Monday, December 12, 2011

افغانستان میں عاشور پر دھماکے .......پاکستان الزامات کی زد میں

افغانستان میں عاشور پر دھماکے .......پاکستان الزامات کی زد میں

لیل و نہار /عامر حسینی

بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت پر پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار بارے تنقید کرنے والے حلقوں نے یہ کہنا شروع کر رکھا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن ہوتا دیکھنا نہیں چاہتا-ابھی یہ تنقید جاری تھی کہ دس محرم الحرام کے دن افغانستان کے درالحکومت کابل اور مزار شریف میں ماتمی جلوسوں پر خود کش حملہ کی خبر آگئی-جس میں درجنوں لوگ مارے گئے -اور سینکڑوں لوگ زخمی ہو گئے -اس حملہ کی ذمہ داری پاکستان کے ایک فرقہ پرست جہادی گروہ لشکر جھنگوی نے قبول کر لی-اور انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مستقبل میں بھی ایسے حملے کرتے رہے گے-

افغانستان کی تاریخ جنگ و جدل سے بھری پڑی ہے-لکین اس تاریخ میں یہ نہیں ملتا کہ کسی کی مذہبی تقریب پر حملہ کیا گیا ہو-یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے-اس بات کا اظہار افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے بھی کیا ہے-ادھر طالبان کے ترجمان قاری ذبیح الله نے حملے کے بعد اخبارات اور ایجنسیوں کو برقی خط کے ذریعہ بتایا کہ طالبان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے-اور یہ حملہ ایک سازش ہے-مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی-اور افغانستان میں قابض افواج کے خلاف جدوجہد کو نقصان پہنچانے کی-یہ بھی خیال رہنا چاہئے کہ افغانستان میں یہ پہلا حملہ ہے جس کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے-

اس حملے کے بعد مغربی میڈیا میں یہ کہا گیا ہے کہ بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت کے بعد یہ حملہ دراصل پاکستان کی طرف سے یہ پیغام دینے کی کوشش ہے کہ وہ جب چاہئیں افغانستان کا امن تباہ کر سکتے ہیں-اس حملے میں ایک مرتبہ پھر آئی ایس آئی پر انگلیاں اٹھی جا رہی ہیں-جس پر یہ الزام تواتر سے لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ لشکر جھنگوی ،القائدہ اور طالبان جیسے گروپوں سے رابطہ رکھے ہوئے ہے-اور ان کو افغانستان میں اپنے لئے استعمال کر رہی ہے-

آئی ایس آئی پر یہ الزامات پاکستانی میڈیا میں آج کل غلبہ کے ہوئے منصور اعجاز نے بھی تواتر کے ساتھ لگائے ہیں-اس نے اپنے تازہ مضمون میں کہا ہے کہ آئی ایس آئی میں ایک سیکشن ایس ہے جو طالبان،حقانی گروپ سمیت دوسرے عسکری جہادی گروہوں سے تعلق رکھتا ہے-اور یہی سیکشن امریکہ کے خلاف افغانستان میں جاری مزاحمت کا بھی ذمہ دار ہے-

آئی ایس آئی پر یہ الزام پاکستان کے سیاسی حلقے بھی عائد کرتے رہے ہیں کہ اس نے بہت سے جہادی گروہوں کو اپنے تزویراتی اثاثہ قرار دے رکھے ہیں-اور ان کے پاکستان میں نیٹ ورک قائم رکھنے میں آئی ایس آئی کا بہت زیادہ ہاتھ ہے-

یہ خبریں بھی مسلسل شایع ہوتی رہی ہیں کہ پاکستان میں آئی ایس آئی دائیں بازو کے مذہبی تنظیموں کو امریکہ مخالف جذبات کو پروان چڑھانے کا ایک پروجیکٹ بھی چلا رہی ہے-اور اس حوالے سے ان تنظیموں کو رقوم کی فراہمی کا سلسہ بھی جاری ہے-

آئی ایس آئی پر یہ عزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے ریاست کے اندر اپنی ایک حکومت قائم کر رکھی ہے-اور وہ کسی بھی سیاسی جماعت کو اپنی پالیسی سے ہت کر کام نہیں کرنے دیتی-یہاں تک کہ اگر کوئی فوج کا سپہ سالار بھی اس کی پالیسی سے روگردانی کرے تو وہ اس کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے-

آئی ایس آئی کے سیاسی عمل میں مداخلت کے ثبوت ان گنت ہیں-لکین آج تک اس کے اس کردار پر کوئی تحقیقاتی کیمشن نہیں بنا-اور اس پر جو دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام ہے-اور یہ الزام کہ وہ پاکستان کی سرزمین کو دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کے لئے استعمال کے جانے کی ذمہ دار ہے کی بھی کوئی باضابطه تحقیق نہیں کی گئی -

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی پر جو الزامات لگائے جاتے رہے ہیں کیا وہ میمو اشو سے کم سنگین ہیں؟کیا ان سے ملکی سلامتی خطرہ میں نہیں پڑتی؟کیا پاکستان کی عالمی برداری میں جو سبکی ہو رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو تنہائی ہے کیا اس کا تقاضہ یہ نہیں بنتا کہ ان الزامات کی تحقیق کے لئے ایک طاقتور کیمشن قائم کیا جائے-جو ان الزامات کی تحقیقات کرے -یہ خود آئی ایس آئی کی نیک نامی کو بھال کرنے کے لئے بہت ضروری کام ہے-

میں نے کافی عرصۂ پہلے بھی یہ لکھا تھا کہ آئی ایس ایس کا کام ٧٥ فی صدی بیرونی اتیلجنس کا بنتا ہے-اور ٢٥ فیصد کام داخلی انٹیلیجنس کا جو ہے وہ اس کو داخلی انٹیلیجنس کی ذمہ دار ایجنسی آئی بی کے تعاون سے کرنا چاہئے-لکین ٣٠ سال فوجی حکومتوں کے رہنے کی وجہ سے یہاں پر سول انٹیلیجنس ڈھانچہ بہت کمزور رہا ہے-اور آئی ایس آئی کا کردار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے-پھر یہ ادارہ خود بھی اپنے تنظیمی ڈھانچے میں فوجی اور سویلین افراد کی بھرتی کے توازن کو قائم نہیں کر سکا-اور نہ ہی اس ادارے میں سویلین کو وہ مقام اور مرتبہ حاصل ہوسکا جو جووردی والوں کو حاصل ہے-اس ادارے پر سویلین کنٹرول ایک ایسا کام ہے -جس کو کرنے کی کوشش کرنے والی پارٹی اپنا اقتدار نہیں بچا سکی-بلکہ یہ ادارہ اپنے فوجی حکمرانوں کی طرف سے اس کو کنٹرول میں کرنے کی کوشش کو بھی ناکام بناتا چلا آیا ہے-مشرف کے خلاف عدلیہ کی تحریک کو مدد دینے کا الزام بھی اس ادارے پر لگتا رہا ہے-جبکہ لال مسجد والے واقعہ کو بی آئی ایس آئی اور ملٹری انٹلیجنس کے باہمی جھگڑے کا شاخسانہ کہا جاتا رہا ہے-

سول اٹیلیجنس کی کمزوری کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئی بی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کے پاس موٹر سائیکل بھی مشکل سے ہوتی ہے جبکہ آئی ایس آئی کا اے ڈی لینڈ کروزر استعمال کر رہا ہوتا ہے-

پھر آئی بی کے اندر جو ١٨ وین گریڈ سے اوپر کی آسامی ہوتی ہیں ان پر پی ایس پی افسران تعینات ہوتے ہیں-جن کا انٹیلیجنس کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے-اور یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کی انٹیلیجنس کارگردگی بہت غیر متاثر کن رہی ہے-اس ادارے کو جب بھی مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی تو اس کوشش کو نادیدہ ہاتھوں نے کمزور بنا دیا-

میں اپنے سورس کی بنیاد پر اور بہت سی باتیں اس تناظر میں لکھ سکتا ہوں مگر اتنا کہنا کافی ہے کہ پاکستان کے اندر جمہوریت کی کمزوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جمہوری حکومتیں ایک طرف تو سویلین انٹلیجنس ڈھانچہ کو مضبوط کرنے میں ناکام رہی ہیں-دوسرا انھوں نے آئی ایس آئی کے کردار کو اس کے آئینی دائرہ کار میں لانے اور ان کو سویلین کنٹرول میں لانے کا کام نہیں کیا ہے-

پاکستان میں پی پی پی ،اے این پی ،ایم کیو ایم جیسی لبرل جماعتوں کی نام نہاد جہادی و عکسریت پسند سیاست کے خلاف ناکامی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اپنے لبرل خیالات کو سمجھوتوں کی نظر کرتی رہی ہیں-جب بھی پاکستان میں لبرل خیالات کے خلاف کوئی مذہبی و جہادی ابھار پیدا ہوا تو آسان رہ یہ سمجھی گئی کہ لبرل خیالات سے دست بردار ہوکر خود کو جہادیوں سے زیادہ جہادی اور بنیاد پرستوں سے زیادہ بنیاد پرست ثابت کیا جائے-

صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی دائیں بازو اور اسٹبلشمنٹ کی طرف سے آنے والے قوم پرستی اور قومی غیرت کے نعروں کے ہمنوا بن گئے-اور یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کی سیاسی جماعت کا نام نہاد جہاد اور گوریلہ چھاپہ مار جنگ کے بارے میں کیا خیال رہا ہے-

کیا پی پی پی کو اب بھی سمجھ نہیں آئی کہ ان کے صدر کو تمام اطراف سے جو حملوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟حسین حقانی کیوں اس قدر حملوں کی زد میں ہے؟اسوجہ سے نہ کہ وہ جمہوری پروسس کا حامی ہے-وہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی پالیسیوں کو پاکستان کے وجود کے لیس سنگین خطرہ سمجھتا ہے-وہ پاکستان کو دہشت گردی کو برآمد کرنے والی ریاست کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا-اور وہ پاکستان کی منتخب جموری قیادت کو پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کی تشکیل کے فیصلے دینے کا مطالبہ کرتا ہے-پاکستانی سیکورٹی اور انٹیلیجنس اداروں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلسل پاکستان میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو امداد فراہم کر رہے ہیں-اور جب منصور اعجاز جیسا آدمی یہ کہتا ہے کہ صدر زرداری کا کسی ادارے پر کوئی کنٹرول نہیں ہے تو پھر ان شبھات میں اور اضافہ ہوجاتا ہے-بہت سارے شواہد اب اکٹھے ہو گئے ہیں جس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اسٹبلشمنٹ ایک متوازی حکومت قائم کر کے جمہوری حکومت کو بےبس اور ناکام بنا رہی ہے-کیری لوگر بل پر جی ایچ کیو سے جاری پریس ریلز ہو یا آئی ایس آئی ک وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے حکم پر جرنیلوں کا ایک مقامی ہوٹل میں اکٹھ ،کیانی اور پاشا کی مدت ملازمت میں اضافہ کے معاملے پر کور کمانڈرز کا اتحاد ہو یا جنرل وائیں کے تقرر پر اصرار،فارن آفس پر آئی ایس آئی کا غیر معمولی دباؤ ہو یا پھر ججز کی بحالی کو روکے رکھے جانے پر اصرار ،اسی طرح سے حکومت کو بون کانفرنس میں جانے سے روکنے کا معاملہ ہو ،یا بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے سے روکنا ہو-یہ سارے واقعات ایسے ہیں جو جو اسٹبلشمنٹ کی متوازی حکومت کے قائم ہونے کو سچ ثابت کرتے ہیں-کیا اس متوازی حکومت کے ہوتے ہوئے پاکستان ایک مستحکم جمہوری ملک بن سکتا ؟کیا پاکستان کی عالمی برادری میں قائم تنہائی دور ہو سکتی ہے؟کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں ہے کہ بون کانفرنس میں پاکستان سے کوہ ہمالیہ سے اونچی دوستی رکھنے والے بھی موجود تھے-اور پاکستان کا بھائی کہلانے والا سعودیہ ارب بھی موجود تھا-اور ترکی بھی تھا-جب ایران جیسا ملک امریکہ اور مغرب کے ساتھ اپنی تمام تر لڑائی کے باوجود جا سکتا ہے تو پاکستان بون میں کیوں نہیں گیا؟اور اس طرح نہ جانے سے حکومت کو کیا فائدہ حاصل ہوا ؟صرف پوری دنیا کو یہی تاثر گیا کہ پاکستان سے اگر کوئی بھی معامله اگر طے کرنا ہے تو وو اس ملک کی فوجی قیادت سے طے کرنا ہوگا-

No comments:

Post a Comment