“The oppressed are allowed once every few years to decide which particular representatives of the oppressing class are to represent and repress them.” ― Karl Marx
Saturday, September 22, 2012
یوم عشق رسول..........امن پرستی سے تشدد تک
یوم عشق رسول..........امن پرستی سے تشدد تک
لیل و نہار /عامر حسینی
کل جمعہ کے دن ایک گمراہ مصری تارک وطن کی بنائی ہوئی فلم کے خلاف یوم احتجاج کو "یوم عشق رسول "کے دیں کے طور پر منانے کا فیصلہ درست تھا-جو لوگ اس فیصلے پر تنقید کرتے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہیں-مگر اس دن کو پر امن طریقے سے منانے کی ذمہ داری جہاں پر حکومت کی تھی وہیں پر ان جماعتوں کی قیادت کی بھی تھی جنھوں نے اس دن جمعہ کے بعد احتجاج کی کال دی تھی-ان جماعتوں کے رہنما مجرمانہ خاموشی کے مرتکب ہوئے-اور جب آگ لگ گئی اور نقصان ہوگیا تو امن کی درخواست شروع ہوگئی-
یوم عشق رسول کیسے تشدد میں تبدیل ہوگیا ؟اس بارے بہت سی تھیوریز گردش میں ہیں-لیکن ایک سوال بہت اہم ہے-اور وہ سوال یہ ہے کہ اس روز کراچی ،اسلام آباد ،پشاور اور پنڈی ،لاہور میں کالعدم تنظیموں کے کارکن آزادی کے ساتھ گلیوں اور محلوں میں گھوم پھر رہے تھے -ان کو ٹی وی چینلز کی فوٹیج میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے-انھوں نے بیکنس لوٹے ،دکانوں اور مارکیٹس کو آگ لگائی اور اس موقعہ پر ان کو روکنے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں مکمل طور پر ناکام نظر آئی-ایسا کیوں ہوا؟وفاقی وزیر داخلہ پنجاب حکومت پر الزام عائد کرتے ہیں-لیکن سب سے زیادہ تشدد اور خوں ریزی تو پشاور اور کراچی میں ہوئی-وہاں تو پنجاب حکومت کا عمل داخل نہیں تھا-وہاں حکومت ان متشدد عناصر کو روکنے میں کامیاب کیوں نہ ہوئی؟لوگ یہ بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ چودہ ستمبر کو دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں نے احتجاج کا اعلان کیا اور اس اعلان کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر حکومت نے پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کا اعلان کر ڈالا-کیا یہ اقدام دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کو حمایت دینے والا نہیں تھا؟لوگوں میں یہ سوال بھی گردش کر رہا ہے کہ بلوچستان ،گلگت بلتستان اور کراچی میں جو ٹارگٹ کلنگ کی لہر ہے اور اس میں جو سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے تھے اور سیاسی جماعتوں کے کردار پر جو انگلیاں کھڑی ہورہی تھیں ان سب سے توجہ ہٹانے کے لئے حکومت نے دائیں بازو کے کالعدم عناصر کو بڑا خطرہ بنا کر دکھانے کی کوشش کی ہے؟لوگ اب یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ فرقہ وارانہ قتل غارت گری اور مذہبی منافرت کو پھیلانا ایک منظم سازش کا حصہ ہے-اس کا ایک مقصد تو پاکستان کے اندر انتہا پسندوں کی طاقت اور خطرے کو مغرب میں بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے-دوسرا ملک میں کاروباری برادری کو بھی دارانہ مقصود ہے کہ اگر ہم گئے تو دوسرا متبادل بہت خوفناک ہے-
کل کے دن کو بطور ہالیڈے کے منانے کا بظاہر مقصد تو حزب اختلاف کو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا موقعہ نہ دینا تھا-اس کا ایک مقصد پاکستان کے دائیں بازو کو خوش کرنا بھی تھا-لیکن یہ دونوں مقاصد حکومت کو حسسل نہ ہوسکے-صدر زرداری اور ان کے اتحادی جو خود کو سیکولر لبرل کہتے نہیں تھکتے شائد تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے-ان کو تاریخ پاکستان کا 70s کا باب ضرور پھر سے کھول کر دیکھ لینا چاہیے-بھٹو صاحب نے اپنے ریڈکل لیفٹ ایجنڈے سے یو ٹرن لیا اور آئین میں تھوکریٹک اور فرقہ وارانہ ترامیم متعارف کرائیں-انھوں نے خود کو سیاسی اسلام پسندوں سے زیادہ اسلام پسند ثابت کرنے کی کوشش کی-لیکن نتیجہ کیا نکلا؟بھٹو سستر کے آتے آتے سیاسی تنہائی کا شکار ہوتے چلے گئے-دائیں بازو کی سیاست پاکستان پر غلبہ کر گئی-اور رجعت پسند طبقات کے ہاتھوں میں پھر سے طاقت آگئی-پیپلز پارٹی اور اے این پی دونوں کی قیادت سامراج دشمنی کے ایجنڈے کو ترک کر کے ،نجکاری پر مبنی پالیسیوں کی حمایت کر کے اب آخر میں دائیں بازو کی پچ پر کھیل کر اقتدار بچانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے-لیکن اس بچ پر کھیلنے کا ان کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے-اس پچ پر کھیلنے کا ایک نتیجہ تو سب کے سامنے ہے کہ پیپلز پارٹی سلمان تاثیر سے محروم ہوگئی-اس کے بیٹے کو آج تک بازیاب نہ کرسکی-یہ پارٹی اپنے حامی ووٹروں کو فرقہ وارانہ قتل و غارت گری سے نہ بچا سکی-اور اے این پی اپنے سینکڑوں کارکنوں سے محروم ہوگئی ہے-اس کا لیڈر آزادانہ نقل و حرکت سے محروم ہے-صدر زرداری خود اپنی پارٹی کے کارکنوں اور عوام میں جانے سے قاصر ہیں-کوئٹہ ،کراچی اور پشاور میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے حکومت کی رٹ پر سوالیہ نشان ضرور لگا ہوا ہے-اس کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب ،بلوچستان اور سندھ میں سیلاب کے متاثرین جس حالت میں ہیں اس کا بھی کوئی جواب حکومت کے پاس نہیں ہے-رحمٰن ملک کے بارے میں اس ملک کی سب سے بڑی عدالت جھوٹا اور خائن ہونے کا فیصلہ دے چکی ہے-جبکہ وزیر اطلاعات ساری ذمہ داری میڈیا کے سر تھونپ کر انتظامی نااہلی کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں-حکومت کو اپنی پالیسیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے-حکومت کے اقدامات کو اب شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے-ہٹ تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے ریاستی سطح پر فلم کے خلاف یوم احتجاج منانے کو تشدد کو کھلی دعوت دینے کے مترادف قرار دیا جارہا ہے-پیپلز پارٹی کب تک پنجاب حکومت کو الزام دیکر اور مسلم لیگ نواز کب تک وفاقی حکومت کو الزام دیکر اپنی کمزوریوں اور حامیوں پر پردہ ڈالتی رہی گی-کیا ملبہ دوسروں پر ڈالنے سے ان مصائب کا خاتمہ ہوجائے گا جن کا شکار عوام بن رہے ہیں-کل کے احتجاج میں تشدد کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک امریکی فاسٹ فوڈ کمپنی نے پاکستان میں اپنا کاروبار بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے-اس کمپنی کی برانچوں میں سینکڑوں پاکستانی کام کر رہے تھے-بہت سارے تاجر اور صنعت کار اپنا کاروبار اور صنعت اس ملک سے باہر لیجانے کی سوچ رہے ہیں-یہ پاکستان کی پہلے سے دباؤ کا شکار معشیت کے لئے مزید تباہی کا پیغام ہے-کل جو تشدد ابھرا اس سے ملک میں علماء کرام کے اثر و رسوخ پر بھی سوالیہ نشان اٹھا ہے-کیا علماء معاشرے میں فساد پھیلانے والوں کو روکنے میں ناکام ہوگئے ہیں؟میرے خیال میں کل کے دن تشدد اور دہشت گردی نے پوری قوم کے امیج کو مزید برباد کر کے رکھ دیا ہے-
Thursday, April 26, 2012
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ...........سرائیکی خطہ کا نیا سوریہ بادشاہ
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ...........سرائیکی خطہ کا نیا سوریہ بادشاہ
لیل و نہار /عامر حسینی
آج جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو سپریم کورٹ کا ایک نو رکنی بنچ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم کا مرتکب قرار دے چکا ہے-ایک سندھی وزیر اعظم کے بعد سپریم کورٹ نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک سرائیکی وزیر اعظم کو بھی معاف نہیں کیا اور اس کے خلاف بھی فیصلہ سننانے میں دیر نہیں کی-اس عدالتی فیصلے کو سننے کے بعد میرے ذھن میں فوری طور پر یہ خیال آیا کہ نصاف اور قانون کی بالا دستی کے سارے تقاضے شدت کے ساتھ آخر پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت کے خلاف ہی کیوں انصاف کے منصفوں کو یاد آتے ہیں -آخر ہر مرتبہ انصاف کی دیوی کا غضب غیر پنجابی وزیر اعظم پر کیوں اترتا ہے-آخر ایک پنجابی وزیر اعظم کو دیا گیا این آر او کیوں منسوخ نہیں ہوتا اور سپریم کورٹ نیب سے اس کی جائیداد تک واپس کیوں دلاتی ہے-سپریم کورٹ قانون ساز بن گئی تھی اس وقت جب اس نے مشرف کو تین سال حکمرانی کے بھی دے ڈالے تھے-آج تک اس فیصلے پر پیشمانی کا اظہار نہیں کیا گیا-بہت ساری مثالیں ہیں جن کو یہاں درج کیا جاسکتا ہے-جن کو دیکھ کر قانون کی حکمرانی کی بات فضول لگنے لگتی ہے-وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ جو عدالتیں آج تک کسی آمر کو اپنی عدالت میں کسی بھی مقدمے میں نہیں بلا سکیں اور نہ ہی کسی کو سزا دے سکیں وہ صرف اپنی انا کی تسکین کے لئے ملک کے منتخب وزیر اعظم کو کہٹرے میں کھڑا کرنا چاہتی ہیں-مجھے کیا ملک کے سب سے بڑے اور ممتاز قانون دان اعتزاز احسن کو ن رکنی بنچ کے منصفین جانبدار لگرھے تھے-وہ کہتے رہے کہ جن ججوں نے توہین عدالت خیال کیا وزیر اعظم کے عمل کو ان کو اس بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہئے-اور اس مقدمے کی سماعت فل کورٹ کو کرنی چاہئے-پھر بار بار وزیر اعظم کے وکیل کی جو تذلیل کرنے کی کوشش ہوتی رہی -اسی طرح سے سابقہ اٹارنی جنرل اور موجود اٹارنی جنرل کی تذلیل و تضحیک کی گئی اور اس دوران ججز جس طرح سے کچھ اخباری اور میڈیا کی صحیح سرخیوں سے متاثر ہوکر دوران سماعت ریمارکس دیتے پائے گئے اس سے یہ تاثر پختہ ہوا کہ پیپلز پارٹی کو عدالتی استحصال اور عدالتی ٹرائل کے ایک متعصب سلسلے کا سامنا ہے-وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو یہ سزا کیوں سنائی گئی ؟اس پر پیپلز پارٹی کے مخالفین کا موقف تو پروپیگنڈا والا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو یہ سزا عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنے اور صدر زرداری کو آئین میں حاصل استثنا ک دفاع کرنے پر سنائی گئی ہے-یوسف رضا گیلانی کے لئے یہ سزا ایک انعام ہے-وہ سرائیکی دہراتی کا ماں بن گئے ہیں-سرائیکی باشندوں کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہ کہ ان کا ایک بیٹا امتحان میں سرخ رو ہوگیا ہے-یوسف رضا گیلانی سرائیکی دھرتی کے وہ سپوت ثابت ہوئے ہیں جنھوں نے نہ صرف جمہوریت اور آئین کا بول بالا کیا ہے بلکہ انھوں نے اس دھرتی کے لوگوں کی لڑائی بھی لڑی ہے-
سوریہ بادشاہ سندھ کے ایک پیر گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے وہ انگریزوں سے لڑ گئے تھے اپنی دھرتی کی آزادی کے لئے اور سندھی قوم کی نجات کے لئے-یوسف رضا گیلانی بھی ایک پیر گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے بھی اپنی سرائی قوم کو صدیوں کی غلامی اور پسماندگی سے نکالنے کی کوشش شروع کر ڈالی ہے-انہوں نے اپنی قوم کو پہلی مرتبہ خود بااختیار ہونے کا درس دے ڈالا اور اس بات سے اتفاق کر لیا کہ پاکستان میں اگر سرائیکی خطہ پنجاب کا حصہ رہتا ہے تو یہ کبھی پسماندگی اور غربت سے نہیں نکل سکے گا-اس کی ترقی کا سب سے اہم اور بنیادی سنگ میل س خطہ کا صوبہ بننا ہے-یہ خطہ اگر اپنے شناختی حقوق سے محروم رہا تو اس کی پسماندگی کبھی دور نہیں ہوگی-اس کی صنعتی ترقی کا کبھی سلسلہ شروع نہیں ہوسکے گا-وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس دھرتی کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کی کوشش کی -جس کو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ کالونیل دور میں پیچھے رکھا گیا تھا اور جب پاکستان بنا تو بھی اس کے ساتھ بےپناہ زیادتیاں روا رکھی گئیں-گیلانی اس خطہ کے پسماندہ اور مرکزی چین سے کتے ہوئے شہروں اور قصبوں کو ترقی یافتہ بنانے اور ان میں کم از کم سرمایہ دارانہ ترقی کا پروسس شروع کرنے کی کوشش کر رہا تھا-اس کی اس کوشش کو جرم خیال کیا گیا -اس کا دوسرا بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے ان گزرے چار سالوں میں کسی بھی بحران میں اور کسی بھی برے اور نازک وقت میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا-اس نے اپنی پارٹی کے شریک چیرمین کے خلاف اسٹبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی کے مخالفوں سے ہاتھ نہیں ملایا -اس نے صرف یہی نہیں کیا کہ کہ اپنی پارٹی کے خلاف کوئی دغا کرنے سے انکار کیا بلکہ اس نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دفاع کے لئے پھرپور جدوجہد بھی کی-پاکستان کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے بعد وہ پہلے وزیر اعظم تھے جنوں نے ریاست اندر ریاست بنانے والوں کو للکارا اور اسٹبلشمنٹ میں بیٹھے مہم جوں کو وارننگ دی-بطور وزیر اعظم انھوں نے جس طرح سے میمو سازش کا مقابلہ کیا اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو حدود میں رہنے کو کہا وہ بھی بہت سارے لوگوں کے لئے حیرت کا سبب تھا-یوسف رضا گیلانی سرائیکی خطہ کے لئے اپنے جذبات کو ظاہر کیا اور اس بات کا برملا اعلان کیا کہ اگر سرائیکی وزیر اعظم کے ہوتے سرائیکی صوبہ نہیں بنتا تو پھر کب بنے گا-یہ ان کی ذات تھی جنھوں نے سرائیکی صوبہ کی مخالفت میں بہاولپور،پنجد صوبہ کی آوازیں بلند کرنے والوں کا اصل چہرہ عوام کو دکھیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہی نہیں کہ اس خطہ کے لوگ غلامی سے آزاد ہوں-وہ پہلے سرائیکی وزیر اعظم ہیں جنھوں نے سرائیکی سوال کو تسلیم کیا اور سرائیکی قوم کے حقوق کی جدوجہد کو جائز قرار دیا-سرائیکی خطہ کے لوگ اسی لئے یوسف رضا گیلانی کو اپنا محسن خیال کر رہے ہیں اور وہ اسی لئے یوسف رضا گیلانی سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں-کیا پاکستان میں کوئی اور پارٹی اور کوئی اور پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر سیاسی جماعت یہ ثابت کر سکتی ہے کہ اس نے اس خطہ کے مقدمہ کو اس طرح سے پیش کیا ہے جس طرح سے گیلانی اور زرداری نے پیش کیا ہے-
بہت ساری سفاک حقیقتیں ہیں جو گیلانی کے وزیر اعظم بنتے ہی سامنے آنے لگیں تھیں-پاکستان بننے سے لیکر اب تک پہلی مرتبہ کسی سرائیکی خطہ کے وزیر اعظم نے اس خطہ کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کی-اس نے پہلی مرتبہ اس خطہ میں اربن نائزیشن کو عملی شکل میں لانا چاہا تاکہ یہاں بھی کم از کم اس ترقی کا آغاز ہوسکے جو بالائی پنجاب میں سب سے پہلے انگریز دور میں اور پھر ایوب دور میں شروع ہوگئی تھی-جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے صوابدیدی فنڈ سے اس خطہ کی ترقی کے لئے درکار فنڈ جاری کرنا شروع کئے تو ہم نے دیکھا کہ چودھری نثار ،شیخ رشید ،شہباز شریف سمیت بالائی پنجاب کے بہت سارے سیاست دانوں،صحافیوں،سماجی کارکنوں اور اینکرز کو سب سے پہلے تو یہ خیال آیا کہ وزیر اعظم کو صرف ملتان کا یا سرائیکیوں کا وزیر اعظم نہیں ہونا چاہئے-یہ خیال ان کو کبھی میاں نواز شریف کی وزارت کے دور میں نہیں آیا تھا-پھر یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈ کو ختم کر دیا جانا چاہئے-وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے لہجہ کا مذاق اڑایا گیا اور پھر ان کی اپنے خطہ کے لئے کی گئی کاوش کو جھٹلانے کے لئے ان پر طرح طرح کے الزامات کی بارش کر دی گئی-یہ سب جس وجہ سے ہورہا تھا وہ وجہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے-ہم نے بنگالی قوم کی حقوقکی تحریک ہو یا بلوچ قومی تحریک یا پھر سندھی قوم کی تحریک ہو اور پختون قوم کی تحریک ہو کے دوران ان اقوام کی پسماندگی اور غربت کا سبب ان اقوام کی نااہلی اور سستی کو قرار دیتے ہوئے ان لوگوں کو سنا جو ان اقوام کو ان کے سیاسی،معاشی،صوبائی اور قومی حقوق دینا نہیں چاہتے تھے-جب سرائیکی قومی تحریک اپنے عروج پر ہے اور لوگ اپنے حقوق کی مانگ کر رہے ہیں تو ہر طرف سے شور مچایا جارہا ہے کہ سرائیکیوں کی غربت اور پسماندگی کا سبب ان کی اپنی نااہلی ہے اور سستی ہے-گویا خدا نے اگر کسی کو کام کی صلاحیت اور ترقی کی جبلت دی ہے تو وہ صرف پنجابی حکمران طبقہ ہے اور کوئی نہیں ہے-گیلانی پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ لسانی تعصب پھیلا رہے ہیں -کیا یہ کوئی اتفاق ہے کہ جو بھی اپنی قوم کے لئے حقوق کی مانگ کرے اور اس کی شناخت کے لئے آواز اٹھائے وہ متعصب اور فرقہ پرست ٹھہر جاتا ہے-جب جناح نے مسلم قوم کا مقدمہ لڑا تو جناح متعصب ٹھہرا-جب حسین شہید سوہروردی نے بنگالی قوم کا مقدمہ لڑا تو وہ متعصب ٹھہرا-یہی کچھ جی ایم سید کے ساتھ ہوا-یہی کچھ خان غفار خان کے ساتھ ہوا-میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ یہی ہوا-شیخ مجیب کے ساتھ یہی ہوا-آج یوسف رضا گیلانی کے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے-ایک بات میں اور یاد کرتا چلوں کہ جن اکر کیا ان سب کے خلاف شخصیات کا میں نے ذکر کیا ان کے خلاف مغربی پاکستان کا پریس اور عدالتیں زیادہ تر جانبدارانہ کردار ادا کرتی رہیں اور پھر یہ ان خطہ کے عوام کی اصل خواہشات کو بھی پوشیدہ رکھتی رہیں اسی طرح سے آج یوسف رضا گیلانی کا میڈیا ٹرائل ہورہا ہے-یوسف رضا کی آواز کو غداری.کرپشن اور لسانیت کے شور میں دبانے کی کوشش ہورہی ہے-اس طرح سے کر کے سرائیکی قوم کو آج ووہی پیغام دیا جارہا ہے جو ٤٨ میں بنگالی قومی تحریک کو دی گیا تھا اور ٨٠ میں سندھیوں کو دیا گیا تھا-یہ صوبائی حقوق کی مانگ کی تحریک ہے اگر یوسف رضا گیلانی کو اس تحریک کی پاداش میں سزا سنی گئی تو پھر اس صوبائی تحریک کی شکل بدل سکتی ہے-کچھ لوگ کہ رہے ہیں کہ گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ سرائیکی کاز کی وجہ سے نہیں بلکہ این آر او پر عمل درآمد نہ کرنے پ لگایا جارہا ہے-میں ان لوگوں سے یہ سوال ضرور کروں گا کہ وہ مجھے بتائیں اس ملک میں آج تک جو بھی مقدمات سیاسی لوگوں پر بنائے گئے کیا وہ اصل سیاسی عناد کو فرد جرم بنا کر لگائے گئے-بھٹو صاحب کے خلاف مقدمہ قتل کا بنایا گیا-اس سے پہلے شیخ مجیب کے خلاف غداری کا مقدمہ بنا-اسی طرح سے میاں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیکنگ کا کیس بنا-بینظیر بھٹو پر میاں نواز شریف نے کرپشن کے کیس قائم کئے-تو کسی کو بھی سزا دینے کے لئے جھوٹی کسی فوجداری دفعہ کا سہارا ڈھونڈا گیا-اور انصاف کا خون کیا گیا-سیاسی مخالفوں پر بھینس چوری کے پرچے بہت عام رہے ہیں-عدالتوں کے روزنامچے سیاسی مخالفوں کے خلاف رپٹوں سے بھرے پڑے ہیں-اور تھانوں میں ان کا ریکارڈ موجود ہے-ان کی حقیقت سے سب واقف ہیں-خود چیف جسٹس کے بیٹے کا کیس بھی موجود ہے-اس حوالے سے جو کہانیاں موجود ہیں آج تک ان کی صفائی تو کسی سے طلب نہیں کی گئی-بہت ساری باتیں ہیں جو جانبداری کا پول کھولتی ہیں-اس لئے میں کہتا ہوں کہ اس مقدمے میں قاضی ہار گئے اور رند جیت گئے-وزیر اعظم صوفی درویش ہیں اور مجھے آج سمجھ لگی ہے کہ کیوں ملا قاضی ،منصف ،داروغہ سے صوفی اور رند کی مستی اور رندی کا میل نہیں ہوپاتا-یوسف رضا گیلانی سزا پاکر امر ہوگئے-بلھے شاہ نے کہا تھا کہ
"وہ تینوں کافر کافر آکھ دے تو آھو آھو آکھ "
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی پہلے لالچ اور پھر غصہ میں آکر دھونس دے کر غداری پر اکسایا گیا مگر یوسف رضا گیلانی نے سرائیکی خطہ کا فاروق لغاری بننا پسند نہیں کیا اور اس نے بھگت سنگھ بننا پسند کیا-پورے سرائیکی وسیب کو اپنے سوریہ بادشاہ پر فخر ہے-اس مرتبہ گیلانی جب پنے خطہ میں آئین گے تو ایک ہارو اور سورما کی طرح ان کا استقبال ہوگا-بینظیر بھٹو جب شاہ نواز کا جنازہ لیکر سندھ آئی تھیں تو ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا "غم نہ کر بینظیر -ہم تیرے مرتضاء ہم تیرے شاہ نواز"گیلانی اب جب سرائیکی وسیب آئیں گے تو وسیب کے باسی کہیں گے کہ "سجن آوں اکھیاں ٹھہرن "
Tuesday, February 28, 2012
ٹھیکیداری سسٹم کا خاتمہ اور مزدوروں کی خوش حالی
ٹھیکیداری سسٹم کا خاتمہ اور مزدوروں کی خوش حالی
لیل و نہار /عامر حسینی
خانیوال کی ایک تحصیل کبیروالہ ہے-کسی زمانے میں یہاں پر سید فیصل امام نے ایک ڈیری فیکٹری قائم کی تھی-یہ بہت تیزی سے ترقی کر رہی تھی -لیکن شائد جاگیرداروں کو اپنے علاقے میں صنعت کاری کا عمل راس نہیں آتا تو انھوں نے یہ فیکٹری ایک ملٹی نیشنل کو فروخت کر دی-جس نے اس جگہ بتدریج نئے پلانٹ لگائے اور یہ ملٹی نیشنل کمپنی اس علاقے میں ملک پروسیسنگ اور ملک سے بننے والی دوسری اشیا کی پیکنگ کا ایک اہم ادارہ بن چکی ہے-
کسی بھی پسماندہ اور دیہی پس منظر رکھنے والے قصبے یا گاؤں کے قریب فیکٹری لگانے کا سبب ملٹی نیشنل کے لئے یہ ہوتا ہے کہ وہاں سے سستی لیبر میسر آتی ہے اور وہاں سے خام مال بھی سستا اور وافر مقدار میں میسر آتا ہے-یہ سب تو اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور فائدہ بھی سرمایہ دار اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں-وہ فائدہ اصل میں اس علاقے سے بھرتی ہونے والی لیبر کی بےخبری اور آدم آگاہی کی وجہ سے اٹھایا جاتا ہے-
جس علاقے میں ملٹی نیشنل کمپنی اپنا کوئی یونٹ لگاتی ہے -اس علاقے سے ملنے والی لیبر غربت اور عدم آگاہی کی وجہ سے بہت تھوڑی تنخواہ اور اپنے لیبر رائٹس سے دست بردار ہوجاتی ہے-اس طرح سے ملٹی نیشنل کمپنی بہت سارا پیسہ بچا لیتی ہے-تیسری دنیا کے ملکوں میں مغرب اور امریکہ سے ٨٠ کی دہائی کے بعد جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے یونٹ آئے وہ دراصل لاگت میں کمی کرنے کے لئے سستی لیبر اور سستا خام مال اور کمزور قسم کی لیبر تحریک کی وجہ سے آئے تھے-
کبیروالہ کے اندر سوئٹزرلینڈ کی ایک فوڈ و بیورج سے متعلق ملٹی نیشنل کمپنی کا پلانٹ بھی اسی لئے لگایا گیا تھا-ایک عرصۂ تک یہاں پر فیکٹری انتظامیہ نے پاکٹ یونین سے کام چلایا تھا-اور مزدوروں کی بہت زیادہ تعداد کو کچھ مزدوروں کی صف میں رکھا تھا-کئی سالوں بعد ایک انٹرنیشنل لیبر تنظیم آئی ایف یو کی وجہ سے یہ ممنکں ہوا کہ سی بی اے میں مزدوروں کی حقیقی قیادت سامنے آئے-اور اس فیکٹری کے مزدوروں کو اپنے لیبر رائٹس بارے معلوم ہوسکے-اس فیکٹری کے مزدوروں نے اپنا پیٹ کاٹ کر سی بی اے کے لوگوں کو پیسا دیا اور ان کو اپنی قوت سے طاقتور بنانے کی کوشش کی-لیکن بدقسمتی سے ڈیلی ویجرز کے نام سے فیکٹری میں کام کرنے والی یہ مخلوق ایک مرتبہ پھر موقعہ پرستی کی سیاست کی نظر ہوگی-اس مرتبہ یہ دھوکہ ان کے ساتھ کسی افسر نے نہیں بلکہ ان کے نام پر مزدور لیڈر بن جانے والے نے کیا-
اس وقت اس فیکٹری میں مستقل مزدوروں کی تعداد صرف 355 ہے جبکہ ڈیلی ویجرز کی تعداد 750 ہے- گویا مزدوروں کی اکثریت کو نام نہاد ٹھیکیداری سسٹم کے حوالے کیا جاچکا ہے-ان 750 میں سے 258 مزدوروں نے لیبر کورٹ ملتان بنچ سے رجوع کیا تھا تو کورٹ نے اس میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ ڈیلی ویجرز کو مستقل کیا جائے-ابھی تک فیکٹری انتظامیہ اور سی بی اے کے صدر کی وجہ سے اس معاملے کو حل نہیں کیا جسکا-انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ وہ ١٠٠ مستقل اسامیاں پیدا کرے اور سی بی اے کے صدر کو نواز دے -جب کے سی بی اے کا صدر یہ چاہتا ہے کہ ٢٥٨ اسامیاں ہوں تاکہ اس کے یونین میں ٢٥٨ ووٹ آجائیں اور وہ سی بی اے یونین پر کنٹرول کر لے-موقعہ پرستی کی اس سیاست کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ اس سے 492 ڈیلی وجیرز کا مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریک ہوجائے گا-ان کو فیکٹری انظامیہ کی طرف سے زیادہ جابرانہ اقدامات کا سامنا کرنا ہوگا-ستم ظریفی یہ ہے کہ جو آئی یو ایف سی کی لوکل لیڈر شپ ہے-جوس سے سی بی اے کا الحاق ہے-وہ بھی سی بی اے صدر کی اس موقعہ پرستی کا ساتھ دے رہی ہے-میں حیران تھا کہ مزدوروں کی لیڈر شپ میں ایسی کون سی کشش ہوتی ہے کہ اس کے لئے سارتی اخلاقیات کو ایک طرف رکھا جارہا ہے-مجھے سی بی اے یونین کے جنرل سیکرٹری خللد بھٹی نے سالانہ انکریمینٹ کی ایک کاپی دی اور سی بی اے و انتظامیہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کی کاپی فراہم کی تو معلوم ہوا کہ کیسے فیکٹری انتظامیہ اور سی بی اے کے صدر نے مل کر چار ماہ کا انکریمنٹ کھا لیا-اس پر فیکٹری کے مزدور عدالت جانے کی تیاری کر رہے ہیں-
مزدروں کو فیکٹری کے منافع میں سے پانچ فیصد ابھی تک اس لئے نہیں مل رہا کہ سی بی اے کا صدر اس بات پر اصرار کر رہا ہے کہ ڈیلی ویجرز میں اس کے جو لوگ قرینب ہیں اور سال میں جن کے کام کے دن ١٨٠ سے کم ہیں ان کو بھی اس منافع میں حصہ دیا جائے-یہ سب اس لئے بھی ہورہا ہے کہ 492 نان کیس فائلر ڈیلی ویجرز کی نمائندگی کرنے والا کوئی نہیں ہے-انتظامیہ کے لئے یہ صورت حال بہت فائدہ مند ہے-
اس کہانی کے کئی اور پہلو بھی ہیں-اور وہ یہ ہیں کہ کس طرح سے مزدوروں کے حقوق کی جنگ پاور سیکنگ کی جنگ میں بدل گئی ہے-اور کس طرح سے مزدوروں کا ایک لیڈر جس کی فیکٹری میں تنخواہ چودہ ہزار روپے ہے وہ ڈبل کیبن ڈالے میں ،گن مین کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے-اور وہ دنوں میں لاکھوں روپے کی پراپرٹی کا مالک ہوگیا ہے-پھر اس پر اخلاقی جرائم کے ارتکاب کرنے کے الزام بھی لگ رہے ہیں-یہ بہت افسوس ناک صورت حال ہے-لیبر اور سرمایہ کے تضاد میں ہونے والی اس کشمکش میں محنت کشوں کے سامنے اس قسم کی موقعہ پرستی ان کے حوصلے پست کرتی ہے-اور اس کا براہ راست فائدہ سرمایہ دار قوتوں کو ہوتا ہے-
اس صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں بہت آزادی کے ساتھ قانون ،لیبر لاز اور عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑاتی ہیں -اور ان کا احتساب کہیں نہیں ہوتا-دیہی علاقوں میں ان کے یونٹ استحصال کو زیادہ فروغ دیتے ہیں-کیونکہ وہاں ہونے والا استحصال میڈیا میں اس طرح سے جگہ نہیں پاتا جس طرح سے وہ شہری مراکز میں جگہ پاتا ہے-پھر یہ بھی ہے کہ دیہی علاقوں کی لیبر اپنے حقوق سے بےخبر ہوتی ہے-اس بےخبری کا فائدہ فیکٹری انتظامیہ ہی نہیں بلکہ ترید یونین لیڈرز اور موقعہ پرست تنظیمیں بھی اٹھاتی ہیں-ایک لطیفہ نما حقیقت بھی میں اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ جس فیکٹری کا میں تذکرہ کر رہا ہوں اس فیکٹری کی سی بی اوے یونین کے لیٹر پیڈ پر سی بی اے یونین کے دفتر کا پتہ سی بی اے یونین کے موجودہ صدر کے گھر کا پتہ ہے-گویا ایک طرح سے موجودہ صدر کے گھر کی لونڈی ہے سی بی اے یونین ہے-یا ان کو یہ خیال ہے کہ وہ تاحیات اس سی بی اے کے صدر رہیں گے-میں سمجھتا ہوں کہ یہ دراصل ہماری پوری سیاست کا ایک عکس ہے کہ جو بھی لیڈر بن جائے وہ مطلق العنان لیڈر بننے کا خواں ہوتا ہے-اور وہ خود اپنے ہاتھوں سے انصاف کا خوں کرتا ہے-
لیل و نہار /عامر حسینی
خانیوال کی ایک تحصیل کبیروالہ ہے-کسی زمانے میں یہاں پر سید فیصل امام نے ایک ڈیری فیکٹری قائم کی تھی-یہ بہت تیزی سے ترقی کر رہی تھی -لیکن شائد جاگیرداروں کو اپنے علاقے میں صنعت کاری کا عمل راس نہیں آتا تو انھوں نے یہ فیکٹری ایک ملٹی نیشنل کو فروخت کر دی-جس نے اس جگہ بتدریج نئے پلانٹ لگائے اور یہ ملٹی نیشنل کمپنی اس علاقے میں ملک پروسیسنگ اور ملک سے بننے والی دوسری اشیا کی پیکنگ کا ایک اہم ادارہ بن چکی ہے-
کسی بھی پسماندہ اور دیہی پس منظر رکھنے والے قصبے یا گاؤں کے قریب فیکٹری لگانے کا سبب ملٹی نیشنل کے لئے یہ ہوتا ہے کہ وہاں سے سستی لیبر میسر آتی ہے اور وہاں سے خام مال بھی سستا اور وافر مقدار میں میسر آتا ہے-یہ سب تو اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور فائدہ بھی سرمایہ دار اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں-وہ فائدہ اصل میں اس علاقے سے بھرتی ہونے والی لیبر کی بےخبری اور آدم آگاہی کی وجہ سے اٹھایا جاتا ہے-
جس علاقے میں ملٹی نیشنل کمپنی اپنا کوئی یونٹ لگاتی ہے -اس علاقے سے ملنے والی لیبر غربت اور عدم آگاہی کی وجہ سے بہت تھوڑی تنخواہ اور اپنے لیبر رائٹس سے دست بردار ہوجاتی ہے-اس طرح سے ملٹی نیشنل کمپنی بہت سارا پیسہ بچا لیتی ہے-تیسری دنیا کے ملکوں میں مغرب اور امریکہ سے ٨٠ کی دہائی کے بعد جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے یونٹ آئے وہ دراصل لاگت میں کمی کرنے کے لئے سستی لیبر اور سستا خام مال اور کمزور قسم کی لیبر تحریک کی وجہ سے آئے تھے-
کبیروالہ کے اندر سوئٹزرلینڈ کی ایک فوڈ و بیورج سے متعلق ملٹی نیشنل کمپنی کا پلانٹ بھی اسی لئے لگایا گیا تھا-ایک عرصۂ تک یہاں پر فیکٹری انتظامیہ نے پاکٹ یونین سے کام چلایا تھا-اور مزدوروں کی بہت زیادہ تعداد کو کچھ مزدوروں کی صف میں رکھا تھا-کئی سالوں بعد ایک انٹرنیشنل لیبر تنظیم آئی ایف یو کی وجہ سے یہ ممنکں ہوا کہ سی بی اے میں مزدوروں کی حقیقی قیادت سامنے آئے-اور اس فیکٹری کے مزدوروں کو اپنے لیبر رائٹس بارے معلوم ہوسکے-اس فیکٹری کے مزدوروں نے اپنا پیٹ کاٹ کر سی بی اے کے لوگوں کو پیسا دیا اور ان کو اپنی قوت سے طاقتور بنانے کی کوشش کی-لیکن بدقسمتی سے ڈیلی ویجرز کے نام سے فیکٹری میں کام کرنے والی یہ مخلوق ایک مرتبہ پھر موقعہ پرستی کی سیاست کی نظر ہوگی-اس مرتبہ یہ دھوکہ ان کے ساتھ کسی افسر نے نہیں بلکہ ان کے نام پر مزدور لیڈر بن جانے والے نے کیا-
اس وقت اس فیکٹری میں مستقل مزدوروں کی تعداد صرف 355 ہے جبکہ ڈیلی ویجرز کی تعداد 750 ہے- گویا مزدوروں کی اکثریت کو نام نہاد ٹھیکیداری سسٹم کے حوالے کیا جاچکا ہے-ان 750 میں سے 258 مزدوروں نے لیبر کورٹ ملتان بنچ سے رجوع کیا تھا تو کورٹ نے اس میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ ڈیلی ویجرز کو مستقل کیا جائے-ابھی تک فیکٹری انتظامیہ اور سی بی اے کے صدر کی وجہ سے اس معاملے کو حل نہیں کیا جسکا-انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ وہ ١٠٠ مستقل اسامیاں پیدا کرے اور سی بی اے کے صدر کو نواز دے -جب کے سی بی اے کا صدر یہ چاہتا ہے کہ ٢٥٨ اسامیاں ہوں تاکہ اس کے یونین میں ٢٥٨ ووٹ آجائیں اور وہ سی بی اے یونین پر کنٹرول کر لے-موقعہ پرستی کی اس سیاست کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ اس سے 492 ڈیلی وجیرز کا مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریک ہوجائے گا-ان کو فیکٹری انظامیہ کی طرف سے زیادہ جابرانہ اقدامات کا سامنا کرنا ہوگا-ستم ظریفی یہ ہے کہ جو آئی یو ایف سی کی لوکل لیڈر شپ ہے-جوس سے سی بی اے کا الحاق ہے-وہ بھی سی بی اے صدر کی اس موقعہ پرستی کا ساتھ دے رہی ہے-میں حیران تھا کہ مزدوروں کی لیڈر شپ میں ایسی کون سی کشش ہوتی ہے کہ اس کے لئے سارتی اخلاقیات کو ایک طرف رکھا جارہا ہے-مجھے سی بی اے یونین کے جنرل سیکرٹری خللد بھٹی نے سالانہ انکریمینٹ کی ایک کاپی دی اور سی بی اے و انتظامیہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کی کاپی فراہم کی تو معلوم ہوا کہ کیسے فیکٹری انتظامیہ اور سی بی اے کے صدر نے مل کر چار ماہ کا انکریمنٹ کھا لیا-اس پر فیکٹری کے مزدور عدالت جانے کی تیاری کر رہے ہیں-
مزدروں کو فیکٹری کے منافع میں سے پانچ فیصد ابھی تک اس لئے نہیں مل رہا کہ سی بی اے کا صدر اس بات پر اصرار کر رہا ہے کہ ڈیلی ویجرز میں اس کے جو لوگ قرینب ہیں اور سال میں جن کے کام کے دن ١٨٠ سے کم ہیں ان کو بھی اس منافع میں حصہ دیا جائے-یہ سب اس لئے بھی ہورہا ہے کہ 492 نان کیس فائلر ڈیلی ویجرز کی نمائندگی کرنے والا کوئی نہیں ہے-انتظامیہ کے لئے یہ صورت حال بہت فائدہ مند ہے-
اس کہانی کے کئی اور پہلو بھی ہیں-اور وہ یہ ہیں کہ کس طرح سے مزدوروں کے حقوق کی جنگ پاور سیکنگ کی جنگ میں بدل گئی ہے-اور کس طرح سے مزدوروں کا ایک لیڈر جس کی فیکٹری میں تنخواہ چودہ ہزار روپے ہے وہ ڈبل کیبن ڈالے میں ،گن مین کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے-اور وہ دنوں میں لاکھوں روپے کی پراپرٹی کا مالک ہوگیا ہے-پھر اس پر اخلاقی جرائم کے ارتکاب کرنے کے الزام بھی لگ رہے ہیں-یہ بہت افسوس ناک صورت حال ہے-لیبر اور سرمایہ کے تضاد میں ہونے والی اس کشمکش میں محنت کشوں کے سامنے اس قسم کی موقعہ پرستی ان کے حوصلے پست کرتی ہے-اور اس کا براہ راست فائدہ سرمایہ دار قوتوں کو ہوتا ہے-
اس صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں بہت آزادی کے ساتھ قانون ،لیبر لاز اور عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑاتی ہیں -اور ان کا احتساب کہیں نہیں ہوتا-دیہی علاقوں میں ان کے یونٹ استحصال کو زیادہ فروغ دیتے ہیں-کیونکہ وہاں ہونے والا استحصال میڈیا میں اس طرح سے جگہ نہیں پاتا جس طرح سے وہ شہری مراکز میں جگہ پاتا ہے-پھر یہ بھی ہے کہ دیہی علاقوں کی لیبر اپنے حقوق سے بےخبر ہوتی ہے-اس بےخبری کا فائدہ فیکٹری انتظامیہ ہی نہیں بلکہ ترید یونین لیڈرز اور موقعہ پرست تنظیمیں بھی اٹھاتی ہیں-ایک لطیفہ نما حقیقت بھی میں اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ جس فیکٹری کا میں تذکرہ کر رہا ہوں اس فیکٹری کی سی بی اوے یونین کے لیٹر پیڈ پر سی بی اے یونین کے دفتر کا پتہ سی بی اے یونین کے موجودہ صدر کے گھر کا پتہ ہے-گویا ایک طرح سے موجودہ صدر کے گھر کی لونڈی ہے سی بی اے یونین ہے-یا ان کو یہ خیال ہے کہ وہ تاحیات اس سی بی اے کے صدر رہیں گے-میں سمجھتا ہوں کہ یہ دراصل ہماری پوری سیاست کا ایک عکس ہے کہ جو بھی لیڈر بن جائے وہ مطلق العنان لیڈر بننے کا خواں ہوتا ہے-اور وہ خود اپنے ہاتھوں سے انصاف کا خوں کرتا ہے-
کون جانے کہ اسے یاد بھی ..........سرائیکی محنت کشوں کی نجات
کون جانے کہ اسے یاد بھی ..........سرائیکی محنت کشوں کی نجات
لیل و نہار /عامر حسینی
ایک غزل بہت عرصۂ پہلے سنی تھی کہ "کون جانے کہ اسے یاد بھی رہا کہ نہیں -میں نے ایک خط اسے لکھا تھا پریشانی میں"سرائیکی قوم نے ایک خط پریشانی کے عالم میںوزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو لکھا تھا اور لگتا ہے ان کو یاد بھی نہیں رہا کہ ایسا کوئی خط انہیں لکھا بھی گیا تھا کہ نہیں-سرائیکی قوم کو الگ صوبہ دینے کا وعدہ پیپلز پارٹی کے بہت سارے لوگوں نے کیا تھا اور اب یہ وعدہ کسی کو بھی یاد نہیں ہے-کسی کو اگر بھول گیا ہو تو میں یاد کرا دیتا ہوں-
بینظیر بھٹو کی برسی تھی-صدر آصف علی زرداری بیماری والے ایشو سے نبرد آزما ہوکر وطن واپس لوٹے تھے-اور انھوں نے گڑھی خدا بخش میں خطاب کرتے ہوئے سرائیکی دھرتی کے دکھ نکالنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرائیکی خطہ کے لوگوں کے مسائل کا مداوا صرف و صرف الگ صوبہ کے قیام میں ممکن ہے-وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر کہا تھا کہ سرائیکی صوبہ کے لئے آئینی ترمیم وہ اکتوبر میں لیکر آجائیں گے-سرائیکی صوبہ اگر سرائیکی وزیر اعظم کے دور میں نہ بنا تو پھر کب بنے گا-مخدوم شہاب الدین جب پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر بنے تو انھوں نے ملتان پہلی مرتبہ آمد پر کہا کہ اسی حکومت کے دور میں سرائیکی صوبہ بنالیا جائے گا-یہ مرکزی قیادت کے بیانات ہیں -اس کے علاوہ سرائیکی خطہ سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے ہر چھوٹے بڑے لیڈر نے سرائیکی صوبہ بنانے اور سرائیکی قوم کے احساس محرومی کو دور کرنے کے وعدے کئے-وزیر اعظم کے دونوں بیٹے جو اب چھوٹے بڑے ایوانوں کا حصہ ہیں -ان کی طرف سے بھی سرائیکی قوم کی احساس محرومی کے دور کئے جانے کے انگنت بیانات سامنے ہیں-لیکن سرائیکی قوم کا احساس محرومی ابھی تک دور نہیں ہوا-ان کو الگ صوبہ نہیں ملا-ان کے درد کا زرداری فارمولہ کسی جگہ بھی بل بن کر سامنے نہیں آیا-گیلانی صاحب کی ترمیم کا کچھ پتہ نہیں چلا-سوچنے کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اس قدر بلند و بانگ دعوے کرنے کے بعد کیوں خاموش ہو گئی ہے؟اور پوری ریاست کا رویہ سرائیکی خطہ اور اس کی قوم کے خلاف کیوں سوتیلی ماں جیسا ہے؟میں حیران ہوں کہ ہر آدمی بلوچستان کی بات کرتے ہوئے تو یہ کہتا ہے کہ ریاست نے مشرقی پاکستان والے سانحہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا لیکن سرائیکی قوم کے مقدمے میں یہ بات سب بھول جاتے ہیں-ایک دن آئے گا جب سرائیکی خطہ کا سوال بھی بلوچستان کی طرح کسی مغربی ریاست کے کسی ایوان میں اٹھایا جارہا ہوگا اور پھر ہم سب یہی گردن کریں گے کہ "اپنے سرائیکی بھائیوں کو ہم خود جاکر منائیں گے"میں بہت تواتر سے یہ لکھتا آرہا ہوں کہ بلوچستان میں قبیل داری سماج کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک کو قومی بننے میں کافی وقت لگا تھا اور آج ڈاکٹر الله نذر کی قیادت میں بلوچ قوم کی تحریک اب مڈل کلاس پرتوں اور نیچے محنت کش طبقوں میں بھی پھیل چکی ہے-لیکن سرائیکی قومی تحریک کو گراس روٹ لیول تک جانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا-اس خطہ کے نوجوان جب بھی جاگیردار اور سرمایہ دار سیاست کے سحر سے باہر آئے اور ان کو پارلیمانی اصلاح پسند سیاست کے بیکار ہونے کا احساس ہوا تو پھر سرائیکی قومی تحریک کو گراس روٹ لیول تک جانے میں زیادہ دیر نہیں لگے لگی-
اب تک سرائیکی قومی تحریک کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ اس تحریک کی باگ دوڑایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہی ہے جو اصلاح پسند اور پارلیمانی سیاست کو ہی تبدیلی کا رستہ خیال کرتے رہے ہیں-سرائیکی قومی تحریک میں اس وقت تک جو غالب رجحان ہے وہ پیٹی بورزوا درمیانی پرتوں کا ہے-جس کا جھکاؤ موقعہ پرستی کی طرف زیادہ ہے-یہی وجہ ہے کہ اس درمیانی پرت کی قیادت بار بار جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے سمجھوتے کرتی ہے-وہ سرائیکی قوم کی غریب پرتوں پر محکومیت کا جال بننے والی مرکزی اور صوبائی حکمران پرتوں کے ساتھ بھی سمجھوتے کرتی رہتی ہیں -اصلاح پسندی کا یہ رجحان اپنے اندر موقعہ پرستی کو چھپائے ہوئے ہے-اس رجحان میں انقلاب کے لئے کوئی گنجایش نہیں ہے-حالنکہ ہماری ریاست تو کسی بھی قومیت کی محنت کش اور غریب طبقات کو کسی بھی طرح سے نجات نہیں دلا سکی ہے-اس ریاست کی حکمران کلاس سامراج کی گماشتگی سے باہر نہیں نکلتی -اسی طرح سے یہ حکمران کلاس بار بار مقامی اور کارپوریٹ سرمایہ سے ڈیل کرتی ہے جس کے نتیجہ میں ریاست کے شہری اور دیہی غریبوں پر زندگی عذاب ہوگی ہے-
پاکستان میں مشرف کی حکومت تھی تب بھی اور اب گیلانی زرداری جمہوری حکومت ہے تو بھی منڈی کی معشیت چل رہی ہے-اور منڈی کی معشیت کے ساتھ ساتھ سامراجی جنگ بھی پورے پاکستان میں جاری ہے-اس میں سرائیکی قوم پرست یوسصف رضا گیلانی ،سندھی قوم پرست آصف علی زرداری ،پختوں قوم پرست اسفند یار ولی،پنجابی قوم پرست میاں نواز شریف اور بلوچ قوم پرست سردار اصل ریسانی متفق بھی ہیں اور منڈی کی معشیت کو نافذ کرنے سامراجی جنگ کو جاری رکھنے پر رضامند بھی-محنت کشوں ،کسانوں ،اساتذہ ،ینگ ڈاکٹرز ،نرسیں ،کچے پکے ملازم چاہئے وہ سرائیکی ہوں،سندھی ہوں،پنجابی ہوں،پختوں ہوں ،بلوچ ہونسب پر ریاستی جبر نمایاں ہے-اس امر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست کا جبر تمام قومیتوں کی محنت کش اور کسان پرتوں پر سب سے زیادہ ہے-حکمران طبقات کو ان پرتوں کی حالت زار سے کچھ لینا دینا نہیں ہے-سرائیکی قومی تحریک اس وقت آگے کی طرف سفر کر سکتی ہے جب یہ موقعہ پرست رجحانات سے خود کو آزاد کرے اور سرائیکی محنت کش اور سرائیکی کسان پرتیں اپنے اندر اتحاد پیدے کرتے ہوئے خود کو دیگر قومیتوں کے محنت کش طبقوں کے ساتھ جوڑ دیں-تبھی سرائیکی قومی تحریک میں سے موقعہ پرستی اور نسلی لسانی نفرتوں پر بنیاد رکھنے ولی قوم پرستانہ آئیدولوجی سے پھیلنے ولی منافرت کا خاتمہ ہوسکتا ہے-
گیلانی -زرداری سرکار سرمایہ داری کے ظالمانہ ماڈل مارکیٹ لبرل ازم اور سامراج پرستی میں سر سے لیکر پیر تک لتھڑی ہوئی ہے-اور جو لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ یہ سرکار ان کے دکھوں کا مداوا کرے گی اب وہ بھی منہ چھپائے بیٹھے ہیں-اس وقت زرداری -گیلانی سرکار کی اصلاح پسندی سے مایوس لوگوں کی ایک بہت بڑی تعدار عمران خان کی اصلاح پسندی کی طرف مائل ہے-لیکن آنے والے وقت میں یہ ثابت ہوجائے گا کہ سامراجیت اور لبرل مارکیٹ کے ساتھ سمجھوتے بازی سے کسی کی نجات ممکن نہیں ہے-ایسے سمجھوتوں محنت کشوں کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا-کارپوریٹ سرمایہ کی جیت ہوگی اور دیہاتوں ،شہروں میں غریبوں کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا-سرائیکی خطہ میں انقلابی سوشلسٹ لوگوں کو سرائیکی قوم کے نوجوانوں کو یہ بھی سمجھانا ہوگا کہ ان کی طرف سے سرائیکی قومی سوال پر سرائیکی قومیت کے اشو پر جو حمایت سامنے آتی ہے وہ قومپرستوں سے کس طرح سے الگ ہے؟اور ان کی طرف سے مظلوم قوم کی حمایت اور ظالم قوم کی مذمت کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ماضی میں ہوتا یہ رہا ہے کہ قوم پرست اور سوشلسٹ ایک پلیٹ پفارم پر رہے تو قوم پرستی اور انقلابی سوشل ازم میں فرق بہت زیادہ مبہم سا ہوگیا-اب قوم پرست جب جب امریکی سامراجیت کی حمایت کرتے ہیں-یا امریکی سامراجیت سے مدد طلب کرتے ہیں تو کھا جاتا ہے کہ سوشلسٹ اب امریکہ کے حامی ہوگئے ہیں-حالنکہ سوشلسٹ سامراج کے نہ کل حامی تھے نہ آج ہیں-اسی طرح سے وہ قومیت کے ایشو کو اس طرح سے نہیں لیتے جس طرح سے قوم پرست لیتے ہیں-ایک بات قوم پرست اور سوشلسٹس میں بہت بنیادی فرق کو ظاہر کرتی ہے کہ قوم پرست لسانی اور ثقافتی اشتراق کی بنیاد پر سب کو ایک قرار دیتا ہے-اور ان کے مفاد کو بھی یکساں کہتا ہے-لیکن سوشلسٹ کسی بھی قوم میں لسانی اور ثقافتی اشتراق کے ساتھ ساتھ ان میں طبقاتی بنیاد پر فرق کرنے کی بات کرتا ہے -اسی لئے جب وہ سرائیکی قوم کی آزادی کی بات کرتا ہے تو اس سے مرد سرائیکی ورکنگ کلاس اور کسان طبقے کی نجات ہوتی ہے-اور سرائیکی قومی تحریک میں اس کا ہراول دستہ مزدور اور کسان ہوتے ہیں نہ کہ جاگیردار اور سرمایہ دار ہوتے ہیں-اسی لئے سوشلسٹ انقلابیوں کے ہاں زبان اور ثقافت کا اختلاف نفرت اور لڑائی کا سبب نہیں ہوتا بلکہ تصادم اور لڑائی کی بنیاد طبقاتی خلیج ہوا کرتی ہے-یہ وہ بات ہے جس کو آج قوم پرستی اور ریاست کی طرف سے مرکز پرستی کی بحث میں نظر انداز کردیا جاتا ہے-سرائیکی خطہ میں سوشلسٹ انقلابیوں کے پاس نظریہ سازوں کی کمی ہے-اور جن کو یہ پتہ ہے وہ نجانے کیوں خاموش ہیں-سرائیکی خطہ کے محنت کشوں اور کسانوں کو سرمایہ کی لوٹ کے خلاف خود کو منظم کرنا ہوگا-اور اپنی نجات کی جنگ طبقاتی بنیادوں پر لڑنا ہوگی-
لیل و نہار /عامر حسینی
ایک غزل بہت عرصۂ پہلے سنی تھی کہ "کون جانے کہ اسے یاد بھی رہا کہ نہیں -میں نے ایک خط اسے لکھا تھا پریشانی میں"سرائیکی قوم نے ایک خط پریشانی کے عالم میںوزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو لکھا تھا اور لگتا ہے ان کو یاد بھی نہیں رہا کہ ایسا کوئی خط انہیں لکھا بھی گیا تھا کہ نہیں-سرائیکی قوم کو الگ صوبہ دینے کا وعدہ پیپلز پارٹی کے بہت سارے لوگوں نے کیا تھا اور اب یہ وعدہ کسی کو بھی یاد نہیں ہے-کسی کو اگر بھول گیا ہو تو میں یاد کرا دیتا ہوں-
بینظیر بھٹو کی برسی تھی-صدر آصف علی زرداری بیماری والے ایشو سے نبرد آزما ہوکر وطن واپس لوٹے تھے-اور انھوں نے گڑھی خدا بخش میں خطاب کرتے ہوئے سرائیکی دھرتی کے دکھ نکالنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرائیکی خطہ کے لوگوں کے مسائل کا مداوا صرف و صرف الگ صوبہ کے قیام میں ممکن ہے-وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر کہا تھا کہ سرائیکی صوبہ کے لئے آئینی ترمیم وہ اکتوبر میں لیکر آجائیں گے-سرائیکی صوبہ اگر سرائیکی وزیر اعظم کے دور میں نہ بنا تو پھر کب بنے گا-مخدوم شہاب الدین جب پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر بنے تو انھوں نے ملتان پہلی مرتبہ آمد پر کہا کہ اسی حکومت کے دور میں سرائیکی صوبہ بنالیا جائے گا-یہ مرکزی قیادت کے بیانات ہیں -اس کے علاوہ سرائیکی خطہ سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے ہر چھوٹے بڑے لیڈر نے سرائیکی صوبہ بنانے اور سرائیکی قوم کے احساس محرومی کو دور کرنے کے وعدے کئے-وزیر اعظم کے دونوں بیٹے جو اب چھوٹے بڑے ایوانوں کا حصہ ہیں -ان کی طرف سے بھی سرائیکی قوم کی احساس محرومی کے دور کئے جانے کے انگنت بیانات سامنے ہیں-لیکن سرائیکی قوم کا احساس محرومی ابھی تک دور نہیں ہوا-ان کو الگ صوبہ نہیں ملا-ان کے درد کا زرداری فارمولہ کسی جگہ بھی بل بن کر سامنے نہیں آیا-گیلانی صاحب کی ترمیم کا کچھ پتہ نہیں چلا-سوچنے کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اس قدر بلند و بانگ دعوے کرنے کے بعد کیوں خاموش ہو گئی ہے؟اور پوری ریاست کا رویہ سرائیکی خطہ اور اس کی قوم کے خلاف کیوں سوتیلی ماں جیسا ہے؟میں حیران ہوں کہ ہر آدمی بلوچستان کی بات کرتے ہوئے تو یہ کہتا ہے کہ ریاست نے مشرقی پاکستان والے سانحہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا لیکن سرائیکی قوم کے مقدمے میں یہ بات سب بھول جاتے ہیں-ایک دن آئے گا جب سرائیکی خطہ کا سوال بھی بلوچستان کی طرح کسی مغربی ریاست کے کسی ایوان میں اٹھایا جارہا ہوگا اور پھر ہم سب یہی گردن کریں گے کہ "اپنے سرائیکی بھائیوں کو ہم خود جاکر منائیں گے"میں بہت تواتر سے یہ لکھتا آرہا ہوں کہ بلوچستان میں قبیل داری سماج کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک کو قومی بننے میں کافی وقت لگا تھا اور آج ڈاکٹر الله نذر کی قیادت میں بلوچ قوم کی تحریک اب مڈل کلاس پرتوں اور نیچے محنت کش طبقوں میں بھی پھیل چکی ہے-لیکن سرائیکی قومی تحریک کو گراس روٹ لیول تک جانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا-اس خطہ کے نوجوان جب بھی جاگیردار اور سرمایہ دار سیاست کے سحر سے باہر آئے اور ان کو پارلیمانی اصلاح پسند سیاست کے بیکار ہونے کا احساس ہوا تو پھر سرائیکی قومی تحریک کو گراس روٹ لیول تک جانے میں زیادہ دیر نہیں لگے لگی-
اب تک سرائیکی قومی تحریک کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ اس تحریک کی باگ دوڑایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہی ہے جو اصلاح پسند اور پارلیمانی سیاست کو ہی تبدیلی کا رستہ خیال کرتے رہے ہیں-سرائیکی قومی تحریک میں اس وقت تک جو غالب رجحان ہے وہ پیٹی بورزوا درمیانی پرتوں کا ہے-جس کا جھکاؤ موقعہ پرستی کی طرف زیادہ ہے-یہی وجہ ہے کہ اس درمیانی پرت کی قیادت بار بار جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے سمجھوتے کرتی ہے-وہ سرائیکی قوم کی غریب پرتوں پر محکومیت کا جال بننے والی مرکزی اور صوبائی حکمران پرتوں کے ساتھ بھی سمجھوتے کرتی رہتی ہیں -اصلاح پسندی کا یہ رجحان اپنے اندر موقعہ پرستی کو چھپائے ہوئے ہے-اس رجحان میں انقلاب کے لئے کوئی گنجایش نہیں ہے-حالنکہ ہماری ریاست تو کسی بھی قومیت کی محنت کش اور غریب طبقات کو کسی بھی طرح سے نجات نہیں دلا سکی ہے-اس ریاست کی حکمران کلاس سامراج کی گماشتگی سے باہر نہیں نکلتی -اسی طرح سے یہ حکمران کلاس بار بار مقامی اور کارپوریٹ سرمایہ سے ڈیل کرتی ہے جس کے نتیجہ میں ریاست کے شہری اور دیہی غریبوں پر زندگی عذاب ہوگی ہے-
پاکستان میں مشرف کی حکومت تھی تب بھی اور اب گیلانی زرداری جمہوری حکومت ہے تو بھی منڈی کی معشیت چل رہی ہے-اور منڈی کی معشیت کے ساتھ ساتھ سامراجی جنگ بھی پورے پاکستان میں جاری ہے-اس میں سرائیکی قوم پرست یوسصف رضا گیلانی ،سندھی قوم پرست آصف علی زرداری ،پختوں قوم پرست اسفند یار ولی،پنجابی قوم پرست میاں نواز شریف اور بلوچ قوم پرست سردار اصل ریسانی متفق بھی ہیں اور منڈی کی معشیت کو نافذ کرنے سامراجی جنگ کو جاری رکھنے پر رضامند بھی-محنت کشوں ،کسانوں ،اساتذہ ،ینگ ڈاکٹرز ،نرسیں ،کچے پکے ملازم چاہئے وہ سرائیکی ہوں،سندھی ہوں،پنجابی ہوں،پختوں ہوں ،بلوچ ہونسب پر ریاستی جبر نمایاں ہے-اس امر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست کا جبر تمام قومیتوں کی محنت کش اور کسان پرتوں پر سب سے زیادہ ہے-حکمران طبقات کو ان پرتوں کی حالت زار سے کچھ لینا دینا نہیں ہے-سرائیکی قومی تحریک اس وقت آگے کی طرف سفر کر سکتی ہے جب یہ موقعہ پرست رجحانات سے خود کو آزاد کرے اور سرائیکی محنت کش اور سرائیکی کسان پرتیں اپنے اندر اتحاد پیدے کرتے ہوئے خود کو دیگر قومیتوں کے محنت کش طبقوں کے ساتھ جوڑ دیں-تبھی سرائیکی قومی تحریک میں سے موقعہ پرستی اور نسلی لسانی نفرتوں پر بنیاد رکھنے ولی قوم پرستانہ آئیدولوجی سے پھیلنے ولی منافرت کا خاتمہ ہوسکتا ہے-
گیلانی -زرداری سرکار سرمایہ داری کے ظالمانہ ماڈل مارکیٹ لبرل ازم اور سامراج پرستی میں سر سے لیکر پیر تک لتھڑی ہوئی ہے-اور جو لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ یہ سرکار ان کے دکھوں کا مداوا کرے گی اب وہ بھی منہ چھپائے بیٹھے ہیں-اس وقت زرداری -گیلانی سرکار کی اصلاح پسندی سے مایوس لوگوں کی ایک بہت بڑی تعدار عمران خان کی اصلاح پسندی کی طرف مائل ہے-لیکن آنے والے وقت میں یہ ثابت ہوجائے گا کہ سامراجیت اور لبرل مارکیٹ کے ساتھ سمجھوتے بازی سے کسی کی نجات ممکن نہیں ہے-ایسے سمجھوتوں محنت کشوں کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا-کارپوریٹ سرمایہ کی جیت ہوگی اور دیہاتوں ،شہروں میں غریبوں کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا-سرائیکی خطہ میں انقلابی سوشلسٹ لوگوں کو سرائیکی قوم کے نوجوانوں کو یہ بھی سمجھانا ہوگا کہ ان کی طرف سے سرائیکی قومی سوال پر سرائیکی قومیت کے اشو پر جو حمایت سامنے آتی ہے وہ قومپرستوں سے کس طرح سے الگ ہے؟اور ان کی طرف سے مظلوم قوم کی حمایت اور ظالم قوم کی مذمت کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ماضی میں ہوتا یہ رہا ہے کہ قوم پرست اور سوشلسٹ ایک پلیٹ پفارم پر رہے تو قوم پرستی اور انقلابی سوشل ازم میں فرق بہت زیادہ مبہم سا ہوگیا-اب قوم پرست جب جب امریکی سامراجیت کی حمایت کرتے ہیں-یا امریکی سامراجیت سے مدد طلب کرتے ہیں تو کھا جاتا ہے کہ سوشلسٹ اب امریکہ کے حامی ہوگئے ہیں-حالنکہ سوشلسٹ سامراج کے نہ کل حامی تھے نہ آج ہیں-اسی طرح سے وہ قومیت کے ایشو کو اس طرح سے نہیں لیتے جس طرح سے قوم پرست لیتے ہیں-ایک بات قوم پرست اور سوشلسٹس میں بہت بنیادی فرق کو ظاہر کرتی ہے کہ قوم پرست لسانی اور ثقافتی اشتراق کی بنیاد پر سب کو ایک قرار دیتا ہے-اور ان کے مفاد کو بھی یکساں کہتا ہے-لیکن سوشلسٹ کسی بھی قوم میں لسانی اور ثقافتی اشتراق کے ساتھ ساتھ ان میں طبقاتی بنیاد پر فرق کرنے کی بات کرتا ہے -اسی لئے جب وہ سرائیکی قوم کی آزادی کی بات کرتا ہے تو اس سے مرد سرائیکی ورکنگ کلاس اور کسان طبقے کی نجات ہوتی ہے-اور سرائیکی قومی تحریک میں اس کا ہراول دستہ مزدور اور کسان ہوتے ہیں نہ کہ جاگیردار اور سرمایہ دار ہوتے ہیں-اسی لئے سوشلسٹ انقلابیوں کے ہاں زبان اور ثقافت کا اختلاف نفرت اور لڑائی کا سبب نہیں ہوتا بلکہ تصادم اور لڑائی کی بنیاد طبقاتی خلیج ہوا کرتی ہے-یہ وہ بات ہے جس کو آج قوم پرستی اور ریاست کی طرف سے مرکز پرستی کی بحث میں نظر انداز کردیا جاتا ہے-سرائیکی خطہ میں سوشلسٹ انقلابیوں کے پاس نظریہ سازوں کی کمی ہے-اور جن کو یہ پتہ ہے وہ نجانے کیوں خاموش ہیں-سرائیکی خطہ کے محنت کشوں اور کسانوں کو سرمایہ کی لوٹ کے خلاف خود کو منظم کرنا ہوگا-اور اپنی نجات کی جنگ طبقاتی بنیادوں پر لڑنا ہوگی-
Saturday, February 11, 2012
منگلا کا پل ......ترقی اور شناخت کی باہمی رشتہ داری
منگلا کا پل ......ترقی اور شناخت کی باہمی رشتہ داری
لیل و نہار /عامر حسینی
میں لاہور منیارٹی پیس کیمشن کی طرف سے منققدہ سماجی ہم آہنگی کی کانفرنس میں شرکت کے لئے گیا تھا-اس کانفرنس کے ساتھ ساتھ میں نے سوچا کہ تاریخی تناظر میں ترقی اور شناخت کے باہمی رشتہ پر ماہرین سے اپنے خیالات بھی ڈسکس کر لوں-میں نے معروف ماہر تاریخ ڈاکٹر مبارک علی سے ان کے گھر جو برج کالونی لاہور کینٹ میں ہے جاکر ملاقات کی-اس ملاقات کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ انگریز کی ترقی کے تصور میں کہیں شناخت بھی کوئی اہمیت رکھتی تھی-اور کیا پاکستان کے حوالے سے کلچر اور سامراجیت کے باہمی رشتہ کی اسی طرح سے تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے جس طرح سے فلسطینی دانشور ایڈورڈ سعید نے جائزہ لیا تھا؟ڈاکٹر مبارک علی میرے خیالات سن کر بہت پرجوش تھے-ان کا اصرار تھا کہ میں اس کو سرائیکی خطہ تک محدود نہ کروں بلکہ اس کو سندھی ،بلوچ علاقوں تک بھی پھیلاؤں-لاہور سے مجھے میر پور اور منگلا کے درمیان ایک بستی میں جانا تھا-اس بستی میں ڈاکٹر شکیل احمد رہتے ہیں-گمنامی میں زندگی بسر کرنے والے یہ ڈاکٹر آبپاشی کے علم اور تکنیک میں بلغاریہ کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کئے ہوئے ہیں-ایک عرصۂ تک انھوں نے پراگ یونیورسٹی میں تدریس کی-پھر پاکستان چلے آئے-یہاں شائد کسی کو ان کے علم اور تجربہ کی ضرورت نہیں تھی-اس لئے یہ گوشہ نشین ہوگئے-میں رات کے دو بجے لاہور سے منگلا کے قریب اس بستی میں پہنچا جہاں ڈاکٹر صاحب رہتے ہیں-میں جب اس بستی کے قریب اترا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے ملازم کے ساتھ خود موجود تھے-وہ پچاس کے ہندسے کو عبور کرچکے تھے-لیکن جوانوں سے زیادہ چاک و چوبند نظر آرہے تھے-ان کے جسم پر کہیں بھی کوئی فالتو چربی نہیں تھی-مجھے اپنے فربہی مائل جسم پر قدرے شرمندگی ہوئی-شکیل صاحب کے ملازم نے میرا بیگ تھام لیا اور ہم جیپ میں سوار ہوکر شکیل صاحب کی حویلی میں آگئے-سامان رکھنے کے بعد میں سو گیا اور پانچ بجے میں نے شکیل صاحب کو جگادیا-ہم دونوں منگلا ڈیم کے پل کی طرف روانہ ہوگئے-صبح سویرے منگلا کا پل بہت خاموش تھا-بجلی کی روشنی پھیلی ہوئی تھی-کہیں دور سے کبھی کبھی کسی بس کے رکنے کی آواز آجاتی تھی-عقیل صاحب مجھے منگلا کے پل پر آکر کہنے لگے کہ "آپ کو اس پل پر بلانے کا مقصد ایک بہت ہی تاریخی بات آپ کے گوش گزار کرنا ہے-وہ بات جو آج تک سرائیکی خطہ میں اس طرح سے کبھی سوچی ہی نہیں گئی جس طرح سے آج میں کرنے جارہا ہوں-اور تم چونکہ پہلے سے ان خطوط پر سوچ بچار کر رہے ہو تو میں نے سوچا تمہی اس کو ٹھیک طرح سے بیان کر سکو گے-"میں نے شکیل صاحب سے کہا کہ میں ہمہ تن گوش ہوں آپ فرمائیے"تو شکیل کہنے لگے کہ جس وقت پنجاب کے مغربی حصہ میں اور سرائیکی بیلٹ کی باروں کو صاف کر نہریں نکالی جارہی تھیں-دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں پر ہیڈ ورکس اور بندوں کی تعمیر ہورہی تھی تو 1885 سے ہی سندھ نے اعتراضات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا-سندھ کی سب سے بنیادی دلیل یہ تھی کہ وہ دریا کے زیریں حصہ کا حامل ہے تو اس کے حقوق کا تحفظ کئے بغیر اور اس کی اجازت کے بغیر یہ تعمیرات نہیں ہوسکتیں-اب جس بنیاد پر سندھ اپنے حقوق کا سوال اٹھا رہا تھا اسی بنیاد پر سرائیکی خطہ کا بھی تو اس حوالے سے حق بنتا تھا-وہ بھی سات دریاؤں کے بہاؤ کے زیریں حصہ پر موجود تھا-لیکن اس کا المیہ یہ تھا کہ انگریز نے سکھ دور میں صوبہ ملتان کے پنجاب سے ادغام کو برقرار رکھا تھا-اور ریاست بہاول پور کو وہ ایک پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر چلا رہا تھا-اس خطہ میں کوئی نہیں تھا جو اس دور میں آگے کی سوچ رکھتا اور سرائیکی بیلٹ کی شناخت کو برقرار رکھنے کی بات کرتا -جبکہ انگریز کے ہاں ترقی کا تصور بہت زیادہ میکانکی اور کلچر سے خالی تھا-اس کو کوئی پرواہ نہیں تھی کہ اس کے ترقی کے ماڈل سے کسی خطہ کی شناخت پر کیا اثرات پڑتے ہیں-وہ تو یہ خیال کرتا تھا کہ وہ جدید تکنیک کو کام میں لاکر نئے کلچر کی تشکیل کرسکتا ہے-ٹیکنالوجی کے بلبوتے پر اس کے خیال میں نئی تہذیب کا جنم ممکن تھا-لیکن اس کے ترقی کے ماڈل نے اس وقت کے مغربی ہندوستان اور آج کے پاکستان میں صرف یہ کیا کہ ایک نسلی گروہ کی بالادستی کا سامان ہوا-باقی سب کے کلچر،زبان اور شناخت خطرے میں پڑگئی -اور اس ترقی کے ماڈل سے نئے تضادات نے جنم لے لیا"
میں نے بہت حیرانی کے ساتھ شکیل صاحب سے پوچھا کہ اس دور میں اس طرف کسی کی نظر کیوں نہیں گئی-آخر سرائیکی لوگوں نے اس طرح سے کیوں نہ سوچا جس طرح سے اس زمانے میں سندھی،بلوچ،پختون سوچ رہے تھے-"
شکیل صاحب نے اس موقعہ پر ایک ایسی بات کہی جو میں نے اس سے پہلے صرف افریقہ کے ممتاز دانشور چینوا ایشے بے سے سنی تھی-شکیل صاحب کا کہنا تھا کہ"سرائیکی خطہ کے لوگ ابھی اپنی جدید ثقافتی اور قومیتی شناخت کے پروسس میں داخل ہوئے تھے-ان کا عہد طفولیت چل رہا تھا کہ پہلے ان پر سکھ یلغار ہوئی-اور پھر انگریز اپنے جدید نوآبادیاتی خیالات کے ساتھ آدھمکے -اور بدقسمتی سے انگریز نے اس خطہ میں اپنی کالونی کے لئے جس ترقیاتی ماڈل کا انتخاب کیا اور اس ترقی میں ممد و معاون جن نسلی گروہوں کا انتخاب کیا ان میں سرائیکی خطہ کے لوگ کہیں بھی فٹ نہیں بیٹھتے تھے-انگریز اور ڈچ ،فرانسیسی سب کے سب افریقہ ،امریکا ،ایشیا میں کئی ایسے نسلی ثقافتی گروہوں کے لئے تباہی کا سبب بن گئے جو اپنی قومیتی شناخت کے پروسس میں ابھی عہد طفولیت میں تھے-اور یہ گروہ جب بلوغت کے مرحلے میں داخل ہوئے تو انگریز جا چکا تھا اور پہلے سے ترقی پاگئے نسلی ثقافتی گروہ اب اس نئے بالغ ہونے والے گروہوں کو ان کا جائز مقام دینے کو تیار نہیں تھے-
میں نے جب شکیل صاحب کی کہی بات پر غور کیا تو مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ جب انگریز نے پنجاب پر کنٹرول حاصل کیا تو اس نے یہاں کی ذاتوں،قبائل اور یہاں کے نسلی گروپوں کا ڈیٹا اختھا کرنا شروع کیا تھا-یہ ڈیٹا مسخ شدہ بھی تھا-اس نے جب سرائیکی بیلٹ کے لوگوں کی نسلی ثقافتی شناخت کا سراغ لگانے کی کوشش کی تو اس نے فقط یہ کیا کہ اس خطہ کے لوگوں کو بربر کا نام دیا -جس کا پنجابی ترجمہ جانگلی کر لیا گیا-تو سرائیکی شناخت پنجاب میں انگریز نے جانگلی مقرر کر دی-اور یہ جو سرائیکی شناخت تھی وہ انگریز کی طرف سے پنجاب کو ہندوستان پر قبضہ جمائے رکھنے کے لئے سب سے بڑے فوجی ریکروٹمنٹ سنٹر میں بدلنے کے منصوبے کی نظر ہوگئی-یہی وجہ ہے کہ سرائیکی خطہ نے اپنی شناخت گم کی تو یہ خطہ اپنے وسائل اور اپنے حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا-شکیل کا کہنا ہے کہ یہ شناخت کا گم ہونا تھا کہ سرائیکی بیلٹ پانی کی تقسیم کے کسی بھی معاہدہ میں کبھی ایک فریق کی حثیت سے داخل نہ ہوسکے-سندھ طاس معاہدہ سے قبل بھی شکیل کے مطابق انگریز کے نظام آبپاشی کے سبسے زیادہ متاثرہ فریق سرائیکی تھے سندھی نہیں-اور اسی طرح سے سندھ طاس معاہدہ کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا فریق بھی سرائیکی تھے-سرائیکیوں سے یہ زیادتی اس وجہ سے زیادہ ممکن ہوئی کہ ان کی شناخت آئینی اور قانونی تحفظ کی حامل نہیں تھی-کسی بھی فیڈریشن میں اگر کسی خطہ کی نسلی،ثقافتی شناخت کو آئینی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے تو پھر اس کو ترقی اور وسائل پر بھی حق حاصل نہیں ہوتا-ملکی اور بین الاقوامی قوانین بھی اس کو تحفظ نہیں دے پتے-انتظامی تقسیم دو طرح سے بہت زیادہ ختناک عمل ہوتا ہے-ایک طرف تو یہ کسی بھی ثقافتی گروہ کی اکثریت کو اقلیت میں بدلتی ہے-دوسری طرف یہ اگر وسائل پر کوئی حق دے بھی تو وہ عارضی ہوتا ہے-اس کو بدلنا بہت آسان ہوتا ہے-اور کسی بھی وقت کسی بھی اکائی کو یا اس کے حصہ کو آسانی سے کسی اور یونٹ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے-انگریز نے ایسا کیا بھی-اس نے سندھ کو مبئی سے ملایا-ہریانہ کو پنجاب سے جوڑ دیا-اسی طرح سے ڈیرہ اسماعیل خان کو خیبر پختون خوا کا حصہ بنا ڈالا-بلوچستان کو زبردستی پشتون پتی کے ساتھ جوڑ دیا-دیسی ریاستوں کی تشکیل کی-اس سارے عمل کو انتظامی آسانی کےنام پر کیا گیا-لیکن عملی طور پر اس سے لوگوں کی شناخت کو مسخ کرنے میں مدد ملی-ہندوستان میں بھی لوگوں کو بہت عرصۂ آزادی کے بعد جدوجہد کرنا پڑی کہ انگریز کی طرف سے شناختوں کو مسخ کرنے والی انتظامی تقسیم کو ختم کرائیں-جیسے 70 میں کہیں جا کر ہریانہ اور پنجابی صوبے الگ ہوئے-اب بھی وہاں جنبوی ہندوستان میں ایسے علاقے موجود ہیں جن کی شناخت کی بقا کا سوال ویسا ہی ہے جس طرح سے پاکستان میں سرائیکی شناخت کا سوال موجود ہے-وہاں ترقی کے اس ماڈل کے خلاف بغاوت بھی ہے جو ان کی شناخت کو مٹانے کے درپے ہو- تلنگانہ کی تحریک اس کی ایک مثال ہے-اسی طرح سے وہاں جو تری پورہ ،نگا لینڈ ،آسام میں جو تحریکیں ہیں وہ بھی شناخت کو ترقی کے ساتھ نہ جوڑے جانے کے نتیجہ میں سامنے آئی ہیں-
اسی حوالے سے ہمارے ہاں اب یہ بھی تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا وفاق کو اپنے کسی یونٹ کی حدود میں تبدیلی کرنے کا حق کلی طورپر حاصل ہونا چاہئے ؟تو اگر وفاق مثالی بنیادوں پر تعمیر ہوا ہو اور اس وفاق کی اکائیوں کی تعمیر کرتے ہوئے قمیتی ثقافتی ترکیب کے تحفظ کا خیال رکھا گیا ہو تو پھر وفاق کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی اکائی کی سرحد کو تبدیل کرے-لیکن اگر ایسا نہیں ہے-جیسا کہ ہم جانتے ہیں-اور سرائیکی خطہ کے حوالے سے یہ سب کو ملومھی کہ یہ کیسے تقسیم ہوا اور اس کی شناخت کیسے گم ہوئی تو پھر اس کو تشکیل نو کے عمل سے گزارنے کے لئے پنجاب اسمبلی سے متفقہ قرارداد کی منظوری کی شرط ایک قومیت گروہ کو زبردستی اپنی شناخت سے دست بردار کرانے والی بات ہے-یہ شرط سندھی ،پختوں،بلوچ اور پنجابی کو فائدہ دیتی ہے سرائیکی خطہ کی ترقی اور اس کی شناخت کے لئے یہ شرط سنگین رکاوٹ بنی ہوئی ہے-اور یہ اس کی ترقی کیسے ہونی چاہئے اور اس میں سرائیکی باشندوں کی رائے کیا ہے ؟اس سوال کو بھی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے-
سندھ طاس معاہدہ میں جب ستلج ،بیسور راوی کو بیچا جارہا تھا اور ان دریاؤں سے جو نہریں نکلتی تھیں ان کو پانی دینے کے لئے جب منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے گئے-تو بھی سرائیکی خطہ کے باشندوں کی رائے کسی نے نہیں پوچھی تھی-وجہ یہ تھی کہ ان کی شناخت کو آئینی اور قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا-اور جب تربیلا اور منگلا ڈیم بن گئے تو ان سے جو بجلی پیدا ہوئی اور جو پانی سٹور ہوا اس میں حصہ پنجاب کو ملا اور سرائیکی خطہ کے پاس کوئی راستہ کوئی فورم نہیں تھا کہ ووھیس پر اپنے حق کا دعوا کرتا سوائے اس کے جو پنجاب ک حکیم دے لے لیں-سندھ نے اپنا حصہ لیا تو وہ بھی سرائیکی خطہ کا حصہ دے دیا گیا-سرائیکی خطہ کے لوگ بجلی،گیس ،پانی ،ملازمت ،داخلے ،سمیت پنجاب اور وفاق کی زیادتی کا نشانہ بنے اور اب تک بن رہے ہیں-وہ کسی بھی عدالت میں نہیں جاسکتے-ارسا اور مشترکہ مفادات کونسل میں نہیں جاسکتے-پارلیمنٹ اور سینٹ میں کوئی دعوا وہ نہیں کرسکتے-کیونکہ ان اداروں میں جانے اور اپے حق کا مطلبہ کرنے کے لئے آئینی اور قانونی شناخت کی ضرورت ہوتی ہے جو نہیں ہے-اس سے بہت واضح ہوجاتا ہے کہ اگر شناخت نہیں تو پھر وسائل بھی نہیں اور ان پر حق بھی نہیں-گویا بطور ایک ثقافتی گروہ کے آپ ترقی اور وسائل سے محروم کر دے جاتے ہو-شکیل صاحب کہ رہے تھے کہ اگر سرائیکی بیلٹ انتظامی بنیادوں پر تقسیم ہوا اور اس کی شناخت کی نفی کی گئی تو ایک تو یہ پارلیمنٹ میں قانون سازی میں کمزور ہوگا اور دوسرا اس کو مشترکہ مفادات کونسل،ارسا میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا-شناخت اور ترقی کا جو باہمی رشتہ ہے اس کو نظر انداز کرنے کا دوسرا مقصد ہی دراصل کسی کو ان کے وسائل سے محروم کرنا ہوتا ہے-اور ان دونوں کو الگ الگ کرنا وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں کی سب سے بڑی ضرورت ہوا کرتی ہے-اس کا مقصد ایک تو یہ ہوتا ہے کہ شناخت کا مطلبہ کرنے والوں پر آسانی کے ساتھ تعصب برتنے اور ان کو لسانی اور نسلی بنیادوں پر نفرت پھیلانے کا الزام دیا جاسکے-اس کا تیسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس خطہ میں جو اقلیتی نسلی یا لسانی گروہ ہو اس کو عدم تحفظ کا شکار کیا جائے-تاکہ قبضہ گیر اور ظالم حہمران ان علاقوں میں اپنے حامی پیدا کر سکیں-اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مظلوم قومیتی گروہ کے اندر بھی انتہا پسند طبقے جنم لیتے ہیں جن کی انتہا پسندی کو بنیاد بنا کر پوری قوم کی شناخت اور ان کے وسائل پر قبضہ جاری رکھا جاسکتا ہے-اور جبر کا کاروبار بھی جاری رکھا جاسکتا ہے-سرائیکی خطہ کے لوگوں کے ساتھ یہی کچھ ہورہا ہے-سرائیکی خطہ کے لوگ چاہتے کیا ہیں کہ ان کو سندھی،بلوچ،پنجابی اور پختوں قومیتوں کی طرح ایک برابر کا فریق تسلیم کیا جائے-ان کی اپنی صوبائی اسمبلی ہو-ان کی اپنی شناخت کے ساتھ قومی اور سینٹ میں نشستیں ہوں-ان کو ارسا اور مشترکہ مفادات کونسل میں نمائندگی ملے-ان کی اپنی کورٹ ہو-اور اس طرح سے وہ بھی اٹھارویں ترمیم سے ملنے والی خوداختیاری سے فائدہ اٹھا سکیں-وہ اپنی شناخت پالیں گے فیڈریشن میں تو وہ اپنےساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف منصب فورم پر آواز اٹھا سکیں گے-وہ عالمی عدالت سے رابطہ کر کے اپنے دریاؤں کی فروخت کا مقدمہ لور سکیں گے-کوئی تو ریلیف ملے گا-وہ تھل اور چولستان کی زمینوں کی لوٹ مار پر کیمشن بنا سکیں گے جو حقائق کو سامنے لیکر آئے گا-بہت سارے معاملات مشترکہ مفادات کونسل میں حل ہوں گے-ارسا میں بھی بہت سارے پانی کے ایشوز حل ہوں گے-
شکیل کہہ رہے تھے کہ سرائیکی خطہ کی شناخت اور ترقی باہمی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں-اور یہ جاگیرداروں کی بقا کا ایشو ھرغز نہیں ہے جیسا عام طور پر کہا جاتا ہے- اگر سرائیکی صوبہ اپنی شناخت کے ساتھ بنا تو اس خطہ میں تیزی سے صنعت کاری کا عمل ہوگا-اور سرائیکی خطہ میں تنخواہ دار طبقہ ،اجرتی مزدور بھی تعداد میں زیادہ ہوں گے-اور یہ پروسس کسی کے روکنے سے نہیں رکے گا-سرائیکی خطہ اگر صوبہ بنتا ہے تو پانچ سالوں کے اندر اندر سرائیکی خطہ میں سیاست کا توازن اربن علاقوں کے حق میں ہوجائے گا-اور سرائیکی خطہ کی سہی آبادی بھی پروسسنگ کے میدان میں تنخواہ دار طبقے کو پیدا کرے گی-اور دیہی آبادی میں زمین کا سیاسی طاقت کی بنیاد ہونے پر بھی کافی کاری ضرب ہوگی-اور جاگیر دار سیاست دنوں کو زمین کی بجائے اپنی طاقت کی بنیاد انڈسٹری یا ٹریڈنگ کو بنانا ہوگا-اس کے بغیر وہ اپنی طاقت کھودیں گے-یہ مشاہدہ ہم اب بھی سرائیکی خطہ کے نیم اربن علاقوں میں کرسکتے ہیں جہاں صنعت کار اور ٹریڈنگ کلاس جاگیر دار طبقے کی جگہ سیاست میں ا رہی ہے-ابھی یہ عمل سست ہے لیکن جب اس صوبہ کے سارے وسائل پوری طرح سے اس خطہ پر استعمال ہوں گے تو ٹیکنولوجی تبدیلیاں تیزی سے لائے گی-یہ خطہ پروسسنگ،کاموڈیتی پروڈکشن میں ترقی کرے گا اور یہ قومی سرمیہ و عالمی سرمایہ میں اپنے حصہ میں اضافہ کرے گا تو یہاں مڈل کلاس اور مزدور طبقہ کی اکثریت ہوگی سماج میں جاگیرداری قصہ پارینہ ہوجائے گی-سرمیہ اور محنت کا تضاد جب غالب ہوگا تو فرمھنٹ کشوں کی انقلابی تحریک بھی تیزی سے آگے کی طرف سفر کرے گی-
میں اور شکیل یہ سب باتیں کر رہے تھے تو سورج منگلا کے پل سے آہستہ آہستہ غروب ہورہا تھا-میں نے اور شکیل نے واپسی بستی کی طرف جانے کے رخت سفر باندھا تو میں نے منگلا کے پل سے اترتے اترتے کہا کہ شکیل صاحب میری خواہش ہے کہ جب بھی سرائیکی صوبہ بنے تو منگلا کے پل پر وزیر اعظم،صدر مملکت اور پنجاب کے چیف منسٹر اور برطانیہ کا سفیر یہاں پر آئے -اور وہ سب مل کر سرائیکی قوم سے معافی مانگیں-اور سرائیکی خطہ کی ریڈ انڈین نائزیشن کے باذبتہ خاتمے کا اعلان کریں-شکیل کہنے لگے کہ عامر !تم بہت زیادہ رجائیت کا مظاہرہ کر رہے ہو-تو میں نے بے اختیار کہا جی ہاں یہ رجائیت بہت ضروری ہے-اس نے افریقہ ،عرب،ایشیا اور امریکہ میں قوموں اور ثقافتوں کو بدترین حالت میں بھی زندہ رکھا تھا-ہم بھی رجائیت کو قائم رکھیں گے اس دیں تک جب خود ظالم حکمرانوں کی نسل اور گروہ کے لوگ بھی ریڈ انڈین نائزیشن پر تبرا کریں گے-اور سرائیکیوں کی اپارتھیزیشن اور ان کی کالونزیشن کو ختم کریں گے-یہ کہ کر ہم جیپ میں بیٹھے اور منگلا کے پل سے دور ہوتے چلے گئے-
'aa
لیل و نہار /عامر حسینی
میں لاہور منیارٹی پیس کیمشن کی طرف سے منققدہ سماجی ہم آہنگی کی کانفرنس میں شرکت کے لئے گیا تھا-اس کانفرنس کے ساتھ ساتھ میں نے سوچا کہ تاریخی تناظر میں ترقی اور شناخت کے باہمی رشتہ پر ماہرین سے اپنے خیالات بھی ڈسکس کر لوں-میں نے معروف ماہر تاریخ ڈاکٹر مبارک علی سے ان کے گھر جو برج کالونی لاہور کینٹ میں ہے جاکر ملاقات کی-اس ملاقات کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ انگریز کی ترقی کے تصور میں کہیں شناخت بھی کوئی اہمیت رکھتی تھی-اور کیا پاکستان کے حوالے سے کلچر اور سامراجیت کے باہمی رشتہ کی اسی طرح سے تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے جس طرح سے فلسطینی دانشور ایڈورڈ سعید نے جائزہ لیا تھا؟ڈاکٹر مبارک علی میرے خیالات سن کر بہت پرجوش تھے-ان کا اصرار تھا کہ میں اس کو سرائیکی خطہ تک محدود نہ کروں بلکہ اس کو سندھی ،بلوچ علاقوں تک بھی پھیلاؤں-لاہور سے مجھے میر پور اور منگلا کے درمیان ایک بستی میں جانا تھا-اس بستی میں ڈاکٹر شکیل احمد رہتے ہیں-گمنامی میں زندگی بسر کرنے والے یہ ڈاکٹر آبپاشی کے علم اور تکنیک میں بلغاریہ کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کئے ہوئے ہیں-ایک عرصۂ تک انھوں نے پراگ یونیورسٹی میں تدریس کی-پھر پاکستان چلے آئے-یہاں شائد کسی کو ان کے علم اور تجربہ کی ضرورت نہیں تھی-اس لئے یہ گوشہ نشین ہوگئے-میں رات کے دو بجے لاہور سے منگلا کے قریب اس بستی میں پہنچا جہاں ڈاکٹر صاحب رہتے ہیں-میں جب اس بستی کے قریب اترا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے ملازم کے ساتھ خود موجود تھے-وہ پچاس کے ہندسے کو عبور کرچکے تھے-لیکن جوانوں سے زیادہ چاک و چوبند نظر آرہے تھے-ان کے جسم پر کہیں بھی کوئی فالتو چربی نہیں تھی-مجھے اپنے فربہی مائل جسم پر قدرے شرمندگی ہوئی-شکیل صاحب کے ملازم نے میرا بیگ تھام لیا اور ہم جیپ میں سوار ہوکر شکیل صاحب کی حویلی میں آگئے-سامان رکھنے کے بعد میں سو گیا اور پانچ بجے میں نے شکیل صاحب کو جگادیا-ہم دونوں منگلا ڈیم کے پل کی طرف روانہ ہوگئے-صبح سویرے منگلا کا پل بہت خاموش تھا-بجلی کی روشنی پھیلی ہوئی تھی-کہیں دور سے کبھی کبھی کسی بس کے رکنے کی آواز آجاتی تھی-عقیل صاحب مجھے منگلا کے پل پر آکر کہنے لگے کہ "آپ کو اس پل پر بلانے کا مقصد ایک بہت ہی تاریخی بات آپ کے گوش گزار کرنا ہے-وہ بات جو آج تک سرائیکی خطہ میں اس طرح سے کبھی سوچی ہی نہیں گئی جس طرح سے آج میں کرنے جارہا ہوں-اور تم چونکہ پہلے سے ان خطوط پر سوچ بچار کر رہے ہو تو میں نے سوچا تمہی اس کو ٹھیک طرح سے بیان کر سکو گے-"میں نے شکیل صاحب سے کہا کہ میں ہمہ تن گوش ہوں آپ فرمائیے"تو شکیل کہنے لگے کہ جس وقت پنجاب کے مغربی حصہ میں اور سرائیکی بیلٹ کی باروں کو صاف کر نہریں نکالی جارہی تھیں-دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں پر ہیڈ ورکس اور بندوں کی تعمیر ہورہی تھی تو 1885 سے ہی سندھ نے اعتراضات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا-سندھ کی سب سے بنیادی دلیل یہ تھی کہ وہ دریا کے زیریں حصہ کا حامل ہے تو اس کے حقوق کا تحفظ کئے بغیر اور اس کی اجازت کے بغیر یہ تعمیرات نہیں ہوسکتیں-اب جس بنیاد پر سندھ اپنے حقوق کا سوال اٹھا رہا تھا اسی بنیاد پر سرائیکی خطہ کا بھی تو اس حوالے سے حق بنتا تھا-وہ بھی سات دریاؤں کے بہاؤ کے زیریں حصہ پر موجود تھا-لیکن اس کا المیہ یہ تھا کہ انگریز نے سکھ دور میں صوبہ ملتان کے پنجاب سے ادغام کو برقرار رکھا تھا-اور ریاست بہاول پور کو وہ ایک پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر چلا رہا تھا-اس خطہ میں کوئی نہیں تھا جو اس دور میں آگے کی سوچ رکھتا اور سرائیکی بیلٹ کی شناخت کو برقرار رکھنے کی بات کرتا -جبکہ انگریز کے ہاں ترقی کا تصور بہت زیادہ میکانکی اور کلچر سے خالی تھا-اس کو کوئی پرواہ نہیں تھی کہ اس کے ترقی کے ماڈل سے کسی خطہ کی شناخت پر کیا اثرات پڑتے ہیں-وہ تو یہ خیال کرتا تھا کہ وہ جدید تکنیک کو کام میں لاکر نئے کلچر کی تشکیل کرسکتا ہے-ٹیکنالوجی کے بلبوتے پر اس کے خیال میں نئی تہذیب کا جنم ممکن تھا-لیکن اس کے ترقی کے ماڈل نے اس وقت کے مغربی ہندوستان اور آج کے پاکستان میں صرف یہ کیا کہ ایک نسلی گروہ کی بالادستی کا سامان ہوا-باقی سب کے کلچر،زبان اور شناخت خطرے میں پڑگئی -اور اس ترقی کے ماڈل سے نئے تضادات نے جنم لے لیا"
میں نے بہت حیرانی کے ساتھ شکیل صاحب سے پوچھا کہ اس دور میں اس طرف کسی کی نظر کیوں نہیں گئی-آخر سرائیکی لوگوں نے اس طرح سے کیوں نہ سوچا جس طرح سے اس زمانے میں سندھی،بلوچ،پختون سوچ رہے تھے-"
شکیل صاحب نے اس موقعہ پر ایک ایسی بات کہی جو میں نے اس سے پہلے صرف افریقہ کے ممتاز دانشور چینوا ایشے بے سے سنی تھی-شکیل صاحب کا کہنا تھا کہ"سرائیکی خطہ کے لوگ ابھی اپنی جدید ثقافتی اور قومیتی شناخت کے پروسس میں داخل ہوئے تھے-ان کا عہد طفولیت چل رہا تھا کہ پہلے ان پر سکھ یلغار ہوئی-اور پھر انگریز اپنے جدید نوآبادیاتی خیالات کے ساتھ آدھمکے -اور بدقسمتی سے انگریز نے اس خطہ میں اپنی کالونی کے لئے جس ترقیاتی ماڈل کا انتخاب کیا اور اس ترقی میں ممد و معاون جن نسلی گروہوں کا انتخاب کیا ان میں سرائیکی خطہ کے لوگ کہیں بھی فٹ نہیں بیٹھتے تھے-انگریز اور ڈچ ،فرانسیسی سب کے سب افریقہ ،امریکا ،ایشیا میں کئی ایسے نسلی ثقافتی گروہوں کے لئے تباہی کا سبب بن گئے جو اپنی قومیتی شناخت کے پروسس میں ابھی عہد طفولیت میں تھے-اور یہ گروہ جب بلوغت کے مرحلے میں داخل ہوئے تو انگریز جا چکا تھا اور پہلے سے ترقی پاگئے نسلی ثقافتی گروہ اب اس نئے بالغ ہونے والے گروہوں کو ان کا جائز مقام دینے کو تیار نہیں تھے-
میں نے جب شکیل صاحب کی کہی بات پر غور کیا تو مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ جب انگریز نے پنجاب پر کنٹرول حاصل کیا تو اس نے یہاں کی ذاتوں،قبائل اور یہاں کے نسلی گروپوں کا ڈیٹا اختھا کرنا شروع کیا تھا-یہ ڈیٹا مسخ شدہ بھی تھا-اس نے جب سرائیکی بیلٹ کے لوگوں کی نسلی ثقافتی شناخت کا سراغ لگانے کی کوشش کی تو اس نے فقط یہ کیا کہ اس خطہ کے لوگوں کو بربر کا نام دیا -جس کا پنجابی ترجمہ جانگلی کر لیا گیا-تو سرائیکی شناخت پنجاب میں انگریز نے جانگلی مقرر کر دی-اور یہ جو سرائیکی شناخت تھی وہ انگریز کی طرف سے پنجاب کو ہندوستان پر قبضہ جمائے رکھنے کے لئے سب سے بڑے فوجی ریکروٹمنٹ سنٹر میں بدلنے کے منصوبے کی نظر ہوگئی-یہی وجہ ہے کہ سرائیکی خطہ نے اپنی شناخت گم کی تو یہ خطہ اپنے وسائل اور اپنے حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا-شکیل کا کہنا ہے کہ یہ شناخت کا گم ہونا تھا کہ سرائیکی بیلٹ پانی کی تقسیم کے کسی بھی معاہدہ میں کبھی ایک فریق کی حثیت سے داخل نہ ہوسکے-سندھ طاس معاہدہ سے قبل بھی شکیل کے مطابق انگریز کے نظام آبپاشی کے سبسے زیادہ متاثرہ فریق سرائیکی تھے سندھی نہیں-اور اسی طرح سے سندھ طاس معاہدہ کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا فریق بھی سرائیکی تھے-سرائیکیوں سے یہ زیادتی اس وجہ سے زیادہ ممکن ہوئی کہ ان کی شناخت آئینی اور قانونی تحفظ کی حامل نہیں تھی-کسی بھی فیڈریشن میں اگر کسی خطہ کی نسلی،ثقافتی شناخت کو آئینی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے تو پھر اس کو ترقی اور وسائل پر بھی حق حاصل نہیں ہوتا-ملکی اور بین الاقوامی قوانین بھی اس کو تحفظ نہیں دے پتے-انتظامی تقسیم دو طرح سے بہت زیادہ ختناک عمل ہوتا ہے-ایک طرف تو یہ کسی بھی ثقافتی گروہ کی اکثریت کو اقلیت میں بدلتی ہے-دوسری طرف یہ اگر وسائل پر کوئی حق دے بھی تو وہ عارضی ہوتا ہے-اس کو بدلنا بہت آسان ہوتا ہے-اور کسی بھی وقت کسی بھی اکائی کو یا اس کے حصہ کو آسانی سے کسی اور یونٹ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے-انگریز نے ایسا کیا بھی-اس نے سندھ کو مبئی سے ملایا-ہریانہ کو پنجاب سے جوڑ دیا-اسی طرح سے ڈیرہ اسماعیل خان کو خیبر پختون خوا کا حصہ بنا ڈالا-بلوچستان کو زبردستی پشتون پتی کے ساتھ جوڑ دیا-دیسی ریاستوں کی تشکیل کی-اس سارے عمل کو انتظامی آسانی کےنام پر کیا گیا-لیکن عملی طور پر اس سے لوگوں کی شناخت کو مسخ کرنے میں مدد ملی-ہندوستان میں بھی لوگوں کو بہت عرصۂ آزادی کے بعد جدوجہد کرنا پڑی کہ انگریز کی طرف سے شناختوں کو مسخ کرنے والی انتظامی تقسیم کو ختم کرائیں-جیسے 70 میں کہیں جا کر ہریانہ اور پنجابی صوبے الگ ہوئے-اب بھی وہاں جنبوی ہندوستان میں ایسے علاقے موجود ہیں جن کی شناخت کی بقا کا سوال ویسا ہی ہے جس طرح سے پاکستان میں سرائیکی شناخت کا سوال موجود ہے-وہاں ترقی کے اس ماڈل کے خلاف بغاوت بھی ہے جو ان کی شناخت کو مٹانے کے درپے ہو- تلنگانہ کی تحریک اس کی ایک مثال ہے-اسی طرح سے وہاں جو تری پورہ ،نگا لینڈ ،آسام میں جو تحریکیں ہیں وہ بھی شناخت کو ترقی کے ساتھ نہ جوڑے جانے کے نتیجہ میں سامنے آئی ہیں-
اسی حوالے سے ہمارے ہاں اب یہ بھی تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا وفاق کو اپنے کسی یونٹ کی حدود میں تبدیلی کرنے کا حق کلی طورپر حاصل ہونا چاہئے ؟تو اگر وفاق مثالی بنیادوں پر تعمیر ہوا ہو اور اس وفاق کی اکائیوں کی تعمیر کرتے ہوئے قمیتی ثقافتی ترکیب کے تحفظ کا خیال رکھا گیا ہو تو پھر وفاق کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی اکائی کی سرحد کو تبدیل کرے-لیکن اگر ایسا نہیں ہے-جیسا کہ ہم جانتے ہیں-اور سرائیکی خطہ کے حوالے سے یہ سب کو ملومھی کہ یہ کیسے تقسیم ہوا اور اس کی شناخت کیسے گم ہوئی تو پھر اس کو تشکیل نو کے عمل سے گزارنے کے لئے پنجاب اسمبلی سے متفقہ قرارداد کی منظوری کی شرط ایک قومیت گروہ کو زبردستی اپنی شناخت سے دست بردار کرانے والی بات ہے-یہ شرط سندھی ،پختوں،بلوچ اور پنجابی کو فائدہ دیتی ہے سرائیکی خطہ کی ترقی اور اس کی شناخت کے لئے یہ شرط سنگین رکاوٹ بنی ہوئی ہے-اور یہ اس کی ترقی کیسے ہونی چاہئے اور اس میں سرائیکی باشندوں کی رائے کیا ہے ؟اس سوال کو بھی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے-
سندھ طاس معاہدہ میں جب ستلج ،بیسور راوی کو بیچا جارہا تھا اور ان دریاؤں سے جو نہریں نکلتی تھیں ان کو پانی دینے کے لئے جب منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے گئے-تو بھی سرائیکی خطہ کے باشندوں کی رائے کسی نے نہیں پوچھی تھی-وجہ یہ تھی کہ ان کی شناخت کو آئینی اور قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا-اور جب تربیلا اور منگلا ڈیم بن گئے تو ان سے جو بجلی پیدا ہوئی اور جو پانی سٹور ہوا اس میں حصہ پنجاب کو ملا اور سرائیکی خطہ کے پاس کوئی راستہ کوئی فورم نہیں تھا کہ ووھیس پر اپنے حق کا دعوا کرتا سوائے اس کے جو پنجاب ک حکیم دے لے لیں-سندھ نے اپنا حصہ لیا تو وہ بھی سرائیکی خطہ کا حصہ دے دیا گیا-سرائیکی خطہ کے لوگ بجلی،گیس ،پانی ،ملازمت ،داخلے ،سمیت پنجاب اور وفاق کی زیادتی کا نشانہ بنے اور اب تک بن رہے ہیں-وہ کسی بھی عدالت میں نہیں جاسکتے-ارسا اور مشترکہ مفادات کونسل میں نہیں جاسکتے-پارلیمنٹ اور سینٹ میں کوئی دعوا وہ نہیں کرسکتے-کیونکہ ان اداروں میں جانے اور اپے حق کا مطلبہ کرنے کے لئے آئینی اور قانونی شناخت کی ضرورت ہوتی ہے جو نہیں ہے-اس سے بہت واضح ہوجاتا ہے کہ اگر شناخت نہیں تو پھر وسائل بھی نہیں اور ان پر حق بھی نہیں-گویا بطور ایک ثقافتی گروہ کے آپ ترقی اور وسائل سے محروم کر دے جاتے ہو-شکیل صاحب کہ رہے تھے کہ اگر سرائیکی بیلٹ انتظامی بنیادوں پر تقسیم ہوا اور اس کی شناخت کی نفی کی گئی تو ایک تو یہ پارلیمنٹ میں قانون سازی میں کمزور ہوگا اور دوسرا اس کو مشترکہ مفادات کونسل،ارسا میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا-شناخت اور ترقی کا جو باہمی رشتہ ہے اس کو نظر انداز کرنے کا دوسرا مقصد ہی دراصل کسی کو ان کے وسائل سے محروم کرنا ہوتا ہے-اور ان دونوں کو الگ الگ کرنا وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں کی سب سے بڑی ضرورت ہوا کرتی ہے-اس کا مقصد ایک تو یہ ہوتا ہے کہ شناخت کا مطلبہ کرنے والوں پر آسانی کے ساتھ تعصب برتنے اور ان کو لسانی اور نسلی بنیادوں پر نفرت پھیلانے کا الزام دیا جاسکے-اس کا تیسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس خطہ میں جو اقلیتی نسلی یا لسانی گروہ ہو اس کو عدم تحفظ کا شکار کیا جائے-تاکہ قبضہ گیر اور ظالم حہمران ان علاقوں میں اپنے حامی پیدا کر سکیں-اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مظلوم قومیتی گروہ کے اندر بھی انتہا پسند طبقے جنم لیتے ہیں جن کی انتہا پسندی کو بنیاد بنا کر پوری قوم کی شناخت اور ان کے وسائل پر قبضہ جاری رکھا جاسکتا ہے-اور جبر کا کاروبار بھی جاری رکھا جاسکتا ہے-سرائیکی خطہ کے لوگوں کے ساتھ یہی کچھ ہورہا ہے-سرائیکی خطہ کے لوگ چاہتے کیا ہیں کہ ان کو سندھی،بلوچ،پنجابی اور پختوں قومیتوں کی طرح ایک برابر کا فریق تسلیم کیا جائے-ان کی اپنی صوبائی اسمبلی ہو-ان کی اپنی شناخت کے ساتھ قومی اور سینٹ میں نشستیں ہوں-ان کو ارسا اور مشترکہ مفادات کونسل میں نمائندگی ملے-ان کی اپنی کورٹ ہو-اور اس طرح سے وہ بھی اٹھارویں ترمیم سے ملنے والی خوداختیاری سے فائدہ اٹھا سکیں-وہ اپنی شناخت پالیں گے فیڈریشن میں تو وہ اپنےساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف منصب فورم پر آواز اٹھا سکیں گے-وہ عالمی عدالت سے رابطہ کر کے اپنے دریاؤں کی فروخت کا مقدمہ لور سکیں گے-کوئی تو ریلیف ملے گا-وہ تھل اور چولستان کی زمینوں کی لوٹ مار پر کیمشن بنا سکیں گے جو حقائق کو سامنے لیکر آئے گا-بہت سارے معاملات مشترکہ مفادات کونسل میں حل ہوں گے-ارسا میں بھی بہت سارے پانی کے ایشوز حل ہوں گے-
شکیل کہہ رہے تھے کہ سرائیکی خطہ کی شناخت اور ترقی باہمی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں-اور یہ جاگیرداروں کی بقا کا ایشو ھرغز نہیں ہے جیسا عام طور پر کہا جاتا ہے- اگر سرائیکی صوبہ اپنی شناخت کے ساتھ بنا تو اس خطہ میں تیزی سے صنعت کاری کا عمل ہوگا-اور سرائیکی خطہ میں تنخواہ دار طبقہ ،اجرتی مزدور بھی تعداد میں زیادہ ہوں گے-اور یہ پروسس کسی کے روکنے سے نہیں رکے گا-سرائیکی خطہ اگر صوبہ بنتا ہے تو پانچ سالوں کے اندر اندر سرائیکی خطہ میں سیاست کا توازن اربن علاقوں کے حق میں ہوجائے گا-اور سرائیکی خطہ کی سہی آبادی بھی پروسسنگ کے میدان میں تنخواہ دار طبقے کو پیدا کرے گی-اور دیہی آبادی میں زمین کا سیاسی طاقت کی بنیاد ہونے پر بھی کافی کاری ضرب ہوگی-اور جاگیر دار سیاست دنوں کو زمین کی بجائے اپنی طاقت کی بنیاد انڈسٹری یا ٹریڈنگ کو بنانا ہوگا-اس کے بغیر وہ اپنی طاقت کھودیں گے-یہ مشاہدہ ہم اب بھی سرائیکی خطہ کے نیم اربن علاقوں میں کرسکتے ہیں جہاں صنعت کار اور ٹریڈنگ کلاس جاگیر دار طبقے کی جگہ سیاست میں ا رہی ہے-ابھی یہ عمل سست ہے لیکن جب اس صوبہ کے سارے وسائل پوری طرح سے اس خطہ پر استعمال ہوں گے تو ٹیکنولوجی تبدیلیاں تیزی سے لائے گی-یہ خطہ پروسسنگ،کاموڈیتی پروڈکشن میں ترقی کرے گا اور یہ قومی سرمیہ و عالمی سرمایہ میں اپنے حصہ میں اضافہ کرے گا تو یہاں مڈل کلاس اور مزدور طبقہ کی اکثریت ہوگی سماج میں جاگیرداری قصہ پارینہ ہوجائے گی-سرمیہ اور محنت کا تضاد جب غالب ہوگا تو فرمھنٹ کشوں کی انقلابی تحریک بھی تیزی سے آگے کی طرف سفر کرے گی-
میں اور شکیل یہ سب باتیں کر رہے تھے تو سورج منگلا کے پل سے آہستہ آہستہ غروب ہورہا تھا-میں نے اور شکیل نے واپسی بستی کی طرف جانے کے رخت سفر باندھا تو میں نے منگلا کے پل سے اترتے اترتے کہا کہ شکیل صاحب میری خواہش ہے کہ جب بھی سرائیکی صوبہ بنے تو منگلا کے پل پر وزیر اعظم،صدر مملکت اور پنجاب کے چیف منسٹر اور برطانیہ کا سفیر یہاں پر آئے -اور وہ سب مل کر سرائیکی قوم سے معافی مانگیں-اور سرائیکی خطہ کی ریڈ انڈین نائزیشن کے باذبتہ خاتمے کا اعلان کریں-شکیل کہنے لگے کہ عامر !تم بہت زیادہ رجائیت کا مظاہرہ کر رہے ہو-تو میں نے بے اختیار کہا جی ہاں یہ رجائیت بہت ضروری ہے-اس نے افریقہ ،عرب،ایشیا اور امریکہ میں قوموں اور ثقافتوں کو بدترین حالت میں بھی زندہ رکھا تھا-ہم بھی رجائیت کو قائم رکھیں گے اس دیں تک جب خود ظالم حکمرانوں کی نسل اور گروہ کے لوگ بھی ریڈ انڈین نائزیشن پر تبرا کریں گے-اور سرائیکیوں کی اپارتھیزیشن اور ان کی کالونزیشن کو ختم کریں گے-یہ کہ کر ہم جیپ میں بیٹھے اور منگلا کے پل سے دور ہوتے چلے گئے-
'aa
Subscribe to:
Posts (Atom)