Thursday, November 10, 2011

پردۂ غیب سے کیا ظاہر ہونے والا ہے؟

پردۂ غیب سے کیا ظاہر ہونے والا ہے؟
تحریر :عامر حسینی
اس وقت یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کی سیاست کے اہم کھلاڑی پنجاب کو اپنی سیاست کا مرکزی فوکس بناے ہوئے ہیں-مسلم لیگ نواز کا جو اجلاس رائے ونڈ میں میاں نواز شریف کے گھر پر ہوا -اس میں پہلی مرتبہ میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے بھی شرکت کی-وہاں سے یہ خبریں ملی ہیں کہ مریم نواز شریف کو میدان سیاست میں اتارا جا رہا ہے-ان کو سیاست میں اتارے جانے کا ایک تو مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں خواتین کے اندر مسلم لیگ نواز کو مقبول بنانا مقصود ہے-مسلم لیگ نواز کے لوگوں کے مطابق اس وقت مسلم لیگ کو ایسی نوجوان خاتون کی اشد ضرورت ہے جو پنجاب میں تاجروں،مڈل کلاس پرتوں کی خواتین خاص طور پر نوجوان خواتین کو پاکستان تحریک انصاف میں جانے سے روک سکے-اس سے قبل میں نواز شریف اور شہباز شریف نے حمزہ شیباز شریف کو میدان میں اس لئے اتارا تھا کہ وہ نوجوانوں کو مسلم لیگ کی طرف راغب کر سکیں-لکین لگتا ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کی امیدوں پر اس طرح سے پورا نہیں اترے -جس کی امید کی جا رہی تھی-وہ مسلم لیگ کے نوجوانوں کے لئے متاثر کن اور سحر انگیز اور کرشماتی شخصیت ثابت نہیں ہو سکے-مریم نواز کی سیاست میں آمد مسلم لیگ نواز کے لئے سیاست میں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوسکے گی-پی پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری بلاول کو پہلے لئے سیاست کے میدان میں اتار چکے ہیں-ان کے لئے لیاری کا قومی اسمبلی کا حلقہ بھی چن لیا گیا ہے-جبکہ یوسف رضا گیلانی نے اپنے بیٹے قادر گیلانی کو متحرک کر دیا ہے-دوسری طرف شاہ محمود قریشی اپنے بیٹے زین قریشی کو میدان میں اتار چکے ہیں-چوہدری برداران مونس الہی کو سامنے لیکر آئے ہیں-یہ پاکستان کے طاقتور سیاستدانوں کی نوجوان اولاد پاکستانی سیاست میں کسی تبدلی کا سبب بن سکے گی؟کیا پاکستان کی نوجوان نسل ان نوجوان چہروں کی تازگی سے متاثر ہو کر ان کو اپنا رہبر اور رہنما ماں لیں گے؟یہ سوالات ایسے ہیں کہ ان کا ایک جواب تو یہ بنتا ہے کہ یہ نوجوان اپنے اپنے خاندان کے سیاسی ورثہ کو بچانے کے لئے میدان میں آئے ہیں-ان کے پیش نظر سیاست پر اپنے خاندانوں کی اجارہ داری برقرار رکھنے کا ہدف زیادہ اور پہلی اہمیت کا حامل ہے-ان نوجوان لیڈروں کو جہاں اپنے خاندانوں کی سیاسی پہچان کا فائدہ ہے-وہاں پر ان خاندانوں کے ساتھ جو بدنامیاں لگی ہوئی ہیں ان کا نقصان بھی کافی ہے-مرمیم نواز شریف پنجاب کی نوجوان خواتین کو اس وقت متاثر کر سکتی ہیں -جب وہ کم از کم نواز لیگ کے روایتی سلوگنز سے ہٹ کر اس نسل کی امنگوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کریں-یہ بات بہت واضح ہے کہ پنجاب کی شہری آبادی کے نوجوان مرد اور عورتوں کی اکثریت نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی سیاست سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کی طرف جا رہی ہے-یہ نوجوان ٨٨ کے بعد سے لیکر اب تک چلی آنے والی سیاست سے بہت زیادہ بیزار ہیں-یہ کرپشن کے خلاف تو ہیں ہی-یہ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیوں کے ڈسے ہوئے بھی ہیں-اسی لئے ان کو عمران خان کی طرف سے میرٹ اور انصاف کو سلوگن بہت زیادہ اپیل کر رہا ہے-پنجاب کے اربن مرکز میں خصوصی طور پر اور پورے پنجاب میں عمومی طور پر پڑھے لکھ نوجوانوں میں سفارش ،بے انصافی اور کرپشیں کے خلاف سخت نفرت موجود ہے-اور یہ نوجوان نسل ان تین برائیوں کا سبب دو بڑی سیاسی پارٹیوں کو خیال کرتی ہے-مسلم لیگ نواز ہی پنجاب میں نوجوان نسل کی حمایت سے محروم نہیں ہو رہی بلکہ دیگر جماعتوں کو بھی نوجوان نسل کی طرف سے حمیت نہیں مل رہی ہے-مسلم لیگ نواز تحریک انصاف کو لکھ اسٹبلشمنٹ کی جماعت کہیں-عمران خان کی اصلاح پسندی پر مجھ سمیت دوسرے لوگ کتنی ہی ٹھوس تنقید کر لیں-پنجاب کی خصوصی طور پر نوجوان نسل روایتی سیاسی جماعتوں سے باغی ہو چکی ہے-مریم نواز ،بلاول بھٹو زرداری کی طرف اس نوجوان نسل کا جھکاؤ ایک مشکل ٹاسک نظر آ رہا ہے-
پی پی پی اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کیا سوچ رہی ہے -اس کا اندازہ ہم یوں کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی سیاست کے محور پنجاب میں سب سے زیادہ پنجاب کی تقسیم کے ایشو کو بنا رکھا ہے-پی پی پی اپر پنجاب کے حوالے سے شائد کسی حد تک خود کو ناکام خیال کر رہی ہے-کیونکہ اپر پنجاب میں اس کے پاس کوئی ایسا آدمی بھی نہیں ہے جو وہاں لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا رکھ سکے-اپر پنجاب میں پی پی پی کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ وہ وہاں پر محنت کشوں کی سیاست کا ایجنڈہ لیکر سامنے آتی-لکین اس کی جاگیردار اور سرمایہ دار قیادت کی موقعہ پرستی اس کو ایسا کوئی بھی ایجنڈہ سامنے لیکر آنے سے روک رہی ہے-اپر پنجاب میں اس کے پاس زمینداروں،متوسط طبقے کے سیاسی لیڈروں اور سرمایہ داروں سے تعلق رکھنے والی جو قیادت ہے -ان کو اپنے اپنے طبقے میں وہ اثر رسوخ نہیں ہے جو مسلم لیگ نواز کی قیادت کو حاصل ہے-یا اب تحریک انصاف کو ملا ہوا ہے-اس لئے وہاں پر پی پی پی کی خواہش یہ ہے کہ یشن دائیں بازو کا پی پی پی مخالف ووٹ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو اور اپر پنجاب سے کوئی بھی پارٹی اکثریتی پارٹی بن کر نا ابھرے-جبکہ وہ جنوبی پنجاب میں سیاست کو الگ صوبے کے ایشو کے گرد ہی رکھنا چاہتی ہے-اسی لئے پی پی پی نے پنجاب کی تنظیم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے-وسطی پنجاب کی تنظیم اس وقت ساہیوال ،لاہور،فیصل آباد ،راول پنڈی ،گوجرانوالہ ،سرگودھا ریجنز پر مشتمل ہے-جس کے صدر اب صفدر ورائچ ہیں-جبکہ جنوبی پنجاب کی تنظیم ملتان،بہاول پور ،ڈیرہ غازی خان ،ریجنز پر مشتمل ہے-جس کے صدر مخدوم شہاب الدین کو بنایا گیا ہے-انھوں نے صدر بننے کے ساتھ ہی شد و مد سے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات شروع کی ہے-آنے والے دنوں میں پی پی پی جنوبی پنجاب کو یہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ساری سیاست کا محور و مرکز الگ صوبہ کو بنائے-یہ ایک ایسا ایشو ہے جس کی وجہ سے اس خطہ میں نا صرف مسلم لیگ نواز دفاعی انداز میں کھیلنے پر مجبور ہے-بلکہ یہاں پی پی پی سے ناراض شاہ محمود قریشی کا گروپ اور مسلم لیگ ق کے پی پی پی سے اتحاد کی وجہ سے الگ رہ کی تلاش میں نکلے ڈیرہ غازی خان کے لغاری اور رحیم یار خان کے ترین بھی مشکل کا شکار ہوں گے-پی پی پی جنوبی پنجاب میں جمشید دستی سے ردکل اور تیز تر کام لے سکتی ہے-جو اس کے حریفوں کو مزید پیچھے دھکیل سکتا ہے-شاہ محمود قریشی اور مرزا ذوالفقار کے گروپ ایسے ہیں جو جنوبی پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کی مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں-صدر زرداری جن کو بہترین سیاسی کھلاڑی کہا جا رہا ہے-اب تک ان دو بڑوں کے ساتھ نمٹنے میں ناکام رہے ہیں-شہمھمود قریشی اگر تحریک انصاف میں نہیں جاتے -اور ذوالفقار مرزا بھی کسی اور جگہ نہیں جاتے -اور پی پی پی کے لیبل کو بھی نہیں اتارتے -اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ شہید بنظر بھٹو کی سیاسی میراث کے دعوے دار بھی رہتے ہیں-اور وہ کرپشن اور ملکی اداروں کی بعد حالی کے سلوگنز کو بھی ساتھ رکھتے ہیں -تو پھر جنوبی پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کے اندر اور باہر سے وہ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں-جو پی پی پی کے کارکن یا حامی تصور کے جاتے ہیں-جنوبی پنجاب اور سندھ میں شاہ محمود اور ذوالفقار مرزا کی طرح کچھ اور سیاست دان بھی ہیں-جو اپنا حلقہ اثر رکھتے ہیں-اور ان کی شہرت بھی نیک ہے-یہ سارے لوگ اگر پی پی پی کے شریک چیرمین کے خلاف یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھے ہو گئے-اور یہ آگے چل کر موجودہ حکومت کے خلاف محرم کے بعد تحریک چلنے پر اتفاق کر لیتے ہیں -تو پھر سیاسی نقشہ وہ نہیں ہوگا -جو پی پی پی اپنے ذھن میں رکھے ہوئے ہے-تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کو مختلف قوتیں یہ باور کرا رہی ہیں کہ وہ اگلے انتخاب کا انتظار نہ کریں-سینٹ کے انتخاب سے قبل ہی اسلام آباد کا رکھ کر لیں-زرداری ہٹاؤ مہم چلائی جائے-میاں نواز شریف زرداری ہٹاؤ مہم پر اتفاق کرچکے ہیں-ان کی طرف سے یہ عندیہ نظر آ رہا ہے کہ وہ محرم کے بعد زرداری ہٹاؤ تحریک کو نکلی سطح تک لے جائیں گے-جب کہ عمران خان کی جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بھی چند دنوں تک کوئی اصولی فیصلہ لینے والی ہے-شہمھمود قریشی ٢٧ نومبر کو گھوٹکی جلسہ میں ملک بچاؤ مہم کا آغاز کرنے والے ہیں-ذولفقار مرزا بھی سندھ کے شہروں میں جلسے کر رہے ہیں-سندھی قوم پرست بھی میدان میں آ رہے ہیں-ان سب کی مہم کا مقصد مرکزی حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات ہیں-اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آئینی راستہ تو ہے نہیں-اگر لانگ مارچ ہوتا ہے-حکومت تحریک کو زبردستی روکتی ہے-سیاسی جبر کا دور آتا ہے تو کیا یہ طریقہ پی پی پی کی حکومت کو فوجی مداخلت سے بچا سکے گا؟اگر فوج اور مقتدر طاقتیں صدر زرداری کو استعفا دینے پر مجبور کرتی ہیں تو کیا صدر زرداری ایسا کر دین گے؟صدر زرداری ایسا نہیں کرتے اور جواب میں فوج زبردستی ایسا کرتی ہے تو کیا حزب اختلاف کی پارٹیوں میں پھر سے پہلے انتخاب پھر احتساب یا پہلے احتساب پھر انتخاب والا اختلاف سامنے نہیں آئے گا؟یہی وہ اختلاف تھا جس نے قومی اتحاد میں پھوٹ ڈلوا دی تھی-اور ضیاء الحق ١١ سال حکومت کرتے رہے تھے-نوجوان نسل پاکستان میں کرپٹ سیاسی سماجی نظام سے نجات کے لئے سڑکوں پی آنے کے لئے بچیں ہے-سڑکوں پر یہ نئی نسل اگر ای تو پھر ان کی جدوجہد صرف زرداری ہٹاؤ مہم تک محدود نہیں رہے گی-اگر اس تحریک میں محنت کش طبقہ بھی شامل ہوگیا تو پھر یہ تحریک اور کئی قسم کے زیادہ ریڈکل سلوگنز کو بھی اپنا سکتی ہے-یہ تحریک ارب انقلاب کی تراز بھی اختیار کر سکتی ہے-جب حکومت کو ہٹائے جانے کے لئے سڑک سیاست کا انتخاب ہوتا ہے تو اس میں کئی طرح کے امکانات اور خدشات چھپے ہوتے ہیں-اور تحریک بھی پھر لیڈروں کی آرزوں کے مطابق نہیں چلا کرتی -یہ وہ خدشات ہیں جن کی وجہ سے عمران خان،میاں نواز شریف،شاہ محمود اور دیگر حکمران طبقات کے لوگ تحریک کو فی الفور چلانے میں تذبذب کا شکار ہیں-حکمران طبقات کی یہ تقسیم اور تذبذب نیچے سے بحران کے نیتجے میں اٹھنے والی بے چینی اور اس کے نتیجہ میں لوگوں کے باہر نکل کے آنے کے خطرے کو دور نہیں کر سکتے-معاشی بحران،مہنگائی میں اضافہ ،بے روزگاری کا طوفان،مسلسل بیروزگار ہوتے مزدور ،اور بند ہوتے کارخانے اور تباہ ہوتے چھوٹے کاروبار ،مڈل کلاس پرتوں پر بڑھتا ہوا بوجھ کسی بھی وقت عوام کی مختلف پرتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کر سکتا ہے-اور ایک بڑا سیاسی سماجی عبار دیکھنے کو مل سکتا ہے-

No comments:

Post a Comment