Tuesday, May 27, 2014

پاکستانی پریس مالکان آزادی صحافت کے کاغذی شیر


پاکستانی میڈیا کے مالکان کی جانب سے آزادی صحافت اور جمہوری اقدار کی پاسداری کے دعوے ہمیشہ سے بہت بلند آہنگ سے ہمیشہ کئے جاتے رہے ہیں اور سنسر شپ کے خلاف ان مالکان کی جانب سے خود کو منصور ثابت کرنے کی پوری پوری کوشش ہوتی رہی لیکن اگر ضمیر نیازی کی "صحافت پابند سلاسل" حکائت خون چکاں" اور انگلیاں فگار اپنی"جیسی تین کتابوں کا ہی مطالعہ کرلیا جائے تو ان دعوؤں کا پول کھل جائے گا اور پتہ چلے گا کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں انعام الحق کی کتاب سٹاپ دی پریس کا مطالعہ کرلیا جائے تو کہانی کھل جائے گی اور پتہ چلے گا کہ جب بھی صحافت پر برے دن آئے تو جس گروپ پر سب سے پہلے برا وقت آیا تو اس کے مقابلے میں جتنے گروپ تھے ان کے مالکان بھی ریاست اور ان گروہوں کے ساتھ ہوگئے جو معتوب گروپ کا گلہ گھونٹنا چاہتے ہیں اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جو معتوب گروپ خود کو آزادی صحافت کا علمبردار اور اسٹبلشمنٹ مخالفت کا آخری مورچہ کہہ رہے تھے اچانک سے ڈھیر ہوگئے مجھے یہ سب باتیں اس لیے کرنا پڑرہی ہیں کہ کل جیو-جنگ-نیوز انٹرنیشنل یعنی انڈی پینڈنٹ میڈیا گروپ نے ایک معافی نامہ اپنے اخبارات اور ٹی وی چینل پر شایع اور نشر کیا ہے جس میں انھوں نے آئی ایس آئی اور فوج سے معافی مانگی ہے اور حامد میر پر حملے کے بعد ان کے بھائی عامر میر کے بیان کو نشرکرنا غیرمناسب قرار دے دیا ہے یہ میڈیا گروپ تھا جس نے حامد میر پر حملے کے بعد سے مسلسل خود کو آزادی صحافت کا علمبردار کہنے کے بلند و بانگ دعوے شروع کئے اور یہ کہنا شروع کیا کہ اس کی نظر میں کوئی شخصیت مقدس گائے نہیں ہے چاہے اس کا تعلق پاکستان کے کسی بھی ادارے سے ہو اور اس کا کوئی بھی عہدہ ہو ویسے جیو گروپ نے تو یہ دعوی مشرف دور سے شروع کردیا تھا اور اس نے اپنے تنقیدی بلکہ تنقیصی ایجنڈے پر جس طرح سے آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو رگیدا تھا اس کی تاریخ میں شاید ہی مثال ملے گی اور اس وقت تو ہمارے چیف جسٹس ،موجودہ وزیر اعظم نواز شریف،شہباز شریف سب کو ہی بار بار حضرت عمر کا دور حکمرانی یاد آتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ جب عمر جیسے خلیفہ عدالت کے سامنے پیش ہوسکتے ہیں تو پھر کسی زرداری صدر کی کیا ہمت کہ وہ عدالت میں پیش نہ ہو ،اس زمانے میں تو پی پی پی کی حکومت نے کبھی پیمرا سے رجوع نہیں کیا اور جو کچھ میمو گیٹ اسکینڈل کے دوران جیو گروپ نے جوڈیشری اور ملٹری اسٹبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کے ساتھ ملکر زرداری حکومت کے ساتھ کیا تھا تو بھی اس وقت جیو گروپ کے خلاف پی پی پی کی حکومت نے نہ مذھب کو استعمال کیا اور نہ ہی کوئی اور ہتھکنڈہ اپنایا لیکن آج جیو گروپ آئی ایس آئی اور فوج کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا اور اس کا معافی نامہ یہ بتاتا ہے کہ الزام کا آدھے سے زیادہ ملبہ اس گروپ کے مالکان نے حامد میر اور ان کے بھائی حامد میر پر ڈال ڈیا ہے اور اس معافی نامے نے حامد میر اور عامر میر کے کیس کو جوڈیشل کیس کے سامنے بھی کمزور بنا ڈالا ہے یہ معافی نامہ جب شایع ہوا تو اس سے ایک روز بعد ہی دی نیوذ ویک اعجاز حیدر ایکسپریس ٹرائیبون میں بھی مستقل لکھتے رہے میں ایک آرٹیکل شایع ہوا ہے جس کا عنوان ہے سیلف ڈسٹرکشن اس میں اعجاز حیدر نے لکھا کہ کس طرح سے ایکسپریس ٹرائیبون جوکہ آزادی اظہار کے کھلے مواقع فراہم کرنے والے انگریزی روزنامے کے طور پر شروع ہوا تھا اور جس نے لبرل خیالات کو زیادہ سے زیادہ جگہ فراہم کرنے کے دعوے کئے تھے اور علی سیٹھی کا کہنا ہے ایکسپریس ٹرائیبون نے اپنے ابتدائی سالوں میں اس دعوے کی سچائی کو کسی قدر پورا بھی کیا لیکن ان کا کہنا ہے کہ بعد میں یہ انگریزی روزنامہ اپنے دعوے پر قائم نہیں رہا انھوں نے اس روزنامے کی پسپائی کا زکر کرتے ہوئے ایک مثال تو ایکسپریس کے ایڈیٹر کمال صدیقی کی اپنے سٹاف کو بھیجی کئی اس ای میل کی دی جس میں طالبان کے خلاف کوئی بھی خبر شایع کرنے سے روکا گیا تھا اور یہ ای میل کمال صدیقی نے ایکسپریس نیوز کی ٹیم پر کراچی میں حملے کے فوری بعد جاری کی گئی تھی جبکہ دوسری مثال انھوں نے یہ دی کہ جب انھوں نے ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے پہلے ڈرافٹ کے افشا ہوجانے والی خبر کو بنیاد بناکر آرٹیکل لکھا اوراس میں آئی ایس آئی کی بطور تنظیم کے ناکامی پر بحث کی تھی تو اس آرٹیکل کو شایع کرنے سے معذرت کرلی گئی اور کہا کہ یہ پالیسی کے خلاف ہے اور بقول سیٹھی وہ پالیسی کیا تھی ان کو آج تک معلوم نہیں ہوسکی ان کی تیسری مثال ان کے آرٹیکلز میں سے بعض لائنوں کو سنسر کئے جانے کے پے درپے واقعات کی تھی اور پھر انھوں نے بتایا کہ علی سیٹھی نے بلاسفیمی پر نیویارک ٹائمز کے انٹرنیشنل ایڈیشن میں جو آرٹیکل لکھا اسے ایکسپریس ٹرائیبون نے اس ایڈیشن سے نکال دیا اور اس کی جگہ بلینک صحفہ شایع کیا اعجاز حیدر کا کہنا ہے کہ ایکسپریس ٹرائیبون نے پہلے جو سرنڈر کیا طالبان کے حملوں یا ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ پر آئی ایس آئی کے خلاف ان کے آرٹیکل سنسر کرکے وہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنی بقا اور اپنے سٹاف ممبرز کی جانوں کو بچانے کے لیے کیا اور اسے گویا اعجاز حیدر کے بقول رعایتی نمبرز دئے جاسکتے ہیں لیکن علی سیٹھی کا کہنا ہے کہ اب جو ایکسپریس ٹرائيبون نے نیویارک ٹائمز کے انٹرنیشنل ایڈیشن سے ان کا بلاسفیمی پر لکھا جو آرٹیکل سنسر کیا ہے وہ اپنی بقا کی خاطر نہیں بلکہ اپنے سخت مقابل میڈیا گروپ کو نیچا دکھانے کے لیے سنسر کیا ہے اور یہ اس لیے ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ بلاسفیمی کا ہتھیار ہی اپنے اس حریف ميڈیا گروپ کو بند کرانے کے لیے اسی طرح استعمال کررہا ہے جیسے اے آر وآئی اور دوسرے گروپ جیو گروپ کو گرانے کے لیے استعمال کررہے ہیں اور یہ ایک طرح سے آئی ایس آئی کے ساتھ ملنا بھی ہے اس سے پہلے کہ میں اعجاز حیدر کی بات پر اپنے خیالات کا اظہار کروں تو میں کمال صدیقی سے ملتان پریس کلب میں ہونے والی ایک گفتگو کا زکر کرنا چاہوں گا ایکسپریس ٹرائیبون کے ایڈیٹر کمال صدیقی سے میں نے سوال کیا تھا کہ ان کا اخبار طالبان،آئی ایس آئی ،ملٹری اسٹبلشمنٹ اور دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کے آگے ڈھیر ہوچکا ہے اور اس کا ثبوت ان کی اپنے سٹاف کو بھیجی گئی ای میل ہے تو وہ کیسے خود کو آزادی صحافت کا علمبردار کہتے ہیں؟ اس پر کمال صدیقی کا کہنا تھا کہ ان کی پہلی ای میل عارضی تھی اور مطلب یہ تھا کہ مستقل پالیسی بن جانے پر مزید ہدایات جاری کی جائیں گی اور بقول ان کے بعد میں وہ پالیسی سیٹ ہوگئی جس کی اطلاع بذریعہ ای میل ہی کی گئی لیکن دوسری ای میل کمال صدیقی نے تادم تحریر مجھے فراہم نہیں کی اور میں نے ان سے پوچھا کہ آئی ایس آئی اور ملٹری ،ایف سی کے موقف سے ہٹ کر کبھی وہ بلوچستان ،فاٹا میں ہونے والی ائیر سٹرائیک اور ملٹری آپریشن پر وہ کوئی موقف شایع نہیں کرتے اور عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ ان کے آرٹیکلز جو بلوچستان پر خاص طور ہوتے ہیں ان کو سنسر کردیا جاتا ہے اور ان کے خیال میں ملٹری اسٹبلشمنٹ پاکستانی میڈیا کو اپنی پالیسیوں کے مطابق مینج کرتی ہے اس پر کمال صدیقی کا کہنا تھا بلوچستان میں کوئٹہ میں ان کا جو نمائندہ ہے وہ شورش زدہ علاقوں کی رپورٹنگ کرنے سے معذرت کرچکا ہے جبکہ کراچی اور لاہور سے وہاں کوئی جانے کو تیار نہیں ہے جبکہ فاٹا میں خاص طور پر وزیرستان میں ميڈیا کو جانے کی اجازت نہیں ہے تو کیسے رپورٹنگ ہو جہاں تک عائشہ صدیقہ کے بلوچستان پر آرٹیکل سنسر ہونے کا تعلق ہے تو وہ جو ان کا دل کرتا ہے لکھ ڈالتی ہیں جبکہ ان کی باتوں کے ہمارے پاس تصدیق کے دوسرے زرایع موجود نہیں ہیں تو یہ زمہ داری کا سوال ہے جو میرا اخبار نہیں لے سکتا دیوبندی دھشت گردوں کی شناخت اور ان کے بارے میں معروضی رپورٹنگ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت خطرناک کام ہے اور اگر اخبار یہ کرے تو سٹاف میں کسی کی جان کی ضمانت دینا مشکل ہوجائے گا میں نے ایکسپریس ٹرآئیبون کے ایڈیٹر کی یہ گفتگو سنی تو ساری بات سمجھ لی تھی لیکن میں مزید ان سے اگلوانے کی فکر میں تھا ،ان سے پوچھا کہ پاکستان کا انگریزی پریس کا چہرہ ہمیشہ اردو پریس کے چہرے سے مختلف رہا ہے اور کبھی یہ فرق صرف پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کمپنی کے اخبارات نے ختم کیا تھا کہ پاکستان ٹائمز اور امروز کا چہرہ ایک جیسا تھا لیکن آپ کا گروپ بھی نمک کی کان میں نمک ثابت ہوا ہے تو کہنے لگے کہ آپ کی بات درست ہے جو چہرہ ایکسپریس ٹرائیبون کا ہے وہ ایکسپریس اخبار کا نہیں ہے اور نہ ہی ایکسپریس نیوز چینل کا ہے نہ جانے پاکستان کے نامور صحافی جو خود کو لبرل ازم اور سیکولر روایات کا علمبردار بھی کہتے ہیں یا وہ جو خود کو دائیں بازو کا سرخیل کہتے ہیں اس منافقت کے ساتھ کیسے زندہ رہتے ہیں کہ کمال صدیقی کو اپنے گروپ کے ایکسپریس اردو اخبار و چینل کی مذھبی انتہا پسندی اور اسٹبلشمنٹ کی چمچہ گیری سے کوئی شکائت نہیں تو نیوز کے صلاح الدین حیدر کو جنگ اور جیو کی قدامت پرستی سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور انگریزی اور اردو کے دو مختلف چہروں کو ایکسپوز کرنے کی طرف ان کو تحریک نہیں ملتی میں تو کہتا ہوں کہ اب پاکستان کا انگریزی پریس بھی اپنے آپ کو اردو اخبارات کے طرز پر ڈھال رہا ہے اور کم از کم ملٹری اسٹبلشمنٹ کے باب میں یہ مکمل سرنڈر کرچکا ہے دوسری طرف انگریزی پریس نے خود کو پاکستان کے تنگ نظر کرونی کیپٹل ازم کے آگے بھی سجدہ ریز کرڈالا ہے جبھی تو جیو-جنگ-نیوز گروپ سمیت پاکستان کا انگریزی پریس میاں نواز شریف اینڈ کمپنی کے دیوبندی دھشت گردوں سے تعلقات اور ملک اسحاق و لدھیانوی ٹولوں اور جماعۃ الدعوۃ کی سرپرستی کو چھپاکر نواز شریف کی پاک-بھارت امن کے ڈرامے کو پروجیکٹ کرتا ہے اور یہ بتانے سے قاصر ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن حافظ سعید ،ملک اسحاق ،لدھیانوی اینڈ کمپنی کے ساتھ تعلقات قائم رہنے تک نہیں قائم ہوسکتا ہے ہاں تنگ قسم کا تجارتی تعلق قائم ہوسکتا ہے اور نواز شریف کے جو تجارتی ہوس گیری کے منصوبے ہیں وہ پایہ تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں لیکن پاکستان کا لبرل پوز دینے والا پریس مودی-نواز ملاقات پر اس پہلو کو زیر بحث لانے کو تیار نہیں ہے میں نے روزنامہ ڈان سمیت انگریزی پریس کی وزیرستان اور خیبر ایجنسی و باجوڑ میں پاکستان ملٹری کی فضائی کاروائی پر رپورٹنگ پڑھی ہے مجھے اس رپورٹنگ کی بہت زیادہ کوریج اور پروجیکشن پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن مجھے یہ اعتراض ضرور ہے کہ پاکستان کا انگریزی پریس شیعہ نسل کشی پر وہ تنقیدی رپورٹنگ بلند آہنگ کے ساتھ اور زیادہ بڑی کوریج کے طور پر نہیں کرتا بلکہ سیلف سنسر شپ کو اپنے اوپر لاگو کرتا ہے پاکستانی پریس کومینج کرنے میں صرف ملٹری اسٹبلشمنٹ بشمول آئی ایس آئی ہی ملوث نہیں ہے بلکہ اس کی مینجمنٹ میں پاکستان کا سرمایہ دار کارپوریٹ سیکٹر بھی پوری طاقت سے ملوث ہے اور ملٹی نیشنل کارپوریشنز بھی اس کو مینج کررہی ہیں اور پریس کا ایک بہت بڑا حصّہ جس میں اردو انگریزی پریس دونوں شامل ہیں کو سعودی عرب سمیت عرب ممالک بھی مینیج کررہے ہیں میں نے یوسف نذر کے آرٹیکل کا حوالہ بہت پہلے لکھا تھا کہ یوسف نذر نے کہا تھا کہ ہمیں جیو -جنگ -آئی ایس آئی لڑائی کو مکمل طور پر میڈیا کی آزادی کے سوال کے ساتھ کنفیوز نہیں کرنا چاہئیے جیسے ہم نے جیف جسٹس کی بحالی کو جوڈیشری کی آزادی سے کنفیوز کردیا تھا پھر کہتا ہوں کہ پاکستان کے اندر اس وقت جو تنازعہ ہمیں نظر آرہا ہے یہ عوام بمقابلہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے درمیان نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی سیاسی،ملٹری،عدالتی اسٹبلشمنٹ کے مختلف گروپوں کے درمیان اختیارات اور طاقت و مفادات کی تقسیم اور حصّے کی لڑائی ہے جس میں مشغول ہر فریق ایک تو "جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے "کے فارمولے پر عمل پیرا ہے جبکہ اس میں ہمیں اگر ایک حصّے کی جانب سے دو قومی نظریہ ،نظریاتی سرحدوں ،اسلام ،پاکستان کو خطرے کی گردان سنائی دیتی ہے ت دوسرے فریق کی جانب سے جمہوریت ،آئین ،قانون کی بالادستی،آزادی اظہار اور اختلاف کا حق جیسی اقدار کے قائم رکھنے کے نعرے سنائی دیتے ہیں تو ان فریقوں کے یہ بینرز سوائے دھوکے اور فریب کے کچھ بھی نہیں ہیں ان کے پیچھے طاقت،اختیار اور معاشی مفادات کا جو جھگڑا کارفرماہے اس کو دیکھنے اور اسے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے اور جو کوئی اسے بے نقاب کرے گا تو یہ سارے باہم لڑنے جھگڑنے والے فریق فوری طور پر اکٹھے ہوکر اس بے نقاب کرنے والے پر ہلّہ بول دے گا عائشہ صدیقہ اپنے حلقہ صحافت میں اگر آج تنہا نظر آتی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے میڈیا مینیج کرنے والی سیاسی و عسکری و کارپوریٹ اسٹبلشمنٹ میں سے کسی ایک سے صلح کرنے یا سمجھوتہ کرنے اور کسی ایک کا سچ بولنے اور دوسرے کا چھپانے کا راستہ اختیار نہیں کیا ہے اس لیے اوسط درجے کی زھانت رکھنے والا کمال صدیقی جو بڑا کاسٹیوم پہن کر اور زرا اونچے سول کے جوتے پہن کر صحافتی دنیا میں اپنا قدکاٹھ بڑھانے کے چکر میں ہے وہ عائشہ صدیقہ کو کہتا ہے کہ ان کے جو ذھن ميں آتا ہے لکھ ڈالتی ہیں اپنے آرٹیکل کو ختم کرنے سے پہلے میں اعجاز حیدر کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں کہ کیسے اس شخص نے شیعہ نسل کشی پر دیوبندی تکفیریوں سے الائنس بنایا اور کیسے بلوچ قومی سوال پر اس کی لائن آئی ایس آئی نواز ہوگئی اور اب یہ یہاں خود کو آزادی صحافت اور آزادی اظہار کا ماما چاچا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے پورا سچ اس نے کبھی نہیں بولا نہ ہی بولے گا ہمارا فرض بنتا ہے کہ پاکستان کا انگریزی یا اردو پریس جہاں جہاں منافقت سے کام لیتا ہے اور جس جگہ وہ اسٹبلشمنٹ کے کسی گروہ سے مفاہمت کرتا ہے اور کسی دھشت گرد ،انتہا پسند مافیا کے سامنے سرنڈر کرتا ہے اسے بے نقاب کریں اور کم از کم سوشل میڈیا پر ہم یہ کام بخوبی کرسکتے ہیں

No comments:

Post a Comment