مجھے زرا خبر دیر سے ہوئی کہ پروفیسر رفیع اللہ شہاب کے بیٹے اور ماہنامہ نیا زمانہ لاہور کے ایڈیٹر شعیب عادل پر توھین مذھب کا الزام لگا ہے اور ان کو مذھبی بنیاد پرستوں کے جنونی عتاب اور غصّے سے بچنے کے لیے ایک تو اپنے رسالے کو بند کرنا پڑا اور ساتھ ہی ان کو لاہور شہر سے فرار ہوکر روپوشی کی زندگی بھی گزارانا پڑ رہی ہے
میرے پاس شعیب عادل کا جو فون نمبر ہے وہ بھی بند جارہا ہے اور ان کی کوئی خیر خبر موصول نہیں ہورہی اور ان کے بارے میں ایک انگریزی آرٹیکل بی بی سی سے وابستہ قلم کار محمد حنیف نے بی بی سی میگزین میں لکھا ہے جس کے آخر میں شیعب عادل نے بقول محمد حنیف سے درخواست کی کہ اس کو انگریزی میں شایع کریں کیونکہ اردو میں چھپا تو پھر ان سے ناراض مذھبی جنونی مزید ناراض ہوجائیں گے
شعیب عادل کے والد پروفیسر رفیع اللہ شہاب جماعت اسلامی اور سید مودودی سے ہوتے ہوئے اسلامی سوشلزم اور اسلامی فیمنزم و روشن خیال و عقلیت پسند مذھبیت کے داعی ہوئے تھے
میں نے ان کی بہت سے کتابیں اور آرٹیکل پڑھے جو دی نیشن میں ہر ہفتے شایع ہوا کرتے تھے اور پروفیسر رفیع اللہ شہاب کی عقلیت پسندی ،خرد افروزی شیعب عادل کے اندر بھی آئی اور جب وہ ایک کارخانے کی ملازمت سے مستعفی ہوکر آئے تو انھوں نے دوست ایسوسی ایٹس کے نام سے اسلامی روشن خیالی ،لبرل ازم ،اسلامی تعقل پسندی کی روایت کو روشن کرنے والی کتب شایع کرنا شروع کردی
مجھے اگرچہ پروفيسر رفیع اللہ شہاب سمیت بہت سے اس دور کے تعقل پسندوں کے روایت اور تاریخ اسلام کے بارے میں قائم کئے گئے پروفیسر امین ،پرویز اور گولڈ زیہرمان سمیت بہت سے مستشرقین کے قائم کردہ مقدمات سے اتفاق نہیں تھا لیکن مجھے ان کی خرد افروزی ،روشن گر تفکر سے بہت شغف تھا
شعیب عادل سے میری ملاقات 1998ء میں لاہور اردو بازار میں ہوئی اور انھوں نے دوران گفتگو مجھے بتایا کہ وہ ایک سہ ماہی جریدہ شروع کرنے جارہے ہیں جس کا نام ہوگا مکالمہ تو میں نے اس سے اتفاق کیا اور یہ جریدہ شروع ہوگيا جوکہ دور دراز کے چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بھی تعقل پسندی پر مکالمے اور بحث کو فروغ دینے کا سبب بن گیا
اسی دوران مجھ سمیت بہت سارے مکالمہ کے سرکل میں شامل دوستوں نے شعیب عادل کو مشورہ دیا کہ سہ ماہی ضغیم جریدہ نکالنے کی بجائے ماہنامہ شروع کرنا چاہئیے اور اس کے لیے سب دوستوں نے اپنے اپنے تئیں سالانہ ،دو سالہ ،بعض نے سہ سالہ اور بعض نے پنج سالہ خریداری فیس بھی ایڈوانس شعیب عادل کو بھیج دی
ماہنامہ نیا زمانہ کے اولین لکھت کاروں میں احمد بشیر ،نصیر الدین شاہ ،ڈاکٹر پرویزی ،شعیب عادل ،شہزاد بادل(میں ان کے اصل نام سے بھی واقف ہوں)،سعید ابراہیم ،راقم اور دیگر شامل تھے
نیا زمانہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنی شہرت کے حوالے سے بلندیوں کو چھونے لگا اور اس ماہنامے نے بلاشبہ احمدی ،عیسائی ،ہندؤ ،شیعہ پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے رائے عامہ کو بیدار کرنے اور حقیقت کو بیان کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور خاص طور پر پنجاب ،سندھ ،بلوچستان ،خیبر پختون خوا کے انتہائی دور دراز علاقوں میں اس کی خواندگی ہونے لگی
معروف صحافی خالد حسن نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھے ایک مضمون میں نیا زمانہ کا زکر کیا اور میری تحریروں کے حوالے بھی اس میں دئے
مجھے بھی اس ماہنامے کی وجہ سے احمد بشیر جیسی مہان ہستی کے قریب ہونے کا موقعہ ملا اور ان کے ساتھ ہونے والی نشستیں میرے لیے قیمتی یادیں ہیں
نیا زمانہ نے کرسچن ،ہندؤ سے ہٹ کر جس طرح سے احمدیوں کی مذھبی پراسیکوشن کے بارے میں لکھا اور جس قدر کھل کر لکھا اتنا بولڈ انداز کسی اور اردو میں شایع ہونے والے روشن خیال جریدے دیکھنے کو نہیں اور مجھے شک ہے دیکھنے کو ملے گا بھی نہیں
شعیب عادل سے میرے اختلافات بالکل وہی تھے جو طبقاتی سوال کو ابہام پرستی کے حوالے کرںے اور مارکسی فکر کی مبادیات کو رد کرنے والے لبرل دانشوروں سے ہوسکتے ہیں اور شاید یہی وجہ تھی کہ میں نیا زمانہ میں اپنا سفر جاری نہ رکھ سکا
مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں شعیب کی جانب سے خرد افروزی کے چراغ روشن کرنے کی نفی کردوں اور ان کے معاشرے میں روشن گری پھیلانے کے لیے اٹھائے جانے اقدامات سے انکار کرڈالوں
نیا زمانہ یقینی طور پر روشن خیالی ،تعقل پسندی اور اعتدال پسندی کی اقدار سے وابستہ لوگوں کے لیے ایک اتحاد اور رابطے کی جگہ بنا
نیا زمانہ جیسا لبرل ،رواداری اور آزادی اظہار کا ترجمان رسالہ اگرچہ علمی میدان میں تو رجعت پرستوں ،بنیاد پرستوں ،انتہا پسندوں کو چاروں شانے چت کرنے میں کامیاب رہا لیکن یہ مذھبی انتہا پسند اور فاشسٹ علمی میدان میں شکست کھاکر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے اور انھوں نے شعیب عادل پر مذھبی توھین کا مرتکب ہونے کا الزام لگادیا اور ایک تیر سے دو شکار ہوئے یعنی ایک طرف تو شعیب عادل زیر زمین چلے گئے اور دوسری طرف نیا زمانہ جیسا روشن خیال جریدہ بھی بند ہوگیا اور اب اس کا دوبارہ شروع ہونا ناممکن ہے