Sunday, June 8, 2014

جعلی سول سوسائٹی کے مفتی اور کاغذی شیر


خانیوال ڈسٹرکٹ پریس کلب میں راشد رحمان ایڈوکیٹ شہید کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا اور اس ریفرنس میں پہلے ہم سن رہے تھے کہ شاید عاصمہ جہانگیر ،آئی اے رحمان ،حسین نقی ،حنا جیلانی میں سے کوئی ایک آئے گا لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں آیا پتن ترقیاتی تنظیم کے سربراہ سرور باری اسلام آباد سے آئے تو سوال یہ زھن میں اٹھا کہ اسلام آباد سے سرور باری اگر اپنی گاڑی پر آسکتا ہے تو عاصمہ جہانگیر لاہور سے کیوں نہیں آسکتیں تھیں؟ ڈسٹرکٹ پریس کلب میں یہ تعزیتی ریفرنس جب منعقد ہوا تو مجھے شرکاء کو دیکھ کر لگا کہ اگر دسٹرکٹ پریس کلب کے 7 یا 8 صحافی اور ملک طارق نوناری کے ساتھ آنے والے تین وکیل اور ملتان سے آنے والے مہمانوں کو نکال دیا جائے تو شرکاء کی تعداد 20 سے 25 رہ جاتی ہے یہ 20 سے 25 افراد بھی اکرم خرم ایڈوکیٹ اور فرخ رضا ترمذی کی کوشش سے پریس کلب آئے وگرنہ اس جگہ پر مجھے ضلع خانیوال تو دور کی بات خود خانیوال سے تعلق رکھنے والی سول سوسائٹی یا سینکڑوں این جی اوز کا کوئی ایک بھی آدمی نظر نہیں آیا ابھی یوم مئی پر مزدوروں کے عالمی دن پر سول سوسائٹی نیٹ ورک کی ایک صدر جوکہ سابق ممبر ضلع کونسل بھی ہیں اور بہت سرگرم این جی او ورکر ہیں نے ایک این جی او فنڈڈ پروگرام جناح لائبریری میں منعقد کیا تھا اور اس میں ڈی سی او کو مہمان خصوصی بنیا جانا مقصود تھا جو نہ آئے مگر ويگنوں اور رکشوں میں بھر کر لوگ لائے گئے اور پورا ہال بھر لیا گیا تھا وہ سول سوسائٹی نیٹ ورک اس تعزیتی ریفرنس پر غائب تھا اور نظر نہیں آیا وجہ شاید یہ تھی کہ ایک تو راشد رحمان کے قتل پر آواز اٹھانا خطرے سے خالی نہیں ہے دوسرا اس پروگرام میں آنے جانے کا کرایہ اپنی جیب خاص سے بھرا جانا تھا اکرم خرم ایڈوکیٹ جو خانیوال میں انسانی حقوق کے ایک سچے سرگرم کارکن ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ ان کے منہ کو میں اس تعزیتی ریفرنس میں گیا ورنہ لاہور اور ملتان سول سوسائٹی کے نام پر لگنے والے تماشوں میں میرا دل نہیں کیا کہ وہاں جاؤں اور فوٹو سیشن کا حصّہ بنوں مجھے جب سٹیج پر تقریر کے لیے بلایا گیا تو میں نے وہاں پر جاکر وہی سوالات اٹھائے جو میں اپنے گذشتہ بلاگ بعنوان "راشد رحمان ،جعلی سول سوسائٹی "میں اٹھا چکا تھا اور میں نے انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کے مالکان کی مجرمانہ غفلت پر ایک مرتبہ پھر سے کڑی تنقید کی اور میں نے راشد پر حملے کے دوران زخمی ہونے والے ان کے ساتھی ندیم پرواز اور ان کے معاون کے مبینہ بزدلانہ کردار پر سوالات اٹھائے لیکن یہ بھی کہا کہ جب عاصمہ جہانگیر ،آئی اے رحمان راشد کے مقدمے میں مدعی نہ بنیں ،عاصمہ جنید حفیظ کے کیس میں اپنا وکالت نامہ دائر نہ کرے اور ایچ آرسی پی دوسری ایے آئی آر درج کرانے کی درخواست ایک مہینہ 48 گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی نہ دیں تو پھر یہ ندیم پرواز اور اللہ داد جیسے نمانوں سے کیسے امید کرتے ہیں کہ وہ ثابت قدم رہیں گے میں سمجھتا ہوں ملتان بار کے 7000 ہزار وکلاء میں سے کوئی راشد رحمان کا مقدمہ اس لیے بھی لڑنے کو تیار نہیں ہے کہ اس معاملے میں خود ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی اشرافیہ کا رویہ بہت غلط اور خود غرضانہ ہوا ہے اس تعزیتی ریفرنس میں مرحوم سید سجاد حیدر زیدی کی اہلیہ آپا سیدہ زھراء سجاد نے میری تقریر میں اٹھائے کئے سوالات کو بالکل جائز قرار دیا اور انھوں نے انکشاف کیا کہ جب عاصمہ جہانگیر راشد کے گھر پہنچیں جہاں راشد کی میت جنازہ گاہ لیجانے کو تیار تھی تو راشد کی بہن جوکہ بیوہ ہے اور اس کے تین بچوں کا راشد واحد کفیل تھا نے آگے بڑھ کر عاصمہ جہانگیر کی جانب سے تعزیت کرنے پر کہا کہ بی بی! میں راشد کے جنازے پر کوئی بدمذگی نہیں چاہتی لیکن تم نے اتنا بھی نہ سوچا کہ جس راشد نے ایک لکڑی کی عام سی کرسی پر سخت سردی اور شدید گرمی میں 31 سال تمہارے ادارے کی خدمت کی اس کے لیے ایک گارڑ کا انۃظام ہی کرڈالتیں ،آج جتنی پولیس اور گارڑ تمہارے ساتھ ہے ان میں سے محض ایک بھی راشد کے دفتر کے باہر ہوتا تو شاید میرا راشد تقدیر کو ٹال دیتا راشد کی بیوہ بہن کے یہ جملے عاصمہ جہانگیر اور پوری سول سوسائٹی کے جعلی لبرلز کے منہ پر طمانچہ ہیں اور آج راشد کے گھر میں سب سے بڑا مرد ایک اس کا بھانجا ہے جس کی عمر ابھی 12 سال ہے جب راشد کے قتل کی ایف آئی آر کٹانے کے لیے کوئی مدعی بننے کو تیار نہیں تھا تو یہ بھانجا تھا جو بار بار کہتا تھا کہ اسے مدعی بناؤ اور بقول آپا زھرا کے یہ 12 سالہ بچہ نام نہاد بہادر مردوں اور عورتوں سے کہیں زیادہ بہادر ہے آپا کو فون کرکے کہتا کہ آنٹی ! میں تو مما اور نانی کو سمجھا سمجھاکر تھک گیا ہوں کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں مگر نانی (راشد کی ماں) کہتی ہے کہ بیٹا عاصمہ جہانگیر نواز شریف اور شہباز شریف کے پاس خود چل کر کیزن نہیں جاتی اور میرے بیٹے نے جن کو نامزد کیا تھا ان کو گرفتار کرائے میں نے اس تعزیتی ریفرنس میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ عاصمہ جہانگیر جس طرح صائمہ ارشد کیس میں وکیل بنیں تھیں اور وہ افتخار چودھری کی بھی معاونت کرتی رہیں تو آج کیا وہ راشد اور جنید حفیظ کے کیس میں اپنا وکالت نامہ جمع کرائیں گی ؟اور کیا انسانی حقوق کمیشن کے وکلاء کی ٹیم کے ساتھ ملتان میں شفاف ٹرائل کے لیے جدوجہد کریں گی؟ یہ سوال ان پر قرض ہے اگرچہ انھوں نے ہائپر ہوکر پچھلی مرتبہ میرا فون کاٹ دیا تھا لیکن یہ سوالات ان کا پیچھا کرتے رہیں گے اکرم خرم ایڈوکیٹ نے ایک وضاحت کرکے میری یہ خوش فہمی بھی ختم کردی کہ لاہور میں تعزیتی ریفرنس کے دوران راشد کے مبینہ قاتلوں کی نامزدگی پر مبنی ایف آئی آر کے اندراج کی کوئی قرارداد پیش نہیں ہوئی بلکہ یہ قرارداد تو اسلام آباد میں اکر م خرم کی کوششوں سے پیش ہوئی اکرم خرم ،فرخ رضا اور ان جیسے سفید پوش طبقے کے درجنوں انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانوں کو جو خطرات لاحق ہیں اور ان کے حوالے سے جعلی سوسائٹی کے جعلی لبرلز جس خود غرضی کا ژطاہرہ کرتے ہیں اس سے یہ اندازا کیا جاسکتا ہے کہ سول سوسائٹی کے نام پر چلنے والے نیٹ ورکس میں بھی طبقاتی درجہ بندی موجود ہے راشد رحمان تو پھر بھی کسی حد تک لائم لآئٹ میں تھے اور ان کا حسب نسب بھی قابل زکر تھا لیکن اکر یہ افتاد کسی چھوٹے ٹاؤن کے کسی معمولی بیک گراؤنڈ رکھنے والے روشن خیال پر ٹوٹ پڑتی تو اتنا شور بھی نہ مچ پاتا جتنا راشد کے لیے بظاہر مجایا جارہا ہے راشد رحمان نے مزدوروں،کسانوں،بھٹہ مزدوروں ،مزارعین ،مظلوم و مجبور عورتوں کے 6000 ہزار سے زائد کیس عدالتوں میں دائر کئے ہوئے تھے اور یہ کیسز اب کون لڑے گا کچھ پتہ نہیں ہے انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کی قیادت نے بھی خاموشی اختیار کررکھی ہے اور انسانی حقوق و سول سوسائٹی کی دیگر ہزاروں تںظیموں کی جانب سے بھی ان بے وکیل ہوجانے والے افتاد گان خاک موکلوں کو اب تک گود لینے کا اعلان کسی جانب سے نہیں ہوا کیونکہ ان میں سے اکثر کیسز راشد مفت لڑ رہا تھا یہاں تک کہ کیس کی فائل پر اٹھنے والے اخراجات بھی راشد لیا نہیں کرتا تھا مگر ایس؛ دریا دلی گفتار کے غازی انسانی حقوق کے اشراف کہاں سے لیکر آئیں گے؟ سرور باری نے اپنی تقریر میں میرے سوالات کو جائز قرار دیا لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ ان کے خیال میں اسے ایشو نہیں بنانا چاہئیے مجھے معلوم ہے کہ سرور باری نہیں چاہیں گے کہ این جی او سیکٹر کے اشراف اور بڑے بروکرز سے تعلقات بکڑنے کے کافی نقصانات ہوا کرتے ہیں جو وہ افورڑ نہیں کرسکتے اور مشرف دور میں مفادات کا یہ ٹکراؤ سول سوسائٹی میں دیکھنے کو ملا تھا جب سرور باری ،حارث خلیق ،حسن ناصر ،فاروق طارق سمیت این جی او سیکٹر کا بڑا حصّہ نواز شریف کی اے پی ڈی ایم کا حصّہ بنا اور مجبور ہوکر بے نظیر بھٹو شہید نے بھی عاصمہ جہانگیر کے گھر سول سوسائٹی کا ایک اجتماع کیا اور مقصد مشرف کی نام نہاد لبرل حامی سول سوسائٹی کا زور توڑنا تھا اس زمانے میں سرور باری صاحب لاڑکانے سے بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کی سوچ رہے تھے اور جنرل تنویر نقوی کے بل بوتے پر بقول ان کے وہ مشرف سے وہ کام لینا چاہتے تھے جو بھٹو سے لیفٹ نہیں لے پایا تھا میں یہ ساری باتیں بیٹھا اس وقت سوچ رہا تھا اور وہ مذھبی فاشزم کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ یہ بس ایک بلبلہ ہے اور یہ بہت جلد پھٹ جائے گا وہ قرامطہ کی مثال لیکر آئے اور انھوں نے تاریخ کو پڑھنے کا مشورہ بھی دیا لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ مذھبی فاشزم کے اس بلبے کو تباہی پھیلانے سے روکنے کا کیا پروگرام ان کی نام نہاد سول سوسائٹی کے پاس ہے جو 80 ء کی دھائی سے پاکستان کے اندر خود کو متبادل سماجی تبدیلی کے علمبردار کے طور پر پیش کرتی آرہی ہے جس کے اکثر ڈائریکٹرز نے اور مالکان نے طبقاتی فلسفے اور مادی طبقاتی جدلیات پر مبنی سماجی تبدیلی کے علمبرداروں کا مذاق اڑانا اپنا وتیرہ بنالیا تھا اور یہ آج بھی محض لبرل نعروں اور معمولی سی فنڈنگ کی خیرات پر اس ملک کے محنت کشوں،کسانوں،طالب علموں ،خواتیں ،مظلوم قومیتیوں کو اپنے پیچھے دیکھنے کے خواہاں ہیں اور جب کبھی ان کے اشراف پنے اور ان کی دولت اور سٹیٹس کی جانب افتادگان خاک کی نظر جاتی ہے تو انھیں بہت شدت سے احساس ہوتا ہے کہ یہ ان کے مسیحا نہیں ہوسکتے جعلی سول سوسائٹی اور کاغذی لبرل اشرافیہ اس خوش فہمی سے باہر آجائے کہ وہ اپنے فنڈنگ پروجیکٹوں کے تحت اس ملک کے غریب ،محنت کش طبقات کو مذھبی فاشسٹوں کے آگے چارے کے طور پر ڈالے رکھیں گے اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشوں اور ان کی میتوں کی تصاویر اور ان پر ڈاکومنٹریز بناکر مغربی فنڈنگ ایجنسیوں سے اینٹی بلاسفیمی ایکٹ مومنٹ کے نام پر ،عورتوں پر تشدد کے خلاف تحریک کے نام پر مذھبی فاشزم کے خلاف سیکولر بیانیل پھیلانے کے نام پر لاکھوں ،کروڑوں کے پروجیکٹ لاکر عیش کرتے رہیں گے لوگ بے حس نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ مذھبی فاشسٹ ہوئے ہیں بلکہ انھیں میر کارواں کے رہزن ہونے کا شک ہی نہیں یقین ہوگیا ہے اور ان کی غیر حاضری بے حسی نہیں بلکہ جعلی سول سوسائٹی اور کاغذی لبرلز سے بے زاری کی علامت ہے وہ بدعنوان ،خود غرض اور موقعہ پرست اشرافیہ کو مسترد کرتے ہیں تو مطلب ایک روادار ،روشن خیال اور معتدل معاشرے کے قیام کے آدرش کو رد کرنا نہیں ہوتا ہے پچھلی مرتبہ جب میں جعلی اور کاغذی سول سوسائٹی کے بارے میں پورا سچ لکھا تو عائشہ صدیقہ نے لکھا کہ اب ان سول سوسائٹی کے مفتیوں کے فتوؤں سے کیسے بچو گے ؟ یقینی بات ہے کہ پورا سچ تو کسی بھی جانب سے ہضم ہونے والا ہوتا نہیں ہے اسی لیے یک گونہ تنہائی اور بے گانگی کا شکار ہونا لازم ہوتا ہے لیکن یہ بے گانگی اور تنہائی مجھے منافقت کے ساتھ ہمہ وقت جلوت میں رہنے سے کہیں ہزار درجہ عزیز ہے مجھے خوشی ہے کہ نوجوان اور غیر اشرافی سیکولر لبرل بائیں بازو کے لوگ میری بات کو سنتے بھی ہیں اور موقعہ پرستی کے اس کلچر کو رد کرنے میں بھی ان کو کوئی عار نہیں ہے اور یہی سب سے بڑا انعام ہے جو مجھے مل رہا ہے

1 comment: