Saturday, May 17, 2014

سعودیہ عرب-ایران بیک ڈور چینل------کئی پیدل سپاہیوں کے باب تاریک ہونے والے ہیں


سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے اپنے ہم منصب ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف کو سعودی عرب کا دورہ کرنے کی باضابطہ دعوت دی ہے سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے یہ دعوت پہلے عرب کوآپریشن اینڈ اکنامک ریلشن فورم ود سنٹرل ایشاء اینڈ آزربائیجان کے اجلاس سے خطاب کے دوران دی میں نے جب یہ خبر پڑھی تو مجھے یاد آیا کہ 6 اپریل 2014ء میں بیروت سے شایع ہونے والے اخبار الاکبر کے آن لائن انگریزی ایڈیشن میں ایک خبر پڑھی تھی جس میں اخبار نے دعوی کیا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پردے کے پیچھے مذاکرات شروع ہوچکے ہیں اور سعودیہ عرب و ایران کے درمیان لبنان میں مستقبل کے حکومتی ڈھانچے بارے اتفاق رائے ہوگیا ہے جبکہ شام پر ابھی تک کوئی معاہدہ تو نہیں ہوا لیکن اس پر آہستہ آہستہ بات آگے بڑھ رہی ہے اسی بیروت سے شایع ہونے والے اخبار نے پہلے یہ خبر بھی دی تھی کہ سابق ایرانی صدر احمدی نژاد نے سعودیہ عرب سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے ایک فریم ورک کی تیاری شروع کی تھی اور اس پر حتمی کام موجودہ حکومت نے شروع کیا اور اس کی منظوری سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے لی گئی تھی آن لائن اخبار مانیٹر میں ایک تجزیہ نگار نے بھی بیک ڈور چینل سے سعودیہ عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کے شروع ہونے کی تصدیق کی ہے جبکہ اسی آن لائن اخبار نے لکھا ہے کہ سعودیہ عرب اور ایران کو بیک ڈور چینل پر سب سے زیادہ آمادہ کرنے میں یورپ اور امریکہ نے کردار ادا کیا ہے جبکہ اس میں پاکستان کی سابق حکومت اور موجودہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی بیک ڈور کوششوں کا ہاتھ بھی بتایا جارہا ہے لیکن اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال یہ ہے کہ عراق،یمن،بحرین میں اس وقت جو صورت حال ہے اس نے سعودیہ عرب کو ایران سے اپنی سرد جنگ کی شدت میں کمی لانے پر مجبور کیا ہے کیونکہ ایک طرف تو عراق میں اس وقت جو شیعہ اور تکفیری وہابی-دیوبندی تضاد نے جو صورت اختیار کی اور یمن میں جس طرح سے تکفیری سلفی اور اخوان المسلمون میں اتحاد ہوا اور عین سعودیہ عرب کے دروازے پر آل سعود کے مخالفین کی طاقت میں اضافہ ہورہا ہے تو اس نے سعودیہ عرب کو دفاعی پوزیشن پر لیکر آیا ہے اور وہ ایران سے مذاکرات پر آمادہ نظر آرہا ہے لیکن کیا اس سے سعودیہ عرب اور ایران کے درمیان جاری سرد جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا؟ اس سوال کا ایک جواب تو حسن نصراللہ نے دیا ہے جن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کی جانب سے لبنان کے حوالے سے جو اتفاق رائے ہوا ہے اس پر ان کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن سعودیہ عرب جب تک بحرین،عراق،شام میں اپنی مداخلت ختم نہیں کرے گا اور اپنی دھشت گرد پراکسیز کو ترک نہیں کرے گا تو خطے میں امن کا قیام ناممکن ہوگا حزب اللہ کے سپریم کماںڈر حسن نصراللہ نے یہ بات ایک عربی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی ویسے بھی سعودیہ عرب کے لیے یہ ناممکن بات ہے کہ وہ گلف ریاستوں میں کسی بھی طرح کی جمہوریت بحالی اور بادشاہت کے خاتمے کی تحریکوں کو جگہ دے اور خاص طور پر بحرین میں جاری جمہوریت کے قیام کی تحریک کے بارے میں مثبت رویہ اختیار کرلے مانیٹر نے یہ دعوی کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان پہلے مرحلے پر حکومتی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے اور میڈیا مین جاری جنگ کو لو پروفائل کیا جائے اور اس کا اندازہ ایرانی اور سعودی نواز میڈیا گروپس پر ہونے والی رپورٹنگ ،فیچررز ،مضامین پڑھ کر بھی کیا جاسکتا ہے میرے خیال میں سعودیہ عرب اور ایران کے درمیان یہ جو بیک ڈور چینل رابطے اور آپس کی سرد جنگ کی شدت میں کمی لانے کی وجہ کوئی جذبہ خیر خواہی نہيں ہے بلکہ خود سعودی عرب کے شاہی خاندان کے اقتدار کو لاحق خطرات اور عالمی سطح پر تنہائی کا خطرہ ہے سعودی بادشاہ عبداللہ نے پہلی مرتبہ اپنے نائب ولی عہد کا عہدہ نامزد کرنے کی بجائے ایک کمیشن کے حوالے کردیا ہے اور صدیری خاندان کے غلبے سے بچنے کے لیے کئی اہم تبدیلیاں کیں ہیں اور امریکہ و یورپ سے تعلقات میں بہتری کے لیے سعودی انٹیلی جنس چیف سمیت بہت سے عہدے دار تبدیل کردئے گئے ہیں اور خاص طور پر ایسے عہدے دار جن کے تکفیری سلفی دھشت گردوں سے تعلقات تھے اور وہ ان سے نرم رویہ رکھتے تھے اور یہ صرف سعودی عرب میں نہیں ہوا بلکہ کویت کے وزیر مذھبی امور کو بھی شام میں تکفیری دھشت گردوں سے رابطوں کی وجہ سے ہٹا دیا گیا اور اس ميں بھی اہم کردار سعودیہ عرب کا تھا جس نے امریکہ کی خواہش پر یہ کیا ہے سعودیہ عرب نے ایران -جی پلس فائیو کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے ایشو پر مذاکرات اور شام پر حملے سے امریکی دست برداری پر پہلے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور اس نے سولو فلائٹ کی کوشش کی تھی لیکن آل سعود کو القائدہ سمیت تکفیری دھشت گردوں اور اخوان المسلمون کی بڑھتی ہوئی قوت اور اس سے لاحق بادشاہت کو خطرات اور سعودیہ عرب کی دنیا میں بڑھتی تنہائی نے اس جارحیت کو بریک لگادی اور اب سعودی عرب اپنی جارحانہ روش کی شدت میں تبدیلی لانے کی کوشش کررہا ہے یہ کوشش خوش آئیند ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بتلانے کے لیے بھی کافی ہے کہ آل سعود سمیت عرب بادشاہوں کو اپنے اقتدار کس قدر عزیز ہیں اور وہ تکفیری سلفی -دیوبندی نیٹ ورکس کو اپنے اقتدار اور غلبے کو باقی رکھنے کے لیے پیدل سپاہیوں کے طور پر استعمال کررہی ہے اس کا ایک چھوٹا سا اظہار پنجاب کے اندر دیکھا جاسکتا ہے جہاں دیوبندی دھشت گرد تنظیم میں ملک اسحاق نیٹ ورک کو بہت تیزی ٹریس کرکے گرفتار کیا جارہا ہےاور حال ہی میں لاہور،گجرات اور جہلم میں اس نیٹ ورک کے اہم دھشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس کارکردگی میں سعودی عرب کی تکفیری سلفیوں کے خلاف مہم کا عمل دخل ہے جب بھی دو ملکوں کے درمیان ملیٹنٹ پراکسی ختم یا اس کو بریک لگتی ہے تو اس میں بہت سے پیدل سپاہیوں کا باب بھی تاریک ہوجاتا ہے اور آنے والے دن ایسے کئی پیدل سپاہیوں کے باب تاریک کریں گے اور بہت سے پیدل سپاہی اپنے ہی آقاؤں کے خلاف سرگرم ہوجائیں گے http://english.al-akhbar.com/node/19350 http://www.al-monitor.com/pulse/originals/2014/05/saudi-arabia-iran-region-deescalation.html# http://english.al-akhbar.com/content/rafsanjani-urges-better-iran-saudi-ties

No comments:

Post a Comment