“The oppressed are allowed once every few years to decide which particular representatives of the oppressing class are to represent and repress them.” ― Karl Marx
Tuesday, September 17, 2013
بھولی بسری یادیں
جاوید شاہیں نے اپنی نظموں اور غزلوں کے ایک انتخاب کا عنوان "دیر سے نکلنے والا دن "رکھا تھا-میں نے اپنے اسٹڈی روم پر پھر سے پینٹ کرایا تو کتابوں کی بھی جھاڑ پونچھ کی-اس دوران ایک کونے سے یہ کتاب بھی نکل آئی-یاد کی ایک لہر بھی ساتھ ساتھ چلی آئی-شام نگر لاہور میں جاوید شاہیں کی رہائش گاہ پر منّو بھائی،مرتضی برلاس اور کئی ایک دوست اکٹھے ہوتے تھے-یہ بہت رنگین محفل ہوا کرتی تھی-ایسی ہی ایک محفل شام میں میرا جانا ہوا تھا-جاوید شاہیں نے میرے حالیہ قیام بارے پوچھا تھا تو جب میں نے کہا خانیوال تو نہ صرف جاوید شاہیں چونکے تھے بلکہ مرتضی برلاس بھی چونک گئے تھے-مرتضی برلاس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری تھی-جس کو یاد کرکے انہوں نے یہ آہ بھری وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے-ابھی حال ہی میں اس ذات کی پہلی برسی تھی اور میں اتفاق سے وہاں نہیں تھا بلکہ اس ہستی کے آبائی شہر لاڑکانہ میں تھا-وہاں مجھے اس ہستی کے ایک قریبی عزیز مل گئے اور انہوں نے انکشاف کیا کہ کیسے دو عاشقان پاک طینت را ایک دوسرے کے نہ ہوسکے-بحرحال میں اپنے پڑھنے والوں کو اپنی نثری ثقالت سے بور نہیں کرنا چاہتا بلکہ جاوید شاہیں کی کچھ غزلوں کو یہاں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس یادگیری کا کوئی حق ادا ہوسکے-
دنیا میں رہ کے ذات سے دنیا نکال دوں
سوچا ہے یہ بھی آخری کانٹا نکال دوں
آساں ہو سب کے واسطے پہچاننا مجھے
چہرے میں جو ہے دوسرا چہرہ نکال دوں
یا چل پڑوں سفر پہ گرہ ڈر کی کھول کر
یا پھر سفر سے پورا ہی رستہ نکال دوں
ملنا ملانا اس سے تو یونہی چلتا رہے
بس درمیان سے کوئی وعدہ نکال دوں
جتنی ہیں خواہشیں انہیں دھو ڈالوں ایک بار
کچا ہے ان میں رنگ جو سارا نکال دوں
اک تازہ عہد کے لیے ان ماہ و سال سے
ماضی نکالوں حال کہ فردا نکال دوں
ویسے تو ٹھیک ٹھاک ہے پوشاک زندگی
اک یاد کا پھٹا ہوا ٹکڑا نکال دوں
چمٹا ہے بادباں سے جو طوفاں اتار دوں
بیٹھا ہوا سفینے میں دریا نکال دوں
دیکھا نہ جائے دیکھنا پڑتا ہے جو یہاں
بہتر ہے شاہیں چشم تماشا نکال دوں
موج بلا ٹھہر گئی ایک عذاب رہ گیا
عمر گزارنے کو اب شہر خراب رہ گیا
چلنے سے پہلے شب رخت جو دیکھا کھول کر
رات کے طاق پر کسی صبح کا خواب رہ گیا
رنگ شفق اتر گیا شام کے رخ سے کس طرح
راہ بہار میں کہاں تھک کے گلاب رہ گیا
چہرے کی سب عبارتیں چہرے ہی میں چھپی ہیں
آنکھ کے انتظار میں حرف کتاب رہ گیا
سننے سے پہلے اس کی بات جانے بکھر گئی کہاں
تیز ہواؤں میں کہیں میرا جواب رہ گیا
دریا جو چپ ہے اس قدر دیتا نہیں ہے کچھ خبر
پانی ہے یا کہ سطح پر صرف سراب رہ گیا
دن جو گذر رہے ہیں اب،سادہ ورق ہیں سب کے سب
لکھنا ہے میں نے ان پہ کب،کون سا باب رہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دھکیلا اس قدر دیوار کی طرف
تنگ آکے ہاتھ اٹھ گیا تلوار کی طرف
اک آنکھ تھی کہ ہر گھڑی تھی نقد جیب پر
اور دوسری گرمئی بازار کی طرف
لیٹے تھے سائے گھاس پر اور ان کے پاس ہی
سستارہی تھی دھوپ بھی اشجار کی طرف
دھڑکا لئے پسند کا اور ناپسند کا
تکتی ہیں چیزیں چشم خریدار کی طرف
اک جھوٹ اس سے بولا تھااس نے پکڑلیا
پھر کیسے میں دیکھتا رخ یار کی طرف
میلہ ہے قتل عام کا شاہیں لگا ہوا
اٹھیئے کہ تھوڑی دیر سیر کریں دار کی طرف
رنگ بہار کیسے اڑا صحن باغ سے
پہلے زرا زرا کسی کونے سے کم ہوا
شاہیں خمار خوں تھا کہ زر کا خمار تھا
آخر بدن میں خار چبھونے سے کم ہوا
پھر یون ہوا کہ جینے کا بڑھتا ہوا عذاب
خود سے زرا سا بے خبر ہونے سے کم ہوا
اک پختہ داغ رات دن دھونے کم ہوا
دل پر عجیب بوجھ تھا رونے سے کم ہوا
دے رہا ہے کام وہ ایسا میں کرنے سے رہا
روز اوروں کے لیے اجرت پہ مرنے سے رہا
جانے والے پہ یہ کیا تہمت لگا بیٹھے ہو تم
اب تمہارے گھر میں کوئی پاؤں دھرنے سے رہا
پاس ہو زر کس قدر تو ہے یہ اک وجہ سکوں
کچھ تعلق اس کا بھی نیت کے بھرنے سے رہا
بات ہے چوری کی یوں ،اس کی صفائی میں نہ بول
رنگ اس کے ہاتھ سے ایسے اترنے سے رہا
میں مقابل ہوں تو بہتر ہے کوئی طوفاں اٹھا
یہ جو ہے تیری ہوا اس میں بکھرنے سے رہا
بےخبر خود سے ہے اس درجہ وہ حسن بے نیاز
لگ رہا ہے میرے ہاتھوں اب سنورنے سے رہا
روکتا ہے کون تجھ کو آزما کر دیکھ لے
تیرے کہنے سے کوئی لمحہ ٹھہرنے سے رہا
عشق میں اس بار شاہیں میں نے ڈالے ہیں گواہ
طے ہوا ہے جو وہ اب اس سے مکرنے سے رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلوتوں سے نکلا ہے یہ جہان تھوڑا سا
اب مجھے سمجھتا ہے رازدان تھوڑا سا
اک بڑی سیاہی کا معجزہ ہے دھل جانا
اب کسی چکہ پر ہے بس نشان تھوڑا سا
ہجرتوں کے موسم میں ہر مکاں ہے اک ڈر میں
اپنے ہی مکیں سے بے اماں تھوڑا سا
دیکھتے ہی دم بھر میں دھوپ بھر گئی میں
اک طرف سے ٹیڑھا ہے سائبان تھوڑا سا
جب بچا نہیں باقی ڈھانپنے کو سر اپنا
کھینچنا ہی پڑنا ہے آسمان تھوڑا سا
عین وسط دریا میں جھک گیا ہے اک جانب
تیزرو سفینے کا بادبان تھوڑا سا
اک گمان کی صورت کب سے تیرا کوئی
میرے اور اس کے ہے درمیان تھوڑا سا
کچھ غلط ہے بستی کی طرز ساخت میں شاہیں
بام و در سے باہر ہے ہر مکان تھوڑا سا
اس غزل کے بعد جاوید شاہیں کی اور غزلوں کا زکر طبعیت کی پھر کبھی روانی پر موقوف کرتا ہوں-جاوید شاہیں کی یاد آج ٹوٹ کر آئی اور میں خانیوال ضلع کونسل کی عمارت کے اس کمرے کو دیکھ کر بھی آگیاجہاں کبھی جاوید شاہیں چیف آفیسر بن کر آئے تھے اور امروہہ کے صاحب طرز شاعر مرتضی برلاس ڈی سی بنکر آئے تھے-اور ڈاکٹر اعزاز افضل نیسلے میں جی ایم تھے-ایسے میں ضلع حصار تحصیل بھوانی میں جنم لینے والے شاعر قدیر طاہر کا کلام "ملال " کے نام سے چھپا تھا اور اس کا پیش لفظ ڈاکٹر افضل اعزاز نے لکھا تھا-جو میرے سامنے ہے-قدیر طاہر اسی ملال کے ساتھ قبر میں چلے گئے کہ
کیسے ممکن تھا کسی شخص کو اپنا کرتے
آئینہ لوگ تھے کیا لوگوں سے دھوکہ کرتے
اور جاوید شاہیں بھی عمر بھر کے ملال کے ساتھ یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے
یہ اس نے عمر بھر کیسے ملال میں رکھا
کہ میرے عہد کو عہد زوال میں رکھا
میں مانتا ہوں محبت میں بھی خیانت کی
خیال اور اک اس کے خیال میں رکھا
ملا جو اس سے ضروری تھی بدگمانی بھی
کہیں پہ داغ سا ماہ وصال میں رکھا
بنانی شب بھی ضروری تھی پر نہ اتنی دراز
بہت ہی فاصلہ صبح جمال میں رکھا
Subscribe to:
Posts (Atom)