Monday, May 4, 2015

ذوالفقار مرزا -زرداری ساگا ۔۔۔۔۔۔۔ سچائی کا سینڈروم


کبھی ہم تم بھی تھے آشنا
سندھ کے سابق وزیر داخلہ اور کسی زمانے میں آج کی پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کے سب سے گہرے دوست اور ہم راز زوالفقار مرزا جن رازوں سے پردہ اٹھارہے ہیں ، اس سے پاکستان کے سیاسی و صحافتی حلقوں کے ہاتھ ایک نیا موضوع ہاتھ لگ گیا ہے ، جس میں چٹخارہ بھی ہے اور بہت سی ناآسودہ خواہشات کی تسکین بھی ہے اور سوشل میڈیا پر تو اس حوالے نئے نئے چٹکلے چھوڑے جارہے ہیں لیکن مرے جیسے سیاست کے طالب علم کے لیے اس ساری قسط میں بہت سے اسباق پنہاں ہیں
میں نہ تو زوالفقار مرزا کے انکشافات پر اس کو پاکستان کی عوام کا محسن قرار دیتا ہوں اور نہ ہی میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی ، سندھ کے عوام کو استحصال سے نجات دلانے کے خواہش مند ہیں ، نہ ہی میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی کا جو سیاسی فلسفہ تھا کہ اسلام ہمارا دین سوشلزم ہماری معشیت طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں پر ان کا کوئی ایمان تھا بلکہ وہ تو 80ء کی آخری دھائی میں شہید بے نظیر بھٹو کی " عملیت پسندی " کی پالیسی سے متفق ہونے والوں میں شامل تھے اور اس " عملیت پسندی " سے وہ اس گندی پاور پالیٹکس تک پہنچے تھے جو پیپلزپارٹی کے اندر جہانگیر بدر ، رانا شوکت سمیت ان سب رہنماؤں نے متعارف کروائی تھی جو ضیاء الحق کے کیمپ کے سرمایہ دار سیاست دانوں کی دولت کی چمک سے متاثر ہوکر ان جیسے بننے کا نام نہاد عملیت پسند فلسفہ سامنے لیکر آئے تھے ابھی پچھلے دنوں " کلاسیک " کے مالک اور معروف پبلشر اور مصنف ، زوالفقار علی بھٹو کے رفیق آغا امیر حسین سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے بہت تفصیل سے پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاسی فلسفے کی تباہی اور 88ء سے لیکر 97ء تک ہونے والی بربادیوں کی داستان سنائی ، انھوں نے مجھے بتایا کہ کیسے 88ء میں پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کو چلانے کی زمہ داری ان کے کندھے پر ڈالی گئی اور کیسے پی پی پی پنجاب کے عہدے دار اس حوالے سے ملنے والے تمام عطیات کو کھا پی گئے اور آغا امیر حسین کو اس زمانے میں کئی لاکھ روپے کا مقروض کرادیا اور اس سلسلے میں جب انھوں نے بیگم نصرت بھٹو کو خط لکھا تو ان کی اس وقت کی پولیٹکل سیکرٹری رخسانہ بنگش نے ان کو کہا کہ بیگم بھٹو ان سے ملنا چاہتی تھیں اور جب آغا امیر حسین بیگم بھٹو سے ملنے پہنچے تو پہلے تو کہا گيا کہ بیگم نصرت بھٹو کی طبعیت ناساز ہے اور جب انھوں نے بہت اصرار کیا تو پھر ان سے ملاقات ہوئی تو بیگم نصرت بھٹو نے سارے معاملے سے اعلان لاتعلقی کیا اور آغا امیر حسین کو کہا کہ وہ پنجاب پیپلزپارٹی پر مقدمہ کردیں ، آغا امیر حسین نے ان سے کہا کہ پارٹی لیٹر پیڈ پر اپنے دسخطوں سے لکھ کر دیں ، انھوں نے اسے لکھ کردیا ، آغا امیر حسین اب اس لیٹر کے عکس کو اپنی آنے والی دھماکہ خیز سوانح عمری میں چھاپ رہے ہیں ، آغا امیر حسین کہتے ہیں کہ جب پی پی پی کی سنٹرل کمیٹی میں شہید بے نظیر بھٹو کی امریکہ نواز ، سرمایہ داری کی بدترین شکل نیولبرل ازم کی مخالفت بڑھنے لگی ، سنٹرل کمیٹی کے اکثر اراکین نے بے ںظیر بھٹو کو کہا کہ وہ سیاست میں اسٹبلشمنٹ کے طرز سیاست اور ضیاء الحقی سیاست کے ایمان " دولت ، طاقت ، دھونس " کے حصول کو عملیت پسند سیاست کا نام دینے والوں کا ساتھ نہ دیں تو انھوں نے سنٹرل کمیٹی کی میٹنگ میں " خصوصی مدعوین " کی بدعت کا سلسلہ شروع کیا اور یہ " شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار " سنٹرل کمیٹی کے ان اراکین کو بولنے ہی نہیں دیتے تھے جو پی پی پی کے سیاسی فلسفے سے انحراف اور کارکن دشمن پالیسوں کے مخالف تھے آغا امیر حسین کہنے لگے کہ
"گلزار ہاؤس میں ایک اجلاس کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو نے حاضرین اجلاس سے تجویز مانگی کہ پی پی پی کے اندر نئی روح کیسے پھونکی جاسکتی ہے تو سنٹرل کمیٹی کے کئی ایک انتہائی کمیٹڈ راکین نے ان کو مشورہ دیا کہ ایک تو پارٹی کے اندر صاف اور شفاف انتخابی جمہوریت کو متعارف کروایا جايا ، دوسرا کرپشن اور بدعنوانی کو سنگین ، ناقابل معافی جرم قرار دیا جائے ، جو وزیر ، عہدے دار اس کا مرتکب ہو اس پر پارٹی کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردئے جائیں ، یہ تجویز جوں ہی سامنے آئی تو جہانگیر بدر ، رانا شوکت سمیت پی پی پی کے کئی ایک بڑے بڑے نام تلملا اٹھے ، یہ سب وہ لوگ تھے جن کی نظریں اقتدار سے جڑے زاتی مفادات پر تھی اور وہ خوب مال بنانا چاہتے تھے ، ضیاء آلحق کی نرسری کے گملوں میں اگںے والے جعلی سیاست دانوں کے ٹھاٹھ دیکھ کر ان کی رال بری طرح ٹپک رہی تھی ، جہانگیر بدر نے کہا کہ بی بی ! ہمیں نواز شریف کی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے اراکین اسمبلی و ممبران سینٹ اور پارٹی عہدے داروں کو مالی طور پر مضبوط کرنا ہوگآ ، ان کی بھی ملیں ، کارخانے ، شوگر ملیں ہوں گی ، دولت ہوگی تو نواز شریف کی چمک کی سیاست کا مقابلہ کیا جاسکے گآ میں نے (آغا امیر حسین ) نے بی بی کو کہا کہ اگر آپ نواز شریف اینڈ کمپنی کے پیٹرن پر نواز شریف کا مقابلہ کرنے کی سوچ رہی ہیں تو بھول جائیں کہ پنجاب میں پی پی پی کی سیاست 70ء جیسی دھائی کا عروج دیکھے گی ، کیونکہ اینٹی بھٹو نواز شریف سیاست کے علمبرداروں کی جیبوں میں بیسیوں فیزبیلٹی پڑی ہوتی ہیں ، یہ نہیں تو وہ نہیں ، آپ کے وزیر کوئلے کی دلالی میں منہ کالا ہی کریں گے ، نواز شریف اور اس کے جملہ رفقاء کا کچھ نہیں بگڑے گا اور اس سے پی پی پی کی عوامی سیاست کا جنازہ بھی نکلے گآ لیکن بی بی اپنے وزیروں کی زیرے جتنی کرپشن کو نوآز شریف کی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے ناگزیر خیال کرنے لگ گئی تھیں " آغا امیر حسین کہتے ہیں کہ پی پی پی میں موقعہ پرست ، تمام بوالہوس بے نظیر بھٹو کے شوہر نامدار آصف علی زرداری کے گرد اکٹھے ہوگئے اور آصف علی زرداری پیپلزپارٹی کے لیے سرمایہ دار ، بزنس مین ، زر پرستوں کو تلاش کرنے میں لگ گئے ، ڈیرہ اسماعیل خان کے گلزار اینڈ کمپنی ان کی دریافت تھے اور ایک وقت وہ آیا جب پی پی پی کی سیاست جین مندر کے عوامی دفتر سے نکل کر گلزار پیلس میں مقید ہوگئی اور کمیشن ، ککس بیکس ، نوکریاں بیچنے ، پرمٹ ، ٹھیکے عجیب عجیب اسکینڈل نکل کر سامنے آئے ، بے ںظیر بھٹو کی جب 90ء میں حکومت کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کی گئی تو پارٹی کی سینٹرل کیمٹی کے اجلاس میں سنٹرل کیمٹی کے بعض درمند اراکین نے وزراء کی کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھائی تو بے ںظیر بھٹو نے کہا کہ نوآز شریف اور ان کے ساتھی اونٹ کے اونٹ کھاگئے کوئی شور نہیں مچا لیکن مرے وزراء کی زیرے جتنی کرپشن اسٹبلشمنٹ کو برداشت نہ ہوئی یہ تذکرہ بابائے سوشلزم شیخ رشید احمد نے اپنی سوانح عمری " جہد مسلسل " ميں جگہ جگہ کیا ہے ، اسی طرح کی داستان ہمیں " طاقت کا سراب " میں ڈاکٹر مبشر حسن کے ہاں نظر آتی ہے ، یہی تذکرہ " علی جعفر زیدی " ایڈیٹر ترجمان پی پی پی ہفت روزہ " نصرت " نے اپنی آب بیتی " باہر جنگل ، اندر آگ " میں کیا ہے
انھوں نے لکھا کہ 2007ء میں لندن میں سندھ کے ایک سیاست دان نے اپنے گھر ڈنر کا انتظام کیا ہوا تھا اور اس ڈنر ميں بے ںظیر بھٹو شہید بھی شریک تھیں ، وہیں پر ان کی ملاقات مخدوم امین فہیم سے ہوئی ، علی جعفر زیدی سے بہت عرصہ بعد ملاقات ہوئی تھی تو مخدوم امین فہیم اور علی جعفر زیدی کے درمیان پرانی یادوں کو تازہ کرنے کا تذکرہ چل پڑا اور بار بار " نصرت " اور اس کی ادارت کا زکر بھی آیا ۔ اس وقت ایک شخص مخدوم امین فہیم کا بریف کیس تھامے ان کے سامنے مودب ہوکر بیٹھا تھا ، اس کے بارے میں علی جعفر زیدی نے خیال کیا کہ یہ مخدوم کا کوئی سیکرٹری ہوگا ، مخدوم تھوڑی دیر کے لیے کمرے سے باہر گيا تو اس آدمی نے عللی جعفر زیدی سے سوال کیا " کیا آپ بیگم نصرت بھٹو کے ایڈیٹر تھے " علی جعفر زیدی کہتے ہیں مجھے پہلے تو کچھ سمجھ نہیں آیا جب بات سمجھ آئی تو ميں کف افسوس ملنے لگا کہ مخدوم امین فہیم کا سیکرٹری اس قدر جاہل ہے کہ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ایڈیٹر رسائل و اخبارات و میگزین کے ہوتے ہیں ، زندہ انسانوں کا کون ایڈیٹر ہوتا ہے ؟ اور پھر اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ " نصرت " نے پی پی پی کی تشکیل سے اس کی تہلی فتح تک کیا کردار ادا کیا تھا علی جعفر زیدی کہتے ہیں کہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ امین فہیم کا سیکرٹری نہیں بلکہ راجہ پرویز اشریف فور پی کے جنرل سیکرٹری تھے اور پی پی پی کے وزیراعظم بھی بنے وہ پاکستان پیپلزپارٹی جس کی قیادت ایک زمانے میں جے اے رحیم ، شیخ رشید ، ڈاکٹر مبشر حسن ، علی جعفر زیدی ، حسین نقی اور ان جیسے کئی اور ذھین و فطین اور اعلی دماغوں کے ہاتھ تھی ، اس کی میراث کیسے لوگوں کے ہاتھ لگی ، اس المیے پر جتنے بھی اشک بہالئے جائیں کم ہیں آصف علی زرداری کی شکل میں پیپلزپارٹی کی " عملیت پسندی " سیاست بدترین دیواليہ پن اور ان ساری بیماریوں سے لتھڑگئی جو پہلے کئی ایک خوبیوں اور کرداری خصوصیات کے ساتھ ساتھ موجود ضرور تھیں لیکن اب تو برائی ، برائی رہ گئی ہے ، پی پی پی کی سیاست کا قبلہ ضیاء الحق کی دھن دھونس اور موقعہ پرستی و زرپرستی کی سیاست رہ گئی ہے ، وہ سیاست جو پاکستان کی سنٹر رائٹ اور فار رائٹ سیاسی جماعتوں کا امتیازی نشان تھی ، اب پی پی پی کا بھی امتیازی نشان ہے زوالفقار مرزا نے جتنی بھی باتیں اور راز کھولے ہیں ان کا اعتبار اس لیے بھی کیا جارہا ہے کیونکہ وہ آصف علی زرداری کی جلوتوں اور خلوتوں کے شاہد ہیں اور انھوں نے لانڈھی جیل میں ، پمز میں آصف علی زرداری کی زندگی کے حفیہ گوشوں پر سے پردہ جو اٹھایا ہے اس کی صداقت کو کلی طور پر اگر تسلیم نہ بھی کیا جائے تو اس میں بہت ساری صداقت موجود ہے اور زوالفقار علی مرزا " آصف علی زرداری " کے خلاف " مارو یا مرجاؤ " مشن پر ہیں ، انھوں نے تو یہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ قبر ایک اور اس کے لیے نشانہ دو ہیں اب اس ميں یا ان کو جانا ہے یا ان کے سابق دوست آصف علی زرداری کو جانا ہے " ذوالفقار مرزا کہتے ہیں کہ انھوں نے جھوٹ بول کر آصف علی زرداری اور بے ںظیر بھٹو کی علیحدگی رکوائی تھی اور ان کا کہنا ہے کہ وہ آصف علی زرداری اور ان کے اردگرد سارے مالشیوں سے بہت اچھی طرح واقف ہیں اور فریال تالپور کے بارے ميں ان کا کہنا ہے پی پی پی کی تباہی کی زمہ دار یہ خاتون ہے زوالفقار مرزا کی اس بات میں کچھ سچائی اس لیے بھی ہے کہ پی پی پی کے کئی ایک مخلص ساتھیوں نے بیگم فریال ٹالپر کو مصدقہ اور ثبوت کے ساتھ پی پی پی کے کئی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے نواز شریف و شہباز شریف سے روابط اور آنے والا الیکشن مسلم لیگ نواز کے پلیٹ فارم سے لڑنے کے عزائم بارے خبردار کیا اور یہاں تک کہ ایک قومی اسمبلی کا رکن ایسا بھی تھا جس کو 2 ارب سے زیادہ ترقیاتی فنڈ دئے گئے اور اس کے ضلع کے تمام وفاقی محکموں پر اس کو کنٹرول دیا گيا جب وہ سرور چودھری کے زریعے رائے ونڈ جاتی امراء میں نواز شریف سے ملاقات کررہا تھا تو اس کی ملاقاتوں کا تصویری ثبوت فریال ٹالپر کو بھجوایا گیا ، ان میں سے کئی ایک ثبوت اس راقم نے اکٹھے کئے تھے تو فریال ٹالپر ، خورشید شاہ ، نذر گوندل ، رحمان ملک اس کی حمائت میں آگے آئے ، یہ سب لوگ وہ تھے جن کو اس رکن قومی اسمبلی نے جو جنوبی پنجاب کا ایک بڑا بزنس مین بھی تھا زیرو میٹر گاڑیوں کے تحفے دئے تھے اور اس کو کھاد بنانے کا ایک سرکاری کارخانہ کوڑیوں کے مول بیچ دیا گیا اور زرعی مداخل کی مد میں کرڑوں روپے کی سبسڈی بھی دی گئی اور جب وہ مسلم ليگ نواز کو پیارا ہوا تو اپنے ساتھ پی پی پی کے ایسے ایسے کارکنوں اور پی پی پی کی پوری تنظیم کو لے گیا جنھوں نے ضیآء کے پرآشوب دور میں بھی کوئی ہلکی حرکت نہیں کی تھی ، کیا کیا لکھا جائے ، پی پی پی کے وکلاء ونگ کا مرکزی جنرل سیکرٹری ایسے شخص کو بنایا گيا ہے جو افتخار چوہدری کے خاص مصاحبان میں شامل ہوتا ہے اور اس نے عاصمہ جہانگير کو ہروانے کے لیے ملتان میں پورا پورا کردار ادا کیا اور اس نے خانیوال میں پی پی پی کا یہ حال کیا کہ وہاں اب یہ وارڈ کونسلر کا الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور ایک زمانہ تھا کہ پی پی پی کے میڈیا ٹرائل کے عروج کے دنوں ميں یہ شخص مسٹر ٹین ، مسٹر ٹوئنٹی پرسنٹ کی گردان کرکے پی پی پی کی تباہی کے رونے روتا تھا اور " بھٹو کا یہ خودساختہ سپاہی " ایک زمانے ميں ملتان لاء کالج میں جبار مفتی صاحب کے ساتھ ایم ایس ایف کا امیدوار تھا ، آصف علی زرداری کی دوستی کا شرف ہر اس آدمی کو حاصل ہوا جس نے پی پی پی کے سیاسی فلسفے کو پیروں تلے روندنے میں کوئی شرم ، حیاء محسوس نہ کی اور دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کو اپنی سیاسی بصیرت قرار دینے پر اصرار کیا ، آصف علی زرداری کا انتخاب پنجاب میں مںظور وٹو ، سرائیکی وسیب میں مخدوم احمد محمود جیسے لوگ ہیں اور پی پی پی کی جسے ورکرز قیادت کہا جاتا ہے اور نائب صدر میاں چنوں کا ایسا مخدوم زادہ ہے جس کو پی پی پی کے غریب ورکرز کیڑے مکوڑے لگتے ہیں اور پی پی پی پنجاب کا جنرل سیکرٹری اشرف کائرہ ںذیر قیصر کے بیٹے جنید قیصر کے سوشل میڈیا لاہور کا انچارج بننے پر کہتا ہے " ایہہ کیہڑا چوڑھا ساڈھے تے مسلط کیتا اے ، اس سوچ کے مالک کو بھلا شہباز بھٹی کی قربانی سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے (جہانگیر بدر سے لیکر قمرالزمان کائرہ تک اور وہاں سے پی پی پی جنوبی پنجاب کے دیہاڑی باز اور جھوٹ و مکاری کے فن میں یکتا نام نہاد ورکر عہدے داروں تک سب کا " کمال سیاست " " بھاگ لگے رہن بادشاہیاں قیم رہن " کے وظیفے کی گردان ہے اور جب کبھی ان میں کسی ایک کی آنکھ لگے اور اس کو بھٹ سے باہر پھینک دیا جائے تو اسے زوالفقار مرزا کی طرح سچ کی الٹیاں ہونے لگتی ہیں ۔ ایسی الٹیاں آج کل سرائيکی وسیب کے لیہ سے تعلق رکھنے والے تحقیقی صحافت کے عظیم علمبردار صحافی کو لگی ہیں لیکن یہ سچ کی الٹیاں اسے بھی اسی لیے لگیں کہ اب وہ " مصاحب شہ " نہیں رہا ،کہا جاتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی جب اسپیکر قومی اسمبلی تھے تو اس کی پرائمری اسکول میں پڑھانے والی اہلیہ کو آؤٹ وے جاکر بیوروکریٹ بنایا گیا تھا اور اس کی بستی کو کڑورں روپے کی مالیت کے ترقیاتی گرانٹس بھی جاری کی گئیں ، مجھے اس پر کوئی اعتراض اس لیے نہیں ہے کہ یہ الزامات تو اس صحافی کا قد اور بڑا کرتے ہیں کہ ایک تو میں زاتی طور پر جانتا ہوں کہ اس کی اہلیہ کس قدر قابل اور ذھین فطین تھی جسے ایم اے انگریزی کرنے کے باوجود حکومت ایک پرائمری اسکول کی جاب ہی آفر کرسکی اور پھر اس صحافی نے اپنی بستی کو گیس ، پکّی سڑکیں ، سیوریج اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے دلوادیا تو اس میں برائی کیا ہے ، اصل معاملہ یہ ہے کہ دیکھنا یہ چاہئیے کہ یہ دیکھا کہ ہسڑیائی یا مالیخولیائی طرز کی حالت میں " سچ بولنے " کا یہ عمل شروع کب ہوا ، مجھے اس صحافی نے ایک ملاقات میں اسلام آباد میں خود بتایا تھا کہ " ایوان صدر میں روزانہ کی بنیاد پر زرداری یاترا کے دوران کس موڑ پر زرداری کی جانب سے ان کی بڑی اناؤں کو ٹھیس پہنچانے اور ان کو آئینہ دکھانے پر "ٹٹ گئی تڑک کرکے " والا معاملہ ہوگیا اور پھر سلمان فاروقی کی سفارش بھی زرداری یاتراء بحال نہ ہوئی تو ان کی حکومت کو روز رات کو خواب میں گرانے کا سلسلہ شروع ہوگیا " وہ سٹوری میں نے لاہور سے شایع ہونے والے ایک ہفت روزہ " ہم شہری " میں پوری تفصیل کے ساتھ شایع کی تھی تو یہ قربت زرداری سے سرفرازی میں روکاوٹ پیدا ہونے پر پیدا ہونے والی ہسٹریائی کیفیت ہے جس کا شکار ذوالفقار مرزا بھی ہیں اور کئی ایک اور لوگوں کی بھی یہی حالت ہوئی ہے ، اس دوران یہ سب اپنے آپ کو " زیوس " دیوتا ثابت کرنے کی جو کوشش کررہے ہیں وہ سٹیج پر کھیلے جانے والی ایک تھرڈ کلاس کامیڈی / طربیہ کے سواء کچھ نہيں ہے ہم نے یہ تھرڈ کلاس طربیہ ڈرامے جس میں انتہائی جنون کے ساتھ " سچ اور احتساب " کے علمبردار جوکر سٹیج پر اداکاری کرتے دیکھے ہیں ، بریگیڈیر امتیاز عرف بلاّ کا سچ ، اس سے بہت پہلے ایف ایس ایف سربراہ مسعود کا سچ ، پھر سندھ کے قصائی " جام صادق " کے سچ ، لاڑکانہ میں عین بھٹو کی لاش کے دفنانے سے پہلے " اقتدار کے خواب دیکھنے والا " بھٹو کا ٹیلنٹڈ کزن کے سچ ، نواز شریف کے خلاف ظیارہ ہائی جیکنگ کیس کیس میں مدعہ معاف گواہوں کے " سچ " سابق ایس پی راؤ انوار کا " الطاف حسین " کے خلاف " سچ " اور صولت مرزا ، جاوید لنگڑا اور کسی لمبے ومبے کا "سچ " یہ سارے " سچ " اسی مالخولیائی کیفیت میں بولے جانے والے سچ ہیں جس میں کہیں کہیں ہمیں " فرشتوں کا ہاتھ بھی ان "سچائیوں " کی فریمینگ اور فریزنگ میں نظر آتا ہے ۔ یہ ایسے ہی سچ ہیں جیسے قدرت اللہ شہاب نے " شہاب نامہ " اور الطاف گوہر نے " لکھتے رہے جنوں کی حکائت " میں رقم گئے تھے اور اپنے آپ کو خود آپ ہی مدعی ، منصف بنکر رہا کروالیا تھا اور اپنے معتوبین کے سنگساری کی سزا تجویز کی تھی ، مجھے ضیاء الحق کے زمانے میں ایک پنجابی فلم کا انتہائی مقبول ہونے والے گیت کے اولین بول یاد آرہے ہیں ، غالبا گیت فلمسٹار انجمن پر فلمایا گیا تھا
ایتھے اسی نی خراب ایتھے سارے نے جناب جدوں ہووئے گا حساب ادوں ویکھ لیواں گے آصف علی زرداری نے اس ساری صورت حال پر کہا تھا دیکھا جو تیر کھاکے کمین گاہ کی طرف اپنے ہی دوست سے ملاقات ہوگئی لیکن لگتا ہے " از خود ترحم آمیزی اور خود ترسی " کی جو حالت وہ پیدا کرنا چاہتے تھے وہ پیدا نہ ہوسکی تو میدان میں شرمیلا فاروقی ، شہلا رضا کو اتارا لیکن شرمیلا تو بہت کمزور ستون تھا ، زوالفقار مرزا کی زبان ہے کہ اس نے رکنے کی بجائے اور تیز چلنا شروع کردیا اور کئی اور راز اس مالخولیائی حالت میں طشت از بام ہوگیا ذوالفقار مرزا سندھ کے کوئی "کمّی " " ہاری " جو کوئی کمزور پس منظر جیسے ديگ پکائی کا کام کرنے والے کسی کامے کے بیٹے تو نہیں ہیں اور نہ ہی وہ " مڈل کلاسیے " ہیں جو بقول مارکس دیکھتے آسمان کی طرف اور پاؤں کیچڑ میں دھنسائے ہوتے ہیں ، یہی وجہ ہے ان کے خلاف پولیس کا ہتھیار استعمال کرنے کا الٹا نقصان ہورہا ہے وہ سیالکوٹ کے " ملک سلمان " بھی نہیں ہیں جنھوں نے بھٹو صاحب کو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سنبھالے رکھنے کی پی پی پی کی قرارداد پر دستخط نہ کئے اور یوں تین ارکان کے دستخط کے بغیر یہ قرارداد اسمبلی سے منظور ہوئی تو بھٹو صاحب سے سیاسی پینترہ بدلا اور سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا لیکن اجلاس ختم ہونے کے بعد جب وہ اسمبلی سے باہر آرہے تھے تو انھوں نے دستخط نہ کرنے والے ملک سلمان سے ٹاکرا ہونے پر کہا " اوئے بہن ۔۔۔۔۔۔۔ تیری اوقات کیا ہے تو پولیس کے ایک ایس ایچ او کی مار ہے " بھٹو صاحب نے حمید جتوئی کو تو معاف کردیا کیونکہ وہ ایک سندھ کا بڑا وڈیرہ تھا اور محمود قصوری کی وکالت ان کو بچاگئی لیکن سلمان اور اس کے گھر والوں کے ساتھ ایف ایس ایف اور پولیس نے جو کیا وہ بہت شرمناک تھا ، زرداری ذوالفقار مرزا کو سبق سکھانے کے لیے بہت سے داؤ استعمال کرنے والے ہیں لیکن ان کو شاید پی پی پی کی تاریخ کے ایسے لمحات میں رونما ہونے والے واقعات اور ان کے نتائج و عواقب کا اندازہ نہیں ہے ، مرا مشورہ ہے کہ دل پر جبر کرکے ان کو حیات اللہ خان نیازی المعروف کوثر نیازی کی " اور لائن کٹ گئی " رفیع رضا کی کتاب " این انکوائری آف ہسٹری آف پی پی پی " ڈاکٹر مبشر کی " طاقت کا سراب " علی جعفر زیدی کی " باہر جنگل ، اندر آگ " اور خود ذوالفقار علی بھٹو کی " اگر مجھے قتل کیا گیا " پڑھ لینی چاہئیے اور ان کو شیرباز مزاری کی آٹوبائیوگرافی پڑھ لینی چاہئیے تاکہ ان کو پتہ چلے کہ جس " کاریگری " اور چالاکی " کو انھوں نے سیاست ميں کامیابی کی کنجی قرار دیا وہ کتنی ناپائیدار ثابت ہوئی اور کس قدر بیگانگی " مخلص " جانثاروں میں پیدا ہوئی ۔ پی پی پی کے سیاسی فلسفے کی اس کے لیڈروں کے ہاتھوں پامالی اور نسیا منسیا کردینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگ ایک کرکٹ کے کھلاڑی ، جوانی میں پلے بوائے کی شہرت رکھنے والے اور حال میں مسٹر طالبان خان کے لقب سے ملقب ہونے ایک شخص کو اعتبار بخشنے لگی ہے ، اب اس سے زیادہ اور کیا لکھوں کیوں جس قدر پردے اٹھیں گے ، پیٹ اپنا ہی ننگا ہوگا ، اس سے کسی بے شرم کو شرم تو آنے سے رہی ، ویسے بھی اب تو اس فقرے کو بھی ان لوگوں نے اچک لیا جن کا اپنا اعتبار مشکوک ہے مطلب یہ کہ " کوئی شرم ہونی چاہئیے ، کوئی حیاء ہونی چاہئیے " کس منہ سے یہ فقرہ کہوں سمجھ سے بالاتر ہے ، مجھے تو یہ کالم لکھتے ہوئے جہاں خون جگر میں انگلیاں ڈبونا پڑیں ، وہیں متاع دل و جاں لٹنے کا احساس مارڈالتا رہا ، اس دوران مجھے گڑھی خدا بخش میں دفن لاشوں کی پرچھائیں بھی دکھائی دیتی رہیں ، وہ کچھ بولتی تو نہیں تھیں لیکن لگتا ایسے تھا کہ اپنی قبروں پر آنے والے غریب ہاری ، کسان ، مزدور ، طالب علموں ، اقلیتوں کے نمائندوں سے شرمسار دکھائی دیتی تھیں جو ان کو اپنا چارہ ساز ، غمگسار ، مسیحا اپنی زندگی ميں سمجھتے رہے اور جب یہ سمجھوتوں کے باوجود شہید کردئے گئے تو ٹپکتی چھتوں والے غریبوں ، دیہات کے کسانوں ، ہاریوں ، غریبوں ، کمیوں نے ان کو " ولائت اصغر " پر فائز کرڈالا اور اب اپنے ہاں " اولاد " ہونے ، اپنی کنواری بیٹیوں کی شادی بالوں ميں چاندنی اترنے سے پہلے ان کے ہاتھ پیلے کرنے ، بیماروں کی شفا کے لیے ان کی قبروں پر آکر منتیں مانتے اور چڑھاوے جڑھاتے ہیں ، قائد عوام اب " ولی عصر ، مستجاب الدعوات " ہے اور مشرق کی بیٹی ، چاروں صوبوں کی زنجیر اب " شہید رانی " ہے "سندھ جو شہید رانی " ہے جبکہ حبیب جالب ابتک عالم برزخ میں یہ پڑھتے ہیں دن پھرے ہیں وقت وزیروں کے "

No comments:

Post a Comment