Tuesday, May 27, 2014

مودی -نواز ملاقات --منتخب جمہوری مطلق العنان حاکموں کی ملاقات تھی


آج پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور ہندوستانی نومنتخب وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ملاقات ہوئی-تو نواز شریف نے مودی سے کیا کہا زرا ملاحظہ کریں “I stressed to the prime minister that we have a common agenda of development and economic revival, which is not possible to achieve without peace and stability in the region,” Sharif told reporters in New Delhi after meeting Modi. “ جبکہ اس موقعہ پر نریندر مودی نے بھی کچھ ایسی ہی بات کی “Modi said the two nations could move immediately to improve trade ties مطلب صاف ظاہر ہے کہ دونوں ملکوں کے سنٹر رائٹ حکمران پارٹیوں کے وزرائے اعظم کے درمیان تجارت اور کارپوریٹ سیکٹر کو فروغ دینے پر اتفاق ہے بھارت میں الیکشن ہوئے اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرلی اور اسے اب پارلیمنٹ میں کسی بھی اتحادی جماعت کی ضرورت نہیں ہے اور وہ ماضی کی حکومتوں کی طرح کمزور حکومت نہیں ہوگی بھارتی جنتا پارٹی کی ملک گیر جیت کا تجزیہ کرنے والوں کی اکثریت کا یہ ماننا ہے کہ نریندر مودی کا وزیر اعظم کا امیدوار ہونا اور بھارتی جنتا پارٹی کی انتخابی مہم کا نگران مودی کا ہونا ہی بھارتی جنتا پارٹی کی جیت کا سب سے بڑا سبب بنا ہے مودی آخر کیسے ہندوستان میں جہاں سیاست عرصہ ہوا بہت زیادہ علاقائی ہوچلی تھی اور یہ کہا جاتا رہا کہ اب کسی ایک قومی جماعت کا واضح اکثریت کے ساتھ جیتنا مشکل ہے جیت گئے اور بھارتی جنتا پارٹی کو دوبارہ سے اوج ثریا پر لے گئے پاکستان میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں اور تجزیہ نگاروں نے مودی کی اس جیت سے سیدھا سیدھا یہ نتیجہ نکالا کہ ہندوستان میں ہندؤں کی اکثریت دائیں سمت جھک گئی ہے اور ہندؤ آبادی کے اندر بھارتی جنتا پارٹی کے فاشسٹ نظریات کو مقبولیت حاصل ہوگئی ہے نریندر مودی کی حالیہ کامیابی کے بارے میں پاکستان کے زرایع ابلاغ میں کچھ حلقوں کا خیال یہ بھی ہے کہ یہ پاکستان کے لیے ٹھیک نہیں ہوا ہے ایسے ہی ایک تجزیہ نگار نے لکھا کہ افغانستان میں عبداللہ عبداللہ کی کامیابی اور بھارت میں نریندر مودی کی کامیابی سے پاکستان ان دونوں کی پالیسیوں کے درمیان سینڈوچ بن سکتا ہے گویا پاکستان کے اندر نریندر مودی کی کامیابی کو امید سے زیادہ خوف اور اندیشوں کے ساتھ دیکھا گیا اور ان خوف و اندیشوں کی ایک بنیاد بھی موجود ہے اور وہ ہے نریندر مودی کا ماضی نریندر مودی نے اپنی سیاست کا آغاز راشٹریہ سیوک سنگھ سے کیا جوکہ ہندؤ فاشزم کی سب سے بڑی علمبردار تنظیم ہے اور نریندر مودی جب گجرات کے چیف منسٹر تھے تو گجرات میں احمد آباد سمیت مسلم آبادی کی اکثریت والے علاقوں میں زبردست طریقے سے مسلم آبادی کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور بربریت کے وہ وحشیانہ مناظر دیکھنے کو ملے کہ ہٹلر نازی ،اسپین کے فرانکو اور چلّی کے پنوشے کے مظالم بھی کم پڑگئے اور نریندر مودی نے ان واقعات پر شرمندہ ہونے یا معافی مانگنے سے انکار کیا اور اس پر اسے کجرات کے قصائی کا نام بھی دیا گیا جب انتخابی مہم شروع ہوئی تو معروف ہندوستانی صحافی اور اینکر کرن تھارپر کو انٹرویو دیتے ہوئے نریندر مودی نے ایک مرتبہ پھر گجرات واقعات پر معافی مانگنے یا اس پر اپنا قصور ماننے سے انکار کیا اور محض اتنا کہا کہ اس کو اس پر افسوس ہے پھر ہندوستان کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش میں مظفر نگر میں ان کی پارٹی کے رہنماؤں نے انتخابی جلسوں کے دوران انتہائی فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز تقریریں کیں جس سے خدشات اور بھی بڑھے لیکن نریندر مودی نے بتدریج اپنی انتخابی مہم کو اس انداز سے چلایا کہ رفتہ رفتہ یہ ثابت ہوگیا کہ انھوں نے اپنے ماضی خاص طور پر کجرات فسادات کو الیکشن کا بنیادی ایشو بننے نہیں دیا نریندر مودی کی کچرات میں حکومت کے دو ادوار اور پھر مودی کی جانب سے بھارتی معشیت کو سست رفتاری کے چنگل سے نکالنے کے لیے جن خیالات کا اظہار کیا جاتا رہا ان خیالات نے ہندوستان کے کارپوریٹ سرمایہ کے بڑے گروپوں اور ہندوستان کی ابھرنے والی نئی طاقتور مڈل کلاس کے اندر مقبولیت بہت زیادہ حاصل کی نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم پر 100 کروڑ ہندوستانی روپیہ خرچ کیا اور یہ پاکستانی دو سو کروڑ بنتا ہے جبکہ ان کے دیگر امیدواروں کے خرچے الگ تھے اور یہ مرکزی انتخابی مہم اگر بغور دیکھی جائے تو انڈیا ٹوڈے کا معروف عمرانیاتی تجزیہ نگار وشوا پرشید ناتھ ٹھیک کہتا ہے نریندر مودی ایک روائتی سیاستدان کی بجائے ملٹی نیشنل کمپنی کے مینجر یا کارپویٹ تنظیم کے سی ای او کے طور پر ابھر کر سامنے آئے شاید یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے اڈانی،امبانی اور ٹاٹا جیسے طاقتور کارپوریٹ بزنس کے مالکان اور ہندوستانی پروفیشنل مڈل کلاس میں نریندر مودی کی زبردست حمائت دیکھنے کو ملی اور یہ حمائت کرنے والے لبرل،قدامت پرست ،سنٹر رائٹ اور سنٹر لیفٹ دونوں طرح کے خیالات رکھنے والے کاروباری اور متوسط طبقے کے لوگ تھے گویا مودی نے گڈ کورننس جس کا ٹھیک ترجمہ بہتر انتظام کاری ہے اچھی حکمرانی نہیں کا خواب بہتر طریقے سے ہندوستانی عوام کو بیچنے میں کامیابی حاصل کی اور اس کامیابی کے پیچھے ہندوستانی کارپوریٹ سرمایہ کی بے پناہ حمائت بھی مودی کے ساتھ تھی جو ہندوستانی میڈیا کے 99 فیصدی حصے کا مالک ہے نریندر مودی کی جیت میں دوسرا بڑا عنصر یہ بھی تھا کہ کانگریس کے وزیراعظم منموہن سنگھ اور نئے امیدوار راہول گاندھی کے قوت فیصلہ کے بارے میں عوام کے اندر بہت سے تحفظات موجود تھے اور گاندھی-نہرو وراثتی لیڈر شپ کا کرشمہ بھی ماند پڑا تھا جبکہ کرپشن کے اسکینڈلز اور غربت و مہنگاہی میں اضافے نے بھی کانگریس کے خلاف میڈیا اور عوام میں ایک رائے بنارکھی تھی کانگریس کی قیادت کی غیر مقبولیت کا عالم پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سے بھی کہیں زیادہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ راہول گاندھی بھی سخت مقابلے کے بعد اپنی نشست بچاپائے نریندر مودی نے الیکشن کے دوران ہی اپنی ٹون کو ہندوتوا کے قریب کرنے کی بجائے اس سے کافی دوری پر رکھا اور ایسی فضا پیدا کی جس میں ہم نے یہ تجزئے خوب سنے کہ مودی اگر جیتے اور اقتدار کی کرسی پر پہنچے تو وزیر اعظم مودی چیف منسٹر گجرات والے مودی سے بالکل مختلف ہوگا نریندر مودی کے بارے میں اوپر کہی گئی بات اس وقت سچ ثابت ہوگئی جب 16 اشوک روڈ دھلی جہاں وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری کے طور پر رہتے تھے سے 7-ریس کورس روڈ یعنی وزیراعظم ہاؤس منتقل ہوئے اور انھیں پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا مبارکباد کا فون آیا تو انھوں نے میاں نواز شریف کو اپنی تقریب حلف برادری کے لیے ہندوستان آنے کی دعوت دی جب میاں محمد نواز شریف کو راشٹر پتی بھون (ایوان صدر)میں نریندر مودی کے بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے کی تقریب میں شرکت کی دعوت ملی تو پاکستان میں وہ حلقے جو نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بارے میں انتہا پسندانہ خوف اور خدشات پھیلارہے تھے تو انھوں نے میاں محمد نواز شریف کی جانب سے نریندر مودی کو مبارک باد دینے اور دورہ ہندوستان کو قبول نہ کرنے پر زور دیا لیکن میاں نواز شریف نے جب دعوت قبول کرلی تو ان حلقوں کی جانب سے یہ کہا گیا کہ میاں محمد نواز شریف بھارت خیر سگالی کے جذبے کی بجائے عقابی فطرت کے ساتھ وہاں جائیں اصل میں نریندر مودی کے ماضی کو ڈسکس کرنے والے اور نواز شریف کو عقابی ایجنڈا اپنانے پر زور دینے والے یہ بھول گئے کہ 1999ء میں بھی اور اب 2014ء میں پاکستان کے سنٹر رائٹ کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ نواز اور بھارت کی سنٹر رائٹ کی سب سے بڑی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان جو اعلان لاہور ہوا اور پھر مشرف کے زمانے میں جو آگرہ سمٹ ہوا تو اس کا سبب دونوں جماعتوں کا لبرل ازم یا سیکولر ازم سے پیار نہیں تھا بلکہ یہ دونوں اطراف کے کارپوریٹ سرمایہ داروں اور علاقائی و عالمی سرمایہ داری کی حرکیات کا دباؤ تھا جس نے دونوں اطراف کی سنٹر رائٹ پارٹیوں کے روائتی سیاسی موقف میں تبدیلی لانے پر مجبور کردیا تھا پاکستان اور بھارت کے درمیان کارپوریٹ بزنس کے باہمی مفادات اور دونوں اطراف کے پروفیشنل مڈل کلاس کی ایک بہت بڑی تعداد کو ان مفادات کے پورے ہونے سے زبردست فوائد کا امکان ہے اور اس وقت میاں محمد نواز شریف کے حامی اور ساتھی کارپوریٹ سرمایہ دار ہیں ان کا بھی مفاد پاک-بھارت تجارتی تعلقات میں پنہاں ہے اور دونوں اطراف کی یہ کارپوریٹ بزنس لابیز یہ خیال رکھتی ہیں کہ پاکستان کو اپنے تنازعات پر بات چیت کرتے ہوئے ان کے حل سے تجارت کو مشروط نہیں کرنا چاہئیے بلکہ تجارتی تعلقات کو بڑھاتے چلے جانا چاہئیے اور آزاد تجارت کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا چاہئیے میاں محمد نواز شریف ہوں یا آصف علی زرداری یا اسفند یار ولی یا پھر الطاف حسین یہ سب کے سب بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے دو طرفہ تجارت اور دونوں اطراف کے لوگوں کو ملنے میں آسانیاں پیدا کرنے کے حق میں ہیں اور ان کی اپنے کارپوریٹ سرمایہ داروں سے ہمدردیوں میں بھی کوئی شک نہیں ہے لیکن کارپوریٹ سرمایہ سے ہٹ کر اکر دیکھا جائے تو بھارت سے تعلقات کی مخالفت ایک جانب تو ایسے کاروباری پرتوں کی جانب سے ہورہی ہے جو امپورٹ کا بزنس دبئی یا دیگر ریاستوں سے کرتے ہیں اور اگر بھارت سے تجارت بالکل آزاد ہوئی تو بہت سی امپورٹ پھر انڈیا سے ہوگی اور اس امپورٹ بزنس پر دوسرے لوگ حاوی ہوسکتے ہیں اور ایسے مینوفیکچر بھی اس کے مخالف ہیں جن کی مینوفیکچرڈ اشیاء بھارتی اشیاء کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی اور اس میں بڑے بڑے زرعی فارموں کے مالکان بھی مخالفت میں شریک ہیں جن کے خیال میں بھارت سے اگر سبزیات و پھل کی آزاد تجارت شروع ہوئی تو پھر ان کے کروڑوں کے منافع جات لاکھوں میں رہ جائیں گے لیکن سردست پاکستان کے بگ کارپوریٹ بزنس سیکشنز کے زیر اثر میاں نواز شریف اور ان کی حکومت نظر آرہی ہے اور بھارت کے اندر بھی کارپوریٹ بزنس لابی پاکستان سے تجارت کے حق میں نظر آتی ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جس کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات تواتر کے ساتھ آتے تھے جب سے نواز شریف اور مودی ملاقات ہوئی ہے تب سے وہ اس ملاقات کا دفاع کررہی ہے اور کانگریس پارٹی اس پر سخت تنقید کررہی ہے مودی سرکار کی جیت کا ایک مطلب اور بھی ہے جس کا بھارتی کارپوریٹ میڈیا نے بائیکاٹ کیا ہوا ہے یا اس کو مناسب کوریج نہیں دی جارہی اور یہ مطلب اخذ کیا ہے کارپوریٹ سرمایہ داری کے مخالفوں نے جو سرمایہ دارانہ سامراجیت کے مخالف ہیں اور ان کو عرف ‏عام میں کمیونسٹ یا اشتراکی بھی کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ آج کل عالمی سرمایہ داری کی سامراجیت اور مارکیٹ اکنامی کے تباہ کن ماڈل کے خلاف سب سے توانا آوازیں وہ ہیں جو خود کو کمیونسٹ یا سرخا کہلانا پسند نہیں کرتیں اور زیادہ سے زیادہ خود کو اینٹی کیپٹلسٹ یا اینٹی کپٹلسٹ گلوبلائزیشن ایکٹوسٹ کہنا پسند کرتی ہیں ہندوستان میں کارپوریٹ سرمایہ دارانہ ترقی کے ماڈل کے خلاف سب سے طاقتور آواز سوزانہ ارون دھتی رائے کی ہے اور مودی کی جیت کے خلاف انھوں نے جو تبصرہ کیا ہے وہ بہت کمال کا ہے اور میری نظر میں ان کے جملوں کی تخلیقی ،ادبی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہے ارون دھتی رائے نے ایک مقامی انگریزی اخبار کے نمائندے کو مودی کی جیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا “Bloodshed is inherent to this model of development. There are already thousands of people in jails,” she says. “But that is not enough any longer. The resistance has to be crushed and eradicated. Big money now needs the man who can walk the last mile. That is why big industry poured millions into Modi’s election campaign.” ارون دھتی رائے کہتی ہیں کہ خون ریزی سرمایہ داری کے ترقی کے اس ماڈل کے اندر پیوست ہے اور ان کا کہنا ہے کہ سرمایہ داروں کا اس خون آشام ماڈل کا آحری سنگ میل عبور کرنے والے آدمی کی ضرورت تھی اس لیے انھوں نے کئی ملین روپے مودی کی الیکشن مہم میں جھونک ڈالے India’s demographic dynamics are such that even mundane projects, such as constructing a road, displace thousands of people, never mind large dams and massive mining projects. The country has a thriving civil society, labour unions and polity that channel this resistance. The resistance frustrates corporate ambitions. “They now want to militarise it and quell it through military means,” she says. Ms Roy thinks that the quelling “does not necessarily mean one has to massacre people, it can also be achieved by putting them under siege, starving them out, killing and putting those who are seen to be ‘leaders’ or’ ‘instigators’ into prison.” Also, the hyper Hindu-nationalist discourse which has been given popular affirmation will allow those resisting ‘development’ to be called anti-nationals. She narrates the example of destitute small farmers who had to abandon their old ways of subsistence and plug in to the market economy. ارون دھتی رائے کے یہ جملے آپ کو کارپوریٹ میڈیا کے کسی تجزیہ نگار کے ہاں نہیں ملیں گے اور کوئی آپ کو نہیں بتائے گا کہ کیسے کجرات میں مقامی دست کاری اور چھوٹی کاٹیج انڈسٹری کو ختم کرنے اور اس کی جگہ کارپوریٹ سرمایہ کاری کو لانے کے لیے نریندر مودی سرکار نے ہندؤ فاشزم کا سہارا لیا کیونکہ مقامی دست کاری صعنت اور کاٹیج انڈسٹری گجرات کے مسلمانوں کے پاس تھی اور کارپوریٹ سرمایہ کی نظر اسے ہڑپ کرکے اپنے منافعوں میں بے تحاشا اضافہ کرنا چاہتی تھی ،ارون دھتی رائے نے ٹھیک کہا کہ ہائپر ہندؤ نیشنلسٹ ڈسکورس خون آشام ترقی کی مزاحمت کرنے والوں کو اینٹی نیشنل قرار دینے کی اجازت دیتا ہے ارون کہتی ہے کہ سرمایہ دارانہ ترقی کے ماڈل کی مزاحمت ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے عزائم اور مقاصد کے آڑے آتی ہے تو وہ اس مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے ایسی حکومت کی تمنا کرتے ہیں جو عسکری طاقت کے استعمال کے زریعے سے اس مزاحمت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے اور ارون کا خیال یہ ہے کہ مودی سرکار کے آنے کا یہی مطلب ہے ارون دھتی رائے اپنے تجزئے کا اختتام ان جملوں پر کرتی ہے “Now, we have a democratically elected totalitarian government,” she continues. “Technically and legally, there is no party with enough seats to constitute an opposition. But many of us have maintained for several years that there never was a real opposition. The two main parties agreed on most policies, and each had the skeleton of a mass pogrom against a minority community in its cupboard. So now, it’s all out in the open. The system lies exposed.” اب ہم ایک ایسی مطلق العنان حکومت رکھتے ہیں جو جمہوری طریقے سے منتخب ہوئی ہے -تکنیکی اور قانونی اعتبار سے کوئی پارٹی ایسی نہیں ہے جس کے پاس اتنی نشستیں ہوں کہ وہ اپوزیشن پارٹی کہلائے لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ کئی سل پہلے سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں کئی سالوں سے کوئی حقیقی حزب اختلاف ہے ہی نہیں ،دونوں مرکزی جماعتیں اکثر پالیسیوں پر اتفاق رکھتی ہیں اور ہر ایک جماعت کے پاس کسی نہ کسی اقلیتی برادری کے خلاف ماس پروگرام کا ڈھانچہ اس کی الماری میں پڑا ہوا ہے اور اب یہ بات کھل چکی ہے اور پورا سسٹم بے نقاب ہوگیا ہے ویسے ارون دھتی رائے کی ہندوستان میں سیاست اور معشیت پر کی جانے والی تنقید اور اس حوالے سے اٹھائے جانے والے نکات کا کسقدر آسانی کے ساتھ پاکستان کی سیاست اور معشیت کے باہمی رشتوں اور پاکستان میں 2008ء کے بعد سے لیکر اب تک حقیقی اپوزیشن کے سوال سے جوڑا جاسکتا ہے پاکستان میں سابق حکومت اور نواز شریف کی موجودہ حکومت کی جانب سے معشیت کے میکرو اشاریوں کو بہتر کرنے کے دعوے کے جواب میں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اس سے عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری کیوں نہیں آئی؟ میاں نواز شریف کی پاکستان میں حکومت کارپوریٹ کرونی کیپٹل ازم کی مطلق العنانیت کو قائم کرنے کے راستے کی طرف گامزن ہے اور یہ بھی سرمایہ دارنہ سامراجی ترقی کے ماڈل کی راہ میں آنے والی روکاوٹوں اور مزاحمت کو ریاست کی فوجی اور ہوائی طاقت کے زریعے سے ختم کرنے پر یقین رکھتی ہے اور پاکستان کے اندر ریاستی مشینری نے بلوچستان میں اس ترقی کے ماڈل کو مسترد کرنے والوں کے خلاف ملک دشمنی اور اینٹی نیشنل ہونے کا الزام لگاکر بربریت کے سارے ریکارڑ توڑے ہیں اور یہ سب بلوچ قوم کی قیمت پر کیا جارہا ہے میاں نواز شریف پاک -جین ٹریڈ کوریڈور ،انرجی میگا پروجیکٹ اور دیگر جتنے بھی ترقی کے ماڈل پیش کررہے ہیں وہ بگ کاررپوریٹ سرمایہ داری کو تو چند سالوں میں اربوں کمانے کا موقعہ فراہم کریں گے اور اس دوران پروفیشنل مڈل کلاس کی ایک چھوٹی سی پرت کو فائدہ پہنچے گا لیکن شہروں اور دیہاتوں میں بسنے والی اکثریتی غریب آبادی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جو اس ماڈل کی راہ میں آئے گا اسے انسداد دھشت گردی ایکٹ،پی پی او سمیت بہت سے ایسے قوانین کے تحت ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑے گا جو بظاہر دھشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنائیں گے ہیں اور آپ کو ہزاروں لاکھوں لوگ جیلوں میں پڑے نظرآئیں گے ترقی کا ایسا ماڈل جو لاکھوں لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرے ،ان کی زمینوں کو چھین لے اور دیکھتے ہی دیکھے ہزاروں چھوٹے موٹے کاروبار اور صنعتوں کو تباہ کرکے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کردے تب اگر اس گے خلاف کوئی مزاحمت کرے اور ان میں سے کوئی اپنی زمین پر ڈیموگرافگ تبدیلیوں اور ایکولوجیکل تبدیلیوں کے خلاف آواز اٹھائے تو ان کو دھشت گرد قرار دے دیا جائے اور مزاحمت کرنے والوں کی لاشیں ویرانوں میں ملیں کراچی پریس کلب کے باہر بی ایس او آزاد کے جوہر لطیف کی بھوک ہڑتال کو اسی لیے نظر انداز کیا جارہا ہے کہ معاملہ صرف بی ایس او کے جئیرمین زاہد بلوچ کی بازیابی کا نہیں ہے بلکہ اصل معاملہ بی ایس او آزاد جیسی تنظیموں کی طرف سے بلوچستان میں کارپوریٹ ترقی کے جدید نوآبادیاتی ماڈل کی مخالفت اور مزاحمت ہے اور ان کی طرف سے کارپوریٹ سرمایہ داری کی غلامی سے آزادی کے مطالبے کے سامنے آنا ہے ،اسی لیے ملٹری آپریشن ،فضائیہ کا استعمال اور بلوچ نوجوانوں کو اغواء کرنے ،پھر ان کو اذیت دیکر ان کی مارنا اور ان کی لاشوں کو ویرانے میں پھینکنے کا سلسلہ جاری ہے ،یہ سب کارپوریٹ بزنس کی ہوس کا نتیجہ ہے جسے حب الوطنی کی آڑ میں سرانجام دیا جارہا ہے

No comments:

Post a Comment