ناانصافیوں کا شکار جنوبی پنجاب مزید تباہ
عامر حسینی
1929ءکے بعد پہلی مرتبہ پاکستان کے اندراس قدر شدید بارشیں اور اس کے نتیجے میں اونچے درجے کے سیلاب آئے ہیں۔ خیبر پختونخوا، جنوبی پنجاب اور صوبہ سندھ بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے کوآرڈی نیٹر برائے ایمرجنسی ریلیف جان ہوم نے چند روز قبل سیلاب زدگان کی تعداد اندازا ایک کروڑ 30 لاکھ بتلائی تھی البتہ اب یہ انداز20 کروڑ سے زائد کا ہے۔
جنوبی پنجاب جو کہ ریاست کی غیر منصفانہ پالیسیوں، جاگیر دارانہ نظام کے سبب پہلے ہی پسماندہ علاقہ تھا، اس سیلاب سے بُری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ دریائے سندھ اور دریائے چناب اور اس سے ملحقہ نہروں سے شدید سیلاب آنے کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے 10 اضلاع بُری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں میانوالی، خوشاب، سرگودھا، لیہ، بھکر،مظفر گڑھ، ملتان، ڈی جی خان ، راجن پور، رحیم یار خان شامل ہیں۔ جنوبی پنجاب میں لاکھوں ایکڑ پر کھڑی کپاس کی فصل تباہ ہوگئی ہے، یہ تقریباً86 ارب روپے کا نقصان بتلایا جارہا ہے۔ جنوبی پنجاب میں ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ افراد کو عارضی رہائشی پناہ کی ضرورت ہے۔ جبکہ مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان میں وبائی امراض پھیلنے کی خبریں بھی مل رہی ہیں۔
جنوبی پنجاب میں جن اضلاع میں سیلاب آیا ہے ان کے اکثر علاقے وہ ہیں جو پہلے ہی انفراسٹرکچر کے اعتبار سے پسماندگی کا شکار تھے۔ ان اضلاع میں سڑکیں، سکول، کالجز، ہسپتال، پارک، مساجد، بازار تباہ ہوگئے ہیں۔ جبکہ دوسرا بڑا المیہ ہوا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے جنوبی پنجاب کے اندر پسماندگی ختم کرنے کے لیے تقریباً322 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے تھے، جن میں سے بعض پر کام کا آغاز، بعض درمیان میں اور بعض ختم ہونے کے قریب تھے۔ اب ان منصوبوں کی تکمیل کھٹائی میں پڑتی نظر آ رہی ہے۔ ان منصوبوں میں ہیڈ محمد والہ پل، نشتر گھاٹ پل کی تعمیر13 سالوں میں پہلی مرتبہ کرنے کا اعلان ہوا تھا۔ لیکن لیہ، ملتان، ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان میں سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے اس کے بعد یہ منصوبے مکمل ہوتے نظر نہیں آتے۔ نشتر گھاٹ پل کی تعمیر کا کام تو ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا۔
جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے پنجاب اور بلوچستان کو ملانے والی سڑک بری طرح سے تباہی کا شکار ہوئی ہے۔ جبکہ ملتان، ڈیرہ غازی خان روڈ بھی تباہ ہوا ہے۔ اس سے پورے پنجاب میں تیل، گیس، سبزیاں، فروٹ وغیرہ کی سپلائی کا نظام بھی متاثر ہوگیا ہے۔ محمود کوٹ میں آئل ریفائنری، لعل پیر تھرمل پاور پلانٹ اور قادر پور گیس فیلڈ کی بندش سے جنوبی پنجاب میں تیل، گیس کی قیمتوں میں اضافہ، قلت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ گزشتہ روز گھی کے کنستر میں یک دم100 روپے کلو اضافہ ہوگیا ہے۔ مہنگائی کا یہ ایک اور بم یہاں کے مظلوم اور پسے ہوئے لوگوں کو مزید مارنے کے مترادف ہے۔
جنوبی پنجاب میں انفراسٹرکچر کی تباہی کے بعد مرکزی حکومت اگر جنوبی پنجاب میں جاری وزیراعظم کے ترقیاتی پروگرام کو روکتی ہے تو اس کے بہت ہی بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسری طرف پنجاب حکومت جس کی مالی حالت پہلے ہی مخدوش تھی اور اس نے اس کے باوجود بجٹ میں جنوبی پنجاب میں54 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب اس اعلان کے پورا ہونے کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب تا حال” سستی روٹی سکیم“ جاری رکھے ہوئے ہیں حالانکہ پنجاب میں سیاسی، سماجی اور صحافتی حلقے ان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس سبسڈی کے لیے مختص رقم کو سیلاب ریلیف فنڈ کے لیے مختص کردیں، لیکن تاحال پنجاب حکومت کی طرف سے ایسا کوئی عندیہ ظاہر نہیں ہوا۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر گزشتہ دنوں جنوبی پنجاب کے سیلاب زدگان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لیے آئے۔ اس موقع پر انہوں نے جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور پھر ملتان پریس کلب میں بھرپور پریس کانفرنس کی۔انہوں نے بھی سستی روٹی سکیم ختم کرنے، نئی گاڑیوں کو فروخت کر کے رقم سیلاب ریلیف فنڈ میں جمع کرانے کا کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ 200 سے زائد ٹاسک فورسز کے چیئرمین فارغ کر کے ان کو دیا جانے والا مشاہرہ سیلاب زدگان ریلیف فنڈ میں جمع کرایا جائے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب جنہوں نے گزشتہ دو ہفتوں سے جنوبی پنجاب میں ڈیرہ ڈالا ہوا ہے اگرچہ مسلسل سیلاب زدہ علاقوں میں کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں لیکن ان کی موجودگی کے باوجود ریلیف کے کاموں میں مقامی نوکر شاہی کے کردار سے متاثرین مطمئن نہیں ہیں۔
سیلاب زدہ علاقوں میں بے گھر ہونے والے لوگوں کو خطرے کے علاقے سے نکالنے میں ضلعی انتظامیہ کی نااہلی بہت واضح ہو کر سامنے آئی۔ مظفر گڑھ، شاہ جمال، چاچڑاں، مٹھن کوٹ، کروڑ لعل عیسن، میاں والی، بھکر وغیرہ میں نقل مکانی کے دوران انتظامیہ 90 فیصد لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا نہ کر سکی، نہ ہی ان کے لیے پیشگی رہائش کا انتظام کیا جا سکا۔ اسی دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے پاس نہ تو تربیت یافتہ عملہ ہے اور نہ ہی آلات جبکہ صوبائی ڈی ایم اتھارٹی نے اب تک ضلعی سطح پر اتھارٹی قائم ہی نہیں کی۔ این ڈی ایم اے کی کارروائیاں قومی فلڈ ریلیف کمیشن کے ذریعے ہو رہی ہیں۔ 5 سال میں این ڈی ایم اے صوبائی اور ضلعی سطح پر فعال اداروں کی شکل اختیار نہیں کر سکی، حالانکہ اس ادارے کا سربراہ فوج کے سابق جرنیل کو یہ کہہ کر بنایا گیا تھا کہ وہ زیادہ تر بہتر طریقے سے اس ادارے کو منظم کر سکیں گے۔ چاروں صوبائی اتھارٹیوں میں بیٹھے لوگ خود تو پرآسائش رہائش گاہ، گاڑیوں اور بھاری مشاہروں سے مستفید ہو رہے ہیں لیکن ان کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔
قدرتی آفات کی قبل از وقت پیش گوئی کے حوالے سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ میٹریالوجیکل ڈیپارٹمنٹ نے این ڈی ایم اے، صوبائی حکومتوں اور ضلعی حکام کو جون میں بتلایا تھا (اس حوالے سے سپیشل وارننگ سمری جاری کی گئی تھی)۔ اس سال مون سون کی غیر معمولی بارشوں کا امکان ہے جس سے شمالی علاقہ جات، خیبر پختونخوا، جنوبی پنجاب، بلوچستان اور صوبہ سندھ میں شدید سیلاب آ سکتا ہے۔ لیکن اس خصوصی سمری کو نظرانداز کر دیا گیا جبکہ پنجاب حکومت نے بھی تمام ضلعی نوکر شاہی کو مراسلہ ارسال کیا تھا اور محکمہ اری گیشن کو خصوصی ہدایات جاری کیں تھیں کہ وہ کمزور بند مضبوط کرے۔ سیلاب آنے کی صورت میں ممکنہ متبادل حکمت عملی تیار کرے، لیکن اس حوالے سے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا گیا۔
جنوبی پنجاب میں سیلاب زدگان کی مدد اور بحالی کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومت میں ہم آہنگی کا سخت فقدان ہے۔ ابھی تک تو وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی کابینہ کو اکٹھا کر کے اجلاس نہیں کر سکے۔ پیپلز پارٹی سے جاری سرد جنگ کا اثر سیلاب زدگان کی مدد پر بھی پڑ رہا ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے الگ الگ دورے کیے۔ سیلاب بھی ان رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا نہیں کر سکا ہے۔ گورنر ہاؤس میں وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے ہنگامی پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ پنجاب پر سولو فلائٹ کرنے کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں شہباز شریف نے سیلاب زدگان کی مدد کے حوالے سے حکمت عملی طے کرنے کے لیے کابینہ کا اجلاس تک نہیں بلایا۔ سانحہ داتا دربار کے بعد ان کی یہی روش رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاق میں مسلم لیگ (نواز) کے قائد عدم تعاون کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں تو پنجاب میں ”چھوٹا میاں“ سویلین ڈکٹیٹر شپ قائم کیے ہوئے ہیں۔ اس طرح کی تنقید کا شاید اثر تھا کہ میاں محمد نواز شریف نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو فون کیا اور بعدازاں دونوں رہنماؤں میں ملاقات ہوئی۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان ہم آہنگی کے لیے وفاقی حکومت قومی کانفرنس بلانے کا عندیہ بھی دے رہی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بھی طلب کیا جا رہا ہے۔ عالمی برادری اور خود اندرون ملک ریلیف فنڈ کی اپیل پر ملا جلا رجحان ہے۔ اگر ملک بھر کی سیاسی قیادتیں اتحاد کا ثبوت دیں گی تو یہ رجحان مثبت رخ اختیار کر سکتا ہے۔
تبصرہ
امیل
نام
جگھ
No comments:
Post a Comment