Monday, November 7, 2011

ایڈٹر تھا جس کا نام ..........

ایڈٹر تھا جس کا نام .............
لیل و نہار/عامر حسینی
ایک معاصر اخبار میں نوائے وقت کے مالک اور چیف ایڈیٹر محترم مجید نظامی کا ایک انٹرویو شایع ہوا ہے-اس انٹرویو میں انھوں نے اس بات کا رونا رویا ہے کہ آج کے زمانہ میں ایڈیٹر کا عہدہ غائب ہوگیا ہے-ان سے جب سوال کرنے والوں نے پوچھا کہ وہ کس ایڈیٹر سے متاثر ہوئے -تو انھوں نے" ڈان" کے ایڈیٹر الطاف قریشی کا نام لیا -میں یہ نام دیکھ کر چونک گیا-مجھے یاد آیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا -اس موقعہ پر وہ یہ بھی بتاتے کہ کیسے الطاف صاحب نے ریاست کے ان مقتدر لوگوں کی سازش ناکام بنا دی تھی -جو قائد اعظم محمد علی جناح کی ١١ اگست والی تقریر کو سنسر کرنا چاہتے تھے-کیونکہ اس تقریر کی بنیاد پر پاکستان کی ریاست کے آئین کی تشکیل اگر کی جاتی تو پاکستان کو کبھی بھی ایک ایسی مذہبی ریاست میں نہیں بدلا جا سکتا تھا -جو اس ملک کے جاگیر داروں،وردی و با وردی نوکر شاہی کی جاگیروں اور آمرانہ طرز حکمرانی کا تحفظ کرتی ہو-
محترم مجید نظامی اس واقعہ کو ایڈیٹر کی ہمت اور بیباکی کے طور پر پیش کر سکتے تھے-لکین انھوں نے ایسا نہ جیا-اس کی جو وجہ مجھے سمجھ آتی ہے -وہ یہ ہے کہ یہ تقریر خود اس سارے جھوٹ کا پول بھی کھول دیتی ہے جو محترم مجید نظامی کا اخباری گروپ "نظریہ پاکستان "کے نام پر اتنے عرصۂ سے بولتا آ رہا ہے-ظاہر جب آپ جھوٹ بولتے ہیں تو اس کے پیچھے مفادات کی کہانی ہوتی ہے-یہ مفادات "نظریہ پاکستان ٹرسٹ "کی صورت میں بھی تو سب کے سامنے ہیں-پھر پرانی نوائے وقت کے دفتر والی عمارت بھی تو اس کا ایک ثبوت ہے-جو محترم حمید نظامی اور مجید نظامی نے مہاجر بن کر الاٹ کرالی تھی-سب جانتے ہیں کہ دونوں بھائیوں کا تعلق سانگلہ ہل سے ہے-اور شائد یہ انوکھا واقعہ تھا کہ سانگلہ ہل جیسے کسی پاکستان کے علاقہ سے لاہور آنے والے کو متروکہ املاک میں سے کوئی جائیداد الاٹ کردی گئی ہو-
اخبارات کے مدیروں کا تذکره چلا تو محترم مجید نظامی صاحب کو پاکستان ٹائمز اور امروز میں کام کرنے والے کسی مدیر کو مدیر ماننے کا حوصلہ نہیں ہوا -وہ فیض احمد فیض،چراغ حسن حسرت،ظہیر بابر کشمیری ،احمد ندیم قاسمی ،حمید اختر ،مسعود اشعر،سردار احمد علی کسی کو بھی ٹھیک طرح کا مدیر ماننے کو تیار نظر نہیں آئے-فیض احمد فیض ان کے نزدیک شاعر تھے-مدیر نہیں تھے-باقی نام تو ان کو یاد ہی نہیں آئے-انھوں نے ایک سچ بس محترم میر خلیل الرحمن صاحب کے بارے میں بولا کہ وہ جب ایوب خان سے ملنے گئے تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ جو اخباری مالک صحافتی آزادی مانگتا ہے وہ اس کو دے دی جائے-مجھے تو اشتہارات چاہئیں-کاش وہ یہ بھی تو بتادیتے کہ ضیاء الحق اپنے زمانے میں مغرب کی طرف سے صحافت کی آزادی کو مصلوب کرنے کے سوالات کے جواب میں اپنے دور میں نوائے وقت گروپ کی ترقی کا حوالہ دیا کرتے تھے-کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ جب دوسرے اخبارات مسلسل دباؤ کا شکار تھے-صحافیوں کو کوڑے پڑ رہے تھے تو ان کا اخبار ترقی کیسے کر رہا تھا؟اور اگر وہ واقعی ضیاء الحق کی آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے تھے -تو ضیاء الحق کے جبر کا شکار ان کا گروپ کیوں نہ بنا ؟
آج سوائے "روزنامہ ڈان "کے کسی اور ادارہ میں مدیر آزادی کے ساتھ کام نہیں کرتا-کئی اخبارات نے تو اس عہدہ کو گھر میں ہی رکھ لیا ہے-باپ بیٹا چیف ایڈیٹر اور ایڈیٹر بن بیٹھے ہیں-آزادی صحافت کا گلہ تو خود اخباری مالکوں نے اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیا ہے-
صحافت پر بات کرتے ہوئے -مجید نظامی ضمیر نیازی کی کتابوں کا تذکرہ بھول گئے-ان کی ایک کتاب "صحافت پابند سلاسل "میں بہت سی کہانیاں موجود ہیں-جن میں محترم مجید نظامی اور ان کے گروپ کا تذکره بھی موجود ہے-
ویسے ضمیر نیازی کی کتاب "صحافت پابند سلاسل "کے ساتھ پچھلے دنوں ایک ہاتھ آکسفورڈ پریس نے کیا -اس کتاب میں جو بھٹو اور ضیاء الحق کے دور میں جو سیاست کو پابند سلاسل کرنے کا احوال تھا -اس کو سرے سے غائب کر دیا گیا -آکسفورڈ پریس نے یہ کیوں کیا معلوم نہیں ہے-
پاکستان میں صحافت کی تاریخ تعصبات سے الگ ہو کر اور پورے سچ کے ساتھ کون لکھے گا-مدیر کی سیٹ پر بیٹھنے والے ضمیر نیازی نے تو اپنا فرض ادا کر دیا-لکین یہاں ابھی تک کوئی خشونت سنگھ جیسا بیباک مدیر نہیں جنم لے سکا -جو صحافت کی دنیا میں لوگوں تک خبر کو پہنچانے سے روکنے کے لئے ہونے والی تمام کوششوں کا احوال ٹھیک ٹھیک قلمبند کر دے-

No comments:

Post a Comment