Monday, December 12, 2011

اگلا نشانہ واجد شمس الحسن ہیں ؟

اگلا نشانہ واجد شمس الحسن ہیں ؟
لیل و نہار /عامر حسینی
جب میمو ایشو سامنے آیا تھا اور اس پر منصور اعجاز نے اپنی توپوں کا رخ حسین حقانی کی طرف کیا تھا -تو میں نے حسین حقانی کے ساتھ ساتھ واجد شمس الحسن کی باری آنے کا بھی ذکر کیا تھا-کیونکہ پی پی پی کے دشمن صدر زرداری کے ساتھ حسین حقانی کے بعد جس آدمی کو صدر کے لئے بہت اہم اور اپنے لئے ایک خطرہ خیال کرتے ہیں وہ واجد شمس الحسن ہیں-
واجد شمس الحسن بینظیر بھٹو اور پی پی پی کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی گردانے جاتے تھے-امریکہ میں اور برطانیہ میں جمہوریت پسند قوتوں میں پی پی پی اور بینظیر بھٹو کے لئے سازگار فضا پیدا کرنے میں ان کا بہت زیادہ کردار رہا ہے-٢٠٠٦ میں حسین حقانی کے ساتھ مل کر انھوں نے بھی یورپ اور امریکہ میں آمریت کے خاتمہ اور جمہوریت کی بحالی کے لئے اہم کردار ادا کیا تھا-وہ زرداری صاحب کے ساتھ امریکہ اور برطانیہ میں بہت سرگرم رہے تھے-واجد شمس الحسن برطانیہ میں اپنے تعلقات کے حوالے سے بہت موثر شخصیت گردانے جاتے ہیں-اور ظاہر ہے کہ وہ پی پی پی کی قیادت کے خیالات کو مغرب میں قبول عام دینے کے لئے بھی سرگرم رہتے ہیں-
واجد شمس الحسن کے والد شمس الحسن قائد اعظم کے سیکرٹری تھے-اور پاکستان بننے کے بعد انھوں نے قائد اعظم کے کاغذات کو پاکستان منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیاتھا-شمس الحسن ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے قائد اعظم کو مسٹر سے مولانا بنانے کی سازش کو بےنقاب کیا -اہنوں نے اس حوالے سے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا "صرف مسٹر جناح "اس کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے والد اسٹبلشمنٹ اور دائیں بازو کی طرف سے جناح کی شخصیت اور ان کے افکار کی تصویر کشی سے متفق نہیں تھے-اور وہ جناح کا سیکولر لبرل چہرہ عوام کے سامنے پیش کرتے رہے-یہ اثر ان کے بیٹے میں بھی موجود ہے-وہ اسٹبلشمنٹ کے پاکستان کی نظریاتی اساس بارے مہا بیانیہ سے ہرگز اتفاق نہیں کرتے -اور وہ ضیاء الحق کی باقیات کے ہتکنڈوں سے بخوبی واقف ہیں-اس لئے وہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے لئے جس سوچ کی ضرورت ہے اس کو آگے بڑھانے میں پوری پوری کوشش کرتے ہیں-
اسٹبلشمنٹ میں وہ ناپسندیدہ شخصیت اس لئے بھی گردانے جاتے ہیں کہ وہ تزویراتی گہرائی کی پالیسی سے شدید اختلاف رکھتے ہیں-اس پالیسی کا ایک حصہ نجی مسلح لشکروں کو قایم رکھنا -اور ان کو ہمسایہ ملکوں میں پراکسی جنگ میں استعمال کرنا بھی ہے-اسی پالیسی میں افغانستان کو پاکستان کی کالونی کے طور پر ٹریٹ کرنابھی شامل ہے-اسی پالیسی کا ایک حصہ یہ ہے کہ پاکستان میں ان سیاسی اور جمہوری قوتوں کے خلاف کام کیا جائے جو اس پالیسی کی مخالفت کرتی ہیں-اور اس کے لئے میڈیا ،عدلیہ اور وردی بے وردی نوکر شاہی میں لوگوں کی کمی نہیں ہے جو کسی بھی دیوانہ کو سبق سکھانے کے لئے تیار رہتے ہیں-
واجد شمس الحسن،حسین حقانی،ہی صرف ناپسندیدہ لوگوں میں شامل نہیں ہیں بلکہ جو بھی اسٹبلشمنٹ میں تزویراتی گہرائی کے حامیوں کو بےنقاب کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اس لسٹ میں شامل ہوجاتا ہے-ایسے تمام افراد پر بہت آسانی سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ امریکہ ،بھارت ،اسرائیل کے ایجنٹ ہیں-ان کو سی آئی اے ،راء،موساد یہ سب لکھنے اور کہنے کو کہتی ہے-اور اس کے بدلے میں ان کو پیسے ملتے ہیں-
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں جب ملٹری کیپٹل پر ایک کتاب سامنے آئی تھی-اور جس صحافی خاتون نے یہ کتاب لکھی تھی -اس کے بارے میں خود فوج کے ترجمان ادارے نے کسی ثبوت کے بغیر یہ الزام لگانے کی کوشش کی تھی کہ یہ کتاب پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کے لئے لکھی گئی تھی-ہمارے اردو میڈیا نے اس کتاب کے بارے میں کیا کیا ہرزہ سرائی نہیں کی تھی-اس سےقبل جب منٹو کی نواسی جو کہ معروف ماہر تاریخ ہیں نے جب پاکستانی ریاست کی پولیٹیکل اکانومی پر ایک کتاب لکھتے ہوئے -یہاں کی وردی بے وردی نوکر شاہی کے کردار کو بےنقاب کیا تھا تو بھی ایسا ہی شور مچا تھا-
اسی طرح ایک اور صاحب ہیں کامران شفیع یہ صاحب بھی اسٹبلشمنٹ میں سخت ناپسند کے جاتے ہیں-اور ان پر بھی ملک دشمن ہونے کا الزام دیا جاتا ہے-
واجد شمس الحسن جیسے لوگ اگر کسی اہم عہدے پر فائز ہوجائیں تو ان کو اس عہدے سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے-کیونکہ اسٹبلشمنٹ کے مفادات سخت خطرے میں پڑ جاتے ہیں-
٢٠٠٨ سے جب یہ حکومت بنی ہے تو کیا یہ صرف ایک اتفاق ہے کہ حسین حقانی اور واجد شمس الحسن کو کسی نا کسی بہانے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے-اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے جائیں-اور لوگوبن کے ذھن میں یہ تاثر بٹھایا جائے کہ ان لوگوں کے اپنے عہدے پر رہنے سے ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں-مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو جمہوری حکومت کی قیادت ان ذہین لوگوں کی ٹیم پر اتامد کر رہی ہے-ایک تو ان سے یہ ٹیم چھین لی جائے-دوسرا اس قیادت کی حب الوطنی کو بھی مشکوک قرار دے دیا جائے-عوام کی نظروں میں جمہوریت اسند سیاست دانوں کا وقار مجروح کیا جائے-اور لوگ یہ خیال کرنے لگیں کہ اس ملک کی سلامتی اور حفاظت تو بس اسٹبلشمنٹ اور ان کے حامی دائیں بازو کے لوگ ہی کر سکتے ہیں -
واجد شمس الحسن کو فارغ کرنے کی ایک سازش اس وقت ہوئی تھی جب این آر او کیس کے حوالے سے سوئیس کیسوں کا مواد چوری ہوجانے کی افواہ پھیلائی گئی تھی-اس وقت کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں -ان دنوں بھی واجد شمس الحسن کی حب الوطنی پر انگلیاں اٹھی گئیں تھیں-
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے کہ پی پی پی کی حکومت آنے کے بعد اس کی قیادت کی حب الوطنی کو مشکوک ٹھرایا جا رہا ہے-بینظیر بھٹو جب وزیر اعظم بنی تھیں تو ان کےپہلے وزیر داخلہ جناب اعتزاز احسن تھے-ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے سکھ گوریلوں کی لسٹیں ہندوستانی حکومت کے حوالے کر دی تھیں-اسی طرح بینظیر پر یہ بھی الزام لگا تھا کہ اگر ان کو ایٹمی پروگرام تک رسائی دی گئی تو وہ معلومات امریکہ کو دے دین گی-ان کو سیکورٹی رسک تک قرار دے دیا گیا-ان کے ساتھیوں پر ملک کے مفادات کا سودا کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا-آج یہ سب زرداری اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کیا جا رہا ہے-اور یہ سب کچھ جس انداز سے ہو رہا ہے اس انداز میں کچھ بھی نیا نہیں ہے-میڈیا ،عدلیہ ،وردی بے وردی نوکر شاہی اور دائیں بازو کی سیاسی اور مذھبی قوتیں پی پی پی کو ناکام بنانے کے لئے ساری قوت اور سارا زور صرف کر رہی ہیں-ان کی کوشش یہ بھی ہے کہ پی پی پی کی قیادت کو اس قدر دباؤ میںلایا جائے کہ وہ خود رائٹ ٹرن لے لے -اور پھر اس رائٹ ٹرن کو ہی پی پی کی قیادت کا نصب العین ثابت کیا جائے-جیسے حمید گل ،اسلم بیگ جیسے لوگ بینظیر بھٹو کی شہادت کے حوالے سے یہ دور کی کوڑی لائے کہ انھوں نے امریکی ڈیل سے پاکستان آنے کیبعد انحراف کر لیا تھا تو امریکہ نے ان کو قتل کرا ڈالا-چکر یہ تھا کہ طالبان ،القائدہ اور اسٹبلشمنٹ میں بیٹھی ضیاء کی باقیات کو بچایا جائے-اور الزام لبرل قوتوں پر دل دیا جائے-
ہمارے میڈیا اور عدلیہ کی یہ روش رہی ہے کہ وہ ہر اس آدمی کا ٹرائل رتے ہیں - جو پی پی پی کی قیادت کا دست و بازو بنتا ہے-اور اس کو بدنام کرنے کا کوئی حربہ وہ آزمائے بغیر ترک نہیں کرتے-واجد شمس الحسن بھی ایک ایسا ہی دست و بازو ہیں-جن کو اسٹبلشمنٹ اور ان کے حامیوں نے اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے-
چار سالوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب پی پی پی کی حکومت کو سکون سے کام کرنے دیا گیا ہو-لوگوں کا خیال تھا کہ بینظیر کی موت کے بعد اسٹبلشمنٹ کو یہ سبق ملا ہوگا کہ وہ جمہوری طریقہ سے مختلف نسلی گروہوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر وفاق میں رہنے دے گی -اور پی پی پی جس قومی مفاہمت کی پالیسی کو لیکر آگے آئی ہے -اس کا احترام کیا جائے گا-لکین افسوس کہ اسٹبلشمنٹ کی سب سے زیادہ کوشش اسی کو تباہ کرنے پر صرف ہو رہی ہے-پنجاب کی حکمران اشرافیہ نجانے کیوں اس عمل کو تباہ کرنے کی اسٹبلشمنٹ کی سازش کا ساتھ دے رہی ہے-جس سے سندھیوں،سرائیکیوں،پشتون اور بلوچوں کو بہت منفی پیغام جا رہا ہے-اور خود پنجاب میں جو لوگ جمہوری عمل کے ساتھ وفاق کو چلانے کی بات کرتے ہیں ان کے راستے بھی روکے جاتے ہیں-ان کو بھی غدار کہا جاتا ہے-پنجاب میں جو جمہوریت پسند ہیں وہ دائیں بازو اور اسٹبلشمنٹ کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کی وجہ سے سخت دباؤ میں نظر آتے ہیں-یہاں تک کے ان کو اپنی جنٹک کا خطرہ ہوتا ہے-کیا سلمان تاثیر ،ملک شیباز بھٹی کے قتل کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے-بابر اعوان کو واجب القتل قرار دینے کی دھمکی کو بھلایا جا سکتا ہے-رحمان ملک کی حب الوطنی پر لگنے والے الزامات کو بھولا جا سکتا ہے-یہاں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو مفتی بن کر لوگوں کو پہلے کافر قرار دیا کرتے تھے-اب وہ اس کے ساتھ ساتھ ملک دشمن ہونے کا فتویٰ بھی صادر کرنے لگے ہیں-دائیں بازو کے یہ لوگ ہر اس شخص کو کافر اور ملک دشمن قرار دے دیتے ہیں جو ان کی ڈاکٹرائن سے اتفاق نہیں کرتا -اس آدمی کا رستہ روکنے کی ہر طرح سے کوشش کی جاتی ہے-

No comments:

Post a Comment