“The oppressed are allowed once every few years to decide which particular representatives of the oppressing class are to represent and repress them.” ― Karl Marx
Thursday, April 26, 2012
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ...........سرائیکی خطہ کا نیا سوریہ بادشاہ
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ...........سرائیکی خطہ کا نیا سوریہ بادشاہ
لیل و نہار /عامر حسینی
آج جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو سپریم کورٹ کا ایک نو رکنی بنچ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم کا مرتکب قرار دے چکا ہے-ایک سندھی وزیر اعظم کے بعد سپریم کورٹ نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک سرائیکی وزیر اعظم کو بھی معاف نہیں کیا اور اس کے خلاف بھی فیصلہ سننانے میں دیر نہیں کی-اس عدالتی فیصلے کو سننے کے بعد میرے ذھن میں فوری طور پر یہ خیال آیا کہ نصاف اور قانون کی بالا دستی کے سارے تقاضے شدت کے ساتھ آخر پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت کے خلاف ہی کیوں انصاف کے منصفوں کو یاد آتے ہیں -آخر ہر مرتبہ انصاف کی دیوی کا غضب غیر پنجابی وزیر اعظم پر کیوں اترتا ہے-آخر ایک پنجابی وزیر اعظم کو دیا گیا این آر او کیوں منسوخ نہیں ہوتا اور سپریم کورٹ نیب سے اس کی جائیداد تک واپس کیوں دلاتی ہے-سپریم کورٹ قانون ساز بن گئی تھی اس وقت جب اس نے مشرف کو تین سال حکمرانی کے بھی دے ڈالے تھے-آج تک اس فیصلے پر پیشمانی کا اظہار نہیں کیا گیا-بہت ساری مثالیں ہیں جن کو یہاں درج کیا جاسکتا ہے-جن کو دیکھ کر قانون کی حکمرانی کی بات فضول لگنے لگتی ہے-وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ جو عدالتیں آج تک کسی آمر کو اپنی عدالت میں کسی بھی مقدمے میں نہیں بلا سکیں اور نہ ہی کسی کو سزا دے سکیں وہ صرف اپنی انا کی تسکین کے لئے ملک کے منتخب وزیر اعظم کو کہٹرے میں کھڑا کرنا چاہتی ہیں-مجھے کیا ملک کے سب سے بڑے اور ممتاز قانون دان اعتزاز احسن کو ن رکنی بنچ کے منصفین جانبدار لگرھے تھے-وہ کہتے رہے کہ جن ججوں نے توہین عدالت خیال کیا وزیر اعظم کے عمل کو ان کو اس بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہئے-اور اس مقدمے کی سماعت فل کورٹ کو کرنی چاہئے-پھر بار بار وزیر اعظم کے وکیل کی جو تذلیل کرنے کی کوشش ہوتی رہی -اسی طرح سے سابقہ اٹارنی جنرل اور موجود اٹارنی جنرل کی تذلیل و تضحیک کی گئی اور اس دوران ججز جس طرح سے کچھ اخباری اور میڈیا کی صحیح سرخیوں سے متاثر ہوکر دوران سماعت ریمارکس دیتے پائے گئے اس سے یہ تاثر پختہ ہوا کہ پیپلز پارٹی کو عدالتی استحصال اور عدالتی ٹرائل کے ایک متعصب سلسلے کا سامنا ہے-وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو یہ سزا کیوں سنائی گئی ؟اس پر پیپلز پارٹی کے مخالفین کا موقف تو پروپیگنڈا والا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو یہ سزا عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنے اور صدر زرداری کو آئین میں حاصل استثنا ک دفاع کرنے پر سنائی گئی ہے-یوسف رضا گیلانی کے لئے یہ سزا ایک انعام ہے-وہ سرائیکی دہراتی کا ماں بن گئے ہیں-سرائیکی باشندوں کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہ کہ ان کا ایک بیٹا امتحان میں سرخ رو ہوگیا ہے-یوسف رضا گیلانی سرائیکی دھرتی کے وہ سپوت ثابت ہوئے ہیں جنھوں نے نہ صرف جمہوریت اور آئین کا بول بالا کیا ہے بلکہ انھوں نے اس دھرتی کے لوگوں کی لڑائی بھی لڑی ہے-
سوریہ بادشاہ سندھ کے ایک پیر گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے وہ انگریزوں سے لڑ گئے تھے اپنی دھرتی کی آزادی کے لئے اور سندھی قوم کی نجات کے لئے-یوسف رضا گیلانی بھی ایک پیر گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے بھی اپنی سرائی قوم کو صدیوں کی غلامی اور پسماندگی سے نکالنے کی کوشش شروع کر ڈالی ہے-انہوں نے اپنی قوم کو پہلی مرتبہ خود بااختیار ہونے کا درس دے ڈالا اور اس بات سے اتفاق کر لیا کہ پاکستان میں اگر سرائیکی خطہ پنجاب کا حصہ رہتا ہے تو یہ کبھی پسماندگی اور غربت سے نہیں نکل سکے گا-اس کی ترقی کا سب سے اہم اور بنیادی سنگ میل س خطہ کا صوبہ بننا ہے-یہ خطہ اگر اپنے شناختی حقوق سے محروم رہا تو اس کی پسماندگی کبھی دور نہیں ہوگی-اس کی صنعتی ترقی کا کبھی سلسلہ شروع نہیں ہوسکے گا-وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس دھرتی کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کی کوشش کی -جس کو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ کالونیل دور میں پیچھے رکھا گیا تھا اور جب پاکستان بنا تو بھی اس کے ساتھ بےپناہ زیادتیاں روا رکھی گئیں-گیلانی اس خطہ کے پسماندہ اور مرکزی چین سے کتے ہوئے شہروں اور قصبوں کو ترقی یافتہ بنانے اور ان میں کم از کم سرمایہ دارانہ ترقی کا پروسس شروع کرنے کی کوشش کر رہا تھا-اس کی اس کوشش کو جرم خیال کیا گیا -اس کا دوسرا بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے ان گزرے چار سالوں میں کسی بھی بحران میں اور کسی بھی برے اور نازک وقت میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا-اس نے اپنی پارٹی کے شریک چیرمین کے خلاف اسٹبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی کے مخالفوں سے ہاتھ نہیں ملایا -اس نے صرف یہی نہیں کیا کہ کہ اپنی پارٹی کے خلاف کوئی دغا کرنے سے انکار کیا بلکہ اس نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دفاع کے لئے پھرپور جدوجہد بھی کی-پاکستان کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے بعد وہ پہلے وزیر اعظم تھے جنوں نے ریاست اندر ریاست بنانے والوں کو للکارا اور اسٹبلشمنٹ میں بیٹھے مہم جوں کو وارننگ دی-بطور وزیر اعظم انھوں نے جس طرح سے میمو سازش کا مقابلہ کیا اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو حدود میں رہنے کو کہا وہ بھی بہت سارے لوگوں کے لئے حیرت کا سبب تھا-یوسف رضا گیلانی سرائیکی خطہ کے لئے اپنے جذبات کو ظاہر کیا اور اس بات کا برملا اعلان کیا کہ اگر سرائیکی وزیر اعظم کے ہوتے سرائیکی صوبہ نہیں بنتا تو پھر کب بنے گا-یہ ان کی ذات تھی جنھوں نے سرائیکی صوبہ کی مخالفت میں بہاولپور،پنجد صوبہ کی آوازیں بلند کرنے والوں کا اصل چہرہ عوام کو دکھیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہی نہیں کہ اس خطہ کے لوگ غلامی سے آزاد ہوں-وہ پہلے سرائیکی وزیر اعظم ہیں جنھوں نے سرائیکی سوال کو تسلیم کیا اور سرائیکی قوم کے حقوق کی جدوجہد کو جائز قرار دیا-سرائیکی خطہ کے لوگ اسی لئے یوسف رضا گیلانی کو اپنا محسن خیال کر رہے ہیں اور وہ اسی لئے یوسف رضا گیلانی سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں-کیا پاکستان میں کوئی اور پارٹی اور کوئی اور پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر سیاسی جماعت یہ ثابت کر سکتی ہے کہ اس نے اس خطہ کے مقدمہ کو اس طرح سے پیش کیا ہے جس طرح سے گیلانی اور زرداری نے پیش کیا ہے-
بہت ساری سفاک حقیقتیں ہیں جو گیلانی کے وزیر اعظم بنتے ہی سامنے آنے لگیں تھیں-پاکستان بننے سے لیکر اب تک پہلی مرتبہ کسی سرائیکی خطہ کے وزیر اعظم نے اس خطہ کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کی-اس نے پہلی مرتبہ اس خطہ میں اربن نائزیشن کو عملی شکل میں لانا چاہا تاکہ یہاں بھی کم از کم اس ترقی کا آغاز ہوسکے جو بالائی پنجاب میں سب سے پہلے انگریز دور میں اور پھر ایوب دور میں شروع ہوگئی تھی-جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے صوابدیدی فنڈ سے اس خطہ کی ترقی کے لئے درکار فنڈ جاری کرنا شروع کئے تو ہم نے دیکھا کہ چودھری نثار ،شیخ رشید ،شہباز شریف سمیت بالائی پنجاب کے بہت سارے سیاست دانوں،صحافیوں،سماجی کارکنوں اور اینکرز کو سب سے پہلے تو یہ خیال آیا کہ وزیر اعظم کو صرف ملتان کا یا سرائیکیوں کا وزیر اعظم نہیں ہونا چاہئے-یہ خیال ان کو کبھی میاں نواز شریف کی وزارت کے دور میں نہیں آیا تھا-پھر یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈ کو ختم کر دیا جانا چاہئے-وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے لہجہ کا مذاق اڑایا گیا اور پھر ان کی اپنے خطہ کے لئے کی گئی کاوش کو جھٹلانے کے لئے ان پر طرح طرح کے الزامات کی بارش کر دی گئی-یہ سب جس وجہ سے ہورہا تھا وہ وجہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے-ہم نے بنگالی قوم کی حقوقکی تحریک ہو یا بلوچ قومی تحریک یا پھر سندھی قوم کی تحریک ہو اور پختون قوم کی تحریک ہو کے دوران ان اقوام کی پسماندگی اور غربت کا سبب ان اقوام کی نااہلی اور سستی کو قرار دیتے ہوئے ان لوگوں کو سنا جو ان اقوام کو ان کے سیاسی،معاشی،صوبائی اور قومی حقوق دینا نہیں چاہتے تھے-جب سرائیکی قومی تحریک اپنے عروج پر ہے اور لوگ اپنے حقوق کی مانگ کر رہے ہیں تو ہر طرف سے شور مچایا جارہا ہے کہ سرائیکیوں کی غربت اور پسماندگی کا سبب ان کی اپنی نااہلی ہے اور سستی ہے-گویا خدا نے اگر کسی کو کام کی صلاحیت اور ترقی کی جبلت دی ہے تو وہ صرف پنجابی حکمران طبقہ ہے اور کوئی نہیں ہے-گیلانی پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ لسانی تعصب پھیلا رہے ہیں -کیا یہ کوئی اتفاق ہے کہ جو بھی اپنی قوم کے لئے حقوق کی مانگ کرے اور اس کی شناخت کے لئے آواز اٹھائے وہ متعصب اور فرقہ پرست ٹھہر جاتا ہے-جب جناح نے مسلم قوم کا مقدمہ لڑا تو جناح متعصب ٹھہرا-جب حسین شہید سوہروردی نے بنگالی قوم کا مقدمہ لڑا تو وہ متعصب ٹھہرا-یہی کچھ جی ایم سید کے ساتھ ہوا-یہی کچھ خان غفار خان کے ساتھ ہوا-میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ یہی ہوا-شیخ مجیب کے ساتھ یہی ہوا-آج یوسف رضا گیلانی کے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے-ایک بات میں اور یاد کرتا چلوں کہ جن اکر کیا ان سب کے خلاف شخصیات کا میں نے ذکر کیا ان کے خلاف مغربی پاکستان کا پریس اور عدالتیں زیادہ تر جانبدارانہ کردار ادا کرتی رہیں اور پھر یہ ان خطہ کے عوام کی اصل خواہشات کو بھی پوشیدہ رکھتی رہیں اسی طرح سے آج یوسف رضا گیلانی کا میڈیا ٹرائل ہورہا ہے-یوسف رضا کی آواز کو غداری.کرپشن اور لسانیت کے شور میں دبانے کی کوشش ہورہی ہے-اس طرح سے کر کے سرائیکی قوم کو آج ووہی پیغام دیا جارہا ہے جو ٤٨ میں بنگالی قومی تحریک کو دی گیا تھا اور ٨٠ میں سندھیوں کو دیا گیا تھا-یہ صوبائی حقوق کی مانگ کی تحریک ہے اگر یوسف رضا گیلانی کو اس تحریک کی پاداش میں سزا سنی گئی تو پھر اس صوبائی تحریک کی شکل بدل سکتی ہے-کچھ لوگ کہ رہے ہیں کہ گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ سرائیکی کاز کی وجہ سے نہیں بلکہ این آر او پر عمل درآمد نہ کرنے پ لگایا جارہا ہے-میں ان لوگوں سے یہ سوال ضرور کروں گا کہ وہ مجھے بتائیں اس ملک میں آج تک جو بھی مقدمات سیاسی لوگوں پر بنائے گئے کیا وہ اصل سیاسی عناد کو فرد جرم بنا کر لگائے گئے-بھٹو صاحب کے خلاف مقدمہ قتل کا بنایا گیا-اس سے پہلے شیخ مجیب کے خلاف غداری کا مقدمہ بنا-اسی طرح سے میاں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیکنگ کا کیس بنا-بینظیر بھٹو پر میاں نواز شریف نے کرپشن کے کیس قائم کئے-تو کسی کو بھی سزا دینے کے لئے جھوٹی کسی فوجداری دفعہ کا سہارا ڈھونڈا گیا-اور انصاف کا خون کیا گیا-سیاسی مخالفوں پر بھینس چوری کے پرچے بہت عام رہے ہیں-عدالتوں کے روزنامچے سیاسی مخالفوں کے خلاف رپٹوں سے بھرے پڑے ہیں-اور تھانوں میں ان کا ریکارڈ موجود ہے-ان کی حقیقت سے سب واقف ہیں-خود چیف جسٹس کے بیٹے کا کیس بھی موجود ہے-اس حوالے سے جو کہانیاں موجود ہیں آج تک ان کی صفائی تو کسی سے طلب نہیں کی گئی-بہت ساری باتیں ہیں جو جانبداری کا پول کھولتی ہیں-اس لئے میں کہتا ہوں کہ اس مقدمے میں قاضی ہار گئے اور رند جیت گئے-وزیر اعظم صوفی درویش ہیں اور مجھے آج سمجھ لگی ہے کہ کیوں ملا قاضی ،منصف ،داروغہ سے صوفی اور رند کی مستی اور رندی کا میل نہیں ہوپاتا-یوسف رضا گیلانی سزا پاکر امر ہوگئے-بلھے شاہ نے کہا تھا کہ
"وہ تینوں کافر کافر آکھ دے تو آھو آھو آکھ "
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی پہلے لالچ اور پھر غصہ میں آکر دھونس دے کر غداری پر اکسایا گیا مگر یوسف رضا گیلانی نے سرائیکی خطہ کا فاروق لغاری بننا پسند نہیں کیا اور اس نے بھگت سنگھ بننا پسند کیا-پورے سرائیکی وسیب کو اپنے سوریہ بادشاہ پر فخر ہے-اس مرتبہ گیلانی جب پنے خطہ میں آئین گے تو ایک ہارو اور سورما کی طرح ان کا استقبال ہوگا-بینظیر بھٹو جب شاہ نواز کا جنازہ لیکر سندھ آئی تھیں تو ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا "غم نہ کر بینظیر -ہم تیرے مرتضاء ہم تیرے شاہ نواز"گیلانی اب جب سرائیکی وسیب آئیں گے تو وسیب کے باسی کہیں گے کہ "سجن آوں اکھیاں ٹھہرن "
Subscribe to:
Posts (Atom)