Monday, May 5, 2014

فوج،آئی ایس آئی،ہم بستر میڈیا،جہادی اور سیاسی جماعتیں

نوٹ:میں اپنے ان قارئین سے بہت زیادہ معذرت خواہ ہوں جو مجھے روزنامہ خبریں ملتان کے ادارتی صفحہ پر پڑھتے ہیں اور شکائت کررہے ہیں کہ وہاں آج کل میں اس طنطنے اور کاٹ کے ساتھ نہیں لکھ پارہا جو میرا اسلوب خیال کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ مجھے صاف صاف بتادیا گیا ہے کہ پاکستانی فوج،آئی ایس آئی کی پالیسیوں اور ان کے ماضی بارے آج کے خاص تناظر میں لکھنے کی اجازت نہیں ہے اور میں نے بہت کوشش کی کہ اس موضوع پر بین السطور بات کہنے کا اسلوب اپناؤں لیکن جہاں تھوڑی سی بات نکلی وہیں کالم ردی کی ٹوکری میں چلا گیا تو اب لے دیکر یہ بلاگ ہے جس پر یہ سب کچھ لکھا جاسکتا ہے تو جن قارئین کو میرے بلاگ تک رسائی ہے وہ اسے پڑھ سکتے ہیں ،ویسے میں نے ایل یو بی پاک ڈاٹ کام کے ایڈیٹر انچیف سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ میرے کالمز کو کراس پوسٹ کے طور پر شایع کرے پاکستان کی خفیہ انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی اور پاکستان آرمی کی قیادت اور ان کے اہلکار اپنی طاقت کے بھرپور مظاہرے کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور طاقت کے اس مظاہرے کا مقصد پاکستان کے اندر اپنے ناقدوں کی زبان بندی کرنا اور ان کے لیے موجود کسی حد تک جگہ کو ختم کرنا ہے اس مقصد کے لیے ایک طرف تو پاکستان کی اس عسکری اسٹبلشمنٹ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کے پاس میڈیا کے اکثر مالکان اور ان میں کام کرنے والے صحافی بادام غلام بنے ہوئے ہیں اور اس اکثریت کو وہ ہرروز اپنے ناقدین کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں پاکستان کی ملٹری اور انٹیلی جنس کے ادارے کو جو لوگ کنٹرول کررہے ہیں ان کی حمائت میں اس وقت ایکسپریس گروپ کے اخبارات اور ٹی وی چینل ،روزنامہ خبریں اور اس کا چینل و دیگر اخبارات،روزنامہ پاکستان،روزنامہ دنیا اور اس کا ٹی وی چینل ،اے آروائی ٹی وی چینل ایسے میڈیا کے اخبارات اور ٹی وی چینل ہیں جن کی مالکان کی پالیسی یہ نظر آتی ہے کہ وہ فوج اور اس کے ذیلی اداروں اور آئی ایس آئی کے کردار بارے کسی بھی طرح کی تنقید اور تبصرے کے باب کو بند کرنے کی حمائت کررہے ہیں یا کم از کم وہ اس تنقید کو مین سٹریم میڈیا سے غائب کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ان اخبارات اور چینلز نے ملٹری اور خفیہ اداروں کی پاکستان کے اندر سیاست میں مداخلت ،ان کی جہادی پراکسیز،دھشت گردی کی سپانسر شپ اور اور ان کے معشیت کے ایک خاصے بڑے حصّے پر قبضے ،زمینوں اور رقبوں کی الاٹمنٹس سمیت بہت سے معاملات پر تنقیدی گفتگو کو ازخود نافذ کردہ سنسر شپ کے تحت بین کرڈالا ہے فوج اور آئی ایس آئی کے اس حامی میڈیا میں آپ نا تو اوپر زکرکردہ معاملات پر کوئی کالم لکھ سکتے ہیں ،نہ ہی کوئی فیچر،نہ کوئی تحقیقی رپورٹ شایع کرسکتے ہیں اور ان میڈیا گروپوں کے ٹی وی چینلز پر آپ آکر ان معاملات پر کوئی تنقیدی تبصرہ شایع نہیں کرسکتے بلوچستان ،خبیر پختون خوا،وزیرستان ،سندھ میں فوج،ایجنسیاں ،ایف سی وغیرہ انسانی حقوق کی جن سنگین خلہف ورزیوں میں ملوث ہیں اور جس طرح سے بلوچوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اس پر بھی کسی قسم کی بات کرنا ان مذکورہ بالا میڈیا گروپس میں ازخود نافذ کردہ سنسر شپ کی نذر ہوچکا ہے فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے حمائت میں سامنے آنے والے یہ میڈیا گروپس اور فوج و آئی ایس آئی کے ہم بستر صحافی ایک طرف تو فوج اور ایجنسیوں کے ماضی میں کئے جانے والے جرائم کی کہانی کو بیان کرنے پر بین لگا چکے تو دوسری طرف یہ فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آغی کے خلاف پر تنقید کے بارے میں بہت دور کی کوڑی لانے اور ایک سازشی تھیوری کو پھیلا رہے ہیں ایک مشترکہ کہانی جو ان میڈیا گروپوں کی جانب سے تواتر کے ساتھ بیان اور نشر کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں دنیا کی پانچ انٹیلی جنس ایجنسیوں جن میں ایرانی انٹیلی جنس ایجنی کو بھی شریک بتایا گیا کا اجلاس ہوا اور اس اجلاس میں مشترکہ طور پر پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے خلاف جدوجہد کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ایک دوسری سازشی تھیوری یہ ہے کہ امریکی سی آئی اے اور امریکی حکومت کے تھنک ٹینکس اور ان کے ہم بستر صحافیوں کی جانب سے آئی ایس آئی ،فوج کے خلاف عوام کے اندر منظم طور پر نفرت پھیلانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستانی میڈیا،این جی اوز،سیاسی کارکنوں اور دیگر شعبوں سے افراد کو ہائر کیا گیا ہے اور ان کا کام پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف منظم پروپیگنڈا کرنا ہے تیسری سازشی تھیوری یہ ہے کہ راء اور سی آئی اے و موساد و راما نے ملکر پاکستان کے خلاف سائبر ٹیکنالوجی کی مدد سے جنگ چھیڑی ہے اور لاکھوں فیک آئی ڈی بناکر پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے فوج کا حامی میڈیا اور فوج کے ہم بستر صحافیوں کا دعوی ہے کہ وہ ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے میدان عمل می نکلے ہیں اگر آپ ایکسپریس سمیت دیگر فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر تنقید کو اپنے چینل اور اخبارات میں مکمل طور پر سنسر کرنے والے میڈیا گروپوں کے نشر کردہ اور شایع کردہ مواد کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ اس ساری مہم کا پاکستان میں انچارج میر شکیل الرحمان اور ان کے ادارے میں کام کرنے والے ایسے صحافیوں کو بتارہے ہیں جن کی جانب سے فوج اور ایجنسیوں کی سیاسی مداخلت،بلوچستان میں ڈرٹی وار اور مشرف کیس میں مشرف کی فوج کی جانب سے طرف داری پر تنقید سامنے آئی فوج ایک طرف تو اپنے حامی میڈیا گروپوں کو میدان میں لیکر اتری ہے تو دوسری طرف اس نے اپنے ان تمام حامیوں کو اکٹھا کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے جن کو وہ سیاسی منظر نامے اور مین سٹریم میں لانے کے لیے اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کا استعمال کرتی رہی ہے اس حامی ٹولے میں ایک جانب تو وہ عسکریت پسند جماعتیں ہیں جو افغانستان ،کشمیر،ہندوستان،روس،وسط ایشیا اور اب مڈل ایسٹ میں اس کے آلہ کار کے طور پر لڑتی رہیں ہیں جن میں لشکر طیبہ (جماعۃ الدعوۃ )،جیش محمد،اہل سنت والجماعت(سپاہ صحابہ پاکستان)شامل ہے اور اس ٹولے کو حافظ سعید لیڈ کررہے ہیں اور اس کی سیکنڈ قیادت محمد احمد لدھیانوی کے پاس ہے اور یہ بھی سب کو پتہ ہونا ضروری ہے کہ یہ جماعتیں پاکستان کے اندر بلوچستان اور سندھ میں بھی خاص طور پر فوج اور آئی ایس آئی کی بلوچوں اور سندھیوں کے خلاف بطور پراکسی کے استعمال ہورہی ہیں اور ان کی جانب سے دفاع پاکستان کونسل کا پلیٹ فارم اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے دوسری طرف فوج کے پاس مذھبی تنظیموں کا ایک اور نیٹ ورک موجود ہے جو اس کی سودا کاری کی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے کام آتا ہے اور یہ نیٹ ورک خاص طور پر پنجاب کے اندر مضبوط بنیادوں پر خود فوج کی نوازشات سے تیار ہوا ہے اس طرح کا ایک نیٹ ورک طاہر القادری کا ہے اور وہ پوری طرح سے فوج اور آئی ایس آئی کے کہنے پر ہر وہ خدمت سرانجام دیتے ہیں جو ان کو فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے سونپی جاتی ہے فوج کو بریلوی سنٹر رائٹ کی ایسی شخصیات کا تعاون بھی حاصل ہوا ہے جن کو مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف نے اپنے دور اس لیے کیا کہ وہ سعودیہ عرب اور ان کے پسندیدہ دیوبندی-وہابی دھشت گرد انتہا پسند لیڈروں کو ناراض نہیں کرسکتے تھے اور یہ لیڈر اس قدر زخم خوردہ ہیں کہ وہ نواز شریف اینڈ کمپنی کو گرانے میں ہر عمل کو جائز خیال کررہے ہیں اور ہم ایک طرح سے ان لیڈروں کو فوج کی نئی ڈارلنگ کہہ سکتے ہیں اور یہ ڈار لنگ صاحبزادہ حامد رضا ہیں جبکہ کراچی کے سنٹر رائٹ بریلوی مولوی ثروت رضا قادری سمیت اکثر بریلوی مولویوں کا خیال یہ ہے کہ دیوبندی دھشت گرد جو بریلویوں اور شیعہ و دیگر غیر مسلم اقلیتوں پر حملے کررہے ہیں وہ فوج اور آئی ایس آئی کے دشمن بھی ہیں اور فوج کے ساتھ اتحاد بناکر ہی ان سے نمٹا جاسکتا ہے تو وہ بھی فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے ہونے والی صف بندی میں شریک ہوگئے ہیں ،فوج نے شاید ان کو یہ یقین دھانی بھی کرائی ہے کہ ان کے کنٹرول میں جو دیوبندی-وہابی تنظیمں ان سے ان کا تصفیہ کرادیا جائے گا اور شیعہ سنر رائٹ مولویوں کو بھی یہی یقین دھانی کرائی جارہی ہے کل علامہ ساجد علی نقوی اور ثاقب اکبر کی ملاقات مولانا فضل الرحمان سے جو ہوئی اس کے پیچھے بھی فرشتے ہیں لیکن مجھے لگتا نہیں ہے کہ فضل الرحمان فوج اور آئی ایس آئی کے دام میں آئیں گے لیکن یہ طے ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی اس وقت ملک میں جس صف بندی کی طرف بڑھنا چاہتی ہے تو وہ سنٹر رائٹ بریلوی ،سنٹر رائٹ شیعہ کا کم از کم دیوبندی عسکریت پسندی کے سیاسی فیس اور نام نہاد سافٹ امیج کے ساتھ ایک عارضی سا اتحاد ضرور کرائے گی ایک اور صف بندی بلکہ پیش بندی پاکستان تحریک انصاف ،عوامی مسلم لیگ،پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان مسلم لیگ ق کی شکل میں ہے اور یہ ایک طرح سے زرا زیادہ خالص قسم کا سیاسی فیس ہے جہاں فوج اور آئی ایس آئی اپنے مفادات کو کور کرے گی فوج اور آئی ایس آئی کے پاس اس کے علاوہ قصبات اور چھوٹے شہروں میں بھی ایسے نام نہاد گروپوں اور شخصیات کی کمی نہیں ہے جو بڑے دھڑلے سے اپنے آپ کو فوج یا آئی ایس آئی کا سورس کہتے ہیں اور یہ عمومی طور پر چٹی دلال ہوتے ہیں اور زیادہ تر یہ صحافی یا تھانوں یا عدالتوں میں دلال کا کام کرتے ہیں یا پھر مختلف قسم کی کاغذی تنظیموں کے عہدے دار ہوتے ہیں یا پھر ایسے کاروباروں سے منسلک ہوتے ہیں جن کی حفاظت فوج کا کوئی حاضر سروس یا سابق افسر کررہا ہوتا ہے اور یہ بھی فوج اور ایجنسیوں کا حامی حلقہ ہے اس لیے جب پاکستان میں بائیں بازو اور جمہوری حلقے یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے منظم سیاسی پارٹی فوج ہے تو کچھ غلط نہیں کہتے پاکستان کے اندر آزاد میڈیا،آزاد عدلیہ اور آزاد سیاست اتنی آزاد کبھی نہیں تھی جس کا بہت چرچا کیا جاتا تھا اور جب تک میمو گیٹ سامنے نہیں آیا تھا تو امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی بھی کہا کرتے تھے کہ یہ نیا پاکستان ہے جس میں فوج اور آئی ایس آئی اپنے سابق کردار سے رجوع کرچکی ہے لیکن فوج اور اس کی معاون ایجنسیوں نے 2008ء سے لیکر آج 2014ء تک یہ ثابت کردکھایا ہے کہ وہ ایک طرف تو خارجہ پالیسی اور نیشنل سیکورٹی پالیسی کی ملکیت سے کسی بھی طرح دست بردار نہیں ہوگی اور دوسری طرف وہ اپنی معاشی ایمپائر کو بھی سکڑنے نہیں دے گی اور جب کبھی اس کی کوشش کوئی کرے گآ تو یہ اسے مجبور کرے گی کہ وہ فوج اور آئی ایس آئی کی مرضی کے مطابق پاور شئرنگ کے فارمولے کو تشکیل دے اور جو یہ تناسب طے کرے اس پر کام کرے پانچ سال پاکستان پیپلزپارٹی نے اسی تناؤ کے ساتھ پورے کئے تھے اگرچہ میاں نواز شریف نے کئی فاؤل اس دوران کھیلے جو وہ نہ کھیلتے تو آج حالات شاید مختلف ہوتے لیکن پھر بھی وہ پانچ سال نکلوانے میں مددگار ثابت ہوئے مگر آج میاں نواز شریف کو کم از کم پاکستان پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور اے این پی کی جانب سے ایسے فاؤل کھیلے جانے کا سامنا نہيں ہے ویسے ایک اور بات بھی اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی کو سب سے زیادہ حمائت سنٹرل پنجاب سے میسر آرہی ہے اور زیادہ زور بھی وہیں ہے جبکہ سب کو علم ہے کہ سرائیکی بیلٹ ،اندرون سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں اس فوج نواز اور آئی ایس آئی نواز ہیجان انگیزی کا وجود نہیں ہے اور یہ بات عیاں ہے کہ فوج کی جہادی پراکسیز اور اس کی معاشی ایمپائر کے اصل محافظ بھی سنٹرل پنجاب میں ہی زیادہ رہ گئے ہیں اور ایک طرح سے یہ آخری مورچہ ہے فوج اور آئی ایس آئی کے پاس جو وہ اپنی ماورائے آئین و قانون اور جمہوریت مخالف ،عوام دشمن اور چھوٹے صوبوں کی مظلوم عوام کے خلاف اختیار کی جانے والی پالیسیوں کو بچانے کے لیے استعمال کررہی ہے اور ہاں ایک بات اور کہ اس دوران بہت سے کلین شیو،تھری پیس سوٹ زیب تن کرنے والے،پٹر پٹر انگریزی بولنے والے ،خود کو اصلی تے وڈا صحافی بتلانے والے اور بعض تو خود کو قانون کا سب سے بڑا ماہر بتلانے والے بھی بری طرح سے ایکسپوز ہوئے ہیں جن میں معید پیرزادہ،بابر ستار اور طلعت حسین جیسے مسٹر کلین بھی شامل ہیں جبکہ ملیحہ لودھی،شیری رحمان،نجم سیٹھی ،اعجاز حیدر تو بہت پہلے بے نقاب ہوگئے تھے میں ملتان سمیت کئی ایک شہروں کی اس چھوٹے استاد ٹآئپ صحافیوں کا زکر نہیں کررہا جو ان شہروں میں تو یقینی بات ہے کہ گاڈ فادر ہیں لیکن اس سے باہر ان کا قومی امیج نہیں ہے مگر فوج اور آئی ایس آئی کی چاکری میں ان کا جواب بھی نہیں ہے فوج اور آئی ایس آئی تو یقین مانئے اپنی حمائت میں جرائم پیشہ ،قبضہ گیروں اور رشورت خور مافیا کو بھی سامنے لے آئی ہے کیونکہ درجن بھر غنڈوں کو سفید لباس پہنا کر شرفاء بناکر پریس کلبوں کے سامنے مظاہرے تو یہ بھی کراسکتے ہیں یہ وہ حقائق ہیں جو جنگ ،دی نیوز اور ان تمام بچے کچھے اخبارات اور چینلز پر بھی شایع یا نشر نہیں ہوسکتے جو کسی نہ کسی حد تک آزادی صحافت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں ابھی لاہور میں پی ایف یو جے اور لاہور پریس کلب کی جانب سے قومی صحافتی کنونشن اور خواتین صحافیوں کا اجتماع ہوا ،یہ دونوں تقریبات نہ ہوتیں اگر ان کا خرچہ جرمنی کا ایک لبرل ازم اور فری مارکیٹ کو فروغ دینے والا ڈونر گروپ سپورٹ نہ کرتا یہ کلچر کہ اگر کسی این جی او سے فنڈ ملیں تو کنونشن ہوں اور آزادی صحافت و جمہوریت کے لیے مظاہرلہ بھی کرلیا جائے ورنہ اپنے خرچ سے نہ تو کوئی سفر کرے ،نہ ملتان سے یا دیگر حصوں سے لاہور آکر شریک مظاہرہ ہو عرصہ ہوا ختم گیا کلچر ہے پاکستان میں خود بائیں بازو کی سیاست کو بہت سے روگ لاحق ہوچکے ہیں جن میں ایک روگ تو یہی کرپشن اور بدعنوانی کا ہے اور سب سے بڑا روگ تو نظریاتی دیوالیہ پن کا ہے جس سے نمٹنا سب سے اہم فریضہ ہے ‎

No comments:

Post a Comment