Monday, December 12, 2011

صدر زرداری کی بیماری اور استعفے کی افواہ

صدر زرداری کی بیماری اور استعفے کی افواہ

لیل و نہار/عامر حسینی

صدر زرداری کو دل میں تکلیف کے پیش نظر دبئی جو آنا پڑا تو ان کے مخالفوں کے ہاتھ ایک اور ایشو آ گیا کہ اب پھر ان کے جانے کی خبر گرم کی جائے -اور دل کو خوش کیا جائے-ایک مرتبہ پھر یہ خبر امریکہ سے آئی -ایک امریکی جریدے نے فرانسیسی خبره رساں ایجنسی کی دی گئی یہ خبر شایع کی کہ صدر زرداری طبی بنیادوں پر استعفا دے سکتے ہیں-اس ایجنسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک امریکی اہل کار نے اس کو بتایا کہ اوبامہ سے بات کرتے ہوئے صدر زرداری خاصے لاتعلق سے نظر آئے-اور وہ میمو گیٹ ایشو پر خاصے دباؤ میں تھے-یہ بھی کہا گیا کہ پارلیمنٹ سے صدر کے م،شترکہ خطاب کے دوران مسلح افواج کے سربراہان غیر حاضر رہ سکتے ہیں اور حزب اختلاف بھی شریک نہیں ہوگی-

یہ خبر ہمارے ہاں بھی ان میڈیا تنظیموں کے اخبارات اور چینلز میں نمایاں طور پر شایع کی جو کہ صدر زرداری سے سیاسی اداکار کا خطاب پا چکے ہیں-آخر ایسی خبریں شایع کرنے کا مقصد کیا بنتا ہے؟اور صدر زرداری نے آخر کون سا جرم کر دیا ہے کہ ان کے جانے کے لئے اس قدر بیتابی دکھائی جا رہی ہے-

صدر زرداری کی رخصتی کی سازشیں کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ ان کو غیر آئینی طور پر اگر رخصت کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو کیا یہ بات ثابت نہیں ہو جائے گی کہ اسٹبلشمنٹ سرائیکی ،بلوچ،سندھی ،پنجابی اور دیگر اقوام کی اکثریت کا اعتماد رکھنے والی حکومت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں تھی-اور اس نے ایک مرتبہ پھر عوام کے منتخب نمایندہ کو اقتدار سے محروم کر دیا -اس ایک اقدام سے فیڈریشن کو کتنا بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے ؟کیا اس بارے بھی سوچا گیا ہے-

پاکستان کے وفاق کو اگر کوئی نظام اب بچا سکتا ہے تو وہ جمہوری نظام ہے-پاکستان کی وفاقی اکائیوں کو اگر اکٹھا رکھا جا سکتا ہے تو وہ جمہوریت کے ذریعہ ہی ممکن ہے-اگر جمہوریت کو نقصان پہنچایا گیا تو اس حکومت نے جو تمام وفاقی اکائیوں کو جمہوری پروسس کے تحت جوڑا تھا وہ پروسس ناکام سمجھا جائے گا-اور اس عمل سے وہ لوگ ٹھیک سمجھے جائیں گے جو وفقہ کے اندر رہتے ہوئے اور پنجاب کے ساتھ ہوتے ہوئے کسی قسم کے انصاف کو مسترد کرتے ہیں اور الگ ہونے کی بات کرتے ہیں-

اس وقت جس طرح سے جمہوری حکومت کو ایجنسیوں اور اسٹبلشمنٹ کے گندے کھیل کے ذریعہ سے گھر بھیجنے کی تیاری ہو رہی ہے-وہ پاکستان کی سلامتی کے لئے سخت خطرہ ہے-ایک طرف تو اسٹبلشمنٹ اس خطہ میں عالمی قوتوں کے درمیان جاری جنگ میں پاکستان کو ایک بری ریسٹ کے طور پر پیش کرنے پر تلی ہوئی ہے-وہ حکومت پر بھی دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ساری دنیا سے لڑائی مول لیکر طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کی حفاظت کرتی رہے اور ان کو مہمان بنائے رکھے-دوسری طرف وہ ملک میں حکومت کو لبرل بنیادوں پر جمہوری سیاست کو جاریرکھنے میں روڑے اٹکا رہی ہے-میمو گیٹ ایشو پر لندن جا کر منصور اعجاز سے ملنے والے جنرل پاشا کو بھی تو اب تفشیش کے دائرے میں لیا جائے اور جنرل کیانی کو بھی -کیونکہ اس نے اب ان پر بھی تو الزامات لگائے ہیں-اگر منصور اعجاز سچا آدمی ہے تو اس کے سارے بیانات پر کیمشن بننا چاہئے-اور جس طرح حقانی نے استعفا دیا ہے -اسی طرح سے ان جرنیلوں کو بھی استعفا دے دینا چاہئے-اصولی طور پر تو فوج کے سربراہ جنرل کیانی کو ایبٹ آباد والے ہلے کے بعد مستففی ہو جانا چاہئے تھا-اسی طرح پاک فضہ کے سربراہ کا استعفا آنا چاہئے تھا-مہران ناول بیس پر حملہ کے بعد بھی کسی کا استفا نہیں آیا تھا-یہی کچھ نیٹو کے پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کے بعد ہوا -ساری ذمہ داری آصف علی زرداری پر کیوں دہلی جا رہی ہے-اور اسٹبلشمنٹ سے کوئی جواب طلب نہیں کرتا ہے-قربانی کے لئے سیاست دنوں کی تلاش جاری ہے-

اسٹبلشمنٹ کی روش سب کو نظر آ رہی ہے-وہ اپنی طاقت اور اختیار کو ترک کرنے کو تیار نہیحی-پاکستان کی ماضی کی سیاسی تاریخ بھی گواہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ اپنے اختیار اور طاقت پر کوئی ضرب برداشت کرنے کی بجائے ملک کی تقسیم پر تیار ہوجاتی ہے-مشرقی پاکستان سے فوجی اسٹبلشمنٹ نے اس لئے ناطہ طور لیا کہ ان کو اقتدار دینے کا مطلب اپنے اختیار سے دستبرداری تھا-اور آج بھی یہ نظر آ رہاہے کہ پاور کی تقسیم کی بجائے پاور کی تقسیم کا مطلبہ کرنے والوں سے جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے-

صدر زرداری کو اسٹبلشمنٹ اور دائیں بازو نے دوسرا شیخ مجیب الرحمن بنانے کی کوشش کی ہے-اس وقت پنجاب میں در حقیقت ان کے خلاف اس قدر پروپیگنڈہ ہوا ہے کہ یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ صدر زردار اس ملک کے لئے سب سے زیادہ خطرہ کا سبب ہیں-بالی پنجاب کے شہروں میں صدر زرداری کے خلاف یہ تاثر مضبوط کرنے والے اس بات کو کامیابی سے چھپا رہے ہیں کہ صدر زرداری اور ان کی پارٹی کو ملک کے باقی حصوں میں بے بنہ مقبولیت حاصل ہے-اور ان کے ساتھ سندھی،سرائیکی ،بلوچ قوموں کی نمائندہ اکثریت بیٹھی ہے-اگرن کے خلاف کوئی اقدام ہوتا ہے تو پھر اس اقدام کے اس سے بھزیادہ خطرناک نتائج مرتب ہونگے جو مشرقی پاکستان پر فوجی آپریشن اور شیخ مجیب کی گرفتاری سے ہوئے تھے-زرداری،اسفند یار ولی ،الطاف حسین آپ مانیں یا نہ مانیں یہ سندھی ،سرائیکی ،مہاجر اور پختونوں کے نمائندہ لیڈر ہیں -ان کا متبادل تلش کرنے والی اسٹبلشمنٹ ایک مرتبہ پھر ملک کی تقدیر سے کھیلنے کا فیصلہ کرے گی-اور اس وقت جو ملکی اور بین الاقوامی حالت ہیں ان میں نقصان کا ازالہ بہت مشکل ہوگا-

اسٹبلشمنٹ جو کھیل کھیلنے جا رہی ہے -اس سے پنجاب کے شہری علاقوں کے اوم اسی طرح سے بیخبری کا مظاھرہ کر رہے ہیں -جو انھوں نے ٧١ میں کیا تھا-یہ اس وقت بھی اسٹبلشمنٹ کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈہ کو سچ سمجھ کر شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کو گالیاں دے کر یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ ملک اور وفاق کی خمت کر رہے ہیں-لکین جب ڈھاکہ والوں نے آزادی لے لی-اور پلٹن کے میدان میں ٩٠ ہزار قیدی بن کر آدھ ملک گنوا دیا گیا تو ہوش آیا -آج بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے-پنجاب میں جمہوریت پسند لوگ اپنی آوازیں بلند کر کے لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہیں ہیں-پاکستان کی قومیں اب آمریت کے سسئی میں اکٹھا رہنے کو تیار نہیں ہیں-وہ اپنے وسیل اور حق حکمرانی پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتیں -وہ کسی ایک نسلی گروہ کے حق حکمرانی کہ لئے اپنے حق حکمرانی کی قربانی دینے کے لئے تیار نہیں ہیں-بابر اعوان نے ٹھیک کہا ہیکہ صدر زرداری کے تابوت میں کیل ٹھونکنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کیلیں وفاق کے تابوت میں تھوکی جا رہی ہیں-

No comments:

Post a Comment