Monday, December 12, 2011

جاگ میرے پنجاب کہ بلوچستان چلا ..........

جاگ میرے پنجاب کہ بلوچستان چلا ..........

لیل و نہار /عامر حسینی

حبیب جالب نے مشرقی پاکستان پر فوجی آپریشن کے تناظر میں ایک نظم لکھی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ

جاگ میرے پنجاب کے پاکستان چلا

میں نے اس کو تھوڑا سا بدل ہے اور پاکستان کی جگہ بلوچستان لگا ڈالا ہے-حبیب جالب نے کیوں پنجاب کو مخاطب کیا تھا-اس کی وجہ یہ تھی کہ سب سے زیادہ اگر کوئی بنگالیوں کے بارے میں بدگمانیوں کا شکار تھے تو وہ اہل پنجاب تھے-اہل پنجاب اس وقت بھی استبلشتمنٹ اور اس کے حامیوں کو ٹھیک خیال کر رہے تھے-اور ان کا یہ خیال تھا کہ اسٹبلشمنٹ جو کچھ بھی بنگال میں کر رہی ہے -وہ پاکستان کی حفاظت کے لئے اشد ضروری ہے-اس زمانے میں بھی بنگال کے اندر خفیہ ادارے ،سیکورٹی اہلکار اور سول نوکر شاہی بنگالی عوام پر جو ظلم اور زیادتیاں کر رہی تھی -ان کو پنجاب کے عوام سے چھپایا جاتا تھا-یہاں تک کے اخبارات بھی خود ہی اپنے اوپر ایک خود ساختہ سنسر شپ لگا لیتے تھے-یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی عوام کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ بنگال میں حالت کس قدر پاکستان کے لئے نا سازگار ہوگئی ہے-یہاں تو دسمبر ١٩٧١ تک جشن منایا جا رہا تھا-فتح کے گیت گائے جا رہے تھے-پاکستان کے اخبارات پاکستانی فوج کی فتوحات کے گیت بھی گا رہے تھے-لکین پھر جب اچانک پتہ چلا کہ ہم تو بنگال سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو پھر رونا دھونا شروع ہو گیا تھا-

لکین اس وقت بھی ہمارے ہاں کسی نے ٹھنڈے دل سے یہ تجزیہ کرنے کی کوشش نہیں کی کہ جس طرح سے پنجاب کی عوام کو گمراہ کیا گیا کیا وہ عمل ٹھیک تھا-اگر پنجاب کے عوام کو باخبر رکھا جاتا اور ن کو اصل حالات بتائے جاتے تو یہاں سے اہل پنجاب بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر سراپا احتجاج ہوتے -اور مغربی پاکستان سے دباؤ ہوتا تو بنگالیوں کے حقوق کی جدوجہد کبھی الگ ہونے کی تحریک میں نہ بدلتی-

آج اہل پنجاب بلوچستان کے بارے میں بھی اسی طرح کی بے خبری کا شکار نظر آتے ہیں جس طرح کی بے خبری ہمیں ٧١ میں نظر آئی تھی-آج بلوچستان کے ایشو کو پنجاب میں اسٹبلشمنٹ کے نکتہ نظر سے دیکھنے والوں کی کمی نہیں ہے-اور یہاں دائیں بازو کے انتہا پسند اور مذہبی تنظیموں کے حامیوں کو تو آپ جانے دیجئے خود سول سوسائٹی ،میڈیا اور پروفیشنلز میں پنجاب کے اندر اکثر ایسے لوگ موجود ہیں جو اس ایشو کو اسٹبلشمنٹ کی نظر سے دیکھتے ہیں-اور وہ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ ایشو صرف و صرف پاکستان کے دشمن ملک بھارت نے کھڑا کیا ہے-وہ اس ایشو کو گریٹ گیم کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں-ان کا خیال یہ ہے کہ بلوچستان کی حالیہ تحریک صرف و صرف ایک سازش ہے-اور اس سازش کا مقابلہ وہ سیکورٹی اداروں اور خفیہ اداروں کی طرف سے قائم کردہ ایک متوازی حکومت کی شکل میں دیکھتے ہیں-وہ بلوچ تحریک کے ہر فرد کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں-ان کا خیال ہے کہ وہ پاکستانیت اور پاکستانی نیشنلزم کے زور زور سے نعرے لگانے،فوج میں چند بلوچ نوجوانوں کو بھرتی کرنے اور چند نوکریاں دے دینے سے اس ایشو پر قابو پالیں گے-بدقسمتی یہ ہے کہ اہل پنجاب کی اکثریت خاموشی سے اس کو ٹھیک خیال کرتی ہے-

پنجاب میں عام طور پر بلوچستان میں خفیہ اداروں ،ایف سی ،کوسٹل سیکورٹی گارڈز کے کردار بارے کوئی بیچینی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے-اور یہاں میڈیا بھی ان کے کردار کو اس طرح سے زیر بحث نہیں لاتا جس طرح سے لانے کی ضرورت بنتی ہے-کیا یہ حیرت کا سبب بننے والی بات نہیں ہے کہ پنجاب میں دروں حملوں اور ان میں ہونے والی ہلاکتوں پر جس طرح سے رد عمل آتا ہے یاس طرح سے رد عمل بلوچستان میں سیکورٹی اداروں کے آپریشنز کے خلاف نہیں آتا ہے-٢٠١١ گیارہ میں جبری طور پر گمشدہ ہونے والے لوگوں میں سے ٩٦ افراد کی مسخ شدہ لاشیں صوبے کے مختلف حصوں سے ملین-لکین ان پر اہل پنجاب نے کوئی خاص رد عمل نہیں دیا-اور یہاں پر میں انسانی حقوق کیمشن آف پاکستان کی چئیرپرسن زہرہ یوسف کے انسانی حقوق کے عالمی دن پر جاری اعلامیہ کے کچھ مندرجات بھی درج کرنا چاہتا ہوں-انھوں نے لکھا ہے کہ عدلیہ سیاسی مقدمات تو سنتی ہے لکین انسانی حقوق کے مقدمات بارے وہ غفلت کا شکار ہے-عدلیہ اور انتظامیہ کی بلوچستان کے معاملات پر کوئی توجہ نہیں ہے-عدلیہ کو بلوچستان سے جبری گمشدگیوں اور ہلاکتوں کے نوٹس لینے چاہئیں-

یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کا عالمی دن انسانی حقوق کیمشن برائے پاکستان نے بلوچستان کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا -اور اس دن انسانی حقوق کے کارکنوں نے پورے ملک معینبلوچ عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا-

پنجاب کے عوام کس طرح سے بلوچستان کے حوالے سے بے خبری کا شکار ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ میں خانیوال کے ایک چوک میں موجود تھا جہاں پر شام کو بلوچ عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے انسانی حقوق کیمشن خانیوال کے کور گروپ نے موم بتیاں روشن کر رکھی تھیں-تو ایک سرکاری افسر جو کہ میرے زمانہ طالب علمی کے دوست بھی ہیں-اور پاک استدڈیز میں وہ ماسٹرز بھی ہیں-سی ایس پی افسر بھی-وہ مجھے کہنے لگے بلوچستان میں کیا ہورہا ہے؟میں سمجھا وہ مذاق کر رہے ہوں گے-لکین ان سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ وہ وہاں کے حالت سے نابلد ہیں-اور وہ خفیہ اداروں اور سیکورٹی کے اداروں کے اہلکاروں کے کردار بارے کوئی بری بات سننے کو تیار نہ تھے-جب میں نے ان کو یہ مشوره دیا کہ ووہینسنی حقوں کیمشن کے پانچ فیکٹ فائنڈنگ مشنز کی رپورٹیں پڑھ لیں تو وہ کہنے لگے کہ وہ مغرب کی کوئی سازش ہوگی-وہ یورپی یونین ،ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستان،ایشیا واچ کی رپورٹوں کو بھی جھوٹ کا پلندہ قرار دے رہے تھے-وچ ایسا ہی رد عمل انسانی حقوق کیمشن کی بلوچستان پر رپورٹ کے بارے میں پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی طرف سے بھی آیا تھا-

مجھ سے بلوچستان کے دانش ور ،سیاسی کارکن اور دیگر لوگ پوچھتے ہیں کہ پنجابی میڈیا جس طرح سے آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ کو نمایاں جگہ دیتا ہے-اور اس پر تجزیہ اور رد عمل کو جگہ فراہم کرتا ہے-اس طرح بلوچوں کی ٹارگٹ کلنگ ،ان کی گمشدگی اور ان کی لاشوں کے ملنے کو نہیں دیتا -ابھی کچھ دن ہوئے جب بلوچستان ریپبلکن پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و نشریات جلیل ریکی کی مسخ شدہ لاش ملی تو ان کے والد نے بتایا کہ جب ان کا بیٹا گم ہوا تو ان کے پاس ثبوت موجود تھے کہ ان کو آئی ایس آئی نے اٹھایا ہے-اور اس بات کی تصدیق وزیر اعلی سردار اسلم رئیسانی نے بھی کی تھی لکین وہ سپریم کورٹ کے سامنے چھپ ہوگئے تھے-جلیل ریکی کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد میں پریس کے پاس ،سول سوسائٹی کے پاس بھی گئے تھے-تو جس طرح لاہور والوں نے اس کی بات نہیں سنی تو اسلام آباد والوں نے بھی نہیں سنی-

میں نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملتان میں میٹھی عید پر پوچھا تھا کہ انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ اس عید پر گمشدہ بلوچ اپنے گھر پہنچیں گے-تو کیا انہیں معلوم تھا کہ یہ بلوچ زندگی سے محروم کر کے مسخ شدہ حالت میں اپنے گھروں کو بھیجے جائیں گے-وہ اس سوال کے جواب میں کچھ نہ کہ سکے-وہ کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی ،ایف سی ،کوسٹل گارڈز ان کے ماتحت ہیں-تو پھر ان اداروں کے ہاتھوں بلوچ عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتی کیوں نہیں رک پارہی-میرے خیال میں جمہوریت اور وفاق کی سیاست کرنے والے حکمرانوں کو یہ ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ کل کو اقتدار سے باہر آکر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے اختیار میں بلوچستان کو ان اداروں کی چیرہ دستیوں سے بچانا نہیں تھا-تو عوام یہ سوچنے پر مجبور ضرور ہوتے ہیں کہ اگر اختیار نہیں تھا تو ان کے گناہ اپنے سر کیوں لئے جاتے رہے-

انسانی حقوق کیمشن اور ان کے ارکان خاص طور پر بلوچستان چیپٹر کے عہدیدار اور رضاکار مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے حقائق کو منظر عام پر لانے میں کسی خوف کی پرواہ نہیں کی-

بلوچستان میں ایک طرف تو بلوچ عوام کی نسل کشی کی جارہی ہے-تو دوسری طرف وہاں پر شیعہ ہزارہ کیمونٹی کو بھی نسل کشی کا سامنا ہے-سیکورٹی کے ادارے فرقہ پرست کلعدم تگروپوں کو دہشت گردی پھیلانے سے روکنے میں ناکام رہے ہیں-بلکہ ہزارہ کیمونٹی تو یہ بھی کہتی ہے کہ لشکر جھنگوی گروپ کو درپردہ ایف سی کی مدد بھی حاصل ہے-یہ بہت سنگین الزام ہے -اس کی تحقیق ہونی چاہئے-

پنجاب میں ایک طرف تو سول سوسائٹی ،میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ وہ بلوچستان کی عوام کو زیادہ سے زیادہ توجہ دے-اور ان کے مسائل بارے اہل پنجاب کو زیادہسے زیادہ آگاہی دے-جمہوریت پسند لوگوں کی پنجاب کے اندر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے اصل کردار کو پنجاب والوں کے سامنے بے نقاب کرے -اور پنجابی عوام کو قائل کرے کے وہ اہل بلوچستان کے ساتھ یکجہتی کریں-اور ان مظالم کو بند کرائیں جو ریاستی ادارے بلوچستان میں روا رکھے ہوئے ہیں-

No comments:

Post a Comment