Friday, November 4, 2011

کیا نئی سیاست کا آغاز ہونے والا ہے ؟

کیا نئی سیاست کا آغاز ہونے والا ہے ؟
لیل و نہار/عامر حسینی
عمران خان کے تیس اکتوبر والے جلسہ کا چرچا اب تک ہے-اس پر درجنوں کالم اور مضمون ،تجزیے آ چکے ہیں-سب عمران خان کو نئی سیاست کا آغاز کرنے والا کہ رہے ہیں-ایک جلسے کے بعد میں سٹریم میڈیا میں بیٹھے سیاسی پنڈت عمران خان کو اب بھٹو کے برابر لانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں-لکین نجانے کیوں مجھے کارل مارکس کی شہرہ آفاق کتاب"لوی پونا پارٹ کی اٹھارویں برومئر "میں لکھے الفاظ یاد آرہے ہیں-اس میں کارل مارکس نے لکھا تھا کہ "تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے-پہلی دفعہ یہ المیہ ہوتی ہے-دوسری دفعہ یہ طربیہ (کامیڈی)ہوتی ہے" اسی کتاب میں کارل مارکس نے لکھا تھا کہ "لوگ ماضی کے سورماؤں کا لباس پہن کر ماضی کو بھونڈے طریقے سے زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں"اب کوئی ماضی کے کسی سورما کا لباس پہن کر آ بھی جائے تو وہ وہ سورما تو نہیں ہوتا-نہ ہی وہ اس طرح کے زمانے میں پیدا ہوا ہوتا ہے جو ماضی کے سورما کا زمانہ ہوتا ہے-کچھ ایسا کچھ ہی عمران خان کی سیاست کے ساتھ بھی ہے-عمران خان صاحب کی سیاست بھٹو کی سیاست میں سے جو کچھ ڈھونڈ کر لا سکی ہے -وہ صرف ان کی سیاست میں کہیں کہیں پائے جانے والے پاکستانی قوم پرستی کے وہ اجزاء ہیں جن کو پاکستان میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کسی دانش وار نے آج تک رد نہیں کیا-ان کی سیاست میں "کرش انڈیا "کا سلوگن'ہزار سال تک جنگ لڑنے کی بات ،اعتم بم بنانے کی بات،فوج کا مورال بلند کرنے کی بات ،اور اس طرح کے وہ سارے کام جو بھٹو صاحب نے ایوب کی کابینہ میں بطور وزیر خارجہ کے تھے-یا پھر پاکستان ٹوٹنے کے بعد نئے پاکستان کی تعمیر کرتے ہوئے کے تھے-جن سے دائیں بازو کا نیشنل ازم طاقت وار ہوتا تھا-ان سب کو عمران خان نے اپنے سلوگنز کا حصہ بنا لیا ہے-لکین عمران خان کے ہاں محنت کشوں،کسانوں کے لئے کوئی انقلابی سلوگن نہیں ہے-عمران خان بھٹو کی طرح لفظ سرمایہ دار اور جاگیر دار نہیں بولتے-ان کے ہاں جاگیردار اور سرمایہ دار لوٹ کھسوٹ کی علامت نہیں بن پتے-وہ اس ملک کے ججز،جرنیل اور باوردی نوکر شاہی پر بھی نہیں برستے-ان کا سارا کا سارا غصہ یا تو نواز شریف پر نکلتا ہے-یا پھر زرداری پر نکلتا ہے-
٣٠ اکتوبر کو انھوں نے مینار پاکستان پر جو تقریر کی اس میں اہنوں نے ایک مرتبہ بھی لفظ سرمایہ دار ،جسگیردار استعمال نہیں کیا-اہنوں نے اس ملک کی وردی باوردی نوکر شاہی کی ساخت پر کسی قسم کی تنقید نہیں کی-ان کے خیال میں عوام کی ساری تکلیفوں کا سبب پٹواری ہیں یا پھر علاقے کے تھانیدار -وہ ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہ پائے کے اس ملک کی وردی باوردی نوکر شاہی حکمران طبقات کے مفادات کی محافظ ہے-یہاں وہ بھٹو سے بلکل مختلف نظر آئے-کیوں کہ بھٹو کے زمانے میں سیاست میں جہاں نیشنلزم عروج پر تھا -جس کا زیادہ اثر پنجاب میں تھا -تو ساتھ ساتھ بھٹو صاحب نے اپنی تقریروں میں اس ملک کے مزدوروں،کسانوں اور پسے ہوئے طبقہ کو یقین دلیہ تھا کہ وہ ان پر ظلم ڈھانے والوں کو عبرت کا نشان بنا دین گے-
پی پی پی کی بنیادی دستاویز کو اٹھا کر دیکھئے -اس میں آپ کو سوشلزم اور عوامی راج بارے جو تحریر ملے گی اس سے صاف اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھٹو صاحب کی سیاست کا جو امتیازی نشان بنتا ہے-وہ سلسلہ تو عمران خان کے ہاں نظر ہی نہیں آتا-
کیا وجہ ہے کہ عمران خان اپنی تقریر میں سرمایہ داری کے بحران پر ایک لفظ بھی نہیں بولے-اہنوں نے پاکستان کی عوام کی غربت میں ان پالسیوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی زرہ بھر بھی کوشش نہیں کی جن کی وجہ سے نجکاری ہوئی-لاکھوں لوگوں سے نوکریاں چین لی گئیں-انھوں نے غربت اور مہنگائی بڑھنے میں سٹیٹ بنک کی آزادی اور فنانس منسٹری کے ہاتھ پاؤں باندھنے کی کوششوں کا ذکر تک نہ کیا-انھوں نے عوام کے خلاف بنانے والے ان کارٹلز اور اجروں کا بھی ذکر نہیں کیا -جن کے نتیجہ میں اس ملک میں لوہا،چینی ،سیمنٹ ،گھی ،گندم سب چیزیں مہنگی ہو گئیں-وہ مالیاتی پالیسیوں پر بھی کچھ نہیں بولے-اہنوں نے جب سیاست دانوں سے اپن منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں اور کھاتوں کو عوام کے سامنے لانے کا مطلبہ کیا تو اس موقعہ پر وہ پھر وردی باوردی نوکر شاہی اور عدلیہ کے ججز صاحبان کو بھول گئے-وہ زرد صحافت کرنے والوں کو بھول گئے-یہ بھولنا مجھے کچھ شعوری لگتا ہے-عمران خان نے اس جلسہ میں مزدوروں کی تنخواہ بڑھنے کا ذکر کیا -لکین ان کے ترید یونین رائیٹس کی بات نہیں کی-وہ تعلیم کے ایشو پر بولے لکین انھوں نے تعلیم کی نجکاری پر ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا-انھوں نے صحت کی نجکاری کے خلاف بات نہیں کی-مجھے ان کی تقریر سن کر یہ خیال آتا رہا کہ عمران خان کی اصلاح پسندی تو ماضی کی سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوں جتنی ردکل بھی نہیں نکلی-جو کم از کم ریاست کے کردار کو زیادہ سے زیادہ مزدوروں ،کسانوں ،مڈل کلاس کے حق میں کرنے کی کوشش کرتی تھی-عمران خان بھٹو بننے کے خواہش مند ہیں-مگر سوشل ریفارمز کے بغیر-اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی پارٹی میں ہمیں اکثریت میں مڈل کلاس (پروفیشنل پرتیں،بیروزگار نوجوان ،چھوٹے کاروباری،میڈیم سطح کا مینو فکچرر )نظر آتی ہے-جو اس بات پر تنگ ہے کہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومت ان پر بوجھ ڈالنا چاہتی ہے -ٹیکس ریفارمز کا-بجلی،گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے چھوٹا کاروباری اور مینو فکچرر تباہ ہورہا ہے-اور اس کے دیوالیہ ہونے سے پروفیسنیلز کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑھ رہے ہیں-مارکیٹ میں نئے آنے والے مڈل کلاس کے نوجوانوں کو روزگار یا نوکری نہیں مل رہی-ان چھوٹے سرمایہ داروں کو بینک بھی سستے قرضے نہیں دے رہے -نہ ہکموتی پروجیکٹس ان کو مل پا رہے ہیں-اس کے ساتھ ساتھ حکومت ایسی کٹوتیاں کر رہی ہے -اور ایسے ٹیکسز لگنے پر بزد ہے -جن کا اثر اسی مڈل کلاس کی پرتوں پر پڑتا ہے-تو یہ پرتیں احتجاج کے موڈ میں ہیں-یہ روایتی پرتیں اس سے قبل میاں نواز شریف کو پنجاب میں سپورٹ کرتی آئیں تھیں-ان کو مسلم لیگ کی قیادت نے مایوس کیا ہے-اسی لئے ان پرتوں کا رجحان اب عمران خان کی طرف ہوا ہے-لکین عمران خان کی اب تک باتوں سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ مالیاتی سرمایہ کے کیک کے بڑے حصہ پر قابض ان سرمایہ داروں سے بھی کیا لڑائی لڑیں گے جن کے دباؤ کی وجہ سے حکومت مڈل کلاس اور محنت کشوں پر بوجھ بڑھا رہی ہے-ان کی تقریروں میں ڈھونڈھے سے بھی یہ پتہ تک نہیں چلتا کہ وہ عالمی مالیاتی اداروں اور سامراج کی معشیت کے میدان میں سامراجیت کا کیسے مقابلہ کریں گے-اہنوں نے پنجابیوں کو پاکستان میں ڈالروں کی بہار آنے کی خوشخبری سنائی تو مجھے خیال آیا کہ عالمی سرمایہ داری جس کساد بازاری سے گزر رہی ہے -اس کے ہوتے ہوئے پاکستان میں سرمایہ کاری کے آنے اور یہاں معشیت میں بوم کے آنے کی نوید سنانا تو بہت عجیب لگتا ہے-عمران خان سے وابستہ مڈل کلاس کی پرتیں اور خود عمران خان موجدہ سرمایہ داری کی فری مارکیٹ کے ماڈل سے مایوس نہیں ہیں-ان کے ساتھ نوجوان سمجھتے ہیں کہ پرانی ریاستی مشینری اور معشیت کے سرمایہ دارانہ ڈھانچے میں کسی بھی قسم کی انقلابی تبدیلی کی بجائے وہ اسسمبلی میں مسٹر کلین لوگوں کو لیجا کر جب بیٹھا دین گے تو سرمایہ داری کا موجودہ ماڈل ساری سست بازاری کو ختم کر دے گا-پاکستانی معشیت کو پر لگ جائیں گے-اور پاکستان میں غربت،بھوک،مہنگائی ،بیروزگاری سب ختم ہو جائیں گی-وہ خیالی سوشلسٹوں کی طرح بہت آسان حل بھی بتلاتے ہیں-جو بہت سادہ اور دلفرائف بھی ہیں-"ہم سوئیس بنکوں سے لوٹی دولت لے آئیں گے""ہم امریکہ کو کہیں گے کہ ہم سے دوستی کرو لکین ہم آپ کی غلامی نہیں کریں گے""ہم تھر کا کوئلہ نکل لیں گے "مجھے ثمر مند مبارک کے بیانات یاد آئے جو انھوں نے پچھلے سال بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ دئے تھے-لکین وہ اب مانتے ہیں کہ اتنا آسان نہیں ہے تھر کے کوئلوں کو گیس میں بدلنا -عمران خان بہت سادگی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حل بتلاتے ہیں-ان کو سامراج اور سامراجیت کے بڑے میں بہت شدید ضرورت ہے پڑھنے کی-جیوپالیٹکس سے ابھرنے والی مسابقت کا خاتمہ اتنا آسان ہوتا تو ٧٠ کی پاپولسٹ سیاست سے ابھرنے والی قوم پرستی کا وہ حشر نہ ہوتا -جو ہم نے ہوتا دیکھا-عمران خان پنجاب کے شہری علاقوں کی مڈل کلاس ،چھوٹے کاروباری ،بیروزگار نوجوان اور پروفیشنل پرتوں کے مفادات اور دائیں سمت کے رجحان کے ساتھ ابھرنے والی قوم پرستی کے ترجمان بن کر ابھر رہے ہیں-بس یہ ہے وہ حقیقت جس کو یار لوگ کبھی بھٹو کی سیاست سے تو کبھی بے نظیر کی سیاست سے تعبیر کر رہے ہیں-عمران خان کی سیاست سے مزدوروں اور محنت کش پرتوں کو کچھ نہیں ملنے والا-نہ ہی ان کی سیاست میں سندھ،بلوچستان ،سرائیکی بیلٹ اور جنوبی خیبر پختونخوا کے نوجوانوں اور مڈل کلاس کے لئے کوئی کشش موجود ہے-عمران خان کا دیں بازو والا نیشنلزم ان کو جرنیلوں ،ججز اور باوردی نوکر شاہی کے خلاف کچھ بولنے نہیں دیتا -وہاں کی مڈل کلاس اور نوجوان اسی لئے سندھی،سرائیکی ،بلوچ اور پختون نیشنلزم کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتے ہیں-اسی لئے ان علاقوں میں عمران خان کو مقبولیت نہیں مل رہی-آنے والی دنوں یہ پہلو اور زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئے گا-

No comments:

Post a Comment