ٹھیکیداری سسٹم کا خاتمہ اور مزدوروں کی خوش حالی
لیل و نہار /عامر حسینی
خانیوال کی ایک تحصیل کبیروالہ ہے-کسی زمانے میں یہاں پر سید فیصل امام نے ایک ڈیری فیکٹری قائم کی تھی-یہ بہت تیزی سے ترقی کر رہی تھی -لیکن شائد جاگیرداروں کو اپنے علاقے میں صنعت کاری کا عمل راس نہیں آتا تو انھوں نے یہ فیکٹری ایک ملٹی نیشنل کو فروخت کر دی-جس نے اس جگہ بتدریج نئے پلانٹ لگائے اور یہ ملٹی نیشنل کمپنی اس علاقے میں ملک پروسیسنگ اور ملک سے بننے والی دوسری اشیا کی پیکنگ کا ایک اہم ادارہ بن چکی ہے-
کسی بھی پسماندہ اور دیہی پس منظر رکھنے والے قصبے یا گاؤں کے قریب فیکٹری لگانے کا سبب ملٹی نیشنل کے لئے یہ ہوتا ہے کہ وہاں سے سستی لیبر میسر آتی ہے اور وہاں سے خام مال بھی سستا اور وافر مقدار میں میسر آتا ہے-یہ سب تو اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور فائدہ بھی سرمایہ دار اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں-وہ فائدہ اصل میں اس علاقے سے بھرتی ہونے والی لیبر کی بےخبری اور آدم آگاہی کی وجہ سے اٹھایا جاتا ہے-
جس علاقے میں ملٹی نیشنل کمپنی اپنا کوئی یونٹ لگاتی ہے -اس علاقے سے ملنے والی لیبر غربت اور عدم آگاہی کی وجہ سے بہت تھوڑی تنخواہ اور اپنے لیبر رائٹس سے دست بردار ہوجاتی ہے-اس طرح سے ملٹی نیشنل کمپنی بہت سارا پیسہ بچا لیتی ہے-تیسری دنیا کے ملکوں میں مغرب اور امریکہ سے ٨٠ کی دہائی کے بعد جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے یونٹ آئے وہ دراصل لاگت میں کمی کرنے کے لئے سستی لیبر اور سستا خام مال اور کمزور قسم کی لیبر تحریک کی وجہ سے آئے تھے-
کبیروالہ کے اندر سوئٹزرلینڈ کی ایک فوڈ و بیورج سے متعلق ملٹی نیشنل کمپنی کا پلانٹ بھی اسی لئے لگایا گیا تھا-ایک عرصۂ تک یہاں پر فیکٹری انتظامیہ نے پاکٹ یونین سے کام چلایا تھا-اور مزدوروں کی بہت زیادہ تعداد کو کچھ مزدوروں کی صف میں رکھا تھا-کئی سالوں بعد ایک انٹرنیشنل لیبر تنظیم آئی ایف یو کی وجہ سے یہ ممنکں ہوا کہ سی بی اے میں مزدوروں کی حقیقی قیادت سامنے آئے-اور اس فیکٹری کے مزدوروں کو اپنے لیبر رائٹس بارے معلوم ہوسکے-اس فیکٹری کے مزدوروں نے اپنا پیٹ کاٹ کر سی بی اے کے لوگوں کو پیسا دیا اور ان کو اپنی قوت سے طاقتور بنانے کی کوشش کی-لیکن بدقسمتی سے ڈیلی ویجرز کے نام سے فیکٹری میں کام کرنے والی یہ مخلوق ایک مرتبہ پھر موقعہ پرستی کی سیاست کی نظر ہوگی-اس مرتبہ یہ دھوکہ ان کے ساتھ کسی افسر نے نہیں بلکہ ان کے نام پر مزدور لیڈر بن جانے والے نے کیا-
اس وقت اس فیکٹری میں مستقل مزدوروں کی تعداد صرف 355 ہے جبکہ ڈیلی ویجرز کی تعداد 750 ہے- گویا مزدوروں کی اکثریت کو نام نہاد ٹھیکیداری سسٹم کے حوالے کیا جاچکا ہے-ان 750 میں سے 258 مزدوروں نے لیبر کورٹ ملتان بنچ سے رجوع کیا تھا تو کورٹ نے اس میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ ڈیلی ویجرز کو مستقل کیا جائے-ابھی تک فیکٹری انتظامیہ اور سی بی اے کے صدر کی وجہ سے اس معاملے کو حل نہیں کیا جسکا-انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ وہ ١٠٠ مستقل اسامیاں پیدا کرے اور سی بی اے کے صدر کو نواز دے -جب کے سی بی اے کا صدر یہ چاہتا ہے کہ ٢٥٨ اسامیاں ہوں تاکہ اس کے یونین میں ٢٥٨ ووٹ آجائیں اور وہ سی بی اے یونین پر کنٹرول کر لے-موقعہ پرستی کی اس سیاست کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ اس سے 492 ڈیلی وجیرز کا مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریک ہوجائے گا-ان کو فیکٹری انظامیہ کی طرف سے زیادہ جابرانہ اقدامات کا سامنا کرنا ہوگا-ستم ظریفی یہ ہے کہ جو آئی یو ایف سی کی لوکل لیڈر شپ ہے-جوس سے سی بی اے کا الحاق ہے-وہ بھی سی بی اے صدر کی اس موقعہ پرستی کا ساتھ دے رہی ہے-میں حیران تھا کہ مزدوروں کی لیڈر شپ میں ایسی کون سی کشش ہوتی ہے کہ اس کے لئے سارتی اخلاقیات کو ایک طرف رکھا جارہا ہے-مجھے سی بی اے یونین کے جنرل سیکرٹری خللد بھٹی نے سالانہ انکریمینٹ کی ایک کاپی دی اور سی بی اے و انتظامیہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کی کاپی فراہم کی تو معلوم ہوا کہ کیسے فیکٹری انتظامیہ اور سی بی اے کے صدر نے مل کر چار ماہ کا انکریمنٹ کھا لیا-اس پر فیکٹری کے مزدور عدالت جانے کی تیاری کر رہے ہیں-
مزدروں کو فیکٹری کے منافع میں سے پانچ فیصد ابھی تک اس لئے نہیں مل رہا کہ سی بی اے کا صدر اس بات پر اصرار کر رہا ہے کہ ڈیلی ویجرز میں اس کے جو لوگ قرینب ہیں اور سال میں جن کے کام کے دن ١٨٠ سے کم ہیں ان کو بھی اس منافع میں حصہ دیا جائے-یہ سب اس لئے بھی ہورہا ہے کہ 492 نان کیس فائلر ڈیلی ویجرز کی نمائندگی کرنے والا کوئی نہیں ہے-انتظامیہ کے لئے یہ صورت حال بہت فائدہ مند ہے-
اس کہانی کے کئی اور پہلو بھی ہیں-اور وہ یہ ہیں کہ کس طرح سے مزدوروں کے حقوق کی جنگ پاور سیکنگ کی جنگ میں بدل گئی ہے-اور کس طرح سے مزدوروں کا ایک لیڈر جس کی فیکٹری میں تنخواہ چودہ ہزار روپے ہے وہ ڈبل کیبن ڈالے میں ،گن مین کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے-اور وہ دنوں میں لاکھوں روپے کی پراپرٹی کا مالک ہوگیا ہے-پھر اس پر اخلاقی جرائم کے ارتکاب کرنے کے الزام بھی لگ رہے ہیں-یہ بہت افسوس ناک صورت حال ہے-لیبر اور سرمایہ کے تضاد میں ہونے والی اس کشمکش میں محنت کشوں کے سامنے اس قسم کی موقعہ پرستی ان کے حوصلے پست کرتی ہے-اور اس کا براہ راست فائدہ سرمایہ دار قوتوں کو ہوتا ہے-
اس صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں بہت آزادی کے ساتھ قانون ،لیبر لاز اور عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑاتی ہیں -اور ان کا احتساب کہیں نہیں ہوتا-دیہی علاقوں میں ان کے یونٹ استحصال کو زیادہ فروغ دیتے ہیں-کیونکہ وہاں ہونے والا استحصال میڈیا میں اس طرح سے جگہ نہیں پاتا جس طرح سے وہ شہری مراکز میں جگہ پاتا ہے-پھر یہ بھی ہے کہ دیہی علاقوں کی لیبر اپنے حقوق سے بےخبر ہوتی ہے-اس بےخبری کا فائدہ فیکٹری انتظامیہ ہی نہیں بلکہ ترید یونین لیڈرز اور موقعہ پرست تنظیمیں بھی اٹھاتی ہیں-ایک لطیفہ نما حقیقت بھی میں اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ جس فیکٹری کا میں تذکرہ کر رہا ہوں اس فیکٹری کی سی بی اوے یونین کے لیٹر پیڈ پر سی بی اے یونین کے دفتر کا پتہ سی بی اے یونین کے موجودہ صدر کے گھر کا پتہ ہے-گویا ایک طرح سے موجودہ صدر کے گھر کی لونڈی ہے سی بی اے یونین ہے-یا ان کو یہ خیال ہے کہ وہ تاحیات اس سی بی اے کے صدر رہیں گے-میں سمجھتا ہوں کہ یہ دراصل ہماری پوری سیاست کا ایک عکس ہے کہ جو بھی لیڈر بن جائے وہ مطلق العنان لیڈر بننے کا خواں ہوتا ہے-اور وہ خود اپنے ہاتھوں سے انصاف کا خوں کرتا ہے-
No comments:
Post a Comment