“The oppressed are allowed once every few years to decide which particular representatives of the oppressing class are to represent and repress them.” ― Karl Marx
Saturday, September 22, 2012
یوم عشق رسول..........امن پرستی سے تشدد تک
یوم عشق رسول..........امن پرستی سے تشدد تک
لیل و نہار /عامر حسینی
کل جمعہ کے دن ایک گمراہ مصری تارک وطن کی بنائی ہوئی فلم کے خلاف یوم احتجاج کو "یوم عشق رسول "کے دیں کے طور پر منانے کا فیصلہ درست تھا-جو لوگ اس فیصلے پر تنقید کرتے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہیں-مگر اس دن کو پر امن طریقے سے منانے کی ذمہ داری جہاں پر حکومت کی تھی وہیں پر ان جماعتوں کی قیادت کی بھی تھی جنھوں نے اس دن جمعہ کے بعد احتجاج کی کال دی تھی-ان جماعتوں کے رہنما مجرمانہ خاموشی کے مرتکب ہوئے-اور جب آگ لگ گئی اور نقصان ہوگیا تو امن کی درخواست شروع ہوگئی-
یوم عشق رسول کیسے تشدد میں تبدیل ہوگیا ؟اس بارے بہت سی تھیوریز گردش میں ہیں-لیکن ایک سوال بہت اہم ہے-اور وہ سوال یہ ہے کہ اس روز کراچی ،اسلام آباد ،پشاور اور پنڈی ،لاہور میں کالعدم تنظیموں کے کارکن آزادی کے ساتھ گلیوں اور محلوں میں گھوم پھر رہے تھے -ان کو ٹی وی چینلز کی فوٹیج میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے-انھوں نے بیکنس لوٹے ،دکانوں اور مارکیٹس کو آگ لگائی اور اس موقعہ پر ان کو روکنے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں مکمل طور پر ناکام نظر آئی-ایسا کیوں ہوا؟وفاقی وزیر داخلہ پنجاب حکومت پر الزام عائد کرتے ہیں-لیکن سب سے زیادہ تشدد اور خوں ریزی تو پشاور اور کراچی میں ہوئی-وہاں تو پنجاب حکومت کا عمل داخل نہیں تھا-وہاں حکومت ان متشدد عناصر کو روکنے میں کامیاب کیوں نہ ہوئی؟لوگ یہ بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ چودہ ستمبر کو دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں نے احتجاج کا اعلان کیا اور اس اعلان کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر حکومت نے پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کا اعلان کر ڈالا-کیا یہ اقدام دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کو حمایت دینے والا نہیں تھا؟لوگوں میں یہ سوال بھی گردش کر رہا ہے کہ بلوچستان ،گلگت بلتستان اور کراچی میں جو ٹارگٹ کلنگ کی لہر ہے اور اس میں جو سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے تھے اور سیاسی جماعتوں کے کردار پر جو انگلیاں کھڑی ہورہی تھیں ان سب سے توجہ ہٹانے کے لئے حکومت نے دائیں بازو کے کالعدم عناصر کو بڑا خطرہ بنا کر دکھانے کی کوشش کی ہے؟لوگ اب یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ فرقہ وارانہ قتل غارت گری اور مذہبی منافرت کو پھیلانا ایک منظم سازش کا حصہ ہے-اس کا ایک مقصد تو پاکستان کے اندر انتہا پسندوں کی طاقت اور خطرے کو مغرب میں بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے-دوسرا ملک میں کاروباری برادری کو بھی دارانہ مقصود ہے کہ اگر ہم گئے تو دوسرا متبادل بہت خوفناک ہے-
کل کے دن کو بطور ہالیڈے کے منانے کا بظاہر مقصد تو حزب اختلاف کو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا موقعہ نہ دینا تھا-اس کا ایک مقصد پاکستان کے دائیں بازو کو خوش کرنا بھی تھا-لیکن یہ دونوں مقاصد حکومت کو حسسل نہ ہوسکے-صدر زرداری اور ان کے اتحادی جو خود کو سیکولر لبرل کہتے نہیں تھکتے شائد تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے-ان کو تاریخ پاکستان کا 70s کا باب ضرور پھر سے کھول کر دیکھ لینا چاہیے-بھٹو صاحب نے اپنے ریڈکل لیفٹ ایجنڈے سے یو ٹرن لیا اور آئین میں تھوکریٹک اور فرقہ وارانہ ترامیم متعارف کرائیں-انھوں نے خود کو سیاسی اسلام پسندوں سے زیادہ اسلام پسند ثابت کرنے کی کوشش کی-لیکن نتیجہ کیا نکلا؟بھٹو سستر کے آتے آتے سیاسی تنہائی کا شکار ہوتے چلے گئے-دائیں بازو کی سیاست پاکستان پر غلبہ کر گئی-اور رجعت پسند طبقات کے ہاتھوں میں پھر سے طاقت آگئی-پیپلز پارٹی اور اے این پی دونوں کی قیادت سامراج دشمنی کے ایجنڈے کو ترک کر کے ،نجکاری پر مبنی پالیسیوں کی حمایت کر کے اب آخر میں دائیں بازو کی پچ پر کھیل کر اقتدار بچانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے-لیکن اس بچ پر کھیلنے کا ان کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے-اس پچ پر کھیلنے کا ایک نتیجہ تو سب کے سامنے ہے کہ پیپلز پارٹی سلمان تاثیر سے محروم ہوگئی-اس کے بیٹے کو آج تک بازیاب نہ کرسکی-یہ پارٹی اپنے حامی ووٹروں کو فرقہ وارانہ قتل و غارت گری سے نہ بچا سکی-اور اے این پی اپنے سینکڑوں کارکنوں سے محروم ہوگئی ہے-اس کا لیڈر آزادانہ نقل و حرکت سے محروم ہے-صدر زرداری خود اپنی پارٹی کے کارکنوں اور عوام میں جانے سے قاصر ہیں-کوئٹہ ،کراچی اور پشاور میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے حکومت کی رٹ پر سوالیہ نشان ضرور لگا ہوا ہے-اس کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب ،بلوچستان اور سندھ میں سیلاب کے متاثرین جس حالت میں ہیں اس کا بھی کوئی جواب حکومت کے پاس نہیں ہے-رحمٰن ملک کے بارے میں اس ملک کی سب سے بڑی عدالت جھوٹا اور خائن ہونے کا فیصلہ دے چکی ہے-جبکہ وزیر اطلاعات ساری ذمہ داری میڈیا کے سر تھونپ کر انتظامی نااہلی کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں-حکومت کو اپنی پالیسیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے-حکومت کے اقدامات کو اب شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے-ہٹ تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے ریاستی سطح پر فلم کے خلاف یوم احتجاج منانے کو تشدد کو کھلی دعوت دینے کے مترادف قرار دیا جارہا ہے-پیپلز پارٹی کب تک پنجاب حکومت کو الزام دیکر اور مسلم لیگ نواز کب تک وفاقی حکومت کو الزام دیکر اپنی کمزوریوں اور حامیوں پر پردہ ڈالتی رہی گی-کیا ملبہ دوسروں پر ڈالنے سے ان مصائب کا خاتمہ ہوجائے گا جن کا شکار عوام بن رہے ہیں-کل کے احتجاج میں تشدد کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک امریکی فاسٹ فوڈ کمپنی نے پاکستان میں اپنا کاروبار بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے-اس کمپنی کی برانچوں میں سینکڑوں پاکستانی کام کر رہے تھے-بہت سارے تاجر اور صنعت کار اپنا کاروبار اور صنعت اس ملک سے باہر لیجانے کی سوچ رہے ہیں-یہ پاکستان کی پہلے سے دباؤ کا شکار معشیت کے لئے مزید تباہی کا پیغام ہے-کل جو تشدد ابھرا اس سے ملک میں علماء کرام کے اثر و رسوخ پر بھی سوالیہ نشان اٹھا ہے-کیا علماء معاشرے میں فساد پھیلانے والوں کو روکنے میں ناکام ہوگئے ہیں؟میرے خیال میں کل کے دن تشدد اور دہشت گردی نے پوری قوم کے امیج کو مزید برباد کر کے رکھ دیا ہے-
Subscribe to:
Posts (Atom)