Sunday, September 5, 2010

کراچی اہدافی قتل: پس منظر اورمحرکات

کراچی اہدافی قتل: پس منظر اورمحرکات



کراچی اہدافی قتل: پس منظر اورمحرکات

جمہوریت کو پابند سلاسل کرنے کے نئے حربے

عامر حسینی

گزشتہ ہفتے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین نے کارکنان کے اجلاس عام سے جو خطاب کیا اس سے سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا۔ اس خطاب میں الطاف حسین نے جرنیلوں سے کہا کہ وہ ماضی میں اپنے اقتدار کے لیے مارشل لاءلگاتے رہے لیکن اس مرتبہ دیانت دار جرنیلوں کو جاگیرداری اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مارشل لاء لگانا چاہیے اور اگر دیانت دار جرنیل ایسا کرتے ہیں تو ایم کیو ایم ان کی حمایت کرے گی۔ الطاف حسین کے اس خطاب نے سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی سب کو حیران کردیا۔ ان کے اس بیان پر وزیراعظم مخدوم یوسف رضاگیلانی نے ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ الطاف حسین کے بیان سے فوج کا وقار مجروح ہوا ہے۔ مذکورہ بیان پر سب سے شدید ردعمل مسلم لیگ (نواز) کی طرف سے سامنے آیا۔ مسلم لیگ (نواز) نے قومی اسمبلی میں سپیکر قومی اسمبلی کے پاس متحدہ کے قائد الطاف حسین کے خلاف دو تحاریک التواءجمع کرائیں تو جواب میں متحدہ قومی موومنٹ نے بھی میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی کے فوج سے مبینہ رابطوں اور معاہدوں کے خلاف تحاریک جمع کرا دیں۔ الطاف حسین نے یہ بیان کیوں دیا جبکہ وہ وفاق اور صوبہ سندھ میں حکومت کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ موجودہ جمہوری نظام کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس کے خلاف تقاریر کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں جاری ہیں لیکن حالات وواقعات پر نظر رکھنے والے ماہرین اسے کراچی میں جاری کنٹرول کی جنگ سے جوڑتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی، جو کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں بہت عرصہ بعد متحدہ قومی موومنٹ کے مکمل کنٹرول میں آیا تھا، اب متحدہ اس کنٹرول کو کھوتی جا رہی ہے۔ کراچی میں کنٹرول کی جنگ کا ایک مظہر ٹارگٹ کلنگ(اہدافی قتل) ہیں۔ یہ اہدافی قتل مسلکی، لسانی اور قومی فرقہ وارانہ بنیادوں پر کیے جا رہے ہیں۔ قتل ہونے والوں میں پشتون اور مہاجر زیادہ ہیں، کہیں کہیں اس میں بلوچ، سندھی اور سرائیکی بھی نشانہ بنتے ہیں۔ جون 2010ء سے اگست کے آخری ہفتے تک 238 افراد اہدافی قتل و غارت گری کا نشانہ بنے۔

کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ریاض احمد اہدافی قتل کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ قتل عام لسانی لڑائی کا نتیجہ نہیں ہے، کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ مہاجروں اور پشتونوں میں بلوے اور فساد ہوئے ہوں، دونوں اطراف کے لوگوں نے اجتماعی طور پر قتل عام کرنا یا بستیاں جلانا شروع کر دی ہوں بلکہ یہ تو چہرہ چھپائے موٹر سائیکل سوار پیشہ ور قاتلوں کی کارروائیاں ہیں۔ ان کے خیال میں پشتونوں کو ایک سوچے سمجھے منظم منصوبے کے تحت کراچی سے بے دخل کرنے کی کوشش ہورہی ہے کیونکہ اہدافی قتل میں ایک تو سب سے زیادہ ہدف اور نشانہ پشتون بنے ہیں دوسرا مقتولین کا زیادہ تر تعلق مزدور پیشہ طبقے سے ہے۔

معروف صحافی عبدالمجید چھاپرا کا کہنا یہ ہے کہ کراچی کے اندر جاری خون ریزی کا مقصد بہت واضح ہے، سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے منشور اور نظریات کی بنیاد پر لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے بجائے اور سیاسی میدان میں مخالفوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے مافیاز اور سماج دشمن عناصر کی طاقت پر انحصار کررہی ہیں۔ ہر جماعت کے پاس پیشہ ور قاتل، ہنگامہ باز دہشت پھیلانے والے، بازار اور سڑکیں بند کرانے کے ماہر، جلاؤ گھیراؤ کرنے کے ماہر موجود ہیں جن کی مدد سے کراچی کو ہر جماعت کنٹرول کرنے کی کوشش میں ہے۔ کیپٹل سٹی پولیس آفسیر کراچی وسیم احمد کہتے ہیں کہ کراچی میں اہدافی قتل کے پیچھے سیاسی، فرقہ وارانہ، نسلی یادہشت گردانہ محرکات کارفرما ہیں۔

ایک انگریزی معاصر روزنامہ کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں ایک سینئر سکیورٹی افسر کا کہنا ہے کہ ”ہم نے14 سے15 افراد کو پکڑکر اپنی تحویل میں رکھا ہے اور ان میں سے ہر ایک نے17 سے18 اہدافی قتل کا اعتراف کیا ہے۔ انٹروگیشن رپورٹ ہر تفصیل دیتی ہے کہ ان کا تعلق کس سیکٹر سے ہے، یہ لوگ کہاں ملاقاتیں کرتے ہیں، موٹرسائیکلیں کہاں سے لیتے ہیں اور ہتھیار ان کو کہاں سے مل رہے ہیں“۔ اس اہلکار کے مطابق ان لوگوں کو پکڑنے کے لیے ملٹری انٹیلی جنس، آئی ایس آئی، سی آئی ڈی، انٹیلی جنس بیورو، سپیشل برانچ اور پولیس کے خصوصی سیل سے مدد لی گئی۔ سکیورٹی افسر کے مطابق اہدافی قتل دراصل سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری جنگ کا نتیجہ ہیں اور یہ اس لیے نہیں رُک پا رہے کہ پولیس، رینجرز،ایجنسیوں کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے ہیں۔

ایک خفیہ ادارے کے اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر” ہم شہری“ کو بتایا کہ اہدافی قتل کراچی پر کنٹرول کا شاخسانہ ہیں اور اس میں سب سے زیادہ کردار متحدہ قومی موومنٹ، مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، سنی تحریک(ایس ٹی) کے خفیہ ایکشن گروپوں کا ہے۔ اس اہلکار کا کہنا تھا کہ فرقہ وارانہ اہدافی قتل بھی دراصل سیاسی جماعتوں کے درمیان کنٹرول کی جنگ کا حصہ ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ایجنسیوں کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ جب متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے حقیقی کے کارکنوں اور ہمدردوں کا قتل شروع کیا تو حقیقی نے اپنے بچاؤ کے لیے بالآخر سنی عسکریت پسند تنظیموں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی سے اتحاد بنالیا اور اس اتحاد کے نتیجے میں متحدہ قومی موومنٹ میں شامل شیعہ افراد کے قتل کی وارداتیں بھی سامنے آئیں۔ دوسری طرف خود متحدہ قومی موومنٹ میں بھی شامل شیعہ اور دیو بندی انتہاپسند عناصر کے درمیان سردجنگ موجود ہے۔ اس کا نتیجہ بھی جلد ہی سامنے آسکتا ہے۔

انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے رضا کار، جس نے کراچی کے اندر جاری دہشت گردی کے حوالے سے اعدادوشمار اور ان کی نوعیت پر کام کرنے والی ایک ٹیم کے ساتھ کام کیا، نے ”ہم شہری“ کو بتایا کہ اہدافی قتل اور ہنگامہ آرائی کا مرکز زیادہ تر اورنگی ٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن، کورنگی، پیرآباد، گلستان جوہر، کٹی پہاڑی وغیرہ ہیں، یہ وہ علاقے ہیں جہاں مہاجر، پشتون، پنجابی، سرائیکی آبادی مخلوط ہے اور ان علاقوں پر کسی بھی سیاسی، مذہبی جماعت کا کنٹرول واضح نہیں ہے۔ ان حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو ایک بات سامنے آتی ہے کہ سیاسی جماعتیں کراچی کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں اور اس عمل میں بہت تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

لانڈھی، اورنگی، سائٹ اور بلدیہ پختونوں کے لیے، مغربی کراچی بلوچ اور سندھیوں کے لیے جبکہ وسطی کراچی مہاجروں کے لیے۔ تقسیم کی یہ کوشش کراچی میں اس لیے بھی لہو رنگ ہے کہ کراچی کی ٹرانسپورٹ، کاروبار اور ملازمتیں شہر کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں لوگوں کے آنے جانے کی وجہ بنتی ہیں اور یہ علاقے باہم اسی بنیاد پر جڑتے ہیں۔ ان علاقوں کو نسلی بنیادوں پر بانٹنا، فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا قطعاً ممکن نہیں ہے۔ کراچی میں اپنی اپنی حصہ داری کو برقرار رکھنے کے لیے خون بہایا جارہا ہے۔ نسلی بنیادوں پر اس تقسیم کا نشانہ مزدور، قالین باف، خوانچہ فروش، ریڑھی بان اور پروفیشنل بن رہے ہیں۔ سی سی پی او کراچی وسیم احمد کے خیال میں مسئلہ انتظامی سے کہیں زیادہ سیاسی ہے اور اس کا حل کراچی میں نہیں بلکہ اسلام آباد میں ہے۔

ایک سیاسی تجزیہ نگار کے مطابق اسلام آباد میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت اپنے اتحادیوں کو کنٹرول نہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ وفاق میں اس کے پاس کل 126 نشستیں ہیں جن میں سے کئی کے سرپر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں پی پی پی کے اپنے اراکین کی تعداد سے سادہ اکثریت بھی نہیں بنتی اس لیے پی پی پی نے ابتدا میں عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ(نواز) اور جے یو آئی(ف) کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی لیکن میاں نواز شریف کی حکومت سے علیحدگی اور دونوں جماعتوں کے درمیان سردجنگ نے پی پی پی کو متحدہ پر انحصار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ پی پی پی کے دونوں اتحادی عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم ایسے ہیں جن کی مدد کے بغیر اب وفاق میں حکومت قائم رکھنا پی پی پی کے لیے ممکن نہیں ہے۔

ایم کیو ایم کراچی کے حوالے سے وفاق اور صوبہ سندھ سے انتظامی کنٹرول پر بڑا حق وصول کرنے کی خواہش مند ہے۔ وہ فاٹا اور خیبر پختونخوا سے پشتونوں کی بڑی تعداد میں کراچی آمد اور ان کے کراچی میں بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لیے ریاستی وغیر ریاستی سطح کے اقدامات پر فری ہینڈ مانگتی ہے، لیکن پی پی پی کے لیے یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ سے سندھ پیپلزپارٹی اور سندھ کی حکومت کے اکثر وزرا نالاں ہیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ اور وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا پر خاصی تنقید ہورہی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ایک انتہائی اہم رہنما جو کہ سرحد حکومت میں بھی اہم عہدہ رکھتے ہیں، انہوں نے راقم کو ایک اور ہی کہانی سنائی۔ ان کے مطابق ”متحدہ قومی موومنٹ اور ہیئت مقتدرہ کے اندر بیٹھے چند طاقت ور حلقوں کے درمیان جو بہتر تعلقات مشرف دور میں استوار ہوئے تھے ایسا لگتا ہے کہ وہ ترقی پر ہیں۔ ہیئت مقتدرہ کے اندر ایسے حلقے موجود ہیں جو متحدہ قومی موومنٹ کے سلوگن ’جاگیرداری کا خاتمہ، مڈل کلاس قیادت‘ کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ اس سے علیحدگی پسند قوم پرستوں اور مذہبی دہشت گردوں سے نمٹا جاسکتا ہے۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہے ایم کیو ایم کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ سے اظہار محبت کی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الطاف حسین کے بیان کی حمایت میں تقریر کر کے غیر منتخب ہیئت مقتدرہ کے اندر بیٹھے ایک حلقے کی سوچ اور پروجیکٹ کو جمہوریت گرانے کے لیے تیار ہونے والی سازش جیسے خدشات کو مزید تقویت پہنچائی ہے“۔

ایسا لگتا ہے کہ غیر منتخب ہیئت مقتدرہ کے اندر بعض لوگ میڈیا، سول سوسائٹی، وکلاءاور چند سیاسی جماعتیں جو کہ موجودہ نظام کا انتخابی بائیکاٹ کی وجہ سے حصہ نہیں ہیں اور جو حصہ ہیں وہ اپنے حصے پر مطمئن نہیں ہیں کو ملاکر سسٹم کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں۔ ڈی ریل کرنے کے لیے ایجنڈا بدعنوانی کا خاتمہ، جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ، دیانت دار قیادت کا ظہور وغیرہ ہوسکتا ہے اور انتخاب میں شکست کا خوف رکھنے والے چنددرمیانے طبقے کے افراد اقتدار میں شریک کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے کراچی اور پنجاب کے شہری مراکز کے اندر منظم طریقے سے میڈیا کا ایک حصہ کیمپین کو آگے چلارہا ہے۔

Saturday, August 21, 2010

سیلاب

ناانصافیوں کا شکار جنوبی پنجاب مزید تباہ

عامر حسینی

1929ءکے بعد پہلی مرتبہ پاکستان کے اندراس قدر شدید بارشیں اور اس کے نتیجے میں اونچے درجے کے سیلاب آئے ہیں۔ خیبر پختونخوا، جنوبی پنجاب اور صوبہ سندھ بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے کوآرڈی نیٹر برائے ایمرجنسی ریلیف جان ہوم نے چند روز قبل سیلاب زدگان کی تعداد اندازا ایک کروڑ 30 لاکھ بتلائی تھی البتہ اب یہ انداز20 کروڑ سے زائد کا ہے۔

جنوبی پنجاب جو کہ ریاست کی غیر منصفانہ پالیسیوں، جاگیر دارانہ نظام کے سبب پہلے ہی پسماندہ علاقہ تھا، اس سیلاب سے بُری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ دریائے سندھ اور دریائے چناب اور اس سے ملحقہ نہروں سے شدید سیلاب آنے کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے 10 اضلاع بُری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں میانوالی، خوشاب، سرگودھا، لیہ، بھکر،مظفر گڑھ، ملتان، ڈی جی خان ، راجن پور، رحیم یار خان شامل ہیں۔ جنوبی پنجاب میں لاکھوں ایکڑ پر کھڑی کپاس کی فصل تباہ ہوگئی ہے، یہ تقریباً86 ارب روپے کا نقصان بتلایا جارہا ہے۔ جنوبی پنجاب میں ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ افراد کو عارضی رہائشی پناہ کی ضرورت ہے۔ جبکہ مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان میں وبائی امراض پھیلنے کی خبریں بھی مل رہی ہیں۔

جنوبی پنجاب میں جن اضلاع میں سیلاب آیا ہے ان کے اکثر علاقے وہ ہیں جو پہلے ہی انفراسٹرکچر کے اعتبار سے پسماندگی کا شکار تھے۔ ان اضلاع میں سڑکیں، سکول، کالجز، ہسپتال، پارک، مساجد، بازار تباہ ہوگئے ہیں۔ جبکہ دوسرا بڑا المیہ ہوا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے جنوبی پنجاب کے اندر پسماندگی ختم کرنے کے لیے تقریباً322 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے تھے، جن میں سے بعض پر کام کا آغاز، بعض درمیان میں اور بعض ختم ہونے کے قریب تھے۔ اب ان منصوبوں کی تکمیل کھٹائی میں پڑتی نظر آ رہی ہے۔ ان منصوبوں میں ہیڈ محمد والہ پل، نشتر گھاٹ پل کی تعمیر13 سالوں میں پہلی مرتبہ کرنے کا اعلان ہوا تھا۔ لیکن لیہ، ملتان، ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان میں سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے اس کے بعد یہ منصوبے مکمل ہوتے نظر نہیں آتے۔ نشتر گھاٹ پل کی تعمیر کا کام تو ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا۔

جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے پنجاب اور بلوچستان کو ملانے والی سڑک بری طرح سے تباہی کا شکار ہوئی ہے۔ جبکہ ملتان، ڈیرہ غازی خان روڈ بھی تباہ ہوا ہے۔ اس سے پورے پنجاب میں تیل، گیس، سبزیاں، فروٹ وغیرہ کی سپلائی کا نظام بھی متاثر ہوگیا ہے۔ محمود کوٹ میں آئل ریفائنری، لعل پیر تھرمل پاور پلانٹ اور قادر پور گیس فیلڈ کی بندش سے جنوبی پنجاب میں تیل، گیس کی قیمتوں میں اضافہ، قلت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ گزشتہ روز گھی کے کنستر میں یک دم100 روپے کلو اضافہ ہوگیا ہے۔ مہنگائی کا یہ ایک اور بم یہاں کے مظلوم اور پسے ہوئے لوگوں کو مزید مارنے کے مترادف ہے۔

جنوبی پنجاب میں انفراسٹرکچر کی تباہی کے بعد مرکزی حکومت اگر جنوبی پنجاب میں جاری وزیراعظم کے ترقیاتی پروگرام کو روکتی ہے تو اس کے بہت ہی بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسری طرف پنجاب حکومت جس کی مالی حالت پہلے ہی مخدوش تھی اور اس نے اس کے باوجود بجٹ میں جنوبی پنجاب میں54 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب اس اعلان کے پورا ہونے کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب تا حال” سستی روٹی سکیم“ جاری رکھے ہوئے ہیں حالانکہ پنجاب میں سیاسی، سماجی اور صحافتی حلقے ان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس سبسڈی کے لیے مختص رقم کو سیلاب ریلیف فنڈ کے لیے مختص کردیں، لیکن تاحال پنجاب حکومت کی طرف سے ایسا کوئی عندیہ ظاہر نہیں ہوا۔

گورنر پنجاب سلمان تاثیر گزشتہ دنوں جنوبی پنجاب کے سیلاب زدگان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لیے آئے۔ اس موقع پر انہوں نے جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور پھر ملتان پریس کلب میں بھرپور پریس کانفرنس کی۔انہوں نے بھی سستی روٹی سکیم ختم کرنے، نئی گاڑیوں کو فروخت کر کے رقم سیلاب ریلیف فنڈ میں جمع کرانے کا کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ 200 سے زائد ٹاسک فورسز کے چیئرمین فارغ کر کے ان کو دیا جانے والا مشاہرہ سیلاب زدگان ریلیف فنڈ میں جمع کرایا جائے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب جنہوں نے گزشتہ دو ہفتوں سے جنوبی پنجاب میں ڈیرہ ڈالا ہوا ہے اگرچہ مسلسل سیلاب زدہ علاقوں میں کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں لیکن ان کی موجودگی کے باوجود ریلیف کے کاموں میں مقامی نوکر شاہی کے کردار سے متاثرین مطمئن نہیں ہیں۔

سیلاب زدہ علاقوں میں بے گھر ہونے والے لوگوں کو خطرے کے علاقے سے نکالنے میں ضلعی انتظامیہ کی نااہلی بہت واضح ہو کر سامنے آئی۔ مظفر گڑھ، شاہ جمال، چاچڑاں، مٹھن کوٹ، کروڑ لعل عیسن، میاں والی، بھکر وغیرہ میں نقل مکانی کے دوران انتظامیہ 90 فیصد لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا نہ کر سکی، نہ ہی ان کے لیے پیشگی رہائش کا انتظام کیا جا سکا۔ اسی دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے پاس نہ تو تربیت یافتہ عملہ ہے اور نہ ہی آلات جبکہ صوبائی ڈی ایم اتھارٹی نے اب تک ضلعی سطح پر اتھارٹی قائم ہی نہیں کی۔ این ڈی ایم اے کی کارروائیاں قومی فلڈ ریلیف کمیشن کے ذریعے ہو رہی ہیں۔ 5 سال میں این ڈی ایم اے صوبائی اور ضلعی سطح پر فعال اداروں کی شکل اختیار نہیں کر سکی، حالانکہ اس ادارے کا سربراہ فوج کے سابق جرنیل کو یہ کہہ کر بنایا گیا تھا کہ وہ زیادہ تر بہتر طریقے سے اس ادارے کو منظم کر سکیں گے۔ چاروں صوبائی اتھارٹیوں میں بیٹھے لوگ خود تو پرآسائش رہائش گاہ، گاڑیوں اور بھاری مشاہروں سے مستفید ہو رہے ہیں لیکن ان کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔

قدرتی آفات کی قبل از وقت پیش گوئی کے حوالے سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ میٹریالوجیکل ڈیپارٹمنٹ نے این ڈی ایم اے، صوبائی حکومتوں اور ضلعی حکام کو جون میں بتلایا تھا (اس حوالے سے سپیشل وارننگ سمری جاری کی گئی تھی)۔ اس سال مون سون کی غیر معمولی بارشوں کا امکان ہے جس سے شمالی علاقہ جات، خیبر پختونخوا، جنوبی پنجاب، بلوچستان اور صوبہ سندھ میں شدید سیلاب آ سکتا ہے۔ لیکن اس خصوصی سمری کو نظرانداز کر دیا گیا جبکہ پنجاب حکومت نے بھی تمام ضلعی نوکر شاہی کو مراسلہ ارسال کیا تھا اور محکمہ اری گیشن کو خصوصی ہدایات جاری کیں تھیں کہ وہ کمزور بند مضبوط کرے۔ سیلاب آنے کی صورت میں ممکنہ متبادل حکمت عملی تیار کرے، لیکن اس حوالے سے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا گیا۔

جنوبی پنجاب میں سیلاب زدگان کی مدد اور بحالی کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومت میں ہم آہنگی کا سخت فقدان ہے۔ ابھی تک تو وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی کابینہ کو اکٹھا کر کے اجلاس نہیں کر سکے۔ پیپلز پارٹی سے جاری سرد جنگ کا اثر سیلاب زدگان کی مدد پر بھی پڑ رہا ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے الگ الگ دورے کیے۔ سیلاب بھی ان رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا نہیں کر سکا ہے۔ گورنر ہاؤس میں وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے ہنگامی پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ پنجاب پر سولو فلائٹ کرنے کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں شہباز شریف نے سیلاب زدگان کی مدد کے حوالے سے حکمت عملی طے کرنے کے لیے کابینہ کا اجلاس تک نہیں بلایا۔ سانحہ داتا دربار کے بعد ان کی یہی روش رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاق میں مسلم لیگ (نواز) کے قائد عدم تعاون کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں تو پنجاب میں ”چھوٹا میاں“ سویلین ڈکٹیٹر شپ قائم کیے ہوئے ہیں۔ اس طرح کی تنقید کا شاید اثر تھا کہ میاں محمد نواز شریف نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو فون کیا اور بعدازاں دونوں رہنماؤں میں ملاقات ہوئی۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان ہم آہنگی کے لیے وفاقی حکومت قومی کانفرنس بلانے کا عندیہ بھی دے رہی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بھی طلب کیا جا رہا ہے۔ عالمی برادری اور خود اندرون ملک ریلیف فنڈ کی اپیل پر ملا جلا رجحان ہے۔ اگر ملک بھر کی سیاسی قیادتیں اتحاد کا ثبوت دیں گی تو یہ رجحان مثبت رخ اختیار کر سکتا ہے۔


تبصرہ


امیل
نام
جگھ

mixture of good and bad governance

Saturday, July 31, 2010

وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان سے گفتگو

وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان سے گفتگو

عامر حسینی





]وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان آج کل ملک بھر کی بارز کے دوروں پر نکلے ہوئے ہیں۔ ان کے ان دوروں کا بڑا شہرہ ہے۔ ایسے ہی ایک دورے کے دوران ”ہم شہری“ نے ان سے حالات حاضرہ پر ایک انٹرویو کیا ہے۔ بابر اعوان نے اس انٹرویو میں کئی انکشافات بھی کیے۔ انٹرویو کے اقتباسات قارئین کی نذر ہیں۔





ہم شہری: آپ بالعموم پاکستان بھر کی بارز کے دورے کر رہے ہیں، پنجاب آپ کا خاص ٹارگٹ ہے۔ ان دوروں پر بڑی لے دے ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قاضی انور، سابق صدر اکرم شیخ ایڈووکیٹ سمیت آپ کی وکلاء برادری کا ایک حصہ آپ پر وکلاء کو خریدنے کا الزام عائد کر رہا ہے۔ میاں نواز شریف، چوہدری نثار بھی آپ کے دوروں پر نالاں ہیں۔ آپ پر یہ بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ آپ عدلیہ کے فاضل ججز کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ ان باتوں میں کہاں تک صداقت ہے؟





بابر اعوان: سب سے پہلے تو ”ہم شہری“ کا شکریہ کہ اس نے مجھے موقع فراہم کیا کہ میں اپنا مقدمہ کھل کر عوام کی عدالت میں پیش کروں۔ جہاں تک آپ نے یہ جملہ کہا کہ پنجاب میرا ٹارگٹ ہے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ میں خود سے کسی بار میں نہیں جا رہا۔ بارز مجھے دعوت نامے ارسال کر رہی ہیں تو میں جا رہا ہوں۔ میں جس بار میں بھی گیا وہاں وکلاء کے اجتماع سے میں نے رائے مانگی کہ مجھے بارز کا دورہ کرنا چاہیے یا نہیں، تو بھاری اکثریت نے میرے دوروں کی حمایت کی۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر کسی بھی بار کے وکلاء کی اکثریت نہ چاہے تو کیا میں اس بار کا دورہ کر سکوں گا؟ کیا میں اس بار سے خطاب کر سکوں گا؟ وکلاء کا مزاج سب جانتے ہیں۔ اگر مجھے پنجاب کی بارز کا اعتماد حاصل نہ ہوتا تو میں کبھی بھی کسی بار سے خطاب نہیں کر سکتا تھا۔ میں سب سے پہلے تو وکیل ہوں، اس کے بعد میرے پاس وزارت قانون کا قلم دان ہے۔ اس وزارت سے میں وکیلوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کر سکتا ہوں تو میں وہ کیوں نہ کروں۔ میں جو گرانٹس دے رہا ہوں وہ کسی کی ذات کو نہیں دے رہا بلکہ اجتماعی اداروں کو امداد دی جا رہی ہے۔ اب میں آپ کو بتاؤں کہ میں ڈسٹرکٹ بار خانیوال گیا تو وہاں ڈسٹرکٹ بار کے صدر سید ضیا حیدر زیدی، جنرل سیکرٹری راشد محمود اور پی ایل ایف کے صدر وزیر اقبال نیازی نے مجھے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ ضلع کی اس بار میں نہ تو سائلین کے لیے شیڈ ہے، نہ مسجد ہے اور نہ ہی کیفے ہے۔ اکثر بارز میں عورتوں کے لیے کوئی ریڈنگ روم نہیں ہے۔ نوجوان وکلاء کے پاس لاء کی حوالہ بکس خاص طور پر میجر ایکٹ اور فیملی لاز مینول خریدنے کی استطاعت نہیں ہے۔ نوجوان وکلاء اگر لاء کی کتابیں نہیں پڑھیں گے تو وہ بہتر وکیل کیسے بنیں گے۔ میں اگر وکلاء کی بڑی مصیبتوں میں سے چند کو ختم کرنے کی استطاعت رکھتا ہوں تو میں ایسا کیوں نہ کروں۔ پھر محض وکلاء ہی نہیں میں نے وکلاء کے منشیوں کے حالات کار بہتر بنانے کے لیے بھی اقدامات اٹھائے ہیں۔ اگر میں نے ایسا کیا تو کیا بُرا کیا؟ اس میں وکلاء کو خریدنے اور جج صاحبان کے خلاف سازش کہاں سے آ گئی؟

ہم شہری: میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف آپ سے سخت ناراض ہیں۔ بلکہ میاں نواز شریف نے تو آپ کے خلاف پے در پے پریس کانفرنسیں کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ پنجاب حکومت گرانے کی سازش کر رہے ہیں۔ کیا ہوا کہ میاں برادران آپ سے سخت ناراض ہو گئے ہیں؟

Eبابر اعوان: وہ کسی کا شعر ہے نا کہ

Qہم عرض بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

Kوہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا





یہی معاملہ ہمارے ساتھ ہے۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف تخت لہور کے شہزادے ہیں۔ انہوں نے دروں بینی اور خود احتسابی کبھی سیکھی نہیں۔ میری غلطی فقط اتنی ہے کہ میں نے ان کو جواباً آئینہ دکھایا ہے تو وہ اس پر بُرا منا گئے ہیں۔ میاں نواز شریف وفاقی حکومت پر بہت برستے ہیں۔ انہیں اچھی حکمرانی وفاق میں نظر نہیں آتی لیکن پنجاب کی بدترین صورت حال پر ان کی نگاہ نہیں جاتی۔ مجھے پنجاب کے سینئر وزیر راجہ ریاض نے بتایا کہ سانحہ داتا دربار کے بعد بھی پنجاب کابینہ کا اجلاس نہیں بُلایا گیا۔ پنجاب کابینہ کا اجلاس نہ بلانا رول آف بزنس کی خلاف ورزی ہے۔ میں آج آپ کو بتا رہا ہوں کہ میاں برادران ہمیں کفایت شعاری کا درس دیتے نہیں تھکتے، انہیں غریب وکلاء میں امداد تقسیم کرنا بُرا لگتا ہے، انہیں ملازمین کی 50 فیصد تنخواہوں میں اضافہ بوجھ لگتا ہے لیکن ان کا اپنا طرزِ حکومت شاہانہ ہے کہ پورے سرائیکی بیلٹ کو جتنی رقم دی اس سے 20 گنا زیادہ رقم ٹھوکر نیاز بیگ سے اپنے محل تک آنے والی سڑک پر خرچ کر دی۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی حفاظت کے لیے چار ہزار سے زیادہ پولیس اور ایلیٹ فورس کے جوان تعینات ہیں، جبکہ صوبے اور دارالخلافہ میں 8 محلات کو وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ قرار دے رکھا ہے۔ جبکہ صورت حال یہ ہے کہ فیصل آباد میں ہمارے دو مسیحی بھائیوں کو ہتھکڑی لگی ہوئی کے ساتھ دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا، سانحہ گوجرہ میں مسیحی بستی نذر آتش ہوئی، ایک وکیل کے چیمبر پر بموں سے حملہ ہوا۔ لاہور میں ہونے والے خود کش حملے ہمارے سامنے ہیں۔ دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں۔ عوام کی جان و مال کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ صوبائی مشینری اور فنڈز تو شہزادوں کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ میں آپ کو بتاؤں کہ لاہور میں ان شہزادوں نے پہلے ریڑھے ٹانگے بند کیے۔ اب رکشے بند کرنا چاہتے ہیں۔ یہ غریب کا لاہور میں رہنا برداشت نہیں کرتے۔ یہ غربت کو خوشحالی اور امارت میں بدلنے کے بجائے غریب کے خاتمے کو آسان سمجھتے ہیں۔ میری یہ کڑوی سچی باتیں ہیں جن کے باعث میاں برادران کے ہاں تلخی زیادہ ہو گئی ہے۔

?ہم شہری: اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کے بل کی سمری کہاں ہے؟ آپ نے سرگودھا اور فیصل آباد میں ہائی کورٹ بینچز بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟

بابر اعوان: اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کی منظوری پارلیمنٹ کے دونوں ایوان دے چکے ہیں۔ اب اس کی سمری صدر مملکت کو بھیج دی گئی ہے، جلد ہی اس پر دستخط ہو جائیں گے۔ جہاں تک فیصل آباد اور سرگودھا ہائی کورٹ کے الگ بینچز کے قیام کا فیصلہ ہے تو ہم نے گورنر اور سینئر وزیر راجہ ریاض سے کہہ دیا ہے، وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ ان بینچز کی منظوری پنجاب کابینہ نے دینی ہے۔ جوں ہی پنجاب کابینہ اسے منظور کرے گی الگ بینچز کا قیام عمل میں آ جائے گا۔ اب گیند پنجاب حکومت کے کورٹ میں ہے۔

Oہم شہری: ملک میں ایک مرتبہ پھر جمہوریت اور پارلیمنٹ کی ناکامی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے یہاں تک کہہ دیا کہ مشرف آمریت موجودہ جمہوریت سے بہتر تھی۔ پنجاب کے اندر سرائیکی اور پوٹھوہار صوبے کی آواز اُٹھ رہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

بابر اعوان: جمہوریت اور پارلیمنٹ کی ناکامی کی باتیں وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے خیال میں یہ خناس بھرا ہوا تھا کہ 2008ء کے انتخابات کا وہ بائیکاٹ کر دیں گے تو عوام ووٹ نہیں دیں گے۔ نظام زیادہ دیر چل نہیں پائے گا لیکن 18ویں ترمیم کے پاس ہونے نے ان کی کئی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ 18ویں ترمیم کوئی عام ترمیم نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی ترمیم ہے جو 5 جولائی 1977ء سے پاکستانی سیاست کے غیر جمہوری، غیر انسانی، غیر مساوی نظام ہائے سماجی سیاست اور معاشی سیاست کے خاتمے کا اعلان کرتی ہے۔

اس نے صرف صدر اور وزیر اعظم کے اختیارات پر نظرثانی نہیں کی بلکہ اس نے دورِ آمریت کی تمام سیاسی، معاشی، قومیتی، نسلی، لسانی، مذہبی، صنفی ناانصافیوں کا ازالہ کیا ہے، اسی لیے تو اس ترمیم کے خلاف وہ لوگ سپریم کورٹ میں گئے ہیں جو جنرل ضیاالحق کے حقیقی اور معنوی بیٹے ہیں۔ یہ سب مل کر 18ویں ترمیم کا عدالتی قتل چاہتے ہیں اور عدالت کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر چلانے کے خواہاں ہیں۔ لیکن یہ سازش کامیاب نہیں ہو گی۔ جہاں تک پنجاب کی تقسیم کے مطالبات کا تعلق ہے تو میں آپ کو بتاؤں کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے ہم نے 28 سے زائد شعبے حکومت پنجاب سمیت دیگر صوبوں کو دیے ہیں۔ ہم نے این ایف سی ایوارڈ کا جو فارمولہ دیا اس کے تحت پنجاب کو جو رقوم ملی ہیں ان میں سب اضلاع اور تحصیلوں کا حصہ ہے۔ پنجاب حکومت اگر فنڈز کی تقسیم کا فارمولہ ضلع و تحصیل لیول پر آبادی، غربت، پسماندگی اور آمدنی کو بنائے تو میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب کی تقسیم کی آوازیں بند ہو جائیں گی۔ تخت لہور جب تک لاہور سے باہر مساوی بنیادوں پر فنڈز جاری نہیں کرے گا اور تحصیل لاہور کے برابر دیگر تحصیلوں کو فنڈز نہیں ملیں گے تو پھر تقسیم ہی کی آواز بلند ہو گی۔ مجھے تو ڈر ہے کہ لاہور کے، غریب اور نچلے متوسط طبقے کی آبادی والے علاقے ”شہزادوں“ کے محلات والے علاقوں سے الگ صوبے کا مطالبہ نہ کر دیں۔

بدانتظامی اور سیاسی انتقام کا حال یہ ہے کہ میں نے تین سال قبل اپنے گاؤں واقع یونین ڈھوک سہالاں میں 20 کنال زمین کا انتقال پنجاب حکومت کے نام کرایا۔ اس زمین پر ہسپتال کی عمارت تعمیر ہو گئی، مطلوبہ مشینری بھی آ گئی، لیکن تاحال یہاں ڈاکٹر تعینات نہیں ہونے دیا جا رہا۔ خادم اعلیٰ پنجاب مجھ سے دشمنی کی سزا میری یونین کونسل کے تمام لوگوں کو دے رہے ہیں۔ میں آپ کے رسالے کے ذریعے سے بھی ان سے کہتا ہوں کہ وہ میری دشمنی کی سزا میرے علاقے کے لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت سے محروم کر کے نہ دیں۔ این ایف سی ایوارڈ اور صوبائی خود مختاری کے بعد غربت، پسماندگی اور محرومی کی اصل جڑ کچھ علاقوں کا دوسرے علاقوں سے زیادہ فنڈز لے جانا ہے۔

]ہم شہری: حکومت ویج بورڈ ایوارڈ کب نافذ کرے گی؟

بابر اعوان: میں وہ وکیل ہوں جس نے ویج بورڈ ایوارڈ کے نفاذ کے لیے سپریم کورٹ میں صحافی کارکنوں کا مقدمہ پیش کیا۔ سندھ حکومت نے اس حوالے سے ایک ’سٹے‘ دیا ہوا ہے جس کو چھ ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ اس ’سٹے‘ کو ختم ہونا چاہیے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ اخباری کارکنوں کو جلد خوش خبری دے۔ بلکہ حکومت ریٹائرڈ اور بوڑھے ہو جانے والے صحافیوں کے لیے ای او بی آئی(ایمپلائز اولڈ ایچ بنفیٹس انسٹی ٹیوٹ) طرز کی سکیم لانے کا سوچ رہی ہے۔ جمہوریت پانچ سال کا سفر طے کرنے کے دوران اس ملک کے تمام مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کو قعرمذلت سے نکالے گی۔

ہم شہری: حکومت مستقبل قریب میں کون سے اہم اقدامات اٹھانے جارہی ہے؟

بابر اعوان:26 جولائی کو سینٹ کا اجلاس شروع ہورہا ہے جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ اور بے نظیر انکم سپورٹ ایکٹ منظور کیا جائے گا۔ ہم قومی اسمبلی اور سینٹ کے کل سیشن اجلاسوں کی تعداد میں اضافہ کرنے جارہے ہیں۔



تبصرہ