی ہے-یہ وہ آئیڈیالوجی ہے جس کو سویت یونین کے زوال کے بعد خاص طور پر عروج ملا اور اس کو جامعات کے اندر بھی قبول عام ملتے دیکھا گیا-
افریقہ،عرب اور مشرق بعید وغیرہ میں پوسٹ کالونیل تھیوری سے مستفید ہونے والے قوم پرستوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے کام کرنے کے طریقہ کار اور اس سے پیدا ہونے والی ناانصافی پر بہت تنقید کی لیکن انہوں نے اس دوران طبقاتی فلسفے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا-ایک طرف تو انہوں نے اس کام کے کرنے کا ادعا کیا جو طبقاتی فلسفے کے داعی کرتے ہیں –یعنی انہوں نے دنیا کی تشریح اور اس کو تبدیل کرنے کا طریقہ بتانے کا ادعا کیا-مگر بقول ویویک یہ دونوں کام کرنے میں ناکام رہے-ان کی سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید اسطوری انداز اختیار کرجاتی ہے اور آخری تجزیئے میں یہ سرمایہ داروں کے اندر پائی جانے والی تفسیم جو اصل میں مفادات کے افقی ٹکراؤ کے سبب ہواکرتی ہے میں کسی ایک پرت کی حمائت یا مخالفت اس کے ایتھنک یا نسلی پس منظر کی بنیاد پر کرنے لگتے ہیں-
مارکس نے کہا تھا کہ
"آپ اگر کسی شئے کو سمجھتے نہیں ہو تو آپ اس پر ٹھیک تنقید نہیں کرسکتے
'
اگر قوم پرست سرمایہ داری نظام کو ٹھیک سے سمجھتے نہیں ہیں اور اس کی اسطوری (متھالوجکل )تنقید کرتے ہیں تو یہ تنقید ہماری کچھ مدد نہیں کرسکتی-
پوسٹ کالونیل تھیوری کی روشنی میں قوم پرست اپنے نظریات کو نہ صرف سرمایہ دار مخالف کہتے ہیں بلکہ اس کو سامراج مخالف اور نوابادیاتی مخالف بھی کہتے ہیں-لیکن وہ سرمایہ داری کی عالمگیریت کو عملی طور پر ماننے سے انکاری نظر آتے ہیں-یہ اس بات کو بھی نظر انداز کرتے ہیں کہ سرمایہ داری پوری دنیا میں پھیل چکی ہے-اس کی خصوصیات جو منافع کمانے اور استحصال کرنے کے گرد گھومتی ہیں ہر کمیونٹی ،ہر کلچر ،ہر سماج کے اندر سرائت کرچکی ہیں-سرمایہ داری کو اپنے نفوز کرنے سے غرض ہے اس کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ سماج ہندو ہے یا مسلم یا کرسچن ،پشتون یا سرائیکی یا پنجابی-سرمایہ داری اپنے پھیلاؤ کے دوران ساری دنیا کو ایک خاص قسم کے اکنامک سٹرکچر اور معاشی قوتوں کے سیٹ کے اندر لے آتی ہے-اور یہ ساری دنیا کو ان فورسز کے خلاف جدوجہد پر بھی مجبور کرتی ہیں-لیکن پوسٹ کالونیل تھیوری کے والا و شیدا قوم پرست اس حقیقت سے انکاری ہوتے ہیں-یہ اکثر اس مشترک وصف سے انکاری ہوکر کہتے ہیں کہ سرمایہ داری جیسے کراچی اور لاہور میں اپنے اپ کو مسلط کرتی ہے ویسے ملتان ،کوئٹہ یا پشاور میں نہیں کرتی-
قوم پرستوں کی یہاں تک بات تو ٹھیک ہے کہ لوگ اپنی عادات،معیارات،،رواج ،کلجر سے بندھے ہوتے ہیں-اور اجتماع کاری اور ثقافتی ابعاد لوگوں کے انتخاب اور ان کے رویوں پر اثر ڈالتے ہیں-مگر ان کا ادعا اس سے بھی آگے ہے-اور وہ یہ ہے کہ لوگوں کے اجتماع کی تشکیل کلچر کرتا ہے-اور ان کے ہاں سوشلائزیشن کلچر سے بنتی ہے-اور وہ اس معاملے میں لوگوں کی بنیادی ضرورتوں اور ان کے مفاد کو کوئی بنیادی جگہ نہیں دیتے اور ان کے خیال میں سوشلائزیشن کو یہ دو عناصر تبدیل نہیں کرسکتے-کلچر کی بہت زیادہ اہمیت تو ہے لیکن یہ اتنا بھی اہم نہیں ہے کہ لوگ اس کی قیمت پر اپنی بہتری اور مفاد کو ترک کرڈالیں-قوم پرست آئیڈیالوجی کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ یہ اس بات سے انکار کرتی ہے کہ دنیا ایک قوتوں کے مشترکہ سیٹ میں بندھی ہوئی ہے اور ورکنگ کلاس پوری دنیا میں سرمایہ داری نظام کے خلاف مشترکہ مفاد رکھتی ہے-ورکنگ کلاس کا مذھب،نسل،ذات،فرقہ ،قومیت کوئی بھی ہے ان کے مفادات مشترکہ ہیں-اسی لیے سرمایہ داری کے خلاف جو جدوجہد ہے وہ بین الاقوامی بھی ہے اور عالمگیر بھی ہے-قوم پرست یہاں آکر ٹھہر جاتے ہیں-وہ ورکنگ کلاس کے مشترکہ مفاد پر ان کے نسلی یا قومیتی امتیاز پر زور دیتے ہیں-اور یہاں تک کہ وہ جیسے ورکنگ کلاس میں "ہمارے محنت کش اور ان کے محنت کش "کی تقسیم لے آتے ہیں اسی طرح سے وہ وسائل پیداوار کے مالکان کے درمیان بھی اپنے اور غیر کی تمیز لیکر آتے ہیں-اور جو ان کی قوم سے تعلق نہ رکھتا ہو اس سرمایہ دار کی مخالفت کرتے ہیں اور جو ان کی قوم سے تعلق رکھتا ہو اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہین-
قوم پرست تحریک میں درمیانہ طبقے کے اکثر دانشوروں کا حال یہ ہے کہ وہ بات تو خطے کی معاشی اور سیاسی خود مختاری کی کرتے ہیں لیکن وہ حکمران طبقے میں شامل اپنی قوم کے حاکم طبقے کی پرت کے ساتھ بار بار ہاتھ ملاتے ہیں-اور اس پرت کو کہتے ہیں کہ وہ ان کی تحریک کی قیادت سنبھال لیں-اگرچہ یہ اور بات ہے کہ ان کی قوم کا حاکم طبقہ بار بار جکمران طبقے میں ہی کوئی سودے بازی کرنے کی کوشش کرتا ہے-لیکن اگر یہ ہو بھی جائے کہ اس قوم کا حاکم طبقہ الگ اکائی کے مطالبے کی تحریک کی قیادت سنبھال بھی لے تو کیا اس قوم کے محنت کش اور کسان طبقات کی قسمت بدل جائے گی؟
اگر فرض کریں کہ یوسف رضا گیلانی،شاہ محمود قریشی،جاوید ہاشمی،احمد محمود،نواب صاحب ،فاروق اعظم،ریاض پیرزادہ اور سارے ہراج،ڈاہے،لاشاری،مزاری ،کھوسہ ،لغاری سردار،فیصل مختار،الہ دین گروپ یہ سب سردار اور سرمایہ دار اکٹھے ہوکر سرائیکستان کی تحریک کی قیادت کرتے ہیں تو کیا اس خطے کے عام آدمی ککو آزادی ملے گی؟ہرگز نہیں-حال تو یہ ہے کہ جب یوسف رضا گیلانی یا جاوید ہاشمی یا شاہ محمود قریشی جیسا آدمی قوم پرستوں کے سٹیج پر آجائے تو باقی سب پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور بس یہی نظر آتے ہیں-اس لیے طبقاتی سوال کو نظرانداز کرنا استحصال کے خاتمے اور سرائیکستانیوں کی حقیقی آزادی کے لیے خود کش حملے سے کم خطرناک بات نہیں ہے-
طبقاتی بنیاد پر یک جہتی کی بات کرنا چجتا بھی ہے-لیکن لیکن ایسے طبقات کے درمیان یک جہتی تلاش کرنا جن کے معاشی مفادات کے درمیان تضاد ہے ایک ایسی مشق ہے جس میں غالب طبقے کا فائدہ یقینی ہے-اس لیے یکجہتی کی بنیاد نظریہ ہونی چاہئے نہ کہ اس کی بنیاد مصلحتوں پر استوار ہونی چاہئے-
ہمارے سامنے کئی تجربات موجود ہیں-آل انڈیا مسلم لیگ میں دانیال لطیفی اور گئی مسلم اشتراکی گئے-1946ء کا مسلم ليگ کا انتخابی منشور بھی لکھا گیا-جس میں سوشلزم کی بات تھی-لیکن یہ سب کان سے پکڑکر نکال باہر کردئے گئے-کانگریس میں سجاد ظہیر ،کیفی اعظمی اور کئی لوگ گئے اور وہاں بھی یہ ٹاٹا و برلا جیسے سرمایہ داروں کا مقابلہ نہ کرسکے-ولبھ بھائی پٹیل کے آگے ان کی ایک نہ چلی-
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ میں بھی کئی متوسط طبقے کے لوگ موجود ہیں-خواجہ رضوان عالم،عامر ڈوگر جیسے اور پرویز رشید جیسے-یہ سب لوگ عملی اور قولی اعتبار سے باس از آلویز رائٹ کے اصول کے سوا کسی اور پر سوچنے یا کام کرنے کا حوصلہ ہی نہیں کرسکتے-ان کے آقاء رات کو دن کہہ دیں یہ بچارے دن کہتے ہیں-یوسف رضا کل تک ان کو پی پی پی جنوبی پنجاب کے عہدے دار کہتا تھا تو یہ وہی فیتے شولڈر پر لگائے پھرتے تھے-اب ان فیتوں کو بدل کر پی پی پی سرائیکی وسیب کردیا جائے گا تو کون سا فرق پڑنے والا ہے؟
اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ سرائیکیستان کے اندر بسنے والی ورکنگ کلاس اس تحریک کو کامیاب بناسکتی ہے اور وہی اس خطے کی ہی نہیں بلکہ دوسرے خطے کی ورکنگ کلاس کے ساتھ ملکر سب کی نجات کا سبب بن سکتی ہے-سرمایہ دار طبقات اور ان کے کاسہ لیس درمیانے طبقے کے موقعہ پرست کسی کو آزادی نہیں دلاسکتے-
آخر میں ایک بات مجھے یہاں اس تحریک کے اندر عورتوں کے حوالے سے پائی جانے والی پسماندگی اور پست ذھنیت اور مردانہ شاؤنزم کے بارے میں کہنی ہے-اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی سماجی شعبے میں ایک عورت جب اپنی ذھانت اور اپنی سرگرم شرکت کی وجہ سے ترقی کرتی ہے اور وہ تحریک کی قیادت کے منصب کی امیدوار بھی بن جاتی ہے تو اس پر مردانہ شاؤنزم چاروں طرف سے حملہ آور ہوتا ہے-اور مردوں کو اپنی انا مجروح ہوتے دکھائی دینے لگتی ہے-سارے کے سارے مرد جو شاؤنزم میں اندھے ہوتے ہیں اس خاتون کے درپے ہوجاتے ہیں-اس خاتون کی ذھانت اور اس کے ایکٹوازم کی موت کے لیے جس حد تک جانا پڑے جانے کو تیار ہوتے ہیں-ہم نے یہ مظاہرے بڑی پارٹیوں میں روز ہوتے دیکھے ہیں-لیکن یہ قوم پرستوں میں بھی جابجا دکھائی دیتے ہیں-اصل میں یہ ہمارے سماج کی مجموعی پسماندگی اور بنتہاپسندی پر مبنی بیمار ذھنیت کا عکس ہے جو ہماری سیاست سمیت ہر شعبے میں نظر آتا ہے-ہمارے میں جو خود کو ترقی پسند کہتے ہیں اور تنگ نظری سے کوسوں دور خود کو بتلاتے ہیں اس روش کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی-اور جو خواتین ایسے میدان میں قسمت آزمانے سامنے آتی ہیں جن کو مردوں کی جاگیر خیال کیا جاتا ہے ان کی کھل کر حمائت کرنا ہوگی-تبھی اس خطے کی آزادی اور خوشحالی کا راستہ ہموار ہوگا-
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment