کون جانے کہ اسے یاد بھی ..........سرائیکی محنت کشوں کی نجات
لیل و نہار /عامر حسینی
ایک غزل بہت عرصۂ پہلے سنی تھی کہ "کون جانے کہ اسے یاد بھی رہا کہ نہیں -میں نے ایک خط اسے لکھا تھا پریشانی میں"سرائیکی قوم نے ایک خط پریشانی کے عالم میںوزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو لکھا تھا اور لگتا ہے ان کو یاد بھی نہیں رہا کہ ایسا کوئی خط انہیں لکھا بھی گیا تھا کہ نہیں-سرائیکی قوم کو الگ صوبہ دینے کا وعدہ پیپلز پارٹی کے بہت سارے لوگوں نے کیا تھا اور اب یہ وعدہ کسی کو بھی یاد نہیں ہے-کسی کو اگر بھول گیا ہو تو میں یاد کرا دیتا ہوں-
بینظیر بھٹو کی برسی تھی-صدر آصف علی زرداری بیماری والے ایشو سے نبرد آزما ہوکر وطن واپس لوٹے تھے-اور انھوں نے گڑھی خدا بخش میں خطاب کرتے ہوئے سرائیکی دھرتی کے دکھ نکالنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرائیکی خطہ کے لوگوں کے مسائل کا مداوا صرف و صرف الگ صوبہ کے قیام میں ممکن ہے-وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر کہا تھا کہ سرائیکی صوبہ کے لئے آئینی ترمیم وہ اکتوبر میں لیکر آجائیں گے-سرائیکی صوبہ اگر سرائیکی وزیر اعظم کے دور میں نہ بنا تو پھر کب بنے گا-مخدوم شہاب الدین جب پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر بنے تو انھوں نے ملتان پہلی مرتبہ آمد پر کہا کہ اسی حکومت کے دور میں سرائیکی صوبہ بنالیا جائے گا-یہ مرکزی قیادت کے بیانات ہیں -اس کے علاوہ سرائیکی خطہ سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے ہر چھوٹے بڑے لیڈر نے سرائیکی صوبہ بنانے اور سرائیکی قوم کے احساس محرومی کو دور کرنے کے وعدے کئے-وزیر اعظم کے دونوں بیٹے جو اب چھوٹے بڑے ایوانوں کا حصہ ہیں -ان کی طرف سے بھی سرائیکی قوم کی احساس محرومی کے دور کئے جانے کے انگنت بیانات سامنے ہیں-لیکن سرائیکی قوم کا احساس محرومی ابھی تک دور نہیں ہوا-ان کو الگ صوبہ نہیں ملا-ان کے درد کا زرداری فارمولہ کسی جگہ بھی بل بن کر سامنے نہیں آیا-گیلانی صاحب کی ترمیم کا کچھ پتہ نہیں چلا-سوچنے کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اس قدر بلند و بانگ دعوے کرنے کے بعد کیوں خاموش ہو گئی ہے؟اور پوری ریاست کا رویہ سرائیکی خطہ اور اس کی قوم کے خلاف کیوں سوتیلی ماں جیسا ہے؟میں حیران ہوں کہ ہر آدمی بلوچستان کی بات کرتے ہوئے تو یہ کہتا ہے کہ ریاست نے مشرقی پاکستان والے سانحہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا لیکن سرائیکی قوم کے مقدمے میں یہ بات سب بھول جاتے ہیں-ایک دن آئے گا جب سرائیکی خطہ کا سوال بھی بلوچستان کی طرح کسی مغربی ریاست کے کسی ایوان میں اٹھایا جارہا ہوگا اور پھر ہم سب یہی گردن کریں گے کہ "اپنے سرائیکی بھائیوں کو ہم خود جاکر منائیں گے"میں بہت تواتر سے یہ لکھتا آرہا ہوں کہ بلوچستان میں قبیل داری سماج کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک کو قومی بننے میں کافی وقت لگا تھا اور آج ڈاکٹر الله نذر کی قیادت میں بلوچ قوم کی تحریک اب مڈل کلاس پرتوں اور نیچے محنت کش طبقوں میں بھی پھیل چکی ہے-لیکن سرائیکی قومی تحریک کو گراس روٹ لیول تک جانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا-اس خطہ کے نوجوان جب بھی جاگیردار اور سرمایہ دار سیاست کے سحر سے باہر آئے اور ان کو پارلیمانی اصلاح پسند سیاست کے بیکار ہونے کا احساس ہوا تو پھر سرائیکی قومی تحریک کو گراس روٹ لیول تک جانے میں زیادہ دیر نہیں لگے لگی-
اب تک سرائیکی قومی تحریک کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ اس تحریک کی باگ دوڑایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہی ہے جو اصلاح پسند اور پارلیمانی سیاست کو ہی تبدیلی کا رستہ خیال کرتے رہے ہیں-سرائیکی قومی تحریک میں اس وقت تک جو غالب رجحان ہے وہ پیٹی بورزوا درمیانی پرتوں کا ہے-جس کا جھکاؤ موقعہ پرستی کی طرف زیادہ ہے-یہی وجہ ہے کہ اس درمیانی پرت کی قیادت بار بار جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے سمجھوتے کرتی ہے-وہ سرائیکی قوم کی غریب پرتوں پر محکومیت کا جال بننے والی مرکزی اور صوبائی حکمران پرتوں کے ساتھ بھی سمجھوتے کرتی رہتی ہیں -اصلاح پسندی کا یہ رجحان اپنے اندر موقعہ پرستی کو چھپائے ہوئے ہے-اس رجحان میں انقلاب کے لئے کوئی گنجایش نہیں ہے-حالنکہ ہماری ریاست تو کسی بھی قومیت کی محنت کش اور غریب طبقات کو کسی بھی طرح سے نجات نہیں دلا سکی ہے-اس ریاست کی حکمران کلاس سامراج کی گماشتگی سے باہر نہیں نکلتی -اسی طرح سے یہ حکمران کلاس بار بار مقامی اور کارپوریٹ سرمایہ سے ڈیل کرتی ہے جس کے نتیجہ میں ریاست کے شہری اور دیہی غریبوں پر زندگی عذاب ہوگی ہے-
پاکستان میں مشرف کی حکومت تھی تب بھی اور اب گیلانی زرداری جمہوری حکومت ہے تو بھی منڈی کی معشیت چل رہی ہے-اور منڈی کی معشیت کے ساتھ ساتھ سامراجی جنگ بھی پورے پاکستان میں جاری ہے-اس میں سرائیکی قوم پرست یوسصف رضا گیلانی ،سندھی قوم پرست آصف علی زرداری ،پختوں قوم پرست اسفند یار ولی،پنجابی قوم پرست میاں نواز شریف اور بلوچ قوم پرست سردار اصل ریسانی متفق بھی ہیں اور منڈی کی معشیت کو نافذ کرنے سامراجی جنگ کو جاری رکھنے پر رضامند بھی-محنت کشوں ،کسانوں ،اساتذہ ،ینگ ڈاکٹرز ،نرسیں ،کچے پکے ملازم چاہئے وہ سرائیکی ہوں،سندھی ہوں،پنجابی ہوں،پختوں ہوں ،بلوچ ہونسب پر ریاستی جبر نمایاں ہے-اس امر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست کا جبر تمام قومیتوں کی محنت کش اور کسان پرتوں پر سب سے زیادہ ہے-حکمران طبقات کو ان پرتوں کی حالت زار سے کچھ لینا دینا نہیں ہے-سرائیکی قومی تحریک اس وقت آگے کی طرف سفر کر سکتی ہے جب یہ موقعہ پرست رجحانات سے خود کو آزاد کرے اور سرائیکی محنت کش اور سرائیکی کسان پرتیں اپنے اندر اتحاد پیدے کرتے ہوئے خود کو دیگر قومیتوں کے محنت کش طبقوں کے ساتھ جوڑ دیں-تبھی سرائیکی قومی تحریک میں سے موقعہ پرستی اور نسلی لسانی نفرتوں پر بنیاد رکھنے ولی قوم پرستانہ آئیدولوجی سے پھیلنے ولی منافرت کا خاتمہ ہوسکتا ہے-
گیلانی -زرداری سرکار سرمایہ داری کے ظالمانہ ماڈل مارکیٹ لبرل ازم اور سامراج پرستی میں سر سے لیکر پیر تک لتھڑی ہوئی ہے-اور جو لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ یہ سرکار ان کے دکھوں کا مداوا کرے گی اب وہ بھی منہ چھپائے بیٹھے ہیں-اس وقت زرداری -گیلانی سرکار کی اصلاح پسندی سے مایوس لوگوں کی ایک بہت بڑی تعدار عمران خان کی اصلاح پسندی کی طرف مائل ہے-لیکن آنے والے وقت میں یہ ثابت ہوجائے گا کہ سامراجیت اور لبرل مارکیٹ کے ساتھ سمجھوتے بازی سے کسی کی نجات ممکن نہیں ہے-ایسے سمجھوتوں محنت کشوں کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا-کارپوریٹ سرمایہ کی جیت ہوگی اور دیہاتوں ،شہروں میں غریبوں کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا-سرائیکی خطہ میں انقلابی سوشلسٹ لوگوں کو سرائیکی قوم کے نوجوانوں کو یہ بھی سمجھانا ہوگا کہ ان کی طرف سے سرائیکی قومی سوال پر سرائیکی قومیت کے اشو پر جو حمایت سامنے آتی ہے وہ قومپرستوں سے کس طرح سے الگ ہے؟اور ان کی طرف سے مظلوم قوم کی حمایت اور ظالم قوم کی مذمت کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ماضی میں ہوتا یہ رہا ہے کہ قوم پرست اور سوشلسٹ ایک پلیٹ پفارم پر رہے تو قوم پرستی اور انقلابی سوشل ازم میں فرق بہت زیادہ مبہم سا ہوگیا-اب قوم پرست جب جب امریکی سامراجیت کی حمایت کرتے ہیں-یا امریکی سامراجیت سے مدد طلب کرتے ہیں تو کھا جاتا ہے کہ سوشلسٹ اب امریکہ کے حامی ہوگئے ہیں-حالنکہ سوشلسٹ سامراج کے نہ کل حامی تھے نہ آج ہیں-اسی طرح سے وہ قومیت کے ایشو کو اس طرح سے نہیں لیتے جس طرح سے قوم پرست لیتے ہیں-ایک بات قوم پرست اور سوشلسٹس میں بہت بنیادی فرق کو ظاہر کرتی ہے کہ قوم پرست لسانی اور ثقافتی اشتراق کی بنیاد پر سب کو ایک قرار دیتا ہے-اور ان کے مفاد کو بھی یکساں کہتا ہے-لیکن سوشلسٹ کسی بھی قوم میں لسانی اور ثقافتی اشتراق کے ساتھ ساتھ ان میں طبقاتی بنیاد پر فرق کرنے کی بات کرتا ہے -اسی لئے جب وہ سرائیکی قوم کی آزادی کی بات کرتا ہے تو اس سے مرد سرائیکی ورکنگ کلاس اور کسان طبقے کی نجات ہوتی ہے-اور سرائیکی قومی تحریک میں اس کا ہراول دستہ مزدور اور کسان ہوتے ہیں نہ کہ جاگیردار اور سرمایہ دار ہوتے ہیں-اسی لئے سوشلسٹ انقلابیوں کے ہاں زبان اور ثقافت کا اختلاف نفرت اور لڑائی کا سبب نہیں ہوتا بلکہ تصادم اور لڑائی کی بنیاد طبقاتی خلیج ہوا کرتی ہے-یہ وہ بات ہے جس کو آج قوم پرستی اور ریاست کی طرف سے مرکز پرستی کی بحث میں نظر انداز کردیا جاتا ہے-سرائیکی خطہ میں سوشلسٹ انقلابیوں کے پاس نظریہ سازوں کی کمی ہے-اور جن کو یہ پتہ ہے وہ نجانے کیوں خاموش ہیں-سرائیکی خطہ کے محنت کشوں اور کسانوں کو سرمایہ کی لوٹ کے خلاف خود کو منظم کرنا ہوگا-اور اپنی نجات کی جنگ طبقاتی بنیادوں پر لڑنا ہوگی-
No comments:
Post a Comment