Thursday, March 19, 2015

صولت ویڈیو بیان ۔۔۔۔۔۔۔۔ پرانے شکاریوں کا نیا جال


صولت مرزا کا مچھ جیل سے ویڈیو بیان بقول مرے دوست نور درویش کے ہندی فلموں میں اکثر آخری لمحات میں ڈرامائی سین کی طرح سے تھا جس میں فلم کا ولن اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے اور اپنے ضمیر کے بوجھ تلے آکر " عظیم انکشافات پر مبنی " سچ بول جاتاہے اور سینما میں فلم بین جو تھوڑی دیر پہلے اس ولن کو کوسنے دے رہے ہوتے ہیں اور اس کے لیے دل میں سخت نفرت محسوس کررہے ہوتے ہیں ولن کو بے اختیار داد تحسین دیتے نظر آتے ہیں ، تالیاں پیٹتے ہیں اور اسے ھیرو بنالیتے ہیں ، کچھ ایسا ہی سماں صولت مرزا کے ویڈیو بیان کے بعد پیدا ہوا ، 22 سال بعد صولت مرزا کا ضمیر جاگ گیا جو عدالتوں میں اس کے کیس کی سماعت کے دوران مسلسل سویا رہا تھا اور وہ لوگ جو لشکر جھنگوی کے دھشت گردوں کی پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد کے وقت بار بار صولت ، صولت کررہے تھے وہ اچانک صولت کی پھانسی روکے جانے کے عمل کی تحسین کرنے لگے اور صولت مرزا کے ویڈیو بیان سے پہلے رینجر کے نائن زیرو پر ڈرامائی چھاپے کے وقت سے الطاف حسین سے جان چھڑانے کا راگ جو بلند آہنگ سے الاپا جارہا تھا جس میں عمران خان کی آواز سب سے زیادہ بلند تھی اس میں مزید شدت آگئی اور ہمیں ایسا لگنے لگا کہ جیسے اس ملک میں تحریک طالبان سمیت تکفیری دھشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں جو 45 ہزار صوفی سنّی ، 22 ہزار اہل تشیع اور کئی سو کرسچن ، احمدی مارے گئے اور پاکستانی فوج کے تین ہزار سے زیادہ فوجی ٹی ٹی پی ، انصار الاسلام سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے وہ سب کے سب الطاف حسین کی ٹیلی فونک ہدایات یا بابر غوری کے گھر سے جاری ہدایات کے نتیجے میں اپنی جانوں سے گئے کئی ایک صاحبان بہت دور کی کوڑی لائے ، انھوں نے ایم کیو ایم کو ہٹلر کی نازی پارٹی سے تشبیہ دے ڈالی اور اس کو نیست و نابود کرنے کو جمہوریت کا پہلا فریضہ قرار دیا ، ایم کیو ایم جس کے سندھ اسمبلی میں 50 اراکین اسمبلی ، قومی اسمبلی میں 26 نمائندے اور سینٹ میں نو اراکین موجود ہیں اس کی سیاسی شناخت اور وجود کو ہی ایک طرح سے دھندلانے کی کوشش کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ سندھ کے شہری آبادی کے لوگوں کی نمائندگی کا الطاف حسین کوئی حق نہیں پہنچتا ، گویا یہ حق اسے حاصل ہوگا جسے نادیدہ فرشتے کلین چٹ دیں گے اسٹبلشمنٹ میں مہم جوئی کے خوگر لوگوں کی جانب سے یہ کوئی انوکھا ڈرامہ پلے نہیں ہوا ہے جس پر حیرانگی کا اظہار کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ کسی سیاسی شخصیت کو پہلی مرتبہ ایک بدمعاش کے روپ میں پیش کیا جانے کا پاکستان کی تاریخ کا یہ کوئی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے ، اگرچہ پاکستان کے مین سٹریم میڈیا پر بیٹھے جعلی تجزیہ کاروں اور نادیدہ فرشتوں کی ڈگڈگی پر ناچنے والے سیاپا فروشوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے ڈراموں کی تاریخ کی جانب کسی کو توجہ دلانے کی اجازت ہی نہيں دی ، لیکن اس سے تاریخ کی سچائی کو دفن نہیں کیا جاسکتا ہمیں یاد ہے کہ پاکستان کے اندر 21 فروری 1948 ء کو ڈھاکہ میں بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے کا مطالبہ کرنے والوں کو خون ميں نہلایا گیا اور پھر اس تحریک کو بھارت کی سازش سے تعبیر کیا گیا اور پاکستان کے اس وقت کے مین سٹریم میڈیا ميں سنسر کے بل بوتے پر سچ کو چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی ، محض تین سال بعد " راولپنڈی سازش کیس " بنایا گیا اور اس میں اس ملک کے مایہ ناز شاعر ، ادیب ، دانش ور ، ٹریڈ یونین ورکرز ، طلباء اور سیاسی کارکن جیلوں ميں ڈال دئے گئے ، بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا اور ان کو مونسٹر ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا ، اس کے بعد باچا خان کو غدار ثابت کرنے کے لیے کیا کچھ نہيں کیا گیا ، فروری 1966ء میں جب زوالفقار علی بھٹو نے ایوب کابینہ سے استعفی دیا تو 69ء تک زوالفقار علی بھٹو کو ہندوستانی شہری ، غدار ، امریکی ایجنٹ کیا کچھ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی رہی اور جب شیخ مجیب الرحمان نے بنگالیوں کی سیاسی ، ثقافتی ، معاشی خودمختاری پر مبنی 6 نکات پیش کئے تو شیخ مجیب الرحمان کے خلاف بھی ایسی مہم چلی اور اگرتلہ سازش کیس سامنے آگیا اور 70ء میں جب عوامی لیگ تمام تر سازشوں کے باوجود مشرقی پاکستان کی اکثریتی پارٹی بن گئی تو ساری قوت عوامی ليگ کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے لگائی گئی اور جب شیخ مجیب نے اقتدار پر اصرار کیا اور 6 نکات سے دست بردار نہ ہوئے تو پھر ریاستی مشینری اور دھشت گرد گروپ ( الشمس و البدر ) کے ساتھ ان کو کچلنے کی کوشش ہوئی ، یہ وہ زمانہ تھا جب مغربی پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی زوالفقار علی بھٹو اس وقت اسٹبلشمنٹ کی عقابی لابی کی باتون ميں آگئے اور انھوں نے شیخ مجیب سے سیاسی تصفیہ کرنے کی بجائے شیخ مجبیب سے نجات حاصل کرنے اور عوامی ليگ کو ختم کرنے کا منصوبہ تشکیل دینے والے مہم جوؤں کا ساتھ دیا اور پھر پاکستان ٹوٹ جانے کے بعد انھوں نے 74ء میں بلوجستان اور صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی کو ختم کرنے کے اسٹبلشمنٹ ابیجنڈے کو اپنالیا اور اس چکر میں خود کال کوٹھڑی تک پہنچ گئے، اگر ذوالفقار علی بھٹو شیخ مجیب کے ساتھ سیاسی تصفیہ کرلیتے اور مغربی پاکستان کی حکمران کلاس کے مفادات کی قربانی دیے دیتے تو آج پاکستان کی سیاسی تاریخ کا نقشہ بدل جاتا یہ غلطی نواز شریف نے بھی کی کہ انھوں نے 90ء کی دھائی میں پی پی پی کو دیوار سے لگانے اور بے ںظیر ، الطاف حسین سے نجات کی کوششیں کیں اور خود اٹک قلعے کی جیل تک پہنچ گئے تھے ، وہ اس کے بعد بھی کئی مرتبہ اپنی سیاسی نابالغی کا ثبوت پیش کرتے رہے ، میمو گیٹ سیکنڈل میں وہ سپریم کورٹ چلے گئے تھے میں سمجھتا ہوں کہ پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے صولت مرزا ایپی سوڈ کے موقعہ پر سب سے زیادہ سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کی جانب سے یہ مظاہرہ چوتھی مرتبہ ہوا ہے ، پہلی مرتبہ اس وقت جب اسٹبلشمنٹ نے ذوالفقار مرزا کا کندھا استعمال کیا اور ایم کیو ایم کو نشانے پر رکھا ، دوسری مرتبہ اس وقت جب بلاول زرداری نے جوش خطابت میں الطاف کو انکل کہنے کے باوجود ان سے سلطان راہی کی طرح خطاب کیا ، تیسری مرتبہ اس وقت جب نائن زیرو پر رینجر کا چھاپہ پڑا اور چوتھی مرتبہ اب جب صولت مرزا کی ویڈیو سامنے آئی تو آصف علی زرداری نے مشکل وقت میں ایم کیو ایم کے سیاسی وجود کو مانا اور ان کو سندھ میں شرکت اقتدار کی پیشکش کردی کیونکہ آصف علی زرداری کو بخوبی یاد ہے کہ پی پی پی کے پانچ سالہ دور حکومت میں جب اسٹبلشمنٹ کے اندر بیٹھی ضیاءالحق کی باقیات نے پی پی پی کو مونسٹر بنانے کی کوشش کی اور کیری لوگر بل سے لیکر بلیک واٹر کے آنے ، امریکی سفارت خانے کی توسیع کی کہانیوں سے لیکر میمو گیٹ تک یہ ایم کیو ایم کے الطاف حسین تھے جنھوں نے کراچی کی سڑکوں پر آصف علی زرداری کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا تھا اور جب زوالفقارمرزا نے سندھ کو نئے سندھیوں اور پرانے سندھیوں کو واپس 80 ء کے عشرے مين لیجانے کی کوشش کی اور اس کے پیچھے طاقتوں کی جانب زرداری نے کئی مرتبہ اشارہ بھی کیا تو یہ الطاف حسین تھے جنھوں نے معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لیجانے سے روکا اور اب بھی اس انتہائی مشتعل صورت حال میں بھی الطاف حسین نے حالہ واقعات کا الزام پی پی پی اور زرداری پر نہين رکھا الطاف حسین سے اسٹبلشمنٹ کے عقابوں کی ناراضگی کی وجوہات سمجھ میں آنے والی ہیں ، وہ ایک طرف تو سندھ کے شہری علاقوں ميں تزویراتی گہرائی کے علمبرداروں کے خامیوں ، طالبانائزیشن کے پھیلاؤ ، شیعہ و صوفی سنّی نسل کشی کے مزموم ایجنڈے کے خلاف سب سے بڑی مزاحم فورس بنکر ابھرے ہیں حال ہی میں خرم حسین نے انگریزی معاصر روزنامہ ڈان ميں ایک آرٹیکل " کراچی کے ڈریگن " لکھا ہے ، اس میں انھوں نے اعداد و شمار کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ کیسے ایم کیو ایم نے پی ایس 28 جس میں وہ سارے علاقے شامل ہیں جہاں طالبان ، جند اللہ ، لشکر جھنگوی اور ان کے سہولت کاروں اور حامیوں کی محفوظ پناہ گاہيں سے صرف 900 ووٹوں کی اکثریت سے الیکشن جیتا تھا اور وہاں سے ایک تکفیری ، کالعدم تںظیم کے سربراہ کو ہرایا تھا ، خرم کہتے ہیں کہ کراچی ميں پرتشدد سیاست کے خاتمے کے نام پر ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے سے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے اس کی ایک علاقت پی ایس 28 (سندھ اسمبلی کا حلقہ ) کے انتخابی نتائج ہیں ، یہ وہ علاقہ بھی ہے جہاں پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی پلانٹس بھی ہیں جس طرح سے سندھ اور کراچی میں موجود دھشت گردی کو بس ایم کیو ایم سے نتھی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور پی پی پی کی جانب سے اس مہم سے پرے رہنے کے فیصلے کے بعد عزیر بلوچ کی جو ويڈیو سامنے آئی ہے اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی کے آپریشنوں کی طرح کراچی ميں اس مرتبہ آپریشن بھی سیاسی مہم جوئی اور ایڈونچر کا شکار ہوچکا ہے ، کیونکہ غیرجانبدار حلقے یہ سوال بھی اٹھارہے ہیں کہ اگر وفاقی وزیر داخلہ اور رینجرز حکام واقعی انٹیلی جنس ایجنس ایجنسیوں کی رپورٹس پر ہر طرح کی دھشت گردی ، لاقانونیت کو جڑ سے اکھاڑنے میں سنجیدہ ہیں تو پھر مولوی عبدالعزیز ، اورنگ زیب فاروقی کے سمیت دھشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف جو مصرقہ انٹیلی جنس رپورٹس موجود ہیں ان پر کاروائی کیوں نہیں کی جارہی ؟ جس انٹیلی جنس ایجنیسی (آئی بی ) کی رپورٹ پر نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا ، اسی ایجنسی کی ایک رپورٹ جو وزیراعظم ہاؤس ، وفاقی وزیر داخلہ ، پنجاب اور سندھ کے ہوم ڈیپارٹمنٹس ، رینجررز کے کراچی ہیڈکوارٹر کو موصول ہوئی جس میں کراچی میں 41 اور صوبہ پنجاب میں 124 مراکز کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ وہ لشکر جھنگوی کو مالی ، لاجسٹک اور افرادی قوت مہیا کررہے ہیں اور یہ مراکز کن کے ہیں ان کے نام بھی اس رپورٹ میں درج ہیں ، کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ اس ملک میں اسٹبلشمنٹ کے اندر ایسی لابی موجود ہے جو آپریشن ضرب عضب کو انڈرمائن کرنا چاہتی ہے اور چیف آف آرمی سٹاف راحیل شریف کی محنت پر پانی پھیرنے کی کوشش کررہی ہے؟ کیا اس سے ہم یہ تاثر لیں کہ اس ملک میں 45000 ہزار صوفی سنّیوں ، 22 ہزار شیعہ ، 7000 دیوبندی سمیت دیگر لوگوں کی جانوں سے کھیلنے والے دھشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن کوئی معنی نہیں رکھتا ؟ لوگ یہ بھی سوال کررہے ہیں کہ حکومت ابتک نیکٹا کی کالعدم تںظیموں کی پبلک کیوں نہیں کررہی ؟ کیا اس لیے کہ اس میں ایسے نام بھی ہیں جو وفاقی اور پنجاب حکومت کے اتحادی ہیں اور نادیدہ فرشتوں کو وہ اپنا تزویراتی اثاثہ لگتے ہیں کراچی میں ایم کیو ایم اردو بولنے والی آبادی کی نمائندہ سیاسی جماعت ہے اور اس کا قائد الطاف حسین ہے ، اس حقیقت کو مصنوعی طریقے سے بدلنا اور مہم جوئی کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے ، اسٹبلشمنٹ اس سے پہلے نواز شریف کو پنجابیوں کا شیخ مجیب ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو سندھیوں کا شیخ مجیب بنانے کی اپنی کوشش میں اس لیے نکام رہی ہے کہ ان رہنماؤں نے انتہا کا راستہ اختیار نہیں کیا ،، کیوں کہ ان کے پاس پھر بھی چوائس موجود تھی لیکن الطاف حسین کے شیخ مجیب بننے کے خطرات بہت زیادہ ہیں ، اس لیے اس پارٹی کو اندر سے توڑنے اور اس کی قیادت مہم جوئی کے زریعے سے لانے کی کوشش انتہائی خطرناک ثابت ہوگی ، یہاں ایک اور بات بھی غور طلب ہے کہ عشرت العباد نے آصف زرداری کو ہی اپنے مستعفی ہونے بارے پیشکش کی حالانکہ یہ بات تو ان کو نواز شریف کے سامنے رکھنی چاہئیے تھی ، اس سے یہ کاشن دیا گیا کہ ایم کیو ایم اگر مین سٹریم سیاست سے الگ راستہ اختیار کرے گی تو اس وقت جب دیہی سندھ کی سب سے بڑی پارٹی پیپلزپارٹی اسے سرخ جھنڈی دکھائے گی